نومبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

مولانا مودودی کی دانش،چند یادیں

صاحبزادہ محمد مقصود الرسول | نومبر ۲۰۲۲ | ایمان وعقائد

Responsive image Responsive image

پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو میں خوشاب میں زیرتعلیم تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کا اسم گرامی میری ’سبز کتاب‘ میں درج تھا، کیونکہ وہ تحریک پاکستان میں حضرت قائداعظمؒ کے دست راست  رہ چکے تھے او رعلما کے ایک خاص گروہ سے بالکل الگ اپنا لائحہ عمل خود تیار کیا تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں البتہ سنا کہ ’وہابی‘ ہیں اور پاکستان کے مخالف بھی، لہٰذا مجھے اس مانوس قسم کے نام سے کچھ چڑ سی ہو گئی۔

انھی دنوں مولاناشبیر احمد عثمانی ؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی طویل مراسلت کا پورا متن اخبار میں شائع ہو گیا۔ میں نے اس خیال سے کہ مولانا مودودیؒ جیسے ’ناپختہ‘آدمی نے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒجیسے بزرگ عالم دین سے کیا بحث کرنی ہے، اخبار خرید لیا اور اس مراسلت کو ایک خاص  جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے مکمل یکسوئی سے پڑھنا شروع کر دیا۔ بحث غالباً جہادِ کشمیر کے بارے میں تھی۔ شروع شروع میں تو میری یہ خوش گوار توقع برقرار رہی کہ مولانا مودودیؒ چت گرے کہ گرے، مگر جوں جوں میں خط کتابت کے اندر بڑھتا گیا تو مولانا کا اسلوب نگارش نسبتاً زیادہ واضح اور کسی قسم کے ابہام سے پاک محسوس ہوا، مقابلتاً زیادہ باوزن اور قائل کرنے والا۔ میں اس صورت حال کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ میں نے مایوسی اور غصے کی حالت میں اخبار ایک طرف پھینک دیا اور اپنے آپ کو تسلی دی کہ میں چونکہ مسئلے کے ادراک کی پوری صلاحیت سے بہرہ مند نہیں ہوں، لہٰذا غلط فہمی کا شکار ہو گیا ہوں، ورنہ اصل بات وہی ہے جو اس مراسلت کو پڑھنے سے پہلے میرے ذہن میں موجود تھی۔ اس کے بعد کافی محاذوں سے مولانا کے خلاف توپوں کے دہانے مکمل کھل گئے اور وہ ان پر مسلسل گولے برسانے لگیں۔

ایک دن مجٹیھیا ہاسٹل میں اپنے کمرے کے اندر موجود تھا کہ ایک واقف کار پڑوسی نے مختصر سا کتابچہ مجھے تھما دیا، جس میں مختلف حوالوں اور تحریروں کی روشنی میں مولانا کو غیرمقلد، پاکستان دشمن، جہادِ کشمیر کا مخالف بلکہ کافر تک ثابت کیا گیا تھا۔ میں نے سوچا چونکہ صاحبزادہ عبدالرسول ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ان کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے، چنانچہ شام کو میں نے پمفلٹ کے مندرجات اور مولانا کی وہ تحریریں جو مؤلف نے واوین میں درج کی تھیں، انھیں پڑھ کر سنائیں۔ آج بڑا مسرور تھا کہ میرے ’عقیدے‘ کی کامرانی کا وقت  آن پہنچا ہے، لیکن مجھے مایوسی ہوئی کہ انھوں نے ان باتوں کا کوئی خاص اثر قبول نہ کیا اور بات سنی اَن سنی کر دی۔ چونکہ معاملہ اعتقاد اور ایمان کا تھا، میں نے اس بے حسی کی وضاحت چاہی۔ انھوں نے مختصر سی بات کہی کہ یہ پمفلٹ حکومت کے ایما پر لکھا گیا ہے اور اس کے مندرجات بددیانتی اور افترا کی بدترین مثال ہیں۔ میں نے کہا کہ واوین میں دی گئی عبارتیں کس طرح غلط ہوسکتی ہیں تو انھوں نے پھر مختصراً کہا کہ یہ عبارتیں ترمیم کے عمل سے گزار کر درج کی گئی ہیں‘‘۔

میں نے عزم کر لیا کہ اصل حوالوں کے ساتھ خود تقابل کروں گا۔ جب میں نے اسلامیہ کالج کی لائبریری میں ایک دو حوالوں کا تقابل اصل کتاب کھول کرکیا توواقعی میری حیرانی حد سے تجاوز کرگئی۔ اصل عبارت، واوین میں دی گئی عبارتوں سے بالکل مختلف تھی اور جہاں واقع تھی اس کا مطلب ہی کچھ اور تھا۔ میں کافی دیر تک سرگرداں وہیں بیٹھا، اس انوکھی بددیانتی پر حیران رہا۔  میرے نزدیک اس کتابچے کا مؤلف چور تھا۔ ان فرضی اور ’مرمت شدہ‘ اقتباسات کی بنیاد پر مولانا مودودی کے خلاف جس طرح دشنام طرازی کی گئی تھی اور انھیں جس طرح خارج از اسلام ثابت کیا گیا تھا، اس بنا پر مولانا ’وہابیت‘ کی بدنامی کے باوجود مجھے قابلِ رحم نظر آئے۔

اس کے کچھ عرصے بعد مجھے ان کی کتاب ’خطبات‘ پڑھنے کا موقع ملا، جس میں نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی خوبیاں اور انسانی فطرت سے ان کا تعلق اس طرح بیان کیا گیا تھا کہ میں پڑھ کر حیران رہ گیا۔ رمضان المبارک کے ایک جمعے کے روز نماز سے قبل میں نے ’خطبات‘ کے  انھی خیالات کو ’سردھی‘ گائوں میں حاضرین کے سامنے بیان کیا، تو ایک ضعیف العمر نمازی تقریر کے اختتام پر اُٹھ کھڑا ہوا اور نمازیوں کے مجمعے سے مخاطب ہو کر قسم کھائی کہ ’’رمضان المبارک کے موضوع پر اُس نے اپنی ساری زندگی میں ایسی تقریر نہیں سنی تھی‘‘۔ ’خطبات‘ اور اسی طرح کی دیگر ابتدائی تالیفات کے مطالعے سے میں نے محسوس کیا کہ ان کتابوں کا لکھنے والا انتہائی راست فکر انسان ہے اور اس کی علمی کاوشوں سے مستفید نہ ہونا ایسا ہی ہے، جس طرح روشنی کے لیے بجلی اور سفر کے لیے جدید ایجادات سے محروم رہنا۔

مجھے اگرچہ ایک ممتاز متدین گھرانے میں ہونے کی سعادت حاصل تھی اور بڑے بڑے صوفیا اور صاحب ِباطن بزرگوں کو بچشم خود دیکھنے کا شرف بھی نصیب تھا۔ تاہم، کفر والحاد کی بادِصرصر کے تھپیڑوں اور اس کے تندوتیز جھکڑوں سے میرے ایمان کا پودا اپنی تازگی برقرار نہ رکھ سکا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خالق کائنات کی ذات سے انکار اور اسلامی شعائر کی تضحیک اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ ظاہر کرنے کے لیے ایک بنیادی شرط تھی۔ مجھے فیشن اور پالیسی کے طور پر الحاد کی تبلیغ کرنے والے ان تہذیب کے پتلوں سے نفرت توتھی، لیکن مجبوری یہ تھی کہ ہمارے علمائے دین ان فیشنی ملحدین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے کتراتے تھے۔ دوسری طرف میری مذہبی حس ان کو ایک لمحہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ میں ان کو علمی میدان میں رسوا اور ذلیل دیکھنا چاہتا تھا۔

اسی ذہنی کش مکش بلکہ مجبوری کی کیفیت میں مَیں نے والد محترم کی ذاتی لائبریری میں سے ایک کتاب نکالی، یہ ’تنقیحات‘ تھی۔ اس پر مصنف کا نام ’ابوالاعلیٰ مودودی‘ تحریر تھا۔ میں چونکہ اس مصنف کی تحریریں، خطبات وغیرہ پڑھ چکا تھا، لہٰذا اسے بھی شوق سے پڑھنا شروع کر دیا۔ پہلا مضمون [جولائی ۱۹۳۳ء]جو میں نے اپنے مطالعے کے لیے منتخب کیا وہ تھا:’’تجدد کا پائے چوبیں‘‘۔

الحاد کے فتنے کاسامنا

یہ مضمون جناب نیاز فتح پوری کی لغویات پر ایک دلچسپ مگر انتہائی شان دار بحث پر مشتمل تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جب ماہ نامہ ترجمان القرآن کی اشاعت کا آغاز کیا، تو نیازصاحب نے جو مولانا کے احباب میں سے تھے، اپنے رسالے ’نگار‘ میں ترجمان القرآن کے اغراض و مقاصد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا:’’اب، جب کہ علومِ جدیدہ اور ’اکتشافاتِ حاضرہ‘ نے ’عمل و خیال‘ کی بالکل نئی طرح ڈال کر ’حریت فکرو ضمیر‘ کی دولت سے دماغوں کو مالامال کر دیا ہے، [چنانچہ] مذہب صرف اس دلیل کی بنیاد پر زندہ نہیں رہ سکتا کہ اس کے اسلاف کا طرزِعمل بھی یہی تھا‘‘۔

مزید فرمایا: ’’اب زمانہ ’یومنون بالغیب‘ کا نہیں رہا بلکہ ’یومنون بالتجر بہ والشھود‘ کا ہے۔ ایسے نازک وقت میں کسی شخص کا مذہب کی حمایت کے لیے کھڑا ہوجانا آسان کام نہیں، جب کہ خود نفسِ مذہب کا خیال بھی اپنی جگہ چنداں قابلِ قبول نہیں‘‘۔

نیاز صاحب نے یہ بھی لکھا: ’’قرآنِ پاک اپنے معانی کے لحاظ سے تین حصوں میں منقسم ہے: ایک وہ جس میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔ دوسرا وہ جس میں اعتقادات پیش کیے گئے ہیں، اور تیسرا وہ جو قصص و تمثیلات پر مشتمل ہے‘‘۔

بقول حضرت نیاز: ’’حصہ اوّل کے متعلق نہ زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی دلیل و بُرہان کے لانے کی، کیونکہ تعلیمِ اخلاق تمام مذاہب میں تقریباً یکساں ہے۔ البتہ حصہ دوم اور حصہ سوم پر زیادہ توجہ کرنا چاہیے، کیونکہ علومِ جدیدہ اور اکتشاف عالیہ نے انھی حصوں کی طرف سے ’ریب و تذبذب‘ کی کیفیات لوگوں کے دلوں میں پیدا کردی ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان شبہات کو   دُور کرنے میں کامیاب ہوجائے، تو اس صدی کا مجددکہلائے جانے کا مستحق ہو گا‘‘۔

بحث کو سمیٹتے ہوئے حضرت نیاز نے فرمایا: ’’آیندہ کے لیے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے وحی و الہام کی حقیقت پر گفتگو کریں کہ اسی کے سمجھنے پر کلام اللہ کی حقیقت کا سمجھنا منحصر ہے اور مسئلہ معاد کو لیںکہ اسی کے حل ہونے پر انحصار مذہبیت ولامذہبیت ہے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں،وہ کلام الٰہی اور معاد کا کیا مفہوم متعین کرتے ہیں؟ اس کے بعد میں اپنے شبہات و اعتراضات پیش کروں گا،اور اگر ان کی کوشش سے وہ دُور ہوگئے تو مجھے بڑی مسرت ہو گی، کیونکہ ’ناچار مسلماں شو‘ کی جس لعنت میں بہت سے لوگ گرفتار ہیں ان کا ایک بڑا سبب عقیدہ معاد بھی ہے‘‘۔

نیازفتح پوری صاحب،مذبذبین کے امام مانے جاتے تھے۔ چونکہ بنیادی طور پر ایک  عالم دین تھے، اس لیے علمائے دین کے کمزور پہلوئوں کو یوں اُچھالتے کہ عام آدمی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ دوسری طرف علمائے دین قرآن و سنت کی روشنی میں ان شبہات کا جواب دیتے، لیکن جو اللہ کا بندہ قرآن و سنت کو حجت نہ مانتا ہو، اس کے لیے یہ جوابی دلائل کسی وزن کے حامل نہیں ہوسکتے تھے۔

میں نے نیاز صاحب کے اعتراضات کو پڑھا تو پریشان ہوا کیونکہ ان کاتوڑ ایک غیرجانب دار آدمی کے نقطۂ نظر سے ممکن نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ مولانا مودودی ایک بلند مرتبہ انشا پرداز ہونے کے باوجود شاید دین کا اس طرح دفاع نہ کر سکیں جو کہ ایک غیر مسلم کو بھی باوزن نظر آئے، کیونکہ اس میں شک نہیں کہ مذہب کا تمام تر دارومدار ایمان بالغیب پر ہی ہے۔

بہرحال، نیاز صاحب کے اقتباسات ختم ہوئے تو مولانا مودودی نے اپنی جوابی گزارشات کا حق استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ ’’قرآنِ مجید کے مباحث کوہم بآسانی صرف دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں‘‘۔ پھر لکھا:

ایک وہ حصہ جس کا تعلق اُن امور سے ہے جو ہمارے علم کی حدود سے باہر ہیں اور ہمارے ادراک کی سرحد سے ماورا ہیں۔ جن کے متعلق ہم قطعیت کے ساتھ صحیح یا غلط ہونے کا کوئی حکم نہیں لگا سکتے، اور جن میں قرآن ہم کو ایمان بالغیب لانے کی دعوت دیتا ہے۔

دوسرے وہ امور، جو ہمارے دائرۂ علم سے باہر نہیں ہیں، اور جن میں قطعیت کے ساتھ کوئی حکمِ عقلی لگانا ہمارے لیے ممکن ہے۔

پہلے حصے میں وجود وصفات الٰہی، فرشتے، وحی و کتب آسمانی، حقیقت نبوت، بعث بعد الموت، عذاب و ثوابِ آخرت اور ایسے ہی دوسرے مسائل کے علاوہ وہ تمام ماورائے علم و ادراک باتیں بھی آ جاتی ہیں، جو قصص اور تمثیلات کے سلسلے میں وارد ہوتی ہیں۔

مجھے مولانا مودودی کی یہ تقسیم زیادہ واضح اور ہر قسم کی الجھن سے پاک نظر آئی۔ اس کے بعد مولانا نے لکھا کہ حضرت نیاز کی: ’’اس [مذکورہ] رائے کی بنیاد چند غلطیوں پر ہے، جن میں پہلی غلطی گذشتہ اور موجودہ زمانے کے حقیقی فرق کو نہ سمجھنا ہے۔ بدقسمتی سے تنہا حضرت نیاز ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا گروہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مذہب کی شمع صرف گذشتہ زمانے کی تاریکی میں جل سکتی تھی۔ علومِ جدیدہ کا آفتاب طلوع ہونے کے بعد اس کا روشن ہونا مشکل ہے۔ حالانکہ علومِ عقلیہ، جن کو یہ لوگ روشنی سے تعبیر کرتے ہیں، کچھ اس زمانے کی مخصوص متاع نہیں ہیں۔ گذشتہ زمانے میں بھی ان علوم کی روشنی نے آنکھوں کو اسی طرح خیرہ کیا، اور گذشتہ زمانے میں بھی جن لوگوں کی آنکھیں ان سے خیرہ ہوئی ہیں، انھوں نے یہی سمجھا کہ مذہب کی شمع اب روشن نہیں رہ سکتی‘‘۔

مولانا مودودی نے نیاز فتح پوری کی اس غلط فہمی پر کہ ’علوم جدیدہ‘ اور ’اکتشافاتِ حاضرہ‘ صرف ہمارے زمانے کی متاع مخصوص ہے، مفصل تبصرہ کرنے کے بعد فرمایا:’’دوسرا نظریہ جو اِسی پہلے نظریے سے نکلا ہے۔ یہ ہے کہ اب زمانہ ’یومنون بالغیب‘ کا نہیں رہا بلکہ’ یومنون بالتجربہ و الشہود‘  کا ہے۔ میں بہت غور کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھ سکا کہ ان الفاظ سے قائل کا حقیقی مقصود کیا ہے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ زمانے میں کوئی ایسی بات تسلیم نہیں کی جاتی جس پر غیب کا اطلاق ہوتا ہو، اور جس کا تجربہ یا مشاہدہ نہ کیا گیا ہو، تو یہ بالکل غلط ہے۔ ایسا کہنے کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہوگا کہ اس زمانے میں لوگوں نے صرف اسی حد کے اندر رہنا قبول کر لیا ہے، جس میں ان کا تجربہ و مشاہدہ ان کے لیے وسیلۂ اکتسابِ علم بن سکتاہے، اور جس میں ان کے حواس کام دے سکتے ہیں اور اس دائرے کے باہر جتنے اُمور ہیں، ان کے بارے میں فکر کرنا اور قیاس و استقراء سے ان کے متعلق حکم لگانا انسان نے چھوڑ دیا ہے۔ مگر کوئی شخص جس نے ’علمِ جدیدہ و اکتشافاتِ حاضرہ‘ کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے، اس بیان کو تسلیم نہ کرے گا۔ فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کو چھوڑیے، جس کی بحث تمام تر امورِ غیب سے ہے۔ خود سائنس اور اس کے امورِ طبیعیہ کو لے لیجیے، جن کے اعتماد پر آپ ’ایمان بالتجربہ و الشہود‘ کا اعلان کررہے ہیں۔ اس فن کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس کی تحقیق کا مدار قوت، انرجی، قانون، فطرت، مادۂ رشتہ علت و معلول اور ایسے ہی دوسرے امور کے اقرار و اثبات پر نہیں؟ کون سا عالم طبیعیات ایسا ہے جو ان چیزوں پر ایمان نہیں رکھتا؟ اب ذرا کسی بڑے سے بڑے حکیم سے جا کر پوچھیے کہ ان میں سے کس کی حقیقت وہ جانتا ہے؟ کس کی کنہہ تک اس کے حواس پہنچ سکے ہیں؟ کس کے نفسِ وجود کا تجربہ و مشاہدہ اس نے کر لیا ہے؟ اور کس کے موجود ہونے کا حقیقی ثبوت وہ پیش کر سکتا ہے؟ پھر یہ غیب پر ایمان نہیں تو کیا ہے؟‘‘

پھر مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’ان الفاظ کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں صرف وہی بات مانی جاتی ہے جس کا تمام انسانوں نے تجربہ و مشاہدہ کیا ہے، اور جو نوعِ انسانی کے تمام افراد کے لیے شہود و حضور کا مرتبہ رکھتی ہے۔ لیکن یہ ایسی بات ہے جو کسی مردِ عاقل کی زبان سے نہیں نکل سکتی۔ اس لیے کہ یہ بالکل بدیہی امر ہے کہ تمام انسانی معلومات افرادِ انسانی کو فرداً فرداً حاصل نہیں ہیں، بلکہ ان کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے، جس میں مخصوص جماعتوں اور مخصوص افراد کو اختصاص کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ ان خصوصی معلومات کا ہر شعبہ صرف اپنے مختص عالموں کے لیے حاضر اور باقی تمام انسانوں کے لیے غائب ہوتا ہے، اور جمہور کو اس شخص یا اس گروہ پر ایمان بالغیب لانا پڑتا ہے، جو اس شعبے کا عالم ہو‘‘۔

مولانا نے لکھا: ’’تیسرا مفہوم اس قضیۂ کلیہ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے کا ہر شخص صرف وہی بات مانتا ہے جو اس کے ذاتی تجربے یا مشاہدے میں آئی ہو، اور ایسی کسی بات کو نہیں مانتا جو خود اس کے لیے غیب کا حکم رکھتی ہو، لیکن یہ ایسی بات ہے کہ اس سے زیادہ مہمل کوئی بات انسانی دماغ سے نکل نہیں سکتی۔ اس صفت کا نہ کوئی آدمی کبھی پایا گیا ہے، نہ آج پایا جاتا ہے، نہ قیامت تک اس کے پائے جانے کی اُمید ہے۔ اور اگر وہ فی الواقع کہیں موجود ہے تو اس کی نشان دہی کرنے میں ہرگز تامل نہ کرنا چاہیے، کیونکہ ’انکشافاتِ حاضرہ‘ میں یہ انکشاف سب سے اہم ہوگا‘‘۔

’’ خود تجربہ و مشاہدہ اس پر گواہ ہے کہ یہ زمانہ بھی اسی طرح ’یومنون بالغیب‘ کا ہے جس طرح گذشتہ زمانہ تھا، اور’ ایمان بالغیب‘ جس چیز کا نام ہے، اس سے انسان کو نہ کبھی چھٹکارا ملا ہے، نہ مل سکتاہے۔ ہرشخص اپنی زندگی کے ۹۹۹فی ہزار بلکہ اس سے زیادہ معاملات میں ایمان بالغیب لاتا ہے اور لانے پر مجبور ہے۔ اگروہ یہ عہد کر لے کہ صرف اپنے تجربے و مشاہدے پر ہی ایمان لائے گا تو اس کو معلومات کا وہ تمام ذخیرہ اپنے دماغ سے خارج کر دینا پڑے گا، جسے دوسروں پر اعتماد کر کے اس نے مقامِ علم و یقین میں جگہ دی ہے۔ اکتساب علم کے ان تمام ذرائع کا مقاطعہ کردینا پڑے گا جو خود اس کے اپنے تجربے و مشاہدے سے ماسویٰ ہیں ،اور یہ ایسی حالت ہو گی جس میں وہ زندہ ہی نہ رہ سکے گا، کجا کہ دنیا کا کوئی کام کر سکے۔ درحقیقت ایمان بالغیب کی کلّی نفی اور ایمان بالتجربہ والشہود کا کلّی اثبات نہ اس زمانے میں ممکن ہے اور نہ اس سے زیادہ روشن کسی زمانے میں ہونے کی توقع ہے۔ لامحالہ ہر زمانے اور ہر حالت میں انسان مجبور ہے کہ اپنے ذاتی تجربے و مشاہدے کے بغیر بہت سی باتیں محض دوسروں کے اعتماد پر مان لے۔ کچھ باتیں اس کو خبر متواتر کی بنا پر ماننی پڑتی ہیں، جیسے یہ کہ سنکھیا کھانے سے آدمی مر جاتا ہے، درآنحالیکہ ہر شخص نے نہ خود سنکھیا کھا کر اس کا تجربہ کیا نہ کسی کو کھا کر مرتے ہوئے دیکھا۔ کچھ باتوں کو ایک یا چند معتبر آدمیوں کی روایت سے مان لینا پڑتا ہے، جیسے عدالتوں کا شہادت پر اعتماد کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو قانون کی مشین ایک لمحے کے لیے بھی حرکت نہ کرسکے۔ کچھ باتیں صرف اس بنا پر تسلیم کرنی پڑتی ہیں کہ ان کو ایک ماہر فن کہہ رہا ہے۔ یہ حالت ہر مدرسہ اور ہر کالج میں ہر طالب علم پر گزرتی ہے۔ اگر وہ اپنے فن کے اکابر علما و ماہرین کی تحقیقات اور ان کے اکتشافات و نظریات پر ایمان بالغیب نہ لائے تو علم کے میدان میں ایک قدم بھی آگے نہیںبڑھ سکتا اور نہ کبھی ترقی کرکے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے، جہاں وہ خود ان علما و ماہرین کی طرح حقائق علمیہ کی تحقیق کرنے کے قابل ہو‘‘۔

’’اس سے ثابت ہوا کہ ہم ان تمام معاملات میں دوسروں پر ایمان بالغیب لاتے ہیں اور لانے پر مجبور ہیں جن میں ہم نے اپنے ذاتی تجربہ و مشاہدہ سے اکتسابِ علم نہیں کیا ہے اور دوسرے لوگوں نے کیا ہے۔ اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے اور اسی پر فیصلے کا انحصار ہے کہ کس معاملے میں کس پر ایمان بالغیب لانا چاہیے؟‘‘ اصولاً یہ بات ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ ایسے ہر معاملے میں صرف اس شخص یا جماعت پر ایمان لانا چاہیے جس کے متعلق ہم کو یہ اطمینان ہو کہ اسے اس معاملے کا بہتر علم حاصل ہے اور اس کے پاس اس کے جاننے کے بہتر ذرائع موجود ہیں۔ اسی قاعدہ کلیہ کے ماتحت ایک مریض ڈاکٹر کو چھوڑ کر وکیل سے مشورہ نہیں کرتا اور ایک اہل مقدمہ وکیل کو چھوڑ کر انجینئر کے پاس نہیں جاتا۔ لیکن الٰہیات و روحانیت کے مسائل میں یہ اختلاف واقع ہوتا ہے کہ آیا ان میں علمائے فلسفہ و ماہرین علومِ عقلیہ کی رائے تسلیم کی جائے، یا عالم انسانی کے مذہبی و روحانی پیشوائوں کی؟ خدا اور ملائکہ، وحی و الہام، روح اور حیات بعد الموت، عذاب و ثوابِ آخرت اور ایسے ہی دوسرے امورِ غیب میں کانٹ اور اسپنسر، آئین سٹائین اور برگسان جیسے لوگوں کی بات مانی جائے یا ابراہیم، موسیٰ اور محمد علیہم السلام جیسے بزرگوں کی؟ ’’حُریت فکر و ضمیر‘‘ کے مدعیوں کا رجحان پہلے گروہ کی جانب ہے اور وہ انھی کی مہیا کی ہوئی کسوٹی پر گروہِ ابنیا کی باتوں کو کس کر دیکھتے ہیں۔ جو باتیں اس کسوٹی پر کھری نکلتی ہیں انھیں مان لیتے ہیں، اس لیے نہیں کہ انبیا علیہم السلام نے کہی ہیں، بلکہ اس لیے کہ حکما و فلاسفہ نے ان کو شرفِ قبول عطا کیا ہے۔ اور بدقسمتی سے ایسی باتیں بہت ہی کم بلکہ بالکل نہیں ہیں۔ اور جو باتیں اس کسوٹی پر کھوٹی نکلتی ہیں، ان کو وہ غیر معتبر قرار دے کر رد کردیتے ہیں۔ برعکس اس کے ’قدامت پرستوں‘ اور ’اسلاف پرستوں‘ کا مسلک یہ ہے کہ نہ طبیعیات و عقلیات کی باتیں الٰہیات و روحانیات والوں سے پوچھو، اور نہ اس کے برعکس الٰہیات و روحانیت کی باتیں عقلیات و طبیعیات والوں سے۔ دونوں کے دائرے الگ الگ ہیں، اور ایک علم میں دوسرے علم کے ماہر کی رائے دریافت کرنا بنیادی غلطی ہے‘‘۔

میں ذاتی طور پر حضرت نیاز کی نوتراشیدہ اصطلاح ’یومنون بالتجربہ والشھود‘سے متاثر تھا، لیکن مولانا مودودی کے اس محکم اور مدلل تجزیے کے بعد میرے نزدیک یہ اصطلاح بدنیت ذہن کی پُرپیچ ترکیب اور شرارتِ محض ہو کررہ گئی۔

مغرب سے مرعوبیت کا رَد

ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان جو اتفاق سے مسلمان بھی تھے۔ چین و جاپان کی سیاحت کے دوران سؤر کا گوشت کھاتے ہوئے واپس آئے، اور پھر ہم وطن مسلمانوں کو بھی اس لذت میں شریک کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ انھوں نے اپنے سفر نامے میں لکھا کہ مذہب عبادت کی حد تک تو ایک جائز بات ہے، لیکن کھانے پینے کی اشیا میں مداخلت، سراسر زیادتی ہے۔ بقول حضرت سیاح کھانے کی میز کے آداب اور مذہبی احکام میں کوئی فطری ربط موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اسلام کی ترقی اگر مقصود ہے تو ان ناروا پابندیوں کو ختم کرنا ہو گا۔ ’مسلمان‘ سیاح نے اس بات پر زبردست حیرت کا اظہار کیا کہ چین و جاپان کی خوش و خرم مخلوق جس کا شمار بھی ممکن نہیں۔ چند برسوں کے بعد کیوں جہنم کا ایندھن بن جائے گی؟ صرف اس لیے کہ وہ اچھے انسان، شراب اور سؤر کے گوشت جیسی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان سیاح صاحب نے یہ بھی لکھا کہ عیسائیت کی ترقی کا راز   یہ ہے کہ وہ اس قسم کی ناروا پابندیوں اور فضول بندشوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ چنانچہ انھوں نے فتویٰ دیا کہ ’’میں سؤر کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے نومسلموں کے ساتھ ڈھیل دینا پسند کرتا ہوں‘‘ اور یہ کہ ’’قرآن سے بھی مجھے اس کے قطعی حرام ہونے میں شک ہے۔‘‘

اس قسم کی بے سروپا تحریریں شاید اُس زمانے میں عام ہوں۔ بہرحال تعجب کی بات ہے کہ اس قدر دیدہ دلیری سے قرآن شریف پر’تنقید‘ ایک ’مسلمان‘ نے کی اور اس کا صحیح نوٹس سوائے مولانا کے کسی دوسرے باقاعدہ ادارے کی طرف سے سامنے نہ آیا۔ مولانا نے دسمبر۱۹۳۴ء کے  ماہ نامہ ترجمان القرآن میں اس جدید تعلیم یافتہ  نوجوان کی کج روی پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کے بعد فرمایا:

’’مضمون نگار کی زیرنظر تحریر چشم بددُور، ان دونوں خصوصیات کی حامل ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے مضمون سے یہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مسلم کی حیثیت سے کلام کر رہے ہیں یا غیرمسلم کی حیثیت سے؟ اسلام کے متعلق گفتگو کرنے والے کی دو ہی حیثیتیں ہو سکتی ہیں: مسلم ہو یا غیرمسلم۔ جو شخص مسلم کی حیثیت سے کلام کرے گا عام اس سے کہ وہ خوش عقیدہ (Orthodox) ہو یا آزاد خیال یا اصلاح طلب، بہرحال اس کے لیے لازم ہو گا کہ دائرہ اسلام کے اندر رہ کر کلام کرے، یعنی قرآن کو منتہائے کلام (Final Authority) سمجھے اور ان اصولِ دین و قوانین شریعت کو تسلیم کرے، جو قرآن نے مقرر کیے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ قرآن کی سند کو نہ مانے گا ،اور کسی ایسی بات میں کلام کی گنجایش سمجھے گا جو قرآن سے ثابت ہو، تو دائرہ اسلام سے باہر نکل آئے گا اور اس دائرے سے نکلنے کے بعد اس کی مسلمانہ حیثیت باقی ہی نہ رہے گی کہ وہ اس میں کلام کر سکے۔ رہی دوسری حیثیت یعنی یہ کہ بولنے والا غیرمسلم ہو تو اس حیثیت میں اسے پورا حق ہو گا کہ قرآن کے اصول اور اس کے احکام پر جیسی چاہے تنقید کرے، اس لیے کہ وہ کتاب کو منتہائے کلام نہیں مانتا۔ لیکن یہ حقیقت اختیار کرنے کے بعد اسے مسلم کی حیثیت سے گفتگو کرنے اور مسلمان بن کر مسلمانوں کو اسلام کے معنی سمجھانے، اور اسلام کی ترقی کے وسائل بتانے کا کوئی حق نہیں ہو گا۔ ایک صاحب ِعقل و شعور آدمی جب سوچ سمجھ کر اسلام کے متعلق گفتگو کرے گا، تو وہ سب سے پہلے یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ ان دونوں حیثیتوں میں سے کون سی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ پھر وہ جو حیثیت بھی اختیار کرے گا، اس کے عقلی شرائط کو ملحوظ رکھے گا۔ کیونکہ بیک وقت اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور قرآن کے مقرر کیے ہوئے اصول و قوانین پر نکتہ چینی کا حق بھی استعمال کرنا، قرآن کی سند میں کلام بھی کرنا اور مسلمان کو موعظۂ حسنہ بھی سنانا کسی عاقل کا فعل نہیں ہو سکتا۔ یہ نقیضین کو جمع کرنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص بیک وقت مسلم بھی ہو اور غیر مسلم بھی، دائرہ اسلام کے اندر بھی ہو اور باہر بھی‘‘۔

آگے چل کر فرمایا:’’مضمون نگار صاحب کی علمی قابلیت اور ان کی معقولیت کی طرف سے ہم اتنے بدگمان نہیں ہیں کہ ان سے یہ امید رکھیں کہ اگر وہ اسلام کے سوا کسی مسئلے پر کلام فرماتے تو اس میں بھی اس طرح دو مختلف حیثیتوں کو بیک وقت اپنے اندر جمع کر لیتے۔ ہم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ قیصر ہند کی عدالت میں بیٹھ کر قیصر ہند کے منظور کیے ہوئے قوانین پر نکتہ چینی کرنے کا حق استعمال فرمائیں گے۔ نہ ہم ان سے اس جرأت کی امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی مسلک فکر (School of Thought) کی پیروی کا دعویٰ کرنے کے بعد ان اصولوں پر مخالفانہ نکتہ چینی کریں گے جن پر وہ مذہب قائم ہے۔ لیکن طرفہ ماجرا ہے کہ اسلام کے معاملے میں انھوں نے دو بالکل مختلف حیثیتیں اختیار کی ہیں، اور یہ محسوس تک نہیں کیا کہ وہ باربار اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، مسلمانوں کا سا نام رکھتے ہیں، مسلمانوں کی زبوں حالی پر رنج فرماتے ہیں، اسلام کی ترقی کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو ’احسان‘ یعنی ’اصل دین‘ کا وعظ سناتے ہیں۔ دوسری طرف اس کتاب کے مقرر کیے ہوئے اصول اور قوانین پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں، جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے، اور جس کو آخری سند تسلیم کرنا مسلمان ہونے کی لازمی شرط ہے۔ قرآن ایک نہیں چار جگہ بالتصریح سور کے گوشت کو حرام قرار دیتا ہے، مگر آپ اس معاملے میں ڈھیل دینا پسند فرماتے ہیں، اور لطف یہ ہے کہ ڈھیل دینے کی یہ خواہش بھی ’ترقی ٔاسلام‘ کے لیے ہے۔ گویا ’ترقی ٔاسلام‘ کی فکر آپ کو قرآن سے بھی زیادہ ہے، یا کوئی اسلام، قرآن سے باہر بھی ہے جس کی ترقی آپ چاہتے ہیں‘‘۔

مولانا لکھتے ہیں: ’’قرآن فی الواقع انسان کے لیے کھانے کا مینو (Meno) تیار کرتا ہے، کھانے کی چیزوں میں حرام و حلال، خبیث و طیب کا فرق قائم کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ تم اپنے اختیار سے کسی شے کو حلال اور حرام قرار دینے کا حق نہیں رکھتے، مگر آپ کو اپنے حق پر اصرار ہے، اور خود قرآن کا یہ حق تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ وہ کھانے پینے میں مذہب کو دخل دے۔ قرآن، مذہب کو ان حدود میں نہیں رکھتا، جن میں سینٹ پال (نہ کہ مسیح ؈) کے متبعین نے اس کو محدود کیا ہے۔ وہ لباس، اکل و شرب، نکاح و طلاق، وراثت، لین دین، سیاست، عدالت، تعزیرات وغیرہ کے قوانین وضع کرتا ہے۔ مگر آپ اس قسم کی قانون سازی کو غلط سمجھتے ہیں، اس کو ’ترقی ٔاسلام‘ میں مانع قرار دیتے ہیں۔ اس پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ انسان کوایک لاشۂ بے جان اور بے بس بچہ بنادیتا ہے، اور تجویز کرتے ہیں کہ مذہب اسی قدر ہونا چاہیے جس قدر عیسائیوں (دراصل پولوسیوں) نے سمجھا ہے۔ قرآن نے خود قوانینِ شریعت بنائے ہیں، اور ان کو’ حدود اللہ‘ سے تعبیر کرکے ان کی پابندی کا حکم دیا ہے۔ مگر آپ شریعت کی ان حدوں کو بیڑیوں (chains) سے تعبیر کرتے ہیں، اور سینٹ پال کی طرح مذہب کی توسیع و ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان بیڑیوں کو توڑ ڈالا جائے۔ قرآن کے نزدیک ایمان نجات کی پہلی اور لازمی شرط ہے، اور جو لوگ، خدا پر یقین نہیں رکھتے، ان کے متعلق وہ بالفاظ صریح کہتاہے کہ ’وہ دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے‘۔ خواہ وہ بے شمار ہوں یا شمار میں آ جائیں، خوش حال ہوں یا بدحال۔ مگرآپ کا یہ حال ہے کہ کافروں اور بت پرستوں کی بے شمار خلقت کو خوش و خرم و خوشحال دیکھ کر آپ کا دل گواہی نہیں دیتا کہ چند سال کے بعد وہ سب دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے اور آپ کو سمجھ میں نہیں آتا کہ انھوں نے خدا کی زمین کو معمور کر دینے کے سوا اور کون سا قصور کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن سے اتنا کھلاہوا اختلاف رکھتے ہوئے آپ مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں، اور مسلمان ہوتے ہوئے قرآن سے اختلاف کیوںکر کرسکتے ہیں؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن سے اختلاف نہ فرمایئے اور اگر قرآن سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو دائرہ اسلام سے باہر کھڑے ہو کراختلاف کیجیے۔‘‘

اسلام کی تبلیغ اور غیر مسلموں کی طرف سے شکوک و شبہات رفع کرنے کے ضمن میں جو تحریریں اس سے پیشتر موجود تھیں ان میں مبلغین کا انداز اتنا پُراعتماد، جرأت آمیز اور جارحانہ نہیں تھا۔ اکثر اوقات یوں فرمایا گیا: ’’ہمارے دین میں ایسا ہی ہے۔‘‘ لیکن اس طرح کا استدلال غیرمسلموں کو قائل کرنے کے لیے کافی نہ تھا۔ معذرت خواہانہ انداز دورِ انحطاط کی مرعوبیت کا نتیجہ تھا۔ جب مجھے اعتماد سے بھرپور اور جرأت مندانہ طریق سے اپنے دین کی وکالت کا علم ہوا تو میرا سینہ خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔ میرے دل کے نہاں خانے میں مرعوبیت کا جو احساس چھپا ہوا تھا وہ یکسر غائب ہو گیا۔