انسانی اور سماجی زندگی، میں لفظ اور زبان کو مرکزیت حاصل ہے۔ جنابِ اطہر ہاشمی اُردو زبان کی اصلاح کے لیے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل ،کراچی میں ’خبرلیجیے زباں بگڑی‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ انھوں نے لکھا : ’’ہمارے ہاں ’صلواتیں سنانا‘ محاورہ رائج ہے۔ اس کے معنی ہیں:’بُرا بھلا کہنا ،گالیاں دینا وغیرہ‘، یہ ہَجو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،حالانکہ لفظِ صلوات کے معنی :درود، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہے۔یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے ، اورحسبِ حال اس کے معنی مراد ہوتے ہیں۔یہ صلوٰۃ بمعنی نماز کی بھی جمع ہے۔ پس اس محاورے کا استعمال ترک کردینا چاہیے ،کیوں کہ اس سے لفظِ صلوات کی اہانت ہوتی ہے جو شریعت کی رُو سے ناجائز ہے‘‘۔ اس طرح کے کئی محاورے اور جملے رائج ہیں، جن میں سے چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
- ایک محاورہ ہے:’’آنتیں قُل ھُوَ اللّٰہ پڑھ رہی ہیں ‘‘، آنتیں چوں کہ نجاست کا مرکز ہوتی ہیں ،اس لیے اُن کی طرف قُل ھُوَ اللّٰہ یعنی سورۂ اخلاص پڑھنے کی نسبت کرنا خلافِ ادب ہے ۔ اس محاورے کو بھی ترک کرنا چاہیے۔
- بعض لوگ بھولے بھالے اور سیدھے سادے آدمی کے لیے ’اللہ میاں کی گائے ‘کا محاورہ استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح اردو میں ’اللہ میاں‘ اور سندھی وسرائیکی زبان میں ’اللہ سائیں‘ بولاجاتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ بھی خلافِ ادب ہے۔’میاں‘ اور ’سائیں‘ ایسے کلمات اللہ تعالیٰ کی ذات کے شایانِ شان نہیں ہیں، خواہ ان کوبولنے یا لکھنے والے کی نیت اچھی ہی ہو، لیکن ان کے معانی میں اہانت کا پہلو موجودہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اسمِ جلالت کے ساتھ ان کلمات کا استعمال درست نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ،اللہ جَلَّ شَانُہٗ اور اللہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی یا باری تعالیٰ کے کلمات استعمال کرنے چاہییں۔ نوٹ: بعض لوگ عَزَّوَجَلَّ کو عِزّوَجَلْ بولتے ہیں،یہ بھی درست نہیں ہے۔ اسی طرح جَلَّ جَلَالُہٗ کو جَلِّ جَلَالُہٗ بولتے ہیں، یہ بھی درست نہیں ہے۔ ذیل میں ہم کتبِ لغت کے حوالے سے لفظ ’میاں‘ اور ’سائیں‘ کے معانی درج کر رہے ہیں:’میاں‘: اُردو زبان میں آقا، شوہر، والی، وارث، سرکار، جناب عالی، یار دوست، مدرس، امیرزادہ۔ بعض لوگ بزرگ یا عمر رسیدہ شخص کو بھی ’میاں جی‘ کہتے ہیں۔ سائیں: خاوند، فقیر، بھکاری ودیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ (قائد اللغات، فیروز اللغات، فرہنگ عامرہ ، علمی اُردو لغت)
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ معانی اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض معانی ایسے ہیں، جن میں ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے اہانت کا پہلو نکلتا ہے۔ لہٰذا، نہایت تاکید کے ساتھ ہمارا مشورہ ہے کہ ’اللہ میاں‘ اور ’اللہ سائیں ‘ ایسے کلمات بولنے سے احترازہی کرنا چاہیے ۔ اپنے گھروں، مجالس اور بچوں کے ساتھ گفتگو میں اللہ تعالیٰ کا نام لیتے وقت اسی احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی شانِ جلالت بلند ترین ہے، اور ہرنَقص و عیب اور کمزوری سے پاک ہے، فرمایا:
۱- ’’آپ کا ربّ جو بڑی عزت والا ہے ،ہر اس عیب سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں‘‘۔ (الصافات۳۷:۱۸۰)
۲-’’اورسب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، تو اسے ان (ہی) ناموں سے پکارو اور انھیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں راہِ حق سے انحراف کرتے ہیں‘‘۔ (الاعراف۷:۱۸۰)
۳- ’’(اے رسولؐ!) آپ کہہ دیجیے! تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکاروگے ،اس کے سب ہی نام اچھے ہیں ‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷:۱۱۰)
اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے اسم ذات ’’اللہ‘‘ ہے۔قرآنِ کریم میں اس کے صفاتی نام بھی مذکور ہیں، مثلاً: اَلْمَلِکْ، اَلْقُدُّوْسُ، اَلسَّلَامُ ، اَلْمُؤْمِنْ، اَلْمُھَیْمِنُ ، الْعَزِیْزُ، اَلْجَـبَّارُ،اَلْمُتَکَبِّرُ، اَلسَّتَّار، اَلْغَفَّار، اَلرَّؤُفُ ، اَلرَّحِیْم، اَلْکَرِیْم، سُبْحَان اور دیگراسماے مقدّسہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے جو بھی اسما ،صفات اور کلمات استعمال کیے جائیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں۔
پس، اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ایسا ذو معنی کلمہ ، جس کے ایک معنی اچھے ہوں اور دوسرے بُرے ، استعمال کرناجائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ایسا کلمہ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ کرامؓ جب آپؐ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے ، اور آپؐ کی کوئی بات اُن کی سمجھ میں نہ آتی، تو وہ عرض کرتے :رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہ (یارسولؐ اللہ! ہماری رعایت فرمائیے)۔ اس کے لیے قرآنِ کریم میں رَاعِنَا کا کلمہ آیا ہے ، مگر منافق کلمۂ رَاعِنَا کو اِمالہ کرکے بولتے اور اپنی مجلس میں جاکر کہتے: ’’ہم نے انھیںرَاعِیْنَا، یعنی ہمارا چرواہا کہہ دیا ہے‘‘ اور بعض صورتوں میں وہ اسے رَعن ، یعنی احمق کے معنی میں لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسا ذو معنی کلمہ استعمال کرنے سے صحابہ کو منع فرمادیا ،حالانکہ اُن کی نیت صحیح تھی اورمرادبھی درست۔ لیکن منافقین اُس کا دور کا معنی اہانت مرادلیتے تھے، پس ارشاد ہوا: ’’اے مومنو! رَاعِنَامت کہو،بلکہ اُنْظُرْنَا کہو اور توجہ سے سنو‘‘ (البقرہ۲:۱۴۰)۔ (۲)بعض یہودی اللہ کے کلام کو اس کے اصلی مقامات سے تبدیل کردیتے اور کہتے : ’’ہم نے سنا اورنافرمانی کی اور(کہتے ہیں:) سنیے!آپ کو نہ سنا جائے ‘‘۔وہ اپنی زبان کو بل دے کر اور دین میں طعن کرتے ہوئے رَاعِنَاکہتے ہیں اور اگر وہ کہتے : ہم نے آپ کا حکم سنا اور آپ کا کہا مانا اور ہماری بات سنیے اور نظرکرم فرمائیے ، تو اُن کے لیے بہت بہتر اور درست بات ہوتی ‘‘۔ (النسآء۴:۴۶)
چنانچہ، حُرمتِ رسول کو قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو حکم فرمایا:’’ اگر آیندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات تمھاری سمجھ میں نہ آئے تو ذو معنی کلمہ رَاعِنَا مت کہنا ،بلکہ: اُنْظُرْنَا یَارَسُولَ اللّٰہ (یارسولؐ اللہ! ہماری جانب نظر کرم فرمائیے!) ‘‘کہا کرواور زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ ابتدا ہی سے توجہ سے سنا کرو تاکہ اللہ کے رسول کو دوبارہ زحمت نہ دینی پڑے۔
پس، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذو معنی کلمہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے، تواللہ تعالیٰ کی شان میں کیسے جائز ہوگا۔لہٰذا، ماؤں کو چاہیے کہ اپنی گود میں بچوں کی دینی تربیت کریں اور اُن کی عادت بنائیں کہ وہ جب بھی اللہ کا نام لیں تو اللہ تعالیٰ، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کہا کریں ۔ جب ایک مرتبہ زبان پریہ الفاظ رواں ہو جائیں گے تو پھر زندگی بھر ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ان کا اندازِ تکلم یہی رہے گا۔شیخ سعدی نے کہا ہے:’’بچپن میں سیکھی ہوئی بات پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہے، جب کہ پختہ عمر میں کوئی بات سیکھنا پانی پر لکیر کی مانند ہوتا ہے کہ ادھر لکیر کھچی اور پیچھے سے بند ہوتی چلی گئی‘‘۔
- جنابِ اطہر ہاشمی نے ایک اور محاورے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے :’’بسم اللہ ہی غلط ہوگئی‘‘۔ یہ بھی اہانت کا کلمہ ہے ، اگرچہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے کہ کام کی شروعات ہی غلط ہوگئی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے : ’’ہر اہم کام جو اللہ کے نام سے نہ شروع کیا جائے، وہ ناقص ہوتا ہے‘‘ (سنن دارَقُطنی:۸۸۴)۔لہٰذا،اللہ کے نام سے شروع کیا ہوا کام بابرکت ہوتا ہے۔ہمیں کسی کام میں ناکامی کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرنی چاہیے ، اللہ کی طرف برائی کی نسبت خلافِ ادب ہے۔ قرآن کا شعارِ ادب یہ ہے : ’’تمھیں جو بھلائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی جانب سے ہے اور تمھیں جو برائی پہنچتی ہے ،وہ تمھاری اپنی ذات کے سبب ہے‘‘۔ (النساء۴:۷۹)
- اُردو کا محاورہ ہے :’’نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے‘‘۔یہ محاورہ ایسے مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے کہ انسان کسی سے کوئی رعایت حاصل کرنے جائے اور رعایت ملنے کے بجاے اس پرمزید بوجھ ڈال دیا جائے ۔ یہ محاورہ درست نہیں ہے ،کیوں کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ روزہ ایک ناگواربوجھ ہے ، حالانکہ روزہ اللہ کی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادات کو خوش دلی سے انجام دینا ہر مومن کا شعار ہونا چاہیے۔اسی طرح فرض نمازوں کے لیے کسی کے استثناء کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بندے پر فرضِ عین ہے اور ہر عاقل وبالغ اور ذی شعور مسلمان پر اس کی پابندی لازم ہے۔
- ایک محاورہ ہے:’’نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی‘‘۔اس کے معنی ہیں: کوئی دانستہ جرم کرتا رہا یا حرام ذرائع سے مال جمع کرتا رہا اور پھر پاکیزہ بننے کے لیے حج پر چلا گیا۔ گویااس نے حج کو حرام کو حلال کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یہ سوچ باطل ہے،کیوں کہ توبہ زندگی میں کسی مرحلے پر بھی کی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ یہ شرعی شرائط کے مطابق ہو اور ماضی کے افعال کی تلافی بھی ہو ۔ اگر حرام ذرائع سے مال کمایا ہے تو اُسے اپنی ملکیت سے نکالے۔اگر اصل مالکان معلوم ہیں تو انھیں لوٹادے ۔اگر سرکاری خزانے میں خیانت کی ہے تو وہ مال خزانے میں جمع کرادے اور اگرحق دار کا پتا نہیں ہے یا وہ وفات پاچکا ہے اور اس کے وارث موجود ہیں تو ان کے سپرد کردے ورنہ ثواب کی نیت کیے بغیر اسے صدقہ کردے۔ بلی کو حج سے کیا نسبت ہے؟ اس میں بھی اہانت کا پہلو موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں نے عمرہ اور حج کرانے کو گناہوں کی تلافی کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔
- ایک محاورہ ہے :’’کیا کریں زمانہ ہی بُرا ہے ‘‘۔ حدیثِ پاک میں زمانے کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :بنی آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے۔ وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانے کو پلٹنے والا میں ہوں۔ تمام معاملات میرے قبضۂ قدرت میں ہیں اور میرے ہی حکم سے نظامِ گردشِ لیل ونہار قائم ہے‘‘ (ابوداؤد:۵۲۷۴)۔اللہ تعالیٰ کے اسماے صفات میں ’دَھَر‘نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کے اسماے صفات توقیفی ہیں ، یعنی کسی نے اپنی عقلی اُپج سے وضع نہیں کیے ، بلکہ یہ قرآن وحدیث سے روایت اور سماع پر موقوف ہیں۔ نیز یہ کہ ابتداے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ایک روش پر چل رہا ہے،ارشاد ہوا : ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدایش کے دن( یعنی ابتداے آفرینش) سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کتاب میں مہینوں کی تعدادبارہ ہے ‘‘ (التوبہ۹:۳۶)۔ اس لیے نظامِ گردشِ لیل ونہار اور سورج کے طلوع وغروب کا دورانیہ وہی ہے۔ سائنسی اصطلاح میں بھی کائنات زمان ومکان کا نام ہے۔ پس فی نفسہٖ زمانے میں کوئی خرابی نہیں ہوتی،زمانے میں رہنے والے اچھے یا برے ہوتے ہیں، لہٰذااچھائی یا برائی کی نسبت زمانے کی طرف کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لینا درست نہیں ہے۔
- اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات بہکنے ،بھٹکنے ،غلطی کرنے اور بھول چوک سے پاک ہے، لیکن بعض لوگوں کی زبان پرکفریہ جملے آجاتے ہیں، مثلاً: (الف): ’’میری قسمت میں شاید اللہ کچھ لکھنا ہی بھول گیا ہے‘‘، (ب): ’’نہ جانے میرا بلاوا کب آئے گا، شاید بنانے والا بھول ہی گیا ہے‘‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’اُن کا علم میرے رب کے پاس لوحِ محفوظ میںدرج ہے۔ وہ نہ توبھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے (طٰہٰ۲۰:۵۲)‘‘۔بعض اوقات کفریہ کلمات پر مشتمل گانے چلتے رہے ہیں:
آج میری تقدیر کا مالک سوتا ہے
قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے
تقدیر کا مالک اللہ ہے۔اُس کی شان تویہ ہے :’’ نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۵)۔ اس کا علم حضوری ہے اور ہر قسم کی غفلت اور سہو سے پاک ہے۔ اس کی جانب سونے، بھولنے یاغفلت کی نسبت کرنا قرآن کا انکار ہے،اس سے توبہ لازم ہے۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے جہاں نسیان اور اِنساء کے کلمات آئے ہیں ، وہ بھولنے کے معنی میں نہیں ہیں، بلکہ نظرانداز کرنے کے معنی میں ہیں،جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں:’’اس نے تو اس بات کو طاقِ نسیان پر رکھ دیا ہے‘‘۔
- اسی طرح کفریہ معانی کے حامل کئی اورجملے لوگ سوچے سمجھے بغیربول دیتے ہیں، مثلاً: ’’ارے یہ تو اتنا چالاک ہے کہ خدا کو بھی دھوکا دے دے‘‘۔ کسی کا یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، خود فریبی اور بدنصیبی ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے بارے میں فرمایا: ’’وہ (اپنی دانست میں)اللہ اور مومنوں کو دھوکا دیتے ہیں ،(لیکن در حقیقت )وہ اپنے آپ ہی کو دھوکا دیتے ہیں اور انھیں اس بات کا شعور نہیں ہے‘‘(البقرہ۲:۹)۔دھوکاتو اُسے دیا جاسکتا ہے جس سے حقیقت کو چھپانا ممکن ہو،جب کہ اللہ کی شان یہ ہے :’’اور اگر آپ بلند آواز سے بولیں تو بے شک وہ آہستہ اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ بات کوخوب جانتا ہے‘‘ (طٰہٰ۲۰:۷)‘‘۔ (۲)’’اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور (اس کو بھی) جو سینوں میں چھپا ہے‘‘ (المومن۴۰:۱۹)‘‘، پس کس کی مجال کہ اُسے دھوکا دے۔
-’’اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘‘: بعض لوگ اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لیے یہ کلمہ بولتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اہانت کا پہلو نکلتا ہے، اس سے احتراز کرنا چاہیے ۔اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ معاذ اللہ ! اللہ جھوٹ بھی بلواتا ہے۔ اللہ ہرگز جھوٹ نہیں بلواتا،بندہ خود جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(۱) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ (التوبہ ۹:۱۱۹)۔(۲):’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو‘‘ (الاحزاب۳۳: ۷۰)۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو’اِضلال ‘(گمراہ کرنے )کی نسبت ہے،اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرمایا(۱): ’’اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑدے، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے‘‘ (الاعراف۷:۱۸۶)۔(۲)’’اور انھوں نے جو گناہ کیے تھے ،ان کی سزا ان کے سامنے آجائے گی اور وہ عذاب ان کا احاطہ کرلے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے‘‘ (الزمر ۳۹:۴۸)۔ کسی بھی فعل کا کاسب اور فاعل بندہ خود ہوتا ہے۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا عزم کرلیتا ہے اور ارادہ عمل میں ڈھلتا ہے تو تخلیق اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ قرآنِ کریم کی اس آیت کا مفہوم یہی ہے: ’’اور اللہ نے تمھیں اور تمھارے اعمال کو پیدا کیا ہے‘‘۔ (الصافات۳۷:۹۶)
پس، اللہ کی رضا اس میں نہیں کہ کوئی جھوٹ بولے، وہ تو جھوٹوں پر لعنت فرماتا ہے۔ جھوٹ بندہ خود بولتا ہے۔ یہ اس کی اپنی شامتِ اعمال ہے، لہٰذا ’اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘ کہنا شانِ الوہیت میں بے ادبی ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیراس طرح کے کلمات بول دیتے ہیں۔ انھیںاس سے اجتناب کرنا چاہیے۔بارگاہِ الوہیت کے ادب کا تقاضا یہی ہے۔
- ہمارے ہاں مردوں کی ’ہم جنسیت‘ (Sodomy) کے لیے لفظِ’لُوطی‘ اور ’لواطت‘ عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کو بھی ترک کردینا چاہیے ، کیوں کہ لوط علیہ السلام نبی تھے اور کسی نبی کے نام کے ساتھ برائی کو منسوب کرنا اُن کی اہانت ہے۔ اس کا متبادل لفظ’عملِ قومِ لوط‘ ہے یابقول ہاشمی صاحب :’’چوں کہ قومِ لوط سدوم کی رہنے والی تھی ،اس لیے اسے ’سدومی‘ کہاجائے۔