پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۲۰ | اشارات
پاکستان اپنے قیام کے ۷۲ سال بعد بھی اندرونی خلفشار اور صف بندی (Polarization) کا شکار ہے۔ یہ صورتِ حال بےحد تشویش ناک اور ملکی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوںکے ساتھ بالخصوص اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بالعموم جو خونیں کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کا ایک چشم کشا پہلو اس احساس کا اُجاگر ہونا ہے کہ پاکستان کے قیام نے پاکستانی مسلمانوں کو کن خطرات اور کس عذاب سے بچالیا اور اپنی زندگی کو آزادی اور عزت کے ساتھ ترقی دینے کے کیسے مواقع فراہم کیے۔ اس احساس کا تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق اپنی سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی زندگی کی تعمیر کریں اور ملک کے دستور میں جس تصور کو واضح الفاظ میں طے کر دیا گیا ہے، اس کے مطابق ہر ادارہ، ہر قوت اور ہرفرد اپنی ذمہ داری اداکرے، تاکہ عوام اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنے عزائم کے مطابق ترقی و استحکام کی منزلیں طے کرسکے۔
زمینی حقائق جو تصویر اس وقت پیش کر رہے ہیں، وہ پریشان کن ہے اور فوری طور پر اصلاح کی طالب۔ ہم نے چار فوجی حکومتوں اور ایک درجن سے زیادہ نام نہاد جمہوری حکومتوں کا دور دیکھا ہے جس میں: پارلیمانی، صدارتی، اور فوجی نظامِ حکومت کا تجربہ بھی کرلیا ہے۔ فوج، بیوروکریسی اور عدالتی مداخلت کا مزا بھی بار بار چکھا ہے۔ حالیہ تاریخ میں جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے ۹برسوں کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پانچ پانچ سال بھی بھگتے ہیں اور ان سے نجات پانے کے لیے تحریک انصاف کی شکل میں تبدیلی کے لیے دروازے بھی کھولے ہیں۔ لیکن ان ۱۶مہینوں کا تجربہ بھی تلخیوں، محرومیوں اور مصائب کے سوا قوم کو کچھ نہیں دے سکا۔ اب عوام میں بے چینی، بے یقینی، اضطراب اور مایوسی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جزوی طور پر چند مثبت پہلوؤں کے باوجود بحیثیت مجموعی عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ اور حکومت نےعوام کو مایوس کیا ہے اور مصائب میں کمی کے بجاے مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ہم پاکستان کے مستقبل کے لیے جہاں یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور اور جمہوری نظام کی ہرقیمت پر حفاظت کی جائے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اپنی منزل کا صحیح صحیح تعین کرے۔ اس کے حصول کے لیے صحیح پالیسیاںپوری تحقیق، مشاورت اور عوام کو اعتماد میں لے کر مرتب اور نافذ کی جائیں۔ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں اپنا کام کرے اور اچھی حکمرانی (good governance) کی اعلیٰ مثال قائم کی جائے۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے بُری طرح ناکام رہی ہے اور اگر حالات کی فوری اور مؤثر اصلاح کی کوشش نہیں ہوتی تو پھر واحد راستہ نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔
تمام اختلافات اور ۲۰۱۸ء کے انتخابات کی ساری کمزوریوں کے باوجود، ہم نے کھلے دل سے حکومت کو موقع دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس دوران انجام دیے گئے کاموں اور سارے دعوؤں کا جوحشر ہوا ہے، وہ ناقابلِ تصور اور ناقابلِ بیان ہے۔فکری انتشار، پالیسیوں کافقدان، دعوؤں کی بھرمار، الزامات اور اتہامات کی بوچھاڑ، اقوال واعمال میں تضادات ہرسطح پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے اقدامات کی روز افزونی سے ملک کی آزادی، خودمختاری، معاشی ترقی ، قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اورعوام کی خوش حالی بُری طرح مجروح ہورہی ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ وزیراعظم صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ آج بھی ڈی چوک والے کنٹینر سے حکومت چلارہے ہیں۔ جوزبان استعمال کی جارہی ہے، اس نے سیاسی فضا کونہ ختم ہونے والی نفرت سے آلودہ کردیا ہے۔ بلاشبہہ اپوزیشن کارویہ بھی تعمیری نہیں ہے اور اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اپنےمفادات اور اپنی اپنی قیادت کی بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے اور ان سے توجہ ہٹانے کو اپنی اولین ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ ملک کے مسائل اور حالات کی اصلاح کے لیے پارلیمنٹ اور دوسرے تمام میدانوں میں کوئی کردار اداکرنے کے لیے وہ تیار نہیں دکھائی دیتیں۔ لیکن، خود حکومت بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ مسائل کے ادراک، افراد کے انتخاب، صحیح پالیسیوں کی تشکیل اور اچھی حکمرانی کے باب میں بُری طرح ناکامی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
خود تحریک انصاف کا نظام بھی اسی طرح چل رہا ہے، جس طرح دوسری بڑی جماعتوں میں قیادت، شخصی پسند و ناپسند کی بنیاد پر چلائی جارہی تھی۔نہ مرکز میں کوئی مؤثر ٹیم وجود میں آئی ہے اور نہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں مؤثر انداز سے کام کر رہی ہیں۔ اداروں سے تصادم، میڈیا میں مداخلت اور ساتھ ہی میڈیا سے رابطہ کاری، بزنس کمیونٹی کی سرزنش اور بزنس کمیونٹی سے سمجھوتا ___ ۱۶ماہ سے ایک ہی کہانی دُہرائی جارہی ہے۔ملک میں جہاں عام آدمی کو ہرروز سرکاری اداروں سے سابقہ پڑتا ہے عوام حسب سابق کرپشن، بے توجہی، لاقانونیت، جرائم کی بہتات، روزگار سے محرومی اور روزافزوں مہنگائی کا شکار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ:
رو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رُکاب میں
اس پس منظر میں ہم تین واقعات کی طرف خصوصیت سے توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اپنی اپنی جگہ بھی اہم ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر ایک آئینہ ہیں جس میں اس وقت معاشرہ، حکومت اور ملک کے اہم ترین اداروں کی اصل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
پہلا واقعہ لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ۱۱دسمبر کا وہ اندوہناک تصادم ہے، جو سوسائٹی کے دو اعلیٰ طبقوں کے نمایندوں کے درمیان ہوا۔ وہ طبقے جنھیں انسانیت، تہذیب اور شائستگی کی اعلیٰ ترین مثال ہونا چاہیے،یعنی انسان کی جان بچانے والے ڈاکٹر اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کو یقینی بنانے والے وکلا۔
بلاشبہہ مسئلہ ۱۱دسمبر کو شروع نہیں ہوا۔ دونوں کے درمیان مختلف وجوہ سے کشیدگی ایک ماہ سے موجود تھی۔ ینگ ڈاکٹرز کے اپنے مسائل تھے اور دوسری طرف وکلا کا اپنا غروراور احساسِ برتری۔ ان اہم اداروں میں ٹریڈ یونین کے سے طریقوں کا استعمال پریشان کن ہے۔ ڈاکٹر اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے جو حربے استعمال کرتے ہیں وہ کسی خیر کی خبر نہیں دیتے۔ وکلا جس طرح خصوصاً گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں سے اپنی بالادستی اور زورزبردستی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں، وہ بے حد تشویش ناک ہے۔ پھر جس طرح مختلف حکومتوں نے بشمول موجودہ حکومت، ان طبقات سے اصلاحِ احوال کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کی اورہربار فقط لیپاپوتی سے کام چلایا ہے، وہ بھی بگاڑ کو اس مقام تک لانے کا ذمہ دار ہے۔۱۱دسمبر کو جو المیہ رُونما ہوا، اس میں بظاہر زیادہ جارحانہ رویہ وکلا کا تھا۔ جس طرح اعلان کرکے وہ منظم انداز میں سات کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہسپتال پر حملہ آور ہوئے اور پھر جو تباہی مچائی، اس میں چار، پانچ افراد جان کی بازی ہارگئے، کروڑوں کا قیمتی سامان برباد اور نہایت قیمتی میڈیکل مشینری کو تباہ کر دیا گیا، سیکڑوں مریض دربدر ہوگئے۔ پھر جس طرح وکیلوں کی تنظیموں نے (چند معزز وکلا کے استثنا کےساتھ) محض گروہی عصبیت کی بنیاد پر اپنے ہم پیشہ افراد کا ساتھ دیا، وہ اتنا تکلیف دہ ہے کہ پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ تین گھنٹے ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی رہی۔ جو انتظامی اور پولیس افسران ڈیوٹی پر موجود تھے، انھوں نے اپنی ذمہ داری انجام دینے میں غفلت برتی:
حادثہ سے بڑا حادثہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اس الم ناک واقعے کو محض ایک حادثہ سمجھنے کے بجاے جان لینا چاہیے کہ یہ معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور ملک کے تعلیمی نظام کے غیرمؤثر ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ گھر، معاشرہ ،اسکول، میڈیا، حکومت اپنے اپنے میدان میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔ مسئلہ سفید کوٹوں اور کالے کوٹوں کے تصادم کا نہیں، معاشرے کی اقدار کے تہ و بالا ہوجانے کا ہے۔ ایک مہذب معاشرے کے لیے جو کم سے کم اجتماعی آداب ہیں، یہ المیہ ان سے بھی محروم ہوجانے کا پتا دیتا ہے۔ اسلام کا تو اصل ہدف انسان کو ایک بہتر انسان بنانا ہے۔ قرآن و سنت کا مطالعہ کیجیے، کس طرح ذاتی اخلاق اور اجتماعی معاملات میں خیروصلاح کی بنیاد پر تمام اُمور کو انجام دینے کی بہ تکرار ہدایت کی گئی ہے۔ محض قرابت داروں کے نہیں، ہرانسان کے حقوق کے احترام کو مسلمان کی شان قراردیا گیا ہے۔ گفتگو اور میل جول میں الفاظ اور جملوں کے برتاؤ تک کی ہدایت دی گئی ہے۔ اختلاف میں کن حدود کی پاسداری کرنا ہے، تنازعات کے حل کے لیے کیا راستہ خیر اور صلاح کا بتایا گیا ہے۔ افسوس کہ آج ہم ان سب چیزوں سے محروم ہوگئے ہیں اور ہوتے جارہےہیں۔
بات ہم مدینہ کی ریاست کی کرتے ہیں اور اعمال ہمارے اسوئہ رسولؐ اور مدینہ کے مسلم معاشرے کی ضد ہیں۔ حکومت، میڈیا ، دانش ور اوراہلِ علم، علماے کرام اور دینی جماعتوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اتنا بڑا واقعہ بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہ ہوگا۔ ایسے معاملات میں سمجھوتاکاری اور لیپاپوتی سمِ قاتل ہیں۔ اگر بُرائی کو بروقت روکنے میں تساہل کیا جائے گا تو وہ بُرائی بڑھتی اور غالب آتی جائے گی۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہی وہ طریقہ ہے، جس سے بُرائی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ بُرائی کو اگر بُرائی سے تبدیل کیا جائے گا تو غالب بُرائی ہی رہے گی ۔ اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب بُرائی یا خرابی کو خیر اورفلاح سے تبدیل کیا جائے اورمعاشرے میں بُرائی کو گوارا نہ کیا جائے اور ظلم و زیادتی کے ذمے داران کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ سزا، تعلیم و تربیت اور معاشرے میں قبول اور رَد___ یہ سب بیک وقت اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کا قیام انصاف اور حق پر مبنی معاشرہ اورریاست قائم کرنے کے لیے تھا، ظلم اور استحصال کے راج کے لیے نہیں۔
دوسرا واقعہ جس کی طرف ہم متوجہ کرنا چاہتے ہیں، وہ جنرل پرویز مشرف پر دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ۶ کی خلاف ورزی کے مقدمے کا فیصلہ ہے، جو ہسپتال کے واقعے کے ایک ہفتے کے بعد آیا ہے اور جس میں خصوصی عدالت کی اکثریتی راے (دو جج فیصلے کے حق میں اور ایک اختلاف میں) کے مطابق وہ دستورشکنی کے جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس کے لیے وہ دستور میں بیان کردہ سزا، یعنی سزاے موت کے مستحق ہیں۔ افسوس ہے کہ اس تاریخی فیصلے میں ایک معزز جج نے سزاے موت کے طریقے کے بارے میں جو راے دی ہے، محض اسے اصل موضوع بنالیاگیا اور فیصلے میں جو نہایت اہم تفصیلات اور نتائج درج ہیں، ان سب کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ہمارا تاثر بھی یہی ہے کہ اگرپیراگراف۶۶ میں وہ ایک جملہ نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ لیکن ملک ہی نہیں عالمی سطح پر گذشتہ سیکڑوں برسوں ہی میں نہیں بیسویں صدی میں بھی اور خود مغربی ممالک میں بھی اس انداز میں سزا دی گئی ہے۔ البتہ ہمارا یہ موضوع نہیں۔ ہماری نگاہ میں اگر وہ جملہ نہ ہوتا تو فیصلے کے حقیقی (substantive ) حصے پر ہی توجہ مرکوز رہتی اور اب بھی اسی پر توجہ رہنی چاہیے۔ واضح رہے کہ وہ جملہ فیصلے کا حصہ نہیں، ایک جج کی راے ہے۔ البتہ عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ ’’جنرل مشرف دستورشکنی کے مرتکب ہوئے ہیں اورانھیں اس کی سزا ملنی چاہیے‘‘۔
ہم نے اصل فیصلے کا بغور مطالعہ کیاہے اور اس امر کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور قانونی اور دستوری اعتبار سے بڑا جان دار اور محکم فیصلہ ہے۔ افسوس ہے کہ ایک غیرضروری جملے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اصل فیصلہ مرکز توجہ نہیں رہا بلکہ مخصوص طبقوں کی طرف سے اس پرایسے اعتراضات ہورہے ہیں جن کے جواب فیصلے میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اعتراض کہ ’’جنرل پرویز مشرف کو دفاع کا موقع نہیں ملا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے‘‘۔اور یہ کہ ’’فیصلہ آرمی کے خلاف بحیثیت ایک انسٹی ٹیوشن کے ہے‘‘ اس سے غلط الزام کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس فیصلے میں پوری تفصیل موجود ہے کہ کس طرح چھے سال تک مقدمہ چلا ہے، ۱۰۰ سے زائد مرتبہ پرویز مشرف اور ان کے وکلا عدالت گئے اور انھوں نے محض التوا اور فیصلہ مؤخر کرنے کا کھیل کھیلا۔ اس فیصلے میں ’غداری‘ کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں ہوا۔ جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ وہی ہے، جو خود دستور میں استعمال ہوا ہے یعنی، high treason۔ جنرل صاحب نے ۴۰سال فوج کی خدمت کی، اس پر یہاں بحث نہیں۔ پھر جس طرح فوج میں high treason کے الزام میں کئی اعلیٰ فوجی افسران کو سزا دی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے فوج کے ادارے پر کوئی حرف نہیں آتا،ذمہ داری متعلقہ فرد پر ہی جاتی ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہے۔
جس طرح ایک وزیر، وزیراعظم، صدر، جج، اعلیٰ سول ملازم، سیاسی لیڈر کسی جرم سے صرف اس لیے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ وہ وزیر، جج یا افسر ہے، اسی طرح اگر فوج کے کسی بھی افسرنے خواہ اس کی دوسری خدمات کتنی ہی شان دار کیوں نہ ہوں، اگر اس نے ایک بھی مجرمانہ اقدام کیا ہے تو محض خدمات کی بناپر اسے جرم سے تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف اقدام (اور فیصلہ) ہے فوج کےخلاف نہیں۔ فوج کے نمایندوں نے اس سلسلے میں جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، وہ محل نظر ہے۔
کیا فوجی قیادت ماضی قریب کی اس فضا کو بھول گئی کہ جنرل پرویز مشرف صاحب کے زمانۂ اقتدار میں،خصوصیت سے اسلام آباد کی لال مسجد کے واقعے میں مشرف کے ظالمانہ اقدام کے باعث فوج کی ساکھ، عوام کی نگاہ میں اتنی متاثر ہوگئی تھی کہ وردی میں تنہا سفر کرنے سے انھیں سرکاری طورپر منع کردیا گیا تھا۔ حالاںکہ پاکستانی عوام اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی سے محبت کرتے ہیں اور سپاہی ہو یا افسر اور جرنیل انھیں اپنا محسن سمجھتے ہیں۔پرویز مشرف کے چلے جانے کے بعد فوج نے اپنی ساکھ کوبحال کرانے میں اہم اقدامات کیے۔ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر پرویز مشرف اور اس کے اقدام اور فوج بحیثیت ادارہ میں فرق کیا گیا ہے اور پوری جرأت اور وضاحت سے فیصلے میں اس امر کو ثابت کیا گیا ہے: ’’فوج، دستورکے تابع ہے اور دستور کے طے کردہ اصول کے مطابق سول نظام کے تحت کام کرتی ہے‘‘۔ سول معاملات میں مداخلت یا دستور کا تعطل، تبدیلی، یا کُلی اور جزوی تنسیخ اس کے اختیارات سے باہرہیں اور اس جرم کی سزا دستور نےمقرر کردی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اس جرم میں اور کون کون شریک تھا؟ اس بات کو بھی اُچھالا جارہا ہے۔حالاں کہ فیصلے میں اس مسئلے کو بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ مقدمے کے دائرۂ کار سے باہر تھا۔ البتہ حکومت ان تمام افراد پر جب چاہے مقدمہ قائم کرسکتی ہے اور عدالت نے اس کا راستہ نہیں روکا۔ لیکن اس کی وجہ سےپرویز مشرف جو اصل اور کلیدی کردار ہیں، ان کو کیسے تحفظ دیا جاسکتا ہے؟ ہمارے نام نہاد دانش ور اس فیصلے پرجتنے بھی اعتراضات اُٹھا رہے ہیں، ان سب کا جواب فیصلے کے اندر تحریری طور پر موجود ہے۔ لیکن فیصلہ پڑھے بغیر یااس کے مندرجات کو نظرانداز کرکے فتوے دینے کی جو رسم ہمارے اینکروں اور تبصرہ نگاروں نے قائم کر دی ہے، وہ افسوس ناک ہے۔
فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔اس میں پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا جو کرداررہا ہے، اس پربھرپور گرفت کی گئی ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ فیصلہ ہماری تاریخ کا بڑا اہم اورروشن فیصلہ ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ پڑھا جانا چاہیے اور اس پر مکمل عمل ہونا چاہیے۔ہم ایک بار پھر یہ وضاحت کیے دیتے ہیں کہ پیراگراف ۶۶ کا وہ حصہ جس پر لے دے کی جارہی ہے، ایک راے ہے،فیصلے کا حصہ نہیں۔ اسے اس حد تک رکھا جائے تو بہتر ہے اور اگر ریویو میں عدالتِ عظمیٰ اسے نکال دے تو بہترہے۔
تیسرا مسئلہ جس پر ہم توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، اس کا تعلق عدالت کے اس فیصلے سے ہے، جس میں فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو قانونی جواز سے عاری قرار دیا گیا ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ کو موقع دیا گیا ہے کہ چھے مہینے کے اندر اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرلے۔
اس معاملے میں حکومتی نااہلی اور اس کی قانونی ٹیم کے پھوہڑپن اورتساہل کا جو بھانڈا پھوڑا گیا ہے، وہ بڑا چشم کشا ہے۔کابینہ کی کارروائی اور اہم اُمورپر سرکاری دستاویزات جس طرح لکھی جارہی ہیں اور جن الفاظ کا استعمال قانونی تقرریوں میں کیا جارہا ہے، انھیں دیکھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہماری سول سروس کو کیا ہوگیا ہے؟ قانون، ضابطہ، طرزِبیان کے سلسلے میں جو تربیت انھیں دی جاتی تھی، وہ اب کہاں چلی گئی ہے؟ تین سرکاری دستاویزات جو پیش کی گئیں، وہ تینوں غلطیوں سے پُر ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار افراد کا احتساب نہیں کیا جاسکتا؟
پاکستان کے موجودہ حالات کا گہرائی میں جاکر جو بھی جائزہ لے گا، وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک سنگین بحران سے دوچار ہیں اور اس سے نکلنےکا کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ اس کے لیےتمام سیاسی اور دینی قوتوں کے درمیان حقیقت پسندانہ مشاورت اور ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے مناسب اور مؤثر لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان صاحب نے ایک تاریخی موقعے کو بڑی بے دردی سے ضائع کیا ہے۔ جولائی ۲۰۱۸ء کے انتخابات، منصفانہ انتخابات نہیں تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک ایک بھی انتخاب دیانت اور انصاف کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخاب کے بارے میں دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ وہ منصفانہ تھا، لیکن جن کی نگاہ زمینی حقائق پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ خاص طور پر مشرقی پاکستان میں انتخابات کو بُری طرح عوامی لیگ کا یرغمال بنا دیا گیا۔ تاہم، جو سیاسی لہریں ملک کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھیں، ان کی بھی عکاسی انتخابی نتائج میں پائی جاتی تھی۔
مختصر الفاظ میں، مختلف شکلوں میں اورمختلف طریقوں سے ہرسطح پر، ملک کے ہر انتخاب پر اثرانداز ہوا گیا ہے اور ۲۰۱۸ء کے انتخابات کے نتائج میں بھی یہ چیز موجود تھی۔ لیکن اس کے باوجود ایک دو جماعتوں کو چھوڑکر سب نے ایسے داغ دار نتائج کی بنیاد پر بھی پارلیمنٹ کو مؤثر کرنے اور حکومت سازی کی تائید کی۔ ہماری بھی سوچی سمجھی راے یہ تھی کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو کام کا موقع ملنا چاہیے اور انھیں اپنی پوری مدت ملنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ان قوتوں کا ساتھ نہیں دیا جو انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف اور اس کی قیادت نے اس تاریخی موقعے کوضائع کیا ہے اور پارلیمنٹ کو اہمیت دینے اور اپوزیشن سے تعلقاتِ کار قائم کرکے نظام کو چلانے اور مستحکم کرنے کے بجاے ٹکراؤ،کش مکش اور گہری صف بندی (polarization )کا راستہ اختیار کیا۔ اپوزیشن میں خصوصیت سے مسلم لیگ (ن) کا رویہ بھی منفی رہا ہے اور تصادم کی سیاست کے فروغ میں اسے بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔شروع میں پیپلزپارٹی کا رویہ زیادہ متوازن تھا لیکن اب وہ بھی تصادم کے راستے پرچل پڑی ہے۔
ہماری نگاہ میں اس غلطی کی زیادہ ذمہ داری حکومت اور اس کے نمایندوں پر ہے۔ خود وزیراعظم صاحب اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔انھیں دانش مندی سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ راستہ نہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ ملک اور جمہوریت کے مفاد میں۔ اس صورتِ حال میں پارلیمنٹ غیرمؤثر ہوتی جارہی ہے ۔ سینیٹ کا اجلاس گذشتہ ۱۲۰ دن سے نہیں ہوا ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آرڈی ننسوں کے ذریعے سے حکومت چلائی جارہی ہے۔ یہ دستورکے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیاں بھی اپنا کردار ادا نہیں کررہیں۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ جو ایک دستوری ادارہ اور وفاق کی علامت ہے اور اسے ہرتین ماہ میں ایک بار لازماً ملنا چاہیے۔ اس کا سال بھر میں صرف ایک اجلاس ہوا ہے اوروہ بھی محض صوبوں کے اصرار پر۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں گذشتہ ۱۶ مہینوں میں سب سے کم قانون سازی ہوئی ہے، جو بہت تشویش ناک ہے۔ بلاشبہہ موجودہ حکومت کے دور میں کابینہ کے اجلاس زیادہ باقاعدگی سے ہورہے ہیں اوراس کے لگ بھگ اجلاس حکومتی ترجمانوں کے بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر ترجمان، ابہام پیدا کرنے اور تصادم کی فضا کو پروان چڑھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔
اس اصول کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ حکومتی کابینہ اسی وقت مؤثر ہوسکتی ہےجب وہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہو۔ ارکان کی پارلیمنٹ میں دل چسپی کا یہ حال ہے کہ جو بھولے بسرے اجلاس ہوئے ہیں، ان میں بھی کوئی اجلاس وقت پر شروع نہیں ہوا۔ ارکان کے سوالوں کے جواب بھی پورے نہیں آسکے، بلکہ کچھ اجلاس تو چند منٹ کے بعد مؤخر کرناپڑے۔ یہ پارلیمنٹ کی بڑی تاریک تصویر ہے جو موجودہ حکومت کےدور میں قوم کےسامنےآرہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن جیسے اہم ادارے کے ارکان جنھیں دستورکے مطابق ۴۵دن کے اندر مقرر ہونا چاہیے تھا، چھے مہینے سے زیادہ گزرنے کے باوجود تاحال (۳۱دسمبر ۲۰۱۹ء تک) مقرر نہیں کیے جاسکے ہیں۔اور اس وقت کوئی چیف الیکشن کمشنر بھی موجود نہیں۔ ۳۰ سے زیادہ اہم سرکاری اداروں کے سربراہ مقرر نہیںکیے جاسکے۔جہاں افسر مقرر کیےجاتے ہیں وہاں باربار تبدیلی کا یہ حال ہے کہ مرکز اورپنجاب دونوں میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری اور پولیس افسران ناقابلِ فہم عجلت میں بدلے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ گورننس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ان حالات میںاگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مناسب ہم آہنگی اور تعلقاتِ کار قائم نہیں ہوتے تو پارلیمنٹ کا چلنا مشکل ہے۔ بلاشبہہ ہماری اولین ترجیح پارلیمنٹ کی مدت پوری کرنے کےلیے تھی، لیکن موجودہ حالات میں اگر حکومت اور اپوزیشن رویہ نہیں بدلتے ہیں تو پھر نئے انتخاب اورنئی پارلیمنٹ کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔
ہم پوری ذمہ داری سےعرض کریں گے کہ مسئلہ نئی پارلیمنٹ سے بھی حل نہیں ہوگا، کیوں کہ ہماری سیاسی پارٹیاں، جمہوری پارٹیوں کی طرح کام نہیں کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور غالباً اے این پی کے سو ا کسی جماعت میں باقاعدہ اور مؤثر انتخابات نہیںہوتے۔ تاہم اے این پی میں بھی موروثی سیاست اسی طرح براجمان ہے، جس طرح پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دوسری جماعتوں میں مستحکم ہے۔
پارٹیوں کے پاس کوئی واضح پروگرام اور شفاف پالیسی نہیں ہے۔ جس کا تلخ ترین تجربہ تحریک انصاف کی حکومت میں سامنے آیا ہے کہ ۲۲سال کی جدوجہد اور تبدیلی کے حسین خواب دکھانے کے باوجود، جب حکومت ملی، توان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا۔ میرٹ کی بات بہت ہوتی تھی، مگر ان تقرریوں میں جس چیز کا سب سے زیادہ قتلِ عام ہوا، وہ خود میرٹ ہے۔روایتی سیاسی اثرات پوری طرح کارفرمانظر آئے ہیں۔ آدھی کابینہ جنرل مشرف، زرداری اورنوازشریف کی وزارتوں کے سابق ارکان پر مشتمل ہے یا وزیراعظم کے محض ذاتی دوستوں اور معتمدین پر۔پوری معیشت آئی ایم ایف کے اشاروں پر منحصر کردی گئی اور عالمی مالی اداروں سے متعلقہ افراد کو معیشت کی باگ ڈور سونپ دی گئی۔ حکومت کی مجموعی کارکردگی مایوس کن ہے، لیکن ’سب اچھا ہے‘ ثابت کرنے کے لیے وزیروں اور خصوصی نمایندوں کی بڑی تعدادایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
احتساب کا جو حشر کیا گیا ہے، اس میں جو بدسلیقگی برتی گئی ہے، اس کے بارے جتنا کہا جائے کم ہے۔ عوام کا اعتماد اس پر سے اُٹھتا جارہا ہے۔ وہ حکمران اور سرکاری عمال جو قومی خزانے کو لوٹنے یا نقصان پہنچانے کے ذمہ دار تھے، ملزم سے مجرم ثابت ہونے کے بجاے مظلوم بنتے جارہے ہیں اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی سودے بازی کی حیثیت بڑھ گئی ہے۔ نیب کاکرداراحتساب سے زیادہ انتقام کا نظر آنے لگاہے اور اس کی کارکردگی بالکل غیرمؤثر رہی ہے۔ نو نو مہینے حراست میں رکھنے کے باوجود،کوئی مناسب شہادتیں فراہم کرنے میں ناکامی اس کا کھلاثبوت ہے۔دعوےنیب چیئرمین کے بھی بہت بلندبانگ، لیکن عملی اقدام کمزور اور غیرمؤثر۔ احتساب جسے عمران خان صاحب نے اپنے انتخابی نعروں میں سرفہرست رکھا تھا، وہ مذاق بنتا جارہا ہے۔
ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو شدید خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ملک کے حالات کا گہری نظرسے مطالعہ کریں۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کے تعاون سے مسائل کا صحیح ادراک کریںاور ان کے حل کے لیے مناسب اور مؤثر پالیسیاں تشکیل دیں۔ ان پر عوامی بحث و مباحثہ ہو اور سیاسی قیادت میں ایسے لوگوں کو لایا جائے جو دیانت و امانت کےساتھ صلاحیت اور قابلیت بھی رکھتے ہوں۔ پارلیمنٹ میں سوالات اور پارلیمانی کمیٹیاں وہ ادارے ہیں، جہاں معلومات حاصل کرکے سرکاری پالیسیوں اور ان کے نتائج پر گرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کو متحرک کیا جائے۔
ایک مصیبت یہ ہے کہ جناب محمد خان جونیجو کے دورِ حکومت [۸۸-۱۹۸۵ء] میں پارلیمان کےارکان کو ترقیاتی فنڈ فراہم کرنے کی جس لعنت کا آغاز کیا گیا تھا، اس نے پارلیمنٹ کے فطری اور منصبی کیریکٹر ہی کو تباہ کردیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ کام مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کا ہے اور اوّلین ترجیح لوکل باڈیز کےقیام، اور تمام ترقیاتی فنڈز کو لوکل باڈیز کے ذریعے استعمال کرنے کی ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کا کام نہیں ہے۔ انھیں وہ کام کرنا چاہیے جو دستورنے ان کوسونپا ہے اور اس کے کرنے کی انھیں نہ کوئی فکر ہے اور نہ خواہش۔
تحریک ِ اسلامی کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنی نظریاتی اورتہذیبی شناخت کے مطابق ملک کے مسائل اور عوام کے حالات کو بہتربنانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرے اور ایک ایسا موقف اختیار کرے، جس میں عوام اپنے جذبات کی صداے بازگشت سن سکیں۔ ہمارے پاس الحمدللہ دیانت دار اور اپنےمقصدحیات کی خدمت زندگی بھر کرنے کا جذبہ رکھنے والے کارکن اور لیڈر ہیں ۔اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم عوام تک پہنچیں اوراپنے چار نکاتی پروگرام کی روشنی میں، ہرہرنکتے کےمطابق دعوت اورعوام کو متحرک کرنے کا کام انجام دیں۔ زندگی کے ہرہرشعبے کے سلسلےمیں جو متبادل پالیسیاں ہم لانا چاہتے ہیں، انھیں تفصیل سے پیش کریں۔
معاشی میدان میں جماعت نے ایک مفیددستاویز تیار کی ہے،اسے بڑے پیمانے پرپھیلانے اور اس کی مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر سیمی نار منعقد کیے جانے چاہییں۔ اسی طرح ہرہرشعبے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے منصوبۂ کارکا ایک حصہ جہاں فوری تبدیلیوں کا ہونا چاہیے، وہاں اس میں درمیانی اور طویل المدت تبدیلیوں کابھی خاکہ شامل ہونا چاہیے۔ ملک میں نجی تحقیقی اداروں اور یونی ورسٹیوں میں اس حوالے سے جو تحقیقی کام ہورہے ہیں، ضروری ہے جماعت کی قیادت اور کارکن اس کام سےواقف ہوں۔
ہمارے سامنے صرف ایک الیکشن یا کسی ایک حکومت کی بدنظمی سے نبٹنے کا چیلنج نہیں ہے، بلکہ پیش نظر ملک کے نظام میں تبدیلی ہے اوراس کا خاکہ ہمارے منشور میں ہے۔ تاہم، اس کا تفصیلی نقشۂ کار تیارکرنے اور اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اُوپر سے لے کر نیچے تک، ہماری قیادت کی گرفت ان تمام موضوعات پر ہونی چاہیے تاکہ اپنی گفتگوؤں، دعوتی ملاقاتوں، تقریروں اورمضامین میں ان کو پیش کرسکیں۔ عمومی تقاریر کا اپنا رول ہے، لیکن جو تبدیلی ہم لانا چاہتے ہیں اور جو ملک کو مطلوب ہے، اس کے لیے یہ دوسرا کام ازبس ضروری ہے۔ اس میدان میں تحریک ِ انصاف کی ناکامی سے جو خلا پیدا ہواہے، وہ جماعت اسلامی ہی کوپُر کرنا چاہیے۔ اس خلا کو پُر کیے بغیر قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد کے مطابق تعمیرنو ممکن نہیں۔ یہ ہمارے ملک و قوم کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے۔ فکری یکسوئی، منظم اجتماعی جدوجہد، راے عامہ کی تسخیر اور راے عامہ کی قوت سے سیاسی نظام کی تبدیلی کے ذریعے ہی پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی جمہوری ملک بنایا جاسکتا ہے۔