مسلمانوں کو دعوت الی اﷲ کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے ۔ایک مسلم اورمسلمہ تمام عالم انسانی کے سامنے خدا کے دین کے داعی ہیں ۔سچا داعی وہ ہے جو لوگوں کو بلا تخضیص مذہب ،رنگ و نسل اور جغرافیائی حدود کے اﷲ کی طرف دعوت دے اور اس کار خیر میں مدعو کی خیرخواہی اور بھلائی کی چاہت میں لوگوں کی بھلائی کا حر یص بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ داعی کے لیے قرآن میں ناصح، خیرخواہ اور امین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ داعی اور داعیہ دو احساسات کے تحت یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ اول: انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ خدا کے دین کے امانت دار ہیں اور اس امانت کی ادایگی کے حوالے سے احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جواب دہی سے لرزاں رہتے ہیں۔ دوم: انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ ان کو محبور کرتا ہے کہ تما م مخالفتوں کو سہتے ہوئے اور تمام مشکلات کو انگیز کرتے ہوئے وہ مدعو کو اﷲکی رحمتوں کے سایے میں لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ دعوت کو قرآن میںانذار اور تبشیر(ڈرانا اور خوش خبری دینا ) کہا گیا ہے جو درحقیقت خود اﷲ رب العالمین کا کام ہے،مگر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے چاہا کہ یہ کام کسی معجزاتی اسلوب میں انجام نہ پائے بلکہ امتحان کے نقطۂ نظر سے انسانوں کے درمیان اُس کے پیغام کی پیغام رسانی خود انسان انجام دے۔ اس مشیت الٰہی نے انسان کے لیے عظیم ترین عمل کا دروازہ کھول دیا ۔
ایک بندے کا مقام اﷲ کی بندگی کرنا ہے ۔وہ نماز ،روزہ ،زکوٰۃ اور حج و عمرہ کی ادایگی کے ذریعے ، اخلاقی صفات کامظاہرہ کرنے کے ذریعے ، بندوں سے اپنے معاملات ہدایت ربانی کی روشنی میں طے کرنے کے ذریعے ،خدا کے آگے اپنی عبودیت ، بندگی اور عجز کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ دعوت الی اﷲ کا فریضہ انجام دینے کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کا اعزاز یہ ہوتا ہے کہ ـــوہ انصارُ اﷲ (اﷲ کا مدد گار )کا رتبہ حاصل کرلیتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ (الصف۶۱: ۱۴)، مومنو! اللہ کے مدد گار ہو جائو۔ جیسے عیسٰی ؑ ابن مریمؑ نے حواریوں سے کہا کہ(بھلا) کون ہیں جو اللہ کی طرف(بلانے میں) میرے مدد گار ہوں؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔
اﷲسبحانہ و تعالیٰ کے ایک عاجز بندے کے لیے اس سے زیادہ معزز اورپُرکیف تجربہ کوئی اور نہیں کہ وہ یہ محسوس کرے کہ میں اپنے رب کے کام میں مصروف، اس کے ایک منصوبے کی تکمیل کررہا ہوں ۔دعوت الی اﷲ ایک پیغمبرانہ مشن ہے جو حضرت آدمؑ سے شروع ہوا اور اس کی تکمیل رسولؐ اﷲکی آمد پر ہوئی ۔اﷲکا دین ،اسلام ابتداے آفرنیش سے خدا کا دین ہے اور ہر قوم میں ہرنبی کو اﷲ نے اسی دین کے ساتھ بھیجا ۔قومیں اﷲ کے بھیجے ہوئے دین میں خرابیاں پیدا کرتی رہیں اور اﷲتعالیٰ اپنے ابنیا کے ذریعے ان خرابیوں کی اصلاح کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنے تمام نبیوں اور رسولوں کے اس دین کو بالکل صحیح اور تکمیلی صورت میں نازل فرما کر اس کو ہمیشہ کے لیے تبدیلی و تحریف کے خطرے سے محفوظ کردیا ۔یہ دین جو کسی خاص قوم کا نہیں بلکہ تمام بنی نوع آدم کا دین ہے قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے۔ جو اس دین کو تسلیم کرے وہ مسلم ہے اور جو نہ مانے وہ غیر مسلم ہے ۔یہ دین، اسلام نہ تو خدا کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق کرتا ہے ،نہ اس کی کسی کتاب کا انکا ر کرتا ہے اور نہ کسی پر اپنی مطلق فضیلت کا مدعی ہے۔ اس کا دعوی صرف یہ ہے کہ یہ تمام نبیوں کی تعلیم کا قابلِ اعتبار مجموعہ اور ان کی تعلیمات کو مکمل کرنے والا ہے ۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہہ ساری دنیا کے لیے خداکے آخری پیغمبر ہیں ۔رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد اس ذمہ داری کواداکرنے کی کیا صورت ہے ؟یقینا آپؐ کے بعد آپؐ کی امت اس کارِ نبوت کی ذمہ دار ہے۔ آپ ؐ نے اپنی زندگی میں براہ راست اس فریضے کو سر انجام دیا۔ آپؐ کے بعد یہ کام بالواسطہ طور پر آپ ؐ کی امت کے ذریعے انجا م پائے گا۔ اس امت کی یہ لازمی ذ مہ داری ہے کہ وہ نسل در نسل ہر زمانے کے لوگوں کے سامنے اس دین کا پیغام پہنچاتی رہے جو آپؐ کو اﷲ رب العالمین کی طرف سے موصول ہوا تھا ۔ یہ پیغام قیامت تک کے انسانوں کے لیے راہِ ہدایت ہے جس کی حفاطت کا ذمہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے خود اٹھایا ہے ۔قرآنِ حکیم فرقانِ حمید میں اﷲتعالیٰ نے مذکورہ بالا حقیقت کی خود نشان دہی فرمائی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط (المائدہ ۵:۶۷)، اے پیغمبرؐ! جوارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو۔اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا)۔
بلاشبہہ اﷲرب العالمین نے پیغمبروں کے انتخاب میں مردوں کو ذمہ دار اورمسئول کی حیثیت سے نامزد کیا ،لیکن اس پیغمبر انہ مشن کو آگے لے کر چلنے میں کسی صنفی امتیاز کی نشان دہی نہیں کی۔ قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فریضے کے ذمہ دار مرد اور خواتین دونوں ہیں:
اورمومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے، اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،(وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بہشت ہاے جاودانی [یا،ابد کے باغوں] میں نفیس مکانات کا (وعدہ کیا ہے)۔ اور اللہ کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے، یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ۹: ۷۱- ۷۲)
خواتین کو دعوت دین کی ذمہ داری تفویض کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے بزبانِ قرآن ارشاد فرمایا : وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا (الاحزاب۳۳: ۳۴)، ’’اور تمھارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت(کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بے شک اللہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔
آپؐ سے دین کی تعلیمات سننے، انھیں محفوظ کرنے، ان سے احکامات مستنبط کرنے اورانھیںدوسروں تک پہنچانے میں آپؐ کی ازواج مطہراتؓ اور دیگر صحابیات ؓ نے اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ حضرت عا ئشہؓ آیاتِ قرآنی کی تفسیر کرتیں اور احادیث مبارکہ سے احکامات اخذ فرماتی تھیں۔ جلیل القدر صحابہ ؓ ان کی محفلِ درس میں شامل ہوتے تھے اور اپنے مابین اختلاف راے کی صورت میں انھیںحَکم اور اُن کی راے کو فیصلہ کن سمجھتے تھے ۔حضرت عائشہؓسے۲ہزار۲سو۱۰، حضرت اُم سلمہؓ سے ۳۷۸ اور دیگر صحابیات سے بھی بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ بعد کے اَدوار میں بھی خواتین قرآن اور حدیث کے علم کے حصول اور تحصیل میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ داعی دین اور داعیاتِ دین دونوں کو یہ فریضہ سر انجام دینا ہے ۔
داعیاتِ دین کو دعوت الی اللہ میں ان تمام اصولوں ، ترجیحات اور لائحہ عمل کوملحوظ رکھنا ہوگا جو انبیاے کرام ؑکی دعوت کا حصہ ہیں۔ نیز ان تمام علمی اور عملی اغلاط سے بچنے کا شعوری طور پر اہتمام کرنا ہوگا جس میں ہمارے مبلغین اور واعظین اکثر اوقات مبتلا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر میںدین کا مفہوم ادھورا اور دین کی تبلیغ کا مفہوم بھی محدود ہے۔
ایک داعیہ دین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو دین کا مکمل اور جامع تصور فراہم کرے ۔ اسلام کی بطور نظام حیات اور بطور نظام زندگی کی پہچان کرائے، کیونکہ دین اپنی تکمیلی شکل میں نازل ہو چکا۔ حکم رباّنی ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ۵: ۳)،(اور) آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
دین کے جامع تصور میں زندگی کے تمام دائروں میں اسلام پر عمل درآمد کا مطالبہ ہے۔ اسلام کو بطور روحانی نظام، بطور عائلی و معاشرتی نظام ، قانونی نظام، معاشی نظام، سیاسی نظام اور بین الاقوامی نظام سمجھنا اور سمجھانا ایک داعیہ کی اہم ذمہ داری ہے۔چنانچہ ایک داعیہ کو اپنے مخاطبین دعوت کے لیے ترتیب وار اور حکمت پر مبنی طریقے سے ان تمام پہلوئوں سے دین کی تعلیمات کو موضوع گفتگو بنانا ہو گا۔ ایمانیات اور عبادات پر کماحقہ راہنمائی کے ساتھ ساتھ عائلی اور معاشرتی دائروں میں___ گھریلو اور خاندانی زندگی کے حُسن انتظام، رشتہ داروں کے حقوق کی ادایگی، قوانین نکاح و طلاق اور وراثت، معاشرتی زندگی میں مسلموں اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کا نبھائو، مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کے حوالے سے تعلیمات وقوانین، اسلامی معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا حصہ، مسلم معاشروں میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ۔ ماحولیات کے ساتھ انسان کا تعلق، حیوانات ، نباتات، جمادات اور آبی ذخائر کے حوالے سے ہدایات، گھر کے ساتھ محلّہ ، سڑکوں ، باغات اور دیگر عوامی جگہوں پر صفائی کا خیال ۔ شہری املاک کی حفاظت، قانون کی پاسداری، مساجد کا احترام اور دیکھ بھال، رواداری، دہشت گردی___ ان تمام اُمور کو اسلام کے تحت موضوعِ گفتگو ہونا چاہیے۔ معاشی دائرے میں حلا ل وحرام، آمدنی کا فرق، کسب مال کی ترغیب، زائد از ضرورت مال اور محروم طبقات کے حقوق، زکوٰۃ اور صدقات، ریاست کے ذرائع آمدن، سود، اسلامی بنکاری، کاروبار کے اصول و ضوابط تمام موضوعات پر انسان الہامی ہدایت کا محتاج ہے۔ قانونی دائرے میں اسلام کے عائلی، دیوانی اور فوجداری قوانین، قانون سازی کے اختیارات، اسلامی قانون کے ذرائع، قوانین کے نفاذ کی شکلیں، ان تمام اہم موضوعات کی تفاصیل قرآن وحدیث اور فقہ میں موجود ہیں جو عوام الناس تک منتقل ہونا از حد ضروری ہے۔
سیاسی نظام کے دائرے میں حاکمیت اعلیٰ، یعنی حاکمیت الٰہی کا تصور ، دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نیابت،خلیفۃ اللہ فی الارض کی حیثیت میں اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے ذمہ دار کی حیثیت میں سیاسی نظام کی بنیادیں، منصب خلافت یا امارت، شورائیت، مقتدر طبقے کے فرائض، اقتدار کے ذریعے دین الٰہی کا نفاذ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ، فلاحی ریاست کا قیام، ان تمام اُمور کی تفاصیل کو سمجھے بغیر ایک انسان کس طرح اسلام کو بطور نظام حیات سمجھ اور مان سکتا ہے۔
بین الاقوامی نظام کے تحت ایک مسلم ریاست کا دیگر ممالک سے روابط و تعلقات کی بنیادیں، غیر جانب دار اور بر سرِپیکار قوتوں کے ساتھ تعلق، بین الاقوامی طور پر مسلمہ انسانی حقوق کی پاس داری، عالمی قوانین کے اختیار کرنے میں امکانات اور رکاوٹیں، جنگ اور جنگی قیدیوں کے حوالے سے تعلیمات___ یہ تمام وہ موضوعات ہیں جو اکیسویں صدی میں اسلامی ریاست کے خدوخال سمجھنے اور اس کے قابل عمل ہونے پر اعتماد عطا کریں گے۔
دعوت الی اللہ انسانوں کی فکری وعملی اصلاح کا وسیع کام ہے۔ یہ اہل خانہ کے اندرونی دائرے سے شروع ہو کر ، خاندان ، محلّہ ، شہر، ملک، تمام عالم اور نوع انسانی تک پھیلنے کا عمل ہے۔ دعوت کے مخاطب وہ لوگ بھی ہیں جو اسلام کو ماننے کے باوجو د اس کی تعلیمات سے بے خبر ہیں یا جانتے بوجھتے اس پر عمل کے لیے تیار نہیں ہیں، اور وہ لوگ بھی جو اسلام کے دائرے میں داخل نہیں ہیں اور اسے قبو ل کرنا بھی نہیں چاہتے۔ اس وسیع میدان میں اپنے حصے کی ادایگی میں داعیات کو ایک خاص ترتیب ملحوظ رکھنا ہو گی جو اس کام میںحسن اوراستحکام پیدا کرے گی۔ بصورت دیگر انسان بعد میں پہنچنے والے میدان میں پہلے سے محنت کر رہا ہو گا اور ابتدائی دائرہ اس کی نگاہوں سے اوجھل رہ جائے گا ۔ یہ بے تربیتی دعوت کے کام میں عدم توازن کے ساتھ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے گی۔
یقینا ہمارے اہل خانہ سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں دین کی حقیقت سمجھائی جائے، اللہ سے محبت اور اس کے تقاضے واضح کیے جائیں۔ داعیہ کو گھر اور بچوں کے حوالے سے ایک راعی، یعنی نگران کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور وہ اس بارے میں مسئول ہوگی۔ البتہ شوہر قوام کی ذمہ داری کی بنا پر تمام اہل خانہ بشمول بیوی اور بچوں کے لیے مسئول ہے، جب کہ خاتونِ خانہ کی مسئولیت میں شوہر کی ذمہ داری شامل نہیں ہے۔ تاہم شوہر سے محبت اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر وہ دین کی بنیادوں اور جزئیات سے ناواقف ہے تو پیار و محبت اور حکمت سے اس تک بھی دین کی دعوت پہنچائی جائے اور اصلاح طلب امور میں اصلاح کا راستہ سمجھایا جائے۔ فرمان الٰہی ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (التحریم ۶۶:۶)،مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش(جہنم) سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں۔ جوارشاد اللہ ان کو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔
اس ارشاد میں قطع نظر مردوعورت کے اپنے گھر والوں کو اللہ کی ناراضگی اور اس کے انجام سے بچانے کی فکر کرنے کو کہا گیا ہے۔ ایک داعیہ اگر اپنے گھر کو اپنی دعوت کا پہلا میدان قرار دیتے ہوئے اس منزل کو سر کرے گی تو شوہر ، بچوں اور دیگر اہل خانہ کا تعاون اس کے لیے اگلی منزلوں کو حاصل کرنے میں ممدومعاون بن جائے گا۔ جو داعیات اپنے گھر کی اصلاح کو اہمیت نہیں دیتیں یا بوجوہ نظر انداز کرتی ہیں تو ان کے لیے شوہر اور بچے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
اپنے گھر کی اصلاح کے ساتھ داعیات کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اس دائرے کو وسیع کرتے ہوئے خاندان اور برادری کے بڑے دائرے تک اپنی دعوت کو پھیلا ئیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، خالہ پھوپھی، چچا ماموں، بھانجے بھانجیاں، یہ سب عزیز رشتے تمام انسانوں کی بہ نسبت ہماری توجہ کے زیادہ حقدار ہیں ۔ حکم ربانی ہے :وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(الشعرا ۲۶: ۲۱۴)، اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو [یعنی، ڈرائو]۔
خاندانی زندگی میں تانے بانے یوں جڑے رہتے ہیں کہ قدم قدم پر دوسرے کے محتاج اور تعاون کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ اس میل ملاپ میں ہمیں خوشیاں بھی حا صل ہوتی ہیں اور یہی تعلقات ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔ داعیات کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے کہ خاندان میں دینی اقدار کے فروغ سے خاندانی تعلقات کو استوار رکھنا بھی آسان ہو گا اور دعوت دین کی راہ میں ان کی حمایت اور تعاون بھی حاصل ہو سکتا ہے۔خاندان میں دعوت کے کام سے غفلت ہمیں دوسروں کی نگاہ میں بھی غیر معتبر بنانے کا باعث ہو گی اور اللہ کے ہاں گرفت کی بھی۔
گھر اور خاندان کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے اس علاقے یا محلے میں دعوت دین کا کام آپ کی ذمہ داری ہے جہاں آ پ رہتی ہیں ۔یہ ذمہ داری والدین کے گھر ر ہتے ہوئے بھی ادا ہوسکتی ہے جہاں آپ پلی بڑھی ہیں اور شادی کے بعد سسرال میں یا جہاں شوہر رہایش پذیر ہیں ۔
اسلام میں ہمسایوں کے حقوق کو بہت اہمیت دی گئی ہے ۔پڑوس کوچار اطراف۴۰ گھروں تک محیط قرار دیا گیا ہے۔ دیوار برابر پڑوسی کے اور بھی زیادہ حقوق بتائے گئے ہیں ۔منجملہ حقوق کی ادایگی یا حسن سلوک میں اﷲکے راستے کی طرف دعو ت دینا ،قرآن سے تعلق جوڑنا، اﷲاور اس کے رسول کی اطاعت کی طرف راہنمائی کرنا دیگر دینی و دنیاوی معاملات میں اﷲکی رضا کا راستہ واضح کرنے کے لیے انھی کے درمیان رہنے والافرد بہت مؤثر ہو سکتا ہے ۔ ایک داعیہ کو اپنے ہمسایوںکے درمیان محبت سے میل ملاقات،ان کی خوشیوں اورغموں میں شرکت ،تحفہ و تحائف کا لین دین دعوت کے بے شمار مواقع فراہم کرتاہے۔ اپنے سماجی تعلقات کے دوران موقع کی مناسبت سے قرآن کے احکامات پہنچانا ،دینی کتب کی فراہمی ،دعا کا اہتمام یا باہم گفتگو میں دین کے مبادیات و جزئیات کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے اہل محلہ کو اﷲ کے قریب لانے کی کوشش ضروربار آور ہوں گی ۔
ایسی داعیات جو کسی ادارے میں ملازمت کرتی ہوں ان کے رفقاے کار بھی ان کے لیے کسی قدر اہل خاندان اور اہل محّلہ کے زمرے میں شا مل ہوں گے ۔ملازمت کے میدان میں ماتحت خواتین اسی طرح آپ کی رعیت میں شمار ہوں گی جس طرح گھرپر بچے اور ماتحت افراد ہوتے ہیں۔ ان پر ایک درجہ احکامی فوقیت ہونے کے ناطے آپ پر لازم ہے کہ دیگر دفتری احکام کے ساتھ ان کی توجہ اسلام کے تقاضے پورے کرنے پر بھی دلوائیں دیگر ساتھیوں کو بھی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ اﷲکی طرف دعوت دین کی متبادل تعلیمات کے ساتھ ساتھ ملازمت کے دوران مطلوب رویوں پر توجہ دلوانا بھی دعوت کے کام کا حصہ ہے ۔مثلاً رزق حلال کی اہمیت ، وقت کی پابندی اور ادارے میں ملازمت کے اوقات کار کی پابندی کارزق حلال کے حصول سے تعلق ،دفتری امور کی ذمہ داری سے ادایگی ،ادارے کے وسائل کو امانت سمجھتے ہوئے استعمال کرنا ،دفتری رفقا کے ساتھ حسن سلوک اور خیرخواہی کی تاکید ،دفتری سیاست اور توڑ جوڑ کی کوششوں سے اجتناب وغیرہ۔
اب تک جن معاشرتی دائروں میں دعوت واصلاح کے کام کا ذکر کیاگیا ہے وہاں آپ سب کو براہ راست جانتی اور پہچانتی ہیں اور آپ کے مخاطین بھی آپ کو ذاتی حیثیت میں جانتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر آپ کے شہر و وطن کی وسیع اجتماعیت اس بات کی متقاضی ہے کہ آپ اپنے فہم و ادراک اور علم کے بقدر اپنے ملک کی وسعتوں تک اﷲ کا پیغام پہنچائیں ۔آپ کے مخاطبین کا دائرہ جتنا وسیع ہوتاجائے گا آپ کو دعوت کے اسلوب میں بھی اسی مناسبت سے وسعت پیدا کرنا ہوگی۔ گفتگو اورتقریر سے آگے بڑھ کے تحریری اور تحقیقی اسلوب کا بھی سہارا لینا ہوگا ۔دوسروں کی لکھی ہوئی تحاریر کو استعمال کریں یا خود لکھیں اور لٹریچر تقسیم کر یں ۔
انفرادی اور اجتماعی سطح پر افراد اور اداروں نے جو دعوتی مواد ترتیب دیا ہے اس سے فائد ہ اٹھائیں۔ مذہبی اعتبار سے اہم مواقع، مثلاً رمضان المبارک ،قربانی ،عیدین ،محرم الحرام ،ربیع الاوّل، رجب ،شعبان صحابہ کرامؓ کی شہادت کی تواریخ ، امہات المومنینؓ اور بنات مطہراتؓ کی تاریخ پیدایش و و فات و دیگر اہم دنوں کو اپنی دعوت کے لیے اہم مواقع تصور کریں۔ان مواقع کے حسا ب سے خصوصی طور پر لٹریچر اکٹھا کر کے ایک فائل بنائیں ،اپنے گذشتہ دروس کو ایک جگہ جمع رکھیں تاکہ برمحل کام آسکیں۔اسی طرح ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے اہم ایاّم مثلاً یومِ آزادی، یومِ قراردادِ پاکستان ،یوم قائد اعظم ،یوم اقبال ،۶ ستمبر ،یوم تکبیر ،یوم مزدور ،یوم خواتین، یومِ اطفال و دیگر مواقع پر موقع کی مناسبت سے اسلام کا پیغام ،وسیع تراجتماعیت میں پہنچائیے۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے اخبارات ،جرائد و رسائل ،ریڈیو اور ٹی وی کو عوام الناس تک پیغامِ حق پہنچانے اور منکرات کی اصلاح کے لیے ذریعہ بنائیے ۔
مسلمانوںکے درمیاں تبلیغ و دعوت اور اصلاح معاشرہ کی کوشش ایک داعی اور داعیہ کے لیے اگر ایک جہت ہے تو دوسری جہت غیر مسلم دنیا کے سامنے اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔اس حوالے سے آپ کے مخاطبین دنیا کے تین سے چار ارب غیر مسلم افراد ہوں گے اور ان میں سے اگر خواتین کو مرکزو محور بنایا جائے تو نصف تعداد۔آپ اس میدان میں قدم رکھیں گی تو یہ اتنا وسیع میدان ہے کہ جب تک آپ میں قوت عمل اور آپ کی مہلت عمل باقی ہے، آپ کام کے نہ ہونے کی شکایت نہیں کر سکتیں۔
دعوت کے اس میدان میں اترنے کے لیے ایک داعیہ کو اپنے علم اور فہم کو بے انتہا وسعت دینا ہو گی۔قدیم وجدیدنظریات سے واقفیت ، مختلف مذاہب کا تعارف اور ان کے مابین انسانوں کے مختلف گروہوں کے مقام و مرتبہ کا تعین، انسانی حقوق کے نظریات اور ان کی پاس داری، اسلام مخالف افکار اور رویوں کی پہچان اور ان کا رد، مستشر قین اور ان کی فکر و تحریر سے واقفیت ، اسلام مخالف پروپیگنڈے کے طریقوں اور ذرائع کا استحضار اس میدان عمل کے لوازم ہیں۔ سوچ لیجیے کہ اس ضروری مہم کے لیے کیسے سرمایے کی ضرورت ہو گی؟
غیر مسلموں کو دعوت حق کے خوشگوار نتیجے کے طور پرایک اور میدان آپ کے سامنے آئے گا جو کہ راہ حق کو قبول کر کے آزمایشوں میں کود جانے والے افراد کی صورت میں ہوگا۔ آپ کے لیے ان نو مسلم خواتین کو دین کی بنیادی تعلیمات سمجھانے، احکامات پر عمل سکھانے، قرآنی دعائوں کے پڑھنے اور یاد کروانے کے ساتھ انھیں اپنے ماضی سے کٹ کر نئی اجتماعیت میں ضم ہونے کا حوصلہ بھی دینا ہو گا۔ انھیں ایک خاندان اور معاشرت میں اجنبیت کے احساس سے بچانے اور زندگی کے عملی مسائل میں تعاون پیش کرنے کا فریضہ بھی ایک داعیہ کی ذمہ داری ہو گا۔ اسلام آباد میں ایک ایسی ہی با ہمت نو مسلم داعیہ نے ’نیومسلمات کلب‘ کے عنوان سے نو مسلم خواتین کے لیے فورم قائم کررکھا ہے جو نو مسلمات کی دینی و دنیوی ضروریا ت کو پورا کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔
lمؤثر طبقات:داعیات دین کے لیے ایک اہم سوچ یہ ہونی چاہیے کہ تبلیغ میں اوّل مخاطب و ہ طبقات ہوں جن کے افکار ونظریات کی قیادت میں معاشرے کا نظام چل رہا ہے۔ درحقیقت معاشرے کے ذہین ، مقتدراور مؤثر طبقے ہی عوام الناس کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور وہی معاشرے کے طرزِ فکروعمل کی تشکیل کرتے ہیں۔ان کی اصلاح ہو جائے تو سارا نظام خود بخود راہ راست پر آجاتا ہے اور بصورت دیگر نیچے کے طبقات میں ہونے والی اصلاح بھی عارضی ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال قلب اور اعضا و جوارح کے مابین تعلق سے سمجھی جا سکتی ہے۔ اگر دل کمزور ہو تو اعضا وجوارح پر کوئی عمل جسم کو طاقت نہیں پہنچا سکتا۔
انبیاے کرام کی دعوت میں بھی ہمیں اس پہلو سے راہنمائی ملتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ پہلے سوسائٹی کے مقتدر ، باحیثیت اور فرماںروائی کے حامل طبقات کو مخاطب کیا۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ آزر کو ، جو کہ مذہبی رہنماتھے ، وحدانیت کی دعوت دی ۔ حضرت موسٰی ؑ کو فرعون کی طرف بھیجا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے معزز افراد کو اپنی اولین دعوت کا ہدف بنایا۔
جامعات سے وابستہ مدرسات اور دیگر داعیات کا دائرہ کار ، عموماً معاشرے کی کم پڑھی لکھی اور معاشرتی طور پر غیر مؤثر خواتین اور بچیوں تک محدود رہتا ہے۔ سیاسی طور پر مؤثر سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں موجود خواتین ، اہم حکومتی مناصب پر فائز خواتین ، ججوں، وکلا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ خواتین ، ڈاکٹر وں، غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) سے وابستہ خواتین، تعلیمی میدان میں یونی ورسٹی، کالج اور سکول کی منتظم اعلیٰ، انتظامیہ اور خواتین اساتذہ ، فوجی اور سول اعلیٰ افسران کی بیگمات تک اللہ کے دین کا پیغام پہنچانا اگر داعیات دین کی فہرست اور توجہ سے خارج ہے تو حقیقتاً معاشرے میں تبدیلی کے خواب دیکھنا محض شیخ چلیّ کے خواب ثابت ہوں گے۔
داعیاتِ دین کے لیے انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ وہ مائوں میں شعور بیدار کریں کہ ان کے ذمے بچوں کو محض لذیذ اور انواع و اقسام کے کھانے کھلانا، خوش نما لباس پہنانا اور مروّجہ تعلیمی نظام کے تحت تعلیم کے مراحل مکمل کروانا نہیں ہے، بلکہ بچوں کی جسمانی، ذہنی، فکری ، جذباتی، نفسیاتی ، روحانی اور دینی تربیت کی مکمل ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تربیت کے ان مراحل میں والدین کی مسلمہ حیثیت کے حوالے سے والدکے کردار کو روشناس کروانا بھی بالواسطہ داعیات کی ذمہ داری ہے۔
بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو جاں گزیں کرنا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے متعارف کروانا، آپؐ کی محبت اور ا تباع سکھانا ، نماز اور روزے کا عادی بنانا، اخلاقِ حسنہ، مثلاً سچائی ، غنا، بہادری ، حیا کو ان کے کردار کا حصہ بنانا، نیز اخلاقِ سیئہ، مثلاً: جھوٹ ، چوری ، بزدلی،بے حیائی، خودغرضی، غیبت وغیرہ سے بیزاری پیدا کرتے ہوئے ان کی شخصیت کا حصہ نہ بننے دینا۔ اسی طرح ماں باپ کے ادب و محبت کے ساتھ اساتذہ کی عزت اور محبت سکھانا، بہن بھائیوں سے محبت کے رویوں کو سکول کے دوستوں اور پھر معاشرے کے دیگر روابط میں بروے کار لانا، جنت کا واضح نقشہ اور چاہت دل میں رکھتے ہوئے زندگی بھر اس کے حصول کے لیے کوشاں رہنے کی خواہش پیدا کرنا، ان تمام پہلوئوں سے واعیات دین کو گھروں میں رہنے والی یا ملازمت کرنے والی مائوں کو متوجہ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ بچوں کو نقصان پہنچانے والے مادی ، جذباتی، روحانی ، نفسیاتی اور فکری افکار و اعمال سے ممکنہ حد تک بچانے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔
عصر حاضر میں خواتین سے متعلق مباحث خصوصی اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ مشرق ومغرب میں عورت کے حوالے سے صنفی امتیاز ، ناروا سلوک اور رسوم و رواج پر مبنی رویوں کے خلاف قانون سازی اور حکومتی اصلاحی اقدامات رُ وبہ عمل ہیں ۔ اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ اور حقوق اور فرائض واضح ہیں ۔ مرد وخواتین کے بحیثیت انسان ایک جیسے معاشرتی اور قانونی حقوق ہیں۔ البتہ اسلام میں فرائض کا دائرہ کار مرد اور خواتین کے لیے قدرے مختلف ہے ۔ دو ایک جیسے انسانی حقوق کی حامل اصناف مرد اور خواتین جب نکاح کے ذریعے ازدواجی بندھن میں بندھتے ہیں تو دونوں کے وجود سے ایک ادارہ ( خاندان ) وجود میں آتا ہے، جس کے تحت دونوں ذمہ دار ہستیاں اپنے ذمے متعین فرائض سرانجام دیتی ہیں ۔اسی طرح معاشی زندگی میں بھی جدوجہد کا بنیادی میدان مردوں کے ذمے لگایا گیا تھا کیونکہ گھریلو ادارے کے حوالے سے کمانے کی ذمہ داری اور بیرونی کام اس کے ذمے تھے ۔البتہ خواتین کو علمی اور تہذیبی اعتبار سے اپنی نشوونما اور معاشرے کی تعمیر واصلاح میں اپنا حصہ ڈالنے پر کوئی پا بندی نہیں لگائی گئی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بدلتے ہوئے عصری تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے معاشرے کے مختلف میدانوں،مثلاً تعلیم، طب، سماجی بہبود اور دیگر میںخواتین کی موجودگی لازمی ٹھیری۔
داعیات دین کو عورت اور خاندان کے حوالے سے اسلام کا بنیادی فلسفہ اور تعلیمات کا بہت واضح طور پر اِدراک اور استحضار ہونا چاہیے ۔اس حوالے سے مدلّل راہنمائی فراہم کرنے کے لیے ایک داعیہ کو مغرب کی عورت کا اپنے حقوق ومقام کے حصول کے لیے جدوجہد، اور اس راہ میں گمراہی، فکری کجی اور مغالطوں کا بھی علم ہونا چاہیے اور اسلام میں عورت کے مقام و مرتبہ اور حقوق و فرائض سے بھی کما حقہ آگاہی ہونی چاہیے ۔
بعینہٖ مغربی دنیامیںاقوام متحدہ کے زیر نگرانی خواتین کے حقوق کی عالمی جدوجہد کے آغاز ، اُتار چڑھائو ، امکانات، کامیابیوں ، مسائل، مسلم فلسفہ و فکر اور قانون سے تصادم ودیگر کا علم ہونا بھی ازحد ضروری ہے۔ اس طرح ایک مسلم داعیہ مسلم معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے اسلام کے تناظر میں جدوجہد جاری رکھ سکے گی اور عالمی ایجنڈے کے تحت ہونے والے اقدامات میں سے مثبت کو اپنانے اور منفی یا اسلامی فکر اور قانون سے متصادم کو رد کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہوگی اور اس حوالے سے طالبات ، خو اتین اور عوام الناس کی راہنمائی مؤثر طور پر کر سکے گی۔ مزیدبرآں عالمی سطح پر خواتین کے حقوق اور دیگر انسانی حقوق کے حصول کی جدوجہد کے چند ایسے منفی پہلو ہیں جن کے آگے بند باندھنے کی کوشش وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ ان کا سیلاب تہذیبی ورثے کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ ان میں بنیادی طور پر نکاح کے بغیر ازدواجی اور خاندانی تعلقات کا فروغ ، ہم جنس پرستی اور ہم جنس افراد کی شادی، برہنگی کا حق، سیکس ورکر کے نام پر طوائفیت کو تحفظ اور فروغ، اسقاط حمل کا قانونی حق وغیرہ شامل ہیں۔ ان مباحث کے بارے میں بنیادی معلومات کا حصول، اسلام کا نقطہ نظر، علما کی راے، بین الاقوامی اور ملکی قوانین کا علم ایک داعیہ کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہر انسان کاامتحان اور میدانِ امتحان دنیا میں اس کی مہلت عمل کے ساتھ منسلک ہے ۔دنیا کے ا سٹیج ڈرامے میں ہر کردار اپنے متعین وقت پر داخل ہوتا اور ایک متعین وقت پر پردۂ اسکرین سے اوجھل ہوجاتاہے ۔ابتداے آفرینش سے تاحال دنیا جغرافیائی،طبعی، تاریخی ،سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے ۔ایک داعی دین مختلف پہلووں سے اپنے عصری تقاضوں سے غافل اور بے پرواہ رہتے ہوئے مؤثر نتائج حاصل نہیں کرسکتا۔یقینا آج کی داعیہ کے لیے بھی یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
آج کا دور زمانی اعتبار سے اکیسویں صدی ،مکانی اعتبار سے گلوبل ویلج ،تکینکی اعتبار سے انفارمیشن اور پوسٹ انفارمیشن دور ، تعلیمی اعتبار سے تحضّص،معاشی اعتبار سے صنعت سازی اور مادّیت پسندی، سیاسی اعتبار سے جمہوریت اور تہذبیی اعتبار سے عالمی یلغار اور استعمار کا دور ہے۔ چنانچہ داعیات دین کو زندگی کی حقیقت اور فلسفہ ، عقائد و نظریات، توحید ،آخرت کی جواب دہی، اخلاقیات کی بار آوری ، مفسدات کی بیخ کنی کے لیے ان تمام پہلوئوں سے امکانات ،مسائل، اور رکاوٹوں کو ذہن میں رکھتے ہوے دعوت الی اﷲکا فریضہ سر انجام دینا ہوگا ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا اِدراک بھی بہت ضروری ہے کہ مسلم دنیا کی حقیقت اس حوالے سے کیا ہے؟ یعنی اسلام کی تعلیمات اور مسلم معاشروں کی صورت حال کی خلیج کے بارے جاننا اور ماننا بہت ضروری ہے۔ معاشرے اور گھر میں خواتین کو ان کا جائز مقام نہ دینا ، مردوں کی طرف سے کفالت کی ذمہ داری کی عدم ادایگی، گھریلو تشدد اور ناروا سلوک، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، قرآن سے شادی ، وراثت کی عدم ادایگی، جنسی سراسیمگی اور زنا بالجبر وغیرہ مسلم معاشروں میں منفی رویوں اور رواج کی واضح صورتیں ہیں۔
دین کی دعوت دینے والے دیگر افراد جن کا تعلق خواہ کسی کی اپنی اختیار کردہ اجتماعیت سے ہو یا دوسرے گروہ سے، ان سے اخوت ومحبت کا تعلق رکھنا، دعوت دین کے لیے اپنے منصوبوں اور کاموں کی مناسب منصوبہ بندی کرنا، ان کا جائزہ لینا، کاموں کو نظم وترتیب سے انجام دینا، مشاورت کا اہتمام کرنا، صبر و استقامت کا رویّہ اختیار کرنا، دعوت کے مراحل اور تخاطب میں حکمت کا لحاظ رکھنا، مخاطبین کے ساتھ تخاطب اور معاملات میں حسن اخلاق کا پیش نظر رکھنا، تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا، مخاطبین کی تذلیل واہانت سے حتی الامکان بچنا، دعوت کے کام میں نمود و نمایش ، کبر و غروراور ریا سے بچنے کا خصوصی اہتمام کرنا، ضعفِ ارادہ کا شکار نہ ہونا اور شیطان کی اُکساہٹوں سے چوکنا رہنا، نیت کو بار بار اللہ کے لیے خالص کرنا اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائوں کا طلب گار رہنا___ یہ تمام وہ بنیادی اوصاف ہیں جو داعیات دین کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گے۔
مقالہ نگار انچارج دعوۃ مرکز براے خواتین ، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد - جنرل سیکرٹری ویمن ایڈ ٹرسٹ پاکستان ، صدر پاکستان برانچ انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین ہیں