جسمانی، نفسیاتی اور اجتماعی پہلوئوں سے انسان کا سلامت ہونا، یعنی بیماری اور معذوری کا نہ ہونا صحت ہے ۔تندرستی در اصل، بدن میں ہر چیز کے توازن کا نام ہے ۔ صحت کی حفاظت اور اس میں ترقی کی تدابیراور بیماری کا علاج خود صحت کے لیے بہت ضروری ہے ۔ابن رشد، عضو کے طبعی عمل کے انجام دینے اور طبعی اثر کو قبول کرنے کو صحت کہتے ہیں۔ ابن نفیس کا کہنا ہے کہ بدن درست اعمال انجام دے، یہ صحت ہے ۔
اعتدال صحت کی بنیاد ہے ۔ بدن اور جسم میں پائے جانے والے عناصر دراصل خوراک میں جو اجزا نمکیات، لحمیات ، چکنائی اور نشاستہ شامل ہیں، ان کا اعتدال اور توازن صحت مند ہونے کے لیے ضروری ہے۔ سورۂ رحمن میں ہے:اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِo(۵۵:۸) ’’میزان میں خلل نہ ڈالو‘‘۔ گویا توازن کو خراب مت کرو۔ جسم کا ہر ذرہ کائنات کے توازن کے لیے اساس ہے۔ سورئہ انفطار میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo(۸۲:۷) ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے تجھ کو بنایا، برابر کیا اور اعتدال عطا کیا‘‘۔ سورۃ التین میں ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (۹۵:۴) ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر تخلیق کیا‘‘۔ سورئہ شمس میں آتا ہے : وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا o (۹۱:۷) ’’جان کی قسم ہے اور اسے تناسب دینے والے کی قسم‘‘۔ سورئہ بقرہ میں قیادت کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ طالوت اس لیے چُنا گیا ہے کہ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ ط (۲:۲۴۷)، یعنی وہ تم پر علمی اور جسمانی فضلیت رکھتا ہے۔ ابن سینا فرماتے ہیں اعتدال انسان کی اس طبعی حالت کا نام ہے جو دوحدوں کے درمیان (افراط و تفریط) کا شکار نہ ہو (کتاب القانون،ص ۴)۔ حضوؐر نے قوی مومن کو ضعیف مومن سے افضل قرار دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے، حضوؐر نے فرمایاکہ اللہ سے عافیت مانگو کیونکہ ایمان کے بعد صحت اور عافیت سے بہتر کوئی چیز کسی کو نہیں ملی ۔(ابن ماجہ)
نبی کریمؐ نے بعض بیماریوں کا علاج بھی تجویز کیا ۔سنن ابوداؤد میں اسامہ بن شریکؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا کہ علاج کرو ۔ ترمذی میں روایت ہے کہ ہاں، اے اللہ کے بندو علاج کرایا کرو۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری مگر اس کی شفا ضرور نازل کردی۔ جاننے والا اسے جان لیتا ہے اور جاہل اس سے بے خبر رہتا ہے ۔(مسند احمد)
امام ترمذی نے دوا اور پرہیزکے بارے میں ابو خزامہ ؓسے روایت کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: یہ بھی اللہ کی تقدیر کا حصہ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے طاعون عمواس میں لشکر کے افراد کو وہیں پر بکھر جانے کے لیے تجویز دی اور فرمایا کہ ہم تقدیر الٰہی سے تقدیر الٰہی کی طرف ہی پلٹتے ہیں۔ جب انھیں بتایا گیا کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ نہ بیمار وبا کی جگہ سے نکلے اور نہ کوئی وہاں داخل ہو۔آپؐ نے مریض کی عیادت کو واجب قرار دیا اور مرض پر صبر کرنے کی تلقین کی ۔مرض کی تکلیف پر گناہوں سے خلاصی کی بشارت دی اور مرض کی شفایابی کے لیے کئی قسم کی دعائیں سکھائیں۔
اہم ترین فکر زندگی کا توازن ہے، نیند میں، غذا میں، رویے میں، روش زندگی میں۔ سورئہ رحمن میں فرمایا گیا:’’آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو‘‘(۵۵:۷-۹)۔ سورئہ فرقان میں فرمایا: وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا (۲۵:۶۳)’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں‘‘۔ اسی طرح فرمایا: جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) ’’اور ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا‘‘۔ خرچ کرنے میں بھی حکم ہے: وَالَّذِیْنَ اِِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (الفرقان ۲۵:۶۷) ’’اور جب (رحمن کے بندے ) خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی، ان کے درمیان رہتے ہیں‘‘۔ توازن اگر بگڑ جائے تو انسان بیمار ہوجاتا ہے۔ اس میں ایک اہم پہلو متوازن غذا کا بھی ہے۔ نفسیاتی طور پر جذبات میں توازن خوف اور غصے کی حالت پر قابو پانا ہے۔ یہ بات قرآن بتاتا ہے کہ ایک فرد کی غیر متوازن زندگی پوری کائنات پر اثر انداز ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ انفرادی، خاندانی اور عائلی زندگی میں اس کے اثرات ہمیں نظر آتے ہیں لیکن بیمار شخص کے معاشرتی اور بین الاقوامی اثرات ہی نہیں بلکہ انسانی اور زمینی اثرات سے آگے بڑھ کر کائناتی اثرات ہیں۔
اسلام کا ایک اہم اصول لاضرر والاضرار ہے۔ انسان کے پاس اس کا اپنا بدن امانت ہے۔ اس کو نقصان پہنچانا اور دوسرے فرد کو یا معاشرے کو نقصان پہنچانا بھی جرم ہے۔ خود کشی اسی لیے حرام ہے۔ اپنا مال ضائع کرنا اور بُرے اعمال کے ذریعے اپنی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں۔ ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ’’ جس نے مومن کو نقصان پہنچایا، اس کے خلاف سازش کی، اس پر لعنت ہے ‘‘ (ابن ماجہ، ابوداؤد)۔ آپؐ کا ارشاد ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا اللہ تعالیٰ اس کو نقصان پہنچائے گا (ترمذی)۔ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ (النساء۴:۲۹) ’’تم اپنے آپ کو قتل مت کرو‘‘۔ (جان) ذات کا تحفظ فرض ہے۔ خاندان کے تحفظ کی بات بھی کی گئی ہے۔ تم میں بہتر وہ ہے جو اہل و عیال کے لیے بہتر ہے۔ عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے ،تیرے بچوں کا تجھ پر حق ہے۔ اس لیے حق دار کو اس کا حق دو۔ (بخاری)
اگر پرہیز اور امراض سے بچائو کے علاوہ حفظانِ صحت کے جو اصول اسلام اور طب میں مشترک ہیں، ان پر عمل کیا جائے تو عملی طورپر علاج کی نوبت ہی نہ آئے۔ حیرت ناک حد تک اسلامی تعلیمات واقعی زندگی بخش ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: دو ایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ صحت ہے اور فرصت ہے (بخاری) ۔کسی کو ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی۔ (ابن ماجہ)
حفظان صحت کے کچھ اصول ہیں: ۱- عادات ۲-جسمانی ساخت اور پرداخت ۳-ذہنی صحت ۴-معاشرتی صحت ۵-طبعی صحت ۶-لباس اور ماحولیاتی صحت ۔
خواہشات انسان کی زندگی کے پورے نظام کو بدل دیتی ہیں۔ مال و جاہ اور سیم و زر ان کے مختلف نام ہیں۔ منصب ،بیوی بچے اور اقتدار ان سب کی خواہش رہتی ہے لیکن یہ نعمت تب ہیں جب یہ ہدایت کے ساتھ ہوں۔ جذبات میں حسدسے پناہ کا سورئہ فلق میں ذکر آتا ہے کہ مجھے حسد کرنے والے کے شرسے محفوظ فرما۔ غصے کے لیے احکام ہیں: وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۴) ’’اور وہ اپنے غیظ و غضب پر قابو پاتے ہیں ‘‘۔
سکون اور طمانیت قلب کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد ۱۳:۲۸) ’’دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے‘‘۔ نفسیاتی امراض سے نجات کا ایک بڑا ذریعہ معاملات میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا ہے کہ مرض ، مالی یا جانی نقصان ،خوف ،بھوک میں انسان صبر کرے اور اللہ کا حکم اور اس کا فیصلہ قرار دے۔ لوگوں کے رویے انسان کو تکلیف دیتے ہیں۔ غلط رویوں کے لیے دین میں کوئی اجازت نہیں، مثلاً منافقت،تکبر، بے اعتنائی، نفرت، حسد، بُغض، تعصب ،تمسخر، مخالفت ،افتراق، ظلم، شک، بداخلاقی___ یہ تمام منفی رویے ہیں۔ سورۂ حجرات میں تمسخر، غیبت ،بدظنی ،تحقیر ،عیب جوئی کی حرمت کا حکم ہے۔ اسلام نظریاتی بھائی چارے کو قائم کرنے حکم دیتاہے اور تعصبات پر مبنی مملکتوںکے قیام کوانسانی حقوق کے خلاف قرار دیتا ہے۔
اسی طرح نشے سے بچنا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنo (المائدہ ۵:۹۰) ’’شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔ شراب کوحرام قرار دیا گیا۔ چودہ سو سال بعد بھی اُ مت ان لعنتوں سے محفوظ ہے اور ان بیماریوں سے جو شراب نوشی اور نشوں سے پیدا ہوتی ہیں۔
یہ تمام احکامات علاج نہیں، مرض سے بچنے کی اعلیٰ ترین تدابیر ہیں۔ اس لیے کہ مرض سے بچنے کی تدابیر بھی دین کا حصہ ہیں بلکہ ترجیحاً بہت اہم ہیں۔ درخت اور پودے لگانے کو صدقہ قرار دیاگیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو بنجر زمین کو آباد کرے وہ اس کی ہے۔ ترمذی کی ر وایت حضرت جابرؓ سے اور ابوداؤد میں بھی ہے جس نے بیری کاٹی (بلاجواز) اللہ اس کے سر کو دوزخ میں نیچا کرے گا ۔حضرت زبیرؓسے مسند احمد اور ابوداؤد میں روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: مرج وادی کا شکار اور پودے حرام ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو درخت لگارہا ہے اور دیکھے کہ قیامت آگئی ہے تو درخت لگادے۔ قرآن میں ماحول کو تباہ کرنے والا بڑا دشمن وہ ہے جو کھیتی اور جانوروں کو ہلاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو فساد پسند نہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ’’جب اُسے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا‘‘۔(البقرہ۲:۲۰۵)
اس طرح گھر کی صفائی، برتنوں کی صفائی اور گھر کے ماحول کی صفائی بھی فرض ہے۔ خوب صورت محل دیکھ کر ہی تو ملکہ سبا نے اسلام قبول کیا ۔ گھر کی تعمیر اور صفائی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس طرح کہ خانہ کعبہ کے لیے اللہ نے ابراہیم سے وعدہ لیا کہ ’’میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو‘‘۔(البقرہ۲:۱۲۵)
بدن، لباس، غذا اور ماحول کی صفائی کیوں ضروری ہے؟یہ واضح ہے کہ انسان کی کسی اہم ضرورت کی وجہ سے یہ احکامات دیے گئے ہیں۔ اب ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب صحت کے لیے علمِ فقہ میں اس بنیاد پر ہیں اور اولیت رکھتے ہیں کہ انسانی صحت کا دارومدار ان اہم اصولوں پر ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے ،کہ صحت مقدم ہے، اور قیامت تک کے لیے صحت سے متعلق ایجادات، دوائیں، پرہیز یا شہروں کی منصوبہ بندی یا مملکتوں کے انتظامی ڈھانچوں کے جو بھی احکامات ہوں گے، ان کو مقاصد الشریعہ کے زمرے میں شامل رکھا جائے گا۔ اس سے یہ بھی واضح ہواکہ پولیو کے قطرے بھی بیماری سے بچانے کے لیے ہیں۔ اس پر ان احکامات کا اطلاق ہوتا ہے ۔ ان سارے احکامات سے جب پتا چل گیا کہ انسانی زندگی کا تحفظ ہرچیز پر دینی لحاظ سے مقدم ہے، اور پھر زندگی کا انحصار صحت پر ہے، اور اللہ کو بھی قوی مومن پسند ہے تو پھر وہ ساری کاوش جو اس مقصد کے لیے ہو وہ باعث اجر و ثواب ہے۔
پوری دنیا سے پولیو ختم ہوگیا، سواے نائیجیریا، افغانستان اور پاکستان کے۔ اس کام میں رکاوٹ وہ بہت سے معاشرتی، سیاسی، انتظامی اور مذہبی سوالات ہیں جن کے جوابات کی واقعی ضرورت ہے ۔ایک سوال یہ ہے کہ دنیا میں اتنے بہت امراض ہیں، اس ایک مرض کو ختم کرنے کے لیے امریکا اورپورا عالم کیوں کوشش کررہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے بچوں کو کسی ملک کی دشمنی یا اسلام دشمنی کی وجہ سے مرض کے حوالے کرنا خود ایک گناہ ہے۔ امریکا اور عالم کفر کی اسلام دشمنی میں کوئی شک نہیں۔ اپنے بچوں کو پولیو زدہ کرنے سے ہم بھی ان کی پالیسی کوا ختیار کرنے والے بن جائیں گے، حالانکہ اس کام کا اس سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ پولیو کے یہی قطرے ۵۳اسلامی ممالک میں استعمال کرکے ہی وہاں کے مسلمان ڈاکٹروں، علما اور حکمرانوں نے پولیو کا خاتمہ کیا ہے۔ قرآن فرماتا ہے: ’’کسی قوم کی دشمنی تم کو عدل سے نہ ہٹا دے۔ خبردار عدل کرو اور تقویٰ کے قریب ترین چیز عدل ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ یہ بات بھی عام ہے کہ ان قطروں میں بانچھ پن کی دوا ہے۔ ان قطروں کی شیشی پر اجزا کے نام موجود نہیں۔ ہر دوا کی طرح اس پر زائدالمیعاد ہونے کی تاریخ درج نہیں۔ کراچی کے ایک مائیکرو بیالوجسٹ ڈاکٹر عدیل نے ان اعتراضات کا لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے جائزہ لیا اور علماے کرام کی موجودگی میں ان اعتراضات کو بے بنیاد ثابت کیا۔
اس مضمون میںعلما کے اسلام آباد ڈیکلریشن کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس میں راقم شریک تھا۔ اس ڈیکلریشن میں ڈرون حملوں کے سبب سے بے گناہ اورمعصوم بچوں کی شہادت کی مذمت جیسے اُمور پر بھی علما نے راے دی اور تین باتوں کو واضح کیا کہ پولیو کی ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے۔ تولیدی نظام کو نقصان پہنچانے والا کوئی جز اس میں شامل نہیں اور اس میں کوئی مضرصحت اور حرام چیز نہیں۔
مضمون نگار، نگران طبی فقہی بورڈ، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ہیں