اکتوبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اکتوبر ۲۰۱۳ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ قریش اور وہ لوگ جو ان کے طریقے پر چلتے تھے، حج کے موقع پر مکہ اور منیٰ سے مزدلفہ تک جاتے، پھر وہاں ٹھیرنے کے بعد منیٰ واپس آجاتے تھے۔ وہ  اپنے آپ کو ’حمس‘ کہتے تھے، یعنی کعبہ کے متولی ہونے کے سبب اپنے آپ کو بڑی حیثیت کے مالک سمجھتے تھے۔ عربوں کے ہاں بھی ان کی بڑی حیثیت اور مقام تھا۔ اور باقی عرب میدانِ عرفات تک جاتے اور وہاں ٹھیرتے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ عرفات تک جائیں ، وہاں وقوف کریں، پھر وہاں سے واپس لوٹیں۔   اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا: ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ (البقرہ۲:۱۹۹) ’’پھر وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے سارے لوگ واپس لوٹتے ہیں‘‘۔(متفق علیہ)

حج قدیم اسلامی عبادت ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل اور دیگر تمام انبیا ؑنے حج کیے ہیں۔ عربوں میں اسلام سے پہلے یہ عبادت جاری تھی اور کافی حد تک اسلام کے مطابق تھی۔  اس میں چند تبدیلیاں کردی گئی تھیں، ایک یہ کہ حج کے مہینے کو آگے پیچھے کرلیتے تھے۔ دوسری یہ کہ صفا اور مروہ پر اساف اور نائلہ کے بت رکھ دیے تھے۔ کعبہ کا طواف تو اللہ تعالیٰ کے لیے کرتے لیکن صفا اور مروہ کا طواف بتوں کے لیے کرتے تھے۔ ایک رسم یہ تھی کہ عام عرب بے لباس ہوکر طواف کرتے تھے، سواے ان لوگوں کے جن کا تعلق قریش سے ہوتا یا جن کو قریش کپڑے دے دیتے۔ ان کے علاوہ باقی لوگ بے لباس طواف کرتے تھے۔ ایک تبدیلی یہ تھی کہ قریش اپنی بڑائی کے سبب میدانِ عرفات تک نہیں جاتے تھے۔ ان ساری تبدیلیوں کا اسلام نے خاتمہ کردیا۔ ۹ہجری میں جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حج کرایا، اس سال ان تبدیلیوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا، اور ۱۰ہجری کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایا، اس وقت ان تمام تبدیلیوں کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حج کرایا جو خالص اسلامی تھا۔ اس کے بعد سے آج تک اسلام کے مطابق حج ہو رہا ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک یہ دنیا قائم ہے۔ کعبۃ اللہ انسانوں کی زندگی اور اسلامی زندگی کا ذریعہ ہے۔ عبادات میں مسلمان کا رُخ کعبۃ اللہ کی طرف ہوتا ہے اور مسلمان ہرسال ایک ہی لباس میں کعبۃ اللہ کے  گرد طواف اور میدانِ عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔ منیٰ میں شیطان کو کنکرمارتے اور حج کے شکرانے کے طور پر قربانیاں دیتے ہیں اور اس طرح شیطان اور شیطانی نظام کو مٹانے کا جذبہ لے کر لوٹتے ہیں۔ مناسک ِ حج کا اگر حجاج کرام کو شعور ہوجائے تو دنیا میں اسلامی نظام اور اسلامی حکومت قائم ہونے میں طاغوتی قوتیں رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مناسک ِ حج کی حقیقت اور مقصد کا شعور عطا فرمائے، آمین!


عباس بن مرداس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام میں اپنی اُمت کے لیے دعاے مغفرت کی (حاجیوں کے لیے جو میدانِ عرفات میں وقوف کی حالت میں اپنے لیے دعائیں کر رہے تھے)۔ آپؐ نے بھی ان کے لیے دعائیں فرمائیں تو آپؐ کو جواب ملا کہ ان حاجیوں کے علاوہ جن کے ذمے حقوق العباد ہیں، تمام حاجیوں کے بارے میں آپؐکی دعا قبول کرلی گئی ہے۔ آپؐنے دوبارہ دعا فرمائی: اے اللہ! اگر آپ چاہیں تو مظلوم کو جنت عطا فرماکر ظالم کی مغفرت فرما دیں (یعنی وہ ظالم جس کے پاس مظلوم کا حق ادا کردینے کی استطاعت نہیں ہے، اگرچہ وہ دل سے توبہ کر رہا ہے اور مظلوم کا حق لوٹانا چاہتا ہے) تو عرفہ کی شام تک آپؐکو جواب نہ ملا۔ پھر مزدلفہ میں صبح کے بعد آپؐنے وقوف کیا اور اپنی اُمت کے ان ناداروں کے لیے جن سے ظلم ہوگیا، دوبارہ دعا کی تو آپؐکی دعا قبول کرلی گئی۔ دعا کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے ، یا مسکرائے۔ اس پر ابوبکرؓ اور عمرؓ نے فرمایا: یارسولؐ اللہ! اس وقت تو آپؐ  نہیں ہنستے تھے، اللہ آپؐ  کو ہنساتا رہے ،کس وجہ سے آپؐہنس پڑے؟ آپؐنے فرمایا: جب اللہ کے دشمن ابلیس کو پتا چلا کہ  اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی ہے اور میری اُمت کی مغفرت فرما دی ہے تو اس نے اپنے سر پر مٹی ڈالنا شروع کردی اور واویلا کیا اور ہلاک ہوگیا، کہنا شروع کر دیا، تو میں نے جو اس کی پریشانی اور بے چینی اور رنج و غم کو دیکھا، اس پر مجھے ہنسی آگئی۔ (ابن ماجہ، بیہقی، کتاب البیعت والنشور)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کے حجاج سے کتنی محبت ہے، اس کا اندازہ آپؐ کی اس دعا سے جو میدانِ عرفات اور مزدلفہ میں آہ و زاری کے ساتھ کی گئی ہے، واضح ہوجاتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اخلاص کا ثبوت دیتا ہے ، توبہ کرتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کردینے کا عہد کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کا سامان فرما دیتے ہیں۔ اگر وہ حق داروں کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے    حق داروں کے حقوق ادا کردیتے ہیں اور اپنے مخلص بندوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔

حجاج کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی محبت میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعائیں قبول فرمائیں۔ آج دنیا بھر سے حجاج سرزمین حرم میں جمع ہوتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں حج اور مدینہ طیبہ میں مسجد نبویؐ اور روضۂ رسولؐ پر  حاضری دیتے ہیں ، اور ریاض الجنۃ میں نماز پڑھتے اور دعائیں کرتے ہیں۔ کاش! حجاج کرام اپنے حجاج بھائیوں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں سے اسی طرح سے محبت کریں، اسی طرح سے نیک تمنائیں اور ہمدردی و غم گساری کریں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کی تو اُمت مسلمہ دنیا کی مضبوط اور طاقت و ر اُمت کی حیثیت سے تسلیم کی جائے، اور طاغوتی طاقتیں انھیں گاجرمولی کی طرح کاٹنے ، ان کا خون بہانے اور ذلیل و خوار کرنے سے باز آجائیں۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کے لیے اس طرح حج کیا کہ بیوی سے نفسانی خواہش کی کوئی بات نہ کی، کسی فسق کا ارتکاب نہ کیا، وہ اس دن کی طرح گناہوں سے پاک ہوکر واپس آئے گا جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔(متفق علیہ)

اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہوگئی کہ حج صرف اس صورت میں گناہوں سے پاک کرنے کا موجب ہے جب آدمی حج کے تمام آداب کی پابندی کرے اور گناہوں سے حج کے دوران بھی اجتناب کرے اور بعد میں بھی باز رہنے کا عزم کرے۔ قرآنِ پاک میں اس بات کا بھی بطور خاص ذکر کیا گیا ہے کہ حج کے دوران ساتھیوں سے جھگڑا نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حج میں مسلسل سفر اور ہجوم اور طبیعت پر دبائو کی وجہ سے جھگڑے کا ماحول بن جاتا ہے ، اس لیے بطور خاص جھگڑے سے روکا گیا۔ حج سیروسیاحت کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کے لیے سفر کرنے کا نام ہے۔ یہ سفر عظیم عبادت ہے، اس میں ایک انسان احرام کی حالت میں لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے عشق و محبت کے جذبے کے ساتھ رواں دواں ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں اخلاص شرط ہے۔ اخلاص ہوگا تو یہ سفر عبادت بن جائے گا ورنہ محض آنا جانا ہوگا۔ اس لیے ہرحاجی کو اپنے اخلاص پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔


حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت مانگی تو آپؐ نے فرمایا: تمھارا جہاد حج ہے۔ (متفق علیہ)

اسلام نے خواتین کو مردوں سے لڑنے، ان سے ٹکرانے اور جسمانی تکلیف اور عصمت و عفت کو   داغ دارہونے سے بچانے کی خاطر انھیں جہاد کے بجاے حج کی نعمت سے نوازا جس میں ثواب تو جہاد کا ہے لیکن وہ تکالیف اور مصائب جو جہاد میں پیش آسکتے ہیں ان سے محفوظ رکھا۔ مردوں کا کام قتال ہے اور خواتین کا کام گھروں کی حفاظت اور بچوں کی تربیت اور حجِ مبرور ہے۔ کیسا عمدہ نظام ہے! مردوعورت ثواب میں تو برابر ہوگئے لیکن دائرۂ کار میں مختلف۔ آج کی دنیا میں عورت کو جس مشقت میں ڈال دیا گیا، خواتین پولیس اور فوج میں بھرتی ہوکر دُور دراز علاقوں اور ملکوں کا سفر کرتی ہیں، اپنے شوہروں سے دُور رہتی اور بچوں کو پیار دینے سے محروم رہتی ہیں۔ کیا یہ عورتوں کے ساتھ ظلم نہیں ؟ اسلام نے دنیا فتح کی ، مردوں نے سفر کیے۔ اگر کہیں خواتین گئیں بھی تو لڑنے کے لیے نہیں بلکہ شوہروں کی مدد اور مجاہدین کی مرہم پٹی کے لیے لیکن تنہا نہیں بلکہ اپنے شوہروں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ازواجِ مطہراتؓ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریکِ جہاد رہیں اور مناسب خدمات سرانجام دیں۔ بعض خواتین نے ہنگامی حالات میں قتال میں بھی حصہ لیا لیکن عام حالات میں وہ قتال سے الگ رہیں۔


حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے والد پر اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج عائد ہوا ہے، اس حال میں کہ بہت بوڑھے ہیں۔ وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ یہ سوال و جواب حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آئے۔ (متفق علیہ)

ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میری بہن نے حج کی نذر مانی تھی اور وہ فوت ہوگئی ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتا ہوں؟ آپؐ نے فرمایا:    اگر اس پر کسی کا قرض دینا ہوتا تو تم وہ ادا کرتے؟ اس نے کہا: ہاں، ادا کرتا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔ (متفق علیہ)

حج فرض ہو یا اس کی نذر مانی ہو، دونوں صورتوں میں فرض ہوجاتا ہے۔ فرض حج آدمی خود نہ کرسکتا ہو تو دوسرا اس کی طرف سے حج کرسکتا ہے۔ اسے حج بدل کہا جاتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ جس پر حج فرض ہے وہ کسی دوسرے کو اپنی جگہ حج کرنے کے لیے کہے۔ ایسی صورت میں دوسرا شخص اس کی طرف سے احرام باندھے گا۔ حج کے سارے اخراجات اس کے ذمہ ہوں گے جو حج کرائے۔ قربانی کی رقم بھی وہی دے گا جس کی طرف سے حج ہوگا، چاہے والد ہو یا کوئی اور۔ جس نے حج کی نذر مانی ہے اور فوت ہوگیا ہے تو وہ دوسرے کو وصیت کرے۔ دوسرا اس کی طرف سے حج کرے گا تو اس کی نذر پوری ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں اخراجات اس کے ترکے میں سے ہوں گے اور وصیت نہ کی ہو تو مستحب ہے کہ ورثا میں سے کوئی اس کی طرف سے حج کرے۔ ایسی صورت میں اخراجات وارث کے    اپنے ہوں گے، البتہ ثواب حج کرنے والے اور کرانے والے، دونوں کو پہنچے گا۔


حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم حاجی سے ملو تو اس کے ساتھ سلام کرو، مصافحہ کرو اور اس سے درخواست کرو کہ وہ تیرے لیے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے دعاے مغفرت کرے۔ وہ جس کے لیے دعا کرے گا اس کی بخشش ہوجائے گی۔(مسند احمد)

اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر آدمی خود حج پر نہ جاسکے وہاں جاکر اپنے لیے دعائیں نہ کرسکے تو حاجی جو حجِ مبرور کر کے واپس آیا ہے، اس سے دعائیں کرائے۔ اس طرح سے اس کمی کو پورا کرے جو حج پر نہ جانے سے ہوگئی ہے۔


حضرت عبداللہ بن سائب سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجراسود اور رکنِ یمانی کے درمیان یہ دعا پڑھتے سنا: رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (ابوداؤد)

یہ جامع دعا ہے، یعنی دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی اور دوزخ کی آگ سے نجات۔ جسے مراد مل گئی وہ کامیاب ہوگیا۔ حج کا مقصد بھی پورا ہوگیا۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ۷۰فرشتوں کی ڈیوٹی ہے کہ طواف کرنے والے اور طواف میں مذکورہ دعا پڑھنے پر آمین کہتے رہیں۔ جس دعا پر  اتنے فرشتے آمین کہیں، وہ کیوں کر قبول نہ ہوگی، جب کہ فرشتے بھی اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہوں کہ آمین کہیں تاکہ میں دعا کو قبول کروں۔