نومبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

دنیا میں ارب پتی امریکی اکثریت کیوں؟

ڈاکٹر سام پیزیگیٹی | نومبر ۲۰۲۲ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

ایک گلوب لے کر گھمائیں اور آنکھیں بند کر کے اس پر کہیں بھی انگلی رکھ دیں۔ اس بات کا بھرپور امکان موجود ہے کہ جس جگہ آپ کی انگلی رُکے، وہیں یا اس کے آس پاس کوئی نہ کوئی ارب پتی رہایش پذیر ہو یا اپنے پُرآسایش بجرے پر سیر کر رہا ہو۔

ساری دنیا میں ارب پتی لوگ پائے جاتے ہیں۔اس سال ’Forbes  ‘میگزین کی جانب سے شائع ہونے والی ارب پتیوں کی سالانہ فہرست میں ۲ہزار۶سو ۶۸ لوگ شامل ہیں۔ اس کے بعد حال ہی میں ’کریڈٹ سوئیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ (Credit Suisse Research Institute) نے انتہائی مالدار لوگوں سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، جس کا دائرہ کار نسبتاً وسیع تر ہے۔ اس تجزیے کے مطابق دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ارب پتی لوگ موجود ہیں۔

تاہم، اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے کچھ ممالک میں ایسے لوگوں کی تعداد باقی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔اس سے بھی ایک قدم آگے، امریکا ایک ایسا ملک ہے جس کا کسی اور سے موازنہ ہی نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے ۳۹ء۲ فی صد لکھ پتی امریکا میں رہتے ہیں۔ اس کے بعد ۹ء۹ فی صد کے ساتھ چین کا نمبر ہے، جب کہ جاپان تیسرے نمبر پر ہے، جہاں دنیا کے ۵ء۴فی صد امیر ترین لوگ رہتے ہیں۔

امرا کی دنیا میں مزید اوپر جائیں تو یہ تضاد اور گہرا ہو جاتا ہے۔ کم از کم ۱۰۰ ملین ڈالر کی دولت رکھنے والے دنیا کے تقریباً ۵۳ فی صد کروڑپتی امریکا سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے امیرترین لوگوں کی اکثریت امریکا سے تعلق رکھتی ہے، لیکن بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟

واشنگٹن ڈی سی میں واقع ’اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کی سالانہ رپورٹ اس ضمن میں کچھ مزید اعدادوشمار ہمارے سامنے لاتی ہے۔ ان نئے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کی امارت کے پیچھے ایک اہم وجہ بڑی کمپنیوں میں بڑے عہدوں پر موجود لوگوں کو ملنے والی تنخواہیں ہیں۔ امریکا میں افسران بالا کی تنخواہوں سے متعلق اعداد و شمار کے حوالے سے اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کو ایک معتبر ادارہ سمجھا جاتا ہے اور اسی ادارے کے محققین کی گذشتہ دنوں جاری کردہ رپورٹ کاخلاصہ یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والی امریکا کی ۳۵۰ بڑی کمپنیوں کے سربراہان کو اس سال اوسطاً ۲۷ء۸ ملین ڈالر فی کس تنخواہ دی گئی۔ یہ گذشتہ سال کی نسبتاً ۱۱ء۱ فی صد اور ایک عام امریکی کی تنخواہ سے ۳۹۹ گنا زیادہ ہے۔

ایک نظر ماضی پر بھی ڈالیے۔ ۱۹۶۵ء میں بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز کی تنخواہ عام امریکی شہری کے مقابلے میں صرف ۲۰گنا زیادہ تھی۔ ایک ربع صدی بعد ۱۹۸۹ء میں بھی یہ فرق ۵۹گنا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک یہ فرق دو اعداد سے بڑھتا ہوا سات اعداد تک آ گیا ہے۔

مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو مجموعی طور پر امریکی سی ای اوز کی تنخواہ میں ۱۹۷۸ء کے بعد اب تک ۱۴۶۰  فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک عام امریکی محنت کش کی تنخواہ کتنی بڑھی ہو گی؟ صرف ۱۸فی صد۔

’اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کےتجزیہ کاروں جوش بیونز (Josh Bivens) اور جوری کاندرا (Jori Kandra) کے مطابق ’’کارپوریٹ اداروں میں سربراہان کی بڑھتی تنخواہوں سے بالائی ایک فی صد اور ۰ء۱ فی صد طبقے کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے، اور اس کے مقابلے میں نچلے درجے کےمحنت کشوں کے لیے معاشی ترقی کے ثمرات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ یوں ۱۰ فی صد امیر اور ۹۰ فی صد غریب طبقے کے درمیان خلیج مزید گہری ہو جاتی ہے‘‘۔

تنخواہوں میں یہ غیر متوقع اضافہ صرف کمپنیوں کے سربراہان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اُونچے درجے پر موجود دیگر افسران بھی اس بہتی گنگا میں اچھی طرح ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مثلاً پچھلے سال ’ایمازون‘ نے اپنی دولت چیف ایگزیکٹو سے لے کر نچلے درجے کے افسران تک بڑے کھلے دل سے بانٹی۔ کمپنی کے سی ای او اینڈریو جیسی (Andrew Jassy)کو ۲۱۲ء۷ ملین ڈالر ملے۔ لیکن ’ایمازون‘ کے انٹرنیٹ سروسز کے چیف ایڈم سیلپسی ( Adam Selipsy) کو بھی مایوس نہیں کیا گیا، اس کی ایک سال کی تنخواہ۸۱ء۴ ملین ڈالر تھی۔ اسی کمپنی کے عالمی کنزیومر چیف ڈیوڈ کلارک کا بھی یہ سال بڑا خوش حال گزرا، کیونکہ اس کی تنخواہ ۵۶ ملین ڈالر رہی۔ دوسری طرف ایمازون کے گودام میں کام کرنے والے ایک عام ملازم کی اوسط تنخواہ پچھلے سال۳۱ہزار ۷سو ۵  ڈالر تھی۔

امریکا میں تنخواہوں کا یہ فرق مستقبل قریب میں ختم ہونا تو کجا، کم ہوتا بھی نظر نہیں آتا۔لیکن یہ بات اتنی حیران کن نہیں ہونی چاہیے۔ یہی کاروباری اعلیٰ منتظمین ایک دوسرے کی کمپنیوںمیں بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ معاشی حالات جیسے بھی ہوں وہ اپنی تنخواہیں کم کرنا نہیں چاہتے، بلکہ ان کا تو اصرار ہے کہ کمپنیوں میں اچھی قیادت کو برقرار رکھنے کے لیے تنخواہیں مزید بڑھائی جائیں۔

اگلا سوال یہ ہے کہ امریکا کے امیر ترین لوگوں کی دولت میں انھیں ملنے والی اس کارپوریٹ تنخواہ کا کتنا حصہ ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب ہے:’کافی زیادہ‘۔سال ۱۹۷۸ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان امریکا کے ۰ء۱ فی صد امیر ترین افراد کی آمدنی میں ۳۸۵ فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اسی دورانیے میں اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ’’سی ای اوز کی تنخواہیں اس سے چار گنا زیادہ تیزی سے بڑھی ہیں‘‘۔

اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امریکا میں دولت کی تقسیم یونہی مضحکہ خیز حد تک اشرافیہ کے حق میں رہے گی جب تک کہ کارپوریٹ اداروں کے سربراہان کو ملنے والی مراعات کو لگام نہیں ڈالی جائے گی۔اس بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں:

سب سے پہلے ٹیکس اور محصولات کو دیکھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اگلے دو عشروں تک دو لاکھ ڈالر کی انفرادی آمدن پر وفاق کی طرف سے ٹیکس کی شرح تقریباً ۹۰ فی صد تک سالانہ تھی۔ ٹیکس کا یہ بوجھ اعلیٰ افسران کی تنخواہیں مناسب حد تک رکھنے میں مددگار ہوتا تھا، یعنی بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بھی کیا فائدہ؟ جب آپ جانتے ہیں کہ اس میں سے زیادہ تر حصہ ’انکل سام‘ کی جیب میں ہی جانے والا ہے۔

افسران بالا اور عام ملازمین کی تنخواہوں میں فرق کو گھٹانے کے لیے ایک اور طریقہ بھی پچھلے ایک عشرے سے کافی مقبول رہا ہے۔ سان فرانسسکو اور ریاست اوریگان کے شہر پورٹ لینڈ میں اب ہر اس اعلیٰ افسر کی تنخواہ پر ٹیکس زیادہ لگتا ہے جو عام ملازم کی تنخواہ سے ۱۰۰گنا زیادہ ہو۔

 انٹرنیٹ سائیٹ Inequality.org  کے مطابق قومی سطح پر بھی کچھ ترقی پسند قانون ساز سرکاری ٹھیکوں اور مراعات کو افسران اعلیٰ اور عام ملازم کی تنخواہ کے درمیان فرق سے مشروط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ کسی بھی ایسی کمپنی کو سرکاری ٹھیکہ نہ دیا جائے، جس میں کام کرنے والے اعلیٰ افسر اور ایک عام ملازم کی تنخواہ میں فرق بہت زیادہ ہو۔

تاحال امریکی کمپنیاں تنخواہوں کے معاملے میں تفریق کو ختم کرنے میں ناکام ہیں اور ان کی یہ ناکامی ’کریڈٹ سوئس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار میں واضح جھلک رہی ہے۔ یہ رپورٹ مختلف ممالک میں اوسط اور درمیانی آمدن کا موازنہ پیش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال امریکا میں ایک بالغ آدمی کی اوسط آمدن ۵لاکھ ۷۹ ہزار ڈالر تھی، جو فرانس کی  ۳لاکھ۲۲ہزار ڈالر کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔ لیکن دوسری طرف فرانس میں درمیانے درجے کے ایک عام آدمی کی تنخواہ ایک لاکھ ۴۰ ہزار ڈالر ہے ،جو ایک عام امریکی کی تنخواہ سے تقریباً ۵۰ ہزار ڈالر زیادہ ہے۔

اسی طرح ڈنمارک، کینیڈا اور ہالینڈ کے باشندوں کی اوسط تنخواہ، امریکی شہریوں کی اوسط تنخواہ کے مقابلے میں بہت کم ہے، لیکن اس کے باوجود ڈنمارک، کینیڈا اور ہالینڈ میں ایک عام شہری کی تنخواہ امریکا کے عام شہریوں کی نسبت ۵۳گنا زیادہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ چند ہاتھوں میں مرتکز دولت، اعدادوشمار کو تھوڑا گھما دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ معاشی ناہمواری کے شکار ممالک میں اوسط آمدن بہت زیادہ نظر آئے، لیکن انھی ممالک میں ایک عام آدمی کی آمدن اس اوسط کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتی۔

حاصل بحث؟ بڑی بڑی امریکی کمپنیاں دنیا میں معاشی ناہمواری پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہیں اور ہمیں اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔

(Inequality ، ۷؍اگست ۲۰۲۲ء، ترجمہ: اطہررسول زیدی)