مارچ ۲۰۱۱

فہرست مضامین

ایمان اور آزمایش درسِ قرآن سورئہ تغابن (تیسری اور آخری قسط)

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | مارچ ۲۰۱۱ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ o (التغابن ۶۴:۱۴-۱۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

عمومی ہدایات کے بعد اب مسلمانوں کو کچھ خصوصی ہدایات دی جارہی ہیں۔ ان دونوں آیتوں میں ایک بات تو اگرچہ خاص اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے فرمائی گئی لیکن اگر دوسرے زمانوں میں بھی وہی حالات پیش آئیں تو ان کے لیے بھی وہ ہدایت ہے، اور ایک ہدایت ان آیات میں عام ہے۔

منافقانہ طرزِعمل

جو بات خاص حالات کے لیے فرمائی گئی ہے وہ یہ تھی کہ مدینہ طیبہ میں جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان کے اندر بہت سے لوگ ایسے تھے جو خود تو مسلمان ہوگئے تھے لیکن ان کے خاندان کے لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ اگر ایک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا تو ان کی بیوی مسلمان نہیں ہوئی تھی، یا میاں بیوی دونوں مسلمان ہوگئے تھے لیکن ان کی جوان اولاد مسلمان نہیں ہوئی تھی۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کی اولاد اور بیویاں بظاہر تو مسلمان ہوگئی تھیں لیکن انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ شوہر چونکہ مسلمان ہوگیا ہے اس لیے اس کے ساتھ بیوی بھی مسلمان ہوگئی۔ باپ چونکہ مسلمان ہوگیا ہے اس لیے بیٹے بھی مسلمان ہوگئے لیکن ان کی عام روش اور دل چسپیاں اسلام کے مطابق نہیں ڈھلی تھیں۔ ان کے لیے ان کے ذاتی مفادات زیادہ اہمیت رکھتے تھے بہ نسبت اس کے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے سرفروشی کرے اور قربانی کی راہ اختیار کرے۔ بیویوں کو یہ بات کھلتی.َ   تھی کہ یہ نبی جو مکّہ سے یہاں آئے ہیں، ان کے ماننے والے ہمارے شوہر صاحب اب اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ان کی دعوت اور دین کی تبلیغ کے کاموں میں   خرچ کر ڈالتے ہیں، جب کہ گھر کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ اولاد کو یہ بات کھلتی.َ   تھی کہ ہمارے اباجان نے ایک ایسے کام میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے کہ جس میں سواے سرفروشی اور قربانیوں کے اور کچھ نہیں۔ دوسرے نقصانات اور خطرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ان کو اپنی آخرت کی بہت فکر ہے لیکن اپنی اولاد کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ ایسے کام میں پڑ گئے ہیں کہ اگر کفار کو مدینے میں غلبہ حاصل ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ خود مارے جائیں گے بلکہ زن بچہ کولھو میں پیل دیا جائے گا اور ہم بھی ساتھ ہی لپیٹ میں آجائیں گے۔

یہ تصورات ایک اچھی خاصی تعداد کے اندر موجود تھے۔ یہ منافقت اس زمانے میں اپنا رنگ دکھاتی رہتی تھی۔ آج ہم مدینے کے جن منافقین کا اور ان کے منافقانہ طرزِعمل کا ذکر سنتے ہیں     یہ یونہی کچھ ہوائی چیز نہیں تھی، بلکہ اس کی کچھ جڑیں اور بنیادیں تھیں۔

حقیقت واقعی یہ ہے کہ جب تک ایک آدمی کے دل میں سچا اور پکا ایمان اُترا ہوا نہ ہو وہ ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا، بلکہ وہ شاید ان کا پورا شعور و ادراک بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ محض یہ تسلیم کرلینا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، کافی نہیں ہوتا۔ جب تک آدمی کے دل میں آپؐ کی رسالت اور دعوت پر سچا اور پکا ایمان نہ ہو، اس وقت تک آدمی اس کے لیے   راضی نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے سارے مفادات سے بے پروا ہوکر اللہ کے دین کے لیے سب کچھ قربان کردینے پر تیار ہوجائے۔ ہرتکلیف سہ جانے اور ہرنقصان برداشت کرلینے کے لیے آمادہ ہوجائے۔ آدمی کو بے شمار فائدے علی الاعلان حاصل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن وہ دین کی خاطر ان کو ٹھکرانے کا فیصلہ کرلے۔ یہ بغیر سچے اور پکے ایمان کے ممکن نہیں ہے۔ منافقین مدینہ کا معاملہ یہی تھا کہ ان کے اندر یہ سچا اور پکا ایمان نہیں اُترا تھا۔ وہ اس کو تو ماننے کو تیار تھے کہ ہاں،  خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسولؐ ہیں۔ وہ یہ بھی ماننے کو تیار تھے کہ اچھا بھئی نماز پڑھ لیں گے، روزہ بھی رکھ لیں گے، ہوسکے گا تو زکوٰۃ بھی دے دیں گے لیکن اس سے آگے بڑھ کر باقی سارے خطرات مول لینے کو ہم تیار نہیں۔ ہم سارے عرب کی دشمنی مول لینے کے لیے تیار نہیں۔ قریش جیسا عرب کا سب سے بڑا طاقت ور قبیلہ، جس کے ساتھ سارے عرب کے مشرکین ہیں، اس کے خلاف لڑائی مول لینے کا مطلب یہ ہے کہ کل ہمارے اُوپر کوئی بڑی آفت آجائے، تب ہمارا کیا حشر ہوگا، ایسا کرنا کوئی دانش مندی اور دُوراندیشی کا کام نہیں۔ اس طرح کے خیالات ان لوگوں کے دماغوں میں تھے۔

پھر چونکہ وہ اپنے ایمان میں راسخ اور جماعت مسلمین کے ساتھ مخلص نہیں تھے، اس لیے ان میں اس وجہ سے بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جن کے بیش تر افرادِ خانہ کی دل چسپیاں فریق مخالف کے ساتھ تھیں۔ اس لیے بعض اوقات ان کے گھروں سے راز کی باتیں باہر پھیلتی تھیں۔ اسلام کے دفاع کے سلسلے میں مسلمانوں میں جو مشورے ہوتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں جو باتیں طے ہوتی تھیں کہ اب دشمنوں کے مقابلے میں یہ تدابیر اختیار کرنی ہیں، تو اس طرح کی باتیں بعض اوقات سچے اہلِ ایمان اپنے گھروں میں آکر بیان کرتے تھے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ اپنی ہی بیوی اور بال بچے ہیں، ان سے کیا چھپانا۔ لیکن ان کی زبانوں سے نکلی ہوئی بعض باتیں منافقین تک اور دوسرے دشمنوں تک پہنچ جاتی تھیں۔ اس طرح مسلمانوں کے بہت سے راز دشمنوں کو معلوم ہوجاتے تھے۔

اس لیے فرمایا کہ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ ، ’’تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں،ان سے ہوشیار رہو‘‘۔ یعنی یہ  وہ کام کر رہے ہیں کہ چاہے ان کا ارادہ تمھیں نقصان پہنچانے کا نہ ہو لیکن عملاً وہ تمھارے دشمن ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک آدمی کا ارادہ آپ سے دشمنی کا نہیں ہوتا لیکن کام وہ کرتا ہے جو بدترین دشمن کے کرنے کا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک ملک کا اپنا سربراہ وہ کام کرجاتا ہے جو کسی غدار کے کرنے کا ہوتا ہے۔ آج کے حالات [۱۹۶۷ء] آپ کے سامنے ہیں کہ عربوں اور مسلمانوں کا دشمن اسرائیل بھی وہ کام نہیں کرسکتا تھا جو خود ملک [مصر] کے سربراہ کی حماقتوں سے ہوگیا۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں بیویوں اور اولاد کے بارے میں عَدُوّ ان معنوں میں نہیں کہا گیا کہ ان کا ارادہ دشمنی کرنے کا ہے، بلکہ اس معنی میں ہے کہ عملاً ان کی طرف سے عداوت ہورہی ہے۔ چنانچہ فرمایا:فَاحْذَرُوْھُمْ، ان سے ہوشیار رہو۔

چشم پوشی سے کام لینا

اس کے بعد فوراً ہی فرمایا کہ: وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’’اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے‘‘۔ یعنی یہ بات جو ہم بتارہے ہیں کہ تمھاری بیویاں اور تمھاری اولادیں تمھاری دشمن ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب تم جاکر اپنے ازدواجی تعلقات خراب کرلو، بیویوں سے ڈانٹ ڈپٹ کرو، یا ہر وقت اولاد کے پیچھے پڑے رہو اور سرزنش کرتے رہو۔ یہ مطلب اس کا نہیں ہے۔ یہاں حَذَرْ کا، یعنی ہوشیار رہنے کا حکم دیا جا رہا ہے، یہ حکم نہیں دیا جا رہا ہے کہ جاکر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سختیاں شروع کر دو اور اولاد کے ساتھ تعلقات بگاڑ لو، یا بیوی اور شوہر کے تعلقات کو تلخ کرلو۔ اس کے بعد فرمایا: فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’، تم اگر چشم پوشی سے کام لو گے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آج جس شخص کے اُوپر دنیوی مفاد کا غلبہ ہے اور وہ غلط روش پر چل رہا ہے، کل اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق دے دے اور وہ سچے دل سے ایمان لے آئے۔ سامنے کی بات ہے کہ اگر آدمی کسی کے ساتھ سختی برتے اور باہمی تعلقات کو    تلخ کرلے تو اس شخص کا آپ کی کوشش سے ہدایت پانا مشکل ہوجائے گا۔ اگر آدمی چشم پوشی اور نرمی سے کام لے اور اپنی طرف سے جو احتیاط کرنا ضروری ہے وہ پوری طرح کرے تو اس طرح محبت و شفقت اور خوش گوار تعلقات کی فضا میں ان کی اصلاح کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: اگر تم چشم پوشی اور درگزر سے کام لو گے تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اس طرح معاملے کے دونوں پہلو پوری طرح سے واضح فرما دیے گئے۔

اولاد کا دشمن ھونا

دوسری چیز جو عام مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو آدمی کے اصل دشمن اس کی اپنی اولاد اور بیویاں ہی ہیں۔ یہ کس معنی میں؟ اس معنی میں کہ آدمی کے بال بچوں کے مطالبات وہ چیز ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے، ان کو راضی کرنے اور ان کو خوش حال دیکھنے، ان کا مستقبل روشن بنانے کے لیے آدمی ۹۹ فی صد حرام خوریاں کرتا ہے۔ ان میں سے بمشکل ایک فی صد وہ اپنی ذات کے لیے کرتا ہے، جب کہ باقی ۹۹ فی صد حرام خوریاں وہ     بیوی بچوں کی خوش نودی کے لیے کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے اصل دشمن کون ہیں جن کی وجہ سے آدمی کی عاقبت تباہ ہوتی ہے؟

حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے روز ایک آدمی کو لایا جائے گا، جو مبتلاے عذاب ہوگا۔ لوگ اس کو دیکھ کر کہیںگے اس کی عیال نے اس کے حسنات کھا لیے۔ جو نیکیاں اس نے کی تھیں وہ ان کی وجہ سے برباد ہوئیں، اور ایسے بے شمار گناہ اس کے اُوپر لازم آئے جنھوں نے اس کی عاقبت تباہ کردی___ اس لیے فرمایا کہ تمھارے بیوی بچوں میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے تم ہوشیار رہو۔ تمھارا کام یہ ضرور ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو مگر جائز ذرائع سے ایسا کرو۔ خدا کی بندگی کرتے ہوئے کرو۔ تمھارا کام ہے کہ ان کی حالت کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کرو لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے یہ کام کرو، کیونکہ اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق دنیا میں سب سے بڑھ کر ہے۔

والدین، اولاد، بیوی بچوں کے حقوق سب بجا، لیکن اللہ تعالیٰ کا حق ان سب سے فائق تر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق کو قربان کرکے ان کی خدمت نہ کرو۔ جس شخص نے اپنے اہل و عیال کو خوش کرنے کے لیے اللہ کے حقوق مارے، اس کی نافرمانیاں کیں، اللہ کے دین کے ساتھ غداریاں کیں، اس نے درحقیقت اپنی اولاد اور بال بچوں کے اُوپر اپنی عاقبت قربان کر دی، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس نے وفا کرنے کے بجاے دغا کی۔ چنانچہ چاہے وہ عَدُوّ اس معنی میں ہوں کہ ان کی وجہ سے جماعت مسلمین کے راز دشمنانِ دین تک پہنچیں، اور چاہے وہ عدو اس معنی میں ہوں کہ  ان کی محبت کا تقاضا آدمی یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ان کے لیے ہر حق اور ناحق کام کرنے پر تیار ہوجائے۔ ان دونوں صورتوں میں وہ عدو ہیں۔ اس لیے فرمایا: یہ تمھارے لیے عدو ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’’اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘۔ اس حکم کی وضاحت اُوپر بیان کی جاچکی ہے۔

مال اور اولاد کی آزمایش

اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۱۵) تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

فتنہ کہتے ہیں آزمایش کو۔ فتنہ یہ ہے کہ آدمی کے سامنے ایسے حالات پیش آجائیں جن کے اندر وہ اس امتحان سے دوچار ہوجائے کہ وہ حق کی طرف جائے یا باطل کی طرف۔ خدا کی اطاعت اختیار کرے یا اس سے بغاوت کی طرف چل نکلے۔ ایسے تمام مواقع فتنے کے مواقع ہیں۔ یہاں آکر آدمی کی اصل آزمایش ہوتی ہے۔ آدمی کی زندگی کا یہ فیصلہ کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ ہے یا نہیں، پلنگ پر لیٹے لیٹے نہیں ہوجاتا۔ جب آپ دنیا کی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور دنیا کے معاملات سے آپ کو سابقہ پیش آتا ہے، اس وقت قدم قدم پر آدمی کی آزمایش ہوتی ہے کہ آیا یہ واقعی اللہ کا بندہ ہے یا اپنے نفس کا بندہ ہے، اللہ کا بندہ ہے یا دوسرے انسانوں کا بندہ ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ بڑی آزمایش آدمی کو اپنے اموال اور اپنی اولاد کے معاملے میں پیش آتی ہے۔ آدمی کا اپنا مالی مفاد اور اس کی اولاد کا مفاد اس کے سامنے یہ سوال رکھ دیتا ہے کہ آیا وہ حق کی پیروی کرے یا باطل کی پیروی کرے۔ حرام و حلال کے حدود کا لحاظ رکھے یا ان کو پسِ پشت ڈال دے۔ مالی مفاد یہ کہتا ہے کہ حرام ذرائع سے جو کچھ بھی کامیابی ہوسکتی ہے وہ ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ کاروبار کو وسعت دینے کے لیے اگر سودی قرض لینا پڑتا ہے تو لے لو کیونکہ اس سے تمھارے لیے کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے۔ تمھاری کھیتیاں پھلیں پھولیں گی اور تمھاری تجارت چمکے گی۔ دوسری طرف یہ ہے کہ اگر تم حلال اور حرام کے چکر میں پڑے رہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ تمھاری تجارت بڑھے گی، نہ زراعت کو ترقی ملے گی۔ اس طرح تمھارا معیار زندگی ان پابندیوں کے ساتھ تو بلند ہونے سے رہا۔

اسی طرح اولاد کے معاملے میں بھی آدمی کو سخت آزمایش پیش آتی ہے۔ ایک طرف اولاد کا دنیاوی مفاد یہ چاہتا ہے کہ آدمی حلال و حرام کے حدود و قیود کو توڑ دے، اور س بات سے بے پروا ہوجائے کہ جائز کیا ہے اور ناجائز کیا ہے۔ کیا چیز اللہ کے دین کے مطابق ہے اور کیا چیز اس کے دین کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کس چیز میں ہے اور اس کی بغاوت کس چیز میں ہے۔ بس وہ صرف یہ سوچے کہ اس کی اولاد کو عیش کس طرح نصیب ہوسکتا ہے، اور اس کا مستقبل کس طرح تاب ناک ہوسکتا ہے اور وہ آنکھیں بند کرکے سب کچھ کرتا چلا جائے۔ دوسری طرف آدمی اپنی آنکھوں سے یہ بھی دیکھتا ہے کہ جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے والے ہیں، ان کی اولاد کے لیے ترقی کے کتنے مواقع کھلے ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ جو شخص حدود اللہ کی پابندی کرنے والا ہے، اس کی اولاد کو آیندہ کیا مشکلات پیش آنے والی ہیں اور ان کا مستقبل کتنا تاریک ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسے سخت ماحول کے اندر جب ایسی سخت آزمایشیں آدمی کو پیش آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے طرزِعمل اور انتخاب کو اس وقت دیکھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ آدمی واقعی میرا بندہ ہے یا خودسر اور خودمختار ہے اور اپنی ذات کا اور خواہشات کا بندہ ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ: وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ’’اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے‘‘۔

ان دونوں باتوں کے درمیان ایک پورا خلا ہے جس کو آپ خود بھر سکتے ہیں۔ اس فتنے سے بخیریت نکلو گے تو یہ نہیں ہے کہ تمھارے مفاد سچ مچ قربان ہوگئے اور تمھیں واقعی نقصانات اٹھانے پڑے___ نہیں، بلکہ اللہ کے پاس اجرعظیم ہے۔ وہ اجرعظیم جو نہ دنیا تمھیں دے سکتی اور نہ اولاد دے سکتی ہے۔ اللہ کے پاس جو اجرعظیم ہے وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے تمھارا خدا کی خوش نودی اور اس کی راہِ اطاعت اختیار کرنے کا انتخاب خسارے کا سودا نہیں ہوگا، بلکہ اس کے بدلے میں تم اللہ کے ہاں اجرعظیم پائو گے۔ ہاں، اگر تم اس آزمایش کے موقع پر ناکام ہوجاتے ہو تو پھر تم نہ صرف اللہ کے اجرعظیم سے محروم ہوجائو گے، بلکہ اُلٹے اللہ کے ہاں بغاوت اور سرکشی کے جرم میں پکڑے جانے کا سامان بھی کرلو گے۔

استطاعت کا مفھوم

فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِاَ۔ّ   نْفُسِکُمْ وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۱۶) لہٰذا جہاں تک تمھارے بس میں ہو، اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمھارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یہاں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہفَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ،  ’’اللہ سے ڈرو جہاں تک تمھارے بس میں ہو‘‘۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ سے تقویٰ کرنے کا جو بلند ترین معیار ہے، اس کے مطابق تقویٰ اختیار کرو، بلکہ فرمایا کہ جتنی تمھاری استطاعت ہے اس کی حد تک اللہ سے تقویٰ کرو اور اس میں کمی نہ کرو۔ دیکھیے یہ ایک بہت بڑی رعایت ہے جو انسان کو دی گئی ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو کمالِ تقویٰ کا حق ہے وہ ادا کرو کیونکہ اگر یہ مطالبہ عام انسانوں سے کردیا جاتا ہے تو انبیا ؑکے سوا کون اس مرتبے تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس لیے مطالبہ ہم سے یہ کیا گیا ہے کہ جہاں تک تمھارے بس میں ہے، اللہ سے تقویٰ کرو اور اس میں کوتاہی نہ کرو۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ آپ کی استطاعت کیا ہے، یہ اللہ کا کام ہے، آپ کا نہیں۔ گویا ایک وہ استطاعت ہے جو آپ خود اپنی جگہ سمجھ لیں، اور ایک استطاعت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں آپ کی استطاعت ہے۔ ان دونوں باتوں میں بے انتہا فرق ہے۔

میں آپ کو ایک مثال دے کر بتاتا ہوں کہ آدمی کے سامنے ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ اگر میں حرام طریقے سے یہ قرض حاصل کر کے اپنا سرمایہ بڑھا لوں تو میری صنعت اور تجارت اتنی ترقی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر میں یہ کام نہ کروں تو یہ جو میرا چھوٹا سا کاروبار ہے بس اسی میں پڑا رہوں گا اور کبھی ترقی نہیں کرسکوں گا۔ یہ سوچ کر وہ یہ راے قائم کرتا ہے کہ اب میری استطاعت میں یہ نہیں ہے کہ میں اس حرام سے بچوں۔ اب کیا کروں؟ یہ ایک واقعی مجبوری اور اضطرار کی حالت ہے___ یہ محض خود فریبی ہے۔ شریعت کی رُو سے اضطرار اس چیز کا نام ہے کہ آپ پر فاقوں کی نوبت آجائے تب محض جان بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت ہوسکتی ہے۔ اگر ایک آدمی اپنی جگہ یہ قرار دے لیتا ہے کہ اسے کاروبار بڑھانے کا اضطرار لاحق ہے۔ دوسری طرف دو وقت کی روٹی چل رہی ہے، کپڑا پہننے کو مل رہا ہے، مکان بھی رہنے کے لیے موجود ہے، لیکن وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس کو کاروبار بڑھانے کا اضطرار لاحق ہے اور اس لیے اب اس کی استطاعت میں حرام سے بچنا ممکن نہیں ہے، محض مجبوری کی حالت میں لینا پڑ رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ خوداختیار کردہ اضطرار تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ ہاں، واقعی تمھاری استطاعت بس اتنی ہی تھی۔ نہیں، بلکہ آخرت کی میزان میں یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا کہ واقعی تمھاری استطاعت کیا تھی اور اس کے مطابق تم نے تقویٰ کا حق ادا کیا ہے یا نہیں۔

ایک وہ استطاعت ہے جس کے حدود آدمی اللہ سے ڈرتے ہوئے طے کرے، ایک استطاعت وہ ہے جو آدمی نفس کی بندگی کرتے ہوئے طے کرتا ہے۔ جب آدمی نفس کی بندگی کرتے ہوئے اپنی استطاعت طے کرتا ہے تو وہ ہمیشہ خود کو غلط طور پر حرام کھانے پر قائل کرتا ہے، اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس کا خدا بھی اس کی اس خودفریبی سے دھوکا کھا جائے۔ جب اپنے دل میں اپنے موقف کی کمزوری کو محسوس کرتا ہے تو پھر مولویوں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے اس اضطرار کی بنا پر اس حرام کو میرے لیے حلال کر دیجیے کہ میں واقعی ایسا مضطر ہوں جس کی بنا پر یہ میرے لیے حلال ہے۔ لیکن وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ اگر کوئی مولوی صاحب بھی یہ فتویٰ دے دیں کہ ہاں، تم واقعی مضطر ہو اور یہ حرام تمھارے لیے حلال ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا حرام حلال نہیں ہوجائے گا، بلکہ جب وہ اس کے فتوے کی بنا پر حلال و حرام کے حدود توڑے گا تو خود وہ مولوی صاحب بھی ساتھ ساتھ پکڑے ہوئے آئیں گے کہ حرام کو حلال قرار دینے کا یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون تھے۔ اس طرح اس حرام خور کی دنیا تو بنے گی اور تجارت چمکے گی لیکن    وہ صاحب جنھوں نے یہ فتویٰ دیا ہوگا خواہ مخواہ جوتے کھائیں گے اور شاید کھال بھی کھنچوا بیٹھیں۔ یہ اس بنا پر کہ یہ فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے کہ واقعی آپ کی استطاعت کیا ہے۔ ایک آدمی اگر خود اپنی جگہ اپنی خواہشِ نفس کے پیچھے لگ کر اپنی استطاعت کی حدود مقرر کرے تو وہ فیصلہ کن چیز نہیں ہے___ اسی لیے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو جہاں تک تمھارے بس میں ہے۔

وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا’’اور سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ذریعے سے تمھیں احکام دیتا ہے ان کو سنو، سمجھو اور ان کے مطابق عمل کرو، اس کی اطاعت اختیار کرو۔ وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِاَ۔ّ   نْفُسِکُمْ ’’اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو‘‘۔ یہ تمھارے لیے ہی بہتر ہے۔

دل کی تنگی

وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۶) اور جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے، بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔

دل کی تنگی سے مراد یہ ہے کہ آدمی تنگ نظری کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے لگے کہ مجھے کیا کام کرنا چاہیے اورکیا نہ کرنا چاہیے۔ جب آدمی تنگ نظری کے ساتھ اپنے راستے کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فیصلہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اگر تمھارے مفاد پر ذرا سی بھی چوٹ پڑتی ہے تو اس کو گوارا نہ کرو بلکہ تمھارے مفاد کی ترقی میں جو رکاوٹ بھی پیش آسکتی ہو، اس کا خطرہ کبھی مول نہ لو۔ یہ تنگ نظری کا فیصلہ ہے۔ اس کے برعکس جو آدمی فراخ حوصلگی اور عالی ظرفی کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میرا مال تو سارے کا سارا اللہ کا دیا ہوا ہے۔ میں تو محض امین ہوں، اوراس کو بہرحال مجھے چھوڑ کر جانا ہے۔ آج اگر یہ میرے پاس ہے تو میرے مرنے کے بعد یہ دوسروں کے پاس چلاجائے گا۔ اس میں سے میرے کام صرف وہی کچھ آنا ہے جو میں نے اپنی زندگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا، باقی سب کچھ تو وارثوں کے لیے رہ جائے گا۔ اس طرح سوچ کر جو آدمی فیصلہ کرتا ہے وہ صحیح فیصلہ کرتا ہے لیکن جو آدمی دل کی تنگی میں مبتلا ہو وہ اپنے نہایت چھوٹے اور حقیر مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بخل کرتا ہے۔ اس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جو لوگ دل کی تنگی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اور لازمی بات ہے کہ جو تنگ نظری میں مبتلا ہیں ان کے لیے کوئی فلاح نہیں ہے۔

قرضِ حسن

اِنْ تُقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ (۱۷) اگر تم اللہ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمھیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمھارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، اللہ بڑا قدر دان اور بُردبار ہے۔

اس چھوٹے سے فقرے میں دیکھیے ایک وسیع اور عظیم مضمون بیان کر دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو، یعنی مال اللہ تعالیٰ کا ہے، تمھارے پاس تو بس بطور امانت ہے لیکن اس کے باوجود تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال کو اس کی راہ میں خرچ کرنا تمھارا فرض تھا۔ ہاں، اس مال میں سے جو کچھ تم اپنے لیے، اپنی ضروریات کے لیے خرچ کرتے ہو، یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رعایت ہے جو اس نے تمھیں دے رکھی ہے کہ میرا یہ مال تیرے حوالے ہے اور تم اپنی ذات پر بھی اس میں سے خرچ کرسکتے ہو۔ اصل میں تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا آپ کا فرض تھا لیکن یہ اس کی انتہائی فیاضی اور مہربانی ہے کہ وہ اس کو اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے بشرطیکہ وہ قرضِ حسن ہو۔

قرضِ حسن سے مراد یہ ہے کہ وہ قرض کسی غلط نیت کے ساتھ نہ دیا جائے، بطور ریاکاری نہ دیا جائے، کسی پر احسان جتانے کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ اس سے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی مطلوب ہو۔ یہ سمجھتے ہوئے خرچ کیا جائے کہ یہ اللہ کا مال ہے اور اسے اسی کی راہ میں جانا چاہیے۔ پھر قرضِ حسن سے مراد یہ بھی ہے کہ آدمی اس پر صرف اللہ ہی سے اجر کی اُمید رکھتا ہے کسی اور سے اجر کی خواہش یا اُمید نہیں رکھتا۔ یہ ہے وہ قرضِ حسن جس کے متعلق فرمایاکہ یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ ’’وہ اس کو تمھارے لیے کئی گنا بڑھائے گا‘‘۔ گویا وہ صرف اس قرض ہی کو واپس نہیں کرے گا بلکہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر عطا کرے گا۔

مغفرت کی شرط

اس کے بعد فرمایا: وَیَغْفِرْلَکُمْ’’اور وہ تم سے درگزر کرے گا‘‘۔ یعنی آدمی اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے کتنا ہی اخلاص اپنے اندر پیدا کرلے، اور کتنی ہی تن دہی کے ساتھ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے، تب بھی اس کے کام میں کوئی نہ کوئی کوتاہی رہ جاتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو شیطان ہی ایک کانٹا مار جائے گا کہ میاں، تمھارے کیا کہنے! تم نے خدا کی راہ میں جو اتنا روپیہ خرچ کیا ہے، لوگ واقعی اس پر تمھاری تعریف کر رہے ہیں۔ اللہ تمھاری اس نیکی کی قدر نہیں کرے گا تو اور کس چیز کی کرے گا۔ اب اگر اللہ کے ہاں ان چیزوں کی پکڑ ہوجائے تو آدمی کا سب کیا دھرا خاک میں مل جائے۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی کوتاہیوں سے درگزر نہ فرمائے، اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوسکتی۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آپ کے دل میں آپ کے عمل کا اصل محرک کیا ہے، دنیا کی تعریف حاصل کرنا ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی۔ اگر واقعتا اللہ کی رضا جوئی اصل محرک تھی تو بیچ بیچ میں شیطان کے یا کسی انسان کے یا نفس کے ڈالے ہوئے جو وسوسے آئے تھے وہ سب معاف ہوجائیں گے بشرطیکہ بنیادی محرک اللہ کی رضا حاصل کرنا ہی ہو۔

اسی طرح آدمی دنیا میں جتنے اعمال بھی اللہ کی خوش نودی کے لیے کرتا ہے، وہ اپنی حد تک پوری کوشش بھی کرڈالے کہ اللہ تعالیٰ کی صحیح بندگی کا حق ادا کردے، اس کے حدود سے ممکنہ حد تک تجاوز نہ کرے، اس کے باوجود آدمی کے عمل میں بہ تقاضاے بشریت بہت سی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ درگزر سے کام نہ لے، چشم پوشی نہ فرمائے اور معیارِ مطلوب کے مطابق محاسبہ کرنے پر اُتر آئے تو شاید ہی آدمی کے کسی عمل کے قبول ہونے کی نوبت آسکے۔ ہر عمل کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی کھوٹ اور ایسی خامی نکل آئے گی جس کی بنا پر وہ عمل کھوٹے سکّے کی طرح اُٹھا کر پھینک دیا جائے۔ لیکن یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے یہ اصول قائم کر دیا ہے کہ اگر بنیادی طور پر ایک آدمی کے اندر سچی وفاداری ہے، اس کی اطاعت کا حقیقی جذبہ ہے، اور اس کی رضاجوئی کی سچی خواہش ہے تو اس کے بعد اس کی سب کوتاہیاں معاف، اور سارے قصوروں سے درگزر!

اللّٰہ کی قدردانی اور بُردباری

وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ ’’اور اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بُردبار ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی یہ دو صفتیں بیان فرمائیں۔ شکور شکر سے مبالغہ کا صیغہ ہے، یعنی بڑا شاکر۔ شکریہ کا لفظ اسی ’شکر‘ سے ہے جو ہم اپنی زبان میں بولتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کا شکریہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شکریہ اللہ کی قدردانی ہے۔ مثلاً آپ کا کوئی خادم ہے جس کو آپ پوری تنخواہ دیتے ہیں، اس کے اُوپر ہر طرح کی عنایات کرتے ہیں اور اس کے ساتھ بہتر سے بہتر حُسنِ سلوک کرتے ہیں۔ اگر اس کے مقابلے میں وہ خادم اپنی حد تک آپ کی پوری پوری اطاعت کرتا ہے اور کمالِ ذمہ داری کے ساتھ کرتا ہے، مزید یہ کہ اپنی استطاعت کی حد تک آپ کے مفاد کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کرنے کی کوشش کرتا ہے، تب یہ ایک فطری بات ہے کہ آپ کے دل میں لامحالہ اس کے لیے قدر پیدا ہوگی۔ اسی قدر کا نام شُکر ہے۔ آپ اس کے دل ہی دل میں شکرگزار ہوں گے کہ آپ نے اس پر جو عنایات کی ہیں، اس کو تنخواہ پوری اور بروقت دی ہے اور اس پر ہرطرح سے مہربان رہے ہیں، تو اس نے بھی آپ کی ان عنایات کا جواب نمک حرامی سے نہیں دیا، کام چوری سے نہیں دیا بلکہ اس نے ان احسانات کا جواب واقعی سچے دل سے وفادارانہ خدمت کے ذریعے سے دیا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے مشکور ہونے کا ترجمہ دراصل قدردان ہونا چاہیے نہ کہ شکرگزار۔ اگر یہ لفظ بولا جائے تو یہ اصل مفہوم کو عجیب رنگ دے دیتا ہے اور غلط فہمی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ چنانچہ عربی زبان میں اس کا صحیح مفہوم قدردانی ہی سے ادا ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’قدردان‘ کیا ہے۔

دوسری چیز فرمائی کہ وہ حلیم ہے۔ اُوپر فرمایا کہ مَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ ’’جو شخص دل کی تنگی سے بچ گیا وہی فلاح پانے والا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا مطالبہ اپنے بندوں سے یہ ہے کہ وہ دل کی تنگی سے بچیں، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حِلم اور بُردباری ہے، سخت گیری اور  خُروہ گیری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ بات بات پر اپنے بندوں کو پکڑے۔ وہ درگزر سے، بُردباری اور حلیمی سے کام لیتا ہے۔ تم بھی وسیع القلب بنو، تنگ دل مت بنو کیونکہ اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ وہ تمھارے ساتھ سخت گیری کا معاملہ نہیں کرتا، بلکہ نرمی اور شفقت برتتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ رویّہ ہوتا کہ آپ نے جو جو قصور کیے ہیں ان کی سزا دیتا چلا جائے اور جو جو نیک کام کیے ہیں ان کا اجر دیتا چلا جائے، تو کون آدمی ایسا ہے جو سزا سے بچ سکے گا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک اور آقا اور فرماں روا مان کر اطاعت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، تو اس کے بعد جتنی کوتاہیاں آپ سے اس کام میں رہ گئی ہوں وہ ان پر گرفت کرنے کے بجاے ان سے درگزر سے کام لیتا ہے اور آپ کو معاف کر دیتا ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ قیامت میں وہ نامۂ اعمال ہی سے خارج کر دی جائیں اور وہاں آدمی کو رسوا ہی نہ کیا جائے کہ تم دنیا میں یہ یہ کچھ کر کے آئے ہو۔ خود قرآن مجید میں اور احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ ایک سچے اور مخلص و وفادار مومن کا حساب دنیا ہی میں صاف کر دیا جاتا ہے۔ ایک کانٹا بھی اس کو چبھا تو اس کی کوئی غلطی معاف کر دی گئی، بیمار ہوا تو کوئی اور خطا معاف کر دی گئی، کوئی نقصان ہو تو کوئی اور گناہ معاف کر دیا گیا۔ الغرض ایک ایک خطا، قصور اور گناہ کا حساب یہیں صاف کر دیا جاتا ہے۔ آخر میں اگر پھر بھی کچھ بچ گیا تو اس کی وفاداریوں اور اعلیٰ خدمات کو دیکھ کر معاف کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کے سچے وفادار بندے بن کر زندگی گزاریں اور اس کے ساتھ جان بوجھ کر کوئی بے وفائی کا کام نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ تنگ دلی اور تنگ نظری کے ساتھ معاملہ کرنے والا نہیں ہے۔ جو کام انھوں نے اس کی خوش نودی کے لیے کیے ہیں ان کے لیے وہ شکور ہے، یعنی ان کی قدردانی کرتا ہے اور جو کوتاہیاں ان سے ہوگئیں وہ ان سے درگزر کرے گا، ان کے ساتھ حلم کا برتائو کرے گا۔

عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱۸) حاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا ہے، زبردست اور دانا ہے۔

یعنی اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں ہے۔ جو چیز آپ کے لیے غیب ہے وہ بھی اس کے لیے شہادۃ، اور جو چیز آپ کے لیے شہادۃ ہے وہ بھی اس کے لیے شہادۃ ہے۔ یہ غیب کے الفاظ دراصل ہمارے علم کے لحاظ سے استعمال کیے گئے ہیں۔ مخلوق کے لیے جو کچھ غیب ہے وہ بھی اس پر عیاں ہے، اور جو کچھ مخلوق کے لیے عیاں ہے وہ بھی اس کے لیے عیاں ہے۔ تم جو کچھ کام بھی کرتے ہو ان کی حقیقت کو وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے اور اس کے ساتھ وہ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ہے، یعنی زبردست اور حکیم۔ اس کے ارادوں اور فیصلوں کی تکمیل میں کوئی طاقت حائل نہیں ہوسکتی، اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، یعنی اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی طاقت اور قدرت کو ہمیشہ حکمت اور دانائی کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ تمھارا معاملہ اس ہستی سے ہے اس لیے خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ تمھارے لیے سلامتی اور فلاح کی راہ کون سی ہے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمن احسن)