مسٹر جارج برناڈشا نے جب مشرق کا سفر کیا تو اس کے دوران میں سنگاپور کے عربی اخبار الہدٰی کا نامہ نگار، ان سے ملا۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام، آزادی اور دستوری و ذہنی حریت کا دین ہے۔ اجتماعی نقطۂ نظر سے مسیحیت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کسی مذہب کا نظامِ اجتماعی اتنا مکمل نہیں ہے، جتنا اسلام کا نظام ہے۔ دنیائے اسلام کا تنزل اسلام سے دُور ہٹ جانے کی بدولت ہے۔ مسلمان جب صرف اسلام کی بنیادوں پر جدوجہد کریں گے تو عالم اسلامی کا خواب، بیداری سے بدل جائے گا‘‘۔
اِن خیالات کے سننے کے بعد نامہ نگار نے سوال کیا کہ ’’جب آپ اسلام کو اچھا سمجھتے ہیں تو پھر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جو فطری طور پر ان بیانات کے بعد پیدا ہوتا ہے، کیونکہ ایک سلیم الطبع آدمی کے لیے کسی چیز کے اعترافِ قبح اور اس کو ترک کر دینے اور کسی چیز کے اعترافِ حسن اور اس کو قبول و تسلیم کرلینے میں کوئی حد فاصل نہیں ہوسکتی۔ لیکن مسٹر شانے جو کچھ جواب دیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قبولِ اسلام کے لیے تیار نہیں ہیں، اور ایسا نہ کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں، بلکہ صرف اس چیز کی کمی [تھی] جس کو شرح صدر کہتے ہیں۔
ایک مسٹر شا ہی پر موقوف نہیں ہے، بہت سے اہل فکر و نظرپہلے بھی گزر چکے ہیں، اور اب بھی موجود ہیں، جنھوں نے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کیا۔ اس کے دنیوی یا دینی یا دونوں حیثیتوں سے مفید ہونے کا اقرار کیا، اس کی تہذیب، اس کے نظام اجتماعی، اس کی علمی صداقت اور اس کی عملی قوت کی برتری تسلیم کی، مگر جب ایمان لانے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے کا سوال سامنے آیا، تو کسی چیز نے ان کو قدم آگے بڑھانے سے روک دیا، اور وہ اسلام کی سرحد پر پہنچ کر ٹھیر گئے۔
برعکس اس کے، بہت سے آدمی ایسے بھی ہو گزرے ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسلام کی مخالفت اور اس کی دشمنی میں صرف کر دیا، لیکن اسی مخالفت کے سلسلے میں اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے حقیقتِ اسلام ان پر منکشف ہوگئی، اور اس انکشاف کے بعد کوئی چیز ان کو ایمان لانے سے نہ روک سکی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت [گمراہی] کا راز بھی ایک عجیب راز ہے۔
ایک ہی بات ہے جو ہزاروں آدمیوں کے سامنے کہی جاتی ہے، مگر کوئی اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ کوئی توجہ کرتا ہے لیکن وہ اس کے پردۂ گوش پر سے اچٹ کر چلی جاتی ہے۔ کوئی اس کو سنتا اور سمجھتا ہے، مگر مانتا نہیں۔ کوئی اس کی تعریف و تحسین کرتا ہے، مگر قبول و تسلیم نہیں کرتا، اور کسی کے دل میں وہ گھر کر جاتی ہے اور وہ اس کی صداقت پر ایمان لے آتا ہے۔
ہمارا شب و روز کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص کو بازار میں چوٹ لگ کر گرتے ہوئے سیکڑوں آدمی دیکھتے ہیں۔ بہت سے اس کو معمولی واقعہ سمجھ کر یونہی بس دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ بہتوں کے دل میں رحم آتا ہے ،مگر وہ افسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے اس کا تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ اور بعض اللہ کے بندے ایسے نکلتے ہیں جو بڑھ کر اسے اٹھاتے ہیں، اس سے ہمدردی کرتے ہیں اور اس کو مدد پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک مجرم کو پا بہ زنجیر جاتے ہوئے بہت سے آدمی دیکھتے ہیں۔ کوئی اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتا، کوئی اس پر حقارت کی نظر ڈالتا ہے، کوئی اس پر ترس کھاتا ہے، کوئی اس کی ہنسی اُڑاتا ہے، کوئی اس کے انجام پر خوش ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ جیسا کیا ویسا بھرا، اور کوئی اس کے انجام سے عبرت حاصل کرتا ہے اور جرم سے بچنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ تو مختلف لوگوں کی مختلف نفسی کیفیات و تاثرات ہیں، جن کا اختلاف زیادہ تعجب خیز نہیں۔ اس سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ ایک ہی شخص کے تاثر اور اس پر ایک ہی چیز کے اثر کی نوعیت مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہے۔ وہی ایک بات ہے جس کو ایک شخص ہزاروں مرتبہ سنتا ہے اور نہیں مانتا، مگر ایک ایسا موقع آتا ہے کہ یکایک اس کے دل کا بند کھل جاتا ہے۔ جو بات کان کے پردے میں اٹک کر رہ جاتی تھی،وہ سیدھی دل تک پہنچ جاتی ہے، اور وہ خود حیران ہوتا ہے کہ یہی بات میں پہلے بھی بارہا سن چکا ہوں، پھر آج یہ کیا ہوگیا کہ یہ خود بخود دل میں اتری چلی جارہی ہے؟
ایک ہی شخص کو بارہا آفت رسیدہ آدمیوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، اور وہ ان کی طرف التفات بھی نہیں کرتا۔ لیکن ایک موقعے پر کسی شخص کی مصیبت دیکھ کر دفعتاً اس کا دل بھر آتا ہے، شقاوت کا پردہ چاک چاک ہو جاتا ہے، اور وہ سب سے زیادہ ہمدرد، رحیم اور نرم دل بن جاتا ہے۔ ایک شخص کو اپنی عمر میں بے شمار عبرت ناک مناظر دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، کبھی وہ ان کو تماشا سمجھ کر دیکھتا ہے، کبھی ایک حسرت و افسوس کی نگاہ ڈالتا ہے، اور کبھی ایک معمولی نظر سے اس پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ دل پر ایک مستقل نقش بیٹھ جاتا ہے۔
یہی حال ہدایت و ضلالت کا بھی ہے۔
وہی ایک قرآن تھا، وہی ایک اس کی تعلیم تھی، وہی ایک اس کو سنانے والی زبان تھی۔ ابوجہل اور ابولہب تمام عمر اس کو سنتے رہے، مگر کبھی وہ ان کے کانوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ خدیجۃ الکبریٰ ؓ، ابوبکرؓ، اور علی ؓابن ابی طالب نے سنا اور پہلے ہی لمحے میں اس پر ایمان لے آئے، بغیر اس کے کہ ان کے دل میں شک کا شائبہ بھی گزرتا۔ عمرؓ ابن الخطاب نے بیسیوں مرتبہ اس کو سنا اور صرف یہی نہیں کہ تسلیم نہ کیا بلکہ جوں جوں سنتے رہے مخالف اور دشمن ہوتے چلے گئے۔ لیکن ایک مرتبہ انھی کانوں نے اس چیز کو سنا تو کان اور دل کے درمیان جتنی مضبوط دیواریں چنی ہوئی تھیں، یکایک منہدم ہوگئیں، اور اس چیز نے ان کے دل میں ایسا اثر کیا کہ ان کی زندگی کی بالکل کایا پلٹ دی۔
ہر چند، نفسی نقطۂ نظر سے اس اختلافِ کیفیت اور اختلافِ اثر و تاثر کی بہت سی توجیہیں کی جاسکتی ہیں، اور وہ سب اپنی اپنی جگہ درست بھی ہیں۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو چیز چشم و گوش اور دل و دماغ کے درمیان کہیں ایک مستقل حجاب بن جاتی ہے۔ کہیں ایک مدت تک حجاب بنی رہتی ہے، اور ایک نفسی موقعے پر خود بخود چاک ہو جاتی ہے۔ کہیں سرے سے حجاب بنتی ہی نہیں، کہیں کسی بات کے لیے حجاب بنتی ہے، اور کسی بات کے لیے نہیں بنتی، وہ ہرگز انسان کے ارادے و اختیار کے تابع نہیں ہے، بلکہ فطری و جبلی طور پر خود بخود انسان میں پیدا ہوتی ہے۔
یہی نکتہ ہے جس کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَ (الانعام۶:۱۲۵) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ رکھنا چاہتا ہے، اس کے سینے کو ایسا تنگ کرتا اور ایسا بھینچتا ہے کہ گویا وہ آسمان پر چڑھا چلا جارہا ہے۔ یہ طریقہ ہے جس سے ایمان نہ لانے والوں پر اللہ کی طرف سے ناپاکی مسلط کی جاتی ہے۔
ایک اور موقعے پر اس کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ:
وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (النحل۱۶:۹۳)اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیتا۔ مگر وہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔اور ضرور تم سے تمھارے اعمال کی بازپرس ہو کر رہے گی۔
پھر اس ہدایت کی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے کہ:
قُلْ اِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَـابَ ۲۷ۖۚ (الرعد۱۳:۲۷)ان سے کہو کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔
اور ضلالت کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ:
وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۴۵ۙ وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِـہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷: ۴۵-۴۶) جب تم نے قرآن پڑھا تو ہم نے تمھارے اور آخرت کا یقین نہ رکھنے والوں کے درمیان ایک گاڑھا پردہ ڈال دیا اور ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دئیے کہ قرآن نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی۔
اِن آیات میں اس فطری کیفیت کو، جو ایک حق بات سن کر اسے قبول کر لینے کے لیے اضطراری طور پر دل میں پیدا ہوتی ہے، اور جو آخر کار انسان کو ایمان کی طرف کھینچ لاتی ہے، خدائی ہدایت اور اس کے پیدا ہونے کو ’شرحِ صدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس ہدایت کے برعکس انسان کے دل میں حق سے انکار اور اعراض کرنے پر آمادگی کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کو اللہ کی طرف سے مسلط کی ہوئی گمراہی قرار دیا گیا ہے، اور ’شرح صدر‘ کے مقابل جو انقباضی کیفیت دل میں پیدا ہوتی ہے، اسے ’ضیق صدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
پھر اس ’ہدایت و ضلالت‘ اور ’شرحِ صدر‘ اور ’ضیقِ صدر‘ کے پیدا ہونے کا سبب یہ بتایا ہے کہ انسان جب ایک مرتبہ خدا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، تو اس کو خود بخود وہ راستہ دکھائی دینے لگتا ہے، جو اسے سیدھا خدا کی جانب لے جاتا ہے، اور جو شخص سرے سے یہ احساس ہی نہیں رکھتا کہ مجھے کبھی خدا کے حضور میں حاضر ہونا اور اپنے قلب و جوارح کے افعال کا حساب دینا ہے، اس کو لاکھ کوئی شخص کلمۂ حق سنائے اور وعظ و تلقین کرے، کوئی بات اس کے دل میں نہیں اترتی اور وہ کسی طرح راہِ راست پر نہیں آتا۔
یہاں پھر دو باتیں مل گئی ہیں، جن کو الگ الگ سمجھ لینے سے قرآن مجید کے وہ مقامات بآسانی حل ہو جاتے ہیں، جن میں یہ مضمون مختلف پیرایوں سے بیان کیا گیا ہے:
ایک طرف ہدایت و شرح صدر اور ضلالت و ضیق صدر کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اس ہدایت و شرح صدر کے عطا کرنے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ انسان خدا کی طرف رجوع اور توجہ کرے۔ اور ضلالت و ضیق صدر کے مسلط کر دینے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ گمراہ شخص خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اس کے سامنے مسئول و جواب دہ ہونے کا احساس نہیں رکھتا۔
ان دونوں چیزوں کے باہمی تعلق کو یوں سمجھیں کہ انسان کی فطرت میں خدا نے ایک ایسی قوت رکھ دی ہے، جو اس کو حق و باطل کے امتیاز اور صحیح و غلط کا فرق سمجھنے میں مدد دیتی ہے، اور اس کے ساتھ ہی اسے حق کی طرف بڑھنے اور باطل سے احتراز کرنے پر مائل کرتی ہے۔ یہی قوت وہ فطری ہدایت ہے، جسے خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور جس کی طرف ارشاد خداوندی: فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط (الروم۳۰: ۳۰) [اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے] میں اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کے خلاف ایک اور قوت بھی انسان میں کام کر رہی ہے، جو اس کو برائی کی طرف کھینچتی ہے، غلطی اور کج روی کی طرف مائل کرتی ہے اور جھوٹ اور باطل کو اس کے سامنے مزّ ین کرکے پیش کرتی ہے۔ ان دونوں کے ساتھ بہت سی خارجی اور داخلی قوتیں ایسی ہیں، جن میں سے بعض ہدایت کی قوت کو مدد پہنچانے والی ہوتی ہیں، اور بعض ضلالت کی قوت کو۔ اکتسابِ علم اور اس کے مختلف مدارجِ تربیت اور اس کی مختلف کیفیات، سوسائٹی اور اس کے مختلف احوال، وہ چیزیں ہیں جو باہر سے اس پر اثرانداز ہوتی ہیں، اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں سے کسی ایک میں اپنا وزن ڈالتی رہتی ہیں۔ اور انسان کا اپنے اختیارِ تمیزی، اپنی فہم و فراست، اپنی عقل و بصیرت، اپنے ذرائع اکتسابِ علم سے صحیح یا غلط کام لینا، اور اپنی قوت فیصلہ کو بجا یا بے جا استعمال کرنا، یہ وہ چیز ہے جو خود اس کے ارادے کے تابع ہے، اور جس سے وہ ہدایت و ضلالت کی متضاد قوتوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ خدا کی بخشی ہوئی ہدایت اور اس کی مسلط کی ہوئی ضلالت، دونوں غیر محسوس طور پر اپنا عمل کرتی رہتی ہیں۔ ہدایت کی قوت اسے راہ راست کی طرف لطیف اشارے کیا کرتی ہے، اور ضلالت کی قوت اسے باطل کے ملمع پر رجھائے جاتی ہے۔
مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط اثرات سے متاثر ہو کر اور خود اپنی اختیاری قوتوں کو غلط طریقے سے استعمال کرکے ضلالت کے پھندے میں گرفتار ہو جاتا ہے اور ہدایت کی پکار پر کان ہی نہیں دھرتا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ غلط راستے پر چل رہا ہوتا ہے، اور اس دوران میں کچھ بیرونی اثرات اور کچھ خود اس کی اپنی عقل و بصیرت، دونوں مل جل کر اسے گمراہی سے بے زار کر دیتے ہیں۔ اور اس وقت ہدایت کی وہی روشنی جو پہلے مدھم تھی دفعتاً تیز ہو کر اس کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مدت تک انسان ہدایت اور ضلالت کے درمیان مذبذب رہتا ہے، کبھی اِدھر کھنچتا ہے، کبھی اُدھر۔ قوت فیصلہ اتنی قوی نہیں ہوتی کہ بالکل کسی ایک طرف کا ہو جائے۔
بعض بدقسمت اسی تذبذب کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ بعض کا آخری فیصلہ ضلالت کے حق میں ہوتا ہے، اور بعض ایک طویل کش مکش کے بعد ہدایت الٰہی کا اشارہ پا لیتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ خوش قسمت وہ سلیم الفطرت، صحیح القلب، اور سدید النظر لوگ ہوتے ہیں، جو خدا کی دی ہوئی عقل، اس کی عطا کی ہوئی آنکھوں، اس کے بخشے ہوئے کانوں اور اس کی ودیعت کی ہوئی قوتوں سے ٹھیک ٹھیک کام لیتے ہیں۔ مشاہدات اور تجربات سے درست نتائج اخذ کرتے ہیں۔ آیات الٰہی کو دیکھ کر ان سے صحیح سبق حاصل کرتے ہیں۔
باطل کی زینت اُن کو رجھانے میں ناکام ہوتی ہے۔ جھوٹ کا فریب ان کو اپنا گرویدہ نہیں بناسکتا۔ ضلالت کی کج راہیوں کو دیکھتے ہی وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ آدمی کے چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ پھر جونہی وہ حق کی طرف رجوع کرتے اور اس کی طلب میں آگے بڑھتے ہیں، حق ان کے استقبال کو آتا ہے۔ ہدایت کا نور ان کے سامنے چمکنے لگتا ہے اور حق کو حق سمجھ لینے اور باطل کو باطل جان لینے کے بعد پھر دنیا کی کوئی قوت ان کو راہ راست سے پھیرنے اور گمراہی کی طرف لگانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔
ایک اور بات بھی اس سلسلے میں قابلِ بیان ہے، اور ضرورت ہے کہ مسلمان اس کو ذہن نشین کرلیں۔
عام طور پر جب غیر مسلم مشاہیر کی جانب سے اسلام کے متعلق کچھ اچھے خیالات کا اظہار ہوتا ہے، تو مسلمان بڑے فخر سے ان خیالات کو شہرت دیتے ہیں، گویا ان کا اسلام کو اچھا سمجھنا اسلام کی خوبی کے لیے کوئی گراں قدر سرٹیفکیٹ ہے۔ لیکن یہ حقیقت فراموش نہ کرنی چاہیے کہ اسلام کی صداقت و حقانیت اس سے بے نیاز ہے کہ کوئی اس کا اعتراف کرے۔ جس طرح آفتاب کا روشن ہونا اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کو روشن کہے اور جس طرح آگ کا گرم ہونا اور پانی کا سیال ہونا اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کی گرمی اور اس کے سیلان کو تسلیم کرے، اسی طرح اسلام کا برحق ہونا اس کا حاجت مند نہیں ہے کہ کوئی اس کے برحق ہو نے کو مان لے۔ خصوصاً ایسے لوگوں کی تحسین اور مدح تو کوئی بھی وقعت نہیں رکھتی، جن کے دل ان کی زبانوں کا ساتھ نہیں دیتے، اور جو خود اپنے اعراض و انکار سے اپنی مدح و تحسین کی تکذیب کرتے ہیں۔ اگر حقیقت میں وہ اسلام کی خوبی کے معترف ہوتے تو اس پر ایمان لے آتے۔ لیکن جب انھوں نے زبانی اعتراف کے باوجود ایمان لانے سے انکار کر دیا تو اہل عقل کی نگاہ میں ان کی حیثیت بالکل اس شخص کی سی ہے، جو طبیب کی صداقت کو تسلیم کرے، اس کے تجویز کردہ نسخے کی صحت کا اعتراف کرے، مگر اپنی بیماری کا علاج کسی عطائی طبیب سے کرائے۔
مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بڑے سے بڑے غیر مسلم کا اعتراف بھی اسلام کے لیے قابلِ فخر نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک ہی فخر کافی ہے، اور وہ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن۳:۱۹) [اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے] اور رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ط (المائدہ۵:۳) [تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا] کا فخر ہے۔