مارچ ۲۰۱۱

فہرست مضامین

قراردادِ مقاصد، پاکستان کا اساسی دستور

نواب زادہ لیاقت علی خاں، مولانا شبیر احمد عثمانی | مارچ ۲۰۱۱ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

قیامِ پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد منظور کی۔ اس دستور ساز اسمبلی کے ارکان کی بڑی تعداد قائداعظم محمدعلی جناح کے رفقاے کار پر مشتمل تھی، جب کہ وزیراعظم لیاقت علی خاں ان کے دستِ راست تھے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کا سیکولر اور مغرب زدہ طبقہ ’قراردادمقاصد‘ کو مذموم مقاصد کے تحت تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہاں پر جناب لیاقت علی خاں کی وہ تقریر پیش کی جارہی ہے جس میں انھوں نے قراردادِ مقاصد کا مسودہ پیش کرتے ہوئے، اس کی وضاحت کی تھی۔ ساتھ ہی قائداعظم کے ساتھی مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم کا اس موقعے پر خطاب بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

صدر محترم، جناب والا!

میں حسب ذیل قرارداد مقاصد پیش کرتا ہوں۔یہ قرار داد مقاصد ان خالص اصولوں پر مشتمل ہے، جن پر پاکستان کا دستور اساسی مبنی ہو گا:

جناب صدرمجلس، تحریک پیش ہے:

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

چونکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور اسی نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے،

لہٰذا  --

  •                             جمہور پاکستان کی نمایندہ یہ مجلس دستور ساز فیصلہ کرتی ہے ،کہ آزاد اور خود مختار مملکت پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کیا جائے۔
  •                            جس کی رو سے مملکت تمام حقوق و اختیاراتِ حکمرانی، عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے۔
  •                           جس میں اصول جمہوریت و حریت، مساوات و رواداری اور سماجی عدل کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
  •                          جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے، کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔
  •                              جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے، کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہبوں پر عقیدہ رکھ سکیں، اور ان پر عمل کر سکیں، اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔
  •                              جس کی رو سے وہ علاقے جو اب پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو گئے ہیں، اور ایسے دیگر علاقے جو آیندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں ایک وفاق بنائیں، جس کے ارکان مقرر کردہ حدود اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خود مختار ہوں۔
  •                                جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے، اور ان حقوق میں قانون و اخلاق عامہ کے ماتحت مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور ارتباط [میل جول اور باہمی تعلق] کی آزادی شامل ہو۔
  •                                جس کی رو سے اقلیتوں اور پس ماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے۔
  •                                جس کی رو سے عدلیہ کی آزادی مکمل طور پر محفوظ ہو۔
  •                                جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی حفاظت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا  جن میں اس کے بر و بحر اور فضا پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔

                تاکہ ____

                                اہل پاکستان فلاح اور خوش حالی کی زندگی بسر کر سکیں، اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امن عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود میں کماحقہ اضافہ کر سکیں۔


جناب والا، میں اس موقعے کو ملک کی زندگی میں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اہمیت کے اعتبار سے صرف حصول آزادی کا واقعہ ہی اس سے بلند تر ہے، کیونکہ حصول آزادی سے ہی ہمیں اس بات کا موقع ملا ،کہ ہم ایک مملکت کی تعمیر اور اس کے نظام سیاست کی تشکیل اپنے نصب العین کے مطابق کر سکیں۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ باباے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اس مسئلے کے متعلق اپنے خیالات کا متعدد موقعوں پر اظہار فرمایاتھا ،اور قوم نے ان کے خیالات کی غیرمبہم(unmistakable) الفاظ میں تائید کی تھی۔

پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ اس برصغیر کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے، کہ آج حیات انسانی کو جو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے صرف اسلام ہی اکسیر اعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ انسان اپنی مادی ترقی کے ساتھ قدم نہ بڑھا سکا، اور انسانی دماغ نے سائنسی ایجادات کی شکل میں جو خود ساختہ بھوت(Frankenstein Monster) اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے، اب اس سے نہ صرف انسانی معاشرے کے سارے نظام اور اس کے مادی ماحول کی تباہی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، بلکہ اس مسکن خاکی کے بھی تباہ و برباد ہونے کا اندیشہ ہے، کہ جس پر انسان آباد ہے۔

یہ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے: اگر انسان نے زندگی کی روحانی قدروں کو نظر انداز نہ کیا ہوتا، اور اگر اﷲ تعالیٰ کے وجود پر اس کا ایمان کمزور نہ ہو گیا ہوتا، تو اس سائنسی ترقی سے خود اس کی ہستی ہرگز خطرے میں نہ پڑتی۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ وجود باری تعالیٰ کا احساس ہی انسانیت کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ جس کا منشا یہ ہے کہ انسان کو جو قوتیں حاصل ہیں، ان سب کو ایسے اخلاقی معیارات کے مطابق استعمال کرنا لازمی ہے، جو وحی الٰہی سے فیض یاب ہونے والے ان معلّموں نے متعین کر دیے ہیں، جنھیںہم مختلف مذاہب کے جلیل القدر پیغمبر مانتے ہیں۔ ہم پاکستانی ہوتے ہوئے اس بات پر شرمندہ نہیں ہیں، کہ ہماری غالب اکثریت مسلمان ہے، اور ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم اپنے ایمان اور نصب العین پر قائم رہ کر ہی دنیا کے فوز و فلاح میں حقیقی اضافہ کر سکتے ہیں۔

جناب والا، آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس قرارداد کی تمہید میں صاف اور صریح الفاظ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے، کہ تمام اختیار اور اقتدار کا ذات الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ یہ نظریہ مغربی حکیم میکیاولی کے خیالات کے بالکل برعکس ہے، جس کا تصور مملکت یہ ہے کہ:

spiritual and ethical values should play no part in the governance of the people

(نظام سیاست و حکومت میں روحانی اور اخلاقی قدروں کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔)

اس لیے شاید اس بات کا خیال بھی رواج کے کسی قدر خلاف ہی سمجھا جاتا ہے کہ مملکت کے وجود کو خیر کا آلہ ہونا چاہیے، نہ کہ شر (evil) کا۔ لیکن ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمان موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام(انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔ تمام تر اقتدار ایک مقدس امانت ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اس لیے تفویض (delegate) ہوا ہے، کہ ہم اسے بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے استعمال کریں، تاکہ یہ امانت ظلم و تشدد اور خود غرضی کا آلہ نہ بن کر رہ جائے۔

بہرصورت میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں ،کہ اس سے ہماری ہرگز ہرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہم حکمرانوں اور بادشاہوں کے ’ظل الٰہی‘ (Divine Right of Kings) ہونے کے ازکار رفتہ نظریے کو پھر سے زندہ کریں۔ کیونکہ اسلامی جذبے کے تحت قرارداد کی تمہید میں اس حقیقت کو   کلی طور پر تسلیم کیا گیا ہے، کہ اﷲ تعالیٰ نے اختیارات سواے عوام (people) کے کسی اور کو تفویض نہیں کیے۔ اور اس کا فیصلہ خود عوام ہی کو کرنا ہو گا، کہ یہ اقتدار کن لوگوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔

اسی لیے قرارداد میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ ’مملکت تمام حقوق و اختیارات حکمرانی کو عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی‘۔ یہی جمہوریت کا نچوڑ (essence) ہے، کیونکہ عوام ہی کو ان اختیارات کے استعمال کا مجاز ٹھیرایا گیا ہے۔

میں نے ابھی یہ عرض کیا تھا کہ:’ اختیارات کے حقیقی حامل عوام ہیں‘۔ چنانچہ اس راستے کو اختیار کرنے سے قدرتی طور پر ’تھیاکریسی ‘ (Theocracy) کے قیام کا خدشہ جاتا رہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ’تھیاکریسی ‘ کے لغوی معنی ’خدا کی حکومت‘ ہیں اور اس اعتبار سے تو پوری کائنات ہی ’تھیاکریسی ‘ قرار پاتی ہے۔ کیونکہ اس پوری کائنات کا کون سا گوشہ ایسا ہے، جہاں اﷲ تعالیٰ کو قدرت حاصل نہیں ہے؟ لیکن [علم سیاسیات کے] اصطلاحی معنوں میں تھیاکریسی ’برگزیدہ پادریوں کی حکومت‘ کو کہتے ہیں، جو محض اس بنا پر اختیار رکھتے ہوں کہ وہ ایسے اہل تقدس کی طرف سے خاص طور پر مقرر کیے گئے ہیں، جو اپنے مقام قدس کے اعتبار سے ان حقوق کے دعوے دار ہیں۔ اس کے برعکس میں اس امر پر جتنا بھی زیادہ زور دوں کم ہو گا، کہ اسلام میں اس تصورحکمرانی کی ہرگز کوئی گنجایش اور کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام، پاپائیت (Priesthood) یا کسی بھی حکومت مشائخ (Sacerdotal Authority) کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام میں ’تھیاکریسی ‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ اگر کوئی شخص اب بھی پاکستان کے نظام حکومت کے ضمن میں ’تھیاکریسی ‘ کا ذکر کرتا ہے، تووہ یا کسی شدید غلط فہمی شکار ہے یا پھر دانستہ طور پر شرارت آمیزی سے ہمیں بدنام کرنا چاہتاہے۔

جناب والا، اب میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتا ہوں، کہ قرارداد مقاصد میں جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری، اور سماجی عدل کے اصولوں پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی مزید صراحت یہ کی گئی ہے کہ دستور مملکت میں ان اصولوں کو اس تشریح کے مطابق ملحوظِ نظر رکھا جائے، جو وضاحت اسلام نے ان الفاظ کی بیان کی ہے۔ ان الفاظ کی صراحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ (الفاظ) بالعموم مبہم طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مغربی طاقتیں اور اشتراکی روس دونوں اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ان کے نظام حکومت جمہوریت پر مبنی ہیں‘ --- لیکن ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ دونوں نظام کس قدر مختلف ہیں۔ اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا ہے، کہ ان الفاظ کے مفہوم کا تعین کر دیا جائے، تاکہ ہر شخص کے ذہن میںان کا واضح مفہوم آجائے۔

جس وقت ہم ’جمہوریت‘ کا لفظ اس کے اسلامی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے، کہ جمہوریت ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے اور اس کا اطلاق جتنا ہمارے نظام حکومت پر ہے، اتنا ہی ہمارے معاشرے پر بھی ہے۔ کیونکہ اسلام نے دنیا کو جن  عظیم الشان صفات سے مالا مال کیا ہے، ان میں سے ایک صفت عام انسانوں کی مساوات بھی ہے۔ اسلام، نسل، رنگ اور نسب کے امتیازات (discrimination) کو کبھی اور کسی سطح پر بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اسلامی تواریخ کا یہ روشن باب ہے کہ انحطاط کے دور (decadence) میں بھی مسلم معاشرہ رنگ و نسل کے اُن تعصبات سے نمایاں طور پر پاک رہا ہے، جنھوں نے دنیا کے دوسرے انسانوں کے باہمی تعلقات کو زہر آلود کر دیا تھا۔

اسی طرح ہماری اسلامی تہذیب میں رواداری (tolerance) کی روایات بھی عظیم الشان ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ازمنہ وسطیٰ میں اقلیتوں کو کسی نظام حکومت کے تحت وہ مراعات حاصل نہیں ہوئیں، جو مسلمان ملکوں میں انھیں حاصل تھیں۔ جس زمانے میں کلیسا (church) سے اختلاف رکھنے والے مسیحیوں اور مسلمانوں کو [ہولناک] اذیتیں دی جاتی تھیں، اور انھیں گھروں سے نکالا جاتا تھا اور پھر جب انھیں جانوروں کی طرح شکار کیا جاتا تھا اور مجرم قرار دے کر زندہ جلا دیا جاتا تھا، اُنھی دنوں اسلام ان سب [مظلوموں، زیردستوں اور مقہوروں] کا ضامن اور پناہ گاہ ثابت ہوا کرتا تھا، کہ جنھیں مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اور جو تنگ آ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ زندہ جلانے کا تو تصور تک اسلام میں کبھی نہیںآیا۔

تاریخ کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ جب’ سامیوں سے نفرت‘(anti-semitism) کے تحت بہت سے یہودیوں کو یورپ کے ممالک سے نکال دیا گیا، تو یہ سلطنت عثمانیہ تھی جس نے کھلے دل سے انھیں اپنے ہاں پناہ (shelter)دی تھی۔ مسلمانوں کی رواداری کا سب سے شان دار ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی مسلم ملک ایسا نہیں جہاں اقلیتیں کافی تعداد میں موجود نہ ہوں، اور جہاں وہ اپنے مذہب اور ثقافت کو برقرار نہ رکھے ہوئے ہوں۔ سب سے زیادہ ہندستان کے اس برصغیر میں جہاں کبھی مسلمانوں کو لامحددود اختیارات حکمرانی حاصل تھے، غیر مسلموں کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا گیا اور ہمیشہ ان کا تحفظ کیا گیا۔

میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں، کہ مسلمانوں ہی کی سرپرستی میں ہندستان کی بہت سی مقامی زبانوں کو ترقی اور فروغ حاصل ہوا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے میرے دوستوں کو یاد ہو گا کہ یہ صرف مسلمان حکمرانوںہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا، کہ سب سے پہلے ہندوؤں کی مقدس کتابوں (scriptures)کا ترجمہ سنسکرت سے بنگالی میں کیا گیا۔ یہی وہ رواداری ہے جس کا تصور اسلام نے ہمیشہ پیش کیا ہے، اور جس میں اقلیتیں ذلت و رسوائی کی حالت میں نہیں رہتیں، بلکہ باعزت طریقے پر زندگی بسر کرتی ہیں۔ انھیں اپنے نظریات اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کے مواقع دیے جاتے ہیں، تاکہ وہ پوری قوم کی عظمت میں اضافہ کر سکیں۔

جہاں تک سماجی عدل (social justice) کا تعلق ہے، جناب محترم، میںیہ کہوں گا کہ اسلام اس میںشان دار اضافہ کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کے قیام کا حامی ہے، جس میں سماجی عدل کا تصور نہ تو بھیک اور خیرات پر مبنی ہے اور نہ ذات پات (اور رنگ و نسل) کی کسی تمیز پر موقوف ہے۔ اسلام جو سماجی عدل قائم کرنا چاہتا ہے، وہ ان بنیادی ضابطوں اور تصوارت پر مبنی ہے، جو انسان کی زندگی کو دوسروں کی محتاجی سے پاک رکھنے کے ضامن ہیں، اور جو آزادی و حریت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ (قرارداد میں) جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کی ایسی تعریف کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے خیال کے مطابق ان الفاظ کے عام معانی کی بہ نسبت زیادہ گہرے اور وسیع تر معانی پیدا ہوگئے ہیں۔

قرارداد مقاصد کی اس دفعہ کے بعد یہ درج ہے، کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ  وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔ یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ اگر مسلمان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنا لے، تواس پر اصولی طور پر ہمارے کسی غیر مسلم بھائی کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

جناب والا، آپ اس امر کو بھی مدنظر رکھیں، کہ حکومت ایک غیر جانب دار تماشائی کی حیثیت سے اس بات پر اکتفا نہیں کرے گی، کہ مسلمانوں کو اس مملکت میں صرف اپنے دین (مذہب) کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ کیونکہ حکومت کے اس طرز عمل سے ان مقاصد کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی، جو مطالبہ پاکستان کے بنیادی محرک تھے۔ حالانکہ یہی مقاصد تو اس مملکت کا سنگ بنیادہونے چاہییں، جسے ہم تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مملکت ایک ایسا ماحول پیدا کرے گی، جو ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تعمیر میں ممد و معاون ثابت ہو گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مملکت پاکستان کو اپنی کوشش و کاوش میں مثبت پہلو اختیار کرنا ہو گا۔

جناب والا، آپ کو یاد ہو گا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مسلم لیگ کے دوسرے مرکزی رہنماؤں نے ہمیشہ یہ بڑے واضح او ر غیر مبہم اعلانات (uniquivocal declarations) کیے ہیںکہ: ’پاکستان کے قیام کے لیے مسلمانوں کا مطالبہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کے ہاں اپنے ’طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق‘ (way of life and code of conduct) موجود ہیں‘۔ انھوں نے بارہا اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا نجی تعلق قائم ہو، جسے مملکت کے کاروبار(working of the state) میں کسی قسم کا دخل نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسلام سماجی اخلاق کے متعلق معاشرے کے طرز عمل کی رہنمائی کرتا ہے۔اسلام محض ذاتی عقائد اور انفرادی اخلاق کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ماننے والوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں، جس کا مقصد حیات صالح (good life) ہو۔ اہل یونان کے برعکس اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کی بنیادلازمی طور پر روحانی قدروں پہ قائم ہے۔

ان اقدار کو اہمیت دینے اور انھیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقے پر ہم نوائی کرے، کہ جس سے ایک ایسا نیا سماجی نظام (social order) قائم ہو جائے، جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایک ایسا سماجی نظام کہ جس میں جمہوریت، حریت، رواداری اور سماجی عدل شامل ہیں۔ ان امور کا ذکر تو میں نے محض بطورمثال کیا ہے، کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہیں، محض اسی بات پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیںہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اﷲ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمے ہیں۔ ان سرچشموں کے متعلق مسلمانوں میں کوئی اختلاف راے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی ایسا مکتب فکر نہیں، جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔

لہٰذا، کسی بھی ایسے فرقے کو جو پاکستان میں اقلیت میں ہو، اس مملکت کی نیت (intention) کی طرف سے اپنے دل میں کوئی غلط فہمی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ مملکت ایک ایسا اسلامی معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گی، جو باہمی تنازعات سے پاک ہو۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اعتقادات کے معاملے میں وہ مسلمانوں کے کسی مکتب فکر کی آزادی کو سلب کرے گی۔ کسی مکتب فکر کو خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، یہ اجازت نہیں ہو گی کہ دوسروں کو اپنا حکم قبول کرنے پر   مجبور کرے، بلکہ اپنے اندرونی معاملات اور فرقہ وارانہ اعتقادات میں تمام فرقوں کے لیے   وسعت خیال و عمل کا اہتمام ہوگا اور کامل آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ درحقیقت ہمیں یہ امید ہے کہ مختلف مکاتب فکر اُس منشا کے مطابق عمل کریں گے، جو اس حدیث نبویؐ میں مذکور ہے: ’میری اُمت [کے لوگوں ]میں اختلاف راے ایک رحمت ہے‘۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے اس ]فطری[ اختلاف کو اسلام اور پاکستان کے لیے باعث استحکام بنائیں اور چھوٹے موٹے مفادات کے لیے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، کیونکہ اس طرح پاکستان اور اسلام دونوں کمزور ہو جائیں گے۔ بسا اوقات اختلافات راے ہم آہنگی اور ترقی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب راے کے اختلافات میں اس امر کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ہمارے حقیقی نصب العین کو جو اسلام کی خدمت اور اس کے مقاصد کو ترقی دیتا ہے، اسے نظروں سے اوجھل کر دیں۔ پس ظاہر ہے کہ قرارداد میں اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرنے کی سہولت دی جائے، جس کی تجربہ گاہ (laboratory) میں وہ دنیا کو عمل کر کے دکھا سکیں، کہ اسلام دنیا میں نہ صرف ایک متحرک اور ترقی پسند طاقت ہے، بلکہ وہ ان گوناگوں خرابیوں کا علاج بھی مہیا کرتا ہے، جن میں آج نوع انسانی مبتلا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو اپنی پستی اور محکومی کے طویل دور میں ہمیشہ اس قسم کے موقع کی تلاش رہی ہے۔

ایک اسلامی معاشرہ تعمیر کرنے کے مقصد میں ہم نے غیر مسلموں کے حقوق کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اگر ہم اقلیتوں کی آزادی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے تو یہ ایک غیراسلامی فعل ہوتا، اور ایسا کر کے ہم یقینا اپنے دینی احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے۔ اقلیتوں کو    اپنے اپنے مذہب پر چلنے، اس کی حفاظت کرنے یا اپنی ثقافت کو فروغ دینے سے کسی طرح روکا نہیں جائے گا۔ اسلامی ثقافت کے نشوونما کی تاریخ بتاتی ہے، کہ مسلمان حکومتوں اور سلطنتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والی اقلیتوں کی ثقافتیں اس دولت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوئی ہیں، جسے مسلمانوں نے بطور وراثت حاصل کر کے فروغ دیا ہے۔میں اقلیتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ اگر اقلیتیں انسانی علم و فکر کی دولت میں اضافہ کر سکنے کے قابل ہوں گی، تو یہ امر پاکستان کی نیک نامی میں چار چاند لگائے گا اور اس سے قوم کی زندگی اور توانائی میں   قابل قدر اضافہ ہو گا۔ اس لیے اقلیتوں کو نہ صرف مکمل آزادی کی توقع کرنی چاہیے، بلکہ یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ اکثریت ان کے ساتھ قدر دانی اور احترام کا وہی برتاؤ کرے گی، جو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔

جناب والا، قرارداد کے مطابق طرز حکومت وفاقی ہونا چاہیے، کیونکہ جغرافیائی حالات اسی قسم کی طرز حکومت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس صورت میں، جب کہ ہمارے ملک کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل سے بھی زیادہ فاصلہ موجود ہے۔مجلس دستور ساز، ان جغرافیائی وحدتوں کو ایک دوسرے سے قریب تر لانے اور بہتر رابطے پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی، جن سے ہماری قوم پوری طرح متحد و منظم بن جائے۔ بلاشبہہ میں نے ہمیشہ صوبہ پرستی کے جذبات کو بھڑکانے کی کوششوں کی سخت مخالفت کی ہے، مگر میں اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں، کہ میں غیر منصفانہ یکسانیت کا حامی بھی نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جن علاقوں اور جغرافیائی اکائیوں پر پاکستان مشتمل ہے، ان سب کو ہماری قومی زندگی کی خوبیاں بڑھانے میں حصہ لینا چاہیے۔ لیکن میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں کسی ایسی بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے، کہ جو کسی طرح بھی پاکستان کی قومی وحدت کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنے۔ ہم آبادی کے مختلف طبقوں کے موجودہ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کا بندوبست کرنے کا پختہ عزم و ارادہ رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مجلس دستور ساز کو اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنا ہو گا، کہ کون سے امور مرکز کے تحت ہونے چاہییں اور کون سے امور صوبوں کے پاس رہیں؟ -- مزید یہ کہ ہمارے نئے نظام میں صو بوں کا تعین کس طرح کیا جائے؟

صدر محترم، بعض بنیادی حقوق کے تحفظ کا یقین دلانا بھی ایک رسمی سی بات ہو گئی ہے۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم ایک ہاتھ سے حقوق دیں اور دوسرے ہاتھ سے انھیں واپس لے لیں۔ میں اس بات کے ثبوت میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں، کہ ہم حقیقی معنوں میں ایک آزاد رو حکومت بنانا چاہتے ہیں، جس کے تمام ارکان کو زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل ہو گی۔ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے، کہ ان فرقوں کے شخصی قانون (personal law) کا تحفظ نہیں کیا جائے گا۔ قانون، حیثیت اور انصاف کے معاملے میں مساوات ہماراعقیدہ ہے۔

یہ ہمارا پختہ یقین ہے اور ہم نے اکثر جگہ اس کا اعلان کیا ہے، کہ پاکستان مفاد پرستوں اور مال دار طبقوں کی ہوس زر کے لیے نہیں بنا ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر ایک منصفانہ معاشی نظام تعمیر کرنا ہمارا مقصد ہے۔ کیونکہ یہ اصول دولت کی بہتر تقسیم میں اور ناداری کو ختم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اپنے عروج و کمال پر پہنچنے میں جو وجوہ انسانیت کی راہ میں مانع ہیں، وہ افلاس اور پس ماندگی ہیں، اور پاکستان سے ہم (ان شاء اﷲ) ان کو مٹا کر چھوڑیں گے۔ اس وقت ہمارے عوام غریب و ناخواندہ اور ان پڑھ ہیں، چنانچہ ہمیں ضرور ان کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ انھیں افلاس اور جہالت کی زنجیروں سے ضرور آزاد کرانا ہے۔

جہاں تک سیاسی حقوق کا تعلق ہے، تو اس ضمن میںحکومت کی اجتماعی حکمت عملی کے تعین میں اور ان لوگوں کے انتخاب میں ہر شخص کو دخل ہو گا، جو حکومت چلانے کے لیے منتخب کیے جائیں گے، تاکہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں حکومت کا نظم و نسق ہو، وہ مفاد عامہ کا خیال رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ چونکہ ہمیں یہ یقین ہے کہ خیالات کے اظہار پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ کسی شخص کو اس کے خیالات کے اظہار سے باز رکھیں۔ نہ ہم کسی کو جائزقانونی اور اخلاقی مقاصد کے پیش نظر عوامی رابطے اور انجمن سازی سے روکنا چاہتے ہیں۔  مختصر یہ کہ ہم اپنے نظام حکومت کی بنیاد آزادی، ترقی اور سماجی عدل پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سماجی عدمِ توازن کو اس طریقے سے ختم کرناچاہتے ہیں، کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے اور انسانی خیالات اور جائز رجحانات پر بھی پابندیاں عائد نہ ہوں۔

جناب والا، اقلیتوں کے بہت سے مفادات ایسے ہیں جن کا وہ بجا طور پرتحفظ چاہتے ہیں۔ یہ قرارداد ان حقوق کے برملا تحفظ کی ضامن ہے۔ ہماری خصوصی ذمہ داری معاشی اعتبار سے پس ماندہ لوگوں کی دست گیری سے منسوب ہے۔ ہم اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ   وہ بغیر کسی قصور کے اپنی موجودہ قابل رحم حالت میں مبتلا ہیں۔ پھریہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ان    ہم وطنوں کی اس معاشی زبوں حالی تک پہنچنے کے کسی طرح بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ہمارے شہری ہیں، اس لیے ہماری خاص طور پر یہ کوشش ہو گی، کہ ہم انھیں دوسرے آسودہ حال شہریوں کے دوش بدوش لے آئیں، تاکہ وہ ان ذمہ داریوں کو سنبھال سکیں، جو ایک آزاد اور ترقی پسند مملکت کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب تک ہمارے عوام میں پس ماندہ طبقے موجود ہیں، ہمارے معاشرے کی ترقی کی رفتار سست رہے گی۔ لہٰذا، مملکت کی تعمیر کے لیے یہ ضروری ہے ،کہ ہم ان پس ماندہ اور زیردست طبقوں کے بنیادی، معاشی اور سماجی مفادات کو ملحوظ رکھیں۔

آخر میں، میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں اور ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہم پاکستان کی بنیادیں ان اصولوں پر قائم کر کے، جن کی وضاحت کی گئی ہے، اس مملکت کو ترقی کی راہ پر ڈال دیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے گا، جس کے باشندے بلا تمیز عقیدہ و حیثیت اس پر فخر کیا کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے عوام بڑی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ اپنی بے بہا قربانیوں اور اس قابل تعریف نظم وضبط کی بدولت جس کا مظاہرہ انھوں نے ایک ابتلائی اور تاریک دور میں کیا ہے، وہ تمام دنیا سے خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی قوم نہ صرف زندہ رہنے کی مستحق ہے، بلکہ وہ انسانیت کی فلاح اور ترقی میں بھی لازمی طور پر اضافہ کرے گی۔ یہ ضروری ہے کہ ہماری قوم اپنے جذبۂ قربانی کو زندہ رکھے اور اپنے اعلیٰ نصب العین پر قائم رہے۔ پھر قدرت خود اسے اس بلند مقام پر پہنچا دے گی، جو دُنیاوی امور کی انجام دہی کے سلسلے میں اس کے لیے موزوں ہے، اور اسے انسانیت کی تاریخ میں زندہ جاوید بنا دے گی۔

جناب والا، یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ شان دار کارناموں سے بھرپور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے فوجی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارکان    نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں، جو زمانے کی دست برد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون، شعر و شاعری، فن تعمیر اور جمالیاتی ذوق نے دنیا بھر سے خراج تحسین وصول کیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہی قوم راہ عمل پر گام زن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آ جائیں تو وہ اپنی شان دار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات سے بھی بہتر کام کر دکھائے گی --- قرارداد مقاصد اس ماحول کو پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے، جس سے قوم کی روح پھر سے بیدار ہو جائے گی۔

اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کوقوم کی اس نشاتِ ثانیہ کے زبردست عمل میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا ہے، خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم کیوں نہ ہو۔ ہم ان زبردست اور گونا گوں مواقع سے، جو آج ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور    دُور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں۔ مجھے اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں، کہ اﷲ کے فضل و کرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائم ہوا ہے، ہماری یہ کوششیں ہماری بڑی سے بڑی توقعات سے   بڑھ چڑھ کر بار آور ثابت ہوں گی۔

بڑی قوموں کو اپنی میراث روز روز نہیں ملتی۔ قوموں کی نشاتِ ثانیہ کا دروازہ ہر روز نہیں کھلتا۔ قدرت ہر روز مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انھیں شان دار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر ظاہر ہو کر طلوع ہونے والے روز روشن کا پیش خیمہ بن رہی ہیں اور ہم اس طلوع کا اس قرارداد کی شکل میں خیر مقدم کرتے ہیں۔

__ ۲ __

مولانا شبیر احمد عثمانی

جناب صدر محترم!

قرار داد مقاصد کے اعتبارسے جو مقدس اور محتاط تجویز آنریبل مسٹر لیاقت علی خاں صاحب نے ایوان ہذا کے سامنے پیش کی ہے، میں نہ صرف اس کی تائید کرتا ہوں، بلکہ آج اس بیسویںصدی میں (جب کہ ملحدانہ نظریات حیات کی شدید کش مکش اپنے عروچ پر پہنچ چکی ہے) ایسی چیز کے پیش کرنے پر موصوف کی عزم و ہمت اور جرأت ایمانی کو مبارک باد دیتا ہوں۔

اگر غور کیا جائے تو یہ مبارک باد فی الحقیقت میری ذات کی طرف سے نہیں، بلکہ اس پسی ہوئی اور کچلی ہوئی روح انسانیت کی جانب سے ہے، جو خالص مادہ پرست طاقتوں کی حریفانہ حرص و آز اور رقیبانہ ہوس ناکیوں کے میدانِ کارزار میں مدتوں سے پڑی کراہ رہی ہے۔ اس کے کراہنے کی آوازیں اس قدر درد انگیز ہیں کہ بعض اوقات اس کے سنگ دل قاتل بھی گھبرا اٹھتے ہیں، اور اپنی جارحانہ حرکات پر نادم ہوکر تھوڑی دیر کے لیے مداوا تلاش کرنے لگتے ہیں۔ مگر پھر علاج و دوا کی جستجو میں وہ اس لیے ناکام رہتے ہیں، کہ جو مرض کا اصل سبب ہے اسی کو دوا اور اکسیر سے سوا سمجھ لیا جاتا ہے۔

یاد رکھیے، دنیا اپنے خود ساختہ اصولوں کے جس جال میں پھنس چکی ہے، اس سے نکلنے کے لیے جس قدر پھڑ پھڑائے گی، اسی قدر جال کے حلقوں کی گرفت اور زیادہ سخت ہوتی جائے گی۔ وہ صحیح راستہ گم کر چکی ہے۔ جو راستہ اب اختیار کررکھا ہے، اس پر جتنے زور سے بھاگے گی، وہ حقیقی فوزو فلاح کی منزل سے دور ہی ہوتی چلی جائے گی۔

ہمیں اپنے نظام حیات کو درست اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا انجن جس لائن پر اندھا دھند چلا جا رہا ہے اسے تبدیل کریں، اور جس طرح بعض دفعہ لائن تبدیل کرتے وقت گاڑی کو کچھ پیچھے ہٹانا پڑتا ہے، ایسے ہی صحیح لائن پرآگے بڑھنے کی غرض سے ہم کو پیچھے ہٹنا پڑے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر ایک شخص کسی راستے پر بے تحاشا دوڑ رہا ہے اور ہم دیکھیں کہ چند قدم آگے بڑھنے پر وہ کسی ہلاکت کے غار میں جا پڑے گا تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ اسے ادھر سے پیچھے ہٹاکر صاف اور سیدھی شاہراہ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ یہی حال آج دُنیا کا ہے۔ اگر ہماری اس نئی اور بے چین دنیا کو اپنے تباہ کن مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، تو اسے حالات کا بالکل جڑ بنیاد سے از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ کسی درخت کی شاخوں اورپتوں پر پانی چھڑکتے رہنا    بے کار ہے، اگر اس کی جڑ جوسیکڑوں من مٹی کے نیچے دبی ہوئی ہے مضبوط نہ ہو۔

آج کے بہت سے بکھرے ہوئے مسائل خواہ ان سے آپ کو کتنی ہی دل چسپی اور شغف کیوں نہ ہو، کبھی ٹھیک طور پر سنور اور سلجھ نہیں سکتے، جب تک ان کے اصول بلکہ اصل الاصول درست نہ ہو جائے۔ ’قدامت پرستی‘ اور ’رجعت پسندی‘ کے طعنوں سے نہ گھبرائیے،بلکہ کشادہ دل و دماغ کے ساتھ، ایک متجسّسِ حق کی طرح الجھی ہوئی ڈور کا سرا پکڑنے کی کوشش کیجیے۔ جو باتیں طاقت ور اور ذی اقتدار قوموں کے زبردست پروپیگنڈے یا غیر شعوری طور پر ان کے حاکمانہ اقتدار اور مسحور کن مادی ترقیات کے زور و اثر سے بطور مسلمات عامہ، اصول موضوعہ اور مفروع عنہا صداقتوں کے [طور پر] تسلیم کرلی گئی ہیں، انھی پر تجدید فکر و نظر کی ضرورت ہے۔ اس پکے ارادے کے ساتھ کہ جس چیز پر ہم صدیوں کی کاوشوں کے نتیجے میں اعتقاد جمائے بیٹھے تھے، وضوح حق [یعنی اظہار حق] کے بعد ایک لمحے کے لیے اس پر قائم رہنا ہم جرم عظیم سمجھیں گے۔ اگر دنیا کو انسانیت کی حقیقی فلاح کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا ہے، تو اُسے اُن قدیم اور اٹل نظریات پر ضرور غور کرنا ہوگا، جنھیں مادی اور معاشی مسابقت کی بے تحاشا دوڑ میں بہت سی قومیں پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔

اسے یوں خیال کیجیے کہ کتنی صدیوں تک سکون ارض کے متعلق بطلیموس کا نظریہ ۱- دُنیا پر مستولی رہا اور فیثا غورث کی آواز پر کسی نے توجہ نہ کی۔۲- پھر ایک وقت آیا کہ ہزاروں من مٹی کے نیچے دبا ہوا وہ بیج جو فیثا غورث دبا گیا تھا، زمین کے سینے کو چاک کرکے باہر نکلا اور برگ و بار لا کر رہا۔ سچائی کا پرستار کبھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ کسی زمانے میں یا طویل عرصے تک لوگ اس کے ماننے سے آنکھیں چرائیں گے، یا ناک بھوں چڑھائیں گے۔ حق اکیلا رہ کر بھی حق ہی رہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا، کہ جب اس کے جھٹلانے والے زمانے کے دھکے مکے کھاکر اسی کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ آج وہ دن قریب آرہا ہے اور جیسا کہ آنریبل جناب لیاقت علی خاں نے فرمایا:’روشنی کی کرنیںاُفق پر ظاہر ہو کر طلوع ہونے والے روز روشن کا پیش خیمہ بن رہی ہیں‘۔

ضرورت ہے کہ ہم اپنے کو خفاش [چمگاڈر] صفت ثابت نہ کریں، جو دن کی روشنی کو دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتی۔ پاکستان، مادیت کے بھنور میں پھنسی ہوئی اور دہریت و الحاد کے اندھیروں میں بھٹکی ہوئی دنیا کو روشنی کا ایک مینار دکھانا چاہتا ہے۔ یہ دنیا کے لیے کوئی چیلنج نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے پر امن پیغام حیات و نجات ہے اور اطمینان اور خوش حالی کی راہ تلاش کرنے والوں کے لیے سہولت مہیا کرتا ہے۔ ہمارا غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ دنیا کے لیے عموماً اور پاکستان کے لیے خصوصاً کسی قسم کا نظام تجویز کرنے سے پہلے پوری قطعیت کے ساتھ یہ جان لیناضروری ہے کہ، اس تمام کائنات کا جس میں ہم سب اور ہماری یہ مملکت بھی شامل ہے، مالک اصلی اور حاکم حقیقی کون ہے؟ اور ہے یا نہیں؟

اب اگر ہم اس کا مالک کسی خالق الکل اور مقتدر اعلیٰ ہستی کو مانتے ہیں، جیسا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس ایوان کے تمام ارکان و اعضا کا یہ عقیدہ ہوگا، تو ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا ناگزیر ہوگا کہ کسی مالک کی خصوصاً اس مالک علی الاطلاق کی مِلک میں ہم اسی حد تک تصرف کرنے کے مجاز ہیں، جہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے ہمیں اجازت دے دے۔ ملکِ غیر میں کوئی غاصبانہ تصرف ہمارے لیے جائز نہیں ہوسکتا۔ پھر ظاہر ہے کہ کسی مالک کی اجازت و مرضی کا علم اس کے بتلانے ہی سے ہو سکتا ہے۔ سو، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہم السلام اسی لیے بھیجے، اوروحی ربانی کا سلسلہ اسی لیے قائم کیا، کہ انسانوں کو اس کی مرضی اور اجازت کے صحیح حدود معلوم کرا دیے جائیں۔ اسی نکتۂ خیال کے پیش نظر ریزولیوشن میں: ’اسی کے مقرر کردہ حدود کے اندر‘ کے الفاظ رکھے گئے ہیں اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے دینی اور خالص مادی حکومتوں کی لائنیں ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہیں۔

یہ نظریہ کہ:’ دین و مذہب کا تعلق انسان اور اس کے مالک سے ہے، بندوں کے باہمی معاملات سے اسے کچھ سروکار نہیں، نہ سیاست میں اس کا کوئی دخل ہے‘۔ اسلام نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ممکن ہے دوسرے مذاہب جو آج کل دنیا میں موجود ہیں، ان کے نزدیک یہ نظریہ درست ہو اور وہ خود کسی جامع و حاوی نظام حیات سے تہی دامن ہوں، مگر جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ایسے تصور کی اس میں کوئی گنجایش نہیں، بلکہ اس کی تمام تر تعلیمات اس باطل تصور کی دشمن ہیں۔

قائد اعظم مرحوم نے ۱۷ ستمبر ۱۹۴۴ء کوگاندھی جی کے نام جو خط لکھا تھا، اس میں لکھتے ہیں:

قرآن، مسلمانوں کا مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی، غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، دنیوی زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک، ہر فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا، جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات و مابعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔

۱۹۴۵ء میں قائداعظم مرحوم نے عید کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ:

ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی تعلیمات محض عبادات اور اخلاقیات تک محدود نہیں، بلکہ قرآن کریم مسلمانوں کا دین و ایمان اور قانون حیات ہے، یعنی مذہبی، معاشرتی، تجارتی، تمدنی، عسکری، عدالتی اور تعزیری احکام کا مجموعہ ہے۔ ہمارے رسول ؐ کا ہم کو یہ حکم ہے کہ ہر مسلمان کے پاس اللہ کے کلام پاک کا ایک نسخہ ضرور ہو اور وہ اس کا بغورمطالعہ کرے، تاکہ یہ اس کی انفرادی و اجتماعی ہدایات کا باعث ہو۔

قائداعظم نے ان خیالات وعزائم کا بار باراظہار کیا ہے۔ کیا ایسی واضح اور مکرر تصریحات کے بعد کوئی شخص یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ سیاست و حکومت، مذہب سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی، یا یہ کہ اگرآج قائداعظم زندہ ہوتے تو یہ ’قرار دادمقاصد‘ پیش نہیں ہوسکتی تھی۔

قرآن حکیم میں صاف صاف ارشاد ہے:

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً (النساء ۴:۶۵) نہیں، اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔

اور[قرآن کریم مزید یہ کہتا ہے]:

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o (المائدہ۵:۴۴) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں....الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ ۲:۲۲۹) وہی ظالم ہیں.... الْفٰسِقُوْنَ (البقرہ ۲:۹۹) جو فاسق ہیں۔

اس موقع پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں دینی حکومت کے معنی ’پاپائیت‘ یا ’کلیسائی حکومت‘ کے نہیں ہیں۔ بھلا جس بت کو قرآن نے اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ [انھوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ التوبہ ۹:۳۱]  کہہ کر توڑا ہے، کیا وہ اسی کی پرستش کو جائز رکھ سکتا ہے؟

اسلامی حکومت سے مراد وہ حکومت ہے، جو اسلام کے بتائے ہوئے اعلیٰ اور پاکیزہ اصول پر چلائی جائے۔ اس لحاظ سے وہ ایک خاص قسم کی اصولی حکومت ہوگی۔ ظاہر ہے کہ کسی اصولی حکومت کو چلانا خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی دراصل انھی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے، جو ان اصولوں کو مانتے ہوں۔ جو لوگ ان اصولوں کو نہیں مانتے، ایسی حکومت، انتظام مملکت میں ان کی خدمات تو ضرور حاصل کرسکتی ہے، مگر مملکت کی جنرل پالیسی یا کلیدی انتظام کی باگ ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑ سکتی۔

اسلامی حکومت دراصل نیابتی حکومت ہے۔ اصل حاکم خدا ہے۔ انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے، جو حکومت درحکومت کے اصول پر دوسرے مذہبی فرائض کی طرح نیابت کی ذمہ داریوں کو بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر پورا کرتا ہے۔

مکمل اسلامی حکومت، حکومت راشدہؓ ہوتی ہے۔ لفظ ’رشد‘ حکومت کے انتہائی اعلیٰ   معیارِ حسن و خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت، حکومت کے کارکن، اور مملکت کے عوام کو نیکوکار ہونا چاہیے۔ قرآن نے حکومتِ اسلامی کی یہی غرض و غایت قراردی ہے، کہ وہ انسانوں کو اپنے دائرۂ اقتدار میں نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔

اسلام آج کل کی سرمایہ پرستی کے خلاف ہے۔ اسلامی حکومت اپنے خاص طریقوں سے جو اشتراکی طریقوں سے الگ ہیں، جمع شدہ سرمایے کی مناسب تقسیم کا حکم دیتی ہے، اس کو دائر و سائر رکھنا چاہتی ہے۔ مگر اس کام کو اخلاقی، نیز قانونی طریقے پر عام خوش دلی، عدل، اور اعتدال کے ساتھ کرتی ہے۔ اسلامی حکومت شخصی ملکیت کی نفی نہیں کرتی۔ مناسب حد تک ’راس المال‘ رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ زائد سرمایے کے لیے ملّی بیت المال قائم کرتی ہے۔ جس میں سب کے حقوق مشترک ہیں اور اس سرمایے کی تقسیم سے سرمایے اور افلاس کے درمیان توازن اور اعتدال کو بحال رکھتی ہے۔

’شوریٰ‘ اسلامی حکومت کی اصل ہے: وَاَمْرُہُمْ شَوْرٰی بَیْنَہُمْ ص(الشورٰی ۴۲:۳۸)۔ اسلامی حکومت دنیا میں پہلا ادارہ ہے، جس نے شہنشاہیت کو ختم کرکے استصواب راے عامہ کا اصول جاری کیا، اور بادشاہ کی جگہ عوا م کے انتخاب کردہ امام (سربراہ ریاست ) کو حکومت عطا کی۔ محض توریث [وراثت] یا جبر و استبداد کے راستوں سے بادشاہ بن بیٹھنا اسلام کے منشا کے سراسر خلاف ہے۔ وہ جمہور کی مرضی اور انھی کے ہاتھوں سے اسٹیٹ کو اختیار دلاتا ہے۔ ہاں، انھیں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ امارت کی کوئی تنظیم نہ کریں اور اقتدار اپنے ہی پاس روک کر انتشار، ابتری اور طوائف الملوکی پھیلادیں۔ یہ اولیت کا ایسا شرف ہے، جو اسلامی حکومت کو دنیا کی تمام جمہوریتوں پر حاصل ہے۔

اسلامی سلطنت کا بلند ترین منتہاے خیال یہ ہے کہ سلطنت کی بنا جغرافیائی، نسلی، قومی، حرفتی، اور طبقاتی قیود سے بالا تر ہو کر انسانیت اور ان اعلیٰ اصولوں پر ہو، جن کی تشیید و ترویج کے لیے وہ قائم کی جاتی ہے۔

اسلامی حکومت پہلی حکومت ہے، جس نے اس منتہاے خیال کو پورا کرنے کے لیے اپنی خلافت راشدہ کی بنیاد انسانیت پر رکھی۔ یہ حکومت اپنے کاموں میں راے عامہ، مساوات حقوق، آزادیِ ضمیر، اور سادگی کا امکانی حد تک خیال رکھتی ہے۔

اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اپنے قلمرو میں بسنے والے تمام غیر مسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہوں [ان کے] جان، مال، آبرو، مذہبی آزادی اور عام شہری حقوق کی پوری حفاظت کرے۔ اگر کوئی طاقت ان کے جان و مال وغیرہ پر دست درازی کرے تو حکومت اس سے جنگ کرے، اور ان [غیر مسلم شہریوں] پر کوئی ایسا بار نہ ڈالے، جو ان کے لیے ناقابل تحمل ہو۔ جو ملک صلحاً حاصل ہوا ہو، وہاں کے غیرمسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہوں، ان کی پوری پوری پابندی کی جائے۔ پھرغیر مسلموں کے یہ حقوق محض اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عائد کیا ہوا ایک فرض ہے، جس سے کسی وقت بھی انحراف جائز نہیں۔

اس کے بعد دینی حکومت کی مزعومہ خرابیوں کا جہاں تک تعلق ہے، جواب میں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ علم و تحقیق کی روشنی میں موجودہ ترقی یافتہ حکومتوں کے طور طریقوں کو خلفاے اربعہ ؓ کے   بے داغ عہد حکومت کے مقابلے میں رکھ کر مفاد عامہ کے لحاظ سے وزن کر لیا جائے۔ آج ظلم و جبر، عہدشکنی، مالی دست برد، کشت و خون، بربادی و ہلاکت، انسانی جماعتوں کی باہمی دشمنی، افراد کی  عدم مساوات اور جمہور کے حقوق کی پامالی کی جو مثالیں دور بین سے دیکھے بغیر صاف نظر آرہی ہیں، خلفاے [راشدینؓ] کے ترقی یافتہ عہد میں اس کا خفیف سا نشان بھی نہ ملے گا۔ غرض یہ کہ بیان کردہ خرابیاں اسلامی حکومت کی خرابیاں نہیں ہیں، بلکہ ان انسانی گمراہیوں سے اخذ کی گئی ہیں، جنھوں نے خالص مادی طرز حکومت کی داغ بیل ڈالی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ گاندھی جی نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا تھا، جب ۱۹۳۷ء میں آپ نے کانگرسی وزرا کو یہ ہدایات دیں کہ: ’تم ابوبکرؓ اور عمرؓ کی سی حکومت قائم کرو‘، نیز قائداعظم مرحوم نے دستور کی اسی اساس کی طرف اشارہ کیا تھا، جب ۱۹۴۳ء میں بمقام جالندھر، آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’میرے خیال میں مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا‘‘۔

قائداعظم نے نومبر ۱۹۴۵ء میں پیر صاحب مانکی شریف کے نام جو خط لکھا، اس میں  صاف صاف لکھ دیا تھا کہ:

اس بات کے کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ قانون ساز اسمبلی، جس میں بہت زیادہ اکثریت مسلمانوں کی ہو گی، مسلمانوں کے لیے ایسے قانون بنا سکے گی جو اسلامی قانون کے خلاف ہو اور نہ پاکستانی غیر اسلامی قانون پر عمل کر سکیںگے۔

اس قسم کے اعلانات قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم اور دوسرے زعماے [مسلم] لیگ کی طرف سے برابر ہوتے رہے، جن کا بخوف طوالت ہم استیعاب نہیں کرسکتے۔

بہرحال، ان بیانات کے پڑھنے کے بعد کسی مسلم یا غیر مسلم کو ہمارے مقصد اور مطمح نظر کو سمجھنے میں کوئی ابہام و اشتباہ نہیں رہ سکتا، اور جس قدر باتیں آئین و نظام اسلامی کے متعلق بطور اعتراض آج کہی جارہی ہیں، ان سب کے سوچنے کا وقت وہ تھا: جب پوری صراحت کے ساتھ یہ اعلانات کیے جارہے تھے۔ جب یہ سب کچھ جان کر اور سمجھ کر دوسری قوم نے تقسیم ہند کے فیصلے پر دستخط کیے اور پاکستان کی اقلیت نے ان مقاصد کو مانتے ہوئے ہمارے ساتھ اشراک عمل کیا۔اب پاکستان قائم ہونے کے بعد اس نقطۂ نظر سے انحراف کی کوئی وجۂ جواز ان کے پاس موجود نہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ انڈین یونین کا قیام تو ہندو اور نیشنلسٹ مسلمانوں کی مخلوط مساعی سے عمل میں آیا ہے۔ لیکن پاکستان کا حصول خالص مسلم قوم کی مساعی اور قربانیوں کا رہین منت ہے، اور ان کی قومی خصائص و ممیزات کے تحفظ کا داعیہ اس کا محرک ہوا ہے۔ اب اگر ایسی سیدھی اور صاف بات کو بھی بھلا دیا جائے تو اس کا کچھ علاج ہمارے پاس نہیں۔

اس موقع پر یہ بات بھی فراموش نہ کیجیے کہ آج دنیا میں معاشی اختلال اور اقتصادی    عدم توازن کی وجہ سے ملحدانہ اشتراکیت (کمیونزم) کا سیلاب ہر طرف سے بڑھتا چلا آرہا ہے۔ اس کا صحیح اوراصولی مقابلہ اگر دنیا میں کوئی نظام کر سکتا ہے تو وہ صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہے۔ اگر ہم پاکستان یا عالم اسلام کو اس بھیانک خطرے سے بچانا چاہتے ہیں، تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کا اعلان و آغاز کریں، اور تمام اسلامی ممالک کو اسلام کے نام پر اسی کی دعوت دیں۔ اگر اس طرح تمام اسلامی ممالک آئینی طور پر متحدہ ہوگئے تو قدرتی طور پر  وہ وحدت اسلامی قائم ہو جائے گی، جس کی ہم سب مدت سے آرزو رکھتے ہیں، اور جو اشتراکیت اور سرمایہ پرستی دونوں کی روک تھام کے لیے مضبوط آہنی دیوار کا کام دے گی۔

بہت سے لوگوں کو یہ خیال گزرتا ہے کہ: ’ابھی تک ہمارا کاروبار جس ڈگر پر چل رہا ہے، اسلام اور اسلامی آئین کا اعلان کرکے ہم اسے ایک دم کیسے بدل سکتے ہیں؟ یہ تو ہمارے     اجتماعی حالات میں ایسا انقلاب عظیم ہوگا جو ہماری قومی زندگی کی کایا پلٹ کررکھ دے گا، اور جس کے لیے ہمیں جدید کانسٹی ٹیوشن کے چلانے کے لیے کثیر تعداد میں مناسب رجال کار تیار کرنے پڑیں گے، اور [اس کے لیے] بہت طویل عرصہ درکار ہوگا‘___ میں کہتا ہوں کہ ان حضرات کا یہ خیال ایک حد تک صحیح ہے، لیکن اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے بھی اسے بخوبی محسوس کرتے ہیں۔

اسلامی آئین و نظام کے اعلان سے غرض یہ ہے کہ مملکت کا اصلی نصب العین اور اس کی انتہائی منزل مقصود واضح اور مستحضر ہو جائے، تاکہ اس کی روشنی میں ہمارا جو قدم اٹھے، وہ ہم کو آخری منزل سے قریب تر کرنے والا ہو۔ یہ کام ظاہر ہے کہ بتدریج ہوگا اور بتدریج ہی ہوسکتاہے۔ جو کام فی الحال کیے جاسکتے ہیں، وہ فوراً کرنے ہوں گے، اور جن کاموں کے لیے سردست حالات ساز گار نہیں ہیں وہ فوراً نفاذ پذیر نہ ہوں گے، بلکہ حکیمانہ اسلوب پر حالات کوساز گار بنانے کی ہر امکانی کوشش عمل میں لائی جائے گی۔ بہرحال انسان اسی چیز کا مکلف ہے، جس کی وہ استطاعت رکھتا ہے۔

یہی وہ بات ہے جو میں تقسیم سے قبل اپنے مختلف بیانات و خطبات میں کھول کر کہہ چکاہوں۔ چنانچہ خطبہ لاہور میں، میں نے عرض کیا تھا کہ: ’جس طرح رات کی تاریکی آہستہ آہستہ  کم ہوتی اور دن کی روشنی بہ تدریج پھیلتی ہے، یا جس طرح ایک پر انا مریض دھیرے دھیرے  صحت کی طرف قدم اٹھاتا ہے، دفعتہً وبَغْتَہًً بیماری سے چنگا نہیں ہوجاتا، اسی طرح پاکستان ہماری قومی صحت اور ہماری مکمل ترین آزادی کے نصف النہار کی طرف تدریجی قدم اٹھائے گا‘۔

جناب صدر محترم!

آخر میں ایوان ہذا کے معزز ممبران کی خدمت میں، میں عرض کروں گا، کہ اس ڈھیلے ڈھالے ریزولیوشن سے گھبرانے اور وحشت کھانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامی فرقوں کے اختلافات تحریک پاکستان کی برکت سے بہت کم ہو چکے ہیں، اور اگرچہ کچھ باقی ہیں تو ان شاء اللہ برادرانہ مفاہمت سے صاف ہو جائیں گے۔ کیونکہ تمام اسلامی فرقے اور ملک، آج اسلامی نظام کی ضرورت کو بہت شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں۔ اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے غیر مسلم دوست بھی اگر ایک مرتبہ تھوڑا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں گے، تو اگلی اور پچھلی سب تلخیاں بھول جائیں گے اور بہت مطمئن رہیں گے، بلکہ فخر کریں گے کہ ہم سب پاکستانیوں نے مل کر عام ہیجان اور اضطراب کے زمانے میں انسانیت عامہ کی اس قدر عظیم الشان خدمت انجام دی، وَمَاذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزَیزَ۔

اب بڑا اہم کام ہمارے سامنے یہ ہے کہ دستور سازی کی مہم ایسے قابل ، فہیم، مضبوط اور محتاط ہاتھوں کے سپرد ہو ،جو اس ریزولیوشن کے خاص خاص نکتوں کی حفاظت کرسکیں، اس کے    فحوا [مفہوم] کو بخوبی سمجھ سکیں، اور جو دستور تیار کیا جائے وہ صحیح لائن سے ہٹنے نہ پائے۔ یہ بہت کٹھن مرحلہ ہے، جو اللہ ہی کی توفیق سے آسان ہو گا۔ بہرحال ہم آیندہ کام کرنے میں ہر قدم پر اس چیز کے منتظر رہیں گے، وَبِاللّٰہِ التُّوْفِیْقَ۔