ایک بزرگ بنانؒ کہتے ہیں: میں علامہ ابن عربیؒ کے یہاں گیا، وہ اپنے گھر پہ چاروں طرف کتابوں میں گھرے رہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا: ’’ان تمام کتابوں کا خلاصہ مجھے دو مفید جملوں میں بتادیجیے‘‘۔
انھوں نے کہا: ’’تمھاری ساری کی ساری فکرمندی اس بارے میں رہے جس سے اللہ وحدہٗ لاشریک راضی ہو، اگر دل پر کوئی اور چیز آپڑے تو اسی وقت توبہ کرلو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس سے اٹھتے تو ساتھیوں کے ساتھ یہ دعا عموماً پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا تَحُولُ بِہِ بَینَنَا وَبَینَ مَعَاصِیکَ، وَمِنْ طَاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنَا بِہِ جَنّٰتِکَ وَمِنْ الْیَقِینِ مَا تُہَوِّنُ بِہِ عَلَیْنَا مُصِیْبَاتِ الدُّنْیَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْیَیْتَنَا وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَل ثَأرَنَا عَلٰی مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی مَن عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِیْبَتَنَا فِی دِیْنِنَا وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ہَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَن لَا یَرْحَمُنَا [رواہ الترمذی، حدیث ۳۵۰۲]اے اللہ ہمیں اپنے ڈر کا وہ حصہ دے جو ہمارے اوپر تیری نافرمانیوں کے بیچ حائل ہوجائے، اپنی اطاعت کا وہ حصہ دے جس سے تو ہمیں اپنی جنت تک پہنچا دے، یقین کا وہ حصہ دے جس سے دنیا کی مصیبتیں ہمارے لیے آسان ہوجائیں، ہماری سماعت اور بصارت اور قوت کو جب تک ہم زندہ ہیں باقی رکھ۔ ہمارے وارث ہم ہی میں سے بنا، ہمارا انتقام ان کے خلاف کر جنھوں نے ہم پر ظلم کیا۔ جو ہم سے دشمنی کرے اس کے خلاف ہماری مدد کر اور دین کے معاملے میں ہمیں مصیبت میں نہ ڈال، اور دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنادے اور نہ اسے ہمارے علم کی منزل بنا، اور نہ ہم پر انھیں مسلط کر جو ہم پر رحم کے روادار نہ ہوں۔
میں نے جب یہ دعا پڑھی تو میری روح سرشار ہوگئی۔ میں نے دہرا دہرا کر اسے یاد کرلیا۔ اب کیفیت یہ ہے کہ دعا کا ایک جملہ ہمیشہ رُکنے پر مجبور کردیتا ہے : ’’دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنا‘‘۔
پھر ایک دن میں نے اپنے دل سے فکر مندی کو آواز دی کہ خود اسی سے اس کے بارے میں اور اپنے متعلق گفتگو کروں۔ یوں فکر مندی دل سے نکل کر میرے سامنے آن کھڑی ہوئی اور گفتگو شروع ہوگئی۔
میں: فکر کی تمھارے یہاں کتنی قسمیں ہیں؟
فکرمندی: دو قسمیں ہیں: دنیا کی فکر اور آخرت کی فکر۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بتایا ہے: ’’جس کی فکر مندی آخرت کے لیے ہو، اللہ اس کے دل کو مال دار بنا دیتا ہے، اس کے کاموں کو اس کے لیے جمع کردیتا ہے، دنیا بے بسی کی حالت میں اس کے پاس آتی ہے۔ اور جس کی فکرمندی دنیا بن جائے اللہ اس کی محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کردیتا ہے، اس کے کاموں کو بکھیر دیتا ہے اور دنیا سے اس کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے‘‘۔
میں: میں اپنے آپ کو کیسے جانوں؟ اور اپنی فکرمندی کو کیسے پرکھوں، سمجھوں؟
فکرمندی:رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں جو نشانیاں بتائی گئی ہیں ان سے بھی تم جان سکتے ہو۔ اسی طرح علامہ ابن قیمؒ کی اس عبارت سے بھی رہنمائی لے سکتے ہو:
’’جب بندہ صبح و شام کرے اور اس کی فکر صرف اللہ وحدہ ہو تو :
¤ اللہ سبحانہٗ اس کی تمام ضروریات کا ذمہ لے لیتا ہے۔ ¤ اس کی ہر فکر مندی کو اٹھا لیتا ہے۔ ¤ اس کے دل کو اپنی محبت کے لیے خالی کردیتا ہے۔ ¤ اس کی زبان کو اپنی یاد کے لیے یکسوکردیتا ہے۔ ¤ اس کے اعضا وجوارح کو اپنی اطاعت کے لیے فراغت دے دیتا ہے۔
میں: اپنے روزمرہ کو ذہن میں لا رہا ہوں تو مجھے شرمندگی اور گھبراہٹ نے آن گھیرا ہے۔
فکرمندی: گھبراہٹ مسئلے کا حل نہیں، بلکہ یہ سوچو کہ جس کی فکر پر دنیا سوار ہوتی ہے، وہ اسی میں اُلجھا رہتا ہے۔ اسی کے لیے منصوبہ بناتا ہے، آخرت پر اسے ترجیح دیتا ہے ۔
میں: اس نامناسب کیفیت کو کس طرح جان سکتا ہوں؟
فکرمندی: اسے جاننے کی نشانیاں یہ ہیں:
¤ اللہ اس پر دنیا کی فکروں، الجھنوں اور غموں کو مسلط کردیتا ہے۔¤ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ۔¤ اللہ اس کا دل اپنی محبت سے ہٹا کر مخلوقات کی محبت میں گرفتار کردیتا ہے۔¤ اس کی زبان کو اپنے ذکر کے بجاے دوسروں کے ذکر میں مصروف کردیتا ہے۔¤ اس کی صلاحیتوں کو اغیار کی خدمت میں مصروف کردیتا ہے۔ پھر وہ جانوروں کی طرح مارا مارا پھرتا ہے۔ (’’جوشخص رحمٰن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے‘‘۔(الزخرف۴۳:۳۶)
میں: مجھے تو لگتا ہے کہ میرے اندر دونوں طرح کی باتیں ہیں؟
فکرمندی: تمھارا احساس درست نہیں ہے۔ اللہ انسان کے دل میں دونوں فکروں کو جمع نہیں کرتا ہے: تو دنیا کی فکر ہوگی یا پھر آخرت کی فکر۔ تم شاید کہنا چاہتے ہو کہ کبھی کبھی آخرت کی فکر کی علامت کی جگہ تم فکر دنیا کی کوئی علامت اپنے اندر پاتے ہو،یہ کوتاہی انسان میں ہوجایا کرتی ہے۔
عبدالقادر جیلانیؒ نے ایک لڑکے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اے لڑکے تیری فکرمندی کی چیزیں کھانا پینا، پہننا،شادی کرنا،گھر بنانا ،مال جمع کرنا نہ ہوں۔ یہ سب تو نفس اور طبیعت کی فکریں ہیں‘‘۔
اُس نے پوچھا: یاشیخ! پھر دل کی فکرمندی کہاں ہے؟
فرمایا : ’’تمھاری فکرمندی وہ ہے جو تمھیں پریشان رکھے، تمھاری فکر تمھارا ربّ ہو اور ربّ سے ملاقات کی فکر ہو اور ربّ سے ملاقات ایک فکرمند دل ہی کے نصیب میں ہے‘‘۔
میں (جھجکتے ہوئے): آخرت کے لیے فکرمند دل کے اوصاف کیا ہیں؟
فکرمندی: امام محاسبیؒ نے اس کا بہت عمدہ جواب اشعار میں دیا ہے۔ (ترجمہ عربی اشعار):
نادان اسے خاموش اور گونگا سمجھتا ہے، ارے دانائی نے اسے خاموش رہنے کو کہا ہے۔بے وقوف اسے محض بکنے والا سمجھتا ہے، تاہم اللہ کے لیے، خیرخواہی اسے بولنے کو کہتی ہے اور وہ لایعنی باتوں سے مطلب نہیں رکھتا ہے۔ لوگ اس سے آرام پاتے ہیں، وہ اپنے آپ میں تھکتا رہتا ہے۔ اس نے خواہش کو اللہ کی مرضی کے تابع بنادیا اور لالچ کی سرکوبی پرہیزگاری سے کردی۔
میں: اللہ یہ صفات میرے اندر پیدا فرمائے۔جس کے اندر یہ صفات ہوں وہ تو ہمیشہ اللہ کو یاد کرتا ہوگا؟
فکرمندی: ہاں، یہ درست ہے۔ دن میں پانچ نمازیں اسی لیے فرض کی گئی ہیں کہ دل دو ہی حالتوں میں رہے: نماز یا نماز کا انتظار۔ ہمیشہ اللہ کے ساتھ رہے ۔ ہمیشہ اللہ کی فکر میں ڈوبا رہے، اسی لیے تو جس کا دل مسجد میں نماز یا نماز کے انتظار میں اَٹکا رہتا ہے، اسے رحمان کے عرش کا سایہ ملے گا، اس دن جب اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
میں: فکر آخرت سے کیا مراد ہے؟
فکرمندی: آخرت قبر سے شروع ہوکر جنت یا دوزخ پر ختم ہوتی ہے۔ تم روزانہ بلکہ ہروقت اپنے دل اور اپنی فکر سے قبر کی زیارت کرسکتے ہو۔ امام محاسبیؒ نے نصیحت کی تھی: ’’ اپنی فکرمندی کے ذریعے قبروں میں ہو آیا کرو، اپنے دل پر سوار ہوکر میدان حشر میں ٹہل آیا کرو‘‘۔
میں: صالح فطرت لوگ آخرت کے لیے کس طرح فکر مند رہتے تھے؟
فکرمندی: توجہ سے سنو!
… ابراہم یمنیؒ کا بیان ہے:دو چیزوں نے دنیا کی لذت مجھ سے کاٹ دی، موت کی یاد اور اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہونے کی فکر۔
… کعبؒ کہتے ہیں: جو موت کو سمجھ لے، دنیا کی مصیبتیں اور فکریں اس کے لیے آسان ہوجائیں۔
صحابہ کرامؓ تو ہر آن آخرت کے بارے میں فکرمند اور جنت کے مشتاق رہا کرتے تھے۔
میں: لیکن میں دنیا کی فکر کو دل سے کیسے نکالوں؟
فکرمندی: تم ایسا نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ تم دنیا میں رہتے ہو ، اور قدرت حق کے قانون کے تحت اس کے ساتھ میل جول رکھنا ناگزیر ہے۔ تاہم، اسے اپنے ہاتھ میں لو، اپنے دل میں مت بٹھائو۔ پانی کی طرح کہ کشتی میں بھرجائے تو اسے ڈبودے اور کشتی کے نیچے رہے تو اسے سہارا دے۔
میں: مگر میں اس سے پوری طرح چھٹکارا پانا چاہتا ہوں؟
فکرمندی: تم ناممکن کی بات کررہے ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر غور نہیں کیا: ’’دنیا کو میری سب سے بڑی فکر نہ بنا‘‘۔
فکریں بہت ساری ہوسکتی ہیں، ان کا تعلق مفید امور سے ہوسکتا ہے، البتہ یہ خیال رہے کہ دنیا سب سے بڑی فکرمندی نہ بن جائے۔
حکیم ابن مقفع کی یہ بات سنا کر فکرمندی دوبارہ میرے دل میں اپنا نقش ثبت کرکے چلی گئی: ’’کتنے لوگ ہیں کہ جنھوں نے دنیا حاصل کرنا چاہی اور اس کے لیے یکسو ہوگئے، مگر پھر دنیا ان سے چھین لی گئی۔ کوششیں ان کے اعمال نامے میں لکھ دی گئیں، دنیا دوسروں کے قبضے میں چلی گئی، اور ان کا مال ان ہاتھوں میں چلا گیا جو انھیں پسند بھی نہیں تھے‘‘۔
اتوار کی رات، ٹھیک گیارہ بجے، میں ہفتہ بھر کی مصروفیات سے فارغ ہوچکا تھا۔
اب میں کیا کروں؟ میرے پاس فرصت کے طویل اوقات تھے۔ میں کمرے میں تنہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں کیا کروں؟
میرے دل میں ایک بُرے کا م کا خیال آیا اور اسی لمحے میں اس پر آمادہ ہوگیا۔ دروازہ اور کھڑکیاں بند کرلیں۔ اب کمرے میں مجھے دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔
میں اس بُرے کام کو کرنے ہی والا تھا کہ میرے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی:
’’افسوس ہے اس بندے پر جس کے گناہ بڑھتے جارہے ہیں اور توبہ کم ہوتی جارہی ہے۔ وہ قبر سے جتنا نزدیک ہورہا ہے، اس کی غفلت میں اور اضافہ ہورہا ہے۔
اے گناہ گار! تجھے شرم نہیں آتی۔ تیری تنہائی میں بھی اللہ تیرے ساتھ ہے۔
تیرا ربّ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اور تیرے گناہوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہے مگر تُو اور زیادہ ڈھیٹ ہوگیا ہے‘‘۔
میں چونک پڑا۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کون ہے؟ یہ کس کی آواز ہے؟
یکایک مجھے ایک سیاہ سی مخلوق نظر آئی، میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تم کون ہو؟
اس نے کہا: ’’میں تمھاری بدی ہوں‘‘۔
میں: تم رات گئے کیوں آئی ہو؟
بدی: تمھیں نصیحت کرنے۔
میں: بدی اور نصیحت؟
بدی: ہاں، سمجھ دار کے لیے بدی میں بھی نصیحت کا سامان ہے۔
میں: تمھیں کیا کہنا ہے؟
بدی: کیا تم سمجھتے ہو کہ تم یہاں تنہا ہو؟
میں: کیا مطلب؟
بدی: تم جب گناہ کرنے جارہے تھے تو بڑے مطمئن لگ رہے تھے ۔ کیا تمھیں حساب کے دن کا خوف نہیں ہے؟ تم دیواروں کی آڑ میں انسانوں سے تو چھپ سکتے ہو، مگر کاش! تمھیں احساس ہوتا کہ تم اللہ کی نگاہ میں ہر وقت رہتے ہو۔
میں: مگر میں تو نیکی کے کام بھی کرتا ہوں، جن سے اللہ خوش ہوتا ہے۔
بدی: تنہائی میں گناہ کرنے سے اللہ کے ساتھ بندے کا تعلق خراب ہوجاتاہے اور اس کی نیکیاں مٹی میں مل جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اپنی امت کے ایسے بہت سارے لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، جو قیامت کے دن اتنی نیکیاں لائیں گے جیسے کہ تہامہ کے سفید پہاڑ، مگر اللہ ان سب کو راکھ کی طرح اڑا دے گا‘‘۔
صحابی رسول ثوبانؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! ہمیں ان کے بارے میں بتائیے، وہ کیسے لوگ ہیں؟ کہیں انجانے میں ہم بھی انھی میں شامل نہ ہوجائیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو! وہ تمھارے ہی بھائی ہیں، تمھاری طرح رہتے ہیں، تمھاری طرح شب بیداری بھی کرتے ہیں، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ تنہائی میں گناہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو کرڈالتے ہیں‘‘۔
میں: یہ حدیث تو دل دہلادینے والی ہے۔
بدی: اسی لیے میں تمھیں خبردار کررہی ہوں، اور یہ بھی سن لو کہ جب تم تنہائی میں گناہ کرتے ہو تو خدا کے ساتھ خلق خدا سے بھی تمھارا تعلق بگڑ جاتا ہے۔ لوگ تم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
میں: لیکن لوگوں کو کیا پتا کہ میں تنہائی میں کیا کرتا ہوں؟
بدی: یہ بات صحابی رسول حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بتائی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’بندہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا غصّہ مومنوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور اس کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا‘‘۔
میں: لیکن میرے گناہ تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اتنے چھوٹے چھوٹے گناہوں سے میرا اعمال نامہ خراب نہیں ہوگا۔
بدی: قطرے قطرے سے دریا بن جاتا ہے اور میں تو خود بدی ہوں،میں تم سے زیادہ جانتی ہوں کہ انسانوں کے نامۂ اعمال کو قیامت کے روز کتنا خراب کردوں گی۔ ظاہر ہے چیونٹی اپنے گھر کے بارے میں جتنا جانتی ہے، اُونٹ چیونٹی کے گھر کے بارے میں اتنا نہیں جان سکتا۔
میں: یہ سب باتیں پہلے میری سمجھ میں کیوں نہیں آئیں؟ میں تو بڑی خطرناک غفلت میں اوندھے منہ پڑا تھا۔ میں تو دنیا کی رنگینیوں سے دھوکا کھا گیا۔
بدی:اللہ کے بندے، اٹھو، ابھی گنجایش ہے، تم تلافی کرسکتے ہو۔ مجھے اچھی طرح پہچان لو، میں بدی ہوں۔ قیامت کے دن ہلاکت کا سبب، بندوں کے بغض ونفرت کی و جہ، نیکیوں میں سے برکت اٹھانے والی، حافظے اور علم دونوں کے لیے مہلک۔
میں: اوہ، تو یہ سب کچھ تمھاری ہی و جہ سے ہے۔
بدی: یہی نہیں، اس سے بھی زیادہ۔ یہ سمجھ لو کہ ہر بدی دوسری بدی کو جنم دیتی ہے۔نیکی کا ثواب یہ بھی ہے کہ اس کے بعد دوسری نیکی کی توفیق ملے، اور بدی کی سزا یہ بھی ہے کہ اس کے بعد دوسری بدی سرزد ہو۔
میں: مگریہ بتائو کہ اب میں کیا کروں؟
میں تو گناہ کا ارادہ کرچکا ہوں ، اسے کرنے کے لیے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند کرچکا ہوں۔ میرا یہ گناہ تو درج ہو ہی گیا ہوگا؟
بدی: نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ بندہ جب بدی کا ارادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اسے نہیں کرتا ہے تو اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ حدیث قدسی میں ہے: ’’جس نے بدی کا ارادہ کیا مگر اس کا ارتکاب نہیں کیاتو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک مکمل نیکی اپنے پاس لکھ لیتا ہے‘‘۔
اس لیے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹائو۔ اپنے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند رہنے دو۔ کمرے میں اندھیرا کرلو ،مگر کس لیے ؟
اللہ کی عبادت کے لیے۔کیوں کہ تنہائی کی بدی کو تنہائی کی نیکی سے مٹایا جاتا ہے۔