یہاں پر مختصر طور پر اس موضوع پر بات کی جارہی ہے کہ عصرحاضر میں خواتین کی نمایندگی اور خواتین کی خود اختیاریت کے نام پر کی جانے والی کوششوں کو جماعت اسلامی کس طرح دیکھتی ہے؟
جماعت اسلامی پاکستان کے دستور کی دفعہ ۴ کے مطابق : ’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی سعی و جدوجہد کا مقصود عملاً اقامت دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘۔
یہ نصب العین قرآن مجید کی اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے :
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۳۳ (التوبہ۹: ۳۳)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
’الہُدیٰ‘ سے مراد دین، دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے جس میں انفرادی برتاؤ، خاندانی نظام ،سوسائٹی کی ترکیب، معاشی معاملات، ممکنہ انتظام، سیاسی حکمت عملی ،بین الاقوامی تعلقات، غرض یہ کہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسان کے لیے صحیح رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ دین حق یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں اور خود اپنے نفس کی بندگی واطاعت چھوڑ کر صرف اللہ کے اقتدار کو تسلیم کرے اور اس کی بندگی و اطاعت کرے ‘‘۔
جماعت کے دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق ایک رکن کو جماعت میں شامل ہونے کے بعد جوتغیرات بتدریج اپنی زندگی میں کرنے ہوں گے، وہ یہ ہیں :
- دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کرلینا کہ اسلام اور جاہلیت (غیر اسلام) کا فرق معلوم ہو اور حدود اللہ سے واقفیت ہو جائے۔
- تمام معاملات میں اپنے نقطۂ نظر،خیال اور عمل کو کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ، اپنی زندگی کے مقصد، اپنی پسند اور قدر کے معیار اور اپنی وفاداریوں کے محور کو تبدیل کرکے رضاے الٰہی کے موافق بنانا۔
- اُن تمام رسومِ جاہلیت سے اپنی زندگی کو پاک کرنا، جو کتاب اللہ اور سنت ِرسولؐ کے خلاف ہوں اور اپنے ظاہر و باطن کو احکامِ شریعت کے مطابق بنانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا۔
- ان تعصبات اور دل چسپیوں سے اپنے قلب کو، اور اُن مشاغل اور جھگڑوں اور بحثوں سے اپنی زندگی کو پاک کرناجن کی بنا نفسانیت یا دنیا پرستی پر ہو اور جن کی کوئی اہمیت دین میں نہ ہو۔
- اپنے معاملات کو راستی، عدل ،خدا ترسی اور بے لاگ حق پرستی پر قائم کرنا۔
- اپنی دوڑ دھوپ ،سعی و جہد کو اقامت دین کے نصب العین پر مرتکز کر دینا۔
- اسی طرح دستور کی دفعہ ۹ کے مطابق: ہر رکن جماعت کے لیے لازم ہوگا کہ وہ بندگانِ خدا کے سامنے بالعموم نصب العین کو پیش کرے۔ جو لوگ اس نصب العین کو قبول کرلیں، انھیں اقامتِ دین کے لیے منظم جدوجہد کرنے پر آمادہ کرے اور جو لوگ جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہوں ،انھیں جماعت اسلامی کے نظام میں شامل ہونے کی دعوت دے۔
- دستورِ جماعت کی دفعہ ۱۰ میں خواتین کے حوالے سے درج ہے:
- جو عورتیں جماعت اسلامی میں داخل ہوں، ان پر اپنے دائرئہ عمل میں دفعہ ۸ اور ۹ کے تمام اجزا کا اطلاق ہوگا، نیز رکن ِ جماعت کی حیثیت سے فرائض حسب ذیل ہوں گے:
- اپنے خاندان اور اپنے حلقۂ تعارف میں اس نصب العین کی دعوت پہنچائیں۔
- اپنے شوہر، والدین، بھائی ،بہنوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو بھی تبلیغ کرے۔
- اپنے بچوں کے دلوں میں نورِ ایمان پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔
- اگر اس کا شوہر یا بیٹے یا باپ یا بھائی جماعت میں داخل ہوں تو اپنی صابرانہ رفاقت سے ان کی ہمت افزائی کرے اور نصب العین کی خدمت میں حتیٰ الامکان ان کا ہاتھ بٹائے۔
- اگر اس کا شوہر یا اس کے سر پرست جاہلیت میں مبتلاہوں، حرام کماتے ہوں یا معاصی کا ارتکاب کرتے ہوں، تو صبر کے ساتھ ان کی اصلاح کے لیے ساعی رہے۔ ان کی حرام کمائی اور ان کی ضلالتوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے۔
دفعہ ۲۱ (ا)مجلسِ شوریٰ کی ترکیب: مجلس شوریٰ کے منتخب ارکان کی تعداد ۸۰ ہو گی، جن میں سے ۷۰ مردوں کی اور ۱۰ خواتین کی نشستیں ہوں گی۔ مردوں کی نشستوں پر مرد ارکان اور خواتین کی نشستوں پر خواتین ارکان کا براہِ راست ووٹ سے انتخاب ہوگا۔
جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق یہ تمام دفعات اس امر کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ایک خاتون نظامِ زندگی، انفرادی و اجتماعی معاملات میں ایک کردار ادا کرے۔ وہ کردار کہ جس میں فکر بھی ہو اور ممکن حد تک اپنے دائرے میں رہ کر قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی اور عمل بھی۔
عصرِحاضر میں قومی زندگی میں منتخب دستور ساز اسمبلیوں اور قانون ساز اداروں میں عورتوں کی نمایندگی اور ان کا کردر جبری طور پر لازم کردیا گیا ہے۔ یہ جبری صورتِ حال اپنے تقاضے اور سوالات رکھتی ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے اس چیلنج کا جواب دینا اور اس میں کردار ادا کرنا اہلِ دین پر بھی لازم ہے۔ اس مناسبت سے جب مولانا مودودی سے سوال کیا گیا تو مولانا مودودی نے جواب دیا: [ترجمان القرآن، فروری ۱۹۵۲ء]: ان [منتخب] مجالس کا نام قانون ساز مجالس رکھنے سے یہ غلط فہمی واقع ہوتی ہے کہ ان کا کام صرف قانون بنانا ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جومجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں، ان کا کام محض قانون سازی کرنا نہیں ہے،بلکہ وہ عملاً پوری ملکی سیاست کنٹرول کرتی ہیں۔وہی وزارتیں بناتی ہیں، وہی نظم و نسق کی پالیسی طے کرتی ہیں، وہی مالیات کے مسائل طے کرتی ہیں، اور انھی کے ہاتھ میں صلح و جنگ کی زمامِ کار ہوتی ہے ۔ اس حیثیت سے ان مجالس کا مقام محض فقیہ یا مفتی کا مقام نہیں بلکہ پوری مملکت کے ’قوام‘ کا مقام ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ: یہ حکم تو خانگی معاشرت کے لیے ہے ، نہ کہ ملکی سیاست کے لیے۔ مگر یہاں اول تو مطلقاً اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ کہا گیا ہے۔ فِی الْبُیُوْتِ کے الفاظ ارشاد نہیں ہوئے ہیں،جن کو بڑھائے بغیر اس حکم کو خانگی معاشرت تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔
اگر آپ کی یہ بات مان بھی لی جائے تو ہم پوچھتے ہیں کہ جس اللہ نے عورت کوگھر میں قوام نہ بنایا بلکہ قنوت (اطاعت شعاری )کے مقام پر رکھا، کیا اسے تمام گھروں کے مجموعے، یعنی پوری مملکت میں قنوت کے مقام سے اٹھا کر قوامیت کے مقام پر لانا چاہتے ہیں ؟
سیاست اور ملکی معاملات چلانے میں عورت کی عمل داری کو جائز ٹھیرانے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں، تو وہ بس یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں اور حضرت علیؓ کے خلاف جنگ جمل [۱۰ جمادی الثانی ۳۶ھ/ ۴دسمبر ۶۵۶ء] میں نبردآزما ہوئیں۔
حضرت عائشہؓ کے جنگ جمل میں حصہ لینے کے استدلال کوجو لوگ پیش کرتے ہیں انھیں شاید معلوم نہیں کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا؟ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد الزھدمیں ، ابن المنذر نے ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے آیت قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں، یہاں تک ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا کیونکہ اس پر انھیں وہ غلطی یاد آجاتی تھی جو ان سے جنگ جمل کے دوران ہوئی تھی۔
یہ دلیل اصولاً غلط ہے۔ اس لیے کہ جس مسئلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات موجود ہو ں، اس میں کسی بھی صحابیؓ کا کوئی ایسا انفرادی فعل جو اس ہدایت کے خلاف نظرآتاہو ہرگز حجت نہیں بن سکتا۔ صحابہؓ کی پاکیزہ زندگی بلاشبہہ ہمارے لیے مشعل ہدایت ہے، مگر اس غرض کے لیے کہ ہم ان کی روشنی میں اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں ، نہ اس غرض کے لیے کہ ہم اللہ اور رسولؐ کی ہدایت کو چھوڑ کر ان میں سے کسی اور کی اتباع کریں جس فعل کو اسی زمانے کے اکابر صحابہؓ نے غلط قرار دے دیا تھا، اور جس پر بعد میں خود ام المومنین بھی نادم ہوئیں۔
شیخ القرآن مولانا گوہر رحمٰن ، جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی کے رکن اور قومی اسمبلی کے منتخب رکن بھی تھے۔ انھوں نے ان تمام اصولی اور واضح اُمور کو سامنے رکھتے ہوئے اور پیدا شدہ صورتِ حال کے پیش نظر بیان کیا ہے:
مغربی جمہوریت کی بنیاد چونکہ ’حاکمیت عوام‘ پر رکھی گئی ہے، اس لیے اس میں مردوں کی طرح عورتیں بھی سربراہ مملکت بن سکتی ہیں اور وزیراعظم بھی بن سکتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی نظام میں خواتین عملی سیاسیات، یعنی حکومت کا نظم ونسق چلانے سے سبک دوش کردی گئی ہیں۔
قومی اسمبلی یا مجلس شوریٰ ایک مشاورتی اور انتخابی ادارہ جو کہ سربراہ کا انتخاب کرتا ہے، اسے مشورہ دیتا ہے اور قانون سازی بھی کرتا ہے،اس ضمن میں یہ سوال کہ مذکورہ ادارے کی رکن کوئی خاتون بن سکتی ہے یا نہیں؟ مناسب یہ ہے کہ اس کے بارے میں فقہا عابدین کوئی اجتماعی فیصلہ کریں۔ لیکن اصولِ شریعت کی روشنی میں یہ امرواضح ہے کہ عورت مشورہ دینے کے حق سے شرعاً محروم نہیں کی گئی۔ اگرچہ قرآن و سنت میں مرد کو عورت پر ’قوام‘ بنایا گیا ہے ، لیکن مجھے اس کی دلیل نہیں مل سکی کہ عورت مشورہ نہیں دے سکتی [بلکہ] بعض خواتین، بعض مردوں سے دانائی اور ذہانت و فقاہت میں فائق بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن عام طور پر مشاہدے کی بات ہے کہ مر د کی ذہانت عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک: ’’عورت حدود و قصاص، یعنی فوجداری مقدمات کے علاوہ دوسرے تمام مقدمات میں قاضی یا جج بن سکتی ہے‘‘۔ امام ابن جریر کے نزدیک: ’’بشمول حدودوقصاص کے تمام مقدمات میں عورت قاضی بن سکتی ہے‘‘ اور چاروں ائمہ کے نزدیک عورت فتویٰ دے سکتی ہے۔ امام ابن حزم نے ۲۰ ایسی خواتین کے نام نقل کیے ہیں، جو دورِ صحابہؓ میں فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ جب قاضی اور مفتی بن سکتی ہیں، تو مجلس شوریٰ کی رکن کیوں نہیں بن سکتیں؟ اس ادارے کا کام بھی تو مشورہ اور فتویٰ دینا ہے، پالیسی بنانا اور قانون سازی کرنا فتویٰ ہی کی قسم ہے۔ جب عدالت میں فریقین اور گواہوں کے بیانات سن کر فیصلہ دے سکتی ہے اور بطور گواہ عدالت میں پیش بھی ہوسکتی ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ شرعی پردے کی پابندی کرتے ہوئے مجلس کے اجلاس میں شرکت نہ کرسکے اور مشورہ نہ دے سکے۔
اس سلسلے میں ایک روایت سننے میں آتی ہے کہ شاوروھُن و خالفوھُن ’’یعنی عورتوں سے مشورہ تو لے لیا کرو، لیکن ان کی مخالفت کرو اور ان کے مشوروں پر عمل نہ کیا کرو‘‘۔ اس روایت کے متعلق علّامہ علی قاری حنفی [م:۱۰۱۴ھ/۱۶۰۵ء]، علامہ سخاوی [م:۹۰۲ھ/۱۴۹۷ء]کی کتاب المقاصد الحسن البیان کثیر من الاحادیث المشتہرہ علی الاالسنۃ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’یہ حدیث ان الفاظ میں ثابت نہیں۔سخاوی فرماتے ہیں ان کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہونا مجھے معلوم نہیں۔ سیوطی کے مطابق یہ جھوٹی روایت ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے‘‘ ۔
انس بن مالکؓ سے اس مضمون کی ایک اور حدیث مرفوع نقل ہوئی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں :’’تم میں سے کوئی شخص مشورے کے بغیر کام نہ کرے۔ اگر مشورہ دینے والا کوئی نہ ملے تو عورت سے مشورہ کر، لیکن اس پر عمل نہ کرے ۔اس لیے کہ عورت کے مشورے کی مخالفت میں برکت ہوتی ہے‘‘۔شمس الدین سخاوی ؒنے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:’’اس کی سند بھی ضعیف ہے، اور درمیان میں سلسلہ بھی ٹوٹا ہوا ہے‘‘۔
محمد بن عراق نے تنزیۃ الشریعۃ میں لکھا ہے:’’اس حدیث کو ابن لال نے حضرت انس سے نقل کیا ہے ، لیکن اس کی سند میں عیسیٰ بن ابراہیم کا نام آیا ہے، جس پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہے‘‘۔ ابنِ لال سے مراد ابوبکراحمدبن علی بن علی بن لال الہمدانی [م:۳۹۸ ھ/۱۰۰۸ء] ہے، جس نے مکارم الاخلاق کے نام سے کتاب لکھی تھی۔
حدیث کے لیے راوی کا ثقہ اور عادل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے حافظے کا صحیح اور درست ہونا بھی ایک شرط اور سلسلہ سند کا متصل ہونا بھی لازمی شرط ہے۔ جب اس حدیث کا ایک راوی بدنام بھی ہے اور سند بھی ٹوٹی ہوئی ہے یعنی منقطع ہے، تو یہ قابل قبول حدیث نہیں ہوسکتی اور شاوروھن وخالفوھن کے بارے میں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کو کس نے نقل کیا ہے۔ علی قاری نے اس کو مرقات میں بغیر سند کے و قدورد یعنی اپنی دوسری کتاب موضوعات کبیر میں ’’اس روایت کو بے اصل اور باطل قرار دیا ہے‘‘۔
خود مولانا مودودیؒ بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں لکھتے ہیں: تعلیم یافتہ خواتین پر اس وقت ایک اور فرض عائد ہوتا ہے، جو ایک لحاظ سے اپنی اہمیت میں دوسرے تمام کاموں سے بڑھ کر ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت مغرب زدہ طبقے کی خواتین پاکستان کی خواتین کو جس طرح گمراہی ، بے حیائی اور ذہنی و اخلاقی آورگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور جس پر حکومت کے ذرائع و وسائل سے کام لے کر عورتوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں ، ان کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے۔ یہ کام محض مردوں کے کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ مرد جب اس گمراہی کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ مرد تم کو غلام رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی تو ہمیشہ سے یہی مرضی رہی ہے کہ عورتیں چاردیواریوں میں گھٹ کر ہی مرتی رہیں اور انھیں آزادی کی ہوا تک نہ لگنے پائے۔
اس لیے ہمیں اس فتنے کا سد باب کرنے میں بھی عورتوں کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں ایسی شریف اور خدا پرست خواتین کی کمی نہیں ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان بیگمات کے علم اور ذہانت اور زبان اور قلم کی طاقت میں کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ اب یہ کام ان کا ہے کہ آگے بڑھ کر ان کو منہ توڑ جواب دیں۔ وہ انھیں بتائیں کہ مسلمان عورت حدوداللہ سے باہر قدم نکالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے ۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہیں کہ مسلمان عورت اس ترقی پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے خدا اور اس کے رسولؐ کی مقرر کی ہوئی حدود توڑنی پڑیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ منظم ہوکر اس حقیقی ضرورت کو جس کی خاطر حدود شکنی کو ناگزیر کیا جاتا ہے ،اسلامی حدود کے اندر پورا کرکے دکھائیں، تاکہ یہ گمراہ کرنے والے اور کرنے والیوں کا ہمیشہ کے لیے منہ بند ہو جائے۔
شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک صاحب نے اس ضمن میں موقف اختیار کیا ہے: ’’اجتماعی زندگی کے معاملات میں عورت کے حصہ لینے کی ہر حال میں ممانعت ،ایک محدود زاویۂ نگاہ ہے۔ اس کا تعلق ایسے حالات سے ہے، جب خواتین کو میدان میں لانے کی ضرورت اور حاجت نہ ہو، اور کوئی بلاخیز سیلابی ریلانہ آیا ہو۔ لیکن اگر سیلابی ریلا آگیا ہو تو ایسی صورت میں فقہا نے لکھا ہے کہ دفاع فرض عین ہوتا ہے ۔بیٹے کو ماں باپ اور بیوی کو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دشمن کو دھکیلنے کے لیے باہر نکلنا ہوتاہے۔ فتاویٰ عالمگیری ، شامی اور تمام کتب فتاویٰ اس پر شاہد ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کا اصل کام گھروں کو اسلامی شریعت کے رنگ میں رنگنے اور گھروں کو آباد کرنا ہے ۔عالمی سطح پر معاشرتی و سیاسی صورتِ حال یہ ہے کہ خواتین زندگی کے مختلف میدانوں میں داخل ہوگئی ہیں۔ خصوصاً سیاست میں بھی اہم مقام حاصل کر رہی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں ضروری ہو گیا کہ سیکولرزم، لادینیت، لبرل ازم اور اباحیت کو لگام دی جائے اور مغرب زدہ خواتین کے مقابلے میں دین کی علَم بردار اور باپردہ خواتین کو آگے لایا جائے۔ الحمدللہ، ہم اس میں کامیاب ہیں۔ شرعی حدود کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ان خواتین میں دعوت کا کام کررہی ہیں۔
خواتین کی سیاسی نمایندگی ۱۹۵۶ء کے آئین کے مطابق آیندہ ۱۰ برس کے لیے ۱۵نشستوں کو مخصوص کر کے کی گئی۔ ۱۹۶۲ء کے آئین کی رو سے قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں ۸، اور ہر صوبائی اسمبلی میں ۵ رکھی گئیں۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں خواتین کی ۱۰نشستیں قومی اسمبلی میں اور ۵ فی صد نشستیں ہر صوبائی اسمبلی میں مختص کردی گئیں۔ اور یہ مدت ۲۰سال کے لیے تھی۔ ۱۹۹۳ء میں یہ مدت پوری ہونے پر خواتین کا مخصوص کوٹہ ختم ہوگیا۔ ۲۰۰۲ء میں ۱۷ویں ترمیم کے ذریعے خواتین کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی میں اور سینیٹ میں۳۳ فی صد نشستیں مخصوص کردی گئیں، جب کہ لوکل گورنمنٹ میں یہ نشستیں ۵۰فی صد کردی گئیں۔
اسی طرح پاکستان میں خواتین کی نمایندگی کی تعداد ۱۹۴۹ءمیں قومی اسمبلی میں ۳، صوبائی اسمبلی میں ۱۹۵۲ءتا ۱۹۵۸ ء ۲، ۱۹۶۲ءتا ۱۹۶۵ ء۲ ،اور ۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۷ء یہ تعداد ۵تھی۔ اپریل ۱۹۷۷ءمیں خواتین ارکان کی تعداد ۹ ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قومی اسمبلی میں ۲۰ اور صوبائی اسمبلی میں ۲۴ خواتین مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی رہیں۔ اس طرح ۱۹۴۷ءتا ۱۹۹۷ء پاکستان میں ۱۱۳ خواتین منتخب یا نامزد ہوئیں۔ ۲۰۰۲ء میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی تعداد قومی اسمبلی میں ۶۰ اور سینیٹ میں ۱۸ تھی۔ صوبائی نشستوں پر صوبہ پنجاب میں ۶۶، سندھ میں ۲۹، خیبرپختونخوا میں ۲۲ اور بلوچستان میں ۱۱ خواتین مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں تھیں، جب کہ لوکل گورنمنٹ میں تعداد۴۰ہزار تھی۔
جماعت اسلامی میں عورت کی سیاسی نمایندگی کی تاریخ اس طرح ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ۱۹۸۵ء میں ایک خاتون مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ الیکشن ۲۰۰۲ء میں قومی اسمبلی میں صوبہ سندھ سے ایک، صوبہ پنجاب سے ایک، صوبہ سرحد سے تین، صوبہ بلوچستان سے ایک، کل ۶ کی تعداد میں خواتین اراکین اسمبلی بنیں۔ ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں ایک خاتون جن کا تعلق صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا)سے تھا، مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۶ء ایک خاتون ممبر اور ۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۹ء دوخواتین ممبر سینیٹ رہیں۔ بعد ازاں ۲۰۰۹ء تا ۲۰۱۲ءایک خاتون ممبر سینیٹ رہیں۔
۲۰۰۲ء میں پاکستان الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعت کے لیے ضابطۂ انتخاب میں یہ لازم کیا گیا کہ وہ ۳۳ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص رکھیں گے۔ یعنی اگر کوئی پارٹی ۱۰۰نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کو اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص ۳۳نشستیں مل جائیں گی، جس پر وہ اپنی نمایندہ خواتین کو اپنی پارٹی کی طرف سے ترتیب دی گئی، ترجیحی فہرست کے مطابق نامزد کریں گی۔ ان خواتین کو حلقے کے عوام کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ یہ پارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کی بنا پر اسمبلی ممبر بن جائیں گی۔ اس طرح مخصوص نشستوں پر خواتین کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔ دوسرے قدم کے طور پر ۲۰۱۸ء میں الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ اپنی پارٹی کی ۵ فی صد عام نشستوں پر خواتین اُمید وار نامزد کریں گی۔ ایسے اُمیدوار کو حلقے کے تمام رجسٹرڈ مرد و خواتین کے ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ بہرحال، الیکشن کمیشن کی طرف سے دیے گئے اس ضابطے کی علمااور عوامی حلقوں کی جانب سے مخالفت ہوئی کہ یہ اقدام ہماری تہذیبی روایات سے متصادم ہے۔
خواتین کو پارلیمینٹ میں مخصوص نشستوں پر نمایندگی دینے کے فیصلے میں بنیادی عوامل اقوام متحدہ کے عورتوں کے لیے بنائے گئے کمیشن کی قراردادیں اور معاہدے ہیں، جن پر حکومت ِ پاکستان نے دستخط کیے ہیں۔
جماعت اسلامی ایک دینی،اصولی اور سیاسی جماعت ہونے کے ناتے، سیاسی کشاکش میں خواتین کے فعال کردار پر شدید ذہنی تحفظات رکھتی ہے۔ لیکن معاشرے اور قانون ساز اداروں، نافذشدہ ضابطوں، انتخابات اور اس کے تقاضوں سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ بہتر تو یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے سیاسی عمل میں شمولیت کی اہمیت کو سمجھنے والے علما مل بیٹھ کر کچھ فیصلہ کریں کہ ہمیں الیکشن کمیشن کے ضوابط میں تبدیلیوں کے ساتھ کس حد تک اور کس شکل میں چلنا ہے۔