’’ہمارا ملک مسلمان ہے، لیکن پابندیاں ایسی کہ غیرمسلموں کے ہاں بھی نہیں۔ ہمارے ہاں ۱۸برس سے کم عمر کا کوئی نوجوان مسجد میں نہیں جاسکتا۔ سرکاری اداروں یا تعلیم گاہوں میں نہ کوئی شخص چہرے پہ سنت نبویؐ سجاسکتا ہے، نہ کوئی خاتون یا بچی سرپہ اسکارف رکھ سکتی ہے۔ خواتین کو پردے کی آزادی ہے، لیکن صرف گھر کے اندر۔ گھروں میں ماں باپ بھی اپنے بچوں کو قرآن کریم یا دیگر دینی علوم کی تعلیم نہیں دے سکتے، اگر والدین اس ’جرم‘ کا ارتکاب کرتے پکڑے جائیں، تو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص اپنے گھر کے اندر یا مسجد کے علاوہ کہیں نماز ادا نہیں کرسکتا۔ ایسا ’سنگین جرم‘ بھی بھاری جرمانے کا موجب بنتا ہے‘‘___ شہروں میں نمازِ جمعہ کی اجازت ملنے کے لیے ۳۰ سے ۵۰ہزار تک اور دیہات میں ۱۰سے ۱۵ہزار تک نمازی دستیاب ہونے کا ثبوت ہو تو نمازِ جمعہ ادا ہوسکتی ہے وگرنہ نہیں۔ دینی مدارس پر پابندی ہے، صرف سرکاری طور پر رجسٹرڈ مدارس ہی متعین علوم پڑھا سکتے ہیں اور ۷۰اضلاع پر مشتمل ملک میں صرف ۱۷ رجسٹرڈ مدارس ہیں‘‘۔ تاجکستان میں تحریک نہضت کے صدر اور رکن اسمبلی محی الدین کبیری عالمی کانفرنس براے مسلم قائدین میں اپنا حال سنا رہے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ آج: حقوقِ انسانی، حقوقِ نسواں، آزادیِ اظہار اور نہ جانے کن کن نعروں کا ورد کرنے والی دنیا میں ہورہا ہے۔
تاجکستان ہی نہیں، پورے عالمِ اسلام کے یہ مسلم رہنما اور اسلامی تحریکوں کے قائدین ۲۵،۲۶ستمبر کو دو روزہ عالمی کانفرنس میں شریک تھے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان سیّد منورحسن کی دعوت پر مختصر وقت میں ۲۰ممالک سے ۴۰ سے زائد رہنما اور پارٹی سربراہ تشریف لائے اور اُمت محمدؐ کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیتے ہوئے، ان سے نکلنے کی راہیں تلاش کیں۔ بدقسمتی سے اُمت صرف مسائل ہی کا شکار نہیں، ایک دوسرے سے لاتعلق اور دُور بھی کردی گئی ہے۔ تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبے اسلام آباد سے صرف ۱۳۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یعنی تقریباً اسلام آباد، کراچی جتنا، لیکن وہاں سے آنے والے مہمانوں نے بتایا کہ: ’’ہم تین روز میں لاہور پہنچے ہیں۔ دوشنبے سے کابل، کابل سے دبئی اور دبئی سے لاہور‘‘۔یہی حال موریتانیا سے تشریف لانے والے علامہ محمدالحسن الدیدو کا تھا۔ وہ دارالحکومت نواکشوط سے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم، وہاں سے استنبول، وہاں سے اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ علامہ محمدالحسن موریتانیا ہی نہیں، عالمِ عرب کے انتہائی قابلِ احترام عالمِ دین ہیں۔ قرآن کریم اور حدیث کے متون (texts)، پوری پوری اسناد کے ساتھ حفظ ہیں۔ یہ بھی بتادیتے ہیں کہ فلاں حدیث اس بندۂ فقیر نے اپنے استاد فلاں، انھوں نے فلاں اور انھوں نے فلاں سے سنی، یہاں تک کہ یہ سلسلہ خود رسول اکرمؐ تک پہنچ جاتا ہے۔ میرا مقصد کسی کی تعریف نہیں، یہ عرض کرنا ہے کہ اس کانفرنس میں کتنی اہم شخصیات، اپنے اخراجات پر، طویل سفر کی مشقتیں برداشت کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائی تھیں۔
الاخوان المسلمون مصر کے رہنما آخری وقت تک ویزے کے لیے کوشاں رہے، لیکن انھیں ویزا ملا تو کانفرنس کا پہلا روز گزرجانے کے بعد۔ اسی طرح الاخوان المسلمون شام کے سربراہ بھی آخری لمحے تک ویزا حاصل نہ کر سکے۔ یہاں پر ہمیں یہ اعتراف بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے دیگر تمام مہمانوں کو ویزا دینے میں پورا تعاون کیا اور اکثر ویزے بلاتاخیر مل گئے۔
کانفرنس میں مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین، کشمیر، اراکان کے حالیہ بحرانوں کے علاوہ اُمت کو درپیش دیگر سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی چیلنجوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ امیرجماعت سیّدمنورحسن نے اپنے افتتاحی خطاب میں بنیادی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے مہمانوں کو دعوتِ مشاورت دی۔ الاخوان المسلمون اُردن کے سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید نے مصر کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’اگرچہ قتل و غارت اور گرفتاریاں اب بھی جاری ہیں، لیکن باعث ِا طمینان امر یہ ہے کہ مصری عوام کی اکثریت نے اس انقلاب کو مسترد کردیا ہے۔ اب بھی روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں۔ ہفتے میں کم از کم دوبار ملک گیر مظاہرے ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے یونی ورسٹیاں کھل جانے کے بعد اس تحریک میں ایک نئی روح دوڑگئی ہے۔ حکومت نے جابرانہ آرڈی ننس جاری کرتے ہوئے کسی بھی طالب علم کو تعلیمی اداروں یا ہاسٹلوں سے بلانوٹس گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں، لیکن طلبہ خوف زدہ ہونے کے بجاے مزید فعال ہورہے ہیں۔
اخوان کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دینے اور تمام اثاثہ جات ضبط کرلینے کے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’اس سے پہلے بھی ۱۹۴۹ء اور ۱۹۵۴ء بھی اخوان کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، لیکن الحمدللہ ان کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکی‘‘۔ جنرل سیسی کے مضحکہ خیز اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا:’’عجیب منطق ہے۔ پہلے اخوان کے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا، پھر اخوان کو کالعدم قرار دیا گیا اور اب ان گرفتارشدگان پر یہ مقدمات چلائے جارہے ہیں کہ ان کا تعلق ایک غیرقانونی تنظیم سے ہے‘‘۔
شام کی صورت حال پر بھی سب نے تفصیلی بات کی۔ ۱۹۷۰ء سے شامی عوام کی گردنوں پر مسلط اسدخاندان نے صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے گذشتہ پونے تین سال کے عرصے میں بچوں ، بوڑھوں اور خواتین سمیت ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد بے گناہ انسان تہِ تیغ کردیے ہیں۔ بظاہر شام کے مسئلے پر دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف امریکا اور دوسری طرف روس کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن عملاً دونوں کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ ہے شام کی مزید تباہی، اور شام کو اس کی قوت کے تمام مظاہر سے محروم کردینا۔ ۲۱؍اگست کو ڈکٹیٹر بشارالاسد کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور ڈیڑھ ہزار افراد کے قتلِ عام کے بعد، پورے خطے میں عالمی جنگ کا ایک ماحول بنا دیا گیا۔ امریکا اور روس بھی آمنے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوتے دکھائی دیے۔ پھر بالآخر جو مقاصد، امریکا جنگ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا، روس نے مذاکرات کے ذریعے حاصل کروا دیے اور اب اقوامِ متحدہ نے بھی کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ امریکی دھمکیوں کا مقصد بشار جیسے درندے کا خاتمہ نہیں، شام کو اس کی کیمیائی صلاحیتوں سے محروم کرنا تھا، کیونکہ اس سے صہیونی ریاست کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ شام کی صورت حال دنیا کے دوہرے معیار بھی مزید بے نقاب کررہی ہے۔ وہی دنیا جس نے ڈیڑھ ہزار افراد کے قتل کو بنیاد بناکر پورے خطے کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا، ایک لاکھ سے زائد انسانوں کے قتل پر صرف بیان بازی کررہی ہے۔ سنگین ترین بات یہ ہے کہ اس وقت یہی عالمی قوتیں شام کی تقسیم کے لیے کوشاں ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ جلد ہی ۱۹۱۶ء کے سایکس، پیکو (فرانسیسی اور برطانوی وزیرخارجہ) معاہدے کی طرح کیری،لافروف (امریکی اور روسی وزیرخارجہ) معاہدہ بھی مسلم خطے کو تقسیم کرتے ہوئے اسے تاریخ کا سیاہ باب بنادے ۔
تیونس سے تحریک نہضت کے بزرگ رہنما اور نائب صدر عبدالفتاح مورو اپنے وفد کے ساتھ شریک تھے۔ انھوں نے جہاں دعوت و تربیت کے میدان میں تحریکات کو درپیش مختلف چیلنجوں کا جائزہ لیا، وہیں تیونس کی منتخب حکومت ختم کرنے کے لیے اپوزیشن کی ماردھاڑ پر مبنی تحریک کا خلاصہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ: ’’گذشتہ چند ماہ میں مختلف اپوزیشن رہنمائوں کو قتل کرکے اس کی آڑ میں سیاسی بحران پیدا کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن صرف ۶۰ افراد پر مشتمل ہے، لیکن اپنی ہی برپا کی ہوئی اس قتل و غارت کو بنیاد بناکر اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے گذشتہ تقریباً دوماہ سے اسمبلی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ دستور ساز اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں تین ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ دستور کا مسودہ بھی تقریباً تیار ہے، لیکن اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ اگر تحریکِ نہضت کی حکومت کے زیرسایہ حقیقی انتخاب ہوگئے، تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ مختلف وجوہ کی بنا پر تیونس میں فوجی انقلاب کا امکان تو ان شاء اللہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تحریک نہضت کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ شیخ راشد الغنوشی کی قیادت میں تحریک نہضت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات بھی کررہی ہے اور کوشش ہے کہ یا تو ریفرنڈم کے ذریعے بحران سے نکلا جائے یا پھر تحریکِ نہضت حکومت چھوڑ دے اور انتخابات کو ان کے نظام الاوقات کے مطابق اور منصفانہ بنانے کی بھرپور کوشش کرے‘‘۔
۷۲سالہ عبدالفتاح مورو نے ایک واقعہ سناکر تحریکات کو متوجہ کیا کہ ہمیں معاشرے کے کسی بھی فرد سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اس سے خیر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ بتانے لگے کہ: ’’گذشتہ دور میں حکومت نے ہرطرف شراب نوشی اور فحاشی و تباہی کا دور دورہ کردیا۔ ہم ایک بار مسجد گئے تو وہاں ایک شرابی بھی صف میں آکر کھڑا ہوگیا۔ نشے میں دھت اور منہ سے بدبوکے بھبھکے… ہم نے کوشش کی کہ وہ مسجد سے نکل جائے تاکہ ہم سکون سے نماز ادا کرسکیں، لیکن وہ اڑ گیا کہ نہیں، میں نے بھی نماز پڑھنا ہے۔ امام صاحب نے کہا کہ چلیں اسے چھوڑیں اور اس سے چند گز دُور جاکر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ نماز شروع ہوئی، وہ نشئی بھی نماز پڑھنے لگا۔ ہم سب نے سلام پھیر لیا، لیکن وہ سجدے ہی میں پڑا رہا۔ معلوم ہوا کہ تیسری رکعت کے سجدے میں اس کی روح پرواز کرگئی تھی۔ ہم سب کے دل سے دعا نکلی کہ پروردگار اسے معاف فرما، آخری لمحے تو تیرے دربار میں حاضر ہوگیا تھا‘‘۔
بنگلہ دیش کے بارے میں بھی سب شرکا تشویش و الم کا شکار تھے۔ سب نے وہاں جاری مظالم اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر پوزیشن رہنمائوں کے خلاف سنائی جانے والی سزائوں کی مذمت کی۔ اب تک اس ضمن میں جو صداے احتجاج انھوںنے بلند کی تھی اس کے بارے میں بھی آگاہی دی اور آیندہ کے لیے حکمت عملی بھی۔ سب کو تشویش تھی کہ اگر حال ہی میں عبدالقادر مُلّا کی عمرقید کو سزاے موت میں بدلنے کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگیا، تو برادر اسلامی ملک میں بھڑکتی ہوئی احتجاجی آگ مزید پھیل جائے گی۔ یہ انتقامی سیاست نہ صرف ملک کو مزید بحرانوں کا شکار کردے گی، بلکہ قوم کو بھی مزید بُری طرح تقسیم کردے گی۔
کانفرنس میں اراکان [برما] کے بے نوا مسلمانوں کی زبوں حالی، اور یمن، صومالیہ اور پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں، مسئلۂ کشمیر، افغانستان و عراق پر امریکی قبضے اور تہذیبی یلغار کے حوالے سے بھی سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ امریکی استعماری قبضے کے خاتمے اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر بھی مفصل گفتگو ہوئی اور عبادت گاہوں اور معصوم شہریوں کو دھماکوں کا نشانہ بنانے پر بھی۔ اللہ تعالی کا انعام تھا کہ تمام تحریکات ان تمام موضوعات پر یک آواز اور یک سُو تھیں۔
افتتاحی خطابات اور پھر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی پہلا نکتہ یہی رکھا گیا کہ: ’’تمام اسلامی تحریکیں اپنے یومِ تاسیس ہی سے پُرامن جدوجہد پر استوار ہوئی تھیں۔ تقریباً ایک صدی کی جدوجہد کے دوران (اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی) اسلامی تحریکوں پر ابتلا و عذاب کے پہاڑ توڑے گئے، کالعدم قرار دیا گیا، پھانسیوں پر لٹکایا گیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود انھیں اسی پُرامن راستے سے ہٹایا نہیں جاسکا۔ آج مصر اور تیونس میں ان کی کامیابیوں پر ڈاکازنی کی کوششیں جاری ہیں۔ مصر میں خون کی ندیاں رواں ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود سب اسلامی تحریکیں اپنی پُرامن جدوجہد کے بارے میں مزید یک سُو ہوئی ہیں اور وہ اسی راہ پر چلتے رہنے کا عزم رکھتی ہیں‘‘۔
حماس کے سربراہ خالد مشعل کے خصوصی نمایندہ ڈاکٹر محمد نزال اور مقبوضہ کشمیر سے غلام محمد صفی اور قائم مقام امیرجماعت اسلامی آزاد کشمیر نورالباری کی موجودگی میں سب نے اس پر بھی اتفاق راے کا اظہار کیا کہ جہاں استعماری قوتیں قابض ہوں وہاں ہرممکن طریقے سے مزاحمت و جہاد، ان عوام کا قانونی و دینی فریضہ ہے۔ پوری اُمت کو ان کی مکمل پشتیبانی کرتے رہنا چاہیے۔
قیم جماعت لیاقت بلوچ نے کانفرنس کا اعلامیہ پڑھا۔ اس میں تمام نکات کا احاطہ کرلیا گیا اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اسلامی تحریکوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو یک جا اور یک جان کرنے کے لیے ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا، جو ان شاء اللہ مسلسل اور مستقل و مربوط مساعی منظم کرے گا۔
الحمدللہ! ملایشیا اور انڈونیشیا سے لے کر مراکش اور موریتانیا تک کی یہ تحریکیں جو کئی ممالک میں حکومتوں کا حصہ ہیں، اُمت اور بالخصوص پاکستان کی پشتی بان بن کر شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ اسی جانب مراکش میں اسلامی تحریک کے سربراہ محمد الحمداوی نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ: ’’یہ صرف چند افراد کا اجتماع نہیں، یہاں آج گویا اُمت کے کروڑوں عوام جمع ہیں۔ میں مراکشی بھی ہوں اور اب خود کو پاکستانی بھی محسوس کر رہا ہوں‘‘۔
ہرحوالے سے اس کامیاب عالمی کانفرنس نے مصرو شام کے علاوہ بھی ہرجگہ مظلوم عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ تنہا نہیں، لیکن بدقسمتی اور ظلم کی انتہا دیکھیے کہ مصری اور بعض عرب ممالک کے میڈیا نے اس کانفرنس کے بارے میں وہ جھوٹ گھڑے کہ خود جھوٹ بھی ان سے پناہ مانگ رہا ہے۔ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کو، جسے کئی عالمی ٹی وی چینلوں نے براہِ راست نشر کیا، مصری ذرائع ابلاغ نے ایک خفیہ کانفرنس بنادیا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کی کانفرنس کو اخوان کی ایک کانفرنس کہا، اور اسے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد کے خفیہ منصوبے بنانے کے لیے بلائی گئی کانفرنس قرار دے دیا۔ ایک چینل نے تو اسے پاکستانی حکومت و مقتدرہ کا شاخسانہ قرار دے دیا جو مصر میں مسلح تحریکیں برپا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا بھی پوری عرب دنیا میں اُمت کی اس اہم کانفرنس کی خبر پہنچانے کا ذریعہ بنا۔ اب اصل پیغام بھی مسلسل پہنچ رہا ہے۔