اکتوبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

نائن الیون اور۱۲سالہ ناکام امریکی جنگ پاکستان کے لیے نئی سلامتی پالیسی کے تقاضے

پروفیسر خورشید احمد | اکتوبر ۲۰۱۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

جنگ دو دھاری تلوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ جہاں انسانیت کے لیے فساد فی الارض سے نجات کا وسیلہ بن سکتی ہے، وہیں وہ اسے ایک عظیم تر فساد کی آگ میں جھونکنے کا ذریعہ بھی   بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے جو قانون دیا ہے، اور جو اپنی آخری اور مکمل شکل میں قرآن اور سنت نبویؐ میں محفوظ ہے، اس میں اس بارے میں ایسی رہنمائی دی گئی ہے جو انسانیت کو فساد سے بچاسکے اور عدل وا نصاف کی راہیں ہموار کرسکے۔

اس قانون کی رُو سے جنگ کے باب میں دو اہم ترین شرطیں واضح کردی گئی ہیں ، یعنی: اول یہ کہ جنگ زر اور زمین کے حصول، محض سیاسی قوت، معاشی بالادستی اور دوسرے مفادات، تعصبات یا محض جہاں گیری اور اپنی قوت کے غلبے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ مبنی برحق جنگ وہی ہوسکتی ہے جو دفاع یا ظلم کے مقابلے کے لیے ہو۔ اس اصولی اور ابدی ہدایت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جنگ کے جواز کو حق اور عدل سے مشروط کردیا۔ اس کے ساتھ دوسری اہم تحدید یہ بھی کردی کہ خود جنگ کے دوران ہر قسم کے ظلم اور انسان سوز زیادتیوں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ دشمن کی عسکری قوت پر بھرپور ضرب ہو لیکن عام انسانوں، خصوصیت سے معاشرے کے ان تمام عناصر کے جان، مال اور آبرو کی مکمل حفاظت کی جائے جو شریکِ جنگ نہیں ۔ (non-combatants)  دشمن کی عبادت گاہوں، عورتوں، بچوں، حتیٰ کہ پھل اور سایہ دار درختوں اور کھڑی فصلوں تک کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس لیے کہ جنگ کا ہدف صرف حقیقی امن اور انصاف کا حصول ہے اور جنگ کے دوران میں عام انسانوں اور بستیوں کو تباہی سے بچانا اور امن کے پیامبر ہونے کا ثبوت پیش کرنا جنگ کے آداب کا حصہ ہے۔

اسلام کی ان تعلیمات کا دورِ جدید کے بین الاقوامی قانون کے ارتقا پر واضح اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ سولھویں صدی کے بعد جو قانون وجود میں آیا ہے، اس میں سفارت کاری کے اصول و آداب کی حد تک ہی سہی، بین الاقوامی کنونشنز (conventions) پر مبنی برحق جنگ (just war) اور جنگ کے دوران عدل و انصاف کے اہتمام (justice in war) کے اصولوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جن اقوام کو ’مہذب‘ اقوام ہونے کا دعویٰ ہے، انھوں نے ان دونوں حیات بخش اور امن پرور اصولوں کو بُری طرح پامال کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین اور اندوہناک مثال دہشت گردی سے دنیا کو پاک کرنے کے نام پر وہ جنگ ہے، جو امریکا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعات کا سہارا لے کر پوری دنیا پر مسلط کی ہے اور عالمی دہشت گردی کا ایک شرم ناک خونیں باب رقم کردیا ہے۔

بظاہر ۲۰۱۴ء میں افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کی واپسی کے اعلانات کیے جارہے ہیں، مگر ان کے باوجود جنگ و جدال اور ریاستی اور مزاحمتی دہشت گردی کی آگ کے ٹھنڈے ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ اگر امریکی افواج ہزیمت و شرمندگی کے ہاتھوں مجبور ہوکر  افغانستان سے واپس چلی بھی جائیں، تب بھی یہ علاقہ اور دنیا کے دوسرے حساس علاقے جنگ کی آگ میں سلگتے رہیں گے اور کسی نہ کسی طرح ان ممالک پر مغرب زدہ نام نہاد لبرل سیکولر نظام کے حاشیہ بردار اور وہاں کی سیاسی اور عسکری قوت کے گٹھ جوڑ سے عوام کو، خصوصیت سے اُمت مسلمہ کو، اپنی گرفت میں رکھا جائے گا، تاکہ اس کے قومی و معدنی وسائل کی لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے، اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو کھل کھیلنے کے مواقع حاصل رہیں۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے نام پر شروع کی جانے والی جنگ کو ۱۲برس ہوگئے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان ۱۲برسوں کا بے لاگ جائزہ لیا جائے۔ یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس جنگ کے ذریعے امریکا نے کیا حاصل کیا اور کیا کھویا اور اس سے بھی بڑھ کر اس کے نتیجے میں ان ممالک کو کیا ملا، جو امریکا کے حلیف بنے یا جن کو امریکا نے اپنا ہدف بنایا۔اس لیے کہ   اس جنگ کی سب سے بڑی حقیقت ہے ہی یہ کہ مغربی اقوام نے اسے اُمت مسلمہ کی سرزمین پر  لڑا ہے، اور وقتی اسباب جو بھی ہوں، اپنے عالمی ایجنڈے کے مطابق لڑا ہے۔ بظاہر مقصد القاعدہ کو ختم کرنا تھا، پھر طالبان ہدف بنے، پھرعراق کے ایٹمی ہتھیار جن کا کوئی وجود نہ تھا۔ پھر جمہوریت کے فروغ، عورتوں کے حقوق کی پاس داری، تعلیم کے فروغ اور معاشی ترقی کے خواب دکھائے گئے، لیکن اصل مقاصد صرف اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر عمل تھا اور اس کے لیے ان ممالک میں، خصوصیت سے افغانستان، عراق، یمن اور خود پاکستان میں ایسے عناصر کو آلۂ کار بنایا گیا جو ملک و ملّت کے مفادات کو ذاتی اقتدار اور مفادات پر بے دریغ قربان کرنے کو تیار ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ اس پورے دور کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور اس کی روشنی میں آگے کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس موضوع کا حق ایک مقالے میں ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ موضوع تو ایک یا ایک سے بھی زیادہ کتابوں کا تقاضا کرتا ہے۔ مغرب میں یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور مسلمان اہلِ علم کو بھی اپنے مقاصد، اہداف اور مفادات کی میزان پر اس دور کی پالیسیوں اور رُونما ہونے والے نتائج اور حالات کا صحیح صحیح تجزیہ کرکے    نفع و نقصان کے پورے اِدراک کے ساتھ آگے کا نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اس وقت ۱۱مئی کے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومتیں وجود میں آگئی ہیں جن میں عوام نے تبدیلی کا پیغام دیا ہے۔ اگر نئی حکومتیں اس تاریخی موقع کو ضائع کردیتی ہیں اور امریکا ہی کے احکام پر عمل پیرا رہتی ہیں تو اس سے بڑی غداری کا تصور بھی مشکل ہے۔

خانہ جنگی کا خدشہ

اس جنگ کے ۱۲برس پورے ہونے پر نئی حکومت اور پوری قوم کو دعوت غوروفکر دینے کے لیے ہم چند اہم گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کی اہمیت اس بحث کے پس منظر میں مزید  بڑھ گئی ہے کہ اس نازک وقت پر بھی پاکستان کی امریکی جنگ میں شرکت اور اس کی تمام تباہ کاریوں کا مزہ چکھنے کے باوجود شمالی علاقہ جات ہی نہیں، پورے پاکستان میں فوجی آپریشن اور قوت کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نئی اور وسیع تر معرکہ آرائی کے لیے فضا ہموار کی جارہی ہے۔ یوں ملک کو ایک نہ ختم ہونے والی خونیں جنگ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس میں امریکی اور اس کی حلیف بھارتی لابی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیکولر اور لبرل قوتیں پیش پیش ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ  یہ بھی نظرآرہا ہے کہ اس میں خود اسلام اور پاکستان کے ناراض دوستوں کا بھی ایک کردار ہے ، یا انھیں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کو اس کے عالمی اور ملکی پس منظر میں دیکھا جائے اور جو بھی پالیسی بنائی جائے، وہ بہت سوچ سمجھ کر، قوم اور اس کی قیادت کو اعتماد میں لے کر، تاریخی تجربات سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بنائی جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے ملک کے حقیقی مفادات اور قومی مقاصد کے حصول کے لیے صحیح معنی میں ایک قومی پالیسی ہونا چاہیے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے لازمی ہے کہ عوام کے عقائد، وژن، احساسات اور توقعات کی روشنی میں پالیسی بنائے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو پالیسیاں بیرونی مفادات کے حصول کے لیے بنی ہوں یا جن کی تشکیل جبر اور دبائو کے تحت ہوئی ہو، یا جن کے محرکات غرور، طاقت کا زعم، انتقام اور غصہ ہوں، وہ تباہی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ایک بار نہیں بار بار طاقت کا زعم رکھنے والوں نے ایسی پالیسیاں بنائی ہیں اور ان کے نتیجے میں انسانیت کو ظلم و طغیان کی آگ میں دھکیلا ہے، بڑے بڑے علاقے تاراج کیے ہیں، لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے، اور اربوں اور کھربوں ڈالر کے وسائل اس آگ میں جھونک دیے ہیں۔

نائن الیون: پس منظر اور کارفرما ذھنیت

اکیسویں صدی کا آغاز بھی ایسے ہی تباہ کن اور اندوہناک حالات میں ہوا ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی، جس کا آغاز بظاہر آسٹرین شاہی خاندان کے ڈیوک فرانسس فریڈرک کے قتل سے ہوا، جسے ۲۸جون ۱۹۱۴ء کوسرائیو کے مقام پر ہلاک کردیا گیا تھا،اور اس ایک چنگاری سے ایسی آگ بھڑکی کہ پورا یورپ استعماری جنگ کی آماج گاہ بن گیا۔ انجام کار ۵۰لاکھ فوجی اور عام شہری موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ امریکا پہلی بار یورپی جنگوں میں شریکِ کار بن گیا، نئی ٹکنالوجی انسانیت کی خدمت کے بجاے اسے تباہ کرنے   کے لیے استعمال ہونے لگی۔ پھر بیسویں صدی ۱۰۰ سے زیادہ جنگوں کا میدان بن گئی، جن میں دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے ۵کروڑ انسانوں سمیت ۱۰کروڑ انسان لقمۂ اجل بنے۔

اکیسویں صدی نے دوسرے عشرے کا بھی انتظار نہ کیا کہ اس کے دوسرے ہی سال میں نیویارک اور واشنگٹن کے واقعات رُونما ہوگئے۔ یوں انسانیت کو ایک دوسرے ہی قماش کی جنگ کی آماج گاہ بنادیا گیا۔ استعماری قوتوں نے ویت نام اور افغانستان کے تجربات سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جنگ، جو ماضی میں دو ممالک یا چند ممالک کے درمیان فوجی معرکے سے عبارت تھی اور جس کی نوعیت، جس کا ہدف، جس کا میدان اور علاقہ بڑی حد تک متعین ہوتا تھا، اس کے تصور ہی کو  بدل ڈالا گیا۔ حکومت اور غیرحکومتی عناصر (نان اسٹیٹ ایکٹرز ) میں تصادم، ریاست کی حدود کے  اندر تو مختلف شکلوں میں ہوتا تھا مگر اب جنگ ریاستوں اور غیرریاستی مہم جُو عناصر کے تصادم تک بڑھا دی گئی اور اسے بھی عالمی سطح تک پھیلا دیا گیا۔ اس طرح ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘   میں ایک طرف ریاست یا ریاستیں فریق بن گئیں تو دوسری طرف ایک مبہم، غیرمتعین عنصر، جو  مکانی اعتبار (space wise) سے بھی بے حدوحساب علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح پوری دنیا اس جنگ کا میدان بنادی گئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون کس کے خلاف لڑرہا ہے مگر ہرطرف خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور ملک کے ملک تاراج کیے جارہے ہیں۔

دہشت گردی کی تاریخ پیدایش۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء نہیں۔ یہ تو صدیوں سے انسانی معاشرے میں ایک دھونس، دھاندلی اور جبر کے ’نظام‘ کی حیثیت سے موجودرہی ہے۔ کچھ کے لیے پسندیدہ راستے کے طور پر اور کچھ کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابلِ برداشت۔ خود امریکا میں دہشت گردی کے واقعات امریکی ری پبلک کے قیام سے ۲۰۰۱ء تک بارہا اور بڑی ہولناک شکلوں میں ہوتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں نیویارک کے ٹریڈ سنٹر ( ۱۹۹۳ء) کو ہدف بنایا گیا اور اس کے ذمہ دار افراد کو ملک کے فوجداری قانون کے تحت مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ یمن کے سمندر میں یوایس کول نامی بحری جہاز کا واقعہ رُونما ہوا اور اس کو بھی اسی طرح ملکی قانون کے تحت نمٹایا گیا۔ پھر اوکلاہوما کا خونیں واقعہ رُونما ہوا، جس میں ۱۶۸؍افراد کو ایک سفیدفام قدامت پرست امریکی دہشت گرد نے ہلاک کیا اور ۷۰۰؍ افراد زخمی ہوئے، لیکن اس واقعے پر بھی قانون کی مشینری ہی حرکت میں آئی، طبل جنگ نہیں بجایا گیا۔ لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء ایک ایسا واقعہ بن گیا جس کی بنیاد پر عالمی قانون اور ملکی فوج داری قانون دونوں کے پورے نظام فکروعمل ہی کو بدل کررکھ دیا گیا۔

امریکی صدر جارج بش اور پوری مغربی دنیا نے اس کے زیراثر، دہشت گردی کے اس قابلِ مذمت واقعے کو جس میں ۲ہزار۹سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں امریکا میں موجود ہرنسل، ملک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد لقمۂ اجل بنے تھے، ’امریکا کے خلاف جنگ‘ قرار دیا۔ ناٹو نے دفعہ ۵ کا سہارا لے کر امریکا پر حملے کو ناٹو پر حملہ قرار دیا۔ اقوام متحدہ نے بھی ایک مبہم قرارداد میں قوت کے استعمال کے لیے ایک ایسا بودا سا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی، جس کو علمی قانونی حلقوں میں چیلنج کیا گیا۔ امریکی کانگریس نے بھی ایک مجہول قرارداد کے ذریعے امریکی صدر کو دہشت گردی کے خلاف ہر ذریعہ اور قوت استعمال کرنے کا پروانہ دے دیا۔ لیکن اب اس کے بارے میں بھی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں اور اس بحث کی روشنی میں امریکی صدر کے لیے شام پر فوج کشی کی اجازت حاصل کرنا مشکل ہوگئی ہے۔۱؎

یہ ۱۲سالہ جنگ جدید مغربی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے اور اس کی تباہ کاریاں بھی  بے حساب ہیں۔ اس کا کوئی جواز نہ بین الاقوامی قانون میں ہے اور نہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں، جو صرف دفاعی جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ اگر واضح خطرے کے پیش نظر اور حقیقی دفاع کے لیے  چارٹر میں اقدام میں پہل کی گنجایش پیدا کی گئی ہے، تو وہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کی حدود میں اور اقوام متحدہ کو اطلاع ہی نہیں اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والی فوج کی شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ لیکن امریکی صدر نے طاقت کے زعم میں، امریکا کے سامراجی اہداف کے حصول کے لیے، جن کی ایک مدت سے منصوبہ سازی کی جارہی تھی، اس عجیب و غریب جنگ کا آغاز کیا۔ صرف القاعدہ نہیں، افغانستان اور اس کے ساتھ عراق، ایران اور شمالی کوریا پر بھی اپنے جنگی اور جارحانہ عزائم کے اظہار کے ساتھ دبائو کا آغاز کیا۔ اس کے لیے یہ اصول وضع کیا کہ جو امریکا کے ساتھ نہیں،      وہ دہشت گرد ہے یا دہشت گردوں کے ساتھ ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے جنگی اقدام کے لیے ایک جائز ہدف ہے۔

صدربش کے یہ الفاظ اس جنگ کے اصل اہداف کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ سامنے رہنے چاہییں:

  • وہ دہشت گرد جنھوں نے یہ اقدام کیے، اور وہ جو ان کو پناہ دیتے ہیں، ہم ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتیں گے (۱۲ستمبر ۲۰۰۱ء)
  • یہ صلیبی جنگ دہشت گردی کے خلاف کچھ عرصہ چلے گی (۱۲ستمبر۲۰۰۱ء)
  • عراق، ایران اور شمالی کوریا جیسی ریاستیں بُرائی کا محور تشکیل دیتی ہیں، جو اس دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے لیے اسلحہ فراہم کر رہی ہیں۔(قوم سے خطاب، نیوزویک، ۱۱فروری ۲۰۱۲ء)

یہ ہے وہ ذہن (mind-set)، جسے سمجھے بغیر اس نام نہاد جنگ کی حقیقت، اس کے اصل عزائم اور اہداف اور امریکا کی عالمی سیاست میں اس کے کردار کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ ۱۲برسوں میں جو ناقابلِ انکار شہادتیں سامنے آگئی ہیں، ان کا احاطہ جگہ کی تنگی کے باعث یہاں ممکن نہیں۔ تاہم ان کے صحیح اِدراک پر ہی پاکستان کے لیے ایک قومی مفادات سے ہم آہنگ قومی سلامتی پالیسی بن سکتی ہے اور دہشت گردی کی امریکی جنگ سے نکلنے اور ملک میں حقیقی امن اور رواداری کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔

سیاسی حل، نہ کہ قوت کا استعمال

 دہشت گردی ایک تاریخی اور سیاسی مسئلہ ہے، جس کا مقابلہ دہشت گردی پر قابو پانے کی سیاسی اور غیرسیاسی حکمت عملی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی کی بلاشبہہ کوئی متفق علیہ تعریف موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ میں اس مسئلے پر ۶۰برس سے بحث جاری ہے۔ اقوام متحدہ نے جہاں عام حالات میں سیاست میں قوت (violence) کے استعمال کو ناروا اور ناقابلِ قبول قرار دیا ہے، وہیں خاص سیاسی حالات میں حق خود ارادی کی مسلح جدوجہد کو ’دہشت گردی‘ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

قانون، سیاسیات اور سماجیات کے محققین اس پر متفق ہیں کہ ’دہشت گردی‘ کے اسباب کے تعین اور ان کے حل کے بغیراس سے نمٹنا ناممکن ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے  سیاسی حکمت عملی ہی مؤثر ہوسکتی ہے، گو کہ مخصوص حالات میں کچھ حدود کے اندر ریاستی قوت کے استعمال کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ محض قوت کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی بیش تر مساعی بُری طرح ناکام رہی ہیں اور ان کے نتیجے میں دہشت گردی میں بالعموم اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے دہشت گردی کو ملکی دستور اور قانون کے ڈھانچے میں اور سیاسی اور انسانی حالات کی روشنی میں حل کرنے ہی میں خیر ہے۔ ہر دوسرا راستہ ایسی قباحتوں اور خرابیوں کی طرف جاتا ہے جو انسانی معاشرہ، امن و امان، عدل و انصاف، جمہوریت اور آزادی کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہیں۔

امریکا کے تھنک ٹینک رانڈ کارپوریشن نے افغانستان میں ۱۲برس تک لڑی جانے والی جنگ کے پس منظر میں دنیا میں دہشت گرد تنظیموں، کارروائیوں اور مسلح تحریکوں کو قابو کرنے کی عالمی کوششوں کا جائزہ لیا ہے، اور اس رپورٹ کے نتائجِ تحقیق صاف اشارہ کررہے ہیں کہ بالآخر مذاکرات کے علاوہ کوئی اور راستہ مؤثر نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی ان تمام دہشت گرد تحریکوں کے مقابلے اور بڑے خون خرابے کے بعد بالآخر جو حل نکلا ہے اس کی تصویر کچھ ایسی ہے:

  •  ۴۳ فی صد تحریکوں پر قابو پانے کے لیے خالص سیاسی راستہ اختیار کرنا پڑا، جو کامیاب رہا۔
  •  ۴۰ فی صد میں سیاسی راستے کے ساتھ اور ایک تائیدی حربے کے طور پر سول پولیس کو استعمال کیا گیا اور بالآخر سول نظام کے دائرے میں مسائل حل ہوئے۔
  •  ۱۰ فی صد میں سرکاری قوتوں کو شکست ہوئی، دہشت گرد تحریک کامیاب ہوئی اور سیاسی تبدیلی واقع ہوئی۔
  •  ۷ فی صد میں فوجی قوت کے استعمال سے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکا۔

جن مقامات پر قوت کے ذریعے سیاسی بنیادوں پر رُونما ہونے والی دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، ان میں سب سے زیادہ ’کامیاب مثال‘ سری لنکا کی پیش کی جاتی ہے جہاں ۱۹۸۳ء میں تامل ٹائیگرز نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ خودکش بمباری کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا ’سہرا‘ بھی انھی کے سر ہے۔ سری لنکا کے ایک صدرمملکت اور ایک فوجی سربراہ کو بھی انھوں نے دہشت گردی کا نشانہ بناکر ہلاک کیا۔ ۲۶سال پر پھیلی ہوئی اس دہشت گردی اور اس کے خلاف فوجی قوت کے بے دریغ استعمال میں ۴۰ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ۳۰ہزار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عام شہری تھے۔ ۲۰۰۹ء میں سری لنکن فوج کو غلبہ حاصل ہوا، لیکن ایسی بے دردی سے قتل عام کے بعد کہ پوری دنیا چیخ اُٹھی اور چارسال سے اس نسل کشی (genocide) کے خلاف دنیابھر میں آواز اُٹھائی جارہی ہے اور سری لنکا کی سیاسی اور فوجی قیادت پر جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا مطالبہ ہورہا ہے۔

اگر ہم سری لنکا کے مخصوص جغرافیائی، نسلی، لسانی اور تاریخی پہلوئوں سے صرفِ نظر بھی کرلیں اور اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیں کہ یہ مسئلہ ایک مخصوص اور محدود علاقے اور اس کی خودمختاری یا آزادی سے متعلق تھا، تب بھی جس قیمت پر یہ فتح حکومت کو حاصل ہوئی، وہ عسکری حل کو دوسروں کے لیے پُرکشش نہیں بناسکتا۔ لیکن تعجب ہے کہ ہمارے ملک کا لبرل سیکولر طبقہ اور امریکی اور بھارتی لابی کے ہم نوا بڑھ چڑھ کر اس خونیں حکمت عملی کے اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں اور اخبارات اور ٹی وی کے ٹاک شو اس سے بھرے پڑے ہیں، لیکن تاریخ اپنا لوہا منوا کر رہتی ہے۔

ابھی ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو سری لنکا میں علاقائی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان کے نتائج نے اس حکمت عملی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ جافنا اور تامل علاقے میں TNA (The Tamil National Alliance) جو سابق تامل ٹائیگرز کا سیاسی محاذ تھا، اسے ان انتخابات میں حیران کن کامیابی ہوئی ہے۔ صدر راجا پاکسا کی پارٹی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹی این اے نے ۳۸میں سے ۳۰ نشستیں حاصل کی ہیں، جب کہ صدر مہندرا راجا پاکسا اور ان کے اتحادیوں کی کولیشن کو صرف سات نشستیں ملی ہیں۔ ایک نشست مسلمانوں کی جماعت نے حاصل کی ہے۔

رائٹر کے نمایندے نے اسے صدر راج پاکسا کے لیے، جو ۲۰۰۵ء سے صدر ہیں، ’شرمناک شکست‘ قرار دیا ہے۔ اس نے عوام کے اس فیصلے کو اس انتخاب کا اصل پیغام قرار دیا ہے: ’’یہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک بھرپور پیغام ہے کہ تاملوں کی ضرورت ایک سیاسی حل ہے‘‘۔

اس انتخاب میں ۶۸ فی صد نے ووٹ ڈالے اور ٹی این اے نے جافنا جو تحریک کا مرکز ہے، اس میں ۸۴ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ اس کے علاوہ دوسرے ملحقہ علاقوں میں بھی ان کو    ۸۱فی صد اور ۷۸ فی صد ووٹ ملے۔ یہ ہیں وہ تمام علاقے، جہاں فوج نے اندھی قوت کے ذریعے تحریک کو ختم کیا تھا، مگر پہلا موقع ملتے ہی عوام نے انھی مطالبات اور ایشوز کو اُٹھا دیا، جن کو ختم کرنے کے لیے عسکری آپریشن اختیار کیا گیا تھا اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ سُلاکر امن کا پیغام دیا تھا۔ ٹی این اے کے فتح یاب نمایندے ایم اے سماندھیران نے صاف الفاظ میں اعلان کیا ہے :

ہم نے جو سیاسی موقف اختیار کیا تھا، یہ اس کی ایک بڑی تائید ہے۔ ہمارے عوام تشدد اور دھمکیوں کے سامنے جھکے نہیں، کھڑے رہے ہیں۔ اب صدر کو اس فیصلے کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ (ڈیلی سٹار، ۲۲نومبر ۲۰۱۳ء)

ٹی این اے نے مزید مطالبہ کیا ہے کہ: ’’تمام علاقے سے فوج واپس بلائی جائے، جس نے علاقے میں بے پناہ مظالم کیے ہیں‘‘۔ عالمی سطح پر بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوج کی زیادتیوں پر محاسبہ ہو، عالمی قوانین کے مطابق ان سب لوگوں پر مقدمہ چلایا جائے جو جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور سیاسی مفاہمت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اس سارے خون خرابے کے بعد بات پھر سیاسی حل ہی پر آکر رُکی ہے اور امریکا کے دانش ور بھی اس کی تائید کر رہے ہیں۔

’دہشت گردی‘ کے مسئلے کا کوئی حل سیاسی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے سوا نہیں۔ یہ نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس عمل کو بروقت اور صحیح انداز میں کیا جائے یا بعد از خرابیِ بسیار___ ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ اس عمل کو سبوتاژ کرانے میں امریکا، بھارت اور اسرائیل کا ہاتھ ہے اور ان کے گماشتے یہ کھیل کھیل رہے ہیں___ بلاواسطہ بھی اور بالواسطہ بھی۔ حالانکہ افغانستان میں خرابیِ بسیارکے بعد امریکا سیاسی حل کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور    ؎

آنکہ داناں کند ، کند نادان
لیک بعد از خرابیِ بسیار

کی تصویربنا ہوا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل نے امریکا کے طور طریقوں کے بارے میں ایک بار بڑی پتے کی بات بڑے لطیف انداز میں کہی تھی جو آج بھی حقیقت کا رُوپ دھارتی نظر آرہی ہے، یعنی:’’ہم، امریکیوں کو ہمیشہ ان لوگوں میں شمار کرسکتے ہیں، جو صحیح کام تب کرتے ہیں جب وہ دوسرے تمام ذرائع کو ہرطرح سے آزما چکے ہوتے ہیں‘‘۔

امریکا اور برطانیہ کے بڑے خصوصی تعلقات ہیں، اس لیے بالآخر امریکا ان سے صحیح معاملہ کرنے پر تیار ہوجاتا ہے، لیکن پاکستان اور دوسرے ممالک اتنے خوش نصیب کہاں___ وہ تو غلط اقدامات کی چکّی ہی میں پستے رہتے ہیں۔

۱۲سالہ جنگ، کس قیمت پر؟

افغانستان پر امریکی حملہ عالمی قانون، عالمی چارٹر براے انسانی حقوق، ریاستی حاکمیت،  حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اپنے چارٹر اور خود امریکی دستور سے بھی متصادم تھا۔ لیکن طاقت کے زعم، سیاسی اور معاشی غرور و استکبار اور جذبۂ انتقام سے سرشار امریکی قیادت نے قانون کے راستے کو ترک کرکے، اندھی قوت کا استعمال کیا اور چھے ہفتے میں افغانستان کو خاک و خاکستر بنانے، القاعدہ کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے اور طالبان کو ان کی حکم عدولی کی سزا دینے کے لیے ایک ’گلوبل وار آن ٹیررزم‘ کا آغاز کیا۔ ۱۲برس پر پھیلے ہوئے خون خرابے کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اب افغانستان سے بے نیل و مرام نکلنے اور طالبان سے مفاہمت اور مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔

امریکا اور ناٹو کے ۴ہزار سے زیادہ فوجی افغانستان میں ہلاک ہوچکے ہیں، جو۱۱ستمبرکے واقعے میں جاں بحق ہونے والوں سے زیادہ ہیں۔ زخمی ہونے اور اپاہج ہوجانے والے فوجیوں کی تعداد ۳۰ہزار سے زائد ہے۔ جو امریکی فوجی واپس ہوئے ہیں، ان میں خاص طور پر اور خود ان فوجیوں میں جو افغانستان میں ہیں خودکشی عام ہے۔ پھر وہی افغان فوج اور پولیس جسے اربوں ڈالر خرچ کر کے اور بڑے چائو کے ساتھ تربیت دے کر طالبان کے مقابلے کے لیے تیار کیا گیا تھا، اس کے جوانوں نے امریکی اور ناٹو فوجیوں ہی پر حملے شروع کردیے ہیں اور اس کے لیے Green on Blue  (سبز بمقابلہ نیلا) کی نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ اب خود افغان فوج اور امریکی اور ناٹو کی افواج ایک ہی محاذ پر کھڑی نظر نہیں آتیں۔ نہ صرف اعتماد کا رشتہ ختم ہوچکا ہے بلکہ عملاً بھی ان کے درمیان رابطے کو کم کیا جارہا ہے، بلکہ امریکی افواج کو افغان افواج سے محفوظ رکھنے کی تدابیر بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ بن گئی ہیں۔

جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکی حکام نے اس پر بُرا منایا تھا کہ تھنک ٹینکس اور کچھ فوجی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس جنگ کے ذریعے امریکا پر ۱۰۰؍ارب ڈالر کی چپت پڑسکتی ہے۔ لیکن تجربہ اور مشاہدہ یہ بتارہا ہے کہ امریکا کو فوج اور افغانستان پر ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زیادہ ہرسال خرچ کرنا پڑرہے ہیں اور صرف افغانستان میں ان ۱۲برسوں میں ۱۲۰۰؍ارب ڈالر کا بوجھ امریکی معیشت پر پڑچکا ہے۔ اگر عراق کی جھوٹ پر مبنی جنگ کے اخراجات اور یمن وغیرہ میں دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے اخراجات کو بھی شامل کرلیا جائے تو بلاواسطہ اخراجات ۳ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن اگر بلواسطہ معاشی بوجھ کا اندازہ کیا جائے تو وہ ۵ہزار ارب ڈالر سے متجاوز ہیں، جو امریکا کے سالِ رواں کے کُل جی ڈی پی کا ۳۰ فی صد بن جاتا ہے۔

پھر اس جنگ کا جو کردار ۲۰۰۸ء سے رُونما ہونے والے معاشی بحران کے باب میں رہا ہے، اس کا بھی جائزہ لیا جائے تو پوری دنیا اس جنگ کے عذاب میں جھلستی نظر آرہی ہے۔ امریکا میں ۲ہزار۹سو افراد کی ہلاکت ایک سانحہ تھا، جس کی تمام دنیا نے مذمت کی۔ خود طالبان نے سرکاری طور پر اور مُلّاعمرنے اپنے بیان میں اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ سابق افغانی صدر اور طالبان کے مخالف پروفیسر برہان الدین ربانی نے نہ صرف مذمت کی، بلکہ دعوے سے کہا کہ افغانستان سے کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی کوئی کارروائی کرسکے یا کرواسکے۔ لیکن جرم بے گناہی کی سزا میں ڈیڑھ لاکھ افغان موت کے گھاٹ اُتارے جاچکے ہیں، اور ۳۰لاکھ ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔

اسی طرح عراق میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۰لاکھ بتائی جاتی ہے، جس میں ۵لاکھ بچے بھی ہیں۔ خود پاکستان میں ۴۰ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں فوجی جوانوں اور افسران کی تعداد ۵ہزار سے متجاوز بتائی جاتی ہے، جب کہ کتنے اصل دہشت گرد مارے گئے کسی کو علم نہیں۔ امریکا اور مغربی اقوام کی نگاہ میں اپنے چند ہزار فوجیوں یا عام شہریوں کی ہلاکت تو اہمیت رکھتی ہے، لیکن باقی دنیا میں صرف اس ۱۲سالہ جنگ میں کتنے معصوم انسانوں کو لقمۂ اجل بنادیا گیا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ حالانکہ جو کردار امریکا نے اس جنگ میں اختیار کیا ہے، اس کے بارے میں ہرآزاد اور باضمیر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ امریکی اور ناٹو قیادت نے انسانیت کے خلاف بڑے پیمانے پر جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن ان کا حساب دینا ہوگا۔

امریکی راے عامہ کی نظر میں

 یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ امریکا افغانستان اور پوری دنیا میں اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارچکا ہے۔ عراق سے ذلیل و خوار ہوکر اسے نکلنا پڑا، البتہ عراق کو اس نے   تباہ کردیا اور وہاں آج بھی خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ امریکا نے اس جنگ کے آغاز میں ایک دعویٰ کیا تھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا، مگر عملاً دنیابھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ القاعدہ جو افغانستان میں ایک پناہ گزین گروہ تھا، اب دنیا کے طول و عرض میں ایک قوت بن گیا ہے۔ اگرچہ امریکیوں کے دعوے کے مطابق اس کی مرکزی تنظیم کمزور ہوگئی ہے، لیکن اس ایک القاعدہ کے بطن سے اب درجنوں القاعدہ گروہ رُونما ہوگئے ہیں۔ جو راستہ انھوں نے اپنے حالات کی مجبوری میں اختیار کیا تھا، وہ اب دنیا کے دوسرے حصوں میں بلاروک ٹوک اختیار کیا جا رہا ہے اور امریکا کے تمام دعوے خاک میں مل گئے ہیں۔

امریکی خود جنگ سے تنگ آگئے ہیں۔۱۲برس کے کارناموں کا حاصل یہ ہے کہ اب امریکا میں بھی راے عامہ کے تمام جائزے یہ بتارہے ہیں کہ عوام جنگ سے تنگ ہیں اور تازہ ترین سروے کے مطابق ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد ۲۰۰۲ء میں امریکی آبادی کی جتنی عظیم اکثریت (۷۵ فی صد) اپنے کو غیرمحفوظ سمجھ رہی تھی، ۲۰۱۳ء میں بھی عدم تحفظ کی یہی صورت حال برقرار ہے۔ شام پر فوج کشی کے عندیہ کا اظہار کرکے خود امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو کہنا پڑا: ’’امریکی عوام جنگ سے بے زار ہیں اور میں بھی بے زار ہوں‘‘ لیکن پھر ٹیپ کا بند وہی تھا کہ عالمی قانون اور ریڈلائنز کی حفاظت کے لیے فوجی قوت استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

فارن افیئرز امریکا کا مؤقر ترین مجلہ ہے۔ اس کے تازہ ترین شماروں میں اس جنگ اور اس میں استعمال ہونے والے ذرائع، خصوصیت سے ڈرون حملوں کی ناکامی کا واشگاف اعتراف کیا گیا ہے۔ اپنے مضمون Why Drones Fail? میں پروفیسر اوڈری کورتھ کرونن اعتراف کرتا ہے:

ڈرون حملوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ القاعدہ کا پروپیگنڈا بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا ہے، بلکہ انھوں نے اس میں نمایاں طور پر اضافہ کردیا (فارن افیئرز، جولائی/اگست ۲۰۱۳ء،ص ۴۶)۔

وہ کہنے پر مجبور ہے کہ:

پُرتشدد جہادیت، جو نائن الیون سے بہت پہلے بھی موجود تھی جب ’دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ آخرکار ختم ہوگی تو اس کے بعد بھی طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

اور یہ کہ:

 واشنگٹن اب اپنے آپ کو جغرافیائی طور پر پھیلے ہوئے غیرمتعین دشمن کے ساتھ ایک مستقل جنگ میں پاتا ہے، جس کا نائن الیون کے اصل سازش کرنے والوں کے ساتھ بڑا ہی موہوم تعلق ہے۔ اس نہ ختم ہونے والے مقابلے میں امریکا کے لیے اپنے دشمنوں کے تعداد میں بہت بڑھ جانے اور ملک پر حملہ کرنے کے ان کے جذبے میں اضافے کے اندیشے ہیں (ص ۴۸)۔

ڈرون حملوں سے امریکا کو جو کچھ حاصل ہورہا ہے وہ منفی ہے:’’لیکن اس وقت واشنگٹن جو واحد یقینی کام کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ امریکا کے لیے عالمی حمایت کم ہوجائے اور مقامی آبادی اس سے برگشتہ ہوجائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۰)

فارن افیئرز کے تازہ ترین شمارے (ستمبر /اکتوبر ۲۰۱۳ء) میں جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن بڈل نے اپنے مضمون Ending the War in Afghanistan میں صاف اعتراف کیا ہے کہ اب امریکا کے سامنے مکمل شکست یا طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں:

اس جنگ کے صرف دو حقیقی متبادل ہیں، جن میں سے کوئی بھی خوش گوار نہیں ہے: ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ یہ کوئی امرت نہیں ہے لیکن یہ مکمل شکست کا واحد متبادل ہے۔ (ص ۵۰)

حالات کے مفصل جائزے کے بعد لکھتا ہے: ’’طالبان کے ساتھ صلح ایک کڑوی گولی کی طرح نگلنا ہوگی، مگر اس مرحلے پر یہ دوسرے متبادل کے مقابلے میں کم درجے کی قربانی ہوگی‘‘۔(ص۵۵)

اسے اعتراف ہے کہ مشکلات حائل ہیں، لیکن پھر بھی راستہ یہی ہے۔ انجامِ کار اس کا برملا مشورہ اس کڑوی گولی کو نگلنا ہی ہے:

مذاکرات کی بنیاد پر تصفیے میں رکاوٹیں بہت ڈرانے والی ہیں، تاہم اس طرح کا معاملہ ابھی بھی افغانستان میں امریکا کے لیے سب سے آخری بُرا متبادل ہے۔ اگر وائٹ ہائوس تصفیے کی ایک سنجیدہ کوشش کی قیمت قبول کرنے کے لیے رضامند نہیں ہے ، تو پھر یہ وقت ہے کہ امریکا اپنے نقصان کم کرے اور افغانستان سے ابھی باہر آجائے۔(ص ۵۷)

انگلستان کے مؤقر جریدے Prospect (پراسپیکٹ)نے ستمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ایک پورا حصہ جس موضوع کے لیے وقف کیا، وہ یہ ہے:

Admit it - We Lost: Why did the Afghan war go wrong?

تسلیم کرو! ہم ہار گئے ہیں: افغان جنگ کیوں غلط تھی ؟

مضمون نگار رسالے کا مدیر ہے اور اس نے صاف الفاظ میں اس ۱۲سالہ ناکام تجربے کے بارے میں کہا ہے کہ: ’’یہ جنگ غلط تھی۔ ہمارے سارے دعوے حقیقت پر مبنی نہیں تھے‘‘ اور یہ کہ انگلستان کے لیے یہ جنگ نہ صرف ناکام جنگ تھی، بلکہ ناکام ترین جنگ ثابت ہوئی، جو عراق میں جنگ کی شکست سے بھی کچھ زیادہ ہی ناکام رہی۔ وہ افواج جو افغانستان کو امن اور سلامتی فراہم کرنے اور طالبان کا قلع قمع کرنے کے لیے گئی تھیں، ان کا سپریم کمانڈر ،یعنی ملک کا وزیراعظم  اب یہ کہنے پر مجبور ہے کہ: ’’طالبان کے ان سارے ’دقیانوسی خیالات‘ اور ’غیرمہذب طور طریقوں‘ کو بھول کر، جو جنگ کا سبب قرار دیے گئے تھے، ہم افغانستان میں امن اور استحکام چاہتے ہیں۔    ہم طالبان کی ان کے ملک میں واپسی چاہتے ہیں‘‘۔

برون وین مڈوکس نہ صر ف جنگ کی تباہ کاریوں کو بیان کرتے ہوئے شکست کا اعتراف کرتا ہے اور جنگ کے خاتمے اور افواج کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، بلکہ ایک آزاد اور مؤثر تحقیقات کا بھی مطالبہ کرتا ہے، تاکہ جنگ میں جانے اور جنگ میں ادا کیے جانے والے کردار کا بھرپور محاسبہ ہوسکے اور آیندہ ایسے تباہ کن تجربات سے بچاجاسکے۔ شاید یہ اس جنگ کا سایہ ہی تھا جس نے برطانوی وزیراعظم کو شام پر فضائی حملہ کرنے کا شوق پورا کرنے سے محروم رکھا۔

سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے سبق

افغانستان میں جنگی ناکامی اور دہشت گردی کے مسئلے کے فوجی حل کے دیوالیہ پن اور سیاسی حل کی ضرورت پر حال ہی میں ایک بڑی دل چسپ کتاب شائع ہوئی ہے جس میں ہمارے سیاست دانوں اور عسکری قیادت کے لیے چشم کشا حقیقتیں درج ہیں۔ یہ کتاب افغانستان میں برطانیہ کے سابق سفیر شیرارڈکوپل نے اپنے افغانستان میں قیام کے دوران کی یادداشتوں پر مشتمل Cables from Kabul کے نام سے لکھی ہے جو ہارپر پریس لندن نے شائع کی ہے۔ اس کے مفصل اقتباسات دی سنڈے ٹائمز نے اپنی ۲۳جولائی ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں شائع کیے ہیں۔ ان میں سے چند ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں، جو توقع ہے کہ اُن تمام افراد کے لیے بڑے مفید ہوں گے جو کُل جماعتی کانفرنس کے تجویز کردہ سیاسی حل اور مذاکرات کے ذریعے امن کی حکمت عملی کو ہدفِ تنقید بنارہے ہیں، بلکہ اس جنگ کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ مزید فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو بگاڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں:

آہستہ آہستہ یہ واضح ہوگیا کہ طالبان کمزور ضرور ہوئے ہیں، لیکن شکست سے بہت دُور ہیں۔ انھیں امن کے عمل میں مصروف کرنے کے بجاے امریکیوں نے یہ یقین کرنے کی تباہ کن غلطی کی کہ وہ طالبان کو محض طاقت سے شکست دے سکتے ہیں۔ عراق کی  غلط مثال کی پیروی کرتے ہوئے وہ فوجوں کی تعداد میں باربار اضافہ کرتے رہے۔

یہی نہیں افغانستان کے آزادی پسند لوگوں پر باہر سے دستور مسلط کیا گیا اور عوام اور مزاحمت کرنے والی قوتوں سے یورپ میں تیار ہونے والے اس دستور پر عمل کی توقع کی گئی: اس کے بعد ہم نے جو مہینے گزارے، ان میں ہم نے ایک امریکی کو یہ اجازت دے کر اپنی غلطی میں اضافہ کیا کہ وہ افغانوں پر ایسا دستور نافذ کرے، جو ایک فرانسیسی نے مرتب کیا تھا۔ یہ اٹھارھویں صدی کے یورپی دستوری نمونے کا مکمل چربہ تھا، جو افغانستان کے اصل سیاسی جغرافیے اور تاریخ کے بالکل خلاف تھا۔ اس میں اگلے ۲۰برسوں میں ۱۴قومی انتخابات تجویز کیے گئے تھے۔ دستوری کانفرنس میں موجود بیش تر افغان مندوبین کی خواہشات کے برعکس، بہت محبوب افغان بادشاہت کو بھی ختم کردیا گیا۔ یہ وہ دستور ہے جس کے لیے ہمارے سپاہی لڑ رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔

طالبان اور دوسرے آزادی پسند عناصر نے اگر کچھ لچک کا مظاہرہ بھی کیا، تو اس کا بھی ان کو کوئی مثبت ردعمل نہ ملا۔ نتیجتاً افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج جنگ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے۔ ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کوشش بھی کی، مگر لاحاصل:

القاعدہ سے علیحدگی کے واضح اشارے کے طور پر طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان کو ایک ایسے اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جہاں سے دوسرے ملکوں پر حملے کیے جائیں۔ اس بات کی شہادت بھی موجود تھی کہ پٹھان کسانوں میں جو سوچنے سمجھنے والے تھے اور جو طالبان کی افواج کا بیش تر حصہ تھے، وہ اپنے گھروں اور کھیتوں کو واپس جانا چاہتے تھے۔ مگر ان زیادہ معتدل رجحانات کے ساتھ کام کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے بجاے ناٹو کا جواب یہ تھا کہ: ’تشدد میں اضافہ کردیا جائے‘۔ ۲۰۱۰ء کے موسم گرما میں جب افغانستان میں کمانڈر کی حیثیت سے جنرل اسٹینلے کے بجاے جنرل ڈیوڈ پیٹرس آیا، تو اسپیشل فورسز کے فضائی حملوں اور رات کی کارروائیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ناٹو کے نئے کمانڈر کے آنے کے بعد فضا سے بمباری تین گنا بڑھ گئی۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر اوباما کے پہلے خصوصی نمایندے رچرڈ ہال بروک نے اپنے سفارتی کیریئر کا آغاز  جنوبی ویت نام میں خارجہ افسر کی حیثیت سے کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف طاقت کا استعمال بغاوتوں کو دبا تو سکتا ہے، مگر ان کو ختم نہیں کرسکتا۔

امریکی حکمت عملی کا ایک اور اہم حصہ افغانستان میں اپنی پسند کے سیاست دانوں کو مضبوط کرنا اور اپنی خواہشات اور مفادات کے مطابق فوج اور پولیس تیار کرنا تھا۔ اس پر بھی اربوں ڈالر ہرسال خرچ کیے گئے، معاشی ترقی کے منصوبوں سے بھی زیادہ۔ مگر اس کا حشر بھی قابلِ دید ہے:

افغانستان کو مغربی فوجوں کے بجاے افغان فوجوں کے ذریعے گیریژن (حفاظتی نقطۂ نظر سے تعیناتی ) کی حکمت عملی کی کامیابی کی سب باتوں کے باوجود، افغان فوج اور پولیس کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں۔ مزید جیساکہ افغانستان کے ایک اعلیٰ برطانوی افسر نے بتایا ہے ساڑھے تین لاکھ کی فوج ہرسال ۵۰ہزار ملازمت سے بھاگنے والے برداشت نہیں کرسکتی۔

برطانوی سفیر کی نگاہ میں سیاسی حل ہی واحد حل ہے، جس کے بارے میں وہ بڑے وثوق سے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے، سفیرصاحب کے اس تجزیے میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے بھی بڑا سبق ہے، بشرطیکہ وہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان تاریخی حقائق پر غور کریں:

جیساکہ دنیا کے بیش تر تنازعات میں ہوتا ہے بشمول شمالی آئرلینڈ، وہی بات افغان جنگ کے لیے بھی درست ہے، یعنی وسیع حدود میں ایک ہی دانش مندانہ حل ہے۔

شمالی آئرلینڈ سے جو دوسرا سبق سیکھا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے آغاز سے ہی یہ یقینی بنایا کہ فوجی کوششیں ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہوں، جو باغیوں کو نئے دستوری تصفیے میں کوئی مقام دیتی ہوں۔ بہت پہلے ۱۹۷۲ء میں، جو خونیں اتوار کا سال تھا، جب سیکرٹ انٹیلی جنس سروس کے بہادر افسروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ آئرلینڈ کے  طول و عرض میں سفر کریں تاکہ پرویژنل آرمی کونسل کو یہ پیغام جائے کہ اگر IRA (آئرش ری پبلکن آرمی)تنازعے کو ختم کرنا چاہتی ہے تو مذاکرات کا راستہ کھلا ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ افغان جنگ میں امریکا ایک بہت آسان اور یک رُخے نقطۂ نظر پر جما رہا، یعنی کائوبوائے والا رویہ! سوچ کے دائرے بڑے محدود رہے:   اچھے لوگ اور بُرے لوگ، افغان افواج اور دہشت گرد طالبان۔ بیش تر امریکی گہرے قدامت پسند اور شدت سے مذہبی بنیاد پرست طالبان اور القاعدہ کے عالمی عرب جہادیوں کو ایک جیسا سمجھتے تھے۔

حالیہ دنوں تک اعتدال پسند طالبان سے معاملہ کرنا، تاکہ ان کے اور ان کے جنگ جُو،   نہ ماننے والوں کے درمیان دراڑ ڈال کر انھیں ان کے سابق عرب مہمانوں سے علیحدہ کردیا جائے، اس کا مغربی حکمت عملی میں کوئی حصہ نہ تھا۔ دہشت گردوں سے بات چیت کرنا ان کو ممنون کرنا سمجھا جاتا تھا۔ جرنیلوں کو اجازت دی گئی کہ وہ فوجی فتح کا نہ صر ف وعدہ کریں بلکہ زیادہ حیرت انگیز طور پر اس کا اعلان بھی کردیں۔

افغانستان کے اندر اور اس کے ہمسایوں کے درمیان امن کے لیے واحد قابلِ عمل راستہ مذاکرات ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب جب ناٹو سنجیدگی سے بات کرنا چاہ رہی ہے، شاید طالبان نہیں چاہ رہے۔ افغانستان کی تکالیف ابھی کچھ عرصہ جاری رہیں گی۔

افغانستان جانے سے پہلے ۲۰۰۷ء میں ناٹنگم شائر کے ایک کارکن نے مجھ سے کہا:   ’’تمھیں طالبان سے بات چیت کرنا پڑے گی‘‘۔ ہزاروں جانیں بچ جاتیں اور اربوں پائونڈ بچ جاتے اگر عقل عام کی اس معمولی بات پر تب عمل کرلیا جاتا، اب نہیں۔

کیا اب بھی یہ راستہ استوار ہوسکے گا؟ کہنا مشکل ہے، مگر راستہ اس کے سوا کوئی اور نہیں اور پاکستان میں تو افغانستان کے مقابلے میں ۱۰ہزار گنا زیادہ ضروری ہے۔ وہی قومی سلامتی پالیسی بارآور ہوسکتی ہے، جو حقائق پر مبنی ہو اور تاریخی حقائق، اور ہمارے حالات اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنائی جائے۔ ملک اس وقت بڑے نازک مرحلے میں ہے اور طالبان کا نام لینے والے چند عناصر کی کارستانیاں بھی ایک منفی کردار ادا کررہی ہیں اور اس سمت میں ملک کو دھکیل رہی ہیں،  جو علاقے کے لیے امریکی اور بھارتی عزائم کے لیے مفید اور ملک کی سیکولر لبرل لابی کی تمنا ہے۔

سیاسی عمل اور مذاکرات کو آغاز سے پہلے ہی سبوتاژ کرنے کے لیے ایک شوشہ یہ بھی چھوڑا جارہا ہے کہ بات چیت سے پہلے یہ اصول تسلیم ہونا چاہیے کہ دوسرا فریق دستور کو تسلیم کرے اور اس کے فریم ورک میں مذاکرات ہوں۔ سیاست، اور جنگ اس کا ایک حصہ ہے، کام ہی دوستوں اور دشمنوں دونوں سے معاملات کرنے کا ہے۔عین جنگ کے عالم میں بھی مذاکرات ہوتے ہیں اور  فتح و شکست سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہائی جیکنگ اور اغواکاری کے واقعات بڑے تلخ اور صبرآزما ہوتے ہیں لیکن ہائی جیکر اور اغواکار سے بھی معاملات کیے جاتے ہیں۔ ایجاب و قبول کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ دستور کو پہلے منوانے کی بات وہ سیاسی بقراط بھی کررہے ہیں جو خود دستور کی اساس___ یعنی اسلام اور قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے کھلے کھلے داعی ہیں۔ جن کی دستور سے وفاداری کا عالم یہ ہے کہ وہ  کسی بھی بنیادی معاملے میں دستور کے واضح احکام پر اپنی راے کو فوقیت دینے اور دستور کے نفاذ کو بے اثر ( subvert)کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ دستور سود کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، وہ سود کے محافظ ہیں۔ دستور فحاشی اور بداخلاقی کی مخالفت کرتا ہے، وہ اس کے فروغ میں مصروف ہیں۔ دستور قرآن و سنت کی تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کو دین کے ہراثر سے پاک کردینا چاہتے ہیں۔ دستور قانون کی حکمرانی کا داعی ہے اور مقررہ قانونی کارروائی (due process of law)  کے بغیر کسی شہری کو اس کی آزادیوں سے محروم نہ کیے جانے کی ضمانت دیتا ہے، اور ان کا عمل یہ ہے کہ ہزاروں افراد لاپتا ہیں اور ریاست کی عمل داری (writ) کی کسی کو فکر نہیں۔ پھر جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے، اس علاقے کو تو دستور کے ان پاسبانوں نے دستور کی دسترس سے خود ہی باہر کردیا ہے اور دوسروں سے دستور کو پہلے ماننے کی بات کررہے ہیں۔ ہم بھی دل سے دستور کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے لیے سرگرم ہیں لیکن جن حالات میں ملک کو ان حکمرانوں نے جھونک دیا ہے ان سے نکلنے کے لیے حکمت اور تدبیر کے ساتھ انسانی تاریخ کے کامیاب تجربات کی روشنی میں راستہ نکالنا ہوگا اور سیاسی عمل کو مؤثر بنانے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں یا ڈالی جارہی ہیں ان کو دُور کرنا ہوگا۔ اس دلدل سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔

 اُوپر کی بحث کی روشنی میں نئی سلامتی پالیسی کیا ہونی چاہیے اور اسے کن کن پہلوئوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے؟ اس کے لیے چند اشارات پیش کیے جارہے ہیں۔

سلامتی پالیسی کے لیے رھنما خطوط

۱- قومی سلامتی کی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ اسے عوام کی تائید حاصل ہو۔ حکومت کی  اور عوام کے جذبات،احساسات، توقعات اور عزائم میں اگر بُعد ہوگا تو وہ پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دہشت گردی کے سلسلے میں جنرل مشرف کے دور سے جو پالیسیاں ملک پر مسلط کی گئی ہیں، ان کو قوم کی تائید حاصل نہیں رہی اور صحیح نتائج نہ نکلنے میں بڑا دخل اس اندرونی تضاد کا ہے۔

۲- دہشت گردی کے مسئلے کی اصل حقیقت کو سمجھے بغیر کوئی پالیسی نہیں بن سکتی۔ اس مسئلے کے کم از کم چار پہلو ایسے ہیں، جن کا سمجھنا اور ان کی روشنی میں صحیح پالیسی بنانا ضروری ہے:

اوّل: مسئلے کا گہرا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی، علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی اور اس پر عمل درآمد بشمول ڈرون حملے، پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت، معیشت اور فوج کے معاملات پر ان کے اثرات، افغانستان میں ان کی کارروائیاں اور ان کے پاکستان پر اثرات سے ہے۔ اس لیے محض دہشت گردی کے خلاف پالیسی کے کوئی معنٰی نہیں۔ خارجہ پالیسی، افغانستان میں امریکا کا کردار اور پاکستان کی اس میں شرکت اور خود پاکستان میں اس کے اثرات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کو الگ کر کے کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنائی جاسکتی۔ یہ وہ بنیادی بات ہے، جس کو پارلیمنٹ کی ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء، اور ۱۴مئی ۲۰۱۱ء کی قراردادوں میں واضح کیا گیا ہے اور پارلیمانی کمیٹی براے قومی سلامتی نے اس پر تفصیلی ۶۰نکات سے زیادہ پر مبنی اپنی رپورٹ دی ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔

دوم: دہشت گردی کے خلاف پالیسی اور بغاوت کے خلاف پالیسی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان کو گڈمڈ کرنے کے نتائج بڑے خوفناک ہوسکتے ہیں۔ سری لنکا کی مثال سرکاری حلقے اور میڈیا باربار دے رہے ہیں، لیکن وہ اس مغالطے پر مبنی ہے کہ بغاوت کے خلاف پالیسی کو دہشت گردی کے خلاف پالیسی بنایا جاسکتا ہے۔ سری لنکا کا مسئلہ کئی اور پہلوئوں سے بھی مختلف ہے اور اس کی بھی جو قیمت قوم کو دینا پڑی ہے اور مسلسل دے رہی ہے، وہ ایک الگ پہلو ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ اور ملک میں مستقلاً آمرانہ نظام کا قیام الگ پہلو ہے، لیکن اپنی اصل اور جوہر کے اعتبار سے وہ پالیسی دہشت گردی کے خلاف مؤثر نہیں ہوسکتی۔

سوم: پاکستان میں جس چیز کو دہشت گردی کہا جا رہا ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ افغان طالبان الگ شے ہے۔ جسے پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے، وہ بھی مختلف عناصراور گروہوں کا مرکب ہے، جس میں باہم کوئی ربط یا وحدتِ نظم نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد ایک الگ شے ہے۔ مرکز گریز اور علیحدگی پسندی کے لیے کام کرنے والے گروہ مختلف نوعیت کا چیلنج پیش کرتے ہیں، جب کہ عام مجرموں نے جس طرح اس صورت حال کا فائدہ اُٹھایا ہے یا کچھ مخصوص سیاسی اور  مذہبی گروہوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے، ان کے لیے الگ الگ حکمت عملی اور اقدام کی ضرورت ہوگی۔اسی طرح کراچی کا مسئلہ اپنا الگ رنگ رکھتا ہے اور اس میں  سیاسی اور دوسرے عناصر سے نبٹنے کے لیے الگ حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔

چہارم: ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی، شدت پسندی، تشدد، فرقہ واریت، عدم رواداری ___ ہر ایک کا اپنا مخصوص مسئلہ ہے اور اصلاح کا راستہ مختلف ہے۔ ان سب کو باہم دگر ملادینا سخت نقصان دہ اور غیرحقیقت پسندانہ پالیسی ہے۔

ان چاروں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ہر پہلو کے لیے الگ پالیسی اور اقدامات درکار ہوں گے۔ یہ سب مجموعی قومی سلامتی پالیسی کے اجزا ہوں گے، لیکن ہر ایک کو مجموعی پالیسی کے فریم ورک میں  دیکھنا ہوگا۔

۳- بنیادی مسئلے کا حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، لیکن دوسرے متعلقہ پہلوئوں کے لیے دستور اور قانون کے دائرے میں ریاستی قوت کا صحیح استعمال بھی درکار ہوگا۔ اس کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، ان سب کا اہتمام ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کی قراردادوں میں یہ بار بار کہا گیا کہ مسئلے کا اصل حل سیاسی ہے اور اس کے لیے مذاکرات کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ البتہ اس کے لیے اپنے اپنے دائرے میں اور اپنے اپنے آداب کے ساتھ پیش رفت اور رکاوٹ (deterrance) دونوں ضروری ہیں۔ موجودہ حالات میں اس فریم ورک میں نیا نقشۂ کاربنانا ہوگا۔

۴- حکومت کی پالیسی کی سطح پر ناکامی کے ساتھ پانچ مزید پہلو ہیں، جن کے لیے مناسب اقدام کرنے ہوں گے:

  •                خفیہ معلومات کی فراہمی میں ناکامی اور  متعلقہ اداروں میں باہمی رابطے کی کمی۔
  •                پولیس، انتظامیہ اور انٹیلی جنس میں سیاسی اثرونفوذ، تقرریاں اور سیاسی عناصر کا کردار۔
  •                سیاسی قیادت اور انتظامیہ کی نااہلی، جانب داری، سیاسی مفاد پرستی یا مفاہمت ۔
  •                مرکز اور صوبوں میں ہم آہنگی کی کمی۔
  •                سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی کی کمی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جواب دہی میں ناکامی۔

کوئی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ان پانچ اُمور کو صحیح طور پر طے نہ کرلیا جائے۔

۵-پاکستانی سیاست، دہشت گردی کے خلاف اقدام، مذہبی منافرت، علیحدگی پسندی کی تحریکیں، ان سب میں بیرونی قوتوں کے کردار کو محض ’سازش‘ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔  یہ مداخلت اور کردار بھی ایک حقیقت ہے اور اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کئی ممالک اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار خطرناک حد تک موجود ہے۔ امریکا اور بھارت بڑے کردارہیں لیکن مقامی قوتیں بھی اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے اپنا اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ جامع پالیسی کے ذریعے ان تمام پہلوئوں کا بھی پورا پورا توڑ کرنا ضروری ہے۔

۶- قومی سلامتی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام پہلوئوں کا اِدراک کیا جائے اور حقیقت پسندی، جرأت، بیرونی دبائو سے آزاد ہوکر، قومی مفاد میں اور قوم کو اعتماد میں لے کر اس کے عزائم اور احساسات کی روشنی میں اسے تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلے میں اس وقت برطانیہ کی اس مثال کو پیش نظر رکھا جائے کہ برطانوی حکومت جو شام پر حملہ کرنا چاہتی تھی، اسے کس طرح پارلیمنٹ اور عوام کی راے کے دبائو میں پالیسی بدلنا پڑی ہے۔ امریکا میں بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستان میں عوام کی راے کو جس بے دردی سے نظرانداز کیا گیا وہ مہلک تھا۔ اب اس روش کو یکسر تبدیل ہونا چاہیے اور نئی پالیسی تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر بنانے کی ضرورت ہے۔

۷-یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے، کہ اس نوعیت کے تنازعات اور دہشت گردی کے باب میں پیدا ہوجانے والے حالات میں مذاکرات کا کوئی ایک ٹریک نہیں ہوسکتا۔ نیز مذاکرات  ٹی وی شو کے ذریعے نہیں کیے جاتے۔ ہمارے مخصوص حالات میں اس امر کی ازبس ضرورت ہے کہ مذاکرات، مذاکرات سے پہلے کے اقدام اور ان کی ترجیحات، مذاکرات کے اصل اہداف اور سب سے بڑھ کر ملک کے حالات اور علاقے کی روایات کی روشنی میں بہت سوچ سمجھ کر، مشاورت کے ساتھ اور اپنے حالات کی مناسبت سے ترتیب دیا جائے۔

۸- یہ امر بھی سامنے رہے کہ مذاکرات اور پورے سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں بہت سرگرم ہیں اور ہوشیار بھی ہیں۔ ان تمام خطرات، رکاوٹوں اور دراندازیوں کی بھی پیش بندی کرنا ہوگی جو اس نوعیت کے حالات کا لازمی حصہ ہیں۔ اس کام کے لیے اہداف کا صحیح صحیح تعین، روڈمیپ کا شعور اور اس کی تیاری، مفید قوتوں سے تعاون اور مخالف اور مذاکرات کو درہم برہم کرنے والی قوتوں کو قابو کرنے اور ان کے شر سے اس عمل کو محفوظ بنانے کے لیے کب اور کون سی تدابیر ضروری ہیں، ان کا اِدراک اور اہتمام بھی ضروری ہے۔ ایسے پیچیدہ حالات میں غیرحکیمانہ حل کی تلاش اور جلدبازی میں حکمت عملی میں تبدیلیاں تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان مسائل کی اہمیت اور پیچیدگیوں کو سامنے رکھ کر حکمت اور استقامت کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے اور راستے کی مشکلات اور مواقع کو سامنے رکھ کر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی قومی اہداف کے  حصول کے لیے کوشش کی جائے، اور کسی بھی معاملے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور جذبات اور اندرونی و بیرونی دبائو، دونوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے___ وما علینا الا البلاغ