اسوئہ دعوت کا آغاز غارِ حرا کے اس واقعے سے ہوتا ہے کہ جبرئیل امین ؑ آکر فرماتے ہیں: ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘ (العلق:۹۶:۱) ۔ہیبت و جلال کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم معذرت کرتے ہیں کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل امین ؑ دوبارہ کہتے ہیں، دوبارہ عذر پیش ہوتا ہے: میں پڑھ نہیں سکتا، اور تیسری بار آپؐ سہمے ہوئے پڑھتے ہیں۔ گویا پہلا سبق اور پہلا کام پڑھنے کا، علم حاصل کرنے کا دیا گیا۔
وحی آتی ہے: راتوں کو اُٹھو، رب کو یاد کرو (المزمل ۷۳:۲)، کہ یہ داعی کے لیے ضروری توشہ ہے۔ اگلی وحی آتی ہے: اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو۔ اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو… اپنے رب کے لیے صبر کرو (المدثر ۷۴:۱-۷)۔ یہ کام چونکہ رب کا ہے، رب کے لیے ہے، اور اس کام کو رب کی پشتی بانی بھی حاصل ہے، لہٰذا رب کے راستے پر چلتے ہوئے صبر کرنا ہے۔ اس طرح داعی کو ناگزیر ضروریات اور تقاضوں سے آگاہ کر دیا گیا۔
ھمہ جھت دعوت: دعوت کا آغاز قریبی حلقے میں دعوت پہنچانے سے کیا جاتا ہے۔ تین سال میں چند ساتھی میسر آجاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں اس وقت کے مروج طریقے استعمال کرتے ہوئے دعوت کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کا آغاز ہوتا ہے۔ کوہِ صفا سے پکارا جاتا ہے، مجمع اکٹھا کیا جاتا ہے، جلسہ ہوتا ہے۔ خاندان اور رشتہ داروں کو کھانے پر بلایا جاتا ہے۔مکہ کے گلی بازار ہوں یا کوئی مجمع، کوئی تقریب ہو یا عکاظ کا میلہ یا حج کا موقع، ہر موقع پر دعوت پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دعوت، میدانِ عمل میں چلتے پھرتے مصروف و متحرک رہ کر پھیلائی جاتی ہے۔
مخالفانہ پروپیگنڈا، توسیع دعوت کا ذریعہ:یہ لازم و ملزوم ہے کہ جب بھی دین کی دعوت پھیلتی ہے تو مخالفانہ پروپیگنڈا بھی سر اُٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریمؐ نے اسلام کی دعوت پیش کی تو مخالفانہ پروپیگنڈے کی ایک متحرک لہر پیدا ہوگئی۔ حج کا موقع ہو یا عکاظ کا میلہ، داعی سے پہلے اس کے مخالفین پہنچے، اور جاکر لوگوں کو سمجھایا گیا کہ تم ہمارے شہر میں آئے ہو، یہاں محمد(ﷺ) کی سرگرمیاں ہمارے لیے ناقابلِ برداشت بنی ہوئی ہیں۔ اندیشہ ہے کہ کہیں تم اس کا شکار نہ ہوجائو۔ ایک صحابی طفیل دوسیؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس وقت تک سمجھایا جاتا رہا جب تک کہ میں قائل نہیں ہوگیا۔ مسجدحرام جاتا تو روئی کانوں میں ڈال کر جاتا۔ اتفاقاً ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لیے کھڑے ہوئے تھے، پہلی مرتبہ اللہ کا کلام سنا۔ دل میں اپنے آپ کو ڈانٹا کہ آخر عقل مند ہوں، قوتِ تمیز رکھتا ہوں چنانچہ مکان پر جاکر درخواست کی: پیغام سنایئے۔ نتیجتاً اسلام قبول کرلیا اور مکہ سے واپس جاکر پورے قبیلے تک اسلام کی دعوت پہنچائی۔ یہ پروپیگنڈا محمد(ﷺ) کے تعارف اور دعوت کی توسیع کا ذریعہ بنا___ آج بھی اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، مگر یہ پروپیگنڈا دنیا کی توجہ اسلامی تعلیمات کی طرف مبذول کرانے کا ذریعہ ہے۔
ظلم و ستم کا حربہ: دوسرا حربہ ظلم وستم اور تشدد ہے۔ دعوت کی توسیع کے لیے یہ بھی معاون ثابت ہوئے۔ حضرت عمرؓ تلوار لے کر نکلتے ہیں اور بہن اور بہنوئی پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لہولہان بہن کہتی ہیں: عمر جو کرسکتے ہو کرلو، لیکن اب اسلام ہمارے دل سے نہیں نکل سکتا۔ ایمان، احتجاج اور عزم سے بھرپور جملہ سن کر عمرؓ مفتوح ہوجاتے ہیں۔
حضرت حمزہؓ کے سامنے چار سال کے عرصے میں کئی مواقع آئے، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت پیش کی، مگر براہِ راست دعوت سے متاثر ہوکر اسلام قبول نہ کیا۔ حضرت حمزہؓ چچا تھے۔ ایک روز کوہِ صفا کے پاس ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دست درازی کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبر سے اذیت برداشت کرتے رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ اتفاق سے عبداللہ بن جذعان کی لونڈی نے یہ سارا ماجرا دیکھا۔ جب حضرت حمزہؓ شکار سے واپس آئے تو انھیں یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ ہائے! تم خود دیکھ سکتے کہ تمھارے بھتیجے پر کیا گزری! یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت جاگ اُٹھی۔ سیدھے قریش کی مجلس میں جاپہنچے۔ ابوجہل سے کہا: میں محمد کے دین پر ایمان لے آیا ہوں، جو وہ کہتا ہے وہی میں کہتا ہوں، کرلو جو کرسکتے ہو___ داعیِ حق کا صبر، اذیتوں پر رویہ اور کردار، دعوت کا ذریعہ، اس کا تعارف، اور اس کے پھیلائو میں معاون بنتا رہا۔
آج بھی یہی صورت ہے کہ ایک برطانوی صحافی خاتون ایوان ریڈلے طالبان کی جاسوسی کے لیے جاتی ہے۔ اتفاق سے گرفتار ہو جاتی ہے اور قید میں طالبان کے کردار کا مطالعہ کرتی ہے۔ قید سے چھوٹنے پر قرآنِ مجید پڑھتی ہے اور نتیجتاً اسلام کی پُرجوش مبلغہ بن جاتی ہے۔ برطانیہ میں اسلام چینل کے ذریعے، اسلام کی دعوت اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات کو دُور کرتی ہے۔ ایک مسلمان عورت ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے، جو امریکا کی قید میں صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔
ثقافتی یلغار: رحمۃ للعالمینؐ کو بطور داعی اس کا بھی سامنا ہے جو نضر بن حارث کہا کرتا تھا کہ آخر محمد(ﷺ) کی باتیں کس پہلو سے میری باتوں سے زیادہ خوش آیند ہیں۔ یہ تو اساطیر الاولین (داستانِ پارینہ) ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گانے بجانے والی ایک فنکار لونڈی خریدی جاتی ہے جس کو اُس شخص پر متعین کر دیا جاتا جو دعوت سے متاثر نظر آتا۔ نضر بن حارث لوگوں کو جمع کرتا، کھلاتا پلاتا، گانے سنواتا اور عیش و عشرت کا سامان کرتا___ آج کے موبائل، انٹرنیٹ، کیبل سروس اور ٹی وی چینل، کلچرل شو وغیرہ لغویات میں مشغول کرنے کا ذریعہ ہیں۔ وہ ماحول جس میں ساری توجہ کھانے پینے، جنسی تسکین، گانے بجانے، تفریحات اور فنونِ لطیفہ، بسنت،ویلنٹائن ڈے کی طرف مبذول ہوجائے وہ دعوتِ حق کے لیے سازگار نہیں رہتی۔ مگر کل بھی اس ’ثقافتی یلغار‘ کے علی الرغم دعوتِ حق پھیلی، آج بھی پھیل رہی ہے اورپھیل کر رہے گی۔
نئے حربے اور نفسیاتی جنگ: علماے یہود نے داعیِ حق کو ہر وقت زچ کیے رکھا۔ داعی کی ذات کے بارے میں شکوک پیدا کرنا، ہر وقت کوئی نہ کوئی اعتراض اور سوال اُٹھائے رکھنا: اس شخص سے پوچھو کہ اصحابِ کہف کون تھے؟ ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے؟ روح کی حقیقت پوچھو؟___ آج کے داعی کے لیے بھی ایسے ہی، ہروقت نت نئے سوال، تبصرے اور مشورے ہیں: یہ پالیسی کیا ہے؟ اس پر کیا کرنا ہوگا؟ یہ غلط فیصلہ ہے؟دعوت کو روکنے کے لیے سودے بازی، شرائط و مصلحت: اس قرآن کو تو بالاے طاق رکھ دو۔ کوئی اور قرآن لائو۔ ’ لا الٰہ‘ کا جزو ساقط کردیجیے۔ اللہ کو الٰہ مانیے مگر ہمارے معبودوں کو بُرا نہ کہیے، مراسمِ عبادت ادا کیجیے، دعوت دیجیے مگر ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیے، یعنی جن باطل تصورات پر نظامِ تمدن کھڑا ہے ان کو نہ چھیڑا جائے۔ دین حق کا سیاسی جزو معطل ہوجائے اور اجتماعی نظام کو انھی بنیادوں پر قائم رکھ کر، اس کے سایے میں روحانی نوعیت کی اصلاح معاشرہ کی جاتی رہے___ آج کی اصطلاح میں ریاست کے دستور کو سیکولر ہونا چاہیے۔ یہاں دین کی ترجیحات کا ذکر نہ ہو۔ دین لوگوں کا انفرادی معاملہ ہو اور وہ ذاتی زندگی اور اصلاح تک محدود رہے۔ یہ بقاے باہمی کا فارمولا ہے۔ نصاب میں سے جہاد کا ذکر نکال دیجیے۔ تم اپنا کام کرو، دعوت دو، بڑے بڑے اجتماع کرو، صدارتی ایوانوں میں، سپرپاور کے عین مراکز میں، مساجد تعمیر کرو۔ یوں رواداری کے ساتھ دین پر عمل کریں۔
مصالحت کی راہ نکالنے کے لیے، مخالفین تحریک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مطالبہ یہ بھی رکھا۔ اگر آپؐ اپنے حلقے سے ہمارے معاشرے کے گھٹیا لوگوں کو، ہمارے غلاموں اور لڑکوں بالوں کو نکال دیں تو پھر ہم آپؐ کے پاس آکر بیٹھیں گے اور آپؐ کی تعلیمات کو سنیں گے۔ موجودہ حالت میں یہ ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کریں۔ مطلوب یہ تھا کہ تحریک کو ان جان نثاروں کی خدمات سے محروم کر دیا جائے۔ غرض جو جو حربے اختیار کیے گئے، وحی کے ذریعے ان کے لیے رہنمائی آتی گئی: وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (انعام ۶:۵۲) ’’جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارنے میں لگے ہوئے ہیں، انھیں اپنے سے دُور نہ پھینکو‘‘۔
جب ایک ذی اثر مخالف سے گفتگو کے دوران ایک ساتھی کی مداخلت کو ناپسند فرمایا تو داعیِ اعظمؐ کو تنبیہہ آگئی: عَبَسَ وَتَوَلّٰی۔ٓ ٓ o اَنْ جَآئَہُ الْاَعْمٰی (عبس ۸۰:۱-۲) ’’ترش رو ہوا اور بے رُخی برتی، اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا‘‘۔
اہلِ قریش وفد بنابنا کر آئے اور کہا کہ بادشاہ بنا لیتے ہیں، علاج کروا دیتے ہیں، دولت جمع کردیتے ہیں، کسی امیر خاتون سے شادی کرا دیتے ہیں۔ غرض انسانی فطرت کے جتنے کمزور پہلو ہوسکتے ہیں سب کے ذریعے وار کیا، اور بار بار کیا مگر داعیِ حق دعوت سے باز نہیں آئے، مداہنت نہیں برتی۔ اپنے راستے پر، پُرسکون اور کامل اطمینانِ قلب کے ساتھ چلتے رہے۔ اپنی دعوت بہ بانگِ دہل بیان کرتے رہے۔ نہ نظر جھکی، نہ زبان لڑکھڑائی، نہ پاے ثبات میں لغزش آئی___ آج کے داعی کے لیے، اس میں بڑا سبق اور رہنمائی و نمونہ ہے۔
اُمید اور حوصلہ: خدا کا پیغام سنانے مکہ کی گلی کوچے میں گھومے۔ جب دعوت کے لیے کان بند کر لیے گئے تو طائف کا سفر کیا۔ ایک ماہ کی مسافت کے بعد، اس سرسبز خطے کے خوش حال مکینوں کے پاس پہنچے اور دعوت دی۔ سرداروں نے دعوت کا تمسخر اُڑایا اور بازار کے غلاموں اور لونڈوں کو پیچھے لگا دیا جو شورمچاتے اور پتھر مارتے یہاں تک کہ لہولہان ہوجاتے ہیں اور ایک باغ میں پناہ لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں: ’’مجھے تیری رضا اور خوشنودی کی طلب ہے۔ تو ہی میرا مالک ہے مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے‘‘۔
پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوتا ہے۔ اشارہ کریں تو طائف کے لوگوں کو ان پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں، مگر اس عالم میں بھی داعی کی شفقت اور محبت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ نسل تو نہیں لیکن ان کی اولاد شاید دین کو قبول کر لے۔ اسی سفر میں جنوں کی جماعت قرآن سنتی اور ایمان لاتی ہے۔ قیامِ مکّہ کے دوران میں سورئہ یوسف نازل ہوتی ہے اور حدیث دیگراں کے پردے میں، داعیِ حق کو بشارت دی جاتی ہے کہ حالات آج ناسازگار ہیں مگر انجامِ کار غلبہ تمھارا ہے___ آج کے داعی کے لیے بھی یہ بشارتیں قرآن پاک میں محفوظ ہیں مگر کوئی ان پر کان تو دھرے اور سمجھے تو سہی۔
انتہائی ناسازگار ماحول میں، صاف صاف الفاظ اور فیصلہ کن انداز میں، ایک نعرہ لگایا: ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے والا ہی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱)۔ اگر آج کوئی کہے کہ امریکا شکست کھائے گا، روس کی طرح ٹوٹے گا اور نہتے مسلمان کامیاب ہوں گے، تو لوگ کہیں گے کہ یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے۔ خوش فہمی میں نہ رہیں اور زمینی حقائق دیکھیں۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا اور اُمید کا دامن تھامنے اور کوشش میں لگے رہنے کا سبق ہے جو داعی نے دیا۔
ھجرت کا مرحلہ: یہ اطلاع دے دی گئی کہ اہلِ مکہ آپؐ کو مکّے سے نکال دینے کے درپے ہوں گے۔ دعاے ہجرت بھی سکھا دی گئی کہ ’’اے میرے رب! مجھ کو صدق کی راہ ہی سے نکال اور مجھے اپنی بارگاہ سے اقتدار کی صورت میں مدد عطا کر‘‘۔ دعا میں اقتدار کی طلب کو شامل کیا۔
تشدد کسی متزلزل نظام کا آخری ہتھیار ہوتا ہے۔ تمام قبائل سے نمایندے لیے جاتے ہیں اور گروہ براے حملہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ داعیِ اعظمؐ کے گھر کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے۔ ایک تدبیر، تدبیر کرنے والے کرتے ہیں، اور ایک تدبیر خیرالماکرین کرتا ہے___ ان تدبیر کرنے والوں کو پیدا کرنے والا اور ان سے اچھی تدبیر کرنے والا۔ پھر ان کی تدبیریں اکارت جاتی ہیں___ کل مکہ سے ہجرت کی رات یہ ہُوا اور آج بھی یہ ہوتا ہے اور یہ ہوتا رہے گا۔ اس سفرہجرت کی صعوبتوں میں بھی لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (غم نہ کر، اللہ تمھارے ساتھ ہے۔ التوبہ ۹: ۴۰) کا پیغام دیا جاتا ہے۔
داعیِ اعظمؐ مدینہ پہنچتے ہیں۔ دعوت کا اسلوب کیا ہے۔ جگہ حاصل کی جاتی ہے اور گارے اور گھاس پھونس سے مسجدنبویؐ کی تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ مسجد محض عبادت گاہ اور معبد نہیں ہے۔ یہ حکومت کے کاروبار، مشورے کا ایوان، پارلیمنٹ، سرکاری مہمان خانہ، سپریم کورٹ، جی ایچ کیو، جمہوری دارالعوام اور قومی لیکچرہال ہے۔ یہ مرکزی دفاتر ہیں۔ یوں اسلامی ریاست کی تاسیس ہوتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے اہم تعمیری اقدام، میثاقِ مدینہ کیا جاتا ہے۔ ریاست چلانے کے لیے مدینہ کے یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی سوسائٹی کو ایک نظم میں پرو دیا جاتا ہے۔ ایک تحریری معاہدہ ہوتا ہے جس کو دنیا کا پہلا تحریری دستور کہا جاسکتا ہے۔
مدینہ کے منظم ہونے والے معاشرے میں خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کو سیاسی اہمیت حاصل ہوگئی۔ سیاسی، قانونی اور عدالتی لحاظ سے اتھارٹی، یعنی آخری اختیار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آگیا۔ دفاعی لحاظ سے مدینہ اور اس کے گردونواح کی پوری آبادی ایک متحد طاقت بن گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ داعی، مدینے کے معاشرے کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ، سیکڑوں مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ، مواخات مدینہ کے ذریعے حل کرتے ہیں۔
داعی کا کردار، صرف ایک صوفی درویش کا نہیں بلکہ اجتماعی معاملات کو سنبھالنے، سنوارنے، ماہرانہ حکمت سے پورا کرنے کا نظر آتا ہے۔ تمدنی نظام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی جزوی اصلاح چاہتے تھے یا ہمہ گیر؟ دعوت مذہبی و اخلاقی تھی یا سیاسی اہمیت بھی رکھتی تھی؟ نعرہ یہ دیا گیا اور اس کی وضاحت یہ دی گئی: ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (الصف ۶۱:۹)
منافقین کا کردار: تاریخِ اسلام کا ایک عجیب المیہ ہے کہ اس وقت کے گدی نشین اہلِ مذہب یہود اور مشرکینِ مکّہ مخالفت میں سب سے آگے تھے۔ مکاری و عیاری کی سرگرمیاں جاری تھیں، نجویٰ اور سازش تھی اور پھر اس میں منافقین بھی شامل ہوگئے۔ مدینے کے اس دور میں یہ دو قوتیں آستین کا سانپ بنی رہیں۔ ہجرت کے ایک سال بعد بدر کا معرکہ آتا ہے۔ پھر اُحد کا میدان سجتا ہے۔ ایک ہزار کا لشکر ہے ایک تہائی منافقین چلے جاتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی تربیت کردہ اُمت میں، اس کردار کے حامل تھے___ مگر اس کے علی الرغم یہ دعوت پھیلتی رہی ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ ’’اگر قیادت کے اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہوتا تو ہم نہ مارے جاتے، اگرہمارے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا‘‘۔ غزوئہ احزاب شروع ہوتا ہے، ۱۷روز سے محاصرہ جاری ہے، طرفین پڑائو ڈالے بیٹھے ہیں۔ سارا عرب اکٹھا ہوکر اُمڈ آیا ہے۔ گویا اس وقت ناٹو کی مانند اتحادی فوجیں، آخری ضرب لگانے کے لیے آئی تھیں۔ اس موقع پر یہود کی ریشہ دوانیاں اور غداریاں عروج پر ہیں۔ غزوئہ تبوک سے واپسی پر واقعۂ افک پیش آتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر رکیک الزام لگتا ہے، اور جب معاملہ داعی، تحریک کے قائد کی بیوی سے متعلق ہو تو اس کی نوعیت اور بھی سنگین ہوجاتی ہے۔ اس بہتان اور الزام تراشی کا معاملہ ایک ماہ تک چلتا رہا۔ اس ہنگامہ خیز طوفان سے گزرتے ہوئے حضرت عائشہؓ کے ساتھ ساتھ بڑی مظلوم ذات داعیِ حق، نبیِ رحمتؐ کی تھی۔ داعیِ اعظم کی اعلیٰ ظرفی، حوصلہ مندی اور صبروتحمل کا عظیم مظاہرہ ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ نے غیرجذباتی اور پُروقار طرزِعمل اختیار کیا۔ قصور کیا تھا کہ وہ انسانیت کا نجات ہندہ، ان کو ان کے رب کی طرف بلاتا تھا۔
پختہ یقین اور اعتماد: داعیِ اعظمؐ کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو ہے جو آج کے داعیانِ دین کی تربیت کے لیے اختیار کیا گیا۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم امیرالمومنین تھے۔ مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اردگرد کے قبائل کے ساتھ بھی میثاقِ مدینہ کے بعد، سیاسی اعتبار سے فیصلے کا آخری اختیار نبی کریمؐ کے پاس ہی تھا۔ ان پر اپنے ساتھیوں کو ایسا اعتماد تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ میں آج رات سفرمعراج میں آسمانوں پر گیا ہوں تو کسی نے جاکر حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ: لو آج تو تمھارے ساتھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں، یعنی ایسی مافوق الفطرت، عجیب و غریب بات! حضرت ابوبکرؓ ایک لمحے توقف کیے بغیر فرماتے ہیں: اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں تو ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
مشاورت سے فیصلے: اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ معاملات باہم مشورے سے طے کریں۔ اس طرح مشاورت کا راستہ دکھایا اور آمریت کا راستہ روکا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ ساتھیوں سے غلطیاں ہوئیں، ان کے رویوں سے دل گرفتگی بھی ہوئی، مگر حکم ہوا کہ ان کو شریکِ مشورہ رکھو، اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگتے رہو۔ جب مشاورت سے فیصلہ ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھو۔ اسی بنا پر یہی سکھانے کے لیے، احد میں، احزاب میں، بنونضیر کا فیصلہ کرتے ہوئے اور کئی مثالیں ہیں، کہ مشورہ اپنی راے کے علی الرغم قبول کیا___ جس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی فیصلے مشاورت کے ذریعے کرنا اور پھر مطمئن و ثابت قدم رہنا ہوگا۔
دعوت کی وسعت کا تسلسل: دعوت کا ایک میدان، مدینہ میں سیاسی قیادت کا منصب حاصل ہونے کے بعد، ملحقہ سلطنتوں کے حکمرانوں کو اسلامی نظام کا پیغام بھجوانا تھا۔ ان حکمرانوں کو خطوط لکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو مروجہ آداب کا اہتمام کیا، ہرقل قیصر، رومی سلطنت کا تاج دار تھا۔ پرویز کسریٰ ایران کی بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا۔ بحرین، عمان، یمامہ، سکندریہ کے بادشاہوں کو خطوط بھجوائے کہ عالمی سطح پر ایک تسلسل سے دعوت دی جاسکے۔
غلبہ دین کی ترجیح: اُمہات المومنین اور صحابیات کے ساتھ سلوک اور ان کے ذریعے ۵۰ فی صد آبادی میں دعوت کا نفوذ ہوا۔ معاشی تعلیمات دیں اور سود کے خاتمے، وراثت، زکوٰۃ، معاشرے کے یتیم و مسکین افراد کی ضرورتوں کو پورا کروانے کی تلقین دعوت کا حصہ رہا ہے۔ حج وِداع ہوا۔ انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ دعوت کے اس تکمیلی مرحلے پر، اپنی خدائی جمانے کے ادنیٰ اظہار کے بجاے، پہلے سے بڑھ کر شکروحمد کے ترانے تھے۔ انسانیت کے نام پیغام دیا۔ بین الاقوامی انسانی منشور پیش کیا اور یہ بھی فرما دیا کہ جو موجود ہے، اس دعوت کو اس تک پہنچائے جو موجود نہیں، یعنی دعوت کے اس کام کو جاری رکھا جائے۔ یہ داعی کی فکر کی توسیع تھی اور جہدِ مسلسل کی دعوت۔ پُرفتن دور میں یہی اسوئہ دعوت ہے___ بلاشبہہ آج کے ہرداعی کے لیے داعیِ اعظمؐ رہنما ہیں:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ(الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔