اکتوبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اکتوبر ۲۰۱۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

محرم کے بغیر حج

سوال: کیا عورت حج یاعمرہ ادا کرنے کے لیے گروپ کی شکل میں نامحرم کے ساتھ جاسکتی ہے، جب کہ شوہر یا باپ کی طرف سے اجازت ہو؟ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: عورت عورتوں کی جماعت کے ساتھ گروپ کی شکل میں حج پر نہیں جاسکتی۔ اس لیے کہ محرم کے بغیر اس پر حج فرض نہیں ہے۔ رَے کی ایک خاتون نے ابراہیم نخعیؒ کی طرف خط لکھا کہ میں مال دار ہوں، مجھ پر حج فرض ہے اور میں نے حج نہیں کیا لیکن میرا محرم کوئی نہیں جو حج میں میرے ساتھ جائے۔ اس پر انھوں نے جواب دیا: تو ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف تک پہنچنے کی توفیق دی ہو، اس لیے تجھ پر حج فرض نہیں ہے۔

امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ اور امام اسحاقؒ، حسن بصریؒ اور ابراہیم نخعیؒ کے نزدیک محرم یا شوہر کا ہونا شرطِ استطاعت ہے۔ البتہ امام شافعیؒ کے نزدیک عورتوں کی جماعت میسر ہو تو خاتون حج پر جاسکتی ہے۔ بعض دیگر فقہا کے نزدیک ایسی صورت میں جب راستے میں امن ہو اور عورتوں کی  جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرہ نہ ہو تو عورت تنہا بھی حج کرسکتی ہے۔ وہ اس کے لیے اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا کہ ایک عورت حیرۃ سے تنہا سفر کرکے آئے گی اور حج کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا(بخاری)۔ازواجِ مطہراتؓ نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت عثمانؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ کی حفاطت میں حج کیا۔ حضرت عمرؓ نے دونوںکو ان کی حفاظت کی خاطر بھیجا تھا۔ (بخاری)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر محرم کے بھی حج ہوسکتا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ    پیش گوئی اور ازواجِ مطہراتؓ کا جلیل القدر صحابہ کی حفاظت میں حج کرنا، استثنائی حالات ہیں۔ عام حالات میں نہ امن ہے نہ اس طرح کی حفاظت، جس طرح کی حفاظت ازواجِ مطہراتؓ کو حاصل تھی۔ اس لیے محرم کے بغیر حج کرنا صریح احادیث کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان اور سعودیہ دونوں کے ہاں محرم کا ہونا شرط ہے، لہٰذا جب تک دونوں حکومتوں کے قوانین میں تبدیلی نہیں ہوتی اور محرم کی شرط ختم نہیں ہوتی، اس وقت تک اس شرط کی پابندی ضروری ہے۔ شوہر یا باپ کی اجازت محرم کی شرط کو ساقط نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی احکام پر صحیح معنٰی میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ واللّٰہ اعلم !(مولانا عبدالمالک)

زکوٰۃ کی اجتماعی ادایگی:چند عملی مسائل

س: دستور جماعت اسلامی کی رُو سے ارکانِ جماعت اپنی زکوٰۃ جماعت کے بیت المال میں جمع کرانے کے پابند ہیں۔ اس حوالے سے چند باتوں کی وضاحت کی ضرورت ہے تاکہ شرحِ صدر کے ساتھ اس امر کی پابندی کی جاسکے :

۱- قرآنِ مجید نے زکوٰۃ کی ادایگی کے لیے آٹھ مدات کا ذکر کیا ہے۔ ان مدات میں ترجیح کے اعتبار سے ایک ترتیب کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جماعت کے بیت المال میں زکوٰۃ جمع کرانے سے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ساری کی ساری زکوٰۃ یا اس کا ایک بڑا حصہ ’فی سبیل اللہ‘کی مد میں استعمال ہو۔ اس طرح امکان ہے کہ اجتماعی نظام کے ذریعے زکوٰۃ کی ادایگی تو کرلی جائے، لیکن مدات میں ترجیحی ترتیب کو برقرار نہ رکھا جاسکے؟

۲- بعض مقامات پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نظم جماعت کے پاس تمام زکوٰۃ جمع کرانے کے بعد آپ اپنے جاننے والے فقرا و مساکین کو ادایگی کے کے لیے، پھر نظم سے لے کر انھیں دے دیں۔ لیکن اس طرح وقت اور رابطوں کے ایک طویل سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یوں ایک آسان کام مشکل بن جاتا ہے۔ کیا یہ قرین حکمت ہے؟

۳- نظم جماعت اس امر کا اہتمام کرتا ہے کہ زکوٰۃ اور عمومی اعانت کا حساب الگ الگ رکھے، لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اجتماعی فنڈ سے پروگرامات کے شرکا کی تواضع بھی کی جاتی ہے، یا ہینڈبلز اور دعوت نامے چھپوائے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ دعوت ناموں کے بچ جانے اور استعمال نہ ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اس صورت میں کیا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟

ج: زکوٰۃ کی مدات قرآنِ پاک میں مقرر ہیں، ان میں کمی بیشی ممکن نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کو جو زکوٰۃ دی جاتی ہے، وہ اسے ان ہی مدات میںصرف کرتی ہے، صرف دعوت کے کاموں میں صرف نہیں کرتی۔

فقرا اور مساکین کو زکوٰۃ دینا مقصود ہو تو اس کی خاطر آپ کو حاجت نہیں کہ فقرا کا حصہ خود ادا کریں، البتہ عزیز و اقارب میں سے کوئی زکوٰۃ کا مستحق ہو اور آپ براہِ راست اسے زکوٰۃ دینا چاہیں تو مقامی اور ضلعی نظم کے علم میں لاکر ایسا کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں زکوٰۃ نظم جماعت کو دے کر واپس لینے کی حاجت پیش نہیں آتی۔

اصولاً اور عملاً زکوٰۃ کی مد سے حاصل ہونے والی رقم اور اعانت کے ذریعے ملنے والی رقم کو الگ الگ رکھا جاتا ہے، لیکن اگر کہیںا یسا نہیں ہو رہا تو وہاں پر فوراً اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔  زکوٰۃ کی رقم کے ایک حصے سے ایسی چیزیں چھپوائی جاسکتی ہیں جو لوگوں میں دعوت کی اشاعت کے لیے ہوں۔ پروگراموں کی اشاعت کے لیے ہینڈبل وغیرہ اگر چھاپے جائیں تو اس میں احتیاط ملحوظ رکھی جائے کہ اتنے ہی شائع کیے جائیں جن کی ضرورت ہو اور پھر انھیں پوری احتیاط سے لوگوں تک پہنچایا جائے، دفتروں میں پڑے نہ رہیں۔

یہ بات بطورِ خاص ذہن میں رکھیں کہ زکوٰۃ کی جن آٹھ مدات کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے ان میں کمی بیشی تو نہیں کی جاسکتی لیکن ضروری نہیں ہے کہ زکوٰۃ ان تمام مدات میں دی جائے، بلکہ ان آٹھ مدات میں سے کسی ایک مد میں بھی تمام زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، مثلاً کسی وقت آپ اپنی زکوٰۃ صرف فقرا کودے دیں، یا کسی وقت کسی مقروض کو دے دیں اور کسی وقت جہاد فی سبیل اللہ میں دے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ (البقرہ۲:۲۷۱) ’’اگر تم صدقہ خفیہ طریقہ سے دو اور وہ صدقات فقرا کو دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘۔ اس آیت میں فقرا کو زکوٰۃ دینے کو زیادہ بہتر فرمایا ہے۔ فقرا زکوٰۃ کی آٹھ مدات میں سے ایک مد ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی رہا ہے کہ بعض اوقات آپ نے ایک مد میں زکوٰۃ دے دی، اور بعض اوقت دوسری مد میں، مثلاً ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ (زکوٰۃ) کا مال آیا تو آپؐ نے مؤلفۃ القلوب (نومسلم کی تالیف قلب کے لیے )دے دیا۔ پھر دوسری مرتبہ   آیا تو آپؐ نے مقروضوں کو دے دیا۔ (ملاحظہ ہو تفسیر روح المعانی، جلد۱۰، ص ۱۲۴-۱۲۵، الجامع لاحکام القرآن، جلد۸، ص ۹۵، زادالمیسر، جلد۳،ص ۴۵۹)

اس لیے اگر کوئی شخص اپنی ساری زکوٰۃ فی سبیل اللہ کی مد میں دے دیتا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ اسی طرح اگر جماعت کو زکوٰۃ دی جائے اور جماعت اسے فی سبیل اللہ، یعنی دعوت کے مختلف کاموں میں خرچ کردے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ ہاں، اگر کسی شخص نے اپنی زکوٰۃ کے لیے کوئی خاص مد تجویز کی، تو اسے اسی مد میں صرف کیا جائے گا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے کارکنوں کی ضیافت، کھانا اور دوسری ضروریات زکوٰۃ کی مد سے کی جاسکتی ہیں۔ جس طرح جہاد فی سبیل اللہ میں جہاد کرنے والوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے گی۔ ان کے لیے اسلحہ، گھوڑے اور کھانے پینے کی چیزیں خریدی جائیں گی۔ اسی طرح دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے سواری کا انتظام کیا جائے گا اور ہینڈبل اور دعوت نامے شائع کر کے دیے جائیں گے۔ یہ سب زکوٰۃ کا مصرف اور جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔

مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے، یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظامِ کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ نظامِ اسلامی کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفرخرچ کے لیے، سواری کے لیے آلات و اسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوٰۃ سے مدد دی جاسکتی ہے، خواہ وہ بجاے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دے دیں تو ان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری رعایتیں دی جاسکتی ہیں‘‘(تفہیم القرآن، جلد۲، حاشیہ ۶۷، تفسیر آیت۶۰، ص ۲۰۸)۔ واللّٰہ اعلم !(مولانا عبدالمالک)