قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد کا اعزاز ۳۰دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں قائم ہونے والی کُل ہند مسلم لیگ کو حاصل ہے۔ پھر برطانوی مقبوضہ ہند کے تمام صوبوں اور ریاستوں میں آزادی کے لیے سب سے زیادہ ذہنی وعلمی یکسوئی کے ساتھ کوششیں، خطۂ بنگال کے مسلمانوں ہی نے کی تھیں۔ ان کاوشوں میں ہند کے دیگر علاقوں میں بسنے والے اسلامیان نے بھی اپنا حصہ ادا کیا ۔۱۴ـ؍ اگست ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم کی قیادت میں یہ سفر مکمل ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
خطۂ بنگال جو تحریکِ پاکستان کا دھڑکتا ہوا دل اور اس کی سراپا پہچان تھا، مگر قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد یہ خطّہ اندیشہ ہائے دُور دراز کی دلدل میں اس طرح دھنستا چلا گیا کہ اگر ایک طرف تحریک ِقیامِ پاکستان کے دشمن ملک نے اپنا جال پھینکا ، تو دوسری طرف تنگ نظر بنگالی قوم پرستوں نے جسدِ ملّی میں مبالغہ آمیز پراپیگنڈے کا زہریلا مواد بھردیا، اور تیسری جانب مغربی پاکستان کی سیاسی، انتظامی اور فوجی قیادت کی حماقتوں نے اس منفی عمل کو تیز تر کر دیا ۔ یوں، وہ مرکز جو قیام پاکستان کا عنوان تھا، ۲۴ برس بعد اندرونی تخریب، بیرونی یلغار اور حکومتی بداعمالیوں کی بھینٹ چڑھ کر، مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا اور اس طرح ایک آزاد پاکستان کے بجائے دشمن ملک کی طفیلی ریاست بن کر رہ گیا۔
یہ ایک بڑا تکلیف دہ، اور حد درجہ عبرت ناک سفر ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز صحافی ،منفرد تجزیہ نگار اور راست فکر دانش ور جناب الطاف حسن قریشی (پ:مارچ۱۹۳۰ء)نے اس سفرکی کھلی اور چھپی داستان کو ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ ، ہفت روزہ زندگی اور روز نامہ جسارت کے اوراق پر رقم کیا۔انھوں نے ۷۲ مضامین کی صورت میں اپنے گہرے مشاہدے ، وسیع مطالعے ، مسلسل تحقیق، فکرانگیز مکالمے اور ایمان افروز تجزیے سے اس عمل معکوس کو پرکھا ہے ، اور برملا سچائی بیان کرنے میں کسی کوتاہی ،سستی اور مداہنت کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیا۔اس دوران وہ دو مارشل لا حکومتوں اور ایک فسطائی حکومت کے تحت قیدوبند سے بھی گزرے، مگر ثابت قدم رہے۔
۹۲ سالہ الطاف صاحب کا یہ تحریری سرمایہ پاکستان کی تاریخ کے نازک ترین دورکی ایسی نمایاں تصویر پیش کرتا ہے جس میں ایک ایک کردار اپنی پستی کے ساتھ بے نقاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری، ٹھیک اس ماحول میں پہنچ جاتا ہے جب رنج واَلم کے ہرکارے اور وطن فروشی وغداری کی بساط کے مہرے ستم ڈھارہے تھے ،مگر افسوس کہ قوم اور قوم کے اہل حل وعقد مصنف کی پکار سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ابتدا میں ’محشرِخیال‘ کے عنوان سے الطاف صاحب کا ۲۳صفحات کا طویل دیباچہ پڑھنے کے لائق ہے۔
۱۹۶۴ء سے لکھی جانے والی یہ تحریریں المیۂ سقوطِ مشرقی پاکستان ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء اور پھر اس کے بعد قومی احتساب کی بانگِ درا بن کر نیند کے ماتوں کو جگانے کی مسلسل کوشش کرتی آ رہی ہیں ۔ ان تحریروں میں پاکستان کے: دستوری ، بین الصوبائی ، ثقافتی ، لسانی ،تعلیمی ، معاشی ، صحافتی ، فوجی، حکومتی ، مذہبی ، انتظامی اور عدالتی شعبوں کی دانستہ اور نادانستہ کج رویوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پھر غور سے دیکھیں تو اصلاحِ اَحوال کے لیے اس کتاب کے اوراق پہ ایک بے لاگ قومی پارلیمنٹ کے پُرمغز اور فاضلانہ مباحث کا گمان ہوتا ہے، جہاں تیرہ شبی سے لڑنے والا جہاں دیدہ قلم کار، پُرپیچ گرہوں کو کھولنے کے ساتھ، اُلجھے معاملات کو سدھارنے کا راستہ بھی دکھا رہا ہے۔ جس میں کمال کی چیز یہ ہے کہ ہرلمحہ حسِ اعتدال اور ہمدردی ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہے۔جہاں جس کو جادئہ اعتدال سے ہٹا دیکھا، اسے نمایاں کردیا اور جس فرد کو معقول بات یا عمل کرتے دیکھا، اس کا کھلا اعتراف کیا۔بدقسمتی سے عموماً ہمارے لکھنے والے اس خوبی کو اپنانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
سقوطِ مشرقی پاکستان پر بیش تر لکھی گئی کتابیں بعد اَز مرگ واویلا کی بازگشت ہیں، یا پھر وکیل صفائی کا بیان ، ورنہ استغاثہ کا دفتر۔ مگر یہ کتاب ، ایک بھلے چنگے ملک کو بیماری سے بچنے ، بداعمالی سے پرہیز برتنے اورعلاج کے لیے خبر دار کرنے کا دیانت دارانہ نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں دانش ، درد مندی اور عبرت کے اتنے رنگ ہیں اور معلومات کے اتنے خزانے ہیں کہ ایک مختصر تبصرہ ان کو نمایاں طور پر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اگر ہمارے صحافی بھائی بے خبری کے گنبد اور زعم باطل کے افیون کدے سے نکل کر اس کتاب کو پڑھیں گے تو ان کے لیے یہ ایک صحافتی تربیت اور مطالعۂ تاریخ کا نصاب ہے۔ فوج اور سول انتظامیہ کے افسران پڑھیں گے تو انھیں جھنجوڑنے کا تازیانہ اور منصبی فرائض انجام دینے کا آموختہ ہے۔ سیاست دان پڑھیں گے تو ان کے لیے سیاسی شغل کاری سے توبہ کرنے اور قومی خدمت و احساسِ ذمہ داری بیدار کرنے کا درس ہے۔ اساتذہ اور طلبہ پڑھیں گے تو ان کے لیے تاریخ سے زندہ سبق سیکھنے کا ریفریشر کورس ہے، اور اگر سفارت کار پڑھیں گے تو ان کے لیے سفارت کاری کی باریکیوں کو سمجھنے کا زائچہ ہے۔
بظاہر کتاب کی قیمت زیادہ لگتی ہے، لیکن امرواقعہ ہے کہ خریدنے والا، جب مطالعہ کرے گا تو اسے محسوس ہوگا کہ اس کی رقم ضائع نہیں ہوئی۔ ناشر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ پاکستانی تاریخ کے ایک اہم باب کو بلاکم و کاست پیش کیا ہے۔ کتاب میں بنگالی اور بنگال سے متعلق شخصیات کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ (سلیم منصور خالد)