سال ختم ہوتے ہوتے مسلمانوں کی راے عام پوری طرح اُس مطالبۂ حق پر متفق ہوگئی جو آغازِ سال میں پیش کیا گیا تھا، اور مارچ ۱۹۴۹ء میں دستورساز اسمبلی کو طوعاً و کرہاً قرار داد مقاصد پاس کرنی پڑی۔
جماعت اسلامی کو یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مطالبے کی یہ مہم سراسر اس کی طاقت سے کامیاب ہوئی ہے۔ بلاشبہ ملک کی تمام اسلامی جماعتوں اور تمام دین پسند عناصر کی قوت اس میں شریک تھی، اور اس میں ان لوگوں کا بھی حصہ تھا جو نہ اُس وقت جماعت کے دوست تھے، نہ آج ہیں۔ مگر اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جماعت اسلامی ہی اُس کی اصل محرک تھی اور اگر یہ منظم طاقت اس کی پشت پر نہ ہوتی تو اُن منتشر آوازوں سے جو وقتاً فوقتاً اسلامی نظام کے حق میں اُٹھتی رہتی تھیں، اس مطالبے کا ایک باقاعدہ مہم کی شکل اختیار کرنا، اور پھر کامیابی کی منزل تک پہنچنا کسی طرح ممکن نہ تھا۔ اس حقیقت کو وہ لوگ بھی جانتے ہیں جنھوں نے اس مہم کے سلسلے میں کچھ کام کیا ہے اور وہ برسرِاقتدار گروہ بھی جانتا ہے جسے اس کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا ہے۔
جو لوگ سیاسی معاملات کا فہم نہیں رکھتے وہ شاید آج تک بھی یہ اندازہ نہیں کرسکے ہیں کہ یہ کس قدر اہم اور ضروری قدم تھا جو جماعت نے اُٹھایا اور کس قدر بروقت اُٹھایا۔ آج اس کی اہمیت اور اس کے دُوررس نتائج ہم بیان بھی کریں تو وہ ان کی سمجھ میں نہیں آسکتے، لیکن اگر خدانخواستہ ہم اس میں ناکام ہوگئے ہوتے اور یہاں آئینی طور پر لادینی اصولوں کو ریاست کی بنیاد بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہوتا، تو ہمارے بھائیوں کو معلوم ہوجاتا کہ یہاں اسلام کے علَم برداروں کا مستقبل کیسا خطرناک ہے۔ اب یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ کم از کم اس نوزائیدہ ریاست کا دستوری نصب العین تو اسلام کے عین مطابق بن چکا ہے اور آئینی حیثیت سے کفر کے مقابلے میں اسلام کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے۔ اس پر مزید فضل یہ ہے کہ راے عام پوری طرح اس آئینی پوزیشن کی حمایت پر کمربستہ ہے اور اس کو کسی فریب سے بدل ڈالنا کوئی آسان کام نہیں رہا ہے۔ (’اشارات‘، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد ۵، جمادی الاولیٰ ۱۳۷۰ھ، مارچ، ۱۹۵۱ء، ص ۳۲)