اپریل ۲۰۱۹

فہرست مضامین

جموں و کشمیر جماعت اسلامی پر پابندی کیوں؟

افتخار گیلانی | اپریل ۲۰۱۹ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۷۰ءکے عشرے میں میرے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی نے ہمارے آبائی قصبہ سوپور میں ایک تختی اور بستہ میرے کاندھوں پر لاد کر، ہاتھ پکڑتے ہوئے مرکزی درس گاہ، محلہ مسلم پیر میں پہلی جماعت میں داخل کرا دیا۔ یہ درس گاہ، براہِ راست جماعت اسلامی کے شعبۂ تعلیم کے تحت تھی۔ مدت گزرنے کے باعث اکثر یادیں دھندلی ہوچکی ہیں، مگر جن مشفق اساتذہ نے ہاتھ تھام کر تعلیم کا آغاز کرایا، ان محسنوں کی یادیں ابھی تک ذہن میں نقش ہیں۔
 لیکن پھر ہوا یہ کہ بس د و ہی سال بعد اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہونے والے فروری ۱۹۷۵ء میں معاہدے کے نتیجے میں شیخ عبداللہ صاحب وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔اپوزیشن کے دبائو اور اعلیٰ عدالت کے ایک فیصلے سے پریشان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون ۱۹۷۵ءکو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اقتدار کی دیوی کی آغوش میں تازہ تازہ آئے شیخ صاحب نے بھی دیکھا دیکھی کشمیر میں ایمرجنسی نافذ کی اور جماعت اسلامی اور اس سے ہمدردی رکھنے والے تعلیمی، معالجی اور رفاہی اداروں کو بھی مقفل کردیا۔ اس ایک فیصلے سے جموں و کشمیر میں، ہم ۲۰ ہزار طلبہ و طالبات پر اسکولوں کے دروازے بند ہوگئے، اور انھیں پریشانیوں میں دھکے کھاتے ہوئے سرکاری اسکولوں میں پناہ لینا پڑی۔ جماعت اسلامی تو ان دنوں جموں و کشمیر کی انتخابی سیاست میں پیش پیش تھی اور اسمبلی میں اس کی نمایندگی بھی تھی۔ ’اندراعبداللہ ایکارڈ‘ کی مخالف جماعت اسلامی نے گاندر بل حلقے سے شیخ عبداللہ کے مقابل محمداشرف صحرائی کو بطور اُمیدوار میدان میں اتارا تھا۔ یہ ایک طرح سے ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ تھا ، مگر نیشنل کانفرنس معمولی سا اختلاف راے برداشت کرنے کی بھی متحمل نہیں تھی۔ صحرائی صاحب کے الیکشن ایجنٹ ڈوڈہ کے سعداللہ تانترے کو سید پورہ آلسٹینگ کے مقام پر کھیتوں میں نہ صرف زدوکوب کیا گیا، بلکہ ان کی ایک آنکھ بھی نکال دی گئی۔ طرفہ تماشہ دیکھیے کہ چند ہفتے پیش تر یہاں پر جماعت اسلامی پہ جو پابندی عائد کی گئی ہے، اس میں ایک ’جرم‘ یہ بھی ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر مر نہ جائے کوئی!
۱۴فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوجی دستوں کے قافلے پر ایک خود کش حملے کے جوا ب میں پاکستان پر ہوائی حملوں کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچنے کے مصداق بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی حکمت عملی کا رخ دوبارہ کشمیر کی طرف موڑ دیاہے۔ حُریت کے لیڈورں کو نظربند رکھنے اور فوجی آپریشن وغیرہ کی ناکامی کے بعداب بتایا جا رہا تھا کہ حریت کانفرنس پر پابندی عائد کرکے لیڈروں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔ 
سید علی گیلانی پچھلے نو سالوں سے مسلسل گھر پہ نظربند ہیں۔ پچھلے دنوں سرینگر سے دہلی واپس آتے ہوئے ایرپورٹ روڈ پر جب ان کی رہایش گاہ پر پہنچا، تو دیکھا کہ گلی میں تین بکتر بند گاڑیاں ان کے گیٹ کو بلاک کیے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں د و درجن کے قریب سیکورٹی کے اہل کار باہر کھڑے ، اندر جانے کے لیے نام وغیرہ کا اندراج کر رہے تھے۔اندر جانے کی اجازت دینا ان کے موڈپر منحصر ہے۔ گیلانی صاحب خاصے کمزور نظر آرہے تھے ۔ اگرچہ اخبارات و غیرہ کا مطالعہ کر رہے تھے، مگر بتایا کہ کمزوری اور نقاہت کے باعث اب کچھ تحریر نہیں کر پاتا۔ پہلی بار ڈائری سے ساتھ چھوٹ گیا ہے۔ ان کے دفتر کے افراد اور رفقا زیر حراست ہیں۔ گھر کا ملازم چند ماہ قبل گائوں گیا تھا، واپسی پر اس کو اندر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی۔ مجھے بٹھا کر خود ہی اندر اطلاع کرنے چلے گئے۔
اسی سلسلے میں جماعت اسلامی جموں وکشمیرپر پانچ سال تک پابندی عائد کرکے اس کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈووکیٹ زاہد علی سمیت ۴۰۰ کے قریب اراکین کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اور یہ سطور لکھنے تک روزانہ کہیں نہ کہیں سے، جماعت کے کسی کارکن کی گرفتاری کی خبر موصول ہوتی ہے۔جماعت کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔  کئی جگہوں سے اطلاعات ہیں کہ ارکان کے ذاتی رہایشی گھر بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔ شدیدسردی اور برف باری کے موسم اور رات کے اندھیرے میں گھر کی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو بے دخل کرکے گھر سیل کیے گئے ہیں۔ ان بے قصور افراد سے آشیانہ چھین کر مبتلاے عذاب کرنا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے، جب کہ گھر کے مرد یا تو پہلے سے حراست میں ہیں، یا پھر روپوش۔ 
۱۹۷۷ء میں جب جماعت اسلامی پر پابندی اٹھائی گئی تو تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کے لیے اس نے ’فلاح عام ٹرسٹ‘ قائم کیا۔ اس وقت اس ٹرسٹ کے تحت براہ راست ۳۵۰؍ اسکولوں میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ پھر بالواسطہ طور پر تقریباً اتنے ہی اسکول ’فلاح عام ٹرسٹ‘ کی تعلیمی کاوشوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ پابندی کے فوراً بعد جب دنیا کے دور دراز خطوں سے، ان اداروں سے فارغ التحصل طلبہ، یعنی ایلومنائی کے پیغامات آنا شروع ہوئے، تو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان اداروں سے اٹھا ہوا ابر تو سارے جہاں پر برس رہا ہے۔ تقریباً ۳۰۰؍ایلومنائی نے ایک مشترکہ یادداشت میں حکومت کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ادارے غریب اور دُور دراز کے دیہات میں تعلیمی معیار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس لسٹ میں ایسے محقق اور پروفیسر شامل ہیں، جو فی الوقت نام ور اداروں، یعنی ہارورڈ یونی ورسٹی، امپیریل کالج، سوئزرلینڈ ، ویسٹ منسٹر، امریکا کے طبی تحقیق کے اعلیٰ اداروں، بھارت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔ 
ان ماہرین، اسکالرز اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی میں ان اسکولوں اور وہاں کے اساتذہ کی محنت، لگن اور خلوص بھی شامل ہے۔اس یادداشت پر دستخط کرنے والوں میں ایک کشمیری پنڈت خاتون نتاشا کول بھی ہیں ، جو اس وقت یونی ورسٹی آف ویسٹ منسٹر، لندن[تاسیس: ۱۸۳۸ء] میں پڑھاتی ہیں۔ ایک طرف حکومت تو خود معیاری تعلیم دینے سے عاری ہے، دوسری طرف جو ادارے اس طرف عوامی خدمت، محنت اور لگن سے دن رات مگن ہیں، ان کا گلہ گھونٹے سے نہیں کتراتی ہے۔جموں و کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر برا جمان، خو د گورنر کے دفتر میں افسران کی ایک بڑی تعداد انھی اسکولوں سے فارغ التحصیل ہے۔ اس یادداشت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں بھی اس وقت کے گورنر جگ موہن نے ان اداروں پر پابندی عائد کی تھی، مگر بعد میں سپریم کورٹ نے اس غیرمنصفانہ پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ ان ایلومنائی کا کہنا ہے کہ: ’’آخر سیاسی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کا نزلہ ان تعلیمی اداروں پر کیوں اتارا جاتا ہے؟‘‘ ۱۹۹۷ء سے جماعت عسکری جدوجہد سے لاتعلق ہے۔ ایسے حالات میں، جب کہ جماعت اسلامی کشمیر، عسکریت میں براہِ راست یا بالواسطہ شریک بھی نہیں ہے اور تعلیمی ، تبلیغی او ررفاہی کاموں میں مشغول ہے، اس پر پابندی لگاناسمجھ سے باہر ہے۔ ایسی کارروائی ا ور پکڑ دھکڑ سے کشمیر میں حالات مزید خراب ہونے کااحتمال ہے۔ بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی اس پابندی کو غلط اقدام قراردے رہی ہے۔ 
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے: ’’حکومت ِدہلی کو آ خر جماعت اسلامی کشمیر سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ ہندو انتہا پسند  گروپوں کو جھوٹ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کی پوری آزادی ہے، جب کہ ایک ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے، جس نے کشمیریوں کی تعلیمی، سماجی اور فلاحی محاذوں پر لوگوں کی اَن تھک مدد کی ہے‘‘۔ کوئی سیاسی نظریہ جب میدان عمل میں پوری طرح ناکام ہوجاتا ہے، تو اس کے حاملین زور زبردستی پر اُتر آتے ہیں۔ بی جے پی جب فکری سطح پر اشترا کی دانش وروں کا مقابلہ نہیں کرسکی تو اس نے ’شہری نکسل واد‘ کی اصطلاح گھڑکر اپنے خلاف اْٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی خاطر حقوق انسانی کا کام کرنے والوں کو’ باغی اور دہشت گردوں کے حامی ‘قرار دے دیا۔ ملک بھر میں ’شہری نکسل واد‘ کے نام پر جو کارروائی کی گئی،اب اسی کا اعادہ جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر   کیا گیا ہے۔ 
نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ کے ایک سینیر اہل کار سے جب میں نے جماعت پر پابندی کے پیچھے حقائق جاننے کی کوشش کی، تو انھوں نے فرمایا:’’جماعت اسلامی کشمیر سوسائٹی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاکر ان کو ’سلفیت‘ کی طرف مائل کرکے مقامی خانقاہوں اور حنفیت سے متنفر کرواتی ہے‘‘۔ جب میں نے کہا: ’’اگر واقعی یہ بنیاد ہے تو خود اہل حدیث اور سلفی گروپوں پر پابندی کیوں نہیں  لگائی گئی ؟ اگر سلفی واقعی اتنے ہی خطرناک ہیں ،تو جہاں تک مجھے یاد ہے کشمیر میں ۱۹۹۰ء میں صرف دو اہل حدیث مساجد تھیں ، جو اب حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۴۰۰ سے تجاوز کر گئی ہیں۔  کون اس کی پشت پر ہے؟ اکتوبر۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کشمیر تشریف لائے تھے اور شہر کے وسط میں پولوگراؤنڈ میں، اننت ناگ کے اسٹیڈیم  میں ان کی تقاریر ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ خود گورنر ہائوس میں بھی ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی‘‘۔میں نے ان سے کہا کہ: ’’شیخ نورالدین ولیؒ [۱۳۷۷ء-۱۴۴۰ء] المعروف ’نندہ رشی‘ { FR 648 }کے کشمیری زبان میں کلام کا اردو ترجمہ کرنے کا سہرا جماعت اسلامی کے رہنما قاری سیف الدین کے سر ہے۔ اسی طرح میرسید علی ہمدانی ؒ [۱۳۱۴ء-۱۳۸۴ء]کا کشمیری مسلمانوں کو دیے گئے وظیفہ ’اوراد الفتیحہ‘ کا ترجمہ اور تفسیر بھی جماعت اسلامی کی مرہونِ منت ہے‘‘۔یہ سن کر مذکورہ افسر بغلیں جھانکنے لگا اور کہا کہ: ’’کوئی پرانی فائل جماعت کے متعلق بنی ہوگی ، جو ایسے مواقع پر نکالی جاتی ہوگی‘‘۔ ایک عشرہ قبل حکومت کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ: ’’کشمیر میں حریت اور تحریک آزادی کے خلاف فکری رہنمائی کے لیے سلفی حضرات کو استعمال کیا جائے‘‘۔ اب کچھ عرصے سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ: ’’صوفی ازم کا دامن تھا م کر اس تحریک کو دبایا جائے‘‘۔ تین سال قبل دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی صدارت میں منعقدہ ایک صوفی کانفرنس میں ایک صاحب کو تو یہ بھی کہتے سنا ، کہ: ’’اب ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان اور مشائخ، مشترکہ طور پر وہابیوں اور دیوبندیوں کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑیں گے‘‘۔
۱۴فروری کو پلوامہ واقعے میں مبینہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار کا تعلق ایک بریلوی یا صوفی طرزِفکر رکھنے والے گھرانے سے تھا۔ پلوامہ کے گونڈی باغ گاؤں میں اس کے والد غلام حسن ڈار صاحب کے بقول: ’’عادل ڈار، مقامی درگاہ میں نعت خوانی اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ قرآن کے چند پار ے حفظ کرنے اور نعت خوانی کی مشق کے لیے اس نے چند ماہ ایک بریلوی دارالعلوم میں گزارے تھے اور حنفی اعتقاد سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے سے چُوکتا نہیں تھا‘‘۔ 
یہ امرواقعہ، حکومتی پالیسی سازی کرنے والوں کے لیے ایک تازیانہ ہے ، جو کشمیری تحریک کو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی سے جوڑ تے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ مغربی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی پرورش کی۔ عراق میں تو داعش کو ہتھیار اور پھر ان کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو فوجی تربیت بھی دی۔پھر یہ نعرے بلند کیے، کہ: ’’مسلمانوں میں شدت پسندی آرہی ہے‘‘ جسے لگام دینے کی ضرورت ہےاور اس کے لیے تصوف کی تشہیر کی جانے لگی۔ یہ لوگ جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں، کہ شدت پسند اور اعتدال پسند ہرفرقہ اور مسلک میں موجود ہوتے ہیں۔ 
بھارت میں توہمیشہ سے ہی حکومتیں مسلمانوں کو مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی تقلید کی تاکید کرتی آئی ہیں، کیوںکہ ان دونوں رہنمائوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور نظریۂ پاکستان کے خلاف انڈین نیشنل کانگریس کو ایک متبادل نظریاتی اساس فراہم کی تھی، مگر کیا بھارت میں ان کے ارادت مندوں کو سکون مل سکا؟
یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے، نہ کوئی فرقہ یامسلک ہی اس کی اجازت دیتا ہے۔ مظلوم علاقوں کے عوام اگر جبری قبضوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو اس کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی طاقتوں نے تصوف کی حوصلہ افزائی صرف اس وجہ سے کی، کہ اپنی سلگائی ہوئی آگ کے شعلے اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ ان کے یہاں ’تصوف کے نظریے‘ کا یہ پیغام ہونا چاہیے کہ مسلمان ہر حالت میں مہر بہ لب رہنے کی عادت بناڈالے۔ حالات سازگار ہوں تو شکر کے ساتھ خاموش رہے، اور اگر ظلم و ستم اور عزت و آبرو کا خون ہوتا ہوا دیکھے، تب بھی خاموشی اور بے حسی کو شعار بناڈالے۔ بس ایسی صوفیانہ پروڈکشن کی مغرب کو ضرورت ہے، نہ کہ سید سالار مسعود غازی کی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔تصوف کا مقصد انسانیت سے پیار ، محبت ، شفقت سے پیش آنا اور کردار سازی کرنا ہے، تاکہ نہ صرف گفتار، بلکہ اپنے کردار سے بھی ایک مسلمان دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ کرے، جو صوفی بزرگوں کا خاصا رہا ہے، چاہے، کشمیر میں میر سیّد علی ہمدانی، نورالدین ولی ہوں یا بھارت میں خواجہ معین الدین چشتی یا نظام الدین اولیا ہوں!