جسمانی، نفسیاتی اور اجتماعی پہلوئوں سے انسان کا سلامت ہونا، یعنی بیماری اور معذوری کا نہ ہونا صحت ہے ۔تندرستی در اصل، بدن میں ہر چیز کے توازن کا نام ہے ۔ صحت کی حفاظت اور اس میں ترقی کی تدابیراور بیماری کا علاج خود صحت کے لیے بہت ضروری ہے ۔ابن رشد، عضو کے طبعی عمل کے انجام دینے اور طبعی اثر کو قبول کرنے کو صحت کہتے ہیں۔ ابن نفیس کا کہنا ہے کہ بدن درست اعمال انجام دے، یہ صحت ہے ۔
اعتدال صحت کی بنیاد ہے ۔ بدن اور جسم میں پائے جانے والے عناصر دراصل خوراک میں جو اجزا نمکیات، لحمیات ، چکنائی اور نشاستہ شامل ہیں، ان کا اعتدال اور توازن صحت مند ہونے کے لیے ضروری ہے۔ سورۂ رحمن میں ہے:اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِo(۵۵:۸) ’’میزان میں خلل نہ ڈالو‘‘۔ گویا توازن کو خراب مت کرو۔ جسم کا ہر ذرہ کائنات کے توازن کے لیے اساس ہے۔ سورئہ انفطار میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَo(۸۲:۷) ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے تجھ کو بنایا، برابر کیا اور اعتدال عطا کیا‘‘۔ سورۃ التین میں ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (۹۵:۴) ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر تخلیق کیا‘‘۔ سورئہ شمس میں آتا ہے : وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا o (۹۱:۷) ’’جان کی قسم ہے اور اسے تناسب دینے والے کی قسم‘‘۔ سورئہ بقرہ میں قیادت کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ طالوت اس لیے چُنا گیا ہے کہ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ ط (۲:۲۴۷)، یعنی وہ تم پر علمی اور جسمانی فضلیت رکھتا ہے۔ ابن سینا فرماتے ہیں اعتدال انسان کی اس طبعی حالت کا نام ہے جو دوحدوں کے درمیان (افراط و تفریط) کا شکار نہ ہو (کتاب القانون،ص ۴)۔ حضوؐر نے قوی مومن کو ضعیف مومن سے افضل قرار دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے، حضوؐر نے فرمایاکہ اللہ سے عافیت مانگو کیونکہ ایمان کے بعد صحت اور عافیت سے بہتر کوئی چیز کسی کو نہیں ملی ۔(ابن ماجہ)
نبی کریمؐ نے بعض بیماریوں کا علاج بھی تجویز کیا ۔سنن ابوداؤد میں اسامہ بن شریکؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا کہ علاج کرو ۔ ترمذی میں روایت ہے کہ ہاں، اے اللہ کے بندو علاج کرایا کرو۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری مگر اس کی شفا ضرور نازل کردی۔ جاننے والا اسے جان لیتا ہے اور جاہل اس سے بے خبر رہتا ہے ۔(مسند احمد)
امام ترمذی نے دوا اور پرہیزکے بارے میں ابو خزامہ ؓسے روایت کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: یہ بھی اللہ کی تقدیر کا حصہ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے طاعون عمواس میں لشکر کے افراد کو وہیں پر بکھر جانے کے لیے تجویز دی اور فرمایا کہ ہم تقدیر الٰہی سے تقدیر الٰہی کی طرف ہی پلٹتے ہیں۔ جب انھیں بتایا گیا کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ نہ بیمار وبا کی جگہ سے نکلے اور نہ کوئی وہاں داخل ہو۔آپؐ نے مریض کی عیادت کو واجب قرار دیا اور مرض پر صبر کرنے کی تلقین کی ۔مرض کی تکلیف پر گناہوں سے خلاصی کی بشارت دی اور مرض کی شفایابی کے لیے کئی قسم کی دعائیں سکھائیں۔
اہم ترین فکر زندگی کا توازن ہے، نیند میں، غذا میں، رویے میں، روش زندگی میں۔ سورئہ رحمن میں فرمایا گیا:’’آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو‘‘(۵۵:۷-۹)۔ سورئہ فرقان میں فرمایا: وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا (۲۵:۶۳)’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں‘‘۔ اسی طرح فرمایا: جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) ’’اور ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا‘‘۔ خرچ کرنے میں بھی حکم ہے: وَالَّذِیْنَ اِِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (الفرقان ۲۵:۶۷) ’’اور جب (رحمن کے بندے ) خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی، ان کے درمیان رہتے ہیں‘‘۔ توازن اگر بگڑ جائے تو انسان بیمار ہوجاتا ہے۔ اس میں ایک اہم پہلو متوازن غذا کا بھی ہے۔ نفسیاتی طور پر جذبات میں توازن خوف اور غصے کی حالت پر قابو پانا ہے۔ یہ بات قرآن بتاتا ہے کہ ایک فرد کی غیر متوازن زندگی پوری کائنات پر اثر انداز ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ انفرادی، خاندانی اور عائلی زندگی میں اس کے اثرات ہمیں نظر آتے ہیں لیکن بیمار شخص کے معاشرتی اور بین الاقوامی اثرات ہی نہیں بلکہ انسانی اور زمینی اثرات سے آگے بڑھ کر کائناتی اثرات ہیں۔
اسلام کا ایک اہم اصول لاضرر والاضرار ہے۔ انسان کے پاس اس کا اپنا بدن امانت ہے۔ اس کو نقصان پہنچانا اور دوسرے فرد کو یا معاشرے کو نقصان پہنچانا بھی جرم ہے۔ خود کشی اسی لیے حرام ہے۔ اپنا مال ضائع کرنا اور بُرے اعمال کے ذریعے اپنی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں۔ ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ’’ جس نے مومن کو نقصان پہنچایا، اس کے خلاف سازش کی، اس پر لعنت ہے ‘‘ (ابن ماجہ، ابوداؤد)۔ آپؐ کا ارشاد ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا اللہ تعالیٰ اس کو نقصان پہنچائے گا (ترمذی)۔ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ (النساء۴:۲۹) ’’تم اپنے آپ کو قتل مت کرو‘‘۔ (جان) ذات کا تحفظ فرض ہے۔ خاندان کے تحفظ کی بات بھی کی گئی ہے۔ تم میں بہتر وہ ہے جو اہل و عیال کے لیے بہتر ہے۔ عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے ،تیرے بچوں کا تجھ پر حق ہے۔ اس لیے حق دار کو اس کا حق دو۔ (بخاری)
اگر پرہیز اور امراض سے بچائو کے علاوہ حفظانِ صحت کے جو اصول اسلام اور طب میں مشترک ہیں، ان پر عمل کیا جائے تو عملی طورپر علاج کی نوبت ہی نہ آئے۔ حیرت ناک حد تک اسلامی تعلیمات واقعی زندگی بخش ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: دو ایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ صحت ہے اور فرصت ہے (بخاری) ۔کسی کو ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی۔ (ابن ماجہ)
حفظان صحت کے کچھ اصول ہیں: ۱- عادات ۲-جسمانی ساخت اور پرداخت ۳-ذہنی صحت ۴-معاشرتی صحت ۵-طبعی صحت ۶-لباس اور ماحولیاتی صحت ۔
خواہشات انسان کی زندگی کے پورے نظام کو بدل دیتی ہیں۔ مال و جاہ اور سیم و زر ان کے مختلف نام ہیں۔ منصب ،بیوی بچے اور اقتدار ان سب کی خواہش رہتی ہے لیکن یہ نعمت تب ہیں جب یہ ہدایت کے ساتھ ہوں۔ جذبات میں حسدسے پناہ کا سورئہ فلق میں ذکر آتا ہے کہ مجھے حسد کرنے والے کے شرسے محفوظ فرما۔ غصے کے لیے احکام ہیں: وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۴) ’’اور وہ اپنے غیظ و غضب پر قابو پاتے ہیں ‘‘۔
سکون اور طمانیت قلب کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد ۱۳:۲۸) ’’دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے‘‘۔ نفسیاتی امراض سے نجات کا ایک بڑا ذریعہ معاملات میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا ہے کہ مرض ، مالی یا جانی نقصان ،خوف ،بھوک میں انسان صبر کرے اور اللہ کا حکم اور اس کا فیصلہ قرار دے۔ لوگوں کے رویے انسان کو تکلیف دیتے ہیں۔ غلط رویوں کے لیے دین میں کوئی اجازت نہیں، مثلاً منافقت،تکبر، بے اعتنائی، نفرت، حسد، بُغض، تعصب ،تمسخر، مخالفت ،افتراق، ظلم، شک، بداخلاقی___ یہ تمام منفی رویے ہیں۔ سورۂ حجرات میں تمسخر، غیبت ،بدظنی ،تحقیر ،عیب جوئی کی حرمت کا حکم ہے۔ اسلام نظریاتی بھائی چارے کو قائم کرنے حکم دیتاہے اور تعصبات پر مبنی مملکتوںکے قیام کوانسانی حقوق کے خلاف قرار دیتا ہے۔
اسی طرح نشے سے بچنا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنo (المائدہ ۵:۹۰) ’’شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔ شراب کوحرام قرار دیا گیا۔ چودہ سو سال بعد بھی اُ مت ان لعنتوں سے محفوظ ہے اور ان بیماریوں سے جو شراب نوشی اور نشوں سے پیدا ہوتی ہیں۔
یہ تمام احکامات علاج نہیں، مرض سے بچنے کی اعلیٰ ترین تدابیر ہیں۔ اس لیے کہ مرض سے بچنے کی تدابیر بھی دین کا حصہ ہیں بلکہ ترجیحاً بہت اہم ہیں۔ درخت اور پودے لگانے کو صدقہ قرار دیاگیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو بنجر زمین کو آباد کرے وہ اس کی ہے۔ ترمذی کی ر وایت حضرت جابرؓ سے اور ابوداؤد میں بھی ہے جس نے بیری کاٹی (بلاجواز) اللہ اس کے سر کو دوزخ میں نیچا کرے گا ۔حضرت زبیرؓسے مسند احمد اور ابوداؤد میں روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: مرج وادی کا شکار اور پودے حرام ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو درخت لگارہا ہے اور دیکھے کہ قیامت آگئی ہے تو درخت لگادے۔ قرآن میں ماحول کو تباہ کرنے والا بڑا دشمن وہ ہے جو کھیتی اور جانوروں کو ہلاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو فساد پسند نہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ’’جب اُسے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا‘‘۔(البقرہ۲:۲۰۵)
اس طرح گھر کی صفائی، برتنوں کی صفائی اور گھر کے ماحول کی صفائی بھی فرض ہے۔ خوب صورت محل دیکھ کر ہی تو ملکہ سبا نے اسلام قبول کیا ۔ گھر کی تعمیر اور صفائی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس طرح کہ خانہ کعبہ کے لیے اللہ نے ابراہیم سے وعدہ لیا کہ ’’میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو‘‘۔(البقرہ۲:۱۲۵)
بدن، لباس، غذا اور ماحول کی صفائی کیوں ضروری ہے؟یہ واضح ہے کہ انسان کی کسی اہم ضرورت کی وجہ سے یہ احکامات دیے گئے ہیں۔ اب ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب صحت کے لیے علمِ فقہ میں اس بنیاد پر ہیں اور اولیت رکھتے ہیں کہ انسانی صحت کا دارومدار ان اہم اصولوں پر ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے ،کہ صحت مقدم ہے، اور قیامت تک کے لیے صحت سے متعلق ایجادات، دوائیں، پرہیز یا شہروں کی منصوبہ بندی یا مملکتوں کے انتظامی ڈھانچوں کے جو بھی احکامات ہوں گے، ان کو مقاصد الشریعہ کے زمرے میں شامل رکھا جائے گا۔ اس سے یہ بھی واضح ہواکہ پولیو کے قطرے بھی بیماری سے بچانے کے لیے ہیں۔ اس پر ان احکامات کا اطلاق ہوتا ہے ۔ ان سارے احکامات سے جب پتا چل گیا کہ انسانی زندگی کا تحفظ ہرچیز پر دینی لحاظ سے مقدم ہے، اور پھر زندگی کا انحصار صحت پر ہے، اور اللہ کو بھی قوی مومن پسند ہے تو پھر وہ ساری کاوش جو اس مقصد کے لیے ہو وہ باعث اجر و ثواب ہے۔
پوری دنیا سے پولیو ختم ہوگیا، سواے نائیجیریا، افغانستان اور پاکستان کے۔ اس کام میں رکاوٹ وہ بہت سے معاشرتی، سیاسی، انتظامی اور مذہبی سوالات ہیں جن کے جوابات کی واقعی ضرورت ہے ۔ایک سوال یہ ہے کہ دنیا میں اتنے بہت امراض ہیں، اس ایک مرض کو ختم کرنے کے لیے امریکا اورپورا عالم کیوں کوشش کررہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے بچوں کو کسی ملک کی دشمنی یا اسلام دشمنی کی وجہ سے مرض کے حوالے کرنا خود ایک گناہ ہے۔ امریکا اور عالم کفر کی اسلام دشمنی میں کوئی شک نہیں۔ اپنے بچوں کو پولیو زدہ کرنے سے ہم بھی ان کی پالیسی کوا ختیار کرنے والے بن جائیں گے، حالانکہ اس کام کا اس سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ پولیو کے یہی قطرے ۵۳اسلامی ممالک میں استعمال کرکے ہی وہاں کے مسلمان ڈاکٹروں، علما اور حکمرانوں نے پولیو کا خاتمہ کیا ہے۔ قرآن فرماتا ہے: ’’کسی قوم کی دشمنی تم کو عدل سے نہ ہٹا دے۔ خبردار عدل کرو اور تقویٰ کے قریب ترین چیز عدل ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ یہ بات بھی عام ہے کہ ان قطروں میں بانچھ پن کی دوا ہے۔ ان قطروں کی شیشی پر اجزا کے نام موجود نہیں۔ ہر دوا کی طرح اس پر زائدالمیعاد ہونے کی تاریخ درج نہیں۔ کراچی کے ایک مائیکرو بیالوجسٹ ڈاکٹر عدیل نے ان اعتراضات کا لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے جائزہ لیا اور علماے کرام کی موجودگی میں ان اعتراضات کو بے بنیاد ثابت کیا۔
اس مضمون میںعلما کے اسلام آباد ڈیکلریشن کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس میں راقم شریک تھا۔ اس ڈیکلریشن میں ڈرون حملوں کے سبب سے بے گناہ اورمعصوم بچوں کی شہادت کی مذمت جیسے اُمور پر بھی علما نے راے دی اور تین باتوں کو واضح کیا کہ پولیو کی ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے۔ تولیدی نظام کو نقصان پہنچانے والا کوئی جز اس میں شامل نہیں اور اس میں کوئی مضرصحت اور حرام چیز نہیں۔
مضمون نگار، نگران طبی فقہی بورڈ، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ہیں
نومبر ۲۰۰۰ء کے آخری عشرے میں ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے ’’رحم دلانہ قتل‘‘ (mercy killing) کے حق کو فرد کی رائے پر چھوڑنے کے لیے منظوری دی ہے اور اس طرح ایک پرانی بحث کو پھر سے چھیڑ دیا ہے۔ قانونی حق کے لیے تو انھوں نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے مگر اس مسئلے کی اخلاقی حیثیت ہی دراصل اس بات کا تعین کرے گی کہ ایک انتہائی مہلک مرض میں مبتلا شخص جس کے بظاہر دن گنے جا چکے ہوں اور طب کے ماہرین کے نزدیک بھی وہ لاعلاج ہو اور بدترین اذیت سے گزر رہا ہو‘ کیا اس کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ زہر کا انجکشن خود لگائے یا ڈاکٹر سے درخواست کرے کہ اس کو مرنے میں مدد دی جائے اور اس طرح اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دے۔ کیا فرد کو یہ حق حاصل ہے؟ کیا ڈاکٹر اس کی مدد کر سکتا ہے؟ معاشرے کے دوسرے ادارے اس قسم کے حالات میں کیا کردار اپنائیں؟ وہ بنیادی اصول کون سے ہیں جن کوفرد بطور حق استعمال کر سکتا ہے؟ اس کے سیاسی‘معاشرتی‘ معاشی‘ قانونی اور اخلاقی پہلو کون سے ہیں جو غور طلب ہیں؟
بنیادی طور پر یہ موضوع ’’طب اور فقہ اسلامی‘‘ سے متعلق ہے۔ ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ مسئلے کی نوعیت اس وقت کیا ہے؟ ہالینڈ کے ایوان زیریں کی رپورٹ کے حوالے سے ہفت روزہ ٹائم نے لکھا ہے:
بہت پھیلی ہوئی عوامی تائید کی بنیاد پر ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے اس امر کی تائید میں ووٹ دیا ہے کہ مرنے کے اس راستے کو قانونی طور پر تسلیم کیاجائے۔ ایمسٹرڈیم کے۵۵ سالہ ڈاکٹر ہینک مارٹن لین
نے ۲۰ مرتبہ افراد کے مرنے میںمدد کی ہے تاکہ فرد کی زندگی کو طویل کرنے کے بجائے اس کو موت سے ہم کنار
کیا جائے۔ اس کے لیے اس نے ’’مہربان موت‘‘ (mercy dying)کے الفاظ استعمال کیے۔ اس نے ’’رحم دلانہ قتل‘‘ (mercy killing)کے الفاظ کو پسند نہیں کیا۔ ڈچ پارلیمنٹ میں اکثریت کی طرف سے تائیدی ووٹ اس کے اطمینان کا باعث بنا اور اس نے کہا ہے کہ اب اہم بات یہ دیکھنا ہے کہ دنیا کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ایک اچھے طریقے سے‘ پابندیوں سے آزاد یا پابندیوں کے ساتھ موت میں مدد کرنا‘ یا اس کے حصول کی قانونی طور پر کس طرح اجازت دی جائے؟ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کو بھی منظوری دینا ہے۔ (۱۱ دسمبر ۲۰۰۰ء)
یہ قانون ایک ڈاکٹر کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ایک ایسے مریض کی زندگی کو ختم کرنے میں مدد دے جو لاعلاج (terminally ill) ہو‘ شدید درد (unbearable pain) میں مبتلا ہو۔ مریض خودکشی میں مدد طلب کرنے کے بجائے ڈاکٹر سے خودکشی کے لیے مشورہ کرے اوراس مشورے میں ایک دوسرے ڈاکٹر کی رائے بھی شامل ہو۔مریض ۱۶ سال کا ہو اور اگر اس کی عمر ۱۲ اور ۱۶ کے درمیان ہو تو والدین کی رضامندی لی جائے۔
ڈاکٹر لین کہتے ہیں کہ اس کے بوڑھے مریض اور ایڈز (aids)میں مبتلا مریض جب اس سے یہ بات کہتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میری دانست میں ’’میں ایک اچھا کام کرتا ہوں‘‘۔ بقول ڈاکٹر لین :کسی کا قتل اگرچہ ایک غیر فطری اور غیر قدرتی امر ہے اور جس دن میں یہ کام کرتا ہوں وہ بہت بوجھل اور مشکل دن ہوتا ہے۔ مگر دوسرے دن جب میں مرنے والے کے خاندان کے لوگوں کے پاس جاتا ہوںاور دیکھتا ہوں کہ وہ بوجھ سے آزاد ہیں‘ بہت ہلکا محسوس کرتے ہیں اور مطمئن ہیں تو میری تشویش ختم ہو جاتی ہے۔
آرا کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ ملک کے ۹۲ فی صد افراد نے اس قانون کے حق میں اپنی رائے دی۔ ڈاکٹر پیٹر ہیلڈرنگ جو مخالف ڈاکٹروں کی تنظیم کے چیئرمین ہیں‘ کہتے ہیں کہ ’’ضروری ہے کہ ناقابل برداشت درد کے لفظ کے قانونی معنی متعین کیے جائیں۔ طب کی دنیا میں اس لفظ کی تشریح میں بہت اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک سب سے اہم مریض نہیں بلکہ وہ ڈاکٹر ہے جس سے یہ کہا جائے گا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ مریض کو زندہ رہنا چاہیے یا مر جانا چاہیے۔ جب کہ ڈاکٹر لین کہتے ہیں کہ نیدرلینڈ میں ’’موت کی طلب‘‘ پچھلے ۱۰ سالوں میں کم ہوئی ہے کیونکہ ایڈز کے علاج میں بہتری آئی ہے۔ ان کی رائے میں ’’ناقابل برداشت درد‘‘ کافیصلہ مریض کر سکتا ہے‘ ڈاکٹر نہیں۔
فیلکو فرنیڈ ہوف کا بھائی سینڈرجو پانچ سال سے ایڈز کی بیماری میں مبتلا تھا‘ اس کی موت سے پہلے سارے رشتے دار اکٹھے ہوئے‘ سینڈر سے ملے اور اس کے بعد جب سب چلے گئے تو فیلکو ڈاکٹر لین کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا اور اس کے بھائی کو زہر کا انجکشن لگا دیا گیا۔ فیلکو کہتا ہے کہ غم تو بہت ہوا مگر اس کے ساتھ یہ آرام ملا کہ تکالیف کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے برعکس ایک مریض (جس برٹ) جو ایڈزکے مرض میں مبتلا تھا‘ تین سال بعد اس وقت فوت ہوا جب صرف اس کی والدہ اس کے ساتھ موجود تھیں۔ فیلکو کہتا ہے کہ میرے لیے یہ احساس بڑا تکلیف دہ تھا کہ جس برٹ اپنی زندگی کے آخری مرحلوں میں بہت زیادہ تنہا تھا۔ ان دو مریضوں کے حالات سے ہر فرد ان دو طرح کی موت کا فرق محسوس کر سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ ’’ناممکن بقا‘‘ کا مسئلہ درپیش ہو تو خود فیصلہ کر سکیں۔ (ٹائمز انٹرنیشنل‘ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۰ء)
موت کے حق (euthanasia) کے سلسلے میں آسٹریلیا نے جولائی ۱۹۹۶ء میں دنیا کی پہلی مملکت کی حیثیت سے ’’رضاکارانہ مہربان موت‘‘ یا قتل کو قانونی طور پر جائز قرار دیا۔ ذہنی طور پر بیدار فرد جو مرض الموت میں مبتلا ہو‘ کسی ڈاکٹر سے زندگی کو ختم کرنے کے لیے امداد طلب کر سکتا ہے‘ بمطابق Right of Terminally ill Act --- عملی طور پر اس قانون کے خلاف مارچ ۱۹۹۷ء میں اپیل کی گئی۔ چار افراد نے قانون کے تحت اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ پروسٹیٹ (prostate)کے سرطان میںمبتلا ۶۶ سالہ باب پہلا آدمی تھا جس نے قانونی طور پر آسٹریلیا میں زندگی کا خاتمہ چاہا--- سوئٹزرلینڈ میں یہ غیر قانونی ہے مگر کسی کی مدد کرنے پر کوئی سزا نہیں۔ وہاں ’’انسانی موت کی سوسائٹی‘‘ کے نام سے تنظیم قائم ہے جو اس معاملے میں قانونی مدد فراہم کرتی ہے۔ عملی طور پر سالانہ ۱۰۰ سے ۱۲۰ کی تعداد میں افراد اس طرح مدد لے کر موت کو اختیار کرتے ہیں۔ (ایضاً)
ریاست کولمبیا میں ۱۹۹۷ء میں عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس فردکو فوجداری مجرم قرار دے کر گرفتار نہیں کیا جائے گا جو انتہائی بیمار شخص کی موت میں مددگار بنے۔ ایسی اموات کی شرح کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
ریاست ہاے متحدہ امریکہ کی سپریم کورٹ نے ۱۹۹۷ء میں فیصلہ کیا کہ کسی کی خودکشی میں مدد کرنے والے ڈاکٹر کا فعل دستوری مسئلہ ہے۔ اس لیے ۴۳ ریاستوں نے اس فعل کو غیر قانونی قرار دیا۔ چھ ریاستوں میں کوئی قانون سرے سے نہیں ہے۔ سوائے اوریگان کے جہاں اسے قانونی جوازدیا گیا ہے۔ Death with Dignity Act 1997 کے مطابق اس بات کی اجازت ہے کہ مریض انتہائی درجے سے متعلق ہو اور زہر کا انجکشن وہ خود اپنے آپ کو لگائے گا۔ ۲۷ افراد نے ۱۹۹۹ء میں خود کو قانونی راستے سے موت کے حوالے کیا۔ (ایضاً)
اس موضوع سے متعلق دوسرے پہلو بھی ہیں کہ ایسے بے ہوش مریض کے بارے میں کیسے فیصلہ کیا جائے جس کی دماغی موت (brain death)واقع ہو گئی ہو مگر آلات کے ذریعے اس کا تنفس برقرار رکھا گیا ہو اور وہ زندہ ہو؟ یا ایسے مریض کا کیا کیا جائے جس کے لیے ڈاکٹر متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ دوا‘ خون دے کر یا آپریشن کرکے اس کی زندگی بچائی جا سکتی ہے مگروہ مریض اس بات کی اجازت نہ دیتا ہو؟ کیا مریض کی مرضی کے خلاف علاج کر کے اس کی زندگی بچانے کی کوشش کی جانی چاہیے؟ اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ یہ اور اسی طرح کے مختلف سوالات ہیں جن کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
ایک فرد جو سمجھتا بوجھتا ہو اور ناقابل برداشت درد میں اور ایسی بیماری سے ہم کنار ہو جو لاعلاج ہو اور آخری مرحلوں کی بیماری ہو‘ کیا اس کو اپنی زندگی کا خاتمہ کر دینا چاہیے؟ اور کیا اس کو یہ قانونی اجازت ملنی چاہیے کہ وہ خود کو موت کے گھاٹ اتار دے؟ کیا کسی ڈاکٹر یا رشتے دار یا معاشرے کے کسی ادارے کو یہ اجازت حاصل ہو کہ مرنے میں وہ اس کی مدد کرے؟ یہ سوال کی ایک صورت ہے جس پر گفتگو کی ضرورت ہے۔ اگر ڈاکٹر اس سلسلے میں مدد نہ کرے تو اس کے انکار کی قانونی حیثیت کیا ہونی چاہیے؟ اور اس انکار کی صورت میں وہ دوسرے ڈاکٹر کی طرف اس مریض کو کس طرح بھیجے گا؟ مریض کی عمر کتنی ہو جب اس کی مرضی کے مطابق اس کی موت میں مدد کی جائے؟ بصورت دیگر وہ کون سے رشتے دار ہیں جو اس کی مدد کر سکتے ہیں؟ ناقابل برداشت درد کا مطلب کیا ہے؟ اسے کون متعین کرے گا اور ناقابل علاج مرض سے کیا مراد ہوگی؟
ایسے سوالات پر ان غیر مسلم ممالک میں زور و شور سے بحث ہو رہی ہے جن کے سامنے اس بات کی بنیادی طور پر کوئی اہمیت نہیں کہ انسان‘ کائنات اور اللہ تعالیٰ کا باہمی تعلق کیا ہے اور ان کے حقوق کیا ہیں اور اس ضمن میں انسانی جان کی اہمیت کیا ہے؟ اس کے بارے میں کسی انسان کوکوئی فیصلہ کرنے کی کتنی حیثیت اور اختیار حاصل ہے؟ فی الواقع اس کو کوئی اختیار حاصل بھی ہونا چاہیے یا نہیں۔ اور اگر ہو تو کیوں؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور موجودہ دور میں انسان کو اگر کسی وجہ سے بھی اپنی زندگی کے ختم ہونے کا ادراک حاصل ہوجائے‘ جو ممکن نہیں‘ تب بھی کیا اس کو فطرت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے یا اپنی مرضی سے اس کرب ناک زندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے براہِ راست خود یا کسی کی مدد حاصل کر کے اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دینا چاہیے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات کو میں نے چند حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے یہاں صرف ایک پہلو سے بحث کی جا رہی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک فرد جو ہوش و حواس میں ہے (fully oriented)‘ ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہے (terminally ill)‘ ناقابل برداشت درد (un bearable pain) میں ایک کرب ناک صورت حال سے دوچار ہے اور اس کے رشتے دار ‘ تیماردار بھی سخت قسم کے مستقل اعصابی کھچائو میں مبتلا ہیں---
(۱) کیا وہ خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے؟
(۲) کیا اس کے رشتے دار اس کی زندگی کے خاتمے کے لیے درخواست کر سکتے ہیں جس میں اس کی مرضی بھی شامل ہو؟
(۳) کیا کوئی ڈاکٹر اس سلسلے میں اس کی موت میں مدد کر سکتا ہے؟
اس ضمن میں مغربی ممالک میں ہونے والی بحث اور ان کے سوالات اور قوانین کو میں نے اختصار سے ابتدا میں بیان کر دیا ہے۔
اس مسئلے پر کلیسا نے کیا رویہ اختیار کیا؟ اس بارے میں Pope Pius XII کی ۱۹۵۷ء کی ایک تقریر ہے جس میں انھوں نے زندگی کے بچائو اور اس کو طویل کرنے والے ’’معمولی‘‘ اور ’’غیر معمولی‘‘ ذرائع کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے کہا:
When inevitable death is imminent in spirit of the means used, it is permitted in Conseience to take the decision to refuse forms of treatment that would only secure a precarious and
burden some prolongation of life.
جب ایک موت واقع ہو رہی ہو اور یقینی ہو اور تمام ذرائع علاج کے استعمال کے باوجود یہ صورت ہو تو ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس علاج سے انکار کر دیا جائے جو صرف کرب ناک اور بوجھ والی زندگی کی طوالت کا باعث ہو ۔ (Biomedical ethical issues ‘ ص ۷۸)
اس بات سے کیتھولک چرچ کے افراد نے اختلاف کیا ہے اور ان کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اخلاقی اور مذہبی راہبری براے کیتھولک ذرائع صحت (۱۹۷۱ء) کی ایک رپورٹ میں وہ لکھتے ہیں:
Directly intended termination of any patient's life, even at his
own request is always morally wrong.
براہِ راست نیت کر کے کسی مریض کی زندگی کا خاتمہ خواہ مریض خود درخواست کرے ہمیشہ اخلاقی طور پر غلط رہا ہے۔ (Biomedical ethical issue, 1984 ‘ ص ۷۹)
اس مسئلے پر کہ کسی مریض کی زندگی کا خاتمہ اس کی درخواست پر کیا جائے ‘ مسئلے کا ایک پہلو ہے جس پر دو مختلف آرا سامنے آتی ہیں‘ اور اس ضمن میں پوپ کی بات سے ایک دوسرا سوال اُبھرتا ہے کہ کیا مریض علاج روک دے‘ کیا وہ علاج کو روک سکتا ہے؟ کیا وہ اس علاج کرنے سے ہاتھ کھینچ لے جو اس کی تکلیف میں تو کمی نہیں کرتا مگر اس کی زندگی میں اضافہ کا باعث ہے؟
ایک مریض جو ہوش و حواس میں ہو اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو اور ناقابل برداشت درد سے ہم کنار ہو‘ کیا اس کو اپنی زندگی ختم کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ یا کوئی ڈاکٹر اس کی مدد کرسکتا ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں اسلام کا جواب نفی میں ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
۱- زندگی کا بچانا فرض ہے: وَلَقَدْ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرٍ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲) ’’ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا تھا (کتب بمعنی فرض کرنے کے ہیں) کہ اگر کسی کو قتل کیا‘ بغیر کسی قتل نفس کے جرم کے یا زمین میں فساد کے جرم کے‘ پس وہ ایسا ہے جیسے سارے انسانوں کو قتل کر دے اور جس کسی نے کسی کی زندگی بچائی وہ ایسا ہے جیسے سارے انسانوں کی زندگی بچا لے‘‘۔ زندگی کی اہمیت کا اندازہ خود اس بیان سے ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کی کیا اہمیت ہے۔ پھر اس کو بچانے کی کیا اہمیت ہے اور دوسرے کی زندگی کو بچانا جب اس قدر ضروری ہے تو پھر اپنی زندگی کی قیمت کا اندازہ کیجیے۔
۲- زندگی بچانے کے لیے اضطرار میں حرام کا استعمال: زندگی بچانے کے لیے چار حرام کردہ چیزوں کو یعنی ۱- المیتۃ(مردار)‘ ۲- دم مسفوحًا (بہتا ہوا خون)‘ ۳- لحم الخنزیر (سؤر کا گوشت) ‘ ۴- وما اھل بہ لغیراللّٰہ (غیراللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)‘ جنھیں اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے کھانے کی اجازت دی گئی ہے مگر ایک شرط کے ساتھ۔ وہ شرط یہ ہے: فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ (البقرہ ۲:۱۷۳) ’’ہاں‘ جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے‘ تو اس پر کچھ گناہ نہیں‘‘۔ گویا یہ مضطرکے لیے جائز ہے بلکہ ایسے موقع پر حرام کا نہ کھانا خودکشی کے مترادف ہے جو حرام سے شدیدتر ہے۔ (تفسیر کبیر‘ قرطبی‘ روح المعانی‘ البحرالمحیط۔ ‘تفسیر ماجدی‘ تفسیر زیر آیت ‘ سورہ البقرہ ۲: ۱۷۳)
جان جانے کی مختلف صورتیں ہیں: ۱- مرض‘ ۲- بھوک‘ ۳- حرام کھانے پر کوئی مجبور کر رہا ہو اور جان جانے کا خطرہ ہو۔ مجبوری کے ختم ہونے تک اس کی اجازت ہے۔ ’’اضطر اضطراراً‘‘ ضرورت سے مشتق ہے اور اس کے باب افتعال سے مطلب یہ ہے کہ شدید ضرورت کے وقت ان حرام غذائوں کو بھی بہ قدرکفایت کھایا جا سکتا ہے (ایضاً) ۔بھوک کی شدت‘ ناداری اور افلاس کے باعث‘ مرض کی بنا پر وہ حرام نہ کھائے تو یقینی طور پر مارا جائے گا۔ ان صورتوںمیں حرام کھانا واجب ہے۔ یعنی اگر نہ کھا ئے اور مر جائے تو حرام موت مرے گا۔ اس لیے کہ حفظ نفس اوّلین فرض میں سے ہے (حدائق بخشش (کامل)‘ مرتبہ: شمس بریلوی‘ ۱۹۷۶ء‘ مدینہ پبلشنگ کمپنی‘ ایم اے جناح روڈ‘ کراچی)۔ اضطرار سے مراد اضطرار حقیقی ہے نہ کہ تاویلی۔
۳- جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہنے کی رخصت: اس کا ذکر قرآن میں ہے: مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ م بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o (النحل ۱۶:۱۰۶) ’’جو اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے گا بجز اس کے جس پر جبر کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو‘ لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے گا تو ان پر اللہ کا غضب اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے‘‘--- فرمایا کہ جو لوگ اعداے حق کے شکنجے میں ہیں ان کے لیے اس بات کی تو گنجایش ہے کہ وہ قلباً ایمان پر جمے رہتے ہوئے محض زبان سے کوئی کلمہ ایسا نکال دیں جس سے ان کی جان کے اس مصیبت سے چھوٹ جانے کی توقع ہو۔ (تدبر قرآن‘ مولانا امین احسن اصلاحی‘ ج ۳‘ تفسیر سورہ نحل‘ آیت ۱۰۶)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اسی آیت کی تشریح میں عزیمت کے زمرے میں حضرت بلال حبشیؓ ‘ حضرت حبیب بن زیدؓبن عاصم کا ذکر کرنے کے بعد رخصت کا پہلو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
دوسری طرف عمار بن یاسرؓ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اوران کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کر دیا گیا‘ پھر ان کو اتنی ناقابل برداشت اذیت دی گئی کہ آخرکار انھوں نے جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کفار ان سے کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر وہ روتے ہوئے نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللّٰہ ما ترکت حتی سببتک وذکرت الھتھم بخیر ’’یارسول اللہ‘ مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپؐ کو برا اوران کے معبودوں کواچھا نہ کہہ دیا‘‘۔ حضورؐ نے پوچھا: کیف تجد قلبک ’’اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو؟‘‘ عرض کیا: مطمئنا بالایمان ’’ایمان پر پوری طرح مطمئن‘‘۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا:
ان عادوا فعد ’’اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۵۷۵)
۴- موت کی آرزو کی ممانعت: حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’مرنے کی آرزو نہ کرو‘ جان کنی کا خوف سخت ہے۔ بے شک نیک نیتی یہ ہے کہ بندے کی عمر لمبی ہو اور اللہ تعالیٰ ا س کو اپنی اطاعت نصیب فرمائے‘‘ ۔ (بخاری‘ مسلم)
حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی موت کی خواہش نہ کرے۔ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے جب تک زندہ رہے گا اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا‘ اور اگر اس کے اعمال خراب ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آیندہ زندگی میں وہ توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لے‘‘۔ (بخاری)
۵- اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ ۲:۱۹۵) ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اوراپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘۔
امام راغب اصفہانی ’’تھلکہ‘‘ کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ما یودی الٰی الھلاک‘ وہ چیز جو انسان کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ (مفردات امام راغب‘ ص ۵۴۵)
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گے اور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے ‘ تو یہ تمھارے لیے دنیا میں بھی موجب ہلاکت ہوگا اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں تم کفار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت بازپرس ہوگی۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ص ۱۵۳)
اسباب موت سے فرار کے احکام کے زمرے میں مفتی محمد شفیع ؒ صاحب لکھتے ہیں:
جو چیزیں عادتاً موت کا سبب ہوتی ہیں‘ ان سے فرار مقتضاے عقل بھی ہے‘ مقتضاے شرع بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جھکی ہوئی دیوار کے نیچے سے گزرے تو تیزی کے ساتھ نکل گئے۔ اس طرح اگر کہیں آگ لگ جائے وہاں سے نہ بھاگنا‘ عقل و شرع دونوں کے خلاف ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ ص ۴۳۸)
باقی رہا طاعون یا وبا جس بستی میں آجائے اس سے بھاگنا‘ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جس کی تفصیلات فقہ و حدیث میں مذکور ہیں‘ وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
جدید طب نے وبا کے بارے میں حدیث میں بیان شدہ تدابیر کو ہی اختیار کیا ہے کہ جہاں وبا ہو ‘ وہاں داخل نہ ہونا چاہیے اور جو وہاں موجود ہو اس کو وہاں سے نہ نکلنا چاہیے(الحدیث)۔ قرنطینیہ کے اصول بھی اسی طرح متعین کیے گئے۔ حضرت عمرؓ نے پہاڑوں میں بکھرنے کی اجازت دی تھی (یہ ان کا اجتہاد تھا)۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف ہی دوڑتے ہیں۔
۶- خودکشی حرام ہے: (الف) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیا تو وہ دوزخ میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو گراتا رہے گا اور جس کسی نے تیز دھار ہتھیار سے خودکشی کی تو دوزخ میں بھی خود اپنے ہاتھ سے اپنے پیٹ پر وار کرتا رہے گا۔
(ب) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پہنچی ہو ہرگز موت کی آرزو نہ کرے‘ اور اگر کسی وجہ سے ایسا کرنا چاہتا ہو تو اس کو ایسے دعا کرنی چاہیے کہ اے خدا مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لیے مفید ہے اور مجھے موت دے اگر میری موت میرے لیے مفید ہے۔
نسائی کی روایت میں جو قیس بن ابوحازم سے مروی ہے اس طرح مذکو ر ہے کہ جناب کے پاس گیا تو ان کے پیٹ پر سات داغ دیے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے کاش رسولؐ نے ہم کو موت مانگنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں ضرور موت مانگتا۔ (النسائی‘ مجموعہ الصحاح‘ (عربی اردو)‘ کتاب تمنی الموت‘ ص ۳۵۲‘ مکہ پبلشنگ کمپنی‘ لاہور)
(ج) حضرت جندب بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے قوموں میں ایک شخص کو زخم تھا۔ وہ شدت تکلیف سے گھبرا گیا۔ پھر چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی ذات کے معاملے میں میرے فیصلے پر سبقت کی کوشش کی (الحدیث)۔
مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں کہ حدیث میں موت کی تمنا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی شخص کو دنیا میں یہ یقین کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ مرتے ہی جنت میں ضرور جائے گا اور کسی قسم کے عذاب کا اس کو خطرہ نہیں‘ تو ایسی حالت میں موت کی تمنا کرنا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بہادری جتانے کے مترادف ہے۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ ص ۴۳۸)
۷- علاج لازمی ہے: اس ضمن میں گذشتہ صفحات میں دلیل نمبر ۲ میں تفاصیل مذکور ہیں۔حکم ہے کہ بیماریوں کا علاج کرائو‘ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا سب بیماریوں کا علاج پیدا کیا ہے۔ فرمایا: لکل داء دواء (الحدیث)۔ اس ضمن میں علاج میں ہر حرام شے بھی حلال ہو جاتی ہے اگر جان بچ سکے۔ ملاحظہ فرمائیں دلیل نمبر ۲۔
۸- اذیت اور تکالیف گناہوں کی بخشش کا ذریعہ: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُولٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷) ’’اور ہم ضرور تمھیں کچھ خوف و خطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ ، انھیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں‘‘۔ یعنی انتہائی درجے کی تکالیف کا ذکر ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو جو بھی مصیبت ‘جو بھی بیماری ‘ جو بھی پریشانی‘ جو بھی کڑھن‘ جو بھی رنج‘ جو بھی اذیت اور جو بھی غم و اندوہ پہنچتا ہے یہاں تک کہ کانٹا چبھتا ہے تو خدا اس کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔ (بخاری‘ مسلم)
۹- حضرت ایوب ؑ کا اسوہ: حضرت ایوب ؑ کا اسوہ انھیں جسمانی بیماری کے انتہائی درجے میں مبتلا کر کے صبر کے حوالے سے مثال بنایا گیا ہے۔ اس لیے کہ لاعلاج ہونا اور بے انتہا درد کا ہونا بھی انسان کے لیے آزمایش ہے۔ لہٰذا دیکھا جائے کہ وہ اللہ کی طرف سے موت کی مقررہ گھڑی کا انتظار کرتا ہے یا اپنی مرضی کی طرف بڑھتا ہے اور خود کو ہلاک کر دیتا ہے ۔یہی اصل آزمایش ہے۔ لہٰذا مایوسی کفر ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَاذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوْبَ م اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍo (ص ۳۸:۴۱) ’’اور ہمارے بندے ایوب ؑ کا ذکر کرو‘ جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے‘‘۔
یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان نے مجھے بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور میرے اوپر مصائب نازل کر دیے ہیں‘ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت‘ مال و دولت کا ضیاع‘ اور اعزہ و اقربا کے منہ موڑ لینے سے میں جس تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہوں‘ اُس سے بڑھ کر تکلیف اور عذاب میرے لیے یہ ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے مجھے تنگ کر رہا ہے‘ وہ ان حالات میں مجھے اپنے رب سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ مجھے اپنے رب کا ناشکرا بنانا چاہتا ہے‘ اور اس بات کے درپے ہے کہ میں دامن صبر ہاتھ سے چھوڑ بیٹھوں۔ حضرت ایوب ؑ کی فریاد کا یہ مطلب ہمارے نزدیک دو وجوہ سے قابل ترجیح ہے۔ ایک یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو صرف وسوسہ اندازی ہی کی طاقت عطا فرمائی ہے‘ یہ اختیارات اس کو نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو بیمار کردے اور انھیں جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کرے۔ دوسرے یہ کہ سورہ انبیا میں جہاں حضرت ایوب ؑ اپنی بیماری کی شکایت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں‘ وہاں شیطان کا کوئی ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۳۴۰)
۱۰- مایوس نہ ہونا اور زندہ رہنے کی کوشش‘ ایمان کی علامت:
قَالُوْا بَشَّرْنٰکَ بِالْحَقِّ فَلاَتَکُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ o قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلاَّ الضَّآلُّوْنَ o (الحجر ۱۵: ۵۵-۵۶) ’’انھوں ]فرشتوں [نے جواب دیا، ’’ہم تمھیں برحق بشارت دے رہے ہیں‘ تم مایوس نہ ہو‘‘۔ ابراہیم ؑ نے کہا’’اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں‘‘۔
لاَتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط (الزمر ۳۹:۵۳) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو‘‘۔
وَلاَ تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَo (یوسف ۱۲:۸۷) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔
وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ ج وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَئُوْسًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۳) ’’انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تووہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے‘ اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے‘‘۔
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o لِّکَیْلاَ تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ (الحدید۵۷:۲۲-۲۳) ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں تمھارے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمھیں ہو ‘ اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمھیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جائو۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں‘‘۔
صاحب تفہیم القرآن فرماتے ہیں:
تم پر کوئی مصیبت بھی معاذ اللہ تمھارے رب کی بے خبری میں نازل نہیںہو گئی ہے۔ جو کچھ پیش آرہا ہے‘ یہ سب اللہ کی طے شدہ اسکیم کے مطابق ہے جو پہلے سے اس کے دفتر میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ اور ان حالات سے تمھیں اس لیے گزارا جا رہا ہے کہ تمھاری تربیت پیش نظر ہے۔ جو کارعظیم اللہ تعالیٰ تم سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تربیت ضروری ہے۔ اس سے گزارے بغیر تمھیں کامیابی کی منزل پر پہنچا دیا جائے تو تمھاری سیرت میں وہ خامیاں باقی رہ جائیں گی جن کی بدولت نہ تم عظمت و اقتدار کی ثقیل خوراک ہضم کر سکو گے اور نہ باطل کی طوفان خیز موجوں کے تھپیڑے سہہ سکو گے۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ص ۳۲۰)
علامہ مفتی محمد شفیع ؒ صاحب نے لکھا ہے:
کیونکہ اس کو علم غیب حاصل ہے اور ہم نے یہ بات اس واسطے بتلا دی ہے تاکہ جو چیزتم سے جاتی رہے (تندرستی یا اولاد یا مال) تم اس پر (اتنا) رنج نہ کرو (جو حق تعالیٰ کی مرضی کے طلب کرنے اور آخرت کے امور میں مشغول ہونے میں رکاوٹ ہو جائے اور طبعی تکلیف کا مضائقہ نہیں)۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ص ۳۱۷-۳۱۸)
تفسیر روح المعانی میں ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہر انسان طبعی طور پر بعض چیزوں سے خوش ہوتا ہے اور بعض سے غمگین۔ لیکن ہونا یہ چاہیے کہ جس کو کوئی مصیبت پیش آئے وہ اس پرصبر کر کے آخرت کا اجروثواب کمائے‘ اور جس کو کوئی راحت و خوشی پیش آئے وہ اس پر شکرگزار ہو کر اجروثواب حاصل کرے۔ (ایضاً‘ ص ۳۱۹)
۱۱- اللّٰہ کے حق میں تعارض نہ کیا جائے: زندگی دینے کا فیصلہ جس نے کیا ہے اس کو یہ حق حاصل ہے کہ زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کرے۔ یہ حق خالق کا ہے اور اس کے حق میں تعارض (جھگڑنا) اور اس کے فیصلے کے بجائے اپنی مرضی کی پیروی فکری اعتبار سے بہت بڑا جرم ہے اور کائنات کے منصوبہ شدہ نظام سے بغاوت ہے اور منصوبہ بندی کرنے والے کو رب نہ ماننا ہے۔ اس لیے موت کی تمنا‘ اس کو حاصل کرنے کے حق کا مطالبہ کرنا‘ اور موت کے لیے کسی سے مددکرنے کے لیے کہنا‘ یا موت سے کسی بیمار کو ہم کنار کرنا‘ علاج سے پرہیز کر کے موت کی طرف بڑھنا‘ یا کسی کو موت سے بچانے کی آخری کوششوں کو ترک کرنا‘ یہ تمام حرکات اور فیصلے بنیادی طور پر کافرانہ اور ملحدانہ ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ اس لیے جو افراد یا قومیں اپنی موت کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو اس قسم کے کسی فرد یا قوم کے بارے میںکسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے جو پہلے ہی کائنات کے کسی خالق کو نہیں مانتے اور نہ ہی کسی ایسے مقصد کے قائل ہیں جس کے لیے انسان کو زندگی دی گئی ہے اور موت کے بعد کسی زندگی کا وہ تصور ہی نہیں رکھتے۔
اس کے برعکس جو غائبانہ طور پر ربِّ کائنات کو تسلیم کرتے ہیں‘ ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشاد قرآنی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ o (الملک ۶۷:۱۲) ’’جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں‘ یقینا ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر‘‘۔
اور پھر ان کے نزدیک زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد ہے کہ:
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ط (الملک ۶۷:۲) ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ لوگوں کو آزما کردیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔
وہ الدنیا مزرعۃ الاخرۃ کے پیش نظر دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتے ہوئے اخروی زندگی کو حقیقی زندگی تصور کرتے ہیں۔ دنیا داروں کی روش پر قرآن یوں تبصرہ کرتا ہے:
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَالدُّنْیَا o وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی (الاعلیٰ ۸۷:۱۶-۱۷) ’’مگرتم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے‘‘۔
ایسے افراد اور مملکتوں کے بارے میں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ رحم دلانہ موت یا قتل جیسی فضول باتوں پر کسی پہلو سے غور کریں۔ جو فرد بھی اپنی اور کائنات کی تخلیق‘ مقصد اور انجام کی حقیقت سے آگاہ ہو اوران رشتوں اور حقوق کو پہچان گیا ہو جو خالق اور مخلوق‘ اللہ اور بندے کے درمیان پیدا کیے گئے ہیں وہ خالق کے حق میںتعارض سے ہی کانپ اٹھتا ہے۔
۱۲- ایمان کا تقاضا راضی بہ رضا ہونا ہے: اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا‘ اس کی آزمایشوں پر صبر کرنا‘ اور اس کی نعمتوں پر شکر کرنا‘ بس یہی تین کیفیات ہیں جو دنیاوی زندگی میں جس نے طاری کر لیں وہ کامیاب رہا۔ حدیث قدسی میں آتا ہے:
وَمَنْ لَمْ یَرضٰی بِقَضَائِیْ وَلَمْ یَصْبِرْ عَلَی الْبَلاَئِیْ وَلَمْ یَشْکُرْ عَلَی النِّعْمَائِیْ فَقُلْ اُخْرُجْ مِنْ تَحْتِ السَّمَائِیْ وَادْعُوْا رَبًّا سَوَائِیْ- جو میری مرضی پر راضی نہ ہوا‘ جس نے میری آزمایشوں پر صبر نہ کیا‘ جس نے میری نعمتوں کا شکر نہ کیا‘ آپؐ کہہ دیجیے ‘میرے آسمان کے نیچے سے نکل جائے اور میرے علاوہ کسی اور رب کو پکارے۔
سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے: وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلاَّ ٓاِیَّاہُ (۱۷:۲۳) ’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت (غلامی‘ بندگی‘ اطاعت) نہ کرو مگر صرف اس کی‘‘۔ غلامی اور بندگی اور عبادت ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ عملی طور پر پرستش‘ وفاداری اور اطاعت کا سزاوار وہی ہے۔ اس کے ساتھ فکری طور پر موت اور زندگی کے بارے میں اس کے فیصلے کا انتظار اور اس کی رضا کی طرف دیکھنا ہی عبادت ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ کا یہ معمول تھا کہ ہم میں سے جب بھی کوئی شخص بیمار پڑتا تو آپؐ اپنا داہنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور دعا فرماتے:
اَذْھِبِ الْبَاْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لاَ شِفَائَ اِلاَّ شِفَائُ کَ شِفَائً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا (بخاری‘ مسلم) اے انسانوں کے پروردگار‘ اس مریض کا دکھ دور فرما دے اور اس کو شفا عطا فرما۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ شفا دینا تو تیرا ہی کام ہے‘ ایسی کامل شفا عطا فرما کہ بیماری کا نام و نشان نہ رہے۔
یہ دعا prolongation of life کے لیے ہی تو ہے۔ اللہ سے زندگی مانگنا دراصل اس کو اپنے سارے معاملات کا ملجا اور ماویٰ تصور کرنا ہے۔ یہی توحید ہے‘ یہی عبادت ہے۔
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَo (المؤمن ۴۰:۶۰) ’’تمھارا رب کہتا ہے‘ ’’مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا‘ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ یعنی جو اللہ سے دعا نہیں مانگتے وہ جہنم کے مستحق ٹھیریں گے۔ گویادعا مانگنا عین عبادت ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: جب تم مریض کی عیادت کو جائو تو اس کی مہلت عمل کے بارے میں اس کا غم غلط کرو اور تسلی تشفی کی باتیں کرو‘ اگرچہ تمھاری ان باتوں سے قضا تو نہیں ٹل سکتی لیکن مریض خوشی ضرور محسوس کرے گا۔ (ترمذی‘ ابن ماجہ)
ان ۱۲ دلائل کی روشنی میں زیربحث مسئلے کا تشفی بخش جواب سامنے آتا ہے کہ کسی قسم کا لاعلاج مرض (terminally ill) یا انتہائی درجے کا درد (unbearable pain) ہو اور مریض کے ہوش و حواس قائم ہوں‘ یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے کہ وہ خود اپنی موت کی کوشش کرے‘ یا کسی سے موت کے حصول کے لیے مدد کی درخواست کرے‘ اور یہی حکم اس کے رشتے داروں کے لیے بھی ہے۔ اسی طرح کسی معاشرے اور حکومت کے لیے بھی جائز نہیںکہ وہ اس امر کی حمایت میں کوئی قانون سازی کرے۔
اس بحث کے تسلسل میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ مریض بے ہوش ہو اوراس کا فیصلہ نہ جانا جا سکتا ہو تو کس حد تک انتظار کیا جائے؟ مصنوعی دوا یا خوراک کو کب تک جاری رکھا جائے؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مریض کی دماغی موت واقع ہو چکی ہو۔ موت کیا ہے؟ اس کے معلوم کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ اور اس کا حتمی فیصلہ کیسے کیا جائے؟ اس کی جسمانی زندگی برقرار رکھنے والا علاج جس میں خوراک‘ دوا اور تنفس کو برقرار رکھنے اور نہ رکھنے کا فیصلہ کس طرح کیا جائے‘ یہ سب امور قابل بحث ہیں۔