اُردو زبان کے راستے میں اصل رکاوٹ صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا بالائی طبقہ چونکہ خود انگریزی ماحول میں پلا ہوا ہے، اور اُردو لکھنے بولنے پر قادر نہیں ہے، اس لیے وہ چاہتاہے کہ اس کے جیتے جی ساری قوم پر انگریزی زبان مسلط رہے۔ پھر یہ لوگ اپنی اولاد کی بھی انگریزیت ہی کے ماحول میں پرورش کر رہے ہیں، اور اس بات کا انتظام کررہے ہیں کہ حکومت کی باگ ڈور آیندہ انھی کی نسل کے قبضے میں رہے۔
اس لیے ۱۹۷۲ء میں بھی اس امر کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی کہ اُردو زبان کو یہاں کی سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کمیشن کی تجویز صرف طفل تسلی کے لیے ہے، تاکہ وقت ٹالا جائے اور مطالبہ کرنے والوں کو فی الحال کم از کم دس سال کے لیے چپ کرا دیا جائے۔۱
ہماری مصیبتوں کا کوئی حل اس کے سوا نہیں ہے کہ ان دیسی انگریزوں سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑایا جائے۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ انگریز خود تو چلا گیا ہے، مگر اس کا بھوت ہمیں چمٹ کر رہ گیا ہے۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۵۹، عدد۵، فروری ۱۹۶۳ء، ص۳۱۰)
_________________________
۱ جنوری ۱۹۶۳ء میں صدر ایوب خان کی حکومت کے وزیرقانون نے اعلان کیا تھا کہ ۱۹۷۲ء میں ایک کمیشن قائم کیا جائے گا، جو اس بات کا جائزہ لے گا کہ انگریزی کے بجائے کون سی زبان متبادل ہوگی؟ یہ سوال اور اشارہ اسی پس منظر میں ہے، اور یہ ۲۰۲۳ء ہے مگر اس باب میں حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہوچکی ہے۔ (ادارہ)