جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ نامسعود میں جس نام نہاد روشن خیالی کا بیج بوکر ایک زہریلا پودااُگایا گیا تھا، پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں وہ سیکولرزم، اباحیت پسندی اور فکری انتشار اور نظریۂ پاکستان سے انکار جیسے کڑوے کسیلے اور زہریلے برگ و بار لے آیا ہے۔ پیپلزپارٹی بظاہر تو صبح وشام ’عوام عوام‘ کی رَٹ لگاتی ہے اور ’جمہوریت جمہوریت‘ کی دُہائی بھی دیتی ہے مگر پاکستان کی نظریاتی جہت کے ضمن میں اسے نہ تو عوام کی اُمنگوں کی کوئی پروا ہے نہ جمہور کی خواہشات کا کوئی پاس و لحاظ۔ اس کے برعکس یہ پارٹی بلاتامّل ہر وہ اقدام کر گزرتی ہے جس سے پاکستان کی نظریاتی شناخت دھندلی ہوتی ہے اور جس سے اسلامی شریعت کے نفاذ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
کیا پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں حکمران طبقہ (سرکاری منصب داروں، نوکر شاہی اور برسرِاقتدار پارٹی کے وزرا وار ممبران پارلیمنٹ کی بڑی تعداد سمیت) واضح طور پر بدعنوانیوں، بے ایمانیوں اور طرح طرح کی کرپشن کی بہتی گنگا میں نہاتا نظر آئے؟ پھر یہ کہ ان کے متعدد اہم لوگ پاکستان کی نظریاتی شناخت کے منکر اور سیکولرزم اور ’روشن خیالی‘ کے وکیل بن جائیں؟ حقیقت یہ ہے کہ زیرنظر کتاب کے مؤلف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ پاکستان میں سیکولر لابی، اس کی نظریاتی بنیادوں پر تیشہ چلانے میں سرگرمِ عمل ہے اور اس سلسلے میں اُنھیں سیکولر دانش وروں، بعض بھارتی صحافیوں، رقص و موسیقی کے دل دادگاں، میلوں، ٹھیلوں اور بسنت کے شائقین، ویلنٹائن ڈے اور میراتھن ریس کے رسیا، بعض سرکاری عہدے داروں اور کچھ غیرسرکاری کالم نگاروں، برقی ذرائع ابلاغ، اینکروں کے ایک طبقے اور چند اخبارات کی تائید حاصل ہے۔ ان لوگوں نے ایک جتھا بنا لیا ہے اور اُنھیں قائدعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کی صورت میں ایک ہلدی کی گانٹھ مل گئی ہے، جس کے بل بوتے پر انھوں نے سیکولرزم اور آزاد خیالی کی دکان کھول لی ہے۔ حالیؔ کیا خوب کہہ گئے ؎
مال ہے نایاب، پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں حالیؔ نے کھولی ہے دکان سب سے الگ
اگر آپ اس ٹولے کی صفوں پر نظر ڈالیں اور ان کے ماضی پر غور کریں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ طبقہ پرلے درجے کا موقع پرست ہے۔ ان موقع پرستوں میں ایک تو وہ ’ترقی پسند‘ ادیب اور دانش ور صحافیوں کا طائفہ شامل ہے، جس کا ’قبلہ‘ روزِ اوّل ہی سے ماسکو رہا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں ’سرخ سویرا‘ طلوع ہوا تو روس کے سوا انھیں ساری دنیا میں اندھیرا نظر آنے لگا۔ یہ لوگ کریملن سے جاری ہونے والے ہرنظریے، بیان اور موقف کو وحی کا درجہ دیتے ہوئے اس پر آمنّا وصدقنا کہتے رہے۔ یہ حضرات افغانستان پر روسی حملے کے فوراً بعد روسی ٹینکوں کو طورخم پر ہار پہنانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے، مگر مجاہدین نے یہ موقع ہی نہ آنے دیا، بلکہ روسی فوجوں کا منہ پھیر دیا۔ اس کے نتیجے میں جب اشتراکی روس منہدم ہوگیا توانھوں نے ’عظیم باپ اسٹالن‘ کی مدح خوانی سے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے اور روس سے منہ موڑ کر اپنا رُخ واشنگٹن کی طرف پھیرلیا۔ ’قبلۂ اوّل‘ سے انھوں نے ترکِ تعلق تو نہیں کیا مگر اب طاقت کا سرچشمہ چوں کہ وہائٹ ہائوس میں منتقل ہوگیا ہے (اور ویسے بھی روسی آقا کنگلے ہوچکے ہیں) اس لیے قلابازی کھانا ضروری تھا۔
موقع پرستوں میں دوسرا طبقہ سرحدی گاندھی کے جانشینوں کا ہے۔ یہ ان سرخ پوشوں کے وارث ہیں جنھوں نے صوبہ سرحد کو پاکستان کے بجاے، بھارت میں شامل کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ریفرنڈم میں منہ کی کھائی۔ اب انھوں نے اقتدار کی خاطر، اس پیپلزپارٹی کی حاشیہ برداری میں عار محسوس نہیں کی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں صوبہ خیبر میں ان کی معاون و معاہد مفتی محمود کی جمہوری حکومت کو غیرقانونی طور پر برطرف کیا۔ لیاقت باغ میں ۲۳مارچ کے جلسے میں سیدھی سیدھی فائرنگ کرکے (قدرے چھوٹے پیمانے پر) جلیانوالہ باغ کا رِی پلے کیا، اور پھر جنھوں نے ان کے لیڈر ولی خاں کو جیل میں ڈالا، اور ان کی جان کے درپے رہے۔ یہ بھی ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ خان عبدالولی خان جیسے بااصول راہ نمائوں کی وراثت ایسے موقع پرستوں کے ہاتھ آئی ہے جنھوں نے سرخ پوشی ترک کر کے امریکی پوشش پہن لی ہے۔ ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق یوں اب واشنگٹن سے ان کے ’رومان‘ نے انھیں صوبہ خیبر کی ’خواجگی‘ کیا عطا کی ہے کہ وہ روشِ بندہ پروری کے منکر ہوگئے ہیں۔ ان کے وزرا علی الاعلان نظریۂ پاکستان کا انکار کرتے نظر آتے ہیں۔
اس منظر اور صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے، پیشِ نظر کتاب پاکستان اور اسلامی نظریہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے مباحث و محتویات کی معنویت بخوبی واضح ہوتی ہے۔
پروفیسر خورشیداحمد نے ۱۹۶۱ء میں ماہنامہ چراغِ راہ کے ’نظریہ پاکستان نمبر‘ میں ایک تحریری مذاکرہ شائع کیا تھا۔ جس میں پاکستان اور بیرونِ پاکستان کے چوٹی کے ۲۴ دانش وروں نے پاکستان کی نظریاتی جہت اور اُس کی اسلامی شناخت پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا تھا۔ اس مذاکرے کا مجموعی تاثر اس قدر واضح تھا کہ صدر ایوب خان کی حکومت اسے ہضم نہیں کرسکی اور رسالے کو جابرانہ طریقے سے بند کر دیا۔ پروفیسر صاحب نے عدالتِ عالیہ میں اس اقدام کو چیلنج کیا تو عدالت نے ’’اس پابندی کو باطل قرار دے دیا‘‘۔ مذکورہ قلمی مذاکرے کو چراغِ راہ سے بازیافت کر کے مختصر حواشی اور پروفیسر صاحب کے نئے دیباچے کے ساتھ (منشورات، منصورہ لاہور سے) کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔
ایک ایسے ماحول میں جب مطالبۂ پاکستان کے اصل اور بنیادی محرک (پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ) کو ڈھٹائی کے ساتھ نظراندازکرکے واضح طور پر جعل سازی کی جارہی ہے، اور پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اُڑائی جارہی ہے اور پاکستان مخالف لابی بھارتی، اسرائیلی اور امریکی سرپرستی کے منہ زور گھوڑے پر سوار اپنے کالم نگاروں، اینکروں کے ذریعے، مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگا رہی ہے، مذکورہ قلمی مذاکرے کی اشاعتِ نو بہت برمحل ہے۔ یہ ایسا صاف شفاف آئینہ بھی ہے جو قارئین کو بلاکم و کاست پاکستان کی اصل شناخت سے روشناس کراتا ہے۔ اس مذاکرے میں شامل تمام ہی شخصیات اپنے دور کی سربرآوردہ، اور اپنے اپنے شعبوں (قانون، تعلیم، سیاست، ادب، منصفی، فکروتحقیق، تجارت، معیشت وغیرہ) میں مسلّمہ طور پر واجب الاحترام مانی جاتی تھیں۔ تقریباً تمام ہی اصحابِ فکرونظر اس بات پر متفق ہیں کہ دو قومی نظریہ ہی قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔ ممتاز عالمِ دین مولانا مفتی محمد شفیع کہتے ہیں: ’’دو قومی نظریے کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر پاکستان بنانے کی کوئی وجۂ جواز باقی نہیں رہتی (ص ۱۶۴)‘‘۔ معروف ادبی نقاد، محقق اور استاد ڈاکٹر سیدعبداللہ کہتے ہیں کہ: ’’پاکستان اسی نظریے کی خاطر معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اس بنیادی حقیقت سے ہٹ کر پاکستان کے جواز کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی‘‘ (ص ۱۰۹)۔ ماہر تعلیم، دانش ور اور ادبی نقاد پروفیسر حمیداحمد خاں کہتے ہیں: ’’پاکستان کے بقا، قیام اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی ضرورت اور اہمیت بڑی بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور وہ اس لیے کہ پاکستان جب قائم ہوا تھا تو نظریاتی بنیاد پر ہی قائم ہوا تھا۔ پاکستان نام ہی ایک نظریاتی تنظیم کا مظہر ہے اور اگر وہ اس نظریے سے وابستہ نہ رہے جو اس کے قیام کی غرض و غایت تھا، تو پاکستان کا قیام ہی بے معنی ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص ۸۵)
ادیب، شاعر اور سفارت کار میاں بشیر احمد تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے، ان کا خیال ہے کہ ’’اسلامی نظریہ ہی پاکستان کی اساس اور وجۂ جواز ہے‘‘ (ص ۷۷)۔ معروف ناول نگار، شاعر اور بیوروکریٹ فضل احمد کریم فضلی نے کہا: ’’اسلامی نظریے ہی نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں کو گرمایا، روح کو تڑپایا اور اُنھیں ایک ایسا نصب العین بخشا جس کے لیے وہ لٹنے، تباہ ہونے، بسے بسائے گھر اُجاڑنے اور اپنی جان تک قربان کرنے پر تیار ہوگئے‘‘۔ (ص ۱۲۱)
چراغِ راہ کے سوالات میں یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ گذشتہ برسوں میں پاکستان اسلامی نظریے سے قریب آیا ہے یا اُس سے دُور ہٹا ہے؟ اور اسی طرح یہ کہ اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ مذاکرے کے شرکا نے نہ صرف ان سوالوں کے جواب دیے ہیں بلکہ اُن وجوہ کا بھی ذکر کیا ہے جو پاکستان کو اسلامی نظریے سے قریب آنے میں مانع رہی ہیں، اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لیے زمین کو ہموار کرنا کس قدر ضروری ہے۔ اس سلسلے میں فرزندِ اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں: ’’اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے ذہنیتوں میں انقلاب لانا ضروری ہے‘‘ (ص ۸۰)۔ ایک اور چیز جس کی طرف ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر سید عبداللہ اور پروفیسر حمیداحمد خاں نے متوجہ کیا ہے، وہ نظامِ تعلیم کی اصلاح ہے۔ اس ضمن میں معروف مؤرخ، دانش ور، سابق رئیس الجامعہ کراچی اور وزیرتعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا خیال ہے کہ اوّل ہمارے اساتذہ کے کردار میں اسلام کا عمل دخل ضروری ہے۔ دوسرے، ہماری ذہنیتوں کو وہی تعلیم بدل سکتی ہے جو طلبہ کے اندر ’صحیح دینی ذوق‘ پیدا کرے اورٹھیٹھ اسلامی ذہنیت اور رجحانات کی حوصلہ افزائی کرے۔(ص ۶۳)
پروفیسر حمید احمد خاں کہتے ہیں: جب تک تعلیم میں بنیادی اصلاحات نہ کی جائیں گی، ہمارے طالب علم اسلامی نظریے سے مانوس نہ ہوں گے۔ اُن کے نزدیک بنیادی اصلاحات میں قرآن و سنت کا فہم، فارسی، عربی اور اُردو کی تعلیم، انگریزی کے بجاے اُردو ذریعۂ تعلیم اور استاد اور شاگرد کا بہتر سطح پر باہمی تعلق شامل ہیں۔ (ص ۹۲)
خان لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک پاکستان کے تمام وزراے اعظم اور غلام محمد سے لے کر زرداری تک (بشمول ایوب خان، یحییٰ خان، چودھری فضل الٰہی، جنرل ضیاء الحق، فاروق لغاری اور جنرل مشرف) سبھی صدورِ مملکت سال میں دو بار قائداعظم اور علامہ اقبال کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتے رہے لیکن علامہ اقبال اور قائداعظم جس قسم کے پاکستان کی تعمیر چاہتے تھے یا پاکستان کو جس منزل کی طرف لے جانا چاہتے تھے (وہ منزل اسلامی نظام کی منزل تھی اور ایک جدید اسلامی ریاست کی منزل تھی)، ان لوگوں نے ہمیشہ اس راہ میں روڑے اٹکائے بلکہ جس کسی نے نظامِ اسلامی کا مطالبہ کیا، اسے پکڑا، جیل میں ڈالا، یا اُسے پاکستان مخالف قرار دے کر پروپیگنڈا مشینری سے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اب دیکھیے علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ’منظم اسلامی ریاست‘ کا ذکر کیا تھا اور اس کے بعد اُنھوں نے نظریۂ قومیت کی بحث میں مولانا حسین احمد مدنی کے فرمودات کے جواب (روزنامہ احسان، ۹مارچ ۱۹۳۸ء ) میں واضح کر دیا تھا کہ فقط ’’انگریز کی غلامی سے آزاد ہونا منتہاے مقصود نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ ایک باطل کو مٹاکر، دوسرے باطل کو قائم کرنا چہ معنی دارد؟ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندستان کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے،ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے، ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا بولنا، روپیا صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اورقطعی حرام سمجھتا ہے‘‘۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبین: سیّد عبدالواحد معینی، محمدعبداللہ قریشی، آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۸ء، ص ۲۷۹)
علامہ اقبال کی یہ بات ہوبہو مولانا مودودیؒ کی تائید تھی۔ مولانا مودودی علامہ اقبال کے مذکورہ بالا بیان سے پہلے یہ کہہ چکے تھے کہ: ’’انگریز کی غلامی کے بند توڑنا ضرور آپ کا فرض ہے۔ [مگر] آپ کا کام باطل کو مٹاکر حق قائم کرنا ہے۔ ایک باطل کو مٹا کر دوسرے باطل اور بدتر باطل کو قائم کرنا نہیں ہے‘‘ (ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۶ھ [اپریل ۱۹۳۷ء]،جلد۱۰، عدد۲،ص ۹۰)۔ پھر ایک ماہ بعد مولانا نے لکھا: ’’یہ ملک، کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کانتیجہ یہ ہو کہ یہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بدتر ہوجائے تو ہم بلاکسی مداہنت کے صاف صاف کہتے ہیں کہ ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت ہے اور اس کی راہ میں بولنا، لکھنا، روپیا صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا اور جیل جانا سب کچھ حرام قطعی حرام ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن، ربیع الاوّل ۱۳۵۶ھ [مئی ۱۹۳۷ء] جلد۱۰، عدد ۳، ص ۱۶۹-۱۷۰)
قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم نے انھی خطوط پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو یہ کہا تھا کہ: ’’لوگوں کا ایک طبقہ [اور یہاں اُن کی مراد وہی سیکولر اور دو قومی نظریے سے منحرف طبقہ ہے جس کی ذُریت آج اسلامی نظریے کو مسخ کرنے میں پیش پیش ہے] جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا اُسی طرح زندگیوں پر اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد۴، بزمِ اقبال لاہور، ص ۴۰۲)
قائدعظم نے جس ’شرارتی طبقے‘ کی طرف اشارہ کیا ہے، پروفیسر حمیداحمد خاں نے اس کے بارے میں ذرا کھل کر بات کر دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میرے خیال میں اس نظریے کی طرف بڑھنے میں وہ تمام قوتیں مزاحم ہیں جو ۱۴ سو برس پہلے کبھی ابوجہل کی شکل میں رونما ہوئی تھیں اور کبھی مسیلمہ کذاب کا روپ دھارتی تھیں۔ نام تو بس ایک اضافی سی چیز ہے کہ اپنے اپنے زمانے کے مطابق نام بدل جاتے ہیں۔ لیکن وہ جو شرارِ بولہبی ہے، وہ ہر وقت زندہ ہے اور اسلام سے برسرِپیکار بھی ہے‘‘۔ (ص ۸۶)
پروفیسر حمیداحمد خاں جسے ’شرارِ بولہبی‘ اور قائداعظم جسے ’شرارتی طبقہ‘ کہتے ہیں، اس کا ذکر ہم زیرنظر تحریر کے ابتدائی حصے میں کرچکے ہیں___ اس حوالے سے ہم زیرنظر کتاب میں شامل مولانا مودودی کی چند سطور سیکولر دانش وروں کے غوروفکر کے لیے یہاں نقل کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں: ’’…مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیںکہ ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب و تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہوسکتے ہیں؟ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیراسلامی نظریے پر کام بھی کرنا، لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیںاور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟‘‘ (ص ۳۳)۔ ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اُڑانے والے سیکولر دانش وروں کو غور کرنا چاہیے کہ ان کی اپنی ’شناخت‘ کیا ہے؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامیوں اور سیکولرسٹوں کے درمیان جو کش مکش اور پیکار جاری ہے، زیرنظر کتاب دانش و برہان کے اسلحے کے ذریعے اسلامیوں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ بقول مرتب: ’’آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دوقومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے‘‘۔ (ص ۲۸)
(پاکستان اور اسلامی نظریہ، پروفیسر خورشیداحمد، مرتب: سلیم منصور خالد۔ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۲۷۵ روپے۔)