۱۳ دسمبر بروز جمعہ عین نماز فجر کے دوران والدہ محترمہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ہر ماں عظیم اور اس سے وابستہ یادیں لازوال ہوتی ہیں۔ ہر ماں کی محبت بے مثال ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ربّ ذو الجلال کی اپنے بندوں سے محبت کے لیے ماؤں کی محبت کی مثال دی ہے۔ ماں کے ذکر خیر کا حق کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا لیکن کچھ یادیں مختصراً سپردِ قلم کرنے کی کوشش ہے، تاکہ ان کی بلندیِ درجات اور ہماری یاددہانی کا ذریعہ بن سکیں۔
میری عمر اُس وقت شاید یہی تین چار سال تھی، ایک بار نماز جمعہ ادا کرکے گھر آیا تو امی نے نماز پڑھ لینے کی تسلی کرنے کے بعد پوچھا: ’’خطبہ کس موضوع پر تھا؟‘‘ خطبے کا موضوع تو کجا لفظ ’موضوع‘ کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا۔ امی نے وضاحت کی کہ خطیب صاحب نے کس بارے میں گفتگو کی؟ ذہن میں باقی رہ جانے والے دو چار الفاظ بتا کر جواب دینا چاہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ ہم بچے تو پیچھے بیٹھے آپس میں اور دوستوں سے گپ شپ کرتے رہے، خطبے کی طرف تو کسی نے دھیان ہی نہیں دیا۔ امی نے چند جملوں میں خطبہ و نماز جمعہ کی اہمیت بتائی اور بات ختم ہوگئی۔ اس مختصر مکالمے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد جب بھی نماز جمعہ کے لیے جاتے تو یہ خیال بھی رہتا کہ ہوسکتا ہے امی پھر خطبے کا موضوع پوچھ لیں، لہٰذا بچپن کی بے دھیانی میں بھی خطبے پر دھیان رہنے لگا۔
نماز اور مسجد کے بارے میں ان کی یہ فکرمندی اور اہتمام زندگی کے آخری ایام تک رہا۔ اب بھی ملتے ہی پوچھتیں: ’’نماز پڑھ لی؟‘‘ ’’نماز باجماعت ادا کی؟‘‘۔ وفات سے قبل کا کچھ عرصہ زیادہ کمزوری کا تھا، کبھی نیم غنودگی کی کیفیت ہوجاتی۔ اس عالم میں بھی گھر کے مختلف افراد کا نام لے کر انھیںنماز ہی کی تلقین کررہی ہوتیں۔ ہماری خالہ جان جو اس وقت خود بھی ماشاء اللہ ۸۰سال سے زیادہ کی عمر میں ہیں اور الحمدللہ عبادات کا مکمل اہتمام کرتی ہیں کا نام پکار پکار کر انھیں کہہ رہی ہوتی تھیں کہ ’’نماز ادا کرلو، دیکھو سورج کہاں پہنچ گیا ہے؟‘‘۔ امی ہمیں ہمارے نانا جناب عبدالقادر مرحوم جنھیں سب بہن بھائی ’میاں جی‘ کہا کرتے تھے(جو جماعت اسلامی کے ۷۵ تأسیسی ارکان میں سے ایک تھے) کے بارے میں چند باتیں اکثر سنایا بلکہ دہرایا کرتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے۔ اور اس کا اتنا زیادہ اہتمام کرتے کہ بیت الخلا جاتے تو باہر آتے ہی اس کی کچی دیوار پر ہاتھ پھیر کر تیمم کرلیتے اور پھر سیدھا وضو کے لیے چلے جاتے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ نماز بروقت ادا کرتے تھے۔ اس میں کبھی تاخیر نہ ہونے دیتے۔ یہ سنتے ہوئے ذہن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تازہ ہوجاتا کہ جب آپؐ سے پوچھا گیا:أَیُّ الأَعمَالُ أَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقتِہَا، بروقت نماز‘‘۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ باوضو رہنے کا اہتمام کرنے پر جنت کی بشارت والا پورا واقعہ بھی۔
امی، نانا جان کے صبر و برداشت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی والدہ کی بیماری اور پھر وفات کا واقعہ سنایا کرتیں کہ وہ کئی روز شدید بیمار رہیں۔ ایک رات اسی کیفیت میں ہم ان کے پاس سوگئے۔ فجر کی نماز کے وقت میاں جی نے آہستگی سے مجھے جگایا اور پھر رسان سے بتایا کہ: ’’دیکھو رات تمھاری امی فوت ہوگئی تھیں، لیکن زحمت نہ دینے کے خیال سے کسی کو نہیں جگایا۔ اب تم آکر ان کے پاس بیٹھو اور دُعائیں کرتی رہو۔ میں نماز فجر ادا کرکے آتا ہوں اس کے بعد اہل خانہ اور گاؤں والوں کو بتائیں گے‘‘۔ امی بتاتیں کہ یہ سن کر بے ساختہ میری چیخ نکل گئی تو میاں جی کہنے لگے: ’’میں تو تمھیں بہت سمجھ دار سمجھتا تھا، تم تو پگلی نکلیں‘‘۔
نانا کی اس صابرانہ تربیت و طبیعت کا اثر امی کی پوری زندگی میں دکھائی دیتا ہے۔ہم ماشاء اللہ چار بھائی تھے اور چھے بہنیں۔ مجھ سے بڑے بھائی عبد اللہ محمود چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے کہ ایک رات جماعت اسلامی کے ایک جلسے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے سڑک عبور کرنے پر آئل ٹینکر کی ٹکر لگنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دونوں بڑے بھائیوں کو حصول تعلیم کے لیے پہلے منصورہ سندھ اور بعد میں بیرون ملک بھیج دیا۔ بعد میں راقم کو بھی اسی مقصد کی خاطر بیرون ملک جانے کا موقع ملا۔ ہم تینوں بھائیوں میں سے کسی کا بھی ان کے پاس نہ ہونا والدین کو اکثر اداس کردیتا لیکن دونوں کی یہی تمنا انھیں ڈھارس دیتی کہ وہ تینوں کو علم دین اور قرآن و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سکھانا چاہتے ہیں۔ بعد میں بہنیں بھی ایک ایک کرکے اپنے گھروں کو سدھاریں۔ ایسے میں ملاقات ہونے پر امی بتاتیں کہ میں اکثر اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہوں کہ ’’آپ دیکھ رہے ہیں ناں کہ میرے سب بچے کہاں کہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ لیکن میں آخرت میں انھیں یوں بکھرے ہوئے نہیں، سب کو اپنے پاس اکٹھے دیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔ ہم بھی اتنی اچھی دُعا پر خوشی کا اظہار کرتے۔ کبھی شوخی میں آکر میں امی سے کہتا کہ بس آپ نے اس دُعا اور خواہش پر ضد کرکے بیٹھ جانا ہے، اللہ تعالیٰ نے تو اہلِ جنت کے ارادے ہی کو حقیقت میں بدل دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ کی دُعا ضرور قبول فرمائے گا۔
دُعاؤں کے معاملے میں بھی والدین کی ترجیحات یکساں تھی۔ والد صاحب اکثر اپنی والدہ کی دُعا دہرایا کرتے اور امی بھی یہی دُعا کیا کرتیں: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں ایمان دے، تقویٰ دے، عزت دے، آبرو دے‘‘۔ والدین یہ دُعا دینے کے بعد کہتے دیکھو اس میں سب کچھ جمع ہوگیا۔ امی اپنے گاؤں کی ایک بزرگ خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے کہتیں کہ وہ زندگی کے آخری عرصے میں مزید عبادت گزار ہوگئیں۔ ایک روز خواب میں انھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو انھوں نے عرض کی کہ مجھے کوئی دُعا سکھائیے (شاید یہ بھی کہا کہ گھبراہٹ بہت ہے)۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کثرت سے کہا کرو: رَضِیتُ بِاللّہِ رَبَّـا وَ بِالْاِسْلَامِ دِینًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَرَسُولًا۔ وہ بزرگ خاتون یہ کلمات ہمیشہ وردِ زبان رکھتی تھیں۔ امی خود بھی بکثرت اس کا اہتمام کرتیں۔یہ سنتے ہوئے صحیح احادیث میں آپؐ کی یہ بشارتیں بھی سامنے آجاتیں کہ مَنْ قَالَ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ، رَبًّـا وِبِالْاِسْلَامِ دِینًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃ، جس شخص نے (صدق دل سے) یہ کہا کہ میں اللہ کو رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے پر راضی ہوا تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔
ایک دوسری روایت میں مزید اضافہ یہ بھی ہے کہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا تو بہت خوش ہوئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہ بات ایک بار پھر فرمائیے۔ آپؐ نے دوبارہ فرمادیا اور ساتھ ہی فرمایا: وَ أُخْریٰ یُرْفَعُ بِہَا العَبْدُ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ فِی الْجَنَّۃ، مَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَ الْأَرْضِ ، ایک اور عمل بھی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کے درجات میں سو درجوں کا اضافہ فرمادیں گے۔ ہر دو درجوں کے مابین اتنا فاصلہ ہوگا جتنا زمین و آسمان کے مابین ہے۔ صحابی نے شوق سے پوچھا وہ کیا عمل ہے؟ آپ نے دومرتبہ فرمایا: الجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ، الجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
امی نے بھی نہ صرف اس زبانی اقرار و اخلاص کا اہتمام کیا بلکہ ساری زندگی اپنے حصے کے جہاد میں شریک رہیں۔ نانا جان جماعت اسلامی کے تاسیسی رکن ہونے کے باعث نہ صرف خود سراپا عمل تھے، اپنے سب بچوں کی گھٹی میں بھی دین و تحریک اسلامی سے محبت اور جنت کا شوق شامل کردیا۔ ہم سب اہل خانہ نے بھی اپنی والدہ، خالاؤں اور ماموں کو ہمیشہ مصروفِ جستجو دیکھا۔ امی کی وفات کے بعد تعزیت کے لیے آنے والوں کتنے ہی ذمہ داران و کارکنان جماعت نے گواہی دی کہ ہم نے آپ کے گھر میں ہونے والے دروس قرآن، اجتماعات ارکان و کارکنان، اجلاس ہاے شوریٰ اور کسی نہ کسی تحریکی مصروفیت میں شرکت کی۔سب بچوں کی دیکھ بھال، گھر کے تمام کام کاج، اباجی کے دواخانے کے کاموں میں مکمل شرکت اور پھر تمام تحریکی سرگرمیوں کا بھرپور اہتمام، یقینا اللہ ہی کی توفیق سے وہ ہر جگہ سرخرو ہوئیں۔ والدین ایک طویل عرصے کے لیے سندھ مورو منتقل ہوگئے تھے۔ ۱۹۷۲ء میں سندھی پنجابی فسادات کی وجہ سے واپس پتوکی ضلع قصور آگئے۔ لیکن جہاں بھی رہے ان کی اول و آخر ترجیح دین، تحریک اور جماعت رہی۔ حالات جیسے بھی رہے کبھی کسی تحریکی کام میں تساہل نہیں آنے دیا۔ رب ذو الجلال ان کی تمام کاوشیں قبول فرماتے ہوئے انھیں اس کی بہترین جزا سے نوازے، آمین!
امی کی وفات پر جتنے بھی احباب نے تعزیت کی، اور دُعائیں کیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی اجر عظیم عطا فرمائے۔ والدین کے لیے قرآنی دُعاؤں رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰــنِیْ صَغِیْرًا اور رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ سے زیادہ جامع دُعا کوئی نہیں ملی، اور جن دُعاؤں نے سب سے زیادہ ڈھارس بندھائی وہ یہ تھیں کہ’’ رب ذوالجلال ان کی تمام دُعاؤں کے ثمرات اور ان کی برکات ہمیشہ جاری رکھے‘‘۔ یہی دُعا اپنے تمام احباب، ان کے بچوں اور ان کے والدین کے حق میں دہراتا ہوں___ رب ذو الجلال! قبول فرما۔