’ حُب ِرسولؐ اور اس کے تقاضے‘ (فروری ۲۰۱۱ء) میں بجا طور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ واقعی ہم اسوئہ حسنہ پر عمل کرکے ہی ہادیِ اعظمؐ سے محبت کے دعوے کو سچ ثابت کرسکتے ہیں نہ کہ نمایشی محبت کے ذریعے۔ بلوچستان کے پُرآشوب حالات پر مولانا عبدالحق ہاشمی صاحب کی تحریر ’سلگتا بلوچستان‘ (فروری ۲۰۱۱ء) فکرانگیز ہے۔ یقینا نظریۂ پاکستان جیسی متفقہ بنیاد اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ تمام صوبوں کے بنیادی حقوق ادا کرکے ہی پاکستان کو متحد رکھا جاسکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیرملکی ایجنسیوں کے کردار کو بھی ختم کرنا ضروری ہے۔
’عدلیہ کی آزادی اور ججوں کا تقرر‘ (فروری ۲۰۱۱ء) میں ایک حساس موضوع پر پارلیمنٹ کے کردار اور دیگر ممالک میں اس کے نظائر پیش کرکے اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ کا کردار ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ممالک میں جہاں ارکانِ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوں اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہی اتحاد اور اختلاف کرتے نظر آتے ہوں، عدلیہ کو ان کے تابع کرناکیسا ہوگا؟
’سُلگتا بلوچستان‘ (فروری ۲۰۱۱ء) انتہائی فکرانگیز ہے۔ ہمارے حکمران، مقتدر قوتیں اپنے اقدامات سے معاشرے میں انتہاپسندی کوفروغ دیتی ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی اسی طبقے کی ناعاقبت اندیشی کے سبب ہوئی تھی، اور اب بلوچستان میں بھی انتشار انھی کی پالیسیوں کے سبب ہے۔ اللہ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے۔ آمین!
بلوچستان میں حکومت کی عدم توجہ کا تو کیا کہنا، ایک عام پاکستانی بھی نہ تو کبھی بلوچستان دیکھنے کا سوچتا ہے اور نہ وہاں کوئی کاروبار کرنے کا ارادہ ہی رکھتا ہے جس سے یہ صوبہ حکومتی و عوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہوا ہے۔
’قبولِ اسلام کا سفر‘ (فروری ۲۰۱۱ء) نومسلم لورین بوتھ کا انٹرویو نہ صرف معلوماتی بلکہ ایمان افروز ہے۔ حجاب کے بارے میں ان کے خیالات اور عام مغربی معاشروں کا ردعمل اور نماز کے بارے میں جو کیفیت اور کشش انھوں نے محسوس کی وہ ہم جیسے کوتاہیوں بھرے مسلمانوں کے لیے بڑا اہم محرک ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کا اسلام قبول کرنے پر ردعمل اور احساسات، سب ایمان افروز ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اس طرح کی ایمان افروز تحریریں گاہے بگاہے شائع کی جائیں۔
’۶۰ سال پہلے‘ اور ’سنابل العلم‘ دومفید سلسلے ہیں۔ ان کے ذریعے ہم وہ علم حاصل کرتے ہیں جو بعض اوقات کسی طویل مقالے یا مضمون سے حاصل ہوتا ہے۔ ’۶۰سال پہلے‘ کے تحت’آزادیِ تنقید‘ (فروری ۲۰۱۱ء) ایک اہم انتخاب ہے۔ ہمارے معاشرے میں، حتیٰ کہ دینی لوگوں میں بھی مداہنت جڑ پکڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے انفرادی اور اجتماعی کردار میں بے حسی اور غلطیوں پرچشم پوشی کا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف اصلاح کا پہلو متاثر ہو رہا ہے بلکہ برائیوںکو فروغ مل رہا ہے۔ شعائر اسلام کے بارے میں تضحیک آمیز رویہ اور دین کی بنیادی اقدار پرحملہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ تنقیدومحاسبے کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیں، اور تنقید کو خوش دلی سے قبول کریں، نیز تنقید ومحاسبہ کرنے میں شرعی حدود سے تجاوزنہ کریں۔
’کلامِ نبویؐ کی کرنیں‘(فروری ۲۰۱۱ء) میں ایک جامع دعا کا ذکر کیا گیا ہے (ص ۳۱)۔ عربی متن میں چند مقامات پر اعراب غلط ہیں، درست الفاظ یہ ہیں: خَیْرِ، شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ، اَلْمُسْتَعَانُ۔
عبدالغفار عزیز کا چشم کشا مضمون ’وکی لیکس: ہمارے لیے کیا سبق ہیں؟‘ (جنوری ۲۰۱۱ء) ہمیں یہودیوں کی ان خفیہ چالوں سے واقف کراتا ہے جس کے نتائج مستقبل میں بڑے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کو پڑھنے کے بعد خواہش ہوئی کہ اگر یہ مضمون بھارت کے رسالوں میںبھی شائع ہوجاتا تو یہاں کے مسلمانوں کے لیے کافی مفید ثابت ہوتا۔
’۳۰ لاکھ کے قتل کا المیہ‘ (جنوری ۲۰۱۱ء)کی اشاعت متعدد حوالوں سے قابلِ اعتراض ہے۔ پہلا یہ کہ جس قرآنی آیت سے آغازِ کلام کیا گیا ہے، وہ اس المیے سے بے جوڑ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس امر میں صفائی کا کوئی محل نہیں ہے کہ ۳۰ لاکھ قتل ہوئے یا نہیں ہوئے۔ دراصل مشرقی پاکستان کا المیہ پاکستانی اقتدار پر قابض اسٹیبلشمنٹ کے امتیازی سلوک کا شاخسانہ تھا۔ تیسرا یہ کہ مضمون نگار نے غیر جانب دار ہونے کے برعکس ایک وکیل صفائی کا کردار ادا کیا ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ چیز عصبیتِ جاہلیہ ہے، اور ترجمان القرآن کے اوراق کو ایسی عصبیت سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
’بغیر وضو کے قرآن مجید کی تلاوت‘ (اگست ۲۰۱۰ء) کے مسئلے پر محترم مولانا عبدالمالک صاحب کا جواب نظر سے گزرا۔ اس کے بارے میں قارئین کے سامنے دوسرا نقطۂ نظر اور دلائل بھی آجائیں تو بہتر ہوگا۔ مولانا شمس پیرزادہؒ نے اپنی تفسیر دعوۃ القرآن، جلد سوم، صفحات ۱۹۸۴ تا ۱۹۸۵ میں سورۂ واقعہ کی آیت لاَّ یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ o (۵۶:۷۹) کے تشریحی نوٹ میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں ایسا کوئی حکم نہیں دیاگیا ہے بلکہ یہاں فرشتوں کے قرآن کو چھونے کا ذکر ہے۔جہاں تک موطا کی اس حدیث کا تعلق ہے کہ ’’قرآن کو صرف وہی چھوئے جو طاہر ہو‘‘، یہاں طاہر سے لازماً مراد باوضو شخص نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو جنابت سے پاک ہو۔ قرآن اور حدیث کے ان تصریحی احکام کے پیشِ نظر موطا کی مذکورہ بالاحدیث کا مفہوم یہی متعین ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جس نے جنابت سے اور کسی عورت نے حیض سے پاکی حاصل نہ کی ہو، وہ قرآن کو ہاتھ نہ لگائے۔
آخر میں لکھتے ہیں: قرآن کی تلاوت اور اس کے مطالعے کے لیے باوضو ہونا یقینا باعثِ خیروبرکت ہے کیونکہ باوضو ہونے کی صورت میں پاکیزگی کا زیادہ احساس ہوتا ہے اور خیالات کو پاکیزہ رکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے، لیکن وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانے کو حرام قرار دینا فقہی شدت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ شدت موجودہ زمانے میں لوگوں کو زبردست مشکلات میں ڈالنے والی ہے کیونکہ قرآن کے نسخوں کو فروخت کرنا، ان کو خریدنا اور ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، ان کو چھاپنا اور ان کی جِلدبندی کرنا سب کے لیے وضو کی قید کوئی عملی بات نہیں ہے۔ یہ قید اشاعتِ قرآن کے سلسلے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کتاب خوب صورت جزدان میں بند رکھنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ اس سے قدم قدم پر رہنمائی حاصل کی جائے اور اس کو بہ کثرت پھیلایا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ دین میں جو آسانیاں تھیں وہ فقہی شدت کی وجہ سے برقرار نہیں رہ سکیں۔
’کلام نبویؐ کی کرنیں‘ (دسمبر ۲۰۱۰ء) میں سود کے بارے میں حدیث کی تشریح کرتے ہوئے عملی اقدام اُٹھانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس ضمن میں پیش رفت پر مبنی مضامین بھی ترجمان القرآن میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔