نومبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

بعض روایات کا پھیلا ہوا رطب ویابس

مفتی منیب الرحمٰن | نومبر ۲۰۲۲ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

’رَطْب‘ کے معنی ہیں:’تر‘ ،اور ’یَابِسْ‘ کے معنی ہیں: ’خشک‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں،انھیں اُس کے سوا (ازخود)کوئی نہیں جانتا اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندروں میں ہے اوروہ ہر اُس پتّے کو جانتا ہے جو(درخت سے) گرتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ اور ہر خشک وتر چیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے ، (الانعام۶:۵۹)‘‘۔

قرآنِ کریم میں ’رطب ویابس ‘ ہر قسم کی معلومات کے احاطے کے لیے آیا ہے ، لیکن ہمارے اُردو محاورے میں سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے اور صحیح اور غلط کے مجموعے کو ’رطب ویابس‘ کہتے ہیں ۔ جب کسی کتاب میں ثقہ اور غیر ثقہ دونوں طرح کی باتیں جمع ہوں تو کہاجاتا ہے: یہ ’رطب ویابس‘ کا مجموعہ ہے۔ ہمارے ہاں بظاہر میڈیا کی یلغار ہے۔ بے شمار ٹیلی ویژن چینل ہیں، اس کے علاوہ یوٹیوب پرڈیجیٹل چینلوں کی بھرمار ہے ،نیزواٹس ایپ ، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ خبروں اورتجزیات کی بہتات ہے جن میں سے بعض حقائق پر مبنی ہوتے ہیں،لیکن زیادہ تر تخمینوں، قیاسات ،ظنّیات ، مفروضات اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایک ہی چیز سے ہر ایک اپنا مَن پسند نتیجہ نکالتا ہے۔سو، خبر ذریعۂ علم ہے ، لیکن اس سے بے خبری ،ذہنی انتشار اور فکری کجی عام ہورہی ہے۔ سراج اورنگ آبادی نے کہا ہے:

خبرِ تَحَیُّرِ عشق سن ،نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو، تُو رہا ،نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

قرآنِ کریم نے خبر کی بابت یہ اصول بیان فرمایا:’’اے ایمان والو! تمھارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان بین کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچادو پھر تمھیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے،(الحجرات۴۹:۶)‘‘۔

 احادیثِ مبارکہ کے لیے بھی ردّوقبول کے معیارات مقرر کیے گئے ہیں اور اُس کے لیے علم کا ایک پورا شعبہ’’جرح وتعدیل‘ وجود میں آیا۔ حدیث کے راویوں کے احوال کو منضبط کرنے کے لیے ’اَسْمَآءُ الرِّجَال ‘کی کتب موجود ہیں، سند اور راویوں کے اعتبار سے احادیثِ مبارکہ کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔ رسول اکرمؐ نے اپنی ذاتِ مبارکہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے پر بڑی وعید فرمائی ہے: ’’جو مجھ پر دانستہ جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، (بخاری:۱۰۷)‘‘، نیز حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: میرے حوالے سے کوئی بات بیان کرنے میں احتیاط کیا کرو، صرف وہی بات میری طرف منسوب کیا کرو، جس کا تمھیں یقینی علم ہو۔ جس نے مجھ پر دانستہ جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے اور جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی ،وہ (بھی )اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، (ترمذی: ۲۹۵۱)‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ علمائے حدیث نے بڑی عرق ریزی اورباریک بینی سے احادیث کی چھان بین کی ، حدیث کے راویوں کے احوال قلم بند کیے ،لوگوں کی وضع کردہ احادیث کو چھان بین کر کے الگ کیا، کھرے کو کھوٹے سے ممتاز کیا، اور موضوع احادیث پر کتابیں لکھیں۔ علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں:’’شعبی بیان کرتے ہیں :میں ایک مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، میرے پاس ایک لمبی ڈاڑھی والا شخص بیٹھا وعظ کر رہا تھا ، اس کے گرد لوگوں کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ اس نے بیان کیا: ’’ فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے اور اس نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کی : اللہ تعالیٰ نے دو صور بنائے ہیں اور ہر صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، ایک بار پھونکنے سے لوگ بے ہوش ہوں گے اور دوسری بار قیامت کے لیے پھونکا جائے گا‘‘۔ شعبی کہتے ہیں:مجھ سے برداشت نہ ہوا، میں نمازجلدی ختم کر کے اس کی طرف مڑا اور کہا: شیخ!اللہ سے ڈرو اور غلط بیانی نہ کرو، اللہ تعالیٰ نے صرف ایک صور پیدا کیا ہے ، اسی کو دوبار پھونکا جائے گا۔ اُس شیخ نے کہا:اے فاجر! مجھ سے فلاں، فلاں نے یہ حدیث بیان کی ہے اور تُو مجھ پر ردّ کرتا ہے، پھر اس نے اپنی جوتی اُٹھا کر مجھے پیٹنا شروع کر دیا اور اس کی پیروی میں اس کے تمام مریدوں نے بھی مجھے اپنے جوتوں سے مارنا شروع کر دیا ۔ بخدا!ان لوگوں نے مجھ کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ انھوں نے مجھ سے یہ نہیں کہلوالیا کہ اللہ تعالیٰ نے دو صور پیدا کیے ہیں،(موضوعاتِ کبیر،ص۱۲)

حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکرمتوفّٰی۵۷۱ھ بیان کرتے ہیں: ’’ہارون الرشید کے پاس ایک زندیق کو لایا گیا، خلیفہ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اس زندیق نے کہا: مجھ کو توتم قتل کر دو گے، لیکن چار ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جن کومیں نے وضع کر کے لوگوں میں پھیلا دیا ہے، ان میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمایا ہوا ایک حرف بھی نہیں ہے۔ہارون الرشید نے کہا:اے زندیق!تُو عبداللہ بن مبارک اور  ابن اسحاق الفزاری کو کیا سمجھتا ہے، ان کی تنقید کی چھلنی سے تیری وضع کی ہوئی حدیثوں کا ایک ایک حرف نکل جائے گا،(تاریخ دمشق ج۷، ص۱۲۷)‘‘۔

آج کل سوشل میڈیا پر ایسی خرافات کی یلغار ہے اور لوگ صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیرہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلادیتے ہیں۔ حالانکہ ہر اُس فرد کو جو مسلمان ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے، نبی اکرمؐ کا یہ فرمان ہرگز نہیں بھولنا چاہیے:’’کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ (تحقیق کیے بغیر) ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے، (سنن ابوداؤد:۴۹۹۲)‘‘۔

علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں:’’امام احمد اور یحییٰ بن معین نے مسجد رُصافہ میں نماز پڑھی۔ ان کے سامنے ایک قصہ گو کھڑا ہوا، اور اس نے حدیث بیان کی:’’ احمد بن حنبل و یحییٰ بن معین نے عبدالرزاق سے،انھوں نے معمر سے ،انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے لا الٰہ الااللہ کہا، اللہ تعالیٰ اس کے ہر کلمہ سے ایک پرندہ پیدا کرتا ہے جس کی چونچ سونے کی ہوتی ہے اور پَر مرجان کے‘‘۔ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ان دونوں نے اس حدیث سے لاعلمی کا اظہار کیا اورقصہ گوواعظ سے پوچھا:تم نے یہ حدیث کس سے روایت کی ہے؟ اس نے کہا:احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین سے۔یحییٰ بن معین نے کہا:میں یحییٰ بن معین ہوں اور یہ احمد بن حنبل ہیں، ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہرگز روایت نہیں کی، تم کیوں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہو۔ اس نے کہا:میں ایک عرصہ سے سن رہا تھا کہ یحییٰ بن معین احمق آدمی ہے، آج مجھے اس کی تصدیق ہو گئی۔ یحییٰ نے پوچھا:کیسے؟ اس نے کہا:تم یہ سمجھتے ہو کہ دنیا میں صرف تمھی یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل ہو، اور ان کا مذاق اُڑا کر چل دیا،(موضوعات کبیر،ص۱۲)‘‘۔

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:’’حدیث کے موضوع ہونے پر ایک قرینہ یہ ہے : کسی معمولی سی بات پر بہت سخت عذاب کی وعید ہو یا کسی معمولی سے کام پر بہت عظیم ثواب کی بشارت ہو اور یہ چیز بازاری لوگوں اور قصے اور واقعات بیان کرنے والوں کے ہاں بکثرت موجود ہے، (اَلنُّکَتْ عَلٰی کِتَابِ ابْنِ الصَّلَاح،ج۲،ص۸۴۳-۸۴۴)‘‘۔

اسی طرح ہمارے ہاں رمضان المبارک اور ربیع الاول کی آمد سے قبل ایک من گھڑت حدیث سوشل میڈیا پرپھیلائی جاتی ہے:’’ جس نے سب سے پہلے رمضان المبارک کی یا ربیع الاول کی آمد کی اطلاع دی، اس کو جہنم سے آزاد کر دیا جاتا ہے‘‘۔اس طرح کی حدیث کسی بھی صحیح بلکہ ضعیف اور موضوع احادیث پر لکھی گئی کتب میں بھی نہیں ملتی، اس لیے اس کی نسبت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے،پس اس طرح کے پیغامات دوسروں کونہیں بھیجنے چاہییں۔

حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا:کیا مسلمان بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:ہاں! پھر سوال ہوا:کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: ہاں! پھر سوال ہوا: کیا مسلمان جھوٹاہوسکتا ہے، آپؐ  نے فرمایا:نہیں، (موطا امام مالک: ۳۶۳۰)‘‘۔ لیکن ہمارے ہاں سچ جھوٹ میں تمیز ختم ہوگئی ہے۔ ہر ایک کو وہی سچ قبول ہے، جو اُس کے فائدے میں ہو۔

ایک شخص نے سوال کیا: کیا یہ روایت صحیح ہے:’’ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان نہیں دی تھی ، تو سورج ہی نہیں نکلا‘‘۔ اسی طرح یہ روایت بھی بعض قصہ گو واعظ سناتے ہیں: ’’حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان میں لکنت تھی اور وہ ’ش‘ کا تلفظ ’س‘ سے کرتے تھے، چنانچہ بعض لوگوں کی شکایت پر نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلال کو اذان سے منع کردیا تو اُس دن صبحِ صادق طلوع نہ ہوئی، صحابۂ کرام پریشان ہوگئے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک بلال کا’س‘ بھی ’ش‘ ہے،جب تک بلال اذان نہ دیں، صبح نہیں ہوسکتی‘‘، یہ روایت بھی موضوع اور من گھڑت ہے ،اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس کی بابت حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی شارحِ بخاری لکھتے ہیں:’’تمام محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے :یہ روایت موضوع ،من گھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے، (فتاویٰ شارحِ بخاری،ج ۲،ص۳۸)‘‘، مزید لکھتے ہیں: ’’مقررین نے اُن کی زبان میں تتلا پن بتایا ہے، وہ بھی غلط ہے۔ اُن کی آواز انتہائی شیریں ، بلند اور دلکش تھی، (فتاویٰ شارحِ بخاری ،ج۲،ص۴۱)‘‘۔شیخ مرع بن یوسف کرمی مقدّسی (الفوائد الموضوعہ، ص ۳۸)،امام بدرالدین زرکشی (التذکرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ، ج۱، ص۲۰۸)، امام جلال الدین سیوطی (اَلدُّرَرُ الْمُنْتَثِرَۃ فِی الْاحَادِیث المشتھَرۃ)اوردیگر محدثین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔

عربی زبان کے علم المعانی میں خبر کی تعریف یہ لکھی ہے: ’’خبر وہ ہے جو صدق وکذب (دونوں) کا احتمال رکھتی ہے‘‘،یعنی جب تک خبر کا سچا ہونا ثابت نہ ہوجائے ، اُسے کسی بات کے ثبوت یا ردّ میں دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ’صدق‘ سے مراد یہ ہے : ’’جو کہا گیا ہے ،وہ نفس الامر اور واقع کے مطابق ہو‘‘اور ’کذب‘ سے مراد یہ ہے:’’جو کہا گیا ہے، وہ نفس الامر اور واقع کے خلاف ہو‘‘۔

 بعض خطبا ء اورمقررین اپنے خطبات میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:الْفَقْرُ فَخْرِیْ ( فقر میرا فخر ہے)‘‘۔ نہ صرف واعظین بلکہ بہت سی نامور شخصیات اپنی کتب ورسائل میں بکثرت اسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث کے طور پر ذکر کرتے ہیں اور نعت گو شعراء اپنے کلام میں اس مضمون کو منظوم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال نے کہا:

سماں الْفَقْرُ فَخْرِیْ  کا رہا شانِ امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوے زیبا را

حفیظ جالندھری نے کہا:

اگرچہ فَقْرُ فَخْری رتبہ ہے، تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے، فرِکِسرائی وخاقانی

بہادرشاہ ظفر نے کہا:

جس کو حضرت نے کہا: الْفَقْرُ فَخْرِی  اے ظفر!
فخرِدیں، فخرِ جہاں پر، وہ فقیری ختم ہے

محدثین کے نزدیک ایسی کوئی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور یہ جعلی اور من گھڑت ہے۔امیر المومنین فی الحدیث امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:’’اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ سے پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا:یہ جھوٹ ہے، مسلمانوں کے ذخیرۂ روایات میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور امام صغانی نے بھی اس کے موضوع ہونے کی تصدیق فرمائی ہے، (اَلتَّلْخِیْصُ الْحَبِیْر،ج۳،ص۲۴۱)۔ علامہ سخاوی نے اَلْمَقَاصِدُ الْحَسَنَہ (ص۴۸۰)، علامہ عجلونی نے کَشْفُ الْخِفَاء (ج۲،ص۸۷)،علامہ محمد طاہر پٹنی نے تَذْکِرَۃُ الْمَوْضُوْعَاتْ (ص۱۷۸)میں اس روایت کو باطل و من گھڑت قرار دیا ہے ۔

اس کے برعکس صحیح احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’فقروفاقے‘ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگاکرتے تھے اورآپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی کہ وہ فقروفاقے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں،چنانچہ آپؐ  یہ دعامانگا کرتے تھے:’’اے اﷲ! میں فقر کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں،(صحیح البخاری:۶۳۷۶)۔ ایک روایت میں ہے: آپ نے دعافرمائی: ’’(اے اﷲ!)میں کفر و فقر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، (سنن ابوداؤد: ۵۰۹۰)‘‘۔

البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااللہ تعالیٰ سے مَسکنت کی دعا مانگناثابت ہے۔حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اﷲ!مجھے مسکین ہی زندہ رکھ، مَسکنت میں موت عطافرما اور مساکین کے ساتھ میرا حشر فرما،(سنن ترمذی: ۲۳۵۲)‘‘۔ لیکن محدثین فرماتے ہیں:یہاں مَسکنت سے غربت اورفقر وفاقہ مراد نہیں، بلکہ تواضع وانکسار اور اپنے رب کے حضور عجز واحتیاج کا احساس اوراس کی حفاظت، رحمت اور نگرانی کا طالب ہوناہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک اس حدیث میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس مَسکنت کو طلب نہیں کیا، جس کا معنی قِلّت لیا جاتا ہے، بلکہ آپ نے اس مَسکنت کا سوال کیا ہے، جس کے معنی انکسار اور عاجزی کے ہیں،(سنن بیہقی،ج۷،ص۱۸)‘‘۔

ائمہ دین وفقہائے اسلام نے انبیائے کرام کے متعلق فقیر ،غریب،یتیم،مسکین اور بے چارہ وغیرہ ایسے کلمات کے استعمال کو سختی سے ناجائز وحرام قرار دیا ہے ،جن میں بے توقیری ،بے ادبی اور اہانت کا پہلو پایا جاتا ہے۔چنانچہ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا:’’ایک خطیب نے وعظ کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا:آپ یتیم، غریب،بے چارے تھے‘‘،امامِ اہلسنت نے اس کے جواب میں متعددکتب کے حوالہ جات کے ساتھ لکھا:یہ جائز نہیں کہ ہمارے آقا نبی کریمؐ  کو فقیر کہا جائے،رہا لوگوں کا الْفَقْرُ فَخْرِیْ کو آپ سے مروی کہنا تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ امام بدر الدین زرکشی نے امام سبکی کی طرح یہ کہا ہے کہ یہ جائز نہیں کہ آپؐ کو فقیر یا مسکین کہا جائے اور آپؐ اللہ کے فضل سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر غنی ہیں، خصوصاً اﷲتعالیٰ کے ارشاد: ’’ہم نے آپؐ کو حاجت مند پایا سو غنی کر دیا‘‘ کے نزول کے بعد، رہا! آپ کا یہ فرمان:’’ اے اﷲ!مجھے مسکین زندہ رکھ‘‘، تو اس سے مراد باطنی مَسکنت کو خشوع کے ساتھ طلب کرنا ہے اور الْفَقْرُ فَخْرِیْ  باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، جیسا کہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا ہے،(فتاویٰ رضویہ، ج۱۴،ص۶۲۸)‘‘۔

اِسی طرح واقعۂ معراج کی بابت بہت سے لوگوں نے مختلف حدیثیں گھڑ رکھی ہیں، چنانچہ بہت سے مقررین بڑے ترنگ اورجوش کے ساتھ یہ روایت بیان کرتے ہیں:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شبِ معراج عرشِ الٰہی کی طرف عروج فرمانے کاارادہ فرمایا تو دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو’ وادیِ طُویٰ ‘میں نعلین اُتار نے کا حکم دیا تھا ،سو اس فرمانِ الٰہی کے پیشِ نظر آپؐ نے بھی اپنے نعلین اُتارنے چاہے،آواز آئی:اے محمد! اپنے نعلین نہ اُتارو،نعلین سمیت ہی آئو تاکہ آپؐ کے نعلین کی برکت سے عرش اعظم کو فضیلت حاصل ہوجائے‘‘۔ اس روایت کو بھی محدثین نے سراسرمن گھڑت اور بے اصل قرار دیا ہے۔

علامہ عبدالحیی لکھنوی اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں:’’اس قصے کا تذکرہ اکثر نعت گو شعراء نے کیا ہے اور اسے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے اور ہمارے زمانے کے اکثر واعظین اسے طوالت و اختصار کے ساتھ اپنی مجالسِ وعظ میں بیان کرتے ہیں،جب کہ شیخ احمد الْمُقْرِی نے اپنی کتاب فَتْحُ الْمُتَعَال فِیْ مَدْحِ النِّعَال  میں اور علامہ رضی الدین قزوینی اور محمد بن عبدالباقی زرقانی نے شَرْحُ مَوَاہِبِ اللَّدُنْیَہ  میں نہایت صراحت سے وضاحت کی ہے کہ یہ قصہ مکمل طور پر موضوع ہے،اللہ تعالیٰ اس کے گھڑنے والے کو برباد کرے۔معراج شریف کی کثیر روایات میں سے کسی ایک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پاپوش پہنے ہوئے تھے۔

علامہ شریف الحق امجدی لکھتے ہیں:’’اس روایت کے جھوٹ اور موضوع ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں ہے ،جو صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ نعلین پاک پہنے عرش پر گئے،ان سے پوچھیے کہ کہاں لکھا ہے ،(فتاویٰ شارحِ بخاری، ج۱،ص۳۰۷)‘‘۔

حضرت اویس قرنی کے بارے میں واعظین بیان کرتے ہیں:’’ جب انھوں نے غزوۂ اُحد میں حضورکے دودندانِ مبارَک کے ٹوٹنے کا سنا تو فرطِ عشق میں اپنے سارے دانت توڑ دئیے کہ نہ جانے آپؐ کے کون سے دندانِ مبارک شہید ہوئے ہیں۔ ایک جگہ تو یہ بھی پڑھنے کو ملا :’’ ان کے ٹوٹے ہوئے دانت پھر صحیح سالم نکل آئے ، انھوں نے پھر توڑے اور ایسا سات بار ہوا،پھر چونکہ وہ ٹھوس غذانھیں چبا سکتے تھے، اس لیے اُن کی خاطر قدرت نے کیلے کا پودا پیدا فرمایا‘‘۔ خوف ِخدا سے عاری نعت خواں ایسے اشعار پڑھ کر نذرانے سمیٹتے ہیں۔یہ روایت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ یہ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ معیار ہے، جو شریعت کو مطلوب ہے۔ اگر محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا معیار یہی ہوتا تو صحابۂ کرامؓ جو محبتِ رسولؐ میں اپنی جانیں نچھاور کررہے تھے، ضرور مشابہتِ رسول کی خاطر اپنے دانتوں کو توڑ دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس وہی قرینۂ عشقِ رسول پسندیدہ اور معتبرہے، جوشریعت کے اصولوں کے مطابق ہو،جب کہ شریعت کی رُو سے اپنی جان یا کسی عضو کو تلف کرنا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح یہ مثال کہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جبریلِ امینؑ سے پوچھا:تمھاری عمر کتنی ہے؟اُنھوں نے عرض کی:یارسول اللہ!مجھے اپنی عمر کا صحیح اندازہ تو نہیں ہے، البتہ مجھے اتنا یاد ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حجاباتِ عظمت میں سے چوتھے پردے میں ایک ستارہ چمکا کرتا تھا، وہ ستارہ ستّرہزار سال کے بعد ایک مرتبہ چمکتا تھا اور میں نے اُسے بہتّر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جبریلؑ!مجھے اپنے ربِ جلّ جلالہ کی عظمت کی قسم !وہ ستارہ جو ستّر ہزار سال کے بعد ایک مرتبہ طلوع ہوتا تھااور جسے تم بہتّرہزارمرتبہ دیکھ چکے ہو،وہ (طلوع ہونے والا)ستارہ میں ہی ہوں‘‘۔

ہمارے ہاں وعظ وخطابات کی کچھ معروف کتابوں میں یہ حدیث درج ہے اور بہت سے واعظین اورخطبا حضرات گھن گرج کے ساتھ اس حدیث کو محافل میں بیان کرتے ہیں۔حالانکہ اس روایت کے متن وسند کاکتبِ احادیث میں سے کسی کتاب میں کوئی نام ونشان ہے اور نہ ضعیف اور موضوع روایات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں اس کاکہیںذکرملتا ہے۔اس روایت کا ذکر گیارھویں صدی ہجری کے سیرت نگار علامہ نور الدین علی بن ابراہیم حلبی کی کتاب اَنْسَانُ الْعُیُوْن فِیْ سِیْرَۃِ الْاَمِیْنِ الْمَامُوْن میں ملتا ہے۔ علامہ حلبی نے اس روایت کو التَّشْرِیْفَات فِی الْخَصَائِصِ وَالْمعجزات نامی کتاب کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اِس کتاب کے مصنف کے متعلق وہ فرماتے ہیں:مجھے اِس کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہوسکا ہے، (ج۱،ص۴۷)‘‘۔ یعنی اس کتاب کے مصنف مجہول اور نامعلوم شخص ہیں ،نیز اصل مآخِذ میں بھی یہ حدیث کہیں نہیں پائی جاتی ، نہ جانے اُنھوں نے کہاں سے اس کو حدیث تصور کرلیا ہے ، لہٰذا اس کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

اِسی طرح کئی واعظین خلفاء ِ راشدین کی طرف یہ روایات منسوب کرتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:’’جس نے میلاد پڑھنے میں ایک درہم خرچ کیا، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا‘‘،حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:’’جس نے محفلِ میلاد کی تعظیم کی، اُس نے اسلام کو زندہ کیا‘‘، حضرت عثمانؓ نے فرمایا:’’جس نے میلاد پڑھنے میں ایک درہم خرچ کیا ،گویا وہ غزوۂ بدر وحنین میں شریک ہوا ‘‘،حضرت علیؓ نے فرمایا:’’جس شخص نے میلادالنبیؐ کی تعظیم کی اور میلاد شریف پڑھنے کا سبب بنا ،تو ایسا شخص دنیا سے باایمان جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا‘‘۔

یہ روایات دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم علامہ ابن حجرہیتمی کی طرف منسوب کتاب اَلنِّعْمَۃُ الْکُبْریٰ عَلَی الْعَالَمِ فِیْ مَوْلِدِ سَیِّدِ وُلدِآدَم میں پائی جاتی ہیں۔اس کتاب کے علاوہ   کتبِ احادیث وآثاراور کتبِ موضوعات وسِیَر میں کہیں ان روایات کا نام ونشان تک موجود نہیں ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو تمھیں ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے سُنی ہوں گی اور نہ تمھارے آباء نے، تم اُن سے دور رہنا،(صحیح مسلم:۶)‘‘۔

سوال یہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دیگر بزرگانِ دین کے یہ ارشادات علامہ علی القاری ،علامہ سیوطی ، علامہ نبہانی،امام رَبّانی مجدِّدِ الفِ ثانی،شیخ عبدالحق محدّث دہلوی، امام احمد رضا قادری رَحِمَہُمُ اللہُ اَجْمَعِیْن اوردیگر علمائے اسلام کی نگاہوں سے کیوں پوشیدہ رہے، جب کہ ان حضرات کی وسعتِ علمی کے اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں۔خود ان اقوال کی زبان اور اندازِ بیان بتا رہا ہے کہ یہ دسویں صدی کے بعد تیار کیے گئے ہیں۔میلاد شریف پڑھنے پر دراہم خرچ کرنے کی بات بھی خوب رہی۔صحابہ کرام ؓکے دور میں نہ تو میلاد شریف کی کوئی کتاب پڑھی جاتی تھی، نہ میلاد کے پڑھنے کے لیے اُنھیں دراہم خرچ کرنے کی ضرورت تھی۔ تاہم، ان کی ہر محفل اور ہرنشست میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے فضل وکمال اور آپؐ کی تعلیمات کا ذکر ہوتا تھا۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: لوگوں کے انتساب سے خالی ہے ،جب کہ لوگوں کے ہاتھ میں جو میلاد نامے پائے جاتے ہیں،ان میں سے اکثر میں موضوع روایات موجود ہیں،(جواہر البحار، ج۳،ص۳۲۹)‘‘۔

لوگوں میں یہ بھی معروف ہے کہ گلاب کا پھول، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے سے پیدا ہوا ہے۔ حضرت انسؓ کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی جاتی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے آسمانوںپر معراج کے لیے بلایاگیا توزمین رونے لگی ،جب میں معراج سے زمین پر واپس ہوا تو میرے پسینے کے قطرات زمین پرپڑے ،اس سے گلاب کاپھول پیدا ہوا، اب جو شخص میری خوشبو سونگھنا چاہتا ہے ،اسے چاہیے کہ گلاب سونگھے‘‘۔ اِسی کے مثل ایک یہ روایت ہے:’’معراج کی شب سفید گلاب میرے پسینے سے پیدا کیا گیا ،سرخ گلاب حضرت جبریلِ امین کے پسینے سے پیدا کیا گیا اور زرد گلاب براق کے پسینے سے پیدا کیا گیا ‘‘۔ ان روایات کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں:’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘ اورامام ابن عساکر فرماتے ہیں:’’یہ حدیث موضوع ہے‘‘ (اَلدُّرَرُالْمُنْتَثِرَہْ فِی الْاَحَادِیْثِ الْمُشْتَـہَرہ،ج۱،ص۲۱۹)۔ علامہ سخاوی نے بھی ’’اَلْمَقَاصِدُ الْحَسَنَہ، ص۲۱۶‘‘میں اس حدیث کوشیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے اورعلامہ علی القاری نے بھی’’اَلْمَصْنُوْع فِیْ مَعْرِفَۃِ حَدِیْثِ الْمَوْضُوْع، ص۷۰‘‘میں  اس حدیث کوحافظ ابن حجر کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے ،نیز علامہ یوسف بن صالح شامی نے بھی’’سُبُلُ الْہُدیٰ وَالرَّشَاد،ج۲،ص۸۸‘‘میںاس حدیث کو باطل وموضوع قرار دیا ہے۔

دسویں صدی ہجری کے مجدّد،مفسرومحدّث،فقیہ ومؤرّخ تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف اور دولاکھ احادیث کے حافظ خَاتِمُ الْمُحَدِّثِیْن وَالْمُحَقِّقِیْن علامہ جلال الدین سیوطی شافعی اپنی ایک کتاب تَحْذِیْرُ الْخَوَاصِّ مِنْ اَکَاذِیْبِ الْقِصَاص کی وجہ ِتالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’حال ہی میں مصر کے ایک معروف پیشہ ور خطیب کے متعلق مجھ سے یہ فتویٰ طلب کیا گیا کہ اس نے اپنے خطاب میں ایک حدیث بیان کی ہے ،میں اس حدیث کو یہاں نقل کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتاہوں ،اگر مجبوری نہ ہوتی تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑے ہوئے جھوٹ کو ہرگز بیان نہ کرتا۔اس جاہل خطیب نے بیان کیا:’’ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے (الانبیاء ۲۱:۱۰۷)‘‘،  تونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل امینؑ سے فرمایا : اے جبریلؑ!کیا میری رحمت سے تجھے بھی کوئی حصہ حاصل ہوا ہے؟جبریلؑ نے عرض کیا:جی ہاں،یا رسولؐ اللہ!اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہزاروں فرشتوں کو پیدا کیا تھا اور ان سب کا نام جبریل رکھا تھا اور ان میں سے ہر ایک سے یہ سوال فرمایا تھا:میں کون ہوں، لیکن ان میں سے کسی کو جواب معلوم نہیں تھا،چنانچہ سب پگھل گئے ،پھر جب مجھے پیدا کیا گیا تو مجھ سے بھی یہی سوال ہوا ، (الخ)‘‘۔

علامہ سیوطی فرماتے ہیں:میں نے فتویٰ دیا :’’ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے ،یہ باطل ہے ،اسے روایت کرنا اور اسے عوام الناس کے سامنے بیان کرنا ہر گز جائز نہیں ہے ۔ اس خطیب پر لازم ہے کہ جو احادیث وہ محافل میں بیان کرنا چاہتا ہے، پہلے اُنھیں محدثین کے سامنے بیان کرکے ان کی تصحیح کرائے ،اگر وہ اُسے بیان کرنے کی اجازت دیں تو بیان کرے ،بصورتِ دیگر اُنھیں بیان نہ کرے‘‘۔جب میرا یہ فتویٰ اُس خطیب تک پہنچا تو قبول کرنے کے بجائے اس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور شدید غصے کے عالم میں ِ منبرپر کہا:اب مجھ جیسا انسان اِن شیوخ الحدیث سے احادیث کی تصحیح کرائے گا اور یہ مجھے بتائیں گے کہ کونسی حدیث صحیح اور کون سی باطل ہے،جب کہ میں روئے زمین کا سب سے بڑا عالم ہوں۔اِس طرح اُس نے اور بھی ہذیان بکا،پھر اس نے عوام کو میرے خلاف اس قدر بھڑکایا کہ ایک عظیم فتنہ پیدا ہوگیا ،یہاں تک کہ لوگوں نے مجھے سَبّ وشَتْم کا نشانہ بنایا ،بلکہ قتل اور سنگسار کرنے کی بھی دھمکیاں ملنے لگیں۔جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو دوبارہ تحریر کیا:’’اگر یہ شخص شیوخ الحدیث سے احادیث کی تصحیح نہ کروائے گااور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب جھوٹ منسوب کرنے پر ہٹ دھرمی دکھاکر اس حدیث کو پھر سے بیان کرے گا، جب کہ اس پر حدیث کا باطل ہونا بھی واضح ہوچکا ہے ،تو میں اس پر کوڑے مارنے کا فتویٰ جاری کروں گا‘‘۔لیکن اس نام نہاد خطیب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ مزید اشتعال انگیزی پر اُترآیا اور ساتھ ہی جاہل عوام بھی اس تعصب میں اس کا ساتھ دینے لگے ،سو میں اس مسئلے پر :  تَحْذِیْرُ الْخَوَاصِّ مِنْ اَکَاذِیْبِ الْقِصَاص کے نام سے یہ کتاب لکھ رہا ہوں،اس کا معنٰی ہے: ’’واعظوں کی من گھڑت اور جھوٹی روایتوں اور قصے کہانیوں سے خواص کو خبر دار کرنا ‘‘۔