عقل و دانش بلاشبہہ انسان کو فہم و ادراک( Cognitive Science )کا عظیم علم عطا کرتی ہے، مگر سکرات و منشیات، نشے کےعادی انسان سے جوہرِ آدمیت چھین لیتے ہیں۔ یوں شیطانی مکروفریب کا مارا اور دین و شریعت سے بے بہرہ انسان، خاندان اور معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے اور سفاکیت کی نذر ہوجاتا ہے۔ شریعت، معروفات اور منکرات پر مشتمل قانونِ الٰہی ہے۔ ہروہ عمل معروف ہے شریعت نے جس کے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا کرنا باعث ِ ثواب اور اس کا ترک کرنا باعث ِ سزا ہے: مَا یُثَابُ فَاعِلُہُ وَلَا یُعَاقَبُ تَارِکُہُ۔اس کے برعکس ہر وہ عمل جس سے شریعت نے منع کیا ہے وہ منکر ہے۔ اس کا ترک کرنا باعث ثواب اور اس کا ارتکاب کرنے والا مستوجب ِ سزا ہے: مَا یُثَابُ تَارکۃ وَ یُعَاقَبُ فَاعْلَہُ۔شریعت میں حلال و حرام کا یہ تصور ہے، جب کہ مقاصد ِ شریعت پانچ ہیں جو اپنے اندر بہت وسعت اور جامعیت رکھتے ہیں۔
مقاصد ِ شریعت میں تحفظ ِدین، تحفظ ِجان،تحفظ ِ مال، تحفظ ِ نسل کے علاوہ تحفظ ِ عقل شامل ہیں اور ان میں تحفظ ِ عقل کوان پانچ مقاصد میں اوّلین حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کے بغیر فہم و ادراک ممکن نہیں۔ منشیات یا دیگر وجوہ سے اگر عقل میں فتور آگیا تو دیگر مقاصد ِ شریعت اس کی زد میں آتے ہیں۔ بذریعہ دین اپنے ربّ سے اس کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ جان و مال اور نسل و عزّت و آبرو ملیامیٹ ہوجاتے ہیں۔ شریعت محمدیؐ عطا کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مفقود ہوجاتی ہے۔ یوں بنی آدم شرفِ آدمیت سے محروم ہوجاتا ہے، بالآخر علمِ وحی اورعلمِ اکتساب سے بے بہرہ ہونے کے سبب انسانیت ہلاکت خیزی کا شکار ہوتی ہے۔ یہ ہے منشیات اور نشے کا ناسُور!
بائیولوجیکل یا حیاتیاتی جنگ کے موجودہ دور میں ہیروئن ، شیشہ اور آئس نے نوجوانوں پر منشیات کےاثرات کو تباہ کن صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے۔ انسانی سوچ کو قابو کرنے کے لیے عصرحاضر میں ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹ اور Cyborg میں آفتابی شعائوں، برقی مقناطیسی ذرّات ، Cosmic particle اور ڈی این اے سے متعلق سائنسی تحقیقی اداروں نے انسانی دماغ میں تبدیلی کو جنگی مقاصد کے لیے سہل الحصول بنادیا ہے، تاکہ مستقبل کی حیاتیاتی جنگ، فتوحات کا پیش خیمہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی سوچ کے بدلنے اور حواس میں تبدیلی سے انسان تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس طرح اکیسویں صدی کا بدلاہوا انسان آج سے ہزارسال پہلے نشے کی حالت میں بدلے ہوئے انسان سے کہیں زیادہ حواس باختہ ہوگا اور قتل و غارت کا رسیا۔
گیارھویں صدی میں نشے کا فساد چرس اور افیون مافیاکے ہاتھوں انجام پارہا تھا۔ اس گروہ کے بانی اور منشیات کے بڑے پرچارک، حسن بن صباح (۱۰۲۴ء)، نظاری ریاست اور ساتھی، ایک مافیا تھے۔ یہ لوگوں کو نشہ آور اشیا پلا کر اُن کو خودساختہ عشرت کدوں میں بساتے اور اپنے دشمنوں میں ہلاکت خیزی پھیلاتے تاکہ قاتل اور مقتول اس مافیا کی بھینٹ چڑھ کر موت کے منہ میں چلے جائیں۔ معروف سیاح مارکوپولو نے شخ الجبال کی زیرنگرانی الموت قلعے میں واقع اپنے عہد کی اس جنت کا نقشہ کھینچا ہے جو منشیات کا بڑا اڈا تھا اور جہاں خودکش حملہ آور تیارکیے جاتے اور علما، سیاسی زعماء ، سپہ سالاران اور معتبر سماجی شخصیات کو قتل کیا جاتا تھا۔ ان نظاری افواج کو عیش و عشرت کی جو سہولتیں دستیاب تھیں ، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فردودسِ بریں کے نام سے عبدالحلیم شرر نے ایک ناول تحریر کیا ہے جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ یہ تھا ہزار سال قبل منشیات کا ناسُور جس کو پہلی بار ریاست کی پشت پناہی حاصل تھی۔ شریعت مطہرہ نے جسے منکر کہہ کر حرام قرار دیا تھا، اور ریاست ِ مدینہ میں اسے ممنوع قرار دیا تھا کیونکہ عقل و حواس کی حفاظت مقاصد شریعت کی بنیاد ہے اور منکرات کی اشاعت اور منشیات پھیلانے سے اجتناب ضروری ہے۔ نشہ آور اشیا مختلف النوع ہیں، بہرحال ان کے استعمال سے منکر کے خلاف قوتِ مزاحمت جواب دے جاتی ہے۔ پاکستان کے ضابطۂ قانون کے مطابق شراب اور نشہ ممنوع ہے۔ اس سلسلے میں ۱۹۴۸ء میں پہلا حکم خود بانی ٔپاکستان نے نافذ کیا تھا۔
قائداعظم محمدعلی جناح، قانونی و دستوری ضوابط کی رُو سے بحیثیت گورنر جنرل مسلح افواج کے چیف کمانڈر کے عہدے پر فائز تھے۔ قائد کے حین حیات، میجر جنرل محمد اکبر خاں مدتِ ملازمت میں بلند درجے کی بنیاد پر فوج میں ترقی پاکر کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ قائد سے ملاقات کے دوران شراب کی بندش سے متعلق ۱۹۴۸ء کا وہ اپنا ایک ذاتی تجربہ اور سرگزشت قلم بند کرتے ہیں:
ہمارے افسروں کے تربیتی اسکولوں میں ضیافت کے وقت شراب پی جاتی تھی کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔
میں نے بانی ٔ پاکستان سے یہ عرض کیا: ’’شراب کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کا اعلان فرمائیں‘‘۔ قائد نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ’’میرا کنیفیڈنشل باکس لے آئو‘‘۔ جب باکس آگیا تو قائداعظم نے چابیوں کا گچھا اپنی جیب سے نکال کر اور باکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلدبند ایک کتاب نکالی اور اسے اُس مقام سے کھولا جہاں انھوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا: ’’جنرل، یہ قرآنِ مجید ہے۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ شراب و نشہ حرام ہیں‘‘۔
تبادلۂ خیالات کے بعد اسٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے آیاتِ قرآنی کا حوالہ دے کر ایک مسودہ تیار کیا کہ ’’شراب اور منشیات حرام ہیں‘‘۔
میں نے مسودے کی نقل چسپاں کرکے اپنے ایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک مؤثر رہا۔ اس موقعے پر میں نے قائداعظم سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی ہے تو آپ نے فرمایا: ’’ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہرشعبے میں قرآنِ مجید سے رہنمائی لینی چاہیے‘‘۔ (میری آخری منزل، ص ۲۸۱)
قرآنِ مجید میں شراب کی حُرمت بتدریج مختلف مراحل میں نافذالعمل ہوئی۔ قرآنِ مجید کی کل چارسورتوں میں مرحلہ وار احکامات آئے: سورئہ بقرہ کی آیت ۲۱۹، سورئہ نحل کی آیت ۶۷، سورئہ نساء کی آیت ۴۳ اور سورئہ مائدہ کی آیت ۹۰۔ حُرمت ِ شراب کا آخری اور قطعی حکم سورئہ مائدہ کی آیت۹۰ کے نزول کے بعد نافذ ہوا۔ اس آیتِ کریمہ میں ارشاد ہوا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۹۰ (المائدہ ۵:۹۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو یہ شراب و جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، اِن سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔
یہ شراب کی ممانعت کا واضح شرعی حکم ہے۔ اس کے معاً بعد آیت۹۱ میں شراب اور جوا کے امتناع کے شرعی مقاصد کو بیان کیا گیا:
اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ۰ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۹۱ (المائدہ ۵:۹۱) شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان عداوت اور بُغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم اِن چیزوں سے باز رہو گے؟
اس حکمِ خداوندی کا نازل ہونا تھا کہ صحابہ کرامؓ نے علانیہ کہا: رَبَّنَا انتھینا، اے پروردگار ہم باز آگئے(مسنداحمد، جلد دوم)۔اس وحی کے نزول کے بعد مدینہ میں شراب کے مٹکے بہادیئے گئے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
حُرمت شراب اور سُکر کے علاوہ نسخ اور اضطرار کی اصطلاحات قرآنِ مجید میں استعمال ہوئی ہیں۔
سورئہ مائدہ کی ان آیتوں میں بیان کردہ حُرمت شراب مستوجب سزا حد میں داخل ہے اور یہ حکمِ شرعی ناسخ ہے پچھلی تین آیاتِ الٰہی کا جو مختلف مراحل میں نازل ہوئیں۔ علمائے کرام کے نزدیک بعد میں نازل ہونے والی آیات اور اُن کے احکامات کو منسوخ کرتی ہیں۔ مثلاً پہلے مرحلے میں نازل ہونے والی سورئہ بقرہ کی آیت۲۱۹ کے حکم کے لحاظ سے مقاصد شرع کے استثنا کے ساتھ منسوخ ہوچکی ہے:
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۰ۭ قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۰ۡ وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۰ۭ (البقرہ ۲:۲۱۹) پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے منافع بھی ہیں ، مگر اِن کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء ۴:۴۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔
اگرچہ یہ آیت عہد ِ نبویؐ میں شراب پی کر نماز پڑھنے سے متعلق ہے۔ سورئہ مائدہ کی آیت۹۰ کے اس حکم سے منسوخ ہوچکی ہے۔ علمائے فقہ کی رائے کے مطابق ’الحکم بالعموم‘ ہے، یعنی آیت میں سُکرٰی کا اطلاق عمومی طور پر ہرقسم کی سُکر یا نشہ پر ہوگا، صرف شراب کے لیے مخصوص نہ ہوگا۔ زیرعلاج لوگوں کے لیے مقاصد ِ شریعت کے تحت طبّی Insthesia کا نشہ جائز اور ضروری ہے۔ ایسے نشہ کے عالم میں پورے ہوش و حواس بحال ہونے تک نماز کے قریب نہ جانے کے حکم کا اطلاق غیرمنسوخ قرار پائے گا۔
نشہ آور اشیا کی تشہیر بھی مقاصد شریعت کے سد الذریعہ کے تحت منع ہے کیونکہ: منشیات کی تشہیر اور منکرات کی اشاعت و ابلاغ سے بُرائی کو فروغ حاصل ہوتاہے اورنسل انسانی اخلاقی بگاڑ اور فساد کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتی ہے۔ شریعت محمدیؐ اور پاکستان کے مروجّہ قانون و دستور میں منشیات کا استعمال ممنوع ہے۔ اس کے باوجود پچھلے دو عشروں کے دوران تعلیمی اداروں اور معاشرتی سطح پر نوجوان نسل، علم، صحت اور اخلاق سے محروم ہوتی جارہی ہے مگر اس لعنت کے پس پردہ بڑے مجرم، قوانین و ضوابط کی گرفت سے آزاد ہیںاور ریاستی ادارے، نشہ آور اشیا کی سپلائی لائن منقطع کرنے اور ’حشیشن مافیا‘کو جکڑ لینے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اس وجہ سے قوم نئی نسلوں کے مخدوش مستقبل کے بارے میں سخت تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ یہ معاشرتی ناسُور مملکت خدادادِ پاکستان کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے جس کی رُوسیاہی نشہ کے سبب بڑھتی جارہی ہے۔ نیز کوتاہی کے مرتکب مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اندر قوتِ نافذہ کے حامل نمایندوں، منصفوں اور انتظامی افسران کی سُست روی پر عوام سخت نالاں ہیں۔
اس ضمن میں والدین، رضاکار، اساتذہ اور محراب و مسجد کے کردار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کیا ہمارے ائمہ اورخطبا، حفاظت ِ دین ، حفاظت ِ عقل و دانش، حفاظت ِ نسل و عزّت اور جان و مال کے پانچ بنیادی مقاصد ِ شریعت کو عوام الناس کے ذہنوں میں نہیں بٹھا سکتے اور خطباتِ جمعہ میں مقاصد ِ خمسہ کی تفہیم و تشریح نہیں کرسکتے؟ ہمارے ذرائع ابلاغ لایعنی گفتگو پر وقت ضائع کرنےکے بجائے اپنے ایڈیٹروں اور رپورٹروں کا ارتکاز توجہ اِن اہم تربیتی و معاشرتی اُمور کی طرف نہیں کر سکتے جس کے وہ شرعاً اور قانوناً پابند ہیں؟
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) اپنے اداراتی ضوابط میں ترمیم و اضافہ کرکے تمام چینلوں کو منشیات کے خلاف معاشرتی اقدار کا پابند بناسکتی ہے۔ ریاستی اداروں میں اہم ادارہ فوج کا ہے جو جنگ اور دفاعی اُمور کا ذمہ دار ہے۔ عصرحاضر میں جنگ و جدال پیچیدہ صورت اختیار کرچکی ہے۔ فورتھ جنریشن وار سمیت دشمن کے مختلف النوع چالوں کے مقابلے میں اپنا اورملک و قوم اور نظریہ کا دفاع غیرمعمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ قوم کا نظریاتی دفاع، قرآن و سنت اور شریعت و مقاصد ِ شریعت کا دفاع ہے۔ منشیات کی حُرمت قرآنی حکم ہے۔ مختلف وسائل و ذرائع سے منشیات کا تدارک ضروری ہے۔
جسمانی فعال صحت کے ساتھ ساتھ ہمیں قوم کی ذہنی صحت کا بھی دفاع کرنا ہوگا جو مقاصد ِ شریعت کے پہلو بہ پہلو عقل و دانش کا بھی تقاضا ہے۔ اجتماعی طور پر یہ اُسی طرح فریضہ ہے جس طرح باجماعت نماز اور نظریۂ جہاد کے بلند مرتبہ کی خاطر جان و مال اور اولاد کی قربانی۔ قرآن کریم نے اس ایثار اورحیات و ممات کو اللہ کی خاطر جینے اور اللہ ربّ العالمین کی خاطر مرنے سے تعبیر کیا ہے۔ ممانعت نشہ دینِ اسلام کا اہم مرکزی نقطہ ہے اور کوہان کی اُونچی چوٹی یعنی ذرْوَۃ السَنَام جہاد کا طرئہ امتیاز بھی۔