کسی حدیث کو رَد کرنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کہ آدمی اس کے مضمون پر تھوڑا سا غور کرے اور اگر بات سمجھ میں نہ آئے، یا اس کا کوئی غلط مفہوم ذہن میں پیدا ہوجائے، تو بے تکلف یہ فیصلہ کردے کہ’ حدیث گھڑی ہوئی ہے‘، اور ایک نظریہ یہ بھی ساتھ ساتھ قائم کرے کہ ’فلاں فلاں وجوہ سے یہ گھڑی گئی ہوگی‘۔ اس طریقے سے احادیث پرکھی جانے لگیں تو نہ معلوم کتنی صحیح حدیثوں کو دریابُرد کرڈالا جائے گا۔ حدیثوں کو پرکھنے کے لیے علمِ حدیث کی گہری واقفیت ضروری ہے اور اس کے بعد دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی میں بات کے مغز کو پہنچنے کی عمدہ صلاحیت ہو۔ اس طرح جب روایت اور درایت میں صحیح توازن قائم ہوجائے، تب انسان اس قابل ہوسکتا ہے کہ احادیث کو جانچ کر ان کی صحت و سقم اور ان کے مضمون کی معنوی حیثیت کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔
جس حدیث کے متعلق آپ نے تنقید کی ہے وہ مسلم، ترمذی اور مُسنداحمد میں متعدد طریقوں سے منقول ہوئی ہے اور روایت کے اعتبار سے اس پر کوئی وزنی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ رہا اس کا مضمون، تو اس موضوع سے متعلق جو دوسری احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سب کے ساتھ ملا کر اسے پڑھاجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ’’آدمی کو جان جان کر گناہ کرنا چاہیے اور پھر توبہ کرلینی چاہیے‘‘۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’انسان بالکل بے خطا اور بے گناہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اصل خوبی یہ نہیں ہے کہ اس سے کبھی گناہ سرزد ہی نہ ہو، بلکہ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ جب بھی اس سے گناہ سرزد ہوجائے ، وہ نادم ہو اور اپنے خدا سے معافی مانگے‘‘۔ اس مضمون کو ذہن نشین کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کو بے گناہ مخلوق ہی پیدا کرنی ہوتی، تو انسانوں کے بجائے کوئی اور مخلوق پیدا کرتا۔ انسان کو تو خدا نے نیکی اور گناہ دونوں کی صلاحیت و استعداد کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس نوعیت کی مخلوق سے بے گناہی مطلوب نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے تو بڑے سے بڑا مقام یہی ہوسکتا ہے کہ بتقاضائے بشریت جب بھی اس سے قصور سرزد ہو، اس پر اصرار نہ کرے بلکہ نادم ہوکر استغفار کرے۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۹، عدد۲، نومبر ۱۹۶۲ء، ص۵۶-۵۷)