پھر مارشل لا کے زمانے میں ۲۰ مارچ کے قریب خواجہ نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور سے میری ملاقات ہوئی اور ان سے مَیں نے کہا کہ آپ مرزا بشیرالدین محمود صاحب سے خود جاکر ملیں اور ان کو مشورہ دیں کہ اگر وہ واقعی مسلمانوں سے الگ ہونا پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت اس ملّت کا ایک جزو بن کر رہے، تو وہ صاف الفاظ میں حسب ِ ذیل تین باتوں کا اعلان کردیں:
(۱) یہ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معنی میں خاتم النبیینؐ مانتے ہیں کہ حضوؐر کے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ (۲) یہ کہ وہ مرزا غلام احمد صاحب کے لیے نبوت یا کسی اور ایسے منصب کے قائل نہیں ہیں جسے نہ ماننے کی وجہ سے کوئی شخص کافر ہو۔ (۳) یہ کہ وہ تمام غیراحمدی مسلمانوں کو مسلمان مانتے ہیں اور احمدیوں کے لیے ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا، ان کے امام کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنا، ان کو بیٹیاں دینا جائز سمجھتے ہیں۔
میں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ اگر آج مرزا صاحب ان باتوں کا واضح طور پر اعلان کردیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ سارا جھگڑا ختم ہوجائے گا....
پھر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خواجہ صاحب نے ’ربوہ‘ جاکر اس پر مرزا صاحب سے گفتگو کی، اور مرزا صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی جماعت کی مجلس شوریٰ بلا کر اس پر غور کریں گے۔ مگر اسی دوران میں میری گرفتاری عمل میں آگئی، اور بعد کی کوئی اطلاع مجھے نہ مل سکی۔ غالباً مرزا صاحب نے یہ دیکھ کر کہ حکومت پوری طاقت سے ان کی حمایت اور مسلمانوں کی سرکوبی کر رہی ہے، میری اس تجویز کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا ہوگا....
بہرحال میری ان کوششوں سے یہ بات عیاں ہے کہ مَیں نے اپنی حد تک اس نزاع کے تینوں فریقوں کو مصالحت پر آمادہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔ مگر ہرفریق نے مجھے ان کوششوں کی وہ بڑی سے بڑی سزا دی جو وہ دے سکتا تھا۔ ایک فریق نے بھرے جلسوں میں متعدد بار عوام کو میرے خلاف بھڑکایا، یہاں تک کہ ۶مارچ کی صبح کو ایک مشتعل مجمع میرے مکان پر چڑھ آیا۔ دوسرے فریق نے پانچ واجب القتل ’خونی ملائوں‘ میں مجھے بھی شمولیت کا شرف عطا کیا۔ تیسرے فریق نے مجھے گرفتار کرکے میرا کورٹ مارشل کرایا اور مجھے پہلے سزاے موت اور پھر چودہ سال کی قید بامشقت کی سزا دلوائی۔ (تحقیقاتی عدالت میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا تحریری بیان، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۱، محرم ۱۳۷۳ھ، اکتوبر ۱۹۵۳ء، ص ۴۸-۴۹)