اکتوبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

عبدالقادر مُلّا کو شہید کر دیا جائے گا؟

سلیم منصور خالد | اکتوبر ۲۰۱۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

ظلم اور وہ بھی انصاف کے نام پر، ہمیشہ فسطائی اور ظالم قوتوں کا ہتھیار رہا ہے۔ جب ایسے ظلم کو میڈیا اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہوجائے تو پھر سوال اور جواب کی گنجایش  کم ہی رہ جاتی ہے۔

ایسا ہی ظلم بنگلہ دیش میں ۶۵سالہ عبدالقادر مُلّا، اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، جنھیں ۵فروری ۲۰۱۳ء کو قانون کی من مانی تاویل کرتے، من پسند عدالت سجاتے اور دفاع کے جائز حق سے محروم رکھتے ہوئے عمرقید سنائی گئی۔ وہ اس ظلم پر اپیل کے لیے سپریم کورٹ گئے، مگر ساڑھے سات ماہ تک بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے عجیب و غریب تاریخ رقم کی۔ بنگلہ دیش کے معروف قانون دان محمد تاج الاسلام کے بقول: ’’جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ نے بڑھا کر سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے‘‘۔ مگر یہ تماشا ہوا ہے۔

عبدالقادر مُلّا کا جرم کیا ہے؟ یہی کہ جب ۱۹۷۱ء میں، دنیا بھر کی برادری میں ایک تسلیم شدہ ملک پاکستان کے مشرقی حصے میں ہندستانی فوج کی زیرنگرانی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مسلح کارروائیوں نے زورپکڑا، تب ملک توڑنے، بھارتی افواج کا ساتھ دینے، پُرامن شہریوں کو قتل کرنے اور قومی اِملاک کو تباہ کرنے والی مکتی باہنی کے مقابلے میں مسلح طور پر نہیں، بلکہ محض تبلیغ اور افہام و تفہیم کے ذریعے پُرامن رہنے اور شہری زندگی کو بحال کرنے کی جدوجہد میں عبدالقادر نے اپنی بساط کے مطابق کھلے عام رابطہ عوام مہم چلائی۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کا یہی ’جرم‘ آج ۴۲سال بعد ’جنگی جرم‘ بلکہ ’انسانیت کے خلاف جرم‘ بنا دیا گیا۔ عوامی لیگ نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے، ہندو آبادی کو خوش کرنے اور بھارت نواز سیکولر قوتوں سے تعاون لینے کی غرض سے اس مقدے بازی کا ڈراما رچایا۔

جوں ہی عبدالقادر مُلّا کو جنگی جرائم کی نام نہاد عدالت نے سزاے عمر قید سنائی، حسینہ واجد  سپریم کورٹ میں گئیں اور کہا:’’عبدالقادر کو عمرقید کے بجاے سزاے موت دی جائے‘‘۔ اور سیکولر لابی کے وہ کارکن جو سزاے موت کو ویسے ہی ختم کرنے کا علَم تھامے نظر آتے ہیں، وہ بھارتی  سرکاری پشت پناہی (یہ الزام نہیں بلکہ اس بات کی گواہی بھارت کے معتبر اخبارات بھی پیش کرچکے ہیں) میں ’’عمرقید نہیں، سزاے موت چاہیے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ سڑکوں پر  کیا آئے، خود حکومت کے اہل کاروں نے، عوامی لیگ کے عہدے داروں اور کابینہ میں بیٹھے وزیروں نے، اداکاروں اور گلوکاروں نے، پولیس کی حفاظت میں، اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پکنک کا ماحول پیدا کرنے کے لیے شاہ باغ چوک کو سرکس کا گڑھ بنایا گیا، اور آخرکار ۱۸ستمبر ۲۰۱۳ء کو اپنی ’روشن دماغ‘ عدلیہ سے یہ فیصلہ لے لیا کہ ’’عبدالقادر مُلّا کو سزاے موت دی جائے‘‘۔

برطانوی دارالامرا کے رکن لارڈ الیگزنڈ ر چارلس کارلائل نے ۲۰ستمبر ۲۰۱۳ء کو مسٹر ایچ ای ناوی پلے، ہائی کمشنر اقوام متحدہ براے انسانی حقوق، سوئٹزرلینڈ کے نام خط میں تحریر کیا:

میں نے برطانیہ کے کُل جماعتی گروپ براے انسانی حقوق کے رکن کی حیثیت سے ۷جون ۲۰۱۳ء کو آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی تھی کہ بنگلہ دیش میں  انسانی حقوق کی صورتِ حال سخت ابتر ہے، اور یہ حالات روز بروز بدترین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر عرض کیا تھا کہ اس المیے کا سب سے  بڑا محرک وہاں پر انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اور اس کی کارروائی ہے۔

مجھے ذاتی طور پر آپ کے اس طرزِعمل پر حیرت ہوئی کہ آپ نے گذشتہ دنوںجنیوا میں خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بے حُرمتی کے مراکز کے طور پر شام، مصر اور عراق کا نام تو لیا، مگر عجیب بات ہے کہ انسانی حقوق کی ان قتل گاہوں میں آپ نے بنگلہ دیش کا نام نہیں لیا۔

[بنگلہ دیش کے] عام انتخابات سے صرف چند ماہ پیش تر ، یہاں کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور گرفتاریوں کی یلغار کرنے کے لیے پورا زور لگارہی ہے۔ جسے بڑھاوا دینے کے لیے اس حکومت کے قائم کردہ کرائمز ٹریبونل کے جانب دار اور سیاسی طور پر متحرک ججوں نے اپنے کھیل سے، بنگلہ دیشی معاشرے کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کررکھا ہے۔ صفائی کے گواہوں کا اغوا اور دیگر غیرمہذب اقدامات نے عدالتی کارروائی جیسے جائز اور مقدس عمل کو تباہی سے دوچار کرا دیا ہے۔

جیساکہ میں نے اپنے جون کے خط میں آپ کو لکھا تھا کہ ’جرائم کے خلاف عالمی انصاف‘ کو لازماً جرائم کے خلاف محض قومی سطح پر دائرۂ سماعت میں نہیں آنا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ لازمی طور پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کے معیارِ انصاف اور کارروائی کے عالمی معیار اور شفافیت کے مسلّمہ اصولوں پر بھی پورا اُترنا چاہیے۔ اس ضمن میں کسی بھی کم تر معیار کو اپنانے کا مطلب عدل و امن کے مجموعی ہدف کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہوگا۔

تاہم، اس ہفتے عبدالقادر مُلّا کے مقدمے میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے فیصلے نے سخت پریشانی سے دوچار کیا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے گذشتہ عرصے میں دائر کی گئی درخواست پر ایک قدم آگے بڑھ کر عمرقید کو سزاے موت میں تبدیل کردیا ہے اور اپیل کا حق بھی سلب کرلیا گیا ہے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے اقوام متحدہ کے گروپ براے ’من مانی نظربندی‘ کی گذشتہ برس کی اس رپورٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے، جس میں یہ بات واضح کی تھی کہ وہاں پر عالمی انصاف کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور اب اس فیصلے نے پیش قدمی کرتے ہوئے اس سزا یافتہ قیدی کے نظرثانی کے حق اپیل کو سلب کرکے بین الاقوامی ضوابط کو روند ڈالا ہے، جس کی مذمت کرنا لازم ہے۔

میں عبدالقادر مُلّا کے اس فیصلے کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے   اس تجزیے کی پُرزور تائید کرتا ہوں کہ:

Bangladesh: Death Sentence Violates Fair Trial Standards, 18th September (بنگلہ دیش میں ۱۸ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ مقدمات کے منصفانہ معیار کی خلاف ورزی ہے)۔

انھوں نے بجا طور پر اس معاملے کی نشان دہی کی ہے کہ [بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے زیرسماعت مقدمات کے بارے] بعد از وقت قوانین کی تبدیلی، مقدمے کی شفاف کارروائی کے بین الاقوامی قانونی نظریے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

[امریکی] وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی مدّمقابل خالدہ ضیا کو بات چیت کے ذریعے معاملات کا حل نکالنے کی دعوت خوش آیند ہے۔ تاہم، پاے دار امن کے لیے ضروری ہے کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کو لازماً بین الاقوامی نگرانی میں اپنی کارروائی کرنی چاہیے۔

لارڈ الیگزنڈر کارلائل، نہ پاکستانی ہیں اور نہ جماعت اسلامی کے رکن اور کارکن وغیرہ، بلکہ وہ ایک پارلیمنٹیرین،  مذہباً غیرمسلم اور پیشے کے اعتبار سے قانون دان ہیں۔انھوں نے اس مقدمے کو خالصتاً قانونی، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر دیکھا تو چیخ اُٹھے کہ: ’’یہ کیا ظلم ہو رہا ہے؟‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہمارے ہاں کے انسانی حقوق کے علَم برداروں کی حسِ انصاف کو کیا ہوا، اور خود ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کی قومی حمیت کو کیوں گھن لگ گیا ہے؟

عبدالقادر مُلّا ۱۴؍اگست ۱۹۴۸ء کو ضلع فریدپور (مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش) کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۸ء میں راجندر کالج، فریدپور سے گریجویشن کے بعد ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا۔ اسی دوران یونی ورسٹی کے ایک ہاسٹل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم منتخب ہوئے۔ وہ ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں گئے۔     اسی معاشرے میں کھلے عام رہے اور عملی زندگی میں بطور صحافی خدمات انجام دیں۔ معروف اخبار روزنامہ سنگرام ڈھاکہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے رکن منتخب ہوئے۔

۵فروری کو جب نام نہاد عدالت نے عبدالقادر کو ڈیڑھ گھنٹے پر محیط وقت میں مقدمے کا فیصلہ سنایا تو اس روز بی بی سی لندن کے نمایندے کے مطابق: ’’عبدالقادر نے بلندآواز میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیا اور ججوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’ایسا غیرمنصفانہ فیصلہ کرنے پر تمھیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کرے گا‘‘۔ اور ان کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے کہا: ’’یہ عدالت کے رُوپ میں ایک شکاری چڑیل ہے‘‘۔ تاہم، جب باہر نکلے تو برطانوی اخبار دی انڈی پنڈنٹ کے نمایندے   فلپ ہشز کے بقول: ’’عبدالقادر مُلّا، عدالت کے فیصلے پر واضح طور پر خوش نظر آرہے تھے، اور انھوں نے عدالت سے نکلتے وقت فتح کا نشان بلند کیا‘‘۔(۱۹فروری ۲۰۱۳ء)

جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ ان کی عمرقید پر بھارت نواز لابی اور بنگالی قوم پرست سیکولر لابی نے ’سزاے موت دو‘ مہم چلانا شروع کردی اور آخرکار ۱۷ستمبر کو سزاے موت کا فیصلہ لے لیا۔ ۲۰ستمبر کو عبدالقادر مُلّا کے بیٹے نے جیل میں ان سے ملاقات کے بعد بتایا کہ: ’’میرے ابا نے کہا ہے، بیٹا! میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ لڑکپن سے جس موت کی دعا مانگا کرتا تھا، اللہ کی خوش نودی سے وہ موت میرے سامنے ہے۔ اس پر غم نہ کرو، بلکہ اس کی قبولیت کے لیے رب کریم سے دعا مانگو‘‘۔ آج صورت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ خبر ہر خاص و عام میں گرم ہے کہ: ’’عوامی لیگ کم از کم عبدالقادر مُلّا کو تو سب سے پہلے سزاے موت ضرور دے گی‘‘___ مگر کیوں؟ جواب بڑا واضح ہے کہ ملک میں بدامنی کا ایک ایسا دور شروع ہوجائے کہ عوامی لیگ کی حکومت جو اگلے ماہ اپنی مدت ختم کررہی ہے وہ براہِ راست راے دہندگان سے بچ جائے اور وہاں کی عدلیہ، فوج اور ٹیکنوکریٹ کا ایک عبوری دورِحکومت ان انتقامی کارروائیوں کو جاری رکھ سکے۔


جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات کے فیصلے تو اُوپر تلے آہی رہے ہیں، اور اب ۲۲ستمبر کو اسی کرائمز ٹریبونل نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک بزرگ رہنما عبدالعلیم کے خلاف بھی ’۱۹۷۱ء میں انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی سماعت مکمل کرلی ہے اور کسی بھی وقت یہ فیصلے کا اعلان کرسکتی ہے۔ یاد رہے، عبدالعلیم، بنگلہ دیش کے مرحوم صدر ضیا الرحمن کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔

۲۱ستمبر کو حسینہ واجد نے معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ (الجزیرہ ٹی وی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’خالدہ ضیا کی بی این پی سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، اس لیے ہم کبھی آپس میں نہیں مل سکتے‘‘۔ یہ نظریاتی اختلاف تین دائروں میں دیکھا جاسکتا ہے: l بی این پی ، بنگلہ دیش کے دستور میں اسلامی شقوں کو لانے اور ان کا تحفظ کرنے والی پارٹی ہے، جب کہ عوامی لیگ نے آتے ہی ان دستوری شقوں اور قوانین کو ختم کردیا ہے۔lبی این پی، بنگلہ دیشی قومیت کی علَم بردار ہے (جس کا مطلب دو قومی نظریہ ہے)، جب کہ عوامی لیگ بنگلہ قوم پرستی کی پرستار ہے، جو دو قومی نظریے کی نفی ہے۔ lبی این پی، بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر اور بنگلہ دیش کے اقتدارِاعلیٰ کے  تحفظ کی علَم بردار ہے لیکن عوامی لیگ، بھارتی حکومت کے سامنے خود سپردگی اور تابع مہمل رہنے کے لیے بے تاب ہے۔

یہ ہیں وہ نظریاتی اختلافات، جن کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور بی این پی آپس میں حلیف ہیں اور عوامی لیگ ان کی دشمنی کے لیے ہرلمحے اور ہرقیمت پر مائل بہ جنگ ۔