خالق کائنات کی کمالِ حکمت ہے کہ اس نے زمین پر اپنے ’خلیفہ‘ انسان کو دو صنفوں میں پیدا کیا، جو انسانیت میں یکساں ہونے کے باوجود جسمانی ساخت، ذہنی و نفسانی اوصاف اور جذبات وداعیات، ایک دوسرے سے مختلف لےکر پیدا ہوئے ہیں۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو مختلف اسالیب میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا۔(النجم ۵۳ :۴۵)
سورئہ شوریٰ میں ربِ کریم کی عظمت اور قدرت کے اظہار کے طور پر فرمایا:
اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے ، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاجلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز پر قادرہے۔(الشورٰی ۴۲:۴۹-۵۰)
اللہ کی عطا کردہ جنس، اصولِ زوجیت اور اس کے نتیجے میں طریقۂ تناسل، اللہ کی تخلیق کردہ نشانی ہے۔ یہ سب اس کی قدرت اور حکمت کا اظہار ہے۔ البتہ بعض اوقات اللہ ہی کی حکمت کے تحت دورانِ حمل یا کچھ عوامل کے اثرانداز ہونے یا صنفی خلیوں (عورت کے بیضہ یا مرد کے نطفہ) میں کسی جینیاتی (ڈی این اے) تبدیلی یا تغیر کے باعث بچے کی جنسی شناخت میں ابہام واقع ہو جاتا ہے۔
پیدایشی نقائص جسم کے کسی بھی حصے میں ہوسکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں، کہیں بھی ہوں ایک بیماری اور آزمایش ہیں۔ ان نقائص کو انٹرسیکس (Inter Sex) یا جنسی نشوونما کی خرابی (Disorder of Sex Development) کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے تمام افراد کو’ خنثیٰ ‘کہا جاتا ہے۔ جنسی ابہام ایک معذوری ہے جو آبادی کے 0.017 فی صد افراد میں نوٹ کی گئی ہے۔ دیگر معذوریوں یا بیماریوں کی طرح اس کا ممکنہ علاج یا بندوبست میڈیکل کے شعبے اور معاشرے کی ذمہ داری ہے اور ان کے حقوق متعین ہیں۔
’ٹرانس جینڈر‘ کے حقوق کی حفاظت کے نام پر جو قانون سازی ہوئی ہے یا کی جارہی ہے، اس میں ایسے افراد کے حقوق کی حفاظت یا معاشرے میں انھیں باعزّت مقام دینے کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں۔ ’ٹرانس جینڈر‘ کے عنوان میں ضمناً ان کا ذکر آگیا ہے۔
’جنس‘ (Sex) تو وہ ہے جو کسی فرد کی پیدایش کے وقت حیاتیاتی شناخت ہے، جب کہ ’جینڈر‘ کا مفہوم مختلف ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو ایک فرد اپنے بارے میں محسوس کرلے یا معاشرہ اس سے اس کردار کی توقع رکھے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ایک مرد یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ عورت ہے، اور وہ عورتوں جیسی شناخت رکھنا چاہے اور ’عورت‘ ہونے کی حیثیت میں مردوں سے جنسی لذت کا خواہش مند ہو تووہ اس کا جینڈر ہے۔ اسی طرح کوئی ’عورت‘ خود کو ’مرد‘ محسوس کرتے ہوئے ’مردانہ‘ اطوار اختیار کرسکتی ہے۔گویا’جینڈر‘ اصل ’جنسی‘ شناخت سے مختلف ہوسکتا ہے۔
اسی سوچ کو مزید ترقی ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ملی جب ۱۹۷۴ء میں ’ٹرانس جینڈر‘ کی اصطلاح سامنے آئی۔ ’بنیادی انسانی حقوق‘ کے تحفظ کے نام پر فرد کے اس حق کو تسلیم کیا گیا کہ حیاتیاتی جنسی تعین سے قطع نظر کرتے ہوئے وہ اپنی جنس کا تعین اپنی خواہش سے کرسکتا ہے۔
ایک مرد کو اپنا مرد ہونا پسند نہیں ہے تو وہ ’عورت‘ بن سکتا ہے اور کسی عورت کو اپنا عورت ہونا اچھا نہیں محسوس ہوتا تو وہ ’مرد‘ بن سکتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے میڈیکل سائنسز اس کی پوری مدد کریں گی۔ چنانچہ ’مرد‘ کو ’عورت‘ بنانے کے لیے نسوانی ہارمون دے کر اور پلاسٹک سرجری کے ذریعے جسمانی ساخت میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
اسی طرح عورت کی ’مرد‘ بننے کی خواہش ہے، تو مردانہ ہارمون اور سرجری کے ذریعے اس کی جسمانی ساخت میں رد و بدل ممکن ہوسکتا ہے۔ ظاہری ساخت میں تبدیلی کا جینیاتی ساخت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ خالق کائنات کی تو ہر تخلیق ’منفرد‘ ہے۔ عورت اور مرد کا بنیادی خلیہ (cell)بلکہ ہرخلیہ منفرد ہے، ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔
ابتدا میں اپنی حیاتیاتی جنسی شناخت پر عدم اطمینان کو ایک ’نفسیاتی بیماری‘ قراردیا گیا۔ بعدازاں اسے ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی فہرست سے نکال کر ’فرد کا حق‘ قرار دے دیا گیا اور دُنیابھر کو اس ’حق‘ کو تسلیم کرنے کا حکم صادر کردیا گیا۔
دراصل ’ٹرانس جینڈر‘ کے نام پر ہم جنسیت کا تحفظ بلکہ فروغ مقصود رہا ہے۔ ’ٹرانس جینڈر‘ کی پوری بحث اور تذکرے میں ’خنثیٰ‘ یا ’خواجہ سرا‘ کا تو کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔ ایسا غالباً صرف ہماری پاکستانی پارلیمنٹ میں ہوا کہ انھیں ایک دوسرے سے منسلک کردیا گیا، تاکہ ’خنثیٰ‘کی آڑ میں نئی اصطلاح ’ٹرانس جینڈر‘ قابلِ قبول بنائی جاسکے۔ اس اصطلاح کو قابلِ قبول بنانے کے لیے میڈیا اور دوسرے مقامات پر ’خنثیٰ ‘کو’ ٹرانس‘ کہنا شروع کر دیا گیا۔
حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد روایت کرتے ہیں: ’’چار آدمی صبح کےوقت اللہ کے غضب میں ہوتے ہیں اور شام کو بھی اللہ ان سے ناراض ہوتا ہے‘‘۔
میں نے پوچھا: ’’وہ کون ہیں یارسولؐ اللہ؟‘‘
فرمایا:
اللہ کا دین تو ظاہری مشابہت بھی گوارا نہیں کرتا، کجا یہ کہ فطرت میں تبدیلی کے جتن ہوں اور پھر اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہو۔ یہ نہ صرف انسانی مرتبہ و مقام اور شرف کی توہین ہے بلکہ فطرت کے خلاف بغاوت ہے۔ انسانی حقوق کی آڑ میں ایسے شرمناک افعال کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ نیکی، رحم، عدل اور احسان کے معانی میں تمام بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے مگر اپنی خواہشات کی تابع داری کو انسانی حقوق کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ’خواہش پرستی‘ کو شرک بھی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنالیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ (الفرقان ۲۵:۴۳)
سورئہ کہف میں مزید وضاحت سے ارشادہے:
کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے، اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔(الکہف ۱۸:۲۸)
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی شیطانی کام ہے۔ انسان جسے ربّ العزت نے احسن تقویم بنایا، اپنے خلیفہ ہونے کا شرف بخشا۔جب اپنے اس شرف سے غافل ہوتا ہے اور نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، تو وہ اپنے طے شدہ ایجنڈے پر اسے چلاتے ہوئے اسے جہنم کا ایندھن بناکر چھوڑتا ہے، جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:
وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے۔ (وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کررہوں گا، میں انھیں بہکائوں گا، میں انھیں آرزوئوں میں اُلجھائوں گا، میں انھیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انھیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رَد و بدل کریں گے‘‘۔ اس شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنالیا وہ صریح نقصان میں پڑگیا۔ وہ اِن لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انھیں اُمیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں۔ ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے خلاصی کی کوئی صورت یہ نہ پائیں گے۔ (النساء۴:۱۱۷-۱۲۱)
خاتم النبیین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلیسی طریقۂ واردات سے متنبہ فرماتے ہوئے واضح ارشاد فرمایا: ’’لعنت فرمائی اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پرجو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔(رواہ البخاری)
سورۃ الاعراف میں خواہشات کے غلام کو اس کتّے سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کی لٹکتی ہوئی زبان ایک سونگھنے والی آتشِ حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے‘‘ (آیت۱۷۶)
جنسی تبدیلی کے آپریشن کے بارے میں تمام مسلم علما کا ایک ہی موقف ہے۔ مصر کا الازہر ہو یا سعودی عرب کا دارالافتا، پاکستان اور ہند کے تمام مکاتب ِ فکر کے علما کا اس معاملے میں متفقہ فیصلہ ہے۔ ملایشیا، مراکش، انڈونیشیا اور قطر کے علما، غرض سب اس معاملے میں متفق ہیں۔
قطر کے وزارتِ اوقاف کے تحت کام کرنے والے مستند افتاء مرکز نے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد علی البار نے لکھا:’’اس قسم کے آپریشن کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے، جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کو مستلزم ہے اور جبلت سے انحراف بھی شامل ہے۔ آپریشن صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب حالت مشتبہ ہو جیساکہ ایک مرد حقیقت میں عورت ہو، لیکن اس کے اعضا مردوں کی طرح ہوں تو ایسی صورت میں اپنی قدرتی اور اصل حالت پر واپس آنے کے لیے آپریشن کروانے میں کوئی حرج نہیں (اور اسی طرح دوسری صورت میں)۔
لیکن اگر اعضاء معمول کے مطابق ہیں، جنسی شناخت میں کوئی شبہہ نہیں ہے تو محض خواہش کی تکمیل کے لیے جنس کی تبدیلی کا آپریشن کروانا جائز نہیں۔ فقط جنسِ مخالف کی طرف نفسیاتی میلان اور رجحان اس آپریشن کے لیے جواز نہیں بن سکتا بلکہ یہ رجحان ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور اپنا نفسیاتی علاج کروانے کی ضرورت ہے۔