اکتوبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کتاب نما

| اکتوبر ۲۰۱۳ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن (جلد اوّل)، مؤلفہ: شکیلہ افضل۔ ملنے کا پتا: J-II-۶۳۷ جوہرٹائون، لاہور۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۴۶۶ ۔ ہدیہ: ۵۰۰ روپے۔

قرآن ایک سدابہار کتاب ہے اور تفسیر قرآن ایک سدابہار موضوع۔ مختلف زبانوں میں بلامبالغہ ہزاروں تفاسیر لکھی جاچکی ہیں، مگر نہ تو قرآنی موتیوں کی تلاش میں کمی آئی اور نہ اس ضرورت کے احساس میں۔ اُردو زبان بھی تفسیرقرآن کے لٹریچر کے تنوع سے مالامال ہے۔شاہ رفیع الدینؒ کے ترجمۂ قرآن سے لے کر زیرتبصرہ تفسیر تک سیکڑوں تفسیریں منظرعام پر آئی ہیں جن میں سے ہر ایک کا اپنا انداز اور اپنا مقام ہے اور ہر ایک کا اپنا فائدہ اور حُسن ہے۔ زیرنظر تفسیر میں مؤلفہ نے تیسیرالقرآن، عبدالرحمن کیلانی، تفسیر ابن کثیر(شاید اُردو ترجمہ)، تفسیر احسن البیان، حافظ صلاح الدین یوسف اور استاذہ نگہت ہاشمی صاحبہ کے لیکچروں کا خلاصہ انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔

انداز یہ اپنایا گیا ہے کہ آیت کے بعد سلیس اُردو زبان میں آیت کا ترجمہ درج کیا گیا ہے اور اس کے بعد ’خلاصۂ تفسیر‘کے عنوان سے حاصل مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ حوالہ دینے سے اجتناب کیا گیا ہے، غالباً اس لیے کہ یہ تفسیر جن قارئین کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے اُن کے لیے حوالہ نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں تھا، بلکہ شاید طوالت اور اُکتاہٹ کا باعث بن جاتا۔ اس طرح یہ تفسیر اُن عام قارئین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے جو مختصر وقت میں قرآنی مفاہیم سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

تفسیر کے شروع میں قرآنی ترتیب کے مطابق موضوعات کی تفصیلی فہرست دی گئی ہے جس سے کسی موضوع کی تلاش میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اگر کاغذ اور طباعت کا معیار بہتر ہوتا تو موضوع کے ساتھ انصاف ہوتا۔ (گل زادہ شیرپاؤ)


سفرِآرزو، ملک مقبول احمد۔ ناشر: مقبول اکیڈمی، ۱۰-دیال سنگھ مینشن، مال روڈ، لاہور۔ فون:۳۷۳۵۷۰۵۸-۰۴۲۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

سفرِآرزو کے مصنف ملک مقبول احمد درجن بھر سے زائد کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔ لیکن زیرنظر کتاب ان سب پر فوقیت رکھتی ہے کہ اس میں انھوں نے تشنۂ تکمیل آرزوئوں کے پورا ہونے کی رُوداد میں اپنے مشاہدات اور احساسات کو تصنع سے مبرا سادگی سے پیش کیا ہے۔ مصنف کو تین بار حج اور متعدد بار عمرہ ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس طرح ان کے مشاہدات کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے ان مقدس مقامات کی زیارت کے لیے پوری تیاری کی، وسیع مطالعہ کیا۔ اس سے انھیں اپنے مشاہدات اور تاثرات کو قلم بند کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور کتاب میں دل چسپی کا عنصر بھی قائم رہا۔

اب تک حج اور عمرہ کے متعدد سفرنامے شائع ہوچکے ہیں اور ہرمصنف نے اپنے انداز اور اپنے اسلوب سے قارئین تک معلومات بھی بہم پہنچائیں اور قلبی واردات اور ذہن پر مرتب ہونے والے تاثرات سے آگاہ کیا۔ سفرِآرزو کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاریخ، جغرافیہ، ثقافت اور روحانیت گھل مل گئے ہیں۔ مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ یہ سفرنامہ زیادہ سے زیادہ مفید اور دل چسپ ہو۔ چنانچہ انھوں نے مناسکِ حج و عمرہ کی ادایگی کے طریقہ ہاے کار اور مسنون دعائوں (مع تراجم) کے علاوہ بیت اللہ، چاہِ زم زم ، مختلف مساجد، غزوات اور قربانی و رمی کے مختصر پس منظر پر سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اندازِ بیاں کی سادگی ہی اس کا حُسن ہے۔ کتاب میں اہم مقامات کی رنگین تصاویر بھی موجود ہیں۔ اُمید ہے مقدس مقامات کی زیارت کو جانے والے اس سے کماحقہ مستفید ہوں گے اور یہ کتاب مصنف کے لیے خیروبرکت کا باعث بنے گی۔(عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


سیرتِ محمد رسولؐ اللہ، تاریخ کے تناظر میں، ڈاکٹر سید معین الحق، مترجم: رفیع الزمان زبیری۔ ناشر: فضلی سنزلمیٹڈ، اُردوبازار، کراچی۔ فون:۳۲۲۱۲۹۹۱-۰۲۱۔ صفحات: ۶۷۲۔ قیمت:۶۹۵روپے۔

زیرتبصرہ کتاب سیرت النبیؐ کے موضوع پر معروف تاریخ دان ڈاکٹر معین الحق کی انگریزی میں لکھی گئی کتاب محمد، لائف اینڈ ٹائمز کا اُردو ترجمہ ہے جس میں حضور اکرمؐ کی زندگی کے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ان پر مغربی غیرمسلم مصنّفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔

کتاب کے کُل ۳۱ ابواب ہیں جن میں ظہورِاسلام سے قبل کے حالات سے لے کر   حضور اکرمؐ کی وفات تک کے حالات و واقعات، مستند و معتبر مآخذ کے حوالوں سے بیان کیے گئے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی اساس اور بنیادی اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مصنف کے خیال میں حضور اکرمؐ نے قرآن و سنت کے ذریعے جو ضابطہ حیات دیا، یہ ابدی ہے (ص ۲۹)۔ اسے قائم رکھنے کے لیے اسلامی ریاست تشکیل دی گئی۔ بعض مستشرقین نے حضوراکرمؐ کے غزوات و سرایا کو جارحانہ جنگیں قرا ر دیا ہے (ص ۳۲۲)۔ مصنف نے عہدنبویؐ کی جنگوں کے اسباب و محرکات کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ انسانی تاریخ کی یہ ایسی جنگیں ہیں جن میں بہت کم قتل و غارت ہوئی۔ جارحیت کے مرتکب تو قریش تھے جو مکہ سے باربار حضور اکرمؐ پر حملہ آور ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور حضور اکرمؐ کی جنگی حکمت عملیوں نے مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کیا۔

حضور اکرمؐ کی شخصیت، آپؐ کی خصوصیات اور آپؐ کی امتیازی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی مصنف نے مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دیا ہے (۶۱۵)۔ مصنف نے حضور اکرمؐ کی زندگی کے تقریباً تمام پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترجمے کی روانی، بے ساختگی اور اسلوب نے اسے طبع زاد کتاب کی صورت دے دی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں میں زیرتبصرہ کتاب اپنے اسلوبِ بیان اور موضوع کی ندرت کے لحاظ سے نہایت اہم تصنیف گردانی جائے گی۔(ظفر حجازی)


اسالیب ِدعوت اور مبلّغ کے اوصاف، شیخ محمد فتح اللہ گولن، مترجم: محمد اسلام۔ ناشر: ہارمنی پبلی کیشنز، مکان نمبر ۹، ایف-۱۰/۲، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۱۲۲۵۰-۰۵۱۔صفحات: ۲۳۶۔قیمت: ۴۰۰ روپے۔

مصنف ترکی نژاد عالم باعمل ہیں۔ ترکی کے علاوہ عربی اور فارسی پر بھی عبور ہے۔ آپ نے دین کی تبلیغ کا آغاز ازمیر کی جامعہ مسجد ’کستانہ بازاری‘ سے ملحق مدرسہ ’تحفیظ القرآن‘ سے کیا اور چلتے پھرتے واعظ کے طور پر اناطولیہ کے گردونواح میں واعظ کے طور پر کام کرتے رہے اور  ۱۹۷۰ء میں تربیتی کیمپ لگانا شروع کیا اور باہمی گفت و شنید، افہام و تفہیم اور تعصب سے پاک دعوت و تبلیغ کی مؤثر تحریک بپا کی۔ اسی سلسلے میں وٹی کن سٹی میں پوپ کی دعوت پر ان سے ملاقات کی اور اسلام کی دعوت پہنچائی۔ مؤلف نے اسلام کے مختلف عنوانات پر ۱۶سے زیادہ کتب تصنیف کی ہیں جن میں سے نو کتب اُردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے پہلی فصل: تبلیغ کا تعارف میں عنوانات کے تحت، خوب صورت اور مؤثرانداز میں تبلیغ کو قرآن و حدیث مبارکہ کی روشنی میں مقصد زندگی قرار دیا ہے۔ پھر اس کی ضرورت اور اہلیت کی شرائط بیان کی ہیں۔ اس کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ مختلف پیغمبروں ؑ کی دعوت و تبلیغ کے تاریخی واقعات بیان کیے ہیں۔

دوسری فصل: ’دعوت و تبلیغ کے اصول و ضوابط‘ کے تحت ۱۱ عنوانات کے تحت ہر وہ متعلق بات بیان کردی ہے جو دعوتِ دین کے لیے انتہائی ضروری ہے، مثلاً علم اور دعوت کا تعلق، اسلامی حقائق اور دورِحاضر سے آگاہی، جائز ذرائع کا استعمال، مخاطب کے مزاج سے آگاہی، دعوت کے لیے ایمان، تزکیہ اور اخلاص کی اہمیت، مستقل مزاجی وغیرہ۔ اسی طرح تیسری فصل: ’مبلغ تحریر کے آئینے میں‘  وہ تمام اہم خصوصیات بیان کردی ہیں جو مبلغ میں ہونا ضروری ہیں، مثلاً شفقت، ایثارو قربانی،  منطقی طرزِاستدلال اور واقعیت پسندی، عفو و درگزر، شوق و اشتیاق وغیرہ۔ جگہ جگہ قرآن، حدیث اور تاریخ اسلامی سے استدلال کتاب کی جان ہے۔ ص ۵۷ کی درج ذیل تحریر سے کتاب کی اہمیت کا بہتر اندازہ کیا جاسکتا ہے: حقیقی ایمان اور اس کی بقا کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے: ۱- اپنی زندگی میںصرف حق بات کی پیروی کرے، ۲- ظلم کے خلاف گونگے شیطان کی طرح خاموش تماشائی نہ بنا رہے، ۳- زندگی اور موت کی پرواہ نہ کرے، ۴-ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے وضع کردہ مفاہیم کے دائرے میں رہے، ۵- امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھے۔ مذکورہ اُمور کے بغیر زندگی بالکل ہی بے فائدہ ہے۔

اس کتاب کے مقدمے میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، وائس چانسلر رفاہ یونی ورسٹی اسلام آباد نے بڑی وقیع بات کہی ہے: ’’اس موضوع پر استاد عبداللہ کریم زیدان، استاد ابوالاعلیٰ مودودی،  امام حسن البنا، استاد مصطفی مشہور، استاد عبداللہ بن بدیع سقر، استاد فتحی یکن اور دیگر اساتذہ نے جن مضامین دعوت پر اُمت کو متوجہ کیا تھا، استاد گولن کی یہ تحریر انھی خصوصیات پر ایک جامع لیکن مختصر تحریر ہونے کی بنیاد پر ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ہرمسلمان کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ کارِتبلیغ ایک اہم فریضہ ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے یہ کتاب نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔(شہزاد الحسن چشتی)


Muslims Today: Changes within, Challenges without  [آج کے مسلمان: داخلی تغیرات ، خارجی چیلنج ]، ڈاکٹر چندرا مظفر، سیریز ایڈیٹر: ڈاکٹر ممتاز احمد۔ناشر: ایمل مطبوعات، آفس نمبر۱۲، سیکنڈ فلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ فون:۲۸۰۳۰۹۶-۰۵۱۔ صفحات: ۲۸۲۔ قیمت: ۷۸۰ روپے

ڈاکٹر چندرا مظفر، ملیشیا کی سائنس یونی ورسٹی میں ’گلوبل اسٹڈیز‘ کے پروفیسر ہیں۔   وہ انگریزی اور ملائی زبانوں میں ۲۵ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں، اور بین الاقوامی سیاسی اور سماجی اُمور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ پیش نظر کتاب اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (IRD) ، شعبۂ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد نے شائع کی ہے۔ عصری اسلامی فکر کے مطالعے کے سلسلۂ کتب میں IRD کی یہ پہلی کتاب ہے۔ ادارے کے ڈائرکٹر پروفیسر ممتاز احمد کے بقول: ’’مسلمانوں کو درپیش عصری سوالات کے یہ تجزیے نہ صرف وقت کا تقاضا ہیں، بلکہ قرآن و سنت کی حُریت فکر پر مبنی ہیں‘‘۔ مصنف برٹرینڈرسل، نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، رچرڈ فالک اور ہمارے عہد کی عظیم درخشندہ ہستیوں کی روایت پر مضبوطی سے قائم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مسلم اور غیرمسلم قارئین کو عصری اسلام میں تنقیدی اور اہم آوازوں سے آشنا کرنے کے لیے ان کا ادارہ کوشاں ہے۔ تصورات کی اس جنگ کو وہ مسلم دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

 ۱۳؍ابواب پر مشتمل یہ کتاب، چندرا مظفر کی مختلف تصانیف سے ماخوذ تحریروں سے ترتیب دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت مسلم معاشرہ ایک عالمی استعمار کا شکار ہے۔ جبر پر مبنی یہ غلبہ خارجی بھی ہے اور داخلی بھی کہ ۱۲ویں صدی سے مسلم علما نے یا تو غالب مسلم حکمرانوں سے سمجھوتا کرلیا ہے ، اور اس طرح دین کی تفہیم کو اپنا اجارہ بنا لیا ہے، اور اب حال یہ ہے کہ مسلم اکثریت، فقہ اور حدود کے منتخب قوانین ہی کو اسلام تصور کرنے لگی ہے، اور قرآن کے آفاقی اصولوں سے اغماض برت رہی ہے۔ مصنف کے خیال میں اللہ پر ایمان اور اس کا پختہ شعور، خلیفۃ اللہ فی الارض کی انسانی حیثیت اور اس کی ذمہ داریاں، آفاقی اقدار اور اصولوں کے مطابق زندگی، زیادہ اہم ہیں۔ یہ قواعد و قوانین، عبادات اور دوسرے اوامر و نواہی پر فوقیت رکھتے ہیں‘‘ (ص ۱۱)۔ اپنے مضامین میں وہ ’مسلم ممالک‘ کو ہمیشہ ’اسلامی ممالک‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ ’تقلید‘ اور قوت اور استبداد کے ذریعے شریعت کو نافذ کرنے کی حکومتی روش پر تنقید کرتے ہیں۔

اسلام کے تصورِ مساوات کے ضمن میں وہ قرآنِ مجید کی متعدد آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں۔ چوں کہ سارے انسان ایک ہی جوڑے سے بنائے گئے ہیں اور کسی عرب کو غیرعرب پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی، اس لیے انسانوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ ’ترقی پسند اسلام‘ بمقابلہ ’روایتی، قدامت پسند اسلام‘ کی فکر پر باربار تنقید کرتے ہیں۔     وہ مولانا ابوالکلام آزاد کو اپنے نقطۂ نظر کی سب سے بڑی سند بتاتے ہیں (ص ۱۶)۔ وہ کہتے ہیں  کہ ابتدا میں مسلمانوں کو دوسرے گروہوں اور انسانوں سے ایک علیحدہ جماعت قرار دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اُن کو کوئی خاص رعایت دی جائے، بلکہ غرض محض یہ تھی کہ خطرات سے دوچار لوگوں کو معاندانہ رویے کے حامل معاشرے سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ (ص ۱۵)

افغانستان کا نام لیے بغیروہ کہتے ہیں کہ ایک مسلم ملک میں طویل جدوجہد اور قتل و غارت کے ذریعے جب ’اسلامی حکومت‘ قائم ہوئی، تو ہزاروں مسائل سے قطع نظر کرکے حکمرانوں نے خواتین کے حجاب کے قانون ہی کو اوّلیت دی۔ ایک دوسرے ملک [پاکستان] میں اداروں/دفاتر میں نماز کی ادایگی ہی کو اہمیت دی، حالانکہ غربت، بھوک، بیماری جیسے بیسیوں مسائل توجہ طلب تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام بحیثیت ایک ’نظامِ حیات، انصاف ہی کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، مگر اسلامی /مسلم ملکوں میں غیرمسلموں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ افسوس ناک امتیاز برتا جارہا ہے (افغانستان، سوڈان، سعودی عرب) (ص ۶۸)۔ اقبال کا ’ترانۂ ہندی‘ ان کے خیال میں بہترین قومی نظم ہے۔ (ص ۱۷۶)

تقلید، جمود، انتہاپسندی، خود راستی کا تصور، امتیاز پسندی، اقتدار اور غلبے کی ہرصورت میں خواہش___ یہ آج کے مسلم معاشروں کی تصویر ہے۔ عالمی امریکی تسلط کے نتیجے میں دنیا کے  ڈیڑھ ارب انسان انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ ہمیں اس بے انصافی کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے۔

انھیں بیش تر مغربی ذرائع ابلاغ سے بھی گِلہ ہے کہ وہ اسلام کو درست طور پر پیش نہیں کررہے۔ اُنھیں صرف مسلمان ہی انتہاپسند اور متشدد نظر آتے ہیں، حالاں کہ یہ ’خوبیاں‘ اُن کے ہاں بھی موجود ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اپنی فلموں اور سنجیدہ تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کو  ایک ’فتنہ‘ اور ’خودکش بمبار‘ بناکر پیش کر رہے ہیں، جو ایک یک طرفہ فکر ہے۔

احیاے اسلام کی تحریکوں کو درپیش حقیقی چیلنج اب یہ ہے کہ وہ قرآن کی اصل رُوح کو دریافت اور بازیافت کریں، اور اس کے مطابق اپنے لائحہ عمل مرتب کریں۔ اس سلسلے میں وہ اقبال، جمال الدین افغانی، علی شریعتی اور فضل الرحمن کی کاوشوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ تاہم، مصنف کا یہ خیال بحث طلب ہے کہ اسلامی دنیا پر مغربی استعمار کے تسلط کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ  مسلم معاشروں کی فکر میں ایک وسعت آئی ہے، اور وہ قدامت پسندی کے بجاے اب ’آفاقی اقدار‘ کی طرف رجوع کررہے ہیں۔

عمدہ کاغذ پر نفاست سے طبع شدہ اس کتاب میں جگہ کا ضیاع، اغلاط (ابوالکلام کی جگہ عبدالکلام ) اور اشاریہ کی عدم موجودگی کھٹکتی ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


مغرب اور اسلام [مغربی افکار اور آج کی مسلم دنیا ] مدیر: پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، گلی نمبر۸، ۳؍۶-F، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۳۳۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کی ادارت میں علمی و تحقیقی مجلہ، مغرب اور اسلام قابلِ قدر مضامین پیش کر رہا ہے۔ حال ہی میں ’مغربی افکار اور آج کی مسلم دنیا‘ کے زیرعنوان ۲۰۱۳ء کا پہلا شمارہ منظرعام پر آیا ہے۔ اداریے میں مغرب اور اسلام پر جدید مباحث کے تناظر میں مکالمے پر زور دیا گیا ہے۔

’اسلام اور مغرب: موجودہ مسائل اور مسلمانوں کا ردعمل‘ (پروفیسرخورشیداحمد)کے زیرعنوان مغرب اور مشرق کی اہم تحریکوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مسلم دنیا کہاں کھڑی ہے؟ صاحب ِ مضمون کی تجویز ہے کہ ’انسانیت اور مسلم اُمہ کی بھلائی کے لیے ضروری ہے کہ ’ایسے کو تیسا‘ اور جذباتی ردعمل کے بجاے، جس کے جواز پر بھی دلائل دیے جاسکتے ہیں، ہمیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا،تاکہ انسانیت کی مجموعی فلاح کے لیے ہم اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھال سکیں۔ اُن کا یہ جملہ قابلِ قدر ہے کہ ’’جب تک اسلامی تحریکیں لوگوں کو اُن کے موجودہ مسائل کا حل نہیں بتائیں گی، ہمارا تقسیم شدہ ووٹ ہمیشہ محدود رہے گا‘‘۔

تحقیقی مقالے کے بعد سوال و جواب شامل کیے گئے ہیں جو قابلِ قدر اور فکرافروز ہیں۔ اسی طرح ’تحقیق کے مغربی اور اسلامی اسلوب تحقیق کی اساسیات‘ (پروفیسر خورشیداحمد) ایک اہم مقالہ ہے جس میں سیکولرزم پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ عالم گیر دنیا کے لیے عالم گیر اخلاقیات پر پروفیسر انیس احمد نے قلم اُٹھایا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے عالمی معاشی بحران کا تجزیہ پیش کیا ہے اور بحران کے حل کے لیے نظری و عملی پہلوئوں اور اسلام کے معاشی قوانین پر عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ مجلہ اہلِ علم کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔(محمد ایوب منیر)


عسکریت اور رعیت، تنازعات اور عوامی استحصال کا تاریخی پس منظر، سعد اللہ جان برق۔ ناشر: نیریٹوز پرائیویٹ لمیٹڈ، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۹۱۵۸۶-۰۵۱۔ صفحات:۲۲۔ قیمت: ۴۵۰روپے۔

زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے مروجہ نظریات، فلسفے، عقائد اور رویوں سے ہٹ کر ہمیں ایک منفرد نظریے سے متعارف کروایا ہے۔ انھوں نے نوعِ انسانی کو عسکریت اور رعیت کے دو طبقات میں تقسیم کیا ہے اور پھر اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے پوری انسانی تاریخ، تاریخ کا بنیادی فلسفہ، قدیم و جدید ادب اور نظریات، عقائد، یونانی، ہندی اور قدیم تہذیبوں کے دیومالائی قصوں کا سہارا لیا ہے۔ اپنے نظریے کو پیش کرتے ہوئے مصنف ہمیں ڈارون، ہیگل، روسو، کارل مارکس اور سرسیّد وغیرہ سے متاثر نظر آتے ہیں، تاہم وہ اپنے نظریات مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔

موجودہ دور عسکریت پسندی، تشدد، ظلم و زیادتی اور استحصال کا دور ہے۔ دنیا اس وقت ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ روس کے زوال کے بعد امریکا تمام دنیا پر چڑھ دوڑا ہے اور جہاں چاہتا ہے ظلم و ستم کا بازار گرم کردیتا ہے۔ نائن الیون کے بعد اگرچہ عسکریت پسندی پر بہت کچھ لکھا    گیا ہے لیکن زیرتبصرہ کتاب اس موضوع پر مفید کتاب ہے جو ہمیں نہ صرف موجودہ دور کے  عسکریت پسندانہ اور جدید نظریات کا فہم عطا کرتی ہے بلکہ گزرے ہوئے زمانوں کا وسیع اِدراک بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ کتاب موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے رہنمائی دیتی ہے۔(طاہر آفاقی)