بلاشبہہ اللہ کی تلقین کردہ ہدایت ہی اصل ہدایت ہے،یعنی یہی راہِ حق ہے ،یہی راہِ مستقیم ہے جسے قرآن نے ’ صراطِ مستقیم ‘سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ نکتہ بہت اہم و لائقِ توجہ ہے کہ قرآن میں تین مقام (البقرۃ۲ :۱۲۰، آل عمران۳: ۷۳،الانفال۸:۷۱) پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے یہ ا علان فر مایا ہے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے: قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۰ۭ (البقرہ ۲:۱۲۰)، ’’اے رسولؐ [صاف صاف ] کہہ دیجیے کہ اصل ہدایت بس اللہ ہی کی ہدایت ہے‘‘،یعنی سیدھا راستہ وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے، جسے اس نے اپنی کتاب کے ذریعے روشن کر دیا ہے۔ یہ آیت اس حقیقت کو مزید واضح کر رہی ہے: اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل۱۷ : ۹) ’’بے شک یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے‘‘۔اللہ کے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ مبارکہ اِسی راہ کو دکھانے میں بسر ہوئی۔ در اصل انسان کے لیے حقیقی کامیابی و اُخروی نجات کی ر ا ہ یہی ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ا للہ ربُّ العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کے نام پنے اولین پیغام ہی میں ا س نکتہ کو واضح کردیا تھا اور ان کے توسط سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے باخبر کردیا تھا۔ اس بنیادی پیغام کے پہلے حصہ میں اس حقیقت کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا کہ زمین میں اس کی سکونت اور وہاں کے مال و متاع سے انتفاع بس ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہی ہے، یعنی دنیا کی زندگی عارضی و فانی ہے اور یہاں کا ساز و سامان بھی دائمی نہیں ہے ،ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والا ہے، لہٰذا اے انسانو! بہت سنبھل کر زندگی بسر کرنا اور گزر بسر کے لیے جو چیزیں تمھیں عطا کی جائیں ان کا مالک اپنے کو نہ سمجھنا اور نہ انھیں پاکر کسی فریب اور تکبر میں مبتلا ہونا ۔ دنیا کی زندگی اور یہاں کے مال و اسباب، یہ سب عطائے الٰہی ہیں۔ لہٰذا، ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منعمِ حقیقی کو یاد کر تے رہنا اور اسی کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کرنا ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۳۶ (البقرۃ ۲: ۳۶ ) اور تم سب کے لیے زمین میں جائے قیام اور ساز وسامان [سے انتفاع ]ایک [محدود]مدت تک کے لیے ہے۔
سورۃ الاعراف کی آیت۲۴ میں بھی یہی پیغام مذکور ہے اور اس کے بعد کی آیت۲۵ میں انسان کو یہ حقیقت بھی یاد دلائی گئی ہے: قَالَ فِیْہَا تَحْیَوْنَ وَفِیْہَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرَجُوْنَ ’’اللہ نے فرمایا: اسی زمین میں تم لوگ زندگی بسر کرو گے،اسی میں تمھیں موت آئے گی اور پھر اسی سے تم سب [ زندہ کر کے] نکالے جائو گے‘‘۔ اس آیت کے ذریعے انسان کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ دنیا کی مختصر زندگی کے خاتمے اور اس عارضی و فانی مستقر سے رخصتی کے بعد پھر تمھیں زندہ کرکے زمین سے نکالا جائے گا۔ اس کے بعد کیا واقعات ( تمھیں کہاں جانا ہے، کس کے سامنے حاضر ہونا ہے، حساب و کتاب سے کس طرح گزرنا ہے، اعمال نامہ کیسے حوالہ کیا جائے گاا اور پھر اسی کے مطابق جزا یا سزا کا فیصلہ سننا ہے، پھر ایک نئے مستقر یا ٹھکانے میں رہنا ہے، وہاں کتنے عرصہ رہنا ہے؟) رونما ہوں گے ، ان سے متعلق ساری تفصیلات دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔ گویا صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا گیا کہ ارضی دنیا میں جو کچھ مختصر یا طویل زندگی میسر ہوگی، اسے یہیں گزارنی ہے، یہیں موت بھی آنی ہے۔ اسی پر بس نہیں، ایک دن اسے اسی زمین سے نکالا جائے گا،یعنی زندہ کرکے اٹھایا جا ئے گا اور مالک الملک کے حضور پیش کیا جائے گا،لہٰذا اس سب سے بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کواچھی طرح تیار کرلو۔ یہاں سے رخصتی کے بعد تم چاہو گے بھی اور رو کر، گڑگڑا کر التجا کرو گے تو بھی مہلت نہیں دی جائے گی ۔
سورۃ البقرہ کی آیت۳۶ میں یہ پیغام دیتے ہوئے اللہ رب العزت نے اس کے بعد کی آیت میں ایک اور انتہائی اہم پیغام حضرت آدم علیہ السلام کے توسط سے سارے انسانوں کو دیا ہے جسے اولین پیغام کی تکمیل کہا جاسکتا ہے۔ یہ پیغام یہ بتانے کے لیے دیا گیا ہے کہ انسان دنیا کی مختصر و عارضی زندگی کس طر یقہ سے بسر کرے کہ اس کے لیے ہمیشہ ہمیش کی زندگی پُرسکون، فرحت بخش اور ہر طرح کے رنج و غم سے پاک بن جائے۔ اس آیت میں تمام انسانوں کو اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ جو کوئی دنیوی زندگی کے شب وروز اللہ ربّ العزت کی ہدایت کے مطابق گزارے گا تو اسے سکون و آرام نصیب ہو گا اور دائمی زندگی میں اسے نہ کوئی غم لاحق ہو گا اور نہ کوئی خوف و خطر دامن گیر ہوگا ، یعنی وہ بامراد ہوگا اور آخرت میں سرخ روئی و کامیابی سے شاد کام ہوگا ۔ ارشادِ ربانی ہے:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۸ (البقرۃ۲:۳۸) پس میری طرف سے جو ہدایت تمھیں پہنچے تو جو لوگ بھی میری ہدایت کی پیروی کریں گے، انھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی رنج۔
یہ امر بدیہی ہے کہ اس پیغام ِ الٰہی ( جسے ہبوط آدم و حوّا علیہما السلام کے وقت،یعنی زمین پر بھیجتے ہوئے نے ان کے گوش گزار کیا گیا تھا) کے مخاطب اولین انسان و اولین پیغمبر حضرت آدمؑ کے توسط سے پوری نسلِ انسانی یا رہتی دنیا تک کے تمام انسان ہیں ۔ بلاشبہ یہ پیغام اپنے مضمون اور مخاطب دونوں لحاظ سے انتہائی اہم اور معنویت سے بھر پور ہے۔ ان دونوں آیات کے پیغام کا ماحصل آسان اسلوب میں یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کا ساز وساما ن عارضی و فانی ہے، انسان کا اصل سرمایہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی ہے۔ دوسری آیت اس لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اللہ ربّ العزت نے انسان کو اپنی ہدایت کی پیروی کی جانب متوجہ کیا ہے اور اسی پر اسے فوز وفلاح اور سکون و اطمینان نصیب ہونے کی بشارت دی ہے۔گویا کہ ارضی دنیا میں انھیں بھیجتے ہوئے ان سے دو ٹوک انداز میں یہ خطاب ِ الٰہی ہوا : اے انسان!ربِّ کائنات کی مرضی کے مطابق تمھیں دنیا میں بھیجا جا رہا ہے ،لیکن یہ جان لو اور یقین کرلو کہ تم سب کی کامیابی اس ا وّلین پیغام کو قبول کرنے اور دنیوی زندگی کے ہر معاملہ میں اس پر عمل کرنے میں ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ اللہ کی ہدایت اس کے بندوں تک کیسے پہنچے گی؟ اسے دوسری آیات میں واضح کردیا گیا۔ سورۃ الاعراف میں قصۂ حضرت آدم علیہ السلام کے بیان میں انسان کو اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہدایتِ الٰہی اور اس کی تفصیلات ا للہ تعالیٰ کے محبوب و برگزیدہ بندوں، یعنی رسولوں کے ذریعے پہنچے گی،پس جو کوئی تقویٰ کی راہ اختیار کرے گا اور ہدایاتِ ربّانی کی روشنی میں اپنے حالات سدھارے گا، وہ ابدی زندگی میں سکون و طمانیت سے شاد کام ہوگا ۔ارشادِ ربَّانی ہے:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَاہُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۵ (الاعراف۷:۳۵) اے بنی آدم! یاد رکھو، اگر تمھارے پاس خود تم ہی میں سے (میرے) رسول آئیں جو تمھیں میری آیات سنا رہے ہوں تو جو کوئی نافرمانی اور گناہوں سے پرہیز کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا تو اسے نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی رنج ہی سے دوچار ہو گا ۔
یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ قرآن کی مختلف سورتوں میں حضرت آدم و حوّا علیہما السلام کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کا واقعہ بیان ہوا ہے اور ہر مقام پر کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ بنیادی پیغام ان کے توسط سے سارے انسانوں کے گوش گزار کیا گیا ہے، جیساکہ صاحبِ تفہیم القرآن نے سورۃ الاعراف کی آیت۳۵ کی تشریح کرتے ہوئے حاشیہ میں اس قیمتی نکتہ کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ’’ بنی نوع انسان کی زندگی کا جب آ غاز ہورہاتھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی‘‘ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲،ص۲۵ ،حاشیہ ۲۸ )۔
سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت ۳۸ کی نسبت سے یہ و ضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بعض مفسرین کی تشریح کے مطابق اللہ کی ہدایت کی پیروی یا اس کی بتائی ہوئی راہ اختیار کرنے پر دنیا و آخرت دونوں جہاں میں سکون و اطمینان میسر ہوگا،یعنی اس آیت میں خوف و غم سے نجات کا تعلق دنیوی و اُخروی دونوں زندگی سے ہے (صلاح الدین یوسف، تفسیر احسن البیان، دارالسلام، ریاض، ص۹،حاشیہ ۲ )۔
مفسرِقرآن مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے سورۃ النحل کی آیت۹۷ : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً ۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۹۷ [ اہلِ ایمان میں جو کوئی نیک عمل کرے گا،خواہ مرد ہو یا عورت،ہم اسے پاکیزہ و خوش گوار زندگی عطا کریں گے اور ہم انھیں ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ ضرور عطا کر یں گے ] کی تفسیر میں یہ واضح کیا ہے کہ اس بشارت کا تعلق دنیوی و اخرو ی دونوں زندگی سے ہے اور بیان القرآن کے مؤلف گرامی مولانا اشرف علی تھانویؒ کا یہ بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’ مفسر تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اس بشارت سے یہ مراد نہیں کہ مومن صالح کو کبھی فقر و فاقہ یا مرض طاری نہ ہوگا، بلکہ مطلب یہ کہ اطاعت کی برکت سے اس کے قلب میں ایسا نور پیدا ہوگا،جس سے وہ ہر حال میں شاکر و صابر اور تسلیم ورضا سے رہے گا اور سکون و جمعیتِ خاطر کی اصل یہی رضا ہے‘‘(تفسیر ماجدی، ج ۲، ص۲۲۹- ۲۳۰،حاشیہ ۱۵۶)
مزید یہ کہ جدید دور کے بعض مفسرین نے اس آیت کے پہلے حصے سے دنیوی زندگی کی خوش گواری ہی مراد لی ہے، اس لیے کہ اس کے آخری حصے میں خاص طور سے اُخروی زندگی سے متعلق خوش خبری سنائی گئی ہے۔ مذکورہ آیت کی تشریح میں احسن البیان کے مؤلف گرامی تحریر فرماتے ہیں : ’’حیاتِ طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے،اس لیے کہ آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے [ وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ] میںہے‘‘ ( تفسیر احسن البیان، محولہ بالا ، ص۳۶۳،حاشیہ ۱)۔
اس آیت کے حوالے سے مولانا سید عبد الکبیر عمریؒ نے بجا فرمایا ہے: ’’جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے فیض یاب ہوتے ہیں ان کی زندگی بڑی ہی پُر سکون اور خوش گوار ہوتی ہے۔ دنیا کے مصائب و مشکلات میں بھی انھیں ایک طرح کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘ (نورِ ہدایت، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، عمر آباد،۱۹۱۴ء،ص ۲۷)۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ اولین پیغام کے دوسرے حصے ( ہدایتِ الٰہی کی اتباع میں انسان کے لیے فوز وفلاح ہے) کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو متنبہ کردیا ہے جن کی زندگی ہدایتِ الٰہی کے خلاف گزر تی ہے یا گزرے گی کہ انھیں ا خرو ی زندگی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کے عذاب میں گرفتار رہیں گے، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے گا، یعنی ہدایتِ الٰہی کے خلاف زندگی گزارنے والوں کو ان کے بدترین انجام کی خبربھی سنا دی گئی ہے ۔ارشادِ ربّانی ہے:
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۳۹ (البقرہ ۲: ۳۹) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنم والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
اسی سے متعلق سورۃ الاعراف کی آیت ۳۶ ملاحظہ ہو: وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْہَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۳۶ ’’اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان (رسولوں) کے تئیں تکبر و سرکشی کا رویہ اختیار کریں گے ،وہ دوزخ والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے‘‘،یعنی ہد ایتِ الٰہی قبول کر نے اور راہِ راست اختیار کرنے والوں کے برخلاف جو لوگ ہدایتِ الٰہی کا انکار کرنے والے،اس سے منہ موڑنے والے اور راہِ ہدایت کی طرف دعوت دینے والوں سے مخالفت و عداوت کا معاملہ کرنے والے ہیں ان کا بدترین انجام یہ ہوگا کہ وہ ابدی زندگی میں جہنم کی آگ میں جھلسا ئے جا ئیں گے،اس سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ اس کے علاوہ قرآن میں دو سرے مقام پر شیطان کے پیروکاروں کو صاف طور پر خبر دار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ابلیس یا شیطان کی پیر و ی میں پوری زندگی گز ار دے گا اور کفروانکار اور سرکشی،یعنی اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی و نافرمانی کی راہ پر چلتا رہے گا جہنم کو اس سے بھر دیا جائے گا۔ اللہ ربُّ العزت کا فرمان ہے :
لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ لَاَمْلَــــَٔـنَّ جَہَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۱۸ (الاعراف۷:۱۸) ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے تم سب سے[ ان کے سمیت] جہنم کو بھر دوں گا۔
مزید برآں شیطان اور اس کے متبعین کو مخا طب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں فرمایا:
قَالَ فَالْحَقُّ۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۸۴ۚ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ اَجْمَعِيْنَ۸۵ (صٓ۳۸: ۸۴-۸۵) اللہ نے فرمایا :حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ جہنم کو تجھ سے اور ان تمام لوگوں سے بھر دوں گا جو ان[میرے بندوں] میں سے تمھاری پیروی کریں گے۔
رہا یہ مسئلہ کہ مختلف آیات میں مذکور اللہ کی ہدایت سے کیا مراد ہے جس کی پیروی میں حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے اور جس کی خلاف ورزی دنیا وآخرت میں امن وسکون غارت کرنا، سب سے بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا اور عذابِ الیم کو دعوت دینا ہے؟ اس سوال پر غور وفکر سے پہلے یہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ ربُّ العالمین ہے،سارے جہاں کا پرور دگار اور تمام انسانوں کا پالنہار ہے،وہ اپنے بندوں پر بے حد رحم و کرم فر ما نے والا ہے۔اللہ کی ربوبیت یا پروردگاری انسان کی مادی وروحانی تمام ضروریات کو محیط ہے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی ہدایت سے با خبر نہ کرتا ،یعنی انھیں وہ راستہ نہ دکھاتا جس پر چل کر وہ اس کی خوشنودی اور دنیوی و اُخروی زندگی میں حقیقی کامیابی سے مشرف ہوسکتے۔ متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ربِّ رحیم و کریم نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ہی اسے گزر بسر کے لیے دنیوی ساز و سامان عطا کیا اور اسے اپنی ہدایت سے باخبر کرنے کا بھی اہتمام فرمایا ،تاکہ وہ اسی کے مطابق شب وروز بسر کرے اور اپنے خالق ومالک کی رضا حاصل کرے (طہٰ۲۰:۵۰؛ الشعراء۲۶:۷۸؛ عبس۸۰:۲۰؛ الاعلیٰ: ۸۷؍۲-۳، البلد ۹۰:۱۰)۔
قرآن نے تو ایک مقام پر بہت ہی واضح انداز میں اس حقیقت سے انسان کو آگاہ کردیا ہے کہ اللہ نے انسان کو راہِ حق دکھا دی ہے،اب یہ اس کی پسند ہے کہ وہ اسے اختیار کر کے اپنے رب کا شاکر بندہ بنتا ہے، ا سے راضی کرتا ہے اور دونوں جہاں میں فوزو فلاح پاتا ہے یا اس کے برخلاف راہِ باطل پر چل کر ناشکرا بندہ بن جا تا ہے، اپنے رب کو ناراض کرتا ہے اور خود اپنی تباہی و بربادی کا ساز وسامان جمع کرتا ہے۔ آیتِ ذیل میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے :
اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا۳ (الدھر۷۶:۳) بے شک ہم نے اسے [سیدھی] راہ دکھادی ہے، اب یا وہ شاکر بن جائے، یا ناشکرا بن جائے۔
اللہ رب العزت نے ا سی راہ ِ ہدایت دکھانے کے لیے انبیا علیہم السلام کی بعثت ا ور اپنی کتابوں کے نزول کا سلسلہ جاری کیا ۔ یہ سلسلہ، جیسا کہ بخوبی معروف ہے، اوّلین نبی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا اور آپ ؐ ہی کے توسط سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات کا آخری مکمل مجموعہ قرآن کی صورت میں سارے انسانوں کو عطا فرمایا، تاکہ وہ اس کی روشنی میں راہِ ہدایت د یکھ لیں اور پالیں۔ بلاشبہہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ سچ پوچھئے تو پورا قرآن شریف شروع سے آخر تک ’ ھدی اللہ‘ کی تشر یح و توضیح ہے اور بعض آیات میں مختصر و جامع ا نداز میں اس کی تعبیر یہ ملتی ہے کہ اللہ کو ربّ العالمین مان لینا اور صبح سے شام تک اس کی بندگی بجالانے میں مصروف رہنا ،یعنی زندگی کے ہر معاملے میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنا ہی راہِ ہدایت ہے ،یہی’’ صراطِ مستقیم ‘‘ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :
اِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۵۱ (اٰل عمرٰن۳:۵۱) بے شک اللہ ہی میرا رب اور تم سب کا ر ب ہے، پس اسی کی عبادت کرو ،یہی صراط مستقیم ہے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ ہدایتِ الٰہی نصیب ہونا صراط مستقیم پالینے سے عبا رت ہے،یعنی جس نے راہِ مستقیم اختیار کر لیا وہ گویا اللہ کی ہدایت سے مشرف ہوگیا۔راہِ مستقیم کیسے نصیب ہوتی ہے یا اس پر چلنے کے لیے راہیں کیسے ہموار ہوتی ہیں ؟ اس سوال کا جو اب اس آیت میں ملاحظہ فرمائیں:
وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۱۰۱(اٰل عمرٰن ۳:۱۰۱) اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے اسے راہِ مستقیم دکھا دی گئی۔
اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے سے مراد،جیسا کہ مفسرین نے واضح فرما یا ہے ، ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنا ، اللہ سے تعلق مضبوط کرنا اور ہر معاملے میں اس کے احکام پر کاربند رہنا ہے۔ درحقیقت اسی طور پر شب وروز گزارنے والے راہِ راست پر ہوتے ہیں اور انھی لوگوں کے لیے صلاح و فلاح کی بشارت ہے ( مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ج۲،ص۱۲۵)۔
اسی کے ساتھ یہ نکتہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ اللہ سے تعلق کی مضبوطی کے لیے قرآن کریم سے گہری وابستگی اور اس کی ہدایات پر مضبوطی سے جمے رہنا ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی ا سی عظیم ترین کتابِ ہدایت سے منکشف ہوتا ہے۔ اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۴۳ (الزخرف ۴۳:۴۳) پس اس چیز [کتاب] کو مضبوطی سے تھامے رہو جو تمھاری طرف وحی کی گئی، یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔
بلاشبہہ یہ آیت ا س نکتہ کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ تمسک بالکتاب اور ہدایت ِ الٰہی نصیب ہونا لازم و ملزوم ہے۔ دوسرے،یہ امرِ بدیہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام اہلِ ایمان کو اس نکتہ سے باخبر کرنا مقصود ہے۔
اللہ کی ہدایت سے مشرف ہو جا نے والوں کی کیا خصوصیات ہیں یا ہدایت یافتہ ہونے کی کیا علامات ہیں ؟،اس باب میں سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات سے کلیدی رہنمائی ملتی ہے۔ ان میں قرآنی ہدایت سے فیض یاب ہونے والوں، یعنی ا ہلِ تقویٰ (خوفِ ا لٰہی اور آخرت میں بازپُرس کے احساس سے اپنے کو گناہوں سے بچانے والوں اور اطاعتِ الٰہی کو اپنا شعار بنانے والوں )کے بنیادی اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے:
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِـمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۳ۙ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۵ (البقرہ۲:۳-۵) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز کا اہتمام کرتے ہیں،ہمارے عطا کردہ مال میں سے انفاق کرتے ہیں،اورجو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تم پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئیں، اور جوآخرت میں یقین رکھتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی [اصلاً] فلاح پانے والے ہیں۔
تقریباً یہی مضمون سورۂ لقمان کی ابتدائی آیات(۲ تا۵) میں بھی مذکور ہے۔ یہاںیہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیات میں اہلِ تقویٰ کے اوصاف (ایمان میں پختگی کے ساتھ ان اعمال کی انجام دہی جو اللہ رب العزت کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں) بیان کرنے کے بعد یہ ارشادِالٰہی ہے:
اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۵ (البقرہ ۲:۵) ایسے ہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ ہدایت پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔
آیت کا یہ آخری حصہ اس لحاظ سے خصوصی توجہ کا طالب ہے کہ ان میں مذکورہ بالا صفات سے متصف لوگوں کو اس سند سے نوازا گیا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ،یعنی اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنے والے ہیں، اور اسی کے ساتھ انھیں یہ بشارت بھی سنائی گئی ہے کہ وہی صحیح معنوں میں فلاح یاب یا با مراد ہو ں گے، یعنی وہ جہنم سے محفوظ رہیں گے اور انھیں جنت میں داخلہ نصیب ہو گا ۔ ایک دوسری آیت میں اُن اہلِ ایمان کے بارے میں ، جو اپنے ایمان و یقین میں خالص ہیں اور اپنے ایمان کو سب سے بڑے گناہ (شرک) یا باطل عقائد سے گڈ مڈ نہیں کرتے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہی اصلاً ہدایت یاب ہیں اور انھیں امن و سکون کی نعمت نصیب ہوگی۔ ارشادِ ربّانی ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۸۲ۧ (الانعام ۶:۸۲) جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم[یعنی سب سے بڑے گناہ شرک ] سے مخلوط نہیں کیا ان کے لیے امن ہے اور وہی[ صحیح معنوں میں] راہِ ہدایت پر ہیں ۔
مزید یہ کہ ایک دوسرے مقام پر ان اہل ِ ایمان کو ،جو مصیبت و پریشانی کی حالت میں صبر سے کام لیتے ہیں،دینِ حق پر جمے رہتے ہیں،اپنی زندگی اور ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انھیں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ جانا ہے،یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ انھیں ربِّ کریم کی عنایات نصیب ہوں گی اور وہ رحمتِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے (البقرہ۲ :۱۵۶-۱۵۷)۔ واقعہ یہ کہ اللہ ربُّ العزت کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہدایت یافتہ ( یا ایمان و عملِ صالح والے) لوگ سکون و اطمینان کے ساتھ رضائے الٰہی کا انعام لیے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں یا ہوں گے، جیسا کہ سورۃ الفجر کی یہ آیات شہا دت دے رہی ہیں:
يٰٓاَ يَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ۲۷ۤۖ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃً۲۸ۚ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۲۹ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۳۰ۧ (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئنّہ تو اپنے رب [کے جوارِ رحمت] کی طرف واپس لوٹ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس شامل ہوجا میرے[محبوب] بندوں میں اور داخل ہوجا میری [تیار کی ہوئی] جنت میں ۔
رہا یہ معاملہ کہ نفسِ مطمئنّہ کو یہ راحت بخش خطابِ الٰہی کس وقت ہوگا؟ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے یہ واضح کیا ہے کہ قیامت میں حساب و کتاب کے بعد ہوگا، جب کہ بعض کی رائے میں یہ خطاب دنیا ہی میں موت کے وقت ہوتا ہے۔ بعض قدیم مفسرین کا خیال[جو زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے] یہ ہے کہ ارواحِ مومنین کو یہ خطاب دونوں وقت( موت کے وقت اور قیامت میں بھی ) ہوگا۔ قدیم مفسرین میں ابن کثیر اسی رائے کے حامل ہیں ( ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت ، دیو بند ، ۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۲ء ج ۴،ص ۴۵۸ ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: معارف القرآن، ج ۸،ص۷۴۴-۷۴۵)۔
اسی مسئلہ سے متعلق ایک حدیث کا حوالہ بھی برمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے : حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ربُّ العزت جنتیوں سے فرمائے گا:اے اہلِ جنت! وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں،ہر طرح کی سعادت و خیر تیرے ہی ہاتھوں میں ہے۔اللہ پوچھے گا: کیا تم راضی ہو؟ وہ کہیں گے،اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں جو تو نے کسی مخلوق کو نہیں دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمھیں اس سے افضل چیز نہ عطا کروں؟تو وہ پوچھیں گے ان [جنت کی نعمتوں] سے افضل کون سی چیز ہے؟ اللہ فرمائے گا:میں تمھیں اپنی رضا مندی (رضوان) عنایت کرتا ہوں، اب میں اس کے بعد تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا ( صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار)۔
اس سے معلوم ہوا کہ ا للہ کے بندوں میں جو راہِ ہدایت پر چلنے والے ( ایمان و عمل صالح والے ) ہیں،انھیں جنت میں سب سے بڑ ی نعمت یہ نصیب ہو گی کہ وہ یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے ’رضائے الٰہی‘ سے سرفراز کیے جا ئیں گے ۔
اللہ ربُّ العزت نے ایمان و عملِ صالح سے مزین ہوکر رضا ئے الٰہی سے شاد کام ہونے والے ا پنے محبوب بندوں کو کتنے عظیم الشان خطاب سے نوازا ہے، یہ جاننے کے لیے سورۃ البیَّنۃ کی آیت۷ پر نظر ڈالیں جس میں انھیں ’ خیر البریۃ ‘ کے لقب سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اردو مترجمینِ قرآن نے ان الفاظ کا ترجمہ ’’ بہترین خلائق،سب خَلق سے بہتر،ساری مخلوقات میں افضل و اشرف‘‘ کیا ہے۔ واقعی یہ کتنابڑا اعزاز ہے، جس سے ایمان اور عمل صالح کی پونجی والے ( چاہے وہ دنیوی مال و اسباب کے اعتبار سے مفلس و بے مایہ ہی کیوں نہ ہوں) مشرف کیے گئے ہیں ۔کیا اس سے بڑا اور کوئی لقب ہے جس سے ارضی مخلوقات میں کسی کو نوازا گیا ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ ہدایت الٰہی کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کر تے ہیں اور پوری زندگی اپنے آپ کو خواہشات ِنفسانی کا غلام بنا ئے رہتے ہیں انھیں اسی سورہ میں نہ صرف’شرّ البرّیۃ ‘ (بدترین خلائق) کہا گیا ہے، بلکہ اِس بدترین انجام سے بھی خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔ ان سب کے علاوہ اُخروی زندگی میں اس درد ناک عذاب سے دوچار ہونے کو انسان کے لیے ’خسران مبین‘ (بالکل کھلے ہوئے یا سب سے بڑے نقصان ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربَّانی ہے:
قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۭ اَلَا ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۱۵ لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ۰ۭ (الزمر۳۹:۱۵) کہہ دیجیے،اصل گھاٹے والے تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے قیامت کے دن اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو گھاٹے میں ڈال دیا۔اچھی طرح سن لو! یہی کھلا ہوا نقصان ہے۔ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے چھائی ہوں گی، اور نیچے سے بھی۔
مزید یہ کہ سورۃ البلد ( آیت۱۸) میں مومنین صالحین کو ’اصحٰب المیمنۃ‘( خوش قسمت؍ نصیبے والے) اور سورۃ الواقعہ ( آیت ۲۷)میں ’اصحٰب الیمین‘( نیک بخت؍ معزز و مکرم) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور منکرین و مکذّبین ’اصحٰب المشئمۃ‘ (بدنصیب/ذلت کے مارے) (البلد۹۰ :۱۹) اور ’اصحٰب الشمال‘( نحوست ، ناکامی و محرومی کے شکار)(الواقعۃ۵۶:۴۱) قرار دیے گئے ہیں ۔ اللہ ا حکم الحاکمین اپنے بندوں کے بارے میں جو فیصلہ فرمائے اسے کون بدل سکتا ہے۔
ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ توحید، رسالت اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان میں سچے ہیں، آخرت (یعنی بعث بعد الموت،اللہ رب العزت کے حضور حاضری، دنیوی زندگی کے اعمال کے بارے میں بازپُرس ،اعمال نامہ ملنے اور اسی کے مطابق جزا یا سزا کا نظام قائم ہونے اور جنت نصیب ہونے یا نارِ جہنم میں ڈالے جانے ) پر یقین میں پختہ ہیں، افضل العبادۃ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کر تے ہیں اوراللہ کے عطا کردہ مال سے کار ِخیر میں انفاق کے لیے سرگرم رہتے ہیں، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق بجا لانے میں سنجید ہ و مخلص ہیں وہی دراصل صراط مستقیم پر گامزن ہیں، وہی حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں اور انھی کی ابدی زندگی خوشگوار اور فرحت بخش ہوگی ۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی کی تلقین و تاکید کے ساتھ قرآن میں باربار انسان کو یہ نکتہ بھی گوش گزار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ہدایت کا طلب گار ہوگا ،اس راہ میں دوڑ بھاگ کرے گا اور اس کی توفیق طلب کرنے کے لیے اللہ سے رجوع کرے گا اور دعائیں مانگے گا اور راہِ ہدایت پر چلنا میسر آجا نے پر اس پر چلتا رہے گا تو اپنے کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور اپنا ہی بھلا کرے گا ،اور جو کوئی گمراہی کو پسند کرے گا، راہِ حق سے منہ موڑے گا اور انکار و ہٹ دھرمی کا رویہ اپنائے گا تو اپنے ہی کونقصان پہنچائے گا،اپنی تباہی مول لے گا اور ناکامی و نامرادی کو گلے لگائے گا۔ارشادِ ربّانی ہے:
مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْــتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۵) جو کوئی بھی راہِ ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہوجائےاس کا وبال اس پر آکر رہے گا۔
قُلْ يٰٓاَ يُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۰ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا ج وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۱۰۸ۭ (یونس ۱۰:۱۰۸) اے رسولؑ! بتا دیجیے اے لوگو!تمھارے پاس تمھارے رب کی جانب سے حق آچکا ہے، پس جو کوئی سیدھی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرے گا اور جو کوئی اس راہ سے بھٹک جائے گا تو اس کا وبال اپنے اوپر لائے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا ہوں [کہ تمھیں ہدایت یافتہ بنا کر ر ہوں] ۔
مزید برآں قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ ہدایت کی روشنی میں راست روی اختیار کرنے، اس پر قائم رہنے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی ایک بہت بڑی برکت یہ نصیب ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت ان اوصاف کے حاملین کے لیے ہدایت اختیار کرنے کی منازل میں ترقی عطا فرماتا ہے یا ان کے لیے ہدایت پر چلنے کی راہیں مزید ہموار کرتا رہتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَيَزِيْدُ اللہُ الَّذِيْنَ اہْتَدَوْا ہُدًى۰ۭ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ مَّرَدًّا۷۶(مریم۱۹:۷۶) اور راہِ ہدایت پر چلنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک اجر اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔
وَالَّذِيْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى وَّاٰتٰىہُمْ تَقْوٰىہُمْ۱۷ (محمد۴۷:۱۷) وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔
اس میں شبہہ نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے،بشری تقاضے سے ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، بھول چوک بھی ہوتی رہتی ہے،لیکن انھیں جب اپنی غلطیوں پر تنبہ ہوتا ہے، خطا کے ارتکاب کا احساس جاگ اٹھتا ہے تو ایمان کی تازگی و عمل کی پاکیزگی کے لیے اللہ سے رجوع کرتے ہیں، اپنے اصلاح یا راہ ِ ہدایت پر جمے رہنے کا پختہ عزم کر تے ہیں اور ربِّ کریم سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں اوراستقامت کی توفیق کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، تو اللہ رحمٰن و رحیم انھیں اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔ یہ آیت ایسے خطاکا ر وں کو یہ مژدہ سنا رہی ہے: وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى۸۲ ( طٰہ۲۰:۸۲) ’’اور میں بے شک خوب مغفرت سے نوازنے والا ہوںان لوگوں کو جو [خطا سرزد ہوجانے پر] توبہ کرلیں اور [صحیح معنوں میں] ایما ن لائیں، نیک عمل کر تے رہیں اور راہِ ہدایت پر چلیں‘‘۔
ان سب باتوں کے ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ کتابِ ہدایت ہی ہمیں بتاتی ہے کہ راہِ حق ا و ر اس پر استقامت کی نعمتیں اللہ ہی کی توفیق سے نصیب ہوتی ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ اٰيٰتٍؚ بَيِّنٰتٍ۰ۙ وَّاَنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ۱۶ (الحج ۲۲:۱۶) ’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو واضح آیتوں کے ساتھ نازل کیا ہے اور بے شک اللہ جسے چاہتا ہے اپنی ہدایت سے نوازتا ہے‘‘۔ ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ (الزمر۳۹:۲۳) ’’یہی اللہ کی ہدایت ہے جسے چاہتا ہے اسے نصیب کرتا ہے‘‘۔ وَاللہُ يَـقُوْلُ الْحَـقَّ وَہُوَ يَہْدِي السَّبِيْلَ۴ (الاحزاب ۳۳:۴) ’’اللہ حق بات ہی کہتا ہے اور وہی راہِ حق دکھاتا ہے‘‘ ۔ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳) ’’اور اللہ جسے چاہتا ہے راہِ مستقیم دکھا دیتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ یہ نعمت کسے عنایت کرتا ہے؟، اسے بھی ربِّ کریم نے اپنی کتاب میں واضح فر ما دیا ہے۔ ارشادِالٰہی ہے:
اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۱۳(الشورٰی۴۲:۱۳) اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے منتخب کرلیتا ہے اور ہدایت اسی کو نصیب کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے ۔
یہی حقیقت سورۃ الرعد کی آیت۲۷ میں بیان ہوئی ہے: وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَ۲۷ ، ’’وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جھکتا ہے‘‘‘۔
اوپر یہ واضح کیا گیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے،ہدایت سے نوازتا ہے ،اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ صحیح معنوں میں کون ہدایت یافتہ ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔ واقعہ یہ کہ راہِ ہدایت پر چلتے ہوئے ،اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ خوش گمانی یا ضرورت سے زیادہ اعتماد کی کیفیت میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے،بس اس راہ میں کوشش اور اس میں کامیابی کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس نکتہ کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۷ ملا حظہ ہو:
اِنَّ رَبَّكَ ہُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِہٖ ۰ۚ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۱۱۷ (الانعام ۶:۱۱۷) بے شک تیرا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون راہِ ہدایت پر چل رہا ہے۔
تقریباً یہی حقیقت چھ دیگر آیات میں بھی واضح کی گئی ہے(النحل:۱۶؍۱۲۵،بنی اسرائیل ۷ا:۸۴،القصص۲۸:۵۶-۸۵، النجم۵۳:۳۰، القلم۶۸:۷)۔
واقعہ یہ کہ تزکیۂ نفس و تطہیرِقلب( دل کی پاکی و صفائی)،تقویٰ و پرہیزگاری( اللہ ربّ العزت کی عظمت کا احساس اور اس کی گرفت کا خوف جو انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے)، اھتداء (ہدایت یافتہ ہونا یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت پر چلنا)، اخلاصِ نیت ( اللہ کی خوش نودی کے لیے نیک عمل کرنا)، ان سب کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل کا حال،اس کی کیفیت اور اس کے تحت صادر ہونے والے اعمال کی نوعیت اور ان کی قبولیت کے مقام و مرتبہ کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے،جیسا کہ ان آیات سے واضح ہوتا ہے:
فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۳۲ۧ (النجم۵۳: ۳۲) پس اپنے آپ کو بہت پاک نہ سمجھو،وہی[اللہ ہی] بہتر جانتا ہے کہ واقعی کون متقی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۰ۭ بَلِ اللہُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ (النساء۴:۴۹) کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جو اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں،حالاں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاکیزگی عطا فرماتا ہے۔
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ۰ۭ ( بنی اسرائیل۱۷:۲۵) تمھارا رب سب سے زیادہ جاننے والا ہے اس بات کو جو تمھارے دلوں میں ہے۔
اَوَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ۱۰ ( العنکبوت۲۹:۱۰) کیا اللہ کو دنیا کے لوگوں کے دلوں کا حال بخوبی معلوم نہیں؟
ان سب کے ساتھ یہ بھی ہمارے پیشِ نظر رہے کہ انسانی دلوں کا اُلٹ پھیر ( تصریفِ قلوب) کا اختیار اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ان کی کیفیت میں جو کچھ تبدیلی ہوتی ہے،اسی کی مشیت سے ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے( صحیح مسلم، کتاب القدر، باب تصریف اللہ تعالٰی القلوب کیف یشاء)۔
ان حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو اپنے ہدایت یافتہ ہونے یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت اختیار کرنے کے بارے میں بہت لمبے لمبے دعوے نہیں کرنے چاہیے اور نہ اپنے کو بہت زیادہ پاکیزہ، بہت بڑا متقی سمجھنا چاہیے، بس اس راہ میں کوشش جاری رکھتے ہوئے اللہ سے رجوع کرنا چاہیے اور دل کی پاکیزگی ، نیت کے اخلاص اور ارادہ کی پاکی کے لیے مستقل دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میںیہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ راہِ ہدایت طلب کرنا ہو، اسے اختیار کرنا ہو،اس پر مستقل چلتے رہنا ہو، یعنی راہِ ہدایت پر استقامت یا اس کی ترقی کی منازل طے کرنے کا معاملہ ہو ، خطائیں سرزد ہونے پر مغفرت ِ الٰہی کے لیے التجاء کرنی ہو، ان سب نعمتوں کے نصیب ہونے کے لیے رجوع الی اللہ اور ربِّ کریم سے دعا مانگنا نہ صرف مطلوب،بلکہ بہت ضروری ہے ۔اس ضمن میںاہم بات یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے لیے دعائیں بھی تلقین کی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے۔سورۃ الفاتحہ، جیساکہ بخوبی معروف ہے، پوری کی پوری دعا سے تعبیر کی جاتی ہے اور اس میں خا ص دعا اللہ سے ہدایت طلبی (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) ہے۔راہِ حق پر استقامت کی قرآنی دعائوں میں ایک بہت ہی معروف و مقبول دعا یہ بھی ہے: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۸ (اٰل عمرٰن۳:۸) ’’اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی نہ آنے دے اس کے بعد کہ تونے ہمیں ہدایت کی توفیق بخش دی اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما، بے شک تو خوب عطا فرمانے والا ہے ‘‘۔
اسی طرح ہدایت پر جمے رہنے کے لیے یہ مسنون دعائوں میں ایک بہت مشہو ر دعا ہے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ( جامع ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب دعا) ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘ ۔ ان سب کے ساتھ اس دعا کا اہتمام بھی ضروری ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَہُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اِجْتِنَابَہُ ( ابن کثیر، تفسیر القرآن الکریم ، محولہ بالا ،۲؍ ۳۲۸ ( تفسیر سورۃ البقرۃ،آیت۱۳ ۲) [اے اللہ ہمیں حق کو حق کی حیثیت سے دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق عنایت فرما، اور باطل کو باطل کی حیثیت سے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما]۔ اس لیےمومن کو ہر حال میں ان دعاؤں کو مستقل مشغلہ یا شیوہ بنا لینا چاہیے ۔ اللہ کرے ہمیں اس کی توفیق نصیب ہو، آمین!
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کی متعدد آیات میں ہدایتِ الٰہی،اس پر استقامت اور اس کے فیوض وبرکات اور خوش گوار نتائج سے متعلق حقائق بار بار واضح کیے گئے ہیں ۔ ان کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے، بس خلاصہ کے طور پر یہ عرض کرنا ہے کہ متعلقہ آیاتِ کریمہ پر تدبر و تفکر سے انسان کے نام اولین پیغامِ الٰہی سے یہ قیمتی نکات سامنے آتے ہیں :
اللہ رب العزت ہم سب کو ہر شعبۂ حیات میں ہدایاتِ ربّانی پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے، اپنی رضا سے ہمیں نوازے اور عارضی و دائمی دونوں ٹھکانوں[ دنیا و آخرت ] میں سکون و اطمینان نصیب فرمائے: وَ مَا تَوْفِیْقی اِلَّا بِاللہ۔ رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ آمین ثمَّ آمین!