پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۱۱ | اشارات
۲۷ جنوری ۲۰۱۱ء پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کوئی نام نہاد سفارت کار نہیں ہے، بلکہ درحقیقت سی آئی اے کا خون خوار کمانڈو ہے جس کے ہاتھوں پر چار معصوم پاکستانیوں کا خون ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک ایسا آئینہ بن گیا ہے جس میں امریکا کے سامراجی کردار اور ایک دوست ملک کو بلیک میل کرنے، عدم استحکام کا شکار کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلۂ کار بنائے جانے کے ناپاک کھیل کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ جس نے پاکستانی قوم اور اس کی مقتدر قوتوں کو نہ صرف جھنجھوڑ دیا ہے، بلکہ ملک اور قوم کے لیے امریکا سے تعلقات کے پورے مسئلے پر بنیادی نظرثانی کو ناگزیر بنادیا ہے۔
۲۷ جنوری کا واقعہ ایک خونیں سانحہ تو ہے ہی، لیکن اس سے زیادہ پوری قوم کے لیے ایک انتباہ کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ تیونس میں ایک نوجوان کی خودکشی نے تیونس ہی نہیں پورے عالمِ عرب میں بیداری کی اس انقلابِ آفریں لہر کو جنم دیا، جو تاریخ کا رُخ موڑنے کا کارنامہ انجام دے رہی ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں امریکی درندگی کا نشانہ بننے والے ان تین نوجوانوں کا خون پاکستان اور عالمِ اسلام کے لیے امریکا کی غلامی سے نجات کی تحریک کی آبیاری اور ملّی غیرت و حمیت میں تقویت کا ایک فیصلہ کن ذریعہ بنتا نظر آرہا ہے۔
پوری ملت اسلامیہ، پاکستان اور اہلِ پاکستان ۲۷ جنوری کے اس اندوہناک اور دل خراش واقعے میں ظلم کا نشانہ بننے والے خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم سب ان کی حُب الوطنی پر نازاں اور پاکستانی مفادات کے باب میں ان کے لیے استقامت کے لیے دعاگو ہیں۔ اس واقعے کی روشنی میں انصاف اور قومی اور ملّی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ان پہلوئوں پر چند معروضات پوری قوم اور خصوصیت سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اصل واقعے کی بیش تر تفصیلات قوم کے سامنے آگئی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے، اس سلسلے میں سارے دبائو اور ملکی اور بیرونی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے علی الرغم، اصل حقائق کو تلاش کرنے اور جرأت سے انھیں بیان کرنے کے لیے جو کردار ادا کیا ہے، اس پر انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ عدالت نے بروقت احکام جاری کیے۔ اسی طرح ملک کی دینی و سیاسی قوتوں اور عوام نے امریکا کے حاشیہ برداروں کے سارے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے جو مساعی کی ہیں، وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ مگر ہم دکھ کے ساتھ اس حقیقت کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کا بحیثیت مجموعی اور اس کے کچھ بڑے نمایاں قائدین کا کردار سخت مشکوک اور تشویش ناک رہا ہے۔ نئی وزیر اطلاعات اور پیپلزپارٹی کی سابقہ سیکرٹری اطلاعات نے تو کھل کر امریکی مفادات کی ترجمانی کی ہے۔ پھر ایوانِ صدر کے کردار پر بھی بڑے بڑے سوالیہ نشان ثبت ہیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی خاطرخواہ طریقے سے اپنا کردارادا نہ کیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے تو وزارت کا قلم دان چھین لیا گیا، لیکن ایک بدیہی حقیقت سے لاہور ہائی کورٹ کو مطلع کرنے کے لیے واقعے کے دو ہفتے کے بعد بھی وزارتِ خارجہ نے مزید تین ہفتے کی مہلت مانگی ہے۔ اس چیز نے وزارتِ خارجہ کے کردار کو خاصا مشکوک بنا دیا ہے۔ لیکن چونکہ عوام، دینی اور کچھ سیاسی قوتیں اور میڈیا بیدار ہیں، اس لیے ہمیں توقع ہے کہ وزارتِ خارجہ اور اعیانِ حکومت حقائق پر پردہ ڈالنے، عوام اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی حماقت سے پرہیز کریں گے، اور اصل حقائق بے کم و کاست عدالت اور قوم کے سامنے پیش کر دیں گے۔
ریمنڈ ڈیوس کم از کم چھے جرائم کا مرتکب ہوا ہے اور اس پر ان تمام امور کے بارے میں مقدمے قائم ہونے چاہییں اور قانون کے مطابق بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے جرائم یہ ہیں:
۱- دو نوجوانوں فیضان اور فہیم کا دن دہاڑے بلاجوازقتلِ عمد۔
۲- تیسرے نوجوان عبیدالرحمن کی ہلاکت کی ذمہ داری میں شراکت (اسی کے بلانے پر اندھادھند وہ گاڑی آئی، اور اسی کی سازباز سے وہ بھاگنے میں کامیاب ہوسکے)۔
۳- ناجائز اسلحے کا وجود اور استعمال، اور وہ بھی ممنوعہ ۹؍ایم ایم بور کا نیم خودکار پستول مع ۷۵گولیاں، جس کا کوئی لائسنس بھی اس کے پاس نہیں تھا اور جسے اس نے بے دریغ استعمال کیا۔ (اسلحے کا پبلک مقام پر لے کر جانا بذاتِ خود ایک سنگین جرم ہے چہ جائیکہ اس کا خونیں استعمال کیا جائے۔)
۴- اپنی اصل شناخت کو چھپانا(impersonification) ،فرضی نام سے پاسپورٹ بنوانا، اور اس پاسپورٹ اور اس نام پر دوسرے ملک میں نقل و حرکت کرنا اور مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ امریکا کے سرکاری ترجمان نے ایک بار نہیں دو بار اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ جو شخص اس جرم میں ملوث ہے، اس کا اصل نام ریمنڈ ڈیوس نہیں ہے۔ اس طرح غلط نام پر پاسپورٹ، سفر اور پاکستان میں کارروائیاں کرنا، خود ایک مستقل بالذات جرم ہے اور اس حوالے سے بھی موصوف پر مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔
۵- جو آلات اس کی کار سے نکلے ہیں، جو معلومات اس کے دو موبائل ٹیلی فونوں سے حاصل ہوئی ہیں، جو تصاویر اس کے کیمرے میں محفوظ ہیں، یہ سب اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ کسی سفارت کاری میں نہیں بلکہ جاسوسی کے قبیح فعل میں مصروف تھا اور مسلسل دوسال سے یہی کام کرر ہا تھا۔ اس لیے اس پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور جاسوسی کے قوانین کے تحت بھی مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔
۶- ایک اوراہم جرم جو اس کے ان تمام آلات اور ریکارڈ سے سامنے آیا ہے، خاص طور پر موبائل ٹیلی فون اور برقی پیغامات ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں تخریب کاری میں ملوث کم از کم ۳۲ افراد، ٹھکانوں اور تنظیموں سے اس کا رابطہ تھا، اور اس واقعے سے صرف سات دن پہلے اس نے وزیرستان کی ’تحریک طالبان پاکستان‘ اور کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے لوگوں سے رابطہ قائم کیا تھا۔ گویا وہ دہشت گردی میں خود ملوث تھا اور یا ان لوگوں کے ساتھ منسلک تھا، جن پر امریکا اور پاکستانی حکام دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں دہشت گردی، یا دہشت گردی کی سرپرستی یا کم از کم اس میں اعانت مجرمانہ کے تحت بھی اس پر الزام آتا ہے اور ایک مقدمہ اس کے خلاف اس قانون کے تحت بھی درج ہونا چاہیے۔
یہ چھے وہ کھلے کھلے جرائم ہیں، جن میں اس کے ملوث ہونے کا ثبوت اب تک کی حاصل کردہ معلومات سے سامنے آتا ہے۔ بلاشبہہ اسے اپنے دفاع کا پورا پورا موقع ملنا چاہیے، اور سزا بھی عدالتی عمل کے ذریعے ملنی چاہیے، لیکن صرف قتل اور ناجائز اسلحہ اپنے قبضے میں رکھنے کے الزام ہی نہیں، باقی چاروں جرم بھی تقاضا کرتے ہیں کہ اس پر باضابطہ فردِ جرم قائم کی جائے۔ اس کے علاوہ عبیدالرحمن کے قتل کے جرم میں بھی شراکت کا الزام اس پر آتا ہے۔ یہ تمام امور ایک دوسرے سے منسلک ہیں، اس لیے انھیں ایک ساتھ لینا ضروری ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک میں تخریب کاری کے گھنائونے اور خون آشام کاروبار میں شریک تمام قوتوں تک پہنچنا اور ان کا بے نقاب ہونا ضروری ہے۔ نیز خون بہا اور دیت کی جو باتیں ایوانِ صدر، وزیراعظم اور امریکی اور امریکا نواز عناصر کررہے ہیں اور اسلام کا سہارا لیتے ہوئے کر رہے ہیں، ان کے پس منظر میں بھی یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ ریمنڈ ڈیوس کے جرائم ان دو نوجوانوں کے قتل سے زیادہ ہیں۔ اس لیے جب تک تمام جرائم کے بارے میں عدالتی کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی، کسی ایک چیز کے بہانے اس سے گلوخلاصی کرانے کی سازش کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیا جاسکتا۔
اوّلاً: ۲۷ جنوری کے واقعے کے فوراً بعد لاہور کے امریکی قونصل خانے کا سرکاری بیان، اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا اعلان، امریکی سرکار کے ترجمان کا بیان اور خود ریمنڈ ڈیوس کا اس کی اپنی زبان سے پولیس کے سامنے آکر اعتراف، یہ سب ایک ہی بات پر گواہ ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور کے قونصل خانے میں ’انتظامی اور فنی معاونت‘ پر مامور تھا۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو امریکی سفارت خانے نے سفارتی استثنا کے حامل جن افراد کی فہرست پاکستانی وزارتِ خارجہ کو دی، اس میں ریمنڈ ڈیوس کا نام نہیں تھا۔ اس واقعے کے دو دن بعد ہی پہلی بار اسلام آباد کے سفارت خانے کے کارکن کی حیثیت سے اس کا ذکر کیا گیا۔ جس کی واضح وجہ یہ ہے کہ ویانا کنونشن کی رُو سے قونصل خانے کے اسٹاف کو مکمل استثنا حاصل نہیں ہوتا، اور اگر ان کا عملہ کسی بڑے جرم میں ملوث ہو تو اسے استثنا حاصل نہیں۔ ۲۹جنوری سے جو قلابازی امریکی حکام نے کھائی ہے، وہ ایک مجرم کو دھوکے کے ذریعے سے سفارتی استثنا دلوانے کی ناپاک کوشش ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ امریکا کے صدر، امریکی وزیرخارجہ کے منصب پر فائز خاتون اور سینیٹر جان کیری جیسے لوگ بھی صریح دھوکے اور غلط بیانی کا پوری ڈھٹائی سے ارتکاب کر رہے ہیں۔ جس طرح عراق پر ایک جانے بوجھے جھوٹ اور دھوکے، یعنی ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے‘کی موجودگی کو جواز بنایا گیا تھا، بالکل اسی طرح ریمنڈڈیوس کی حیثیت کو جانتے بوجھتے تبدیل کرنے اور دنیا اور قانون و انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ خود ایک جرم ہے جو امریکا کی قیادت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ اب تو امریکی سفارت خانے کے اس خط کی نقل میڈیا میں آگئی ہے جو ۲۰جنوری ۲۰۱۰ء کو امریکی سفارت خانے نے وزارتِ خارجہ کو لکھا تھا کہ:’’ منظورشدہ پرفارما چھے کی تعداد میں منسلک ہیں۔ ان کے ساتھ اس کے پاسپورٹ کی ایک کاپی ہے اور اس کے غیرسفارتی شناختی کارڈ میں استعمال کے لیے چھے تصاویر ہیں‘‘۔ اس کے بعد بھی یہ دعویٰ کہ ریمنڈ ڈیوس ’پاکستان میں ہمارا سفارت کار‘ ہے۔ یہ سب سخن سازی ایک جھوٹ اور افترا کے سوا کچھ نہیں۔
ثانیاً: اب یہ حقیقت کہ ریمنڈ ڈیوس سفارت کار نہیں بلکہ دراصل سی آئی اے کا فعال کارندہ ہے۔ اس کا تعلق پہلے امریکی فوج سے تھا اور گذشتہ ۱۰ سال سے وہ اس پرائیویٹ سیکورٹی کے نظام سے وابستہ ہے، جو امریکا کی افواج اور اس کے اثاثوں اور مفادات کی حفاظت کے لیے سی آئی اے نے تشکیل دیے ہیں، تاکہ وہ انتظامی فریم ورک اور جواب دہی کے نظام سے بچ کر جاسوسی اور تخریب کاری کے کام کو انجام دلوا سکیں۔ یہ بات پہلے دن سے امریکی انتظامیہ اور حکمرانوں کو معلوم تھی اور جیساکہ اب کھلا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ امریکی پریس کے پاس یہ تمام معلومات تھیں، مگر امریکی میڈیا نے آزادیِ صحافت کے تمام دعووں کے علی الرغم حکومت کے حکم پر اسے شائع نہیں کیا۔ جب یورپ کے اخبارات میں سارے حقائق آگئے ہیں تو مجبوراً امریکا میں بھی ان کو شائع کیا گیا، اور کھل کر اس امر کا اعتراف کیا گیا کہ ان حقائق کو امریکا کی حکومت کے ایما پر دبایا گیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کو مجبوراً یہ اعتراف کرنا پڑا کہ: ’’ڈیوس سی آئی اے کی رہنمائی میں پاکستان کے جنگ جُو گروپوں کی نگرانی کرنے والے خفیہ اہل کاروں کا حصہ تھا‘‘۔ اور یہ بھی کہ موصوف نے ایک ٹھیکے دار کی حیثیت سے کئی برس سی آئی اے میں بھی کام کیا، اور کچھ وقت بلیک واٹر میں بھی گزارا۔
امریکی قیادت اور میڈیا ان حقائق سے واقف تھے، مگر ہفتوں جان بوجھ کر دنیا کو غلط معلومات دیتے رہے اور پاکستان کو دھمکیوں سے نوازتے رہے۔ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے اعتراف کیا ہے کہ ان اخبارات نے حقائق کو امریکی حکومت کے ایما پر چھپایا اور غلط بیانی کی: ’’اوباما انتظامیہ کی درخواست پر لوگوں نے یہ منظور کیا کہ ایجنسی سے ڈیوس کے تعلقات کے بارے میں معلومات کو عارضی طور پر شائع نہ کریں‘‘۔
امریکا کا ایک نام ور وکیل گلین گرینالڈ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
ایک اخبار کے لیے یہ ایک اہم بات ہے کہ وہ کوئی معلومات اس لیے شائع نہ کرے کہ اس سے انسانی جانوں کو خطرہ ہوگا مگر یہاں امریکی حکومت نے کئی ہفتے ایسے بیانات دینے میں گزارے جوانتہائی حد تک گمراہ کن تھے۔
امریکی صدر نے جانتے بوجھتے اس سی آئی اے کے جاسوس اور تخریب کار کو ’پاکستان میں ہمارا ڈپلومیٹ‘ قرار دیا۔ گرینالڈ کے الفاظ میں: ’’یہ معلومات چھپانے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ یہ تو صدر کو جھوٹ بولنے پر آمادہ کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے جان بوجھ کر حقائق چھپائے… اسی کو سرکاری پروپیگنڈے کا پرچار کرنا کہا جاتا ہے‘‘۔
امریکی قیادت کی دیانت اور امریکی پریس کی آزادی کی اس سے قبیح مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک قاتل اور مجرم کو بچانے کے لیے انھوں نے ایسے ایسے ہتھکنڈے برتنے میں کوئی باک محسوس نہیں کی۔ بعد کی معلومات جس سمت میں اشارہ کر رہی ہیں وہ صرف یہی نہیں ہے کہ ریمنڈ ڈیوس اور اس کے نیٹ ورک سے متعلق تمام افراد جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے، پاکستان میں تخریب کاری کرنے والے عناصر سے ربط میں ہیں۔ کچھ پتا نہیں کہ فوج، آئی ایس آئی، سرکاری عمارتوں، مساجد، امام بارگاہوں اور بے گناہ انسانوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنانے میں اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ کتنا کردار ہے؟ نیز سی آئی اے کے ساتھ ’موساد‘ اور ’را‘ کے کارندوں کا کتنا اشتراک ہے؟
بھارت کے ایک آزاد صحافی ایم کے بھنڈرا کمار نے اخبار ایشین ٹائمز میں وہ سوالات صاف لفظوں میں اٹھائے ہیں جو پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو پریشان کیے ہوئے تھے:
اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کافی مدت سے حیران تھا کہ نام نہاد پاکستانی طالبان کو پاکستانی فوج پر اتنے گہرے زخم لگانے پر کوئی اُبھار رہا تھا اور پاکستان کو کمزور کرکے غیرمستحکم کر رہا تھا۔ (دی نیشن، ۱۸ فروری ۲۰۱۱ء)
بلّی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور ریمنڈ ڈیوس اور اس کے گروہ کی سرگرمیوں سے پردہ اُٹھتا نظر آرہا ہے بشرطیکہ اس سے مکمل تفتیش ہو اور ہر بات شفاف انداز میں عدالت اور قوم کے سامنے آئے۔یہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں، امریکا اور اس کے گماشتوں کے پورے کردار کا ہے کہ جسے غیرناٹو سانجھی (non Nato Ally) کہا جا رہا تھا، جس کو اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی افیون کی گولیاں کھلائی جارہی تھیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے یارِ وفاردار کے ساتھ اصل معاملہ کیا کیا جا رہا تھا؟ بقول حفیظ جالندھری ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
lباھمی تعلقات: کشیدگی میں شدت: ۲۷جنوری کے واقعے نے جن حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے، ان کے بارے میں اندازے اور شکوک و شبہات تو اوّل روز سے تھے، لیکن اب تو حقائق اس طرح سامنے آگئے ہیں کہ زبانِ خنجر کے ساتھ آستین کا لہو پکار اُٹھا ہے۔یوں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان ایک ایسی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، جس کا اعتراف دونوں طرف کی قیادت کر رہی ہے۔ اگرچہ امریکا کے بارے میں پاکستان کے عوام کو تو کبھی غلط فہمی نہیں تھی، مگر مقتدر طبقے کی آنکھیں جوں کی توں بند تھیں۔
یہ طبقے ۱۹۶۵ء میں بھارتی جارحیت کے موقع پر امریکا کی طوطاچشمی، ۱۹۷۱ء میں اسی کردار کی تکرار اور پھر ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۸ء کی پابندیوں کے تجربے کی روشنی میں امریکا کی دوستی پر بھروسا کرنے کو تیار نہ تھے۔ ۲۰۰۱ء میں جنرل مشرف امریکی دھمکی کے نتیجے میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوگئے۔ راے عامہ کے تمام سروے امریکا سے بے زاری کی شہادت دیتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ’زرداری گیلانی حکومت‘ نے تمام تنبیہات کے باوجود نہ صرف جنرل مشرف کی پالیسی کو جاری رکھا، بلکہ امریکا کی غلامی میں اس سے بھی دوچار ہاتھ آگے نکل گئے۔ آج عالم یہ ہے کہ امریکی گماشتے ملک کے چپے چپے پر اپنا گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج ان کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہی ہیں۔ گذشتہ ۱۰ برس میں ۳ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، ۲۵۰ سے زیادہ آئی ایس آئی کے اہلکار دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ فوج سے متعلق افراد میں زخمیوں کی تعداد ۱۰ہزار سے متجاوز ہے۔ عام شہریوں کا جانی نقصان، فوج کے نقصان سے کم از کم ۱۰ گنا زیادہ ہے۔ معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ وزارتِ خزانہ کے اندازے کے مطابق صرف ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۸ء تک ۴۳/ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، جو اَب ۵۵اور ۶۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے۔ اگر جانی نقصان اور ان نقصانات کو اس میں شامل کرلیا جائے، جسے معاشیات کی اصطلاح میں جو مواقع حاصل ہوسکتے ہیں ان سے محرومی کی بنا پر مزید کیا نقصان ہوا ہے، تو یہ نقصانات ۱۰۰؍ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں وہ امریکی امداد اور قرضے جن کا احسان جتایا جاتاہے ۷ تا ۹؍ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔ گویا اس غریب ملک نے امریکا کی ایک جارحانہ اور سامراجی جنگ کو اپنے خون اور پسینے ہی سے نہیں، اپنے غریب عوام کے منہ سے نوالا چھین کر امریکی جنگ کے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ اس کے بدلے امریکا نے ہمارے اپنے ملک میں تخریب کاری کا ایک وسیع جال بچھا دیا ہے، جس سے ملک کا استحکام، سلامتی، آزادی، عزت اور معیشت، ہرچیز معرضِ خطر میں ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں جس طرح امریکا کی سیاسی اورفوجی قیادت نے پاکستان کو بلیک میل کیا ہے، اور ایک قاتل اور تخریب کار کو سفارتی استثنا کے نام پر قانون کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کی ہے، اس نے امریکا کے اصل چہرے کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے، اور امریکا سے بے زاری کے رجحان کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ ۱۹۵۸ء میں ایک امریکی ناول نگار ولیم لیڈرر نے اپنے ناول Ugly American میں امریکی افواج اور سیاسی قیادت کی، خصوصیت سے مشرقی ایشیا میں کارفرمائیوں کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس میں غرور اور تحکم کے علاوہ دوسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور ان کی آزادی، عزتِ نفس، مفادات، احساسات اور تمدن و روایات سے بے اعتنائی بلکہ تحقیر نمایاں ہے۔ آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی قیادت کے رویے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، بلکہ مزید خرابی ہی آئی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے ایک بار پھر امریکا کے اس چہرے کو پاکستان کے سامنے بالخصوص اور پوری دنیا کے سامنے بالعموم بے نقاب کر دیا ہے اور اس وقت پاکستانی قوم کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکا سے اپنے تعلقات کی نوعیت پر نظرثانی کرے، اس علاقے میں امریکا کے مقاصد اور مفادات کو اچھی طرح سمجھے، اور پاکستان کے مقاصد اور مفادات کی روشنی میں ان تعلقات کی نوعیت اور اس کے جملہ پہلوئوں کی ازسرنو صورت گری کرے۔
ایک چھوٹی سی مگر چشم کشا مثال یہ ہے کہ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود آج دہائی دے رہے ہیں کہ جان کیری تک نے ان کو اُمید دلائی کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ان کی ہم نوائی کرے تو وہ دوبارہ وزیرخارجہ بن سکتے ہیں۔ وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن اور صدر اوباما نے صدر زرداری سے کیا کہا؟ اس کی تفصیل میں جانے کی ضروت نہیں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ زرداری صاحب نے شاہ محمود قریشی صاحب کو وزارتِ خارجہ سے نکال باہر کیا ہے۔ وزیرداخلہ رحمان ملک نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو رات کو جگاکر ریمنڈ ڈیوس کے لیے سفارتی استثنا کا حکم دیا، اور ایوانِ صدر کے ہم نوائوں نے اس قاتل کے سفارتی استثنا کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ امریکی نواز لابی نے میڈیا اور سیاسی ایوانوں میں ’غیرت‘ اور ’حکمت‘ کے سبق پڑھانے شروع کردیے اور بڑے بقراطی انداز میں فرمایا کہ اس مسئلے پر ’جذباتی ردعمل‘ اختیار نہ کیا جائے ورنہ معیشت تباہ ہوجائے گی، فوج کی رسد ختم ہوجائے گی اور ملک غربت اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پہلے جنرل مشرف نے ملک کے درودیوار کو امریکا کی دخل اندازی کے لیے کھولا، اور اس کے بعد ’زرداری گیلانی حکومت‘ نے امریکا کو دخل اندازی کے اور زیادہ مواقع فراہم کیے، اور تمام سفارتی آداب اور ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے کیے جانے والی پیش بندیوں کو بالاے طاق رکھ کر امریکا کو یہاں کھل کھیلنے کی پوری چھٹی دیے رکھی۔ ایوانِ صدر اور وزیراعظم کے احکامات کے تحت امریکیوں کے لیے ویزا کی لوٹ سیل کا اہتمام کیا گیا اور کسی تحقیق اور تحفظ کے بغیر تھوک کے بھائو سے ویزے واشنگٹن اور دوبئی سے جاری کیے گئے ہیں۔ غلط نام اور جعلی پتوں پر امریکیوں کو ویزے دیے گئے ہیں، اور سی آئی اے اور غالباً موساد تک کے کارکنوں کے لیے سرزمینِ پاکستان کے دروازے کھول دیے گئے ہیں___ کچھ پتا نہیں کہ کتنے ریمنڈ ڈیوس ہیں جو آج ہماری سرزمین پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ باب وڈورڈ کی کتاب Obama's Wars امریکا کے عزائم اور پاکستان کی قیادت میں موجود میرجعفروں اور میرصادقوں کے کردار کا ایک شرم ناک ریکارڈ ہے۔
ڈرون حملے ہوں یا پاکستان کی سرزمین پر امریکی کارندوں کی کارفرمائیاں، جن کے لیے ’مشترکہ آپریشن‘ کے نام پر زمین ہموار کی گئی ہے اور جس میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کو مشترکہ زمینی کارروائیاں کرنی تھیں، مگر باب وڈورڈ کے مطابق: پاکستانی مشترکہ آپریشن میں شامل نہ ہوئے۔ اس لیے پاکستان میں داخلے کے لیے سی آئی اے کے لوگوں کو زیادہ ویزے جاری کیے گئے۔ (Obama's Wars ،ص ۲۰۶-۲۰۷)
ریمنڈ ڈیوس اور اس کے نیٹ ورک کے تمام کمانڈوز اس انتظام کا حصہ ہیں۔ موجودہ عوامی اور سابقہ فوجی، دونوں حکومتیں اس صورت حال کی ذمہ دار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود آئی ایس آئی کا عمل دخل کم کر دیاگیا ہے اور ایوانِ صدر، وزارتِ داخلہ اور واشنگٹن میں ہمارا سفارت خانہ باقی اداروں کو نظرانداز کرکے سارا کھیل کھیل رہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے نے آئی ایس آئی کی غفلت، نااہلی یا اسے تصویر سے باہر یا بے خبر رکھنے کے منظرنامے پر سے بھی پردہ اُٹھا دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے معروف سفارتی اصول و آداب کو امریکا کے معاملے میں غیرمؤثر کر دیا گیا ہے۔ امریکا کے سفارت خانے میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مستقل سفارتی استثنا رکھنے والے افراد ہیں اور اس کے علاوہ ہزاروں افراد ویزے پر ہر سال آرہے ہیں۔ امریکی سفارت خانہ، پاکستانی وزارتِ داخلہ سے براہِ راست معاملات طے کرتا ہے اور یہ اصول کہ تمام سفارت خانے صرف وزارتِ خارجہ کے توسط ہی سے ملک کے تمام اداروں سے ربط قائم کریں، یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ امریکا کے سول اور فوجی نمایندوں کو فوج کے اعلیٰ ترین مقامات تک براہِ راست رسائی حاصل ہے۔ سفارت کاری کے تمام آداب کو نظرانداز کرکے امریکا سے جو بھی آتا ہے، اسے صدر، وزیراعظم اور دوسرے اہم مقامات تک براہِ راست رسائی دے دی جاتی ہے۔ امریکی کانگریس کے وفود آتے ہیں مگر پاکستان کی پارلیمنٹ یا اس کے ارکان سے ان کی کوئی دل چسپی دیکھنے میں نہیں آتی، وہ سیدھے وزیراعظم، صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف سے ملتے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان امریکا کی کالونی بن گیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے سلسلے میں جو رویہ امریکی سفیر سے لے کر امریکی صدر اور دوسرے اعلیٰ عہدے داران نے اختیار کیا، یہ وہی رویہ تھا، جو ایک سامراجی قوت اپنے محکوم ممالک کے ساتھ اختیار کرتی ہے۔
بلاشبہہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت ہی کا نتیجہ ہے کہ حکمرانوں کے ایک طبقے کی دلی خواہش اور عیارانہ کوششوں کے باوجود، دینی اور جمہوری قوتوں کے میدان میں موجود ہونے اور میڈیا کی آزادی نے امریکا کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور ساری اُچھل کود کے باوجود، وہ اپنا مقصد پوری طرح حاصل نہیں کرسکے۔ تاہم ان کے عزائم اور حکمرانوں کی کمزوری بالکل الم نشرح ہوگئی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں آیندہ کے لیے خارجہ پالیسی اور خصوصیت سے امریکا سے تعلقات کی نوعیت اوراس کی تفصیلات طے کرتے وقت پاکستان کے قومی مقاصد، مفادات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر سوچ بچار اور قومی اتفاق راے سے معاملات کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے تمام متعلقہ حلقے سرجوڑ کر بیٹھیں اور پالیسی کی تشکیلِ نو کریں۔ پارلیمنٹ نے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو جو متفقہ قرارداد منظور کی تھی اور پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے اس پر عمل درآمد کے لیے اپریل ۲۰۰۹ء میں جو تفصیلی نقشۂ کار (road map) مرتب کیا تھا، اس پر حکومت نے ۵ فی صد بھی عمل نہیں کیا، حالانکہ وہ آج بھی بے حد متعلق ہے اور ہماری پالیسی پر نظرثانی کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس پر ان تمام جرائم کے سلسلے میں عدالت میں مقدمہ چلے گا، جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور اس کے بارے میں کسی سفارتی استثنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خون بہا کے سلسلے میں بھی یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس خاص معاملے میں اصل معیار قصاص ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا جرم محض دو افراد کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کی سوسائٹی اور ریاست کے خلاف تھا۔ خون بہا کا تعلق صرف مسئلے کے ایک حصے سے تو ہوسکتا ہے، اس لیے اس کے تمام جرائم کا خون بہا لینا دینا ممکن نہیں۔ نیز پشاور ہائی کورٹ کا ایک تاریخی فیصلہ اس سلسلے میں بہت اہم ہے، جس میں ایسا قتل جو فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہو، اس میں خون بہا نہیں تعزیراصل چیز ہے۔ اس لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ امریکا اس مقدمے میں مداخلت سے یکسر باز رہے اور عدالت کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا پورا موقع ملے۔ پاکستان کی عدالت پر مکمل اعتماد ضروری ہے اور یہ مقدمہ صرف پاکستان میں چلے گا۔
دوسری بات یہ ضروری ہے کہ امریکا اور خصوصیت سے سی آئی اے اور امریکی سفارت خانہ ان تمام افراد کے پورے کوائف حکومت کے علم میں لائے جو ’سلامتی کے کاموں‘ کے عنوان کے تحت پاکستان میں ہیں۔ نیز امریکا سے معلومات کے حصول کا انتظار کیے بغیر پاکستان کی ایجنسیوں کو فوری طور پر ایسے تمام افراد کا کھوج لگانا چاہیے، اور پاکستان میں جتنے بھی غیرملکی ہیں خصوصیت سے امریکی اور ان کے مقامی یا دوسرے کارندے ان پر نگرانی کا مقرر نظام قائم کیا جائے۔
تیسرا، ویزے کے سلسلے میں ’فراخ دلانہ‘ پالیسی کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ہر ویزا پوری چھان بین کے بعد اور تمام ایجنسیوں سے کلیئرنس کے بعد ہی جاری کیا جائے۔
چوتھی چیز فوری طور پر وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ اور متعلقہ ایجنسیوں کے تعاون سے امریکی اور یورپی ممالک کے سفارتی عملے کی تعداد پر نظرثانی کی جائے، ان کے نقل و حمل اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جائے۔ نیز حکومت کے تمام اداروں اور تمام سفارت کاروں کو پابند کیا جائے کہ سارے معاملات دفترخارجہ کے ذریعے انجام دیے جائیں۔ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم بھی اس سلسلے میں واضح ضابطوں اور آداب کا لحاظ رکھیں۔
پانچویں چیز دہشت گردی کے خلاف امریکا کی اس جنگ کے بارے میں پاکستان کے کردار کو نئے سرے سے واضح اور متعین کیا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو دونوں ملکوں کے مفادات اور تاریخی رشتوں اور تعلقات کی روشنی میں مرتب کیا جائے۔ امریکا افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے اور اس کے لیے واپسی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اسے واپسی کا قابلِ قبول راستہ ضرور دیا جائے، لیکن اس طرح نہیں کہ وہ افغانستان کے معاملات کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھے اور افغانستان میں بھارت اس کے قائم مقام کے طور پر یا خود اپنے مفادات کے فروغ کے لیے کوئی مستقل کردار ادا کرنے کی مسند سنبھال لے۔
چھٹی چیز یہ ہے کہ اس امر کی بھی فوری ضرورت ہے کہ امریکا کے ان دعووں کی شفاف انداز میں تحقیق ہو کہ مشرف اور زرداری دور میں کچھ تحریری طور پر اور کچھ زبانی مراعات حکومتِ پاکستان نے امریکا کی حکومت ، اس کی فوج، سی آئی اے اور دوسرے اداروں کو دی ہیں۔ یہ مراعات کیا ہیں؟ یہ تمام معلومات فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے آنی چاہییں ۔ امریکی اخبارات نے بے نام سرکاری ذرائع کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۸ء کے آخر میںایک ۱۱ نکاتی معاہدہ ہوا تھا جس میں سفارتی استثنا، اور بلالائسنس اسلحہ رکھنے کے بارے میں امریکیوں کو ناقابلِ یقین مراعات دی گئی ہیں ۔ اسی طرح ڈرون حملوں اور مشترک کارروائیوںکے نام پر بھی طرح طرح کی اور بے محابا سہولتوں کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں تمام حقائق پارلیمنٹ کے سامنے فوری طور پر آنے چاہییں تاکہ معلوم ہو کہ کون سی سہولت کس نے دی۔ نیز پچھلے ۱۰ برسوں میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اس پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی میں بھرپور غور کیا جائے اور ان تمام سہولتوں اور مراعات کو فی الفور ختم کیا جائے جو ملکی حاکمیت اور خود مختاری کو مجروح کرتی ہیں۔
ساتویں چیز پاکستانی معیشت کی تعمیرنو کی بنیاد خودانحصاری ہو۔ جس طرح آج ملک امریکا اور عالمی اداروں کی گرفت میں آگیاہے، اس سے جلداز جلد نکلنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ہماری نگاہ میں امریکی امداد ملک کے لیے قوت کا نہیں کمزوری کا باعث ہے۔ ہمیں ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو معاشی ترقی، سماجی انصاف اور عوام کی خوش حالی پرمرکوز ہو۔ امریکا کی جنگ میں شرکت سے ہمیں شدید معاشی نقصان ہوا ہے اور قرضوں کا پہاڑ اس پر مستزاد ہے۔ معاشی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم دوسروں پر انحصار کے دھوکے سے نکلیں۔ یہ وقت ایک بڑے فیصلے کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو وہ وسائل دیے ہیں، جن کے صحیح استعمال سے ہم معاشی ترقی اور سیاسی آزادی دونوں اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی اور معاشی ترقی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر پاکستانی قیادت ایمان دار، باصلاحیت اور جرأت مند افراد کے ہاتھوں میں ہو، تو آج پاکستان کو وہ مقام حاصل ہے کہ ہم اپنی شرائط پر دوسروں سے معاملات طے کرسکتے ہیں۔
دنیا کے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ آمریت کے بت گررہے ہیں اور عوام ہراس نظام سے بے زار ہیں، جس میں ان کی آزادی، عزت اور وسائل پر ان کا کنٹرول، ہرچیز تباہ ہوئی ہے۔ اُمت مسلمہ کے وسائل دوسروں کی چاکری کی نذر ہورہے ہیں۔ صرف مشرق وسطیٰ کی برآمدات کے ذریعے سالانہ آمدنی ۵۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر یہ وسائل اُمت مسلمہ کی ترقی اور استحکام کے لیے صرف ہوں تو پانچ سال میں دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ ضرورت صرف چہروں کے بدلنے کی نہیں، نظام کی تبدیلی کی ہے۔ اس کے لیے نئے وژن کی، صحیح منزل کے تعین کی، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کی، اور زمینی حقائق پر مبنی دوررس نتائج حاصل کرنے والی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر خلوص اور محنت سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور تمام ہی مسلم ممالک کے عوام جس تبدیلی کے خواہاں ہیں، اسے اپنے اپنے ملک کو سامراجی تسلط اور اس کے مقامی کارپردازوں سے نجات کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی غلامی کے چنگل سے نکلے بغیر پاکستان اس منزل کی طرف پیش رفت نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے امریکا سے تصادم نہیں بلکہ امریکا سے تعلقات اس نہج پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اوّلیت پاکستان کے مفادات اور مقاصد و اہداف کو حاصل ہو۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے نے اصل ایشو کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اصل چیلنج اس وسیع تر مسئلے کا مناسب حل ہے، محض جزوی امور کے گورکھ دھندے میں اُلجھنا نہیں ہے۔