فروری ۲۰۲۳

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| فروری ۲۰۲۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

تصوف کی اصطلاحات

سوال : سلسلۂ تصوف میں چند اصطلاحات معروف و مروج ہیں: قطب، غوث، اَبدال اور قیوم۔ قرآن و حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے متعلق جناب اپنی ذاتی تحقیق سے آگاہ فرمائیں۔

جواب :تصوف کی جن اصطلاحات کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان میں سے صرف ’ابدال‘ کا ذکر حضرت علیؓ کے ایک قول میں ملتا ہے۔ باقی رہے غوث، قطب اور قیوم، تو ان کا کوئی ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، یا صحابہ و تابعین کے اقوال میں نہیں ملتا، اور خود ابدال کے متعلق بھی جو عام تصورات صوفیہ کے ہاں پائے جاتے ہیں، ان کی طرف کوئی اشارہ حضرت علیؓ کے اس قول میں نہیں ہے، جس سے یہ اصطلاح لی گئی ہے۔ (سیّد ابوالاعلٰی مودودی ، اگست ۱۹۶۵ء)


تصوف کے سلاسلِ اربعہ

سوال :  تصوف کے سلاسلِ اربعہ کے متعلق اپنی رائے عالیہ سے مستفیض فرمائیں۔ 

جواب :تصوف کے ان سلسلوں کی ابتدا ایسے بزرگوں سے ہوئی ہے جو یقینا صلحائے اُمت میں سے تھے اور ان کا مقصود بھی تزکیہ و اصلاح تھا، جس کے ایک پاکیزہ مقصد ہونے میں کلام نہیں کیا جاسکتا۔ مگر جس طرح مسلمانوں کی زندگی کے دوسرے شعبے بتدریج انحطاط کا شکار ہوئے اور  ان میں صحیح و غلط کی آمیزش ہوتی چلی گئی، اس طرح یہ سلسلے بھی اپنی اصلی ابتدائی پاکیزہ حالت پر باقی نہیں رہ سکے ہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے قرآن و سنت دُنیا میں محفوظ ہیں۔ ان کی راہ نمائی میں ہم جہاں اپنی زندگی کے دوسرے شعبوں میں صحیح و غلط کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں، سلاسلِ تصوف کے افکارواعمال میں بھی یہ تمیز ممکن ہے۔ (سیّد ابوالاعلٰی مودودی  ، اگست ۱۹۶۵ء)


کیا تصوف مفید ہے؟

سوال :  تصوف جس کی دوسری تعبیر احسان و سلوک بھی ہے، جس کی تعلیم اکابرنقش بندیہ، چشتیہ ، سہرودیہ، قادریہ وغیرہ نے دی ہے، جیسے حضرت شیخ شہاب الدین محمد نقش بند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی۔ اس تصوف کو آپ حضرات دین کے لیے مفید سمجھتے ہیں یا مضر؟

جواب : ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جو کتاب اللہ و سنت رسولؐ اللہ سے مطابقت رکھتی ہے وہ مفید ہے اور جو مطابقت نہیں رکھتی وہ مضر ہے۔اسی کلیے میں تصوف بھی آجاتا ہے۔ تصوف میں بھی کتاب و سنت کے مطابق جو کچھ ہے، حق ہے۔ اس کا مفید ہونا شک و شبہہ سے بالاتر ہے۔ لیکن جو آمیزش بھی کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی ہے، اس سے ہم اجتناب کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔(سیّد ابوالاعلٰی مودودی ، اگست ۱۹۶۱ء)


الفاظ کا غلط استعمال

سوال : ۱- ایک صاحب نے ایک مسجد تعمیر کرائی، اس کا افتتاح ہو رہا تھا۔ ایک عالم نے جذبے سے مغلوب ہو کر اپنی تقریر میں فرمایا: ’’جس نے مسجد تعمیر کرائی ہے، اس کے ہم سب شکرگزار ہیں، یہاں تک کہ اللہ بھی ان کا شکر گزار ہے‘‘۔ کیا ایسا کہنا درست ہے؟ پھر ایک اور موقعے پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید الفطر میں ہم سب اللہ کے مہمان ہو جاتے ہیں اور اللہ ہمارا خادم ہو جاتا ہے‘‘۔ کیا ایسا کہنا درست ہے؟

جواب :ہر زبان کے کچھ محاورے اور اسلوب ہوا کرتے ہیں۔ وہ لوگ ہوش مند نہیں ہیں جو ایک زبان کے کسی محاورے یا اسلوب کو دوسری زبان میں لفظی ترجمہ کرکے جوں کا توں بول دیں، اور یہ نہ دیکھیں کہ اس دوسری زبان میں یہ الفاظ کس مفہوم و معنٰی میں مستعمل ہیں۔ مثلاً لفظ ’شکر‘ کا مفہوم عربی استعمال میں ’قدردانی‘ ہے، ’شکور‘ کے معنٰی ’قدر کرنے والا‘یا ’قدردان‘۔ جیسے قرآن میں فرمایا گیا:  اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ۝۳۰ (اللہ بخشنے والا ہے، قدر فرمانے والا ہے)، اور اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ۝۳۴ۙ (بے شک ہمارا رب درگزر کرنے والا اور قدردان ہے) ۔اب ظاہر ہے کہ قدردانی اور قدر افزائی میں کسی طرح کا چھوٹا پن نہیں پایا جاتا، نہ اس کا مطلب ’ممنونِ احسان‘ ہونا ہوتا ہے۔ احسان بھلا اللہ پر کوئی کیا کرے گا،جب کہ تمام مخلوق خود اللہ کے احسانات میں بال بال بندھی ہوئی ہے۔

لیکن اُردو استعمال میں ’شکر گزاری‘ کے الفاظ بالکل دوسرا مفہوم اور دوسرے مضمرات رکھتے ہیں۔ کوئی بڑا اپنے چھوٹے کے لیے ’شکر گزاری‘ کا اظہار کرے، یہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ’شکر گزاری‘ کا مطلب اردو محاورے میں احسان کا اعتراف ہے، اور ’محسن‘ کا درجہ اس احسان کی حد تک اُس شخص سے بڑھا ہوا مانا جاتا ہے، جس پر احسان کیا گیا ہے۔

 لہٰذا جو صاحب آیاتِ قرآنیہ میں اللہ کے لیے ’شکور‘ کا لفظ دیکھ کر اردو میں بھی یوں فرمانے لگے ہیں کہ ’’اللہ اس شخص کا شکر گزار ہے، جس نے مسجد تعمیر کی‘‘، وہ صاحب کم سمجھ اور بدمذاق ہیں۔ ’شکر گزاری‘ جیسا کہ ہم نے کہا اعترافِ احسان کے ہم معنیٰ ہے، جب کہ قرآن کا لفظ ’شکور‘ صرف قدر دانی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قدردانی کہتے ہیں کسی عمل کا بھرپور صلہ دینے کو، فرماںبرداری پر اپنی خوش نودی کا اظہار کرنے کو۔ یہ بے شک اللہ کی شان ہے اور ایسی شان اس کی عظمت کے منافی نہیں بلکہ عین مطابق ہے، لیکن اس کے برعکس ’شکرگزاری‘ دوسری شے ہے۔ شکر گزار وہی ہو سکتا ہے جس پر احسان کیا گیا ہو، یعنی اسے اس کے حقِ واجب سے زیادہ دے دیا گیا ہو۔ بھلا اللہ کو کوئی اس کے حق سے زیادہ کیا دے گا، بہت بڑی بات ہے اگر اس کے حق کا ہزارواں حصہ بھی بندہ ادا کردے۔

اب لفظ ’خادم‘ پر نظر کیجیے۔ سلیقے کی بات یہ تھی کہ مولوی صاحب ’مہمان‘ کے مقابلے میں ’میزبان‘ کا لفظ بولتے۔ میزبانی اللہ کے شایانِ شان ہے، مگر انھوں نے ’خادم‘ کا لفظ بول کر بہت بڑی جرأت کی۔’خادم‘ اردو بول چال میں جو پست مفہوم رکھتا ہے وہ بھی محتاجِ بیان نہیں ہے۔

’خادم‘ کا درجہ ’مخدوم‘ سے کم مانا گیا ہے۔ خادم تو عموماً نوکر کےلیے بولتے ہیں، اور یہی لفظ شائستہ حضرات خود اپنے لیے اس وقت استعمال کرتے ہیں جب عجز و انکسار مقصود ہو۔ خدا جانے ان مولوی صاحب نے عربی کے کس لفظ کا ترجمہ ’خادم‘ کرکے اسے اللہ کےلیے بول دیا ہے، استغفراللہ من ذٰلک۔ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی روایت میں ایسا کوئی لفظ آیا بھی ہو، جس کا ترجمہ ’خادم‘ ہو سکتا ہو، تب بھی یہ حماقت ہی ہوگی کہ اردو میں لفظ خادم کے محلِ استعمال کو نظر انداز کر دیا جائے۔

اللہ نے بندوں کی حوصلہ افزائی کےلیے بعض الفاظ بطورِ مجاز استعمال کیے ہیں، مثلاً:  وَاَقْرَضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا (اللہ کو قرضِ حسنہ دو)، یعنی اہلِ ایمان راہِ جہاد میں اپنا جو مال خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمّے قرض قرار دیا، تو کیا خود ہمارے لیے بھی اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرکے یہ کہتے پھرنا مناسب ہے کہ’’ اللہ ہمارا مقروض ہے!‘‘

اللہ نے فرمایا:  اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمھاری مدد کرے گا)۔ یہ بھی حوصلہ افزائی ہی کا انداز ہے اور عربی سے مخصوص۔ اب کیا خود ہمیں بھی یہ زیب دے سکتا ہے کہ جب جہاد کرنے چلیں تو اکڑ کر کہیں کہ ’’ہم اللہ کی مدد کرنے جا رہے ہیں!‘‘

جب عقل تناسب سے کم ہو تو علم صحیح طور پر ہضم نہیں ہوتا، بلکہ کچا پکا باہر نکلتا ہے۔ کاش وہ صاحب الفاظ کے استعمال میں ہمیشہ سورۂ بقرہ کی اس آیت کو ملحوظ رکھیں: يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا (ایمان والو! راعنا مت کہو، بلکہ اُنظرنا   کہو)۔ لفظ رَاعِنَا کے معنٰی یہی تو ہیں کہ ہماری طرف توجہ دو، ہماری رعایت کرو، اُنْظُرْنَا  بھی تقریباً یہی مفہوم رکھتا ہے، ہماری طرف دیکھو، متوجہ ہو۔ مگر یہود کی زبان میںراعِنا  احمق کو بھی کہتے تھے، اور اسی لفظ کو ذرا زبان دباکر کہہ دیجیے تو راعینا بن جاتا ہے، جس کے معنٰی ہیں: ’اے ہمارے چرواہے‘۔ حضورؐ کی مجلس میں بعض یہود کی طرح کچھ صحابہؓ بھی حضورؐ سے مخاطب ہوکر راعنا  کا لفظ استعمال کرلیتے تھے، اور ظاہر ہے کہ ان کی نیتیں آبِ کوثر کی طرف پاک تھیں، پھر بھی اللہ نے اِبہام و اِلتباس سے بچانے کےلیے اور ادب و احترام کا بلند معیار قائم کرنے کےلیے اس ذومعنی لفظ کے استعمال سے روکا۔

تو کیا خود اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ ادب و احترام کا مستحق نہیں، اور جو رہنمائی اس نے قرآن میں اپنے اسمائے حسنیٰ پر دی ہے، اس کا تو کھلا تقاضا ہے کہ اس کےلیے کسی اسمِ صفت کا استعمال انتہائی احتیاط سے کیا جائے: ہُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ (وہ اللہ ہے پیدا کرنے والا، نکال کھڑا کرنے والا، صورتیں بنانے والا، اس کے اچھے اچھے نام ہیں)۔ (مولانا عامر عثمانی، مئی ۱۹۷۰ء)