ہندستان میں کشمیریوں کی ثقافتی و مذہبی شناخت، حکمران جماعت کی جانب سے مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنی تمام تر منفی صلاحیتیں مقبوضہ وادی پر ’ہندوتوا‘ نظریے کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دنیا کی توجہ اس واقعے کی طرف دلائی تھی کہ ’’کلگام اور دیگر قصباتی اسکولوں میں بچوں کو بھجن گانے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘‘۔ بھجن گاتے ہوئے طلبہ و طالبات کی وڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر خاصی مشہور ہوئی اور مسلم تنظیموں کی جانب سے اس پر شدید احتجاج بھی کیا گیا۔
۳۰ کشمیری تنظیموں کی نمایندہ ’متحدہ مجلس علما‘ نے اس سرکاری عمل کی سخت مذمت کی اور کہا: ’’ ہندوتوا نظریات نئی نسل پر ٹھونسنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اوریہ منصوبہ کشمیری شناخت کو مٹانے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے‘‘۔ اس جماعت کے قائد میر واعظ عمر فاروق پچھلے تین سال سے بھارتی حراست میں ہیں۔ علما کی اس تنظیم نے یہ عندیہ بھی دیا کہ ’’قابض قوتوں کی طرف سے ڈرا دھمکا کر علما کو دبانے اور انھیں کمزور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جنھیں فوراً بند ہونا چاہیے‘‘۔ اوریہ کہ ’’بھارتی حکومت اپنے مظالم کا دائرہ وسیع تر کرنے میں مصروف ہے‘‘۔
کشمیر میں مسلم تنظیموں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے تحت صرف ستمبر ہی میں درجنوں قائدین پبلک سیفٹی کے ظالمانہ قانون کا نشانہ بن چکے ہیں۔ پاکستان نے ان اقدامات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے بجاطور پر کہا ہے: ’’یہ غیر قانونی گرفتاریاں کشمیریوں سے ان کی جداگانہ مذہبی اور ثقافتی شناخت چھینے جانے کی ایک اور کوشش ہے‘‘۔
اسی طرح بی جے پی نے ریاست جموں و کشمیر کے وقف بورڈ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سرینگر کی عیدگاہ بھی براہ راست غاصب سرکار کے قبضے میں ہے۔ یہ تاریخی میدان کشمیر میں نماز عید اور دیگر اجتماعی عبادات کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس کے نائب چیئرمین شبیر شاہ نے جیل سے جاری ردعمل میں کہا ہے:’’ بی جے پی حکومت، کشمیریوں کے بنیادی مذہبی حقوق کو پامال کر رہی ہے‘‘۔ دیگر رہنماؤں کے مطابق ’’یہ قدم بھی بی جے پی کے اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشمیر میں مسلمانوں کی تمام قابلِ احترام املاک پر قبضہ کرنے کی ہوس رکھتی ہے۔‘‘ ان املاک میں بزرگوں کے مزار بھی شامل ہیں۔
اس سلسلے میں ایک کشمیری صحافی نے بجا طور پر کہا ہے: ’’ مزارات پر حکومتی قبضے کو معمولی قدم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ان مزارات کی سیاسی اہمیت سے خائف ہے اور ان کے ساتھ وابستہ مذہبی تاثر کو ختم کرنا چاہتی ہے‘‘۔ مزید یہ کہ مزارات اور درگاہیں ہمیشہ سے کشمیر کے سیاسی اور ثقافتی منظر نامے کا جزو لاینفک رہی ہیں۔ یہ صرف عبادت کے مقام نہیں ہیں بلکہ وہ مقامات ہیں، جہاں عام مسلمان مل جل کر کوئی بات کر سکتے ہیں اور جنھیں چھین لینے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔
کشمیری ثقافت کے خلاف بی جے پی کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ پچھلے سو برسوں سے اُردو کو کشمیر میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن ۲۰۲۰ء میں بھارتی حکمران جماعت نے نئی قانون سازی کے ذریعے اردو کا یہ صد سالہ استحقاق ختم کرتے ہوئے ہندی، کشمیری، ڈوگری، اور اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کا رسم الخط بھی نستعلیق سے بدل کر دیوناگری کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ وادی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری و غیرعلانیہ طور پر یہ قدم اٹھایا جا چکا ہے۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیر کے غیر قانونی انضمام کے بعد کشمیریوں کو بے اختیار کرنے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے ایسے اقدامات تسلسل سے جاری ہیں۔ ہندستانی آئین کا آرٹیکل ۳۷۰ ریاست کشمیر کو ہندستان میں ایک خصوصی حیثیت فراہم کرتاتھا۔ لیکن اس آرٹیکل کی معطلی کے بعد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ہندستانی یونین میں ضم کر دیا گیا۔ یہ تمام کارروائی، اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی فریق متنازعہ علاقے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کر سکتا، جو علاقے کے سیاسی و جغرافیائی حالات پر اثر انداز ہو سکے۔ اس غیر قانونی عمل کے بعد نئی دہلی حکومت نے انتہائی ڈھٹائی دکھاتے ہوئے وادی میں مکمل کرفیو نافذ کردیا، مواصلات کے ذرائع مسدود کر دیے اور بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ستمبر ۲۰۲۲ءمیں جاری کردہ رپورٹ: ’قانون، کشمیریوں کا دشمن ہے‘ ہمیں بتاتی ہےکہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے اب تک تین برسوں میں ’’بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ وادی میں کھلم کھلا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاری ہے۔کشمیر کے شہری اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکتے۔ان کی جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ۔ انھیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے اور ان کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔انصاف تک ان کی رسائی ناممکن ہے۔ وادی میں صرف سرکاری ادارے کشمیری عوام کے خلاف کوئی بھی ظلم روا رکھنے اور ہر جواب دہی سے آزاد ہیں‘‘۔
بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے بھارتی حکومت، کشمیر کے انتظامی معاملات اور آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ کشمیریوں کو ہرلحاظ سے بے بس کر دیا جائے۔ اس دوران ڈومیسائل کا نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے،جس کے تحت اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک باہر سے آنے والے ۳۴لاکھ لوگوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل آرٹیکل ۳۷۰،اور۳۵-اے کے تحت بیرون کشمیر سے آنے والے کسی بھی شخص کو ڈومیسائل جاری کرنے پر پابندی تھی۔ یہ وہی مخصوص حربہ ہے، جو قبل ازیں اسرائیل بھی فلسطینی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے برت چکا ہے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ مودی سرکار انتخابی حلقہ بندیوں کو بھی بدل رہی ہے، تا کہ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ طاقت کے توازن کو ہندوؤں کے حق میں پلٹنے کے لیے مسلم علاقوں کی نمایندگی کم کر کے جموں کی نمایندگی بڑھائی جا رہی ہے۔ مئی ۲۰۲۲ءمیں بھارتی حدبندی کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کا منصوبہ جاری کیا گیا۔اس منصوبے کے مطابق کشمیر کی۹۰ رکنی پارلیمان میں جموں کی ۶ ، جب کہ کشمیر کی صرف ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب ایوان میں جموں کی ۴۳، جب کہ کشمیر کی ۴۷نشستیں ہوں گی۔ اس منصوبے میں پوشیدہ بھارت کے مذموم عزائم کواس حقیقت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ۲۰۱۱ء میں ہونے والی ہندستان کی آخری مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی ۷۰ لاکھ، جب کہ جموں کی آبادی ۵۳ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ کشمیر کی موجودہ آبادی یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔
ان نئی حلقہ بندیوں کا مقصد ایک ہی ہے: اپنی مرضی کے انتخابات کروائے جائیں اور پھر ساری دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ ’’حالات معمول پر آ چکے ہیں اور انتخابات نے اگست ۲۰۱۹ء کے حکومتی اقدامات کی توثیق کر دی ہے‘‘۔لیکن بجاطور پر کشمیری ان منصوبوں کے خلاف شدید مزاحمت کر رہے ہیں۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس تو آغاز سے ہی انتخابات کو بوگس کارروائی قرار دے کر مسترد کرتی آ رہی ہے، اور اب وہ سیاست دان بھی انتخابات کے خلاف کمربستہ ہیں جو روایتی طور پر بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتے اورانتخابات میں شریک ہوتے رہے ہیں۔تمام سیاسی حلقوں نے اس منصوبے کو ناقابل قبول اور انتخابی اصولوں کی’ایک مضحکہ خیز شکل‘ قرار دیا ہے۔ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے جولائی میں چیف الیکشن آفیسر نے اعلان کیا تھا: ’’ تمام ہندستانی شہریوں کو کشمیر میں ووٹ ڈالنے کی آزادی ہو گی چاہے وہ عارضی طور پر ہی کشمیر میں رہایش رکھتے ہوں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا مودی سرکار اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو پائے گی؟کیا کشمیریوں کی شناخت اتنی کمزور ہے کہ یوں زور زبردستی کے ذریعے مٹائی جا سکے؟اس کے برعکس حالات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان اقدامات نے کشمیریوں میں پائے جانے والے غم و غصے میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ غیر قانونی قبضے کی شکل میں جو ظلم کئی عشروں سے جاری ہے، اس کے خلاف مزاحمت کا جذبہ اور مضبوط ہوا ہے۔کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے بقول ’’کشمیر ایک آتش فشاں کی طرح کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے‘‘۔