سیّد قطب شہیدؒ (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) کی لافانی تحریروں نے لاکھوں دلوں کوگرمایاہے اور ان میں ایمان ویقین کی تازگی پیدا کی ہے۔ ان کی تصانیف کاترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکاہے۔ سیّد قطب شہید کی ایک قیمتی تحریر افراح الروح کے نام سے ہے۔جس میں انھوں نے متعدد ا ہم موضوعات پر اپنے قلبی احساسات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس تحریر کا اردو ترجمہ ہے۔
سیّد قطب شہیدؒ پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء کو ۱۵سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔۱۰ سال کے بعد ۱۹۶۴ء میں انھیں رہائی ملی۔ اس نام نہاد رہائی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور ایک ڈھونگ نما عدالت سے فیصلہ کرواکے ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔یہ تحریر سیّد قطب نے قید وبند کے انھی ایام میں کسی موقعے پر اپنی بہن اورمعروف ادیبہ امینہ قطب کے نام ایک خط کی صورت میں لکھی تھی۔ ۱۵نکات پر مشتمل اس تحریر کے ہر نکتے کو سیّدقطب نے ’خاطرہ‘ کہا ہے۔ واضح رہے کہ ذیلی عنوانات محترم مترجم کے قائم کردہ ہیں۔ادارہ
موت کا تصوربرابر تمھارے فکر وخیال پر چھایارہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو۔ اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو، جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کم زور ، کھوکھلی اور خوف زدہ پاتی ہو۔
تاہم، میرا نقطۂ نظر تمھارے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں، موت کو ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتاہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گراپڑا ٹکڑا اٹھالے۔
میرے ارد گرد زندگی کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ ہرچیز پروان چڑھ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ مائیں حمل سے ہورہی ہیں اور بچے جن رہی ہیں۔ اس معاملے میں انسان اور جانور برابر ہیں۔ پرندے،مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے انڈے دے رہے ہیں، جن سے زندگی پھوٹ رہی ہے اور جان دار نکل رہے ہیں۔ زمین سے پودے پھوٹ رہے ہیں، جن سے پھل پھول نکلتے ہیں۔ آسمان سے موسلادھار بارش ہورہی ہے، اورسمندروں میں موجیں اُٹھ رہی ہیں۔ غرض اس روے زمین پر ہرچیز نموپذیر ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
درمیان میں کبھی کبھی موت اچانک نمودار ہوتی ہے اور ایک جھپٹّا مارکر آگے بڑھ جاتی ہے، یا چپکے سے اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان پر سے کوئی ٹکڑا اٹھالیتی ہے۔ زندگی کا کارواں رواں دواں رہتا ہے۔ اس کی موجیں اچھلتی، کودتی اورجوش مارتی رہتی ہیں۔ اسے موت کا مطلق احساس ہوتا ہے نہ وہ اسے دکھائی دیتی ہے۔
بسااوقات، جب موت زندگی کے جسم کو ایک مرتبہ نوچتی ہے تو درد سے اس کی چیخ نکل پڑتی ہے، لیکن زخم بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں اور درد کی چیخ بہت جلد راحت میں بدل جاتی ہے۔ انسان اور حیوان ، پرندے اور مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، پیڑپودے، سب اپنی اپنی راہ پر گا م زن رہتے ہیں۔ اس طرح روے زمین زندگی اور زندوں سے معمور رہتی ہے۔ موت کہیں کونے میں دبکی رہتی ہے۔ پھر اسی دوران میں اچانک ایک جھپٹاّ مارتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے، یا زندگی کے دسترخوان سے کوئی ٹکڑا گرجاتاہے، جسے وہ اٹھالیتی ہے۔
سورج نکل رہا ہے اور غروب ہو رہاہے، زمین اس کے گرد گردش کررہی ہے، زندگی کی کونپلیں اِدھر اُدھر نکل رہی ہیں___ ہرچیز نموپذیر ہے۔ اضافہ تعداد میں بھی ہورہاہے اور نوعیت میں بھی۔ کمّیت میں بھی ہورہاہے اور کیفیت میں بھی۔ اگر موت، زندگی کو نگل جانے کے قابل ہوتی تو زندگی کی روانی ٹھیرجاتی، لیکن زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت دکھائی دیتی ہے۔ زندۂ جاوید، اللہ واحد کی قوت سے زندگی کی کونپل نکلتی ہے ، یہاں تک کہ ایک تناور درخت وجود میں آجاتا ہے۔
ہم جب صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں تو زندگی ہمیں مختصر، معمولی اور حقیر نظر آتی ہے۔ ہمارے ہوش سنبھالتے ہی اس کاآغاز ہوتاہے اور محدود عمر کے اختتام کے ساتھ ہی اس کاخاتمہ۔
لیکن جب ہم دوسروں کے لیے، یا کسی مقصدکے لیے جیتے ہیں تو اس صورت میں زندگی بہت طویل اور گہری نظرآتی ہے۔ اس کاآغاز وہاں سے ہوتاہے، جہاں سے انسانیت کاآغاز ہوا ہے اور اس روے زمین سے ہماری جدائی کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہتاہے۔
اس طرح ہم اپنی انفرادی عمر میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ یہ اضافہ حقیقی معنوں میں ہوتاہے، نہ کہ خیالی طورپر۔ اس طرح زندگی کاتصور دنوں، گھنٹوں اور لمحوں کے بارے میں ہمارے احساس کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔
زندگی برسوں کی گنتی کانام نہیں ہے،بلکہ احساسات و جذبات کا شمار زندگی سے عبارت ہے۔ اس صورت میں جس چیز کو عقلیت پسندوں کا گروہ وہم اور تصوراتی چیز قرار دیتا ہے، وہ اصل میں ’حقیقت ‘ہوتی ہے، ان کے تمام حقائق سے زیادہ درست حقیقت!
اس لیے کہ زندگی انسان کے شعورِ حیات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔کسی انسان سے اس کا شعورِ حیات چھین لیا جائے تو حقیقت میں وہ زندگی ہی سے محروم ہو جائے گا، اور اگر کسی انسان کا احساس اپنی زندگی کے بارے میں کئی گنا بڑھ جائے تو عملاً اس کی زندگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
مجھے لگتاہے کہ یہ مسئلہ اتنا بدیہی ہے کہ اس میں کسی بحث اور جھگڑے کی ضرورت نہیں۔
ہم جب دوسروں کے لیے جیتے ہیں تو درحقیقت خود اپنی زندگی میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح جس قدر دوسروں کے بارے میں ہمارے احساس میں اضافہ ہوگا، خود اپنی زندگی کے بارے میں ہمارا احساس بڑھے گا اور آخرکار خود زندگی کو ہم کئی گنا بڑھالیںگے۔
’شر‘کا بیج لہلہاتا ہے، لیکن ’خیر‘ کا بیج پھل دیتا ہے۔ ’شر‘ کا درخت فضا میں تیزی سے بڑھتا ہے، لیکن اس کی جڑیں مٹی میں گہری نہیں ہوتی ہیں۔ بسا اوقات اس کی پھیلی ہوئی شاخیں ’خیر‘ کے درخت تک روشنی اور ہوا نہیں پہنچنے دیتیں،جب کہ ’خیر‘ کادرخت سست رفتاری کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہیں، جو اسے گرمی اور ہوا کا بدل فراہم کرتی رہتی ہیں۔
جب ہم ’شر‘ کے درخت کے پُرفریب اور زرق برق مظاہر کی چکاچوند سے آگے بڑھ کر اس کی حقیقی قوت اور مضبوطی کاجائزہ لیتے ہیں، تو وہ ہمیں بہت کم زور اور خستہ دکھائی دیتا ہے، اور اس میں کوئی حقیقی پاے داری نظرنہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں ’خیر‘ کادرخت آزمایشوں پر جمارہتا ہے، آندھی اور طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑپاتے۔ وہ پُرسکون انداز میں دھیرے دھیرے بڑھتا رہتا ہے اور ’شر‘ کے درخت کی جانب سے آنے والے جھاڑجھنکاڑ اور کانٹوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔
ہم جب لوگوں کے دلوں میں اچھے پہلو کو محسوس کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ان میں بہت کچھ خیر بھی موجود ہے، جوپہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔
میں نے اس کا تجربہ کیاہے۔ بہت سے لوگوں میں، میں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی، جن کے بارے میں ابتدا میں بہ ظاہر اندازہ ہوتاہے کہ وہ شرپسند یا شعور واحساس سے عاری ہیں۔
ان کی غلطیوں اورحماقتوں پر معمولی ہم دردی کیجیے، ان سے حقیقی محبت کاتھوڑااظہار کیجیے، ان کی دلچسپیوں اور مسائل کی جانب بغیر کسی بناوٹ کے معمولی توجہ تو دیجیے، پھر آپ ان کے دلوں میں خیرکاچشمہ پھوٹتا ہوا دیکھیںگے۔ آپ انھیں صدق و صفا اور اخلاص کے ساتھ اپنی جانب سے جو کچھ دیںگے، وہ اگرچہ مقدار میں معمولی اورحقیر ہوگا، لیکن اس کے بدلے میں وہ والہانہ پن سے اپنی محبت و مودّت اور اپنا اعتماد آپ کے حوالے کردیںگے۔
نفسِ انسانی میں شرکی جڑیںاتنی گہری نہیں ہوتیں،جتنا ہم بسااوقات تصور کرتے ہیں۔ اکثر اوقات تو وہ پھل کے اس اوپری سخت چھلکے کی طرح ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ بقا کے لیے زندگی کی جدوجہد کرتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کسی اندیشے سے محفوظ ہوجاتا ہے، تو وہ سخت چھلکا ہٹ جاتاہے اور اندر سے شیریں و لذیذ گودا نکل آتا ہے۔ یہ شیریں پھل اسی شخص کو حاصل ہوتاہے، جو لوگوں کو اپنی جانب سے امن، اپنی محبت پر اعتماد اور ان کی جدّوجہد ، پریشانیوں، غلطیوں اور حماقتوں پر حقیقی ہم دردی کااحساس دلاسکے۔
ابتدا ہی میں کشادہ دلی کے معمولی مظاہرے سے یقینی طورپر یہ سب چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں، اور یہ اس سے قریب تر ہوگا جس کی لوگ توقع کرتے ہیں۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اپنی ذات پر اسے برتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتاہوں کہ یہ خواب و خیال کی باتیں نہیں ہیں۔
ہم اپنے دلوں میں اگر محبت، ہم دردی اور خیر کے بیج پروان چڑھالیں، تو اپنے آپ کو بہت سی مشقتوں، زحمتوں اور بے جا تکلیفوں سے بچالیں گے۔ پھر ہمیں دوسروں کی چاپلوسی کی ہرگز ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس لیے کہ اس وقت ہم ان کی مدح و ثنا کرنے میں سچے اور مخلص ہوںگے۔ ہم ان کے دلوں میں خیر کے چھپے خزانوں کو پالیں گے، اور ان کی ایسی پاکیزہ امتیازی خصوصیات دیکھیںگے، جن کی صدق دل سے تعریف وتحسین کرسکیں گے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے، کہ جس میں خیرکاکوئی پہلو یا کوئی اچھی امتیازی صفت نہ ہو، جو اسے کلمۂ خیرکامستحق بناتی ہو، لیکن افسوس کہ ہم اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ہمیں اس کا علم اسی صورت میں ہوپاتا ہے، جب ہمارے دلوں میں محبت کا بیج پروان چڑھتا ہے۔
اسی طرح ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ان سے دل تنگ کرنے اور ان کی غلطیوں اور حماقتوں پر صبر کرنے کی مشقت برداشت کریں۔ اس لیے کہ جب ہمارے دلوں میں ہم دردی کا بیج پروان چڑھے گا، تو ان کی کم زوریوں اورخامیوں کے مواقع پر ہم ان کے ساتھ ہمدردی کااظہار کریںگے اور ان کم زوریوں سے واقف ہونے کے لیے ان کی ٹوہ میں نہیں لگیںگے۔
اس طرح فطری طورپر ہم اپنے آپ کو ان سے بغض و نفرت کی مشقت یا ان سے پہلو بچانے کی پریشانی میں نہیں ڈالیںگے۔ دوسروں سے ہماری نفرت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے دلوں میں خیر کے بیج کی نشو ونما اچھی طرح نہیں ہوتی اور ہم دوسروں سے اس لیے خوف کھاتے ہیں، کیوں کہ خود ہمارے اندر خیر پر اعتماد کاعنصر کم ہوتا ہے۔
ہم خود کو کتنی طمانینت، راحت اور سکینت پہنچائیںگے، جب دوسروں کو اپنی ہم دردی اور اعتماد کی سوغات پیش کریںگے، تو ہمارے دلوں میں محبت اور خیر کے بیج پروان چڑھیںگے۔
ہم جب لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اپنے اس احساس کی بنا پر، کہ ہماری روحیں ان سے زیادہ پاکیزہ ، ہمارے دل ان سے زیادہ صاف شفاف، ہمارے نفس ان سے زیادہ کشادہ اور ہماری عقل ان سے زیادہ تیز ہے، تو یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہوتا ،بلکہ اس طرح ہم اپنے لیے سب سے آسان راستہ اور سب سے کم زحمت کا انتخاب کرلیتے ہیں۔
حقیقی عظمت اس میں ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں۔ ان کی کم زوری، خامی اور غلطی پر بردباری اور ہم دردی کابھرپور مظاہرہ کریں، اور انھیں پاک صاف کرنے، تہذیب یافتہ بنانے اور حتی الامکان اپنے معیار تک بلند کرنے کی حقیقی خواہش رکھیں۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار سے دست بردار ہوجائیں، یا ان لوگوں کی چاپلوسی کریں اور ان کی گھٹیا حرکتوں پر ان کی مدح وثنا کریں، یا انھیں یہ احساس دلائیں کہ ہم ان سے برتر ہیں۔ ان متضاد امور کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور اس راہ میں آنے والی پریشانی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہی حقیقی عظمت ہے۔
ہم جب قدرت و صلاحیت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیں گے، تب ہمیں احساس ہوگا کہ دوسروں سے مدد طلب کرنا ہمارے لیے عیب کی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اُن لوگوں سے مدد طلب کرنے کی صورت میں بھی نہیں، جو ہم سے کم صلاحیت کے حامل ہوں۔
اس سے ہماری قدر وقیمت کم نہیں ہوتی کہ دوسروں سے تعاون لیں۔ ہم ہر کام اپنے دم پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بات میں اپنی عار سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے مدد چاہیں، یا ان کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد میں شامل کرلیں۔ ہمیں اس بات میں اپنی بے وقعتی کااحساس ہوتاہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ ہمارے ذریعے اس چوٹی کے سرہونے میں اُن کی مدد کا بھی دخل تھا۔ یہ سب ہم اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں اپنے اوپر زیادہ اعتماد نہیں ہوتا، یا ہم بالفعل کسی پہلو میں کم زور ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم فی الواقع طاقت ور ہوں، تو ہمیں اس کا ہرگز احساس نہیں ہوگا۔بچہ جب چلنے کی کوشش کرنے لگتاہے تو وہ اس ہاتھ کو جھٹک دیتا ہے، جو اسے سہارا دیے ہوئے ہوتا ہے۔
لیکن جب ہم طاقت و قوت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیںگے، تو دو سر وں کی مدد کو شکر و سپاس اور خوشی و مسرت کے جذبے کے ساتھ قبول کریںگے۔ شکریہ اس بات پر کہ ہماری مدد کی گئی، اور مسرت اس چیز کی کہ جس پر ہمارا ایمان ہے اس پر ایمان رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ہیں، جو جدّوجہد اور ذمے داری میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ یقین کریں کہ شعور کی ہم آہنگی پر فرحت و مسرت کااحساس بڑا پاکیزہ اور مقدس احساس ہے۔
اگر ہم اپنے افکارو عقائد کو اپنے لیے خاص کیے رہیں اور جب دوسرے انھیں اختیارکرنے لگیں تو اس پر اپنے غیظ وغضب کا اظہارکریں اور پوری کوشش کریں کہ ان کی نسبت ہماری طرف ہی کی جائے اور دوسرے لوگ ان کے دشمن بنے رہیں۔ ایسا فعل کوئی فرد اس وقت کرتا ہے جب ان افکار و عقائد پر اس کا ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ وہ دل کی گہرائیوں سے تائید نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ بلاارادہ وہ افکار و عقائد ظاہر ہوجاتے ہیںاور ان سے نسبت رکھنے والا انھیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہیںرکھتا۔
حقیقی خوشی ہی فطری نتیجہ ہے اس چیز کاکہ ہم اپنے جیتے جی اپنے افکار و عقائد کو دوسروں کی زندگیوں میںرُوبۂ عمل دیکھیں۔ محض اس بات کا تصور کہ یہ افکار و عقائد ہمارے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد دوسروں کے لیے آسودگی اور سیرابی کا ذریعہ بنیںگے، اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دل رضا، سعادت اورطمانیت سے لب ریز ہوجائیں۔
یاد رہے، صرف تاجرہی اپنے سامانِ تجارت پر ٹریڈ مارک لگاتے ہیں، تاکہ دوسرے لوگ ویسا سامان نہ بناسکیں اور ان کے منافع کو ہڑپ نہ کرسکیں۔ رہے مفکرین، داعی اور عقائد کے حاملین تو وہ اس چیز کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان کے افکار و عقائد میں حصہ دار بن جائیں، اور ان پر اس حد تک ایمان لائیں کہ انھیں ان کے اوّلین علم برداروں کی طرف منسوب کرنے کے بجاے اپنی طرف منسوب کرنے لگیں۔
وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہی ان افکار و عقائد کے سکّہ بند’مالک‘ ہیں، بلکہ وہ خود کو ان کی منتقلی اور ترجمانی کے لیے محض ’واسطہ‘ گردانتے ہیں۔ انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس سرچشمے سے وہ سیراب ہوتے ہیں، نہ وہ ان کاپیدا کیاہوا ہے اور نہ ان کے اپنے ہاتھوں کا بنایاہوا۔ انھیں حاصل ہونے والی خوشی و مسرت کاپاکیزہ احساس ان کے اس اطمینان کاثمرہ ہوتاہے کہ اس اصلی سرچشمے سے ان کا گہرا تعلق ہے۔
’ہم حقائق کو سمجھیں‘ اور ’ہم حقائق کا فہم حاصل کریں‘___ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے، بہت زیادہ فرق۔ اس میں پہلی چیز علم ہے اور دوسری چیز معرفت۔
پہلی بات میں ہمارا تعامل مجرد الفاظ و معانی کے ساتھ، یا جزئی تجربات اور نتائج کے ساتھ ہوتا ہے،جب کہ دوسری بات میں ہم زندہ قبولیتوں اور کلّی مطالب کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔
پہلی صورت میں ہمیں اپنی ذات کے باہر سے معلومات حاصل ہوتی ہیں، پھر وہ ہماری عقلوں میں جاگزیں ہوکر امتیازی صورت میں محفوظ رہتی ہیں۔ دوسری صورت میں حقائق ہمارے اندرون سے پھوٹتے ہیں۔ ان میں خون اسی طرح دوڑتاہے، جس طرح ہماری رگوںاور اعضا میں دوڑتا ہے اور ان کی شعاعیں ہماری نبض سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔
پہلی صورت میں مختلف خانے اور ان کے ذیلی عنوانات ہوتے ہیں:علم کاخانہ اوراس کے تحت مختلف عنوانات، مذہب کاخانہ اور اس کے تحت مختلف ابواب و فصول، آرٹ کاخانہ اور اس کے تحت مختلف مناہج اور رجحانات۔ اور دوسری صورت میں صرف ایک طاقت ہوتی ہے، جو کائنات کی عظیم ترین طاقت سے مربوط ہوتی ہے، صرف ایک دھارا ہوتا ہے، جو اصل سرچشمے سے جاملتا ہے۔
ہمیں انسانی علوم کی تمام شاخوں میں ماہرین کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کی جو اپنی تجربہ گاہوں اور دفاتر کو عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی شکل دے دیں، جو اپنے دائرۂ اختصاص کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ صرف قربانی کے جذبے سے نہیں، بلکہ اس میں انھیں اس عبادت گزار کی طرح لذت کا بھی احساس ہو، جو اپنی روح کوبہ خوشی اپنے معبود کے حوالے کردیتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنابھی ضروری ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو زندگی کو کوئی رُخ دیتے ہیں، یا انسانیت کے لیے کوئی راہ طے کرتے ہیں۔
رہنمائی ہمیشہ انھی لوگوں نے کی ہے اور آیندہ بھی وہی کریںگے جو اعلیٰ روحانی قوتوں کے مالک ہوں۔ یہی ہیں وہ لوگ، جو ایسے پاکیزہ شعلے کے حامل ہوتے ہیں، جس کی حرارت میں علوم و معارف کے تمام ذرات پگھل جاتے ہیں اور جس کی روشنی میں زندگی کے راستے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اعلیٰ اور بلند تر ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے وہ تمام جزئیات سے مالامال رہتے ہیں اور انھیں بہترین زادِ راہ حاصل رہتا ہے۔ یہ رہنما اپنی بصیرت سے اُس ہمہ گیر وحدت کا فہم حاصل کرلیتے ہیں، علم ،فن، عقیدہ اور عمل جس کے مختلف مظاہر ہیں۔ چنانچہ وہ نہ تو ان میں سے کسی کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں اور نہ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
چھوٹے لوگ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مظاہر کی ان قوتوں کے درمیان تضاد اور تصادم ہے۔ چنانچہ وہ مذہب کے نام پر علم سے برسرپیکار رہتے ہیں،یا علم کے نام پر مذہب سے محاذآرا۔
یہ لوگ فن کو عمل کا نام دے کر اس کی تحقیر کرتے ہیں ،یا تحریک پیدا کرنے والی قوتِ حیات کو صوفیانہ عقیدہ کہہ کر اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان طاقتوں میں سے ہر طاقت کو الگ سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ سب ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی ہیں،اس عظیم ترین قوت سے جس کا تسلط اس کائنات پر قائم ہے۔ لیکن بڑے رہنما اس وحدت کا ادراک کرلیتے ہیں، اس لیے کہ ان کا اس اصل سرچشمے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ اس سے فیض اٹھاتے رہتے ہیں۔
اعلیٰ روحانی قوتوں کے حاملین کم ہیں۔ تاریخ انسانیت میں ان کی تعداد بہت قلیل ہے، بلکہ ان کا وجود نادر ہے، لیکن انھی لوگوں سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ جو قدرت الٰہیہ اس کائنات کی نگرانی کررہی ہے، اسی نے ان کی صورت گری کی ہے اور طے شدہ اور مطلوبہ وقت میں انھیں بیدار کیاہے۔
خرقِ عادت چیزوں،کشف و کرامات اورغیر مرئی قوتوں پر ہی اعتقادکو مطلق تسلیم کرنا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ وہ خرافات تک لے جاتا اور زندگی کو بہت بڑے وہم میں مبتلا کردیتا ہے۔ لیکن اس اعتقاد کا مطلق انکار کرنا بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ اس لیے کہ یہ چیز ’ نامعلوم‘ تک رسائی کے تمام دروازوں کو بندکردیتی اور ہر اَن دیکھی طاقت کا انکار کردیتی ہے، محض اس بنا پر کہ وہ ہماری زندگی کے کسی مرحلے میں ہمارے انسانی فہم و ادراک سے پرے تھی! اس طرح ہمارا فہم اس کائنات کے مقابلے میں حجم، طاقت اور قدروقیمت کے اعتبار سے چھوٹا ہوجاتا ہے اور ’معلوم‘ کی حدود سے گھرجاتاہے۔ اور وہ اس لمحے تک، جب کائنات کی عظمت سے اس کامقابلہ کیاجائے، حقیر___ انتہائی حقیر ہوتا ہے۔
اس روے زمین پر انسان کی زندگی، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور ان کے مظاہر کے فہم و اِدراک سے عاجزہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی ان قوتوں کے فہم و ادراک پر قدرت کا تسلسل ہے۔ جب بھی انسان نے بندشوں سے چھٹکارا پایا اور اپنے طویل راستے میں آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے، اسے ان قوتوں کا ادراک ہواہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی ان قوتوں میں سے، جو کبھی انسان کے لیے نامعلوم اور اس کے اِدراک سے پرے تھیں، کسی قوت کے اِدراک پر اس کا قادر ہوجانا اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے دیکھ لے کہ کائنات میں دوسری بہت سی قوتیں ایسی ہیں، جن کاابھی وہ اِدراک نہیں کرسکا ہے۔ اس لیے کہ ابھی تک وہ تجربے کے مرحلے سے گزررہاہے۔
انسانی عقل کے احترام کا تقاضاہے کہ ہم اپنی زندگی میں ’نامعلوم ‘ کومناسب مقام دیں۔ اس لیے نہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات اس کے حوالے کردیں ، جیساکہ اوہام و خرافات کے دل دادہ کرتے ہیں،بلکہ اس لیے تاکہ ہم حقیقی طورپر اس کائنات کی عظمت کااحساس کرسکیں اور اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی قدرو قیمت پہچان سکیں۔
اسی طرح اس کایہ بھی تقاضا ہے کہ وہ انسانی روح کے لیے بہت سی قوتوں کے دروازے کھول دے، جس سے معرفت حاصل ہوسکے اور ان روابط کاعلم ہوسکے، جو ہمیں اور ہماری داخلی دنیا کو اس کائنات سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اس بات میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ یہ قوتیں ان تمام چیزوں سے زیادہ عظیم اور وسیع اور گہری ہیں، جن کاہم نے اب تک اپنی عقلوں سے اِدراک کیاہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہر دن کسی نئے ’نامعلوم‘ کا انکشاف ہورہاہے اور ہم برابر اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اس زمانے میں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مطلق عظمت کا اعتراف کرنے سے: ’’انسان کی قدرو قیمت کم ہوجاتی ہے اور اس کائنات میں اس کی شان گھٹ جاتی ہے‘‘۔ گویا اللہ اور انسان دو حریف ہیں ،جو اس کائنات میں عظمت اور قوت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ایسا سوچنا محض جہالت ہے۔
میرااحساس ہے کہ جوں جوں اللہ کی مطلق عظمت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ ہوگا، اسی قدر ہمیں بھی عظمت حاصل ہوگی۔ اس لیے کہ ہم اس عظیم ہستی کی تخلیق ہیں۔
جولوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کامقام اس وقت بلند ہوتاہے، جب وہ اپنے خیال میں اپنے خالق اور معبود کا درجہ گرادیتے یا اس کا مطلق انکارکردیتے ہیں، تو یقین مانیے ایسے لوگ بے چارگی اور عقلی افلاس کی اس سطح پر گرے ہوئے ہیں کہ جو قریبی افق کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
وہ گمان کرتے ہیں کہ انسان نے اپنے ’ضعف‘ اور ’عجز‘ کے زمانے میں اللہ کی پناہ حاصل کی تھی، لیکن اب، جب کہ وہ ’طاقت ور‘ ہوگیا ہے، اسے کسی معبود کی ضرورت نہیں! گویا کہ ضعف، بصیرت کے دروازے وَا کرتا اور طاقت وقوت اس پر خطِ نسخ پھیر دیتی ہے۔ انسان کے شایانِ شان یہ ہے کہ جوں جوں اس کی قوت بڑھے، اسی قدر اللہ کی عظمت ِمطلق کے بارے میں اس کے احساس میں اضافہ ہو۔ اس لیے کہ اس کی قوتِ ادراک میں جس قدر اضافہ ہوگا، اسی قدر وہ اس قوت کے سرچشمے کا بہ خوبی ادراک کرسکے گا۔
بعض اوقات غلامی، آزادی کے لبادے میں چھپ جاتی ہے اور اس کا اظہار تمام پابندیوں سے آزادی، عرف اور روایات سے آزادی کی شکل میں ہوتا ہے۔
ذلت، دباؤ اور کم زوری کی قیود سے آزادی اور انسانیت کی قیود اور ذمے داریوں سے آزادی، دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ اول الذکر ہی حقیقی آزادی ہے، جب کہ دوسری آزادی فی الواقع ان قدروں سے عاری ہونا ہے، جنھوںنے انسان کو انسان بنایاہے اور اسے حیوانیت کی بھاری بیڑیوں سے آزاد کیا ہے۔یہ بناوٹی آزادی ہے۔ اس لیے کہ یہ حقیقت میں حیوانی جذبات و میلانات کے آگے خودسپردگی اور ان کی غلامی ہے۔ انسانیت نے ایک طویل عرصہ اس غلامی کی بیڑیوں کو کاٹنے اور آزاد فضا میں سانس لینے کی جدّوجہد کرتے گزارا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت اپنی ناگزیر ضروریات کے اظہار سے کیوں شرماتی ہے؟
دراصل وہ محسوس کرتی ہے کہ ان ضروریات سے بلندہو جانا انسانیت کی اوّلین قدر ہے۔ اس کی بیڑیوں سے نجات پانا ہی حقیقی آزادی ہے ۔ گوشت اور خون کے محرکات پر غلبہ پانا اور کم زوری اور ذلّت کے اندیشوں پر قابو پانا ، انسانیت کے مفہوم کو گہرا کرنے میں دونوں کا کردار برابر ہے۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اصولوں کو افراد سے الگ کرکے پیش کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے اور حرارت بخش عقیدے کے بغیر اصول کی کوئی حیثیت نہیں، اور ایسا عقیدہ انسان کے دل کے علاوہ اور کہیں کیوں کر پایاجاسکتا ہے؟
اصول اور افکار اگر حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے عقیدے پر مبنی نہ ہوں تو وہ محض کھوکھلے الفاظ ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ بے جان معانی ہیں۔ جو چیز ان کو زندگی بخشتی ہے وہ ایمان کی حرارت ہے، جو کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسرے لوگ ہرگز کسی ایسے اصول یا نظریے پر ایمان نہیں لائیںگے ،جو کسی حرارت بخش دل میں نہیں، بلکہ جذبے اور اعلیٰ احساس سے عاری ذہن میں پیداہوا ہو۔
پہلے تم خود اپنے نظریے پر ایمان لاؤ۔ اس پر تمھارا ایمان حرارت بخش عقیدے کی حد تک ہو! تبھی دوسرے لوگ بھی اس پر ایمان لائیںگے ،ورنہ اس کی حیثیت محض چند کھوکھلے الفاظ کی ہوگی، جو روح اور زندگی سے عاری ہوں گے۔
اُس نظریے کے لیے کوئی زندگی نہیں جو کسی انسان کے سانچے میں نہ ڈھلاہو اور جس نے کسی ایسے زندہ وجود کی شکل نہ اختیار کی ہو، جو روے زمین پر کسی انسان کی صورت میں چلتاپھرتا ہو۔ اسی طرح اِس میدان میں اُس انسان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، جس کے دِل میں کسی ایسے نظریے نے گھر نہ کیاہو، جس پر وہ حرارت اور اخلاص کے ساتھ ایمان ر کھتاہو۔
نظریے اور فرد کے درمیان فرق کرنا، روح اور جسم یا معنی اور لفظ کے درمیان فرق کرنے کا ہم معنی ہے۔ بسااوقات ایسا کر پانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر نظریے کو فرد سے الگ کردیاجائے، تو اکثر وہ فنا کے گھاٹ اترجاتا ہے۔صرف اسی نظریے کو زندگی ملتی ہے، جس کی پرورش انسان کے خونِ جگر سے ہوتی ہے۔ رہے وہ افکار جو اس پاکیزہ غذا سے محروم رہتے ہیں، وہ مردہ ہوتے ہیں اور ان میں انسانیت کو ایک بالشت بھی آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہوتی۔
میرے لیے یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ ہم کسی گھٹیا وسیلے کو کام میں لاکر کسی پاکیزہ مقصد تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکیزہ مقصد کسی پاکیزہ دل ہی میں زندہ رہ سکتا ہے۔ پھر اس دل کے لیے کیوں کر ممکن ہے کہ وہ کسی گھٹیا وسیلے کو بروئے کار لانے کو گوارا کرے؟
ہم جب کسی سرسبز و شاداب علاقے میں پہنچنے کے لیے کسی کیچڑ بھرے راستے سے ہوکر گزریںگے، تو ضروری ہے کہ اپنی منزل تک کیچڑ میں لت پت ہوکر پہنچیں۔کیچڑ سے ہمارے پیر بھی گندے ہوجائیںگے اور وہ جگہیں بھی، جہاں ہمارے پیر پڑیںگے۔ یہی حال اس وقت ہوگا، جب ہم کوئی گھٹیا اور گندا وسیلہ اختیار کریں گے۔ گندگی ہماری روحوں سے چپک جائے گی اور اس کے اثرات ہماری روحوں پر بھی پڑیں گے اور اس مقصد پر بھی جسے ہم حاصل کرناچاہتے ہیں۔
روح کے معاملے میں وسیلہ مقصد کا ایک جز ہے۔ عالمِ روح میں یہ امتیازات اور تقسیمیںنہیں ہوتیں۔ صرف انسانی شعور ہی ایسا ہے کہ جب اس میں کسی پاکیزہ مقصد کااحساس پیداہوتا ہے، تو وہ ہرگز کسی گھٹیا وسیلے کو اختیار کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطری طورپر وہ ہرگز اسے اختیار نہیں کرے گا۔
’’مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی وسیلہ اختیار کیاجاسکتاہے‘‘___ یہ مغرب کاعظیم فلسفہ ہے! اس لیے کہ مغرب کی عظمت کاپرتو اپنے ذہن ودماغ کی شکست خوردگی کی وجہ سے ہے۔ وسائل اور مقاصد کے درمیان تقسیم اور فرق کرناذہنی طور پر ہی ممکن ہے،عمل کی دنیا میں نہیں۔