۱۹۶۴ء میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کی آمرانہ حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی، جسے سپریم کورٹ نے غیرقانونی قرار دیا۔ جیل سے رہائی کے بعد مولانا مودودیؒ نومبر ۱۹۶۴ء میں کراچی دورے پر گئے تو وہاں کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں معروف قانون دان اے کے بروہی صاحب نے مولانا مودودی کا استقبال کیا۔ جواب میں مولانا نے یہ مختصر خطاب فرمایا۔ ادارہ
ایک مہذب سوسائٹی اور ایک وحشی سوسائٹی کے درمیان فرق کرنے والی چیز ’قانون‘ ہے۔ وحشی سوسائٹی میں لاقانونیت ہوتی ہے اور مہذب سوسائٹی میں قانون اور اس کی پابندی ہوتی ہے۔
چار بنیادی عوامل
ایک صحیح قسم کی مہذب سوسائٹی کے لیے قانون کے سلسلے میں چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
l ایک یہ کہ قانون بجاے خود معقول ہو، منصفانہ ہو اور معروف ہو۔ اس قانون کے بارے میں ہرشخص یہ محسوس کرے کہ یہ عقل و انصاف کے مطابق ہے، اور اس کے خلاف طبیعتیں بغاوت پر آمادہ نہ ہوں۔ اس کے احکام کے متعلق لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بے جا احکام ہیں، اور اس قابل نہیں کہ ان کی پیروی کی جائے، اِلا یہ کہ ان قوانین کو ان کے اُوپر زبردستی ٹھونس دیا جائے۔ گویا ایک مہذب سوسائٹی کی اوّلین ضرورت یہ ہے کہ قانون منصفانہ اور معقول ہو، لوگ اپنے دل سے یہ جانیں کہ یہی قانون ہے اور یہی قانون ہونا چاہیے، اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے اُوپر عمل کریں۔
l دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد کرنے والی ایک طاقت ایسی ہو جو ایمان دار ہو اور لوگ یہ بھروسا کرسکیں کہ یہ انصاف کے ساتھ اس قانون پر عمل درآمد کرائے گی اور چھوٹے بڑے کی تفریق کو خاطر میں نہ لائے گی۔ اورقانون کے مطابق ہرایک سے یکساں سلوک کرے گی۔
l تیسری چیز جو ضروری ہے وہ یہ کہ ایک آزاد اور باوقار عدلیہ موجود ہونی چاہیے۔ اگر قانون کی تعبیر کے معاملے میں اختلافات پیدا ہوں، یعنی یہ سوال پیدا ہو کہ قانون کے مطابق کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ ایسا جھگڑا یا اختلاف خواہ حکومت اور اشخاص کے درمیان پیدا ہو، یا مختلف طبقوں اور گروہوں کے درمیان ہو، تو ایک عدلیہ ایسی موجود ہونی چاہیے جس پر یہ بھروسا کیا جاسکے کہ وہ ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق قانون کاانطباق کرے گی اور قانون میں ابہام کی صورت میں اس کی درست تعبیر کرے گی۔
l اور چوتھی چیز یہ ہے اور یہ ایک لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ پبلک میں کثرت سے ایسے لوگ موجود ہوں، جو قانون کو جانتے بھی ہوں، قانون کو بالاتر رکھنے کی خواہش رکھتے ہوں اور جن کے اندر یہ عزم بھی موجود ہو کہ قانون کے راستے سے سوسائٹی کو ہٹنے نہیں دیں گے۔
انتظامیہ اور آرڈی ننس
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اس مہذب سوسائٹی کی دو شرائط بڑی حد تک ساقط ہوچکی ہیں۔ جہاں تک قانون کا تعلق ہے، یہاں کھلم کھلا ایسے آرڈی ننس نافذ کیے اور قوانین بنائے جارہے ہیں، جن کی دفعات کو دیکھ کر ان کے اندر اختلاف بلکہ تضاد نظر آتا ہے۔
دوسری طرف جس انتظامیہ کا کام قانون کو نافذ کرنا ہے اور خود ان پر عمل درآمد کرنا اور پبلک سے کرانا ہے، اس کا طرزِعمل ایسا چلاآرہا ہے کہ لوگوں کا اعتماد اس کے اُوپر سے اُٹھ چکا ہے۔ کیوں کہ وہ انتظامیہ جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ جو قانون موجود ہے اور جس کو وہ خود بھی مانتے ہیں کہ یہ قانون ہے، اس کی بھی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یہ قانون شکنی اس بھروسے پر کی جاتی ہے کہ ہمارا عدالتی طریق کار اور ضابطہ کار اس سرکشی اور قانون شکنی کو کافی مہلت دیتا ہے کہ آپ ایک زیادتی آج کربیٹھیں تو آٹھ نو مہینے یا سال دو سال تک تو کسی گرفت کے بغیر کام بہرحال چل ہی جائے گا۔ بعد میں عدالت خواہ اس سب کچھ کو خلافِ قانون ہی کیوں نہ قرار دے دے___ انتظامیہ اگر جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ہو، تو اُسے ایک آزاد عدلیہ قانونی ذرائع سے قانون کی خلاف ورزی سے باز رکھ سکتی ہے۔
اب ہمارے معاشرے میں صرف دو ہی عنصر ایسے باقی رہ گئے ہیں، جن کے بل پر ہم مہذب معاشرے کی حیثیت سے جی رہے ہیں یا جی سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طاقت ور عنصر عدلیہ ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں، جو اللہ سے ڈر کر انصاف کرنے والے ہیں۔ یہ الگ بات ہےکہ غلط آرڈی ننسوں اور قوانین سے ان کے ہاتھ ہی باندھ دیے جائیں، لیکن قانون کے اندر وہ جتنی کچھ گنجایش پاتے ہیں، اس کے مطابق انصاف کو بروے کار لانے میں کمی نہیں کرتے۔
یہ بات صاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں انتظامی طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ عدالتوں پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش سے نہیں چُوکتے۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے جج موجود ہیں، جو کسی دباؤ کو قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ کسی لالچ اور کسی دباؤ سے اثر لیے بغیر وہ انصاف کرنے والے ہیں۔
آخری چیز جس کا آپ سے ذکر کیا، وہ یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگ کثرت سے موجود ہو ں جن کے اندر قانون کا علم بھی ہو ، قانون کو بالاتر رکھنے کی خواہش بھی اور یہ مضبوط ارادہ بھی موجو د ہو کہ سوسائٹی کو ہم قانون کے راستے سے نہیں ہٹنے دیں گے۔ یہ گراں بار ذمہ داری زیادہ تر ہمارے وکلا پر آپڑی ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کا لیگل سسٹم پیشہ ور وکیلوں ہی کو چاہتا ہے، اس لیے عام قانون دان اگر اپنی جگہ یہ سمجھتا بھی رہے کہ قانون کیا ہے اور اس کا انطباق کس طرح ہونا چاہیے؟ تو اس کی راے کا اثر کچھ نہیں ہوسکتا، اِلا یہ کہ وہ اخبارات میں مضامین لکھے یا پھر پبلک پلیٹ فارم کا رُخ کرے۔
اس صورتِ حال میں صرف پروفیشنل وکلا کے بس میں یہ ہے کہ وہ عدالتوں کے ذریعے سے قانون کی بالادستی کو منوائیں۔ ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ قانون کے راستے سے نہ ہٹنے پائے اور جس جگہ بھی ظلم ہورہا ہو، وہاں انصاف حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ واقعہ ہے کہ چندسال پہلے تک یہ محسو س ہوتا تھا کہ ہمارے ملک کے وکلا اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کر رہے ہیں، لیکن گذشتہ ایک دو برسوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں دوچار ہی نہیں سیکڑوں کی تعداد میں ایسے وکلا موجود ہیں، جو اپنے اس فرض کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے اندر شعور، بیداری اور احساسِ فرض موجود ہے۔ اس چیز پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کو اب تک یہ دولت نصیب ہے۔
جہاں تک اس موضوع کے سیاسی پہلو کا تعلق ہے اس سلسلے میں صرف ایک ہی بات آپ سے عرض کروں گا۔ اے کے بروہی صاحب نے برسرِاقتدار گروہ کو یہ دعوت دی ہے کہ ’’وہ ذرا اپوزیشن میں بھی رہ کر کام کرکے دیکھیں‘‘ تو مَیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اقتدار ہاتھ سے چھوڑ دیں تو وہ اپوزیشن تو کیا، کوئی پوزیشن بنانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اگر اقتدار ان کے ہاتھ سے چلا جائے تو ان کی پارٹی میں ایک بندۂ خدا بھی باقی نہیں رہ جائے گا۔
سیاسی پارٹیاں ایک مدت دراز تک کام کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ کسی مرحلے پر پہنچ کر اس قابل ہوتی ہیں کہ اقتدار حاصل کریں۔ اقتدار ہاتھ سے چھن جانے کے بعد بھی وہ پارٹیاں باقی رہتی ہیں اور اپوزیشن کی حیثیت سے کام کرسکتی ہیں۔ یہاں جو پارٹی وجود میں آئی ہے، وہ اقتدار پر قبضہ کرلینے کے کئی برس بعد ، اقتدار کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، نہ کہ کسی پروگرام اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں [یاد رہے، تب فوجی حکومت نے کنونشن مسلم لیگ کی صورت میں ایک پارٹی قائم کرکے، حکومت بنارکھی تھی، یہ اشارہ اس جانب ہے۔ ادارہ]۔
ظاہر بات ہے کہ جوچیز کسی سبب سے پیدا ہوئی ہو، وہ سبب کے ہٹ جانے کے بعد باقی نہیں رہتی۔ چونکہ اقتدار سبب ہوتا ہے، اس پارٹی کے وجود کا، اس لیے اقتدار چھن جانے کے بعد ایسی پارٹی سرے سے باقی ہی نہیں رہتی۔ ہمیں سوچنا پڑےگا کہ جمہوری نظام چلانا ہے تو اپوزیشن کہاں سے پیدا ہو؟ (ہفت روزہ ایشیا اور آئین، لاہور، نومبر ۱۹۶۴ء)