مارچ ۲۰۱۱

فہرست مضامین

بے انصافی کیوں؟

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | مارچ ۲۰۱۱ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے۔ سب اس کے حق دار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوش حالی نہیں، بلکہ تمام انسانوں کی خوش حالی ہے، ورنہ ایک خوش حال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوش حال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقے کی یا ایک قوم کی۔ ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔

اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقے کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اس کو خاص دل چسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں۔ جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بنا پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے، اور نہ ایک کا دشمن اور دوسرے کا دوست، ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف، ایک طرف مائل اوردوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں ، تمام قوموں، تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو اُن کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔

اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ، ایسا غیرجانب دار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہوسکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرأت نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے۔ کوئی دوسرا س شان کا نہیں ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے، کچھ دل چسپیاں رکھتا ہے۔ کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم ، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے۔ ان کمزوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجاے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے، وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔

  •  ان شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے وہ عزت، وہ ٹھاٹھ، وہ آمدنی، وہ حقوق اور وہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں۔ ان کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلے میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی۔ کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں، مگر کہا جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ ’’بادشاہ غلطی سے پاک ہے‘‘۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں، جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں، مگر یہ خدا بن کر سب سے اُونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے، سر جھکائے، ڈرے، سہمے کھڑے ہوتے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت، سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور بُرے ہرطریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر، اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی ایسے عادل کا مقرر کیا ہوا ہوسکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اورمفاد یکساں ہوں؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں؟
  •  ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے۔ ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے۔ ان جاگیرداروں اور زمین داروں کو دیکھیے۔ ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے۔ یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دنیا میں بنے ہیں وہ انھیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک۔ یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین۔ یہ اُونچے ہیں اور دوسرے نیچے۔ یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے۔ ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو، ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہوسکتے ہیں؟ کیا ان میں صریح طور پر خود غرضی اور جانب داری نظر نہیں آتی؟ کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہوں؟
  •  ان حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کون سا قانون اور کون سا ضابطہ ایسا ہے جس میں خود غرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسانِ اعلیٰ کہتے ہیں بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمزور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنیٰ درجے کے ہیں۔ یہ ہرحیثیت سے اپنے آپ کو دوسروںسے اُونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دنیا میں بنے ہیں، ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔

یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے، وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں، بلکہ انھیں انسانیت کے درجے سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے___ مجھے بتایئے، کیا اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا بُرد کردیا جائے، اور اس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کرلیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال، اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔ ( اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۷۰-۷۳)