سوال : کیاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بھی اسلام موجود تھا؟ جس قرآنی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ’مسلم‘ ہونے کی خبر دی گئی ہے، اس میں اسلام سے مرادکیا یہی دین اسلام ہے، جسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟
جواب :اسلام کا مفہوم ہے اپنی ذات اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکانا اور اس کا مکمل مطیع و فرماں بردار بن جانا، یعنی اللہ کی توحید کا اقرار کرنا، اس کی عبادت کرنا اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا۔ یہی ہے وہ طریقۂ زندگی،جسے لے کر تمام انبیا و رُسل علیہم السلام آئے۔ تمام نبیوںؑ اور رسولوںؑ نے اسی طریقۂ زندگی کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ اس لیے یہی بات حقیقت ہے کہ تمام انبیاؑ ورُسل کا مذہب، دینِ اسلام ہی تھا، کیوں کہ درحقیقت جو دین، اللہ کے نزدیک اَزل سے محبوب اور مطلوب ہے، وہ دین اسلام ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ عظیم میں فرماتا ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ (اٰل عمٰرن۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
دوسری آیت میں ہے:
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ ۰ۚ (اٰل عمٰرن۳:۸۵) اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ تمام انبیا و رُسل علیہم السلام نے اسی دین اسلام کی طرف دعوت دی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کیا اور فرمایا:
وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۷۲(یونس ۱۰:۷۲) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود مسلم بن کر رہوں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا:
اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ ۰ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۳۱ (البقرہ ۲:۱۳۱) اس کا یہ حال تھا کہ جب اس کے ربّ نے کہا: مسلم ہوجا، تو اس نے فوراً کہا: میں مالکِ کائنات کا مسلم ہوگیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا بلقیس کے پاس بھی اسی اسلام کا پیغام بھیجا تھا:
اَ لَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ۳۱ۧ (النمل۲۷:۳۱) میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہوکر میرے پاس حاضر ہوجائو۔
آنحضور محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی دینِ اسلام کی دعوت دی۔ اسی طریقۂ زندگی کی طرف لوگوں کو بلایا۔ یہ الگ بات ہے کہ خاتم الانبیاؐ ہونے کی حیثیت سے ان کا لایا ہوا دین، ایک مکمل دین ہے۔ حضورؐ کوئی نیادین لے کر نہیں آئے تھے ۔ انھوں نے بھی اسی دین کی دعوت دی، جس کی دعوت تمام انبیاؑ و رُسل نے دی تھی۔ البتہ خاتم الانبیاؐ ہونے کی حیثیت سے ان کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ پچھلی شریعتوں میں جو بھی کمی رہ گئی تھی، اسے دُور کرکے دین کو مکمل کریں۔ لوگوں نے جو تحریفات کردی تھیں، ان کی تصحیح کریں اور ایک مخصوص انسانی طبقے کے بجائے تمام عالم کو اس دین کی دعوت دیں۔
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ پچھلی شریعتوں اور شریعت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین بعض فروعی مسائل میں واضح فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی شریعتیں اپنے وقت اور حالات و ضروریات کے مطابق تھیں، جب کہ شریعت محمدیہ، رہتی دُنیا تک کے حالات و ضروریات کے عین مطابق ہے۔
سوال : بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ’’نئے گھر میں رہایش کے موقعے پر ایک قربانی کرنی چاہیے ورنہ جِنّ اس گھر پر قابض ہوجاتے ہیں اور گھر والوں کو تنگ کرتے ہیں‘‘۔ کیا یہ عقیدہ صحیح ہے؟
جواب : درحقیقت جنوں کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو جنوں کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ وہ صرف انھی چیزوں پر یقین کرتے ہیں، جسے وہ دیکھ سکیں یا محسوس کرسکیں۔ ان کے بالمقابل کچھ ایسے لوگ ہیں، جو جنوں کے وجود کے اثرات کو ثابت کرنے میں غلو کرجاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہرچھوٹے بڑے معاملات میں جنوں کی دخل اندازی کے قائل ہیں۔ ان کے ذہنوں پر جِنّ اس طرح سوار ہوگیا ہے کہ ہرحادثے میں انھیں جِنّ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ گویا ساری دُنیا پر جنوں کی حکمرانی ہوگئی ہو۔ یہ دونوں عقیدے غلو کا شکار اور اسلامی تعلیمات کے مخالف ہیں۔
جنوں کے معاملے میں اسلام کا عقیدہ افراط و تفریط سے پاک ہے۔ اسلام نے جنوں کے وجود کا انکار نہیں بلکہ اقرار کیا ہے۔ جنوں کی اپنی ایک الگ دُنیا آباد ہے۔ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر جنوں کا تذکرہ موجود ہے۔ وہ لوگ جو روحوں کو بلانے کا عمل کرتے ہیں، وہ بھی دراصل جنوں کوبلاتے ہیں۔ جنوں کے اقرار کے ساتھ ساتھ اسلام کاعقیدہ یہ بھی ہے کہ جِنّ اس حدتک بااختیار اور بااثر نہیں ہیں کہ تمام کائنات پر حکمرانی کریں۔ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے کام کریں۔ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کی منشا اور تصرف کےماتحت ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ایک ادنیٰ سی جنبش پر بھی قادر نہیں ہیں۔
رہا لوگوں کا یہ عقیدہ کہ ’’نئے گھر کو بسانے سے قبل اگر قربانی نہ کی جائے تو جِنّ اس گھر پر قابض ہوجاتے ہیں اور گھروالوں کو تنگ کرتے ہیں‘‘ تو یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے۔ یہ تو غیب کی بات ہے۔ عقیدے اور غیب کی بات جب تک قرآن سے ثابت نہ ہو ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ لہٰذا، نئے گھر میں رہایش کے وقت قربانی کرنے والی بات بالکل بے بنیاد اور لغو ہے۔(ڈاکٹر محمد یوسف القرضاوی، ترجمہ: سیّد زاہد اصغرفلاحی)