اسلام نے معاشرے کے ہر طبقے کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جو اصول مقرر کیے ہیں ان میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے اصول بھی ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ رب العزت نے بچوں کے متعلق کچھ نہ کچھ بیان کیا ہے اور بار بار طفولیت، ذُرّیت اور اولاد کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے، نیز لوگوں کی تعلیم و تفہیم کے لیے بعض انبیا کرامؑ کی طفولیت کا بھی ذکر کیا ہے، جیسے حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت یحییٰؑ، حضرت عیسیٰؑ، حضرت محمدؐ کے زمانۂ طفولیت کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ بچوں کو زندگی کی رونق کہا ہے:
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ۰ۚ (الکہف۱۸: ۴۶)یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔
دوسری جگہ اللہ رب العالمین نے اولاد کو مرغوب چیزوں میں شمار کیا ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۴) لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت خوش نما معلوم ہوتی ہے،جیسے عورتیں اور بیٹے ہیں۔
قرآن کریم میں کئی مقامات پر اطفال و اولاد کو نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے:
وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ (بنی اسرائیل۱۷:۶) ہم نے تمھاری مال و اولاد سے مدد کی۔
حضور اکرمؐ کے اوقات میں بچوں کا بھی حصہ تھا۔ چنانچہ آپؐ بچوں کے ساتھ مزاح فرماتے، ان کے ساتھ تفریح کرتے اور صحابہ کرامؓ کو بھی بچوں کے ساتھ مہربانی و شفقت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم فرماتے۔
مذکورہ ارشادات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بچوں سے محبت کرنا بجا ہے، لیکن ان کی صحیح تربیت و پرورش اہم ذمہ داری ہے۔ بصورت دیگر یہی بچے جو فخر، قوت، کثرت کا سبب ہوتے ہیں، باعث ذلت و عذاب بھی بن سکتے ہیں۔اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ۰ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۱۵ (التغابن ۶۴:۱۵) تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔
بچے کو بڑوں کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ نشوونماکے یہ مراحل اپنی الگ خصوصیات رکھتے ہیں۔ اگر بچوں کی تعلیم و تربیت میں مطلوبہ تقاضوں اور ضرورتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے تو کوشش نتیجہ خیز ہوتی ہے، ورنہ نتائج تسلی بخش نہیں ہوتے۔ ماہرین علم النفس نے تعلیم و تربیت کے لحاظ سے انسانی اَدوار کو کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے، جس میں بچے ذہنی و جسمانی اعتبار سے بلوغ تک پہنچتے ہیں:
۱- زمانۂ حمل(قرارِ حمل سے وضع حمل تک کا زمانہ)۲-ابتدائی بچپن (مدت رضاعت) ۳-بچپن(نرسری سے چھے سال تک) ۴-لڑکپن(۶ سال سے ۱۰ سال تک) ۵-نوجوانی (۱۰سال سے ۱۸ سال تک)
یوں تو انسانی عمر کا ہر دور انتہائی نازک اور توجہ طلب ہے، لیکن لڑکپن اور نوجوانی بچوں کی ابتدائی تعلیم کے اَدوار ہیں۔ لڑکپن کے اس دور میں بچے کی جسمانی، نفسیاتی اور عقلی بالیدگی پچھلے دور کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔ وہ ہر کام میں اپنے بڑوں کا دست نگر نہیں رہتا۔ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اس میں پیدا ہوجاتی ہے۔ عمر کا یہ دور گھر سے نکل کر اسکول جانے اور دوسرے بچوں سے ملنے جلنے اور دوستی کرنے کا دور ہوتا ہے۔ اس دور میں بچوں کے اندر اُچھل کود، کھیل کود، بھاگ دوڑ اور چیزوں کی جستجو کا شوق بڑھ جاتا ہے ۔ان کے اندر کاموں کے کرنے اور ایک دوسرے سے وفاداری کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ قوت فیصلہ بلاکی ہوتی ہے۔ اپنے بڑوں خاص کرماں باپ اور اساتذہ کا دل سے احترام کرتے ہیں اور ان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے، جس کے لیے وہ مقدور بھر کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کے کسی کام میں استقرار نہیں ہوتا۔ یہ سب عمدہ صفات ہیں۔ ان کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے۔ کامیابی پر شاباش دی جائے اور ناکامی پر ہمت دلائی جائے، نقد و جراح سے گریز کیا جائے ، اور صحت مند تفریح کا اہتمام کیا جائے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم جہاں بچوں کے حقوق کے حوالے سے فکر مند ہے، وہیں قرآن میں بچوں کے تحفظ کے اہتمام و انتظام کے اشارے بھی ملتے ہیں۔ پیدایش سے پہلے ہی بچے کا تحفظ شروع ہوجاتا ہے اور بعد پیدایش اس میں تقویت اور استحکام آجاتا ہے۔ انسانی زندگی میں بچوں کی اہمیت کے پیش نظر اسلام کا دامن بچوں کے لیے وسائل تربیت سے بھرا پڑا ہے۔ اسلام بچوں کی روحانی تربیت مواعظہ حسنہ سے کرتا ہے۔ عقلی و ذہنی صلاحیتوں کی اصلاح اعلیٰ کردار کے ذریعے کرتا ہے اور جسمانی تربیت اچھی عادات اور کھیل کود و ورزش کے ذریعے کرتا ہے۔
’تربیت‘ کا لفظ اپنے وسیع تر معنی میں انسان خاص کر چھوٹے بچوں کی جسمانی و عقلی، روحانی اور فکری قوتوں کا اُجاگر کرنا ہے، اور پرورش و پرداخت کے ذریعے ان کی مخفی صلاحیتوں کو کمال بخشنا ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’بچہ والدین کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ اس کا پاک دل ایک صاف شفاف عمدہ جوہر ہے، جو ہر طرح کے نقش و نگار سے خالی ہے۔ اس پر جس طرح نقش جمانا چاہیں جم جائے گا۔ اگر اچھی عادتوں کا خوگر بنایا گیا اور تعلیم و تربیت کا عمدہ بندوبست کیا گیا تو وہ دنیا و آخرت میں سعادت مند ہوگا، اور اس کے والدین اور مربی اس کے اجر و ثواب میں برابر کے شریک ہوں گے، اور اگر اس کی تعلیم و تربیت میں غفلت برتی گئی، اور بری عادتوں کا خوگر بنایا گیا تو وہ ہلاک و برباد ہوگا، اور اس کی ذمہ دار اس کے مربی پر عائد ہوگی‘‘۔(الغزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص ۷۲)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا (التحریم۶۶:۶) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔
گویا تربیت کے ذریعے بنی نوع انسان کو عقیدہ و اخلاق، علم و ہنر اور تہذیب و تمدن کا پابند کیا جاتا ہے۔ ان کی جسمانی قوتوں کو مناسب غذا فراہم اور ان کی روحانیت کو فروغ دیا جاتا ہے، تاکہ اچھے افراد پیدا ہوں، صالح جماعت کی تشکیل ہو اور دنیا کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلے۔
قرآن کریم کی آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علم نافع، اعمال صالحہ اور خوفِ خدا کے ساتھ جسمانی قوت سربراہی و سرداری کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اور اس کی افادیت اور اس کے مستحسن ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ’طالوت‘ کو اس کی طاقت و قوت کی وجہ سے بادشاد منتخب کیا اور فرمایا:
ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمھارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بولے: ’’ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حق دار ہوگیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مال دار آدمی نہیں ہے‘‘۔ نبی نے جواب دیا: ’’اللہ نے تمھارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کے اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطافرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے۔(البقرہ۲: ۲۴۷)
چنانچہ دیگر اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ سربراہ کے لیے جسمانی طاقت و قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے دوسری فطری قوتوں کی طرح جسمانی قوت کو پروان چڑھانے کی ترغیب دی ہے، تاکہ امت کا ہر فرد اخلاقی، علمی اور جسمانی، ہر اعتبار سے مکمل ہو۔ کسی بھی گوشے سے نقص کا احساس نہ ہو۔ اس کی طاقت و قوت نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہو۔
اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ سے بھی بدنی سرگرمیوں کے ثبوت ملتے ہیں۔ مختلف کھیلوں اور ورزشوں کا ذکر ملتا ہے۔ ماں باپ کے لیے بچوں کی تربیت سے متعلق کھیلوں اور بدنی سرگرمیوں میں مشغول کرنے کی ترغیب و تنبیہ ملتی ہے کہ حرکت بچوں کے لیے حصولِ قوت کا باعث ہے۔ احادیث میں ہے کہ بھاگ دوڑ میں مقابلہ آرائی خواہ پیدل ہو یا سواری پر اللہ کے رسولؐ کے زمانے میں ہو اکرتی تھی۔ خود اللہ کے رسولؐ اس طرح کے مقابلے میں شریک ہوتے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: سَابَقَ بَیْنَ الْخَیْلِ الَّتِیْ قَدْ اُضْمِرَتْ، فَاَرْسَلَھَا مِنَ الْحَفْیَاءِ ، وَکَانَ أَمَدُھَا ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ ، وَسَابَقَ بَیْنَ الْخَیْلِ الَّتِیْ لَمْ تُضَمَّرْ ، فَأَرْسَلَھَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ ، وَکَانَ أَمَدُھَا مَسْجِدَ بَنِیْ زُرَیْقِ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ، ج۱، ص ۵۹) بے شک اللہ کے رسولؐ نے تیار کیے ہوئے گھوڑوں کے درمیان حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مقابلہ کیا اور بغیر تیار کیے ہوئے گھوڑوں کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کیا۔
مربی اعظمؐ مفید ورزشوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور بذات خود بچوں کی نگرانی فرماتے۔ حدیث میں ہے کہ:’’آنحضرتؐ حضرت عبداللہؓ، حضرت عبید اللہؓ اور بنی عباس کے اور بچوں کو کھڑے کرکے فرماتے، دوڑ کر جو پہلے میرے پاس پہنچے گا اسے اتنا انعام ملے گا۔ چنانچہ بچے آپؐ کی طرف دوڑتے اور آپؐ کے پاس پہنچ کر کوئی آپؐ کے سینے مبارک اور کوئی پیٹ مبارک پر گرتا۔ آپؐ ان کو اٹھاتے اور چومتے، گلے لگاتے‘‘۔(مسنداحمد: ۲۱۴)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے بچوں کے لیے بعض ورزشوں کو برقرار رکھا کیونکہ ورزش بچے کی عقلی، اخلاقی، بدنی، حتیٰ کہ معاشرتی قوت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔
تیر اندازی فن سپہ گری کا اہم جز ہے جس سے فوجی تربیت اور ذہنی ورزش بیک وقت ہوتی ہے۔ جسم میں تیزی اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ زمانۂ قدیم میں دشمنوں کے لیے اس کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ دوسری اہم بدنی ورزش پیرا کی ہے جس سے انسان کا جسم صاف پانی سے دھل کر چاق و چوبند ہوجاتا ہے۔نبی کریمؐ نے والدین کو نصیحت کی ہے کہ: عَلِّمُوا اَوْلاَدَكُمْ السِّبَاحَةَ والرِّمَايَةَ (بیہقی ، کتاب السبق و الرمی، ج ۱۰، ص ۱۵) ’’اپنی اولاد کو تیرا کی سکھائو اور تیراندازی سکھلائو‘‘۔
ماہرین کی نظر میں
جدید تحقیقات بھی یہی بتاتی ہیں کہ ورزش اور کھیل سے بچے کی ذہنی قوت میں ترقی ہوتی ہے۔تربیت کے ماہرین کی راے ہے:’’کھیل ایک زبردست خواہش اور فطری داعیہ ہے، جس کی بہر حال جائز حدود میں تکمیل ہونی چاہیے۔ جو لوگ بچوں کو کھیل سے محروم رکھتے ہیں، وہ دراصل فطرت سے جنگ اور بچوں پر ظلم کرتے ہیں۔ قدرت نے یہ زبردست داعیہ بلاوجہ نہیں رکھا ہے۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی، معاشرتی و اخلاقی نشونما کے لیے کھیل نہایت ضروری ہے۔
ماہرین نفسیات نے اپنے مشاہدے سے کھیل کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں، جن کا تذکرہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے مفید و معاون ثابت ہوسکتا ہے اور وہ اس طرح ہیں:
۱- کھیل کے ذریعے بچے اپنی فاضل توانائی خارج کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو فالتو قوت بچوں کے جسم کو متاثر کرسکتی ہے۔
۲- کھیلوں کے ذریعے بچے اپنے آپ کو مستقبل کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔ بچیاں گڑیاں کھیل کر امور خانہ داری سے واقفیت حاصل کرتی ہیں اور بچے مختلف کھیلوں کے ذریعے فرائض کی انجام دہی کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔
۳- وہ اپنی الجھنوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے کھیل کود سے اپنی طبیعت کا بار ہلکا کرتے ہیں۔
۴- اس طرح وہ اپنے جذبات، رشک، رقابت اور مقابلے و مسابقت کی تسکین کرتے ہیں۔
۵- کھیل، ان کی تخلیقی سرگرمیوں کے مظہر ہیں۔
۶- بالیدگی اور نشوونما کے مختلف مراحل پر جسم اور ذہن مختلف قسم کی جسمانی مشقت کا تقاضا کرتے ہیں اور کھیل ان تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
علما و مفکرین اسلام نے بھی بچوں کے لیے کھیل کود کو اہم بتایا ہے۔
امام غزالیؒ بچوں کی فکری و نفسیاتی نشوونما پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں:’’دن میں کسی وقت بچے کو ورزش کرنے اور چلنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ اس پر سُستی کا غلبہ نہ ہو‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’سبق پڑھنے کے بعد بچے کے لیے فکری راحت اور قلبی تفریح کا مناسب بندوبست کیا جائے تاکہ بچہ شوق سے پڑھے، اور پڑھائی سے متنفرنہ ہوجائے۔ سبق سے فارغ ہونے کے بعد اسے ایسے کھیل کھیلنے کی اجازت دی جائے کہ جس سے وہ دماغی تھکاوٹ دُور کرسکے، دل و دماغ کو راحت پہنچا سکے، مگر کھیل ایسا نہ ہو جو اس کو مزیر تھکاوٹ میں مبتلا کردے۔ اگر اس قدر کھیل کی اجازت نہ ہو اور تعلیم میں ہمیشہ سخت گیری کی جائے تو بچے کا دل اُکتا جاتا ہے اور طبیعت کی تیزی سست پڑنے لگتی ہے، بلکہ زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ کوئی حیلہ ایسا ڈھونڈنے لگتا ہے کہ جس سے بالکل کچھ نہ سیکھے ‘‘۔ (الغزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص ۱۲۹)
مشہور مقولہ ہے:’’جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوں گے تو ان کے اسپتال ویران ہوں گے، اور جس ملک کے کھیل کے میدان ویران ہوں گے، اس ملک کے اسپتال آباد ہوں گے‘‘۔
اس لیے انسانی زندگی میں کھیل کی بہت اہمیت و افادیت ہے۔
۱- جسمانی فائدے: آج کے اضطرابی دور میں بچوں کی تعلیم، کسب معاش اور دیگر اہم مسائل ہمہ وقت انسان کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ سارے دن کی محنت و مشقت کے بعد انسان تھک جاتا ہے اور طبیعت میں چڑ چڑاپن پیدا ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں ورزشی تفریح انسان کی کسالت کو دور کرکے پھر تازہ دم کردیتی ہے۔ دراصل انسان ورزش میں فطری طورپر دل چسپی رکھتا ہے، جیسے دوڑنا، کودنا، چھلانگ لگانا، کرکٹ، فٹ بال وغیرہ۔ اس قسم کے کھیلوں سے ورزش خود بخود ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں ہاتھ، پیر، نظر کا استعمال، آوازوں کا نکلنا، یہ سب ورزش کے ذریعے ہیں۔
اسی طرح کھیلنے سے دل کی حرکت تیز ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے خون تیزی سے جسم کے ہر حصے میں گردش کرتا ہے، بند مسامات کھل جاتے ہیں، پھیپھڑوں کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور صاف اور تازہ ہوا جسم میں داخل ہوکر تازہ خون پیدا کرتی ہے۔ اعضا طاقت ور اور پٹھے مضبوط ہوجاتے ہیں، بچہ چُست اور پھر تیلارہتا ہے۔ کوئی بیماری جلد اثر انداز نہیں ہوتی۔
۲-اخلاقی فائدے: بچوں میں اخلاق و اتحاد پیدا ہوتا ہے اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر کھیلنے سے، اجتماعی زندگی گزارنے کی قدرت پیدا ہوتی ہے۔ نظم و ضبط کی پابندی اور منظم زندگی بسر کرنے کے جذبات کو ترغیب ملتی ہے۔ متفقہ کوششوں سے منزل مقصود پر پہنچنے کی بہتر تربیت اور تعلیم کھیلوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
۳-نفسیاتی فائدے:کھیل بچوں کو اجتماعیت کا درس دیتا ہے۔ ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنے سے دوسروں کی راے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ دوسروں کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دینے کا مادہ پیدا ہوتا ہے، انانیت و خود پسندی سے نجات پانے میں معاون ہوتا ہے، اور دوستانہ ماحول میں کھیلنے سے کینہ و کدورت بھی ختم ہوتی ہے اور تعلقات خوش گوار ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ کھیلوں سے جہاں جسمانی توانائی پیدا ہوتی اور ذہنی نشوونما ہوتی ہے، وہاں فرماں برداری، فرض شناسی، تدبیر، حسن انتظام، صبر، قناعت، تحمل مزاجی اور مدِمخالف کو شکست دینے کے جذبات اور اخلاقی محاسن پیدا ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اپنے مخالف کی طاقت سے مرعوب نہ ہونا، ناکامی اور مایوسی کے باوجود ہمت نہ ہارنا بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنا، مشکلات میں ثابت قدم رہنا، کسی حالت میں ہراساں نہ ہونا بلکہ ذہنی صلاحیتوں کو برقرار رکھنا، یہ سب اوصاف محض کھیلوں سے پیدا ہوتے ہیں۔
لہٰذا بچے کی زندگی اور صحت کے لیے ورزش اور کھیل کی اہمیت واضح ہے۔ والدین، اساتذہ اور ہرسطح کی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ بچے کے لیے ایسی فضا ہموار کریں، تاکہ وہ ورزش اور کھیل کے ذریعے اپنی قدرتی، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو اُجاگر کرسکے۔ تاہم، خیال رہے کہ نامناسب، نقصان دہ اور غیر شرعی کھیل نہ کھیلیں، یعنی جس میں جوا شامل ہو، حیا اور و قار برقرار نہ رہتا ہو، اور وہ کھیل جو دوسروں کے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوں۔