جولائی ۲۰۲۲

فہرست مضامین

ایک بہتر دن، کیسے گزاریں؟

محمد بشیر جمعہ | جولائی ۲۰۲۲ | سماجیات

Responsive image Responsive image

انسانی زندگی میں یہ دو سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں: 

  • میرا ، آج گذشتہ کل سے کیسے بہتر ہو؟ 
  • آج کے دن کرنے کے کاموں کی فہرست کیسے تیار کریں؟

زندگی ___     صرف آج کا دن

زندگی کیا ہے؟___ صر ف اور صرف آج کا دن۔ ہمیں اپنی زندگی کے اگلے لمحے کا کوئی علم نہیں ہے۔ہر زندہ رہنے والے انسان کو آج کے دن چوبیس گھنٹے یا ۱۴۴۰ منٹ ملتے ہیں، مگر ان کے بارے میں بھی یقین نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگلا لمحہ نصیب ہوگا یا نہیں نصیب ہوگا۔جو فرد عطاشدہ ان لمحات کی اس نعمت کو جتنے بہتر انداز سے استعمال کرتا ہے، اتنا ہی وہ کامیا ب ہوتا ہے۔صبح جب ہم اٹھتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے اور ایک معجزہ ہے کہ ہم اُٹھ گئے، حالانکہ نیند میں تو ہمیں کسی چیز کا ہوش ہی نہیں ہوتا۔

ہر دن ایک نئی زندگی ہے اورآنے والا دن، کل کے لیے آج کا دن ہوگا۔ زندگی جو کچھ بھی ہے وہ آج کا دن ہے۔یہ دن کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئے گا، جیسے آپ دریا کے کنارے کھڑے ہوکر منظر دیکھتے ہیں کہ پانی گزرتا چلا جاتا ہے، اور پھر وہ کبھی واپس نہیں آتا۔کہتے ہیں کہ جس کا آج کا دن گذشتہ کل کی طرح ہے، وہ تباہی کی طرف سفر کررہا ہے۔ زندگی کے اس سفر میں انسان کے لیے جو کچھ بھی ہے وہ آج کا دن ہے اور اسے اس دن کو بہترسے بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

٭     آج کے دن کی اہمیت:علامہ سیوطی ؒ نے جمع الجوامع  میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے: ’’جو شخص آج کوئی بھلائی کر سکتا ہے کرلے، آج کے بعد پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا‘‘۔

دن کی بہتر کارکردگی کے لیے اس فرمان کو یاد رکھیے جو کہ حضرت حسن بصریؒ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خواب میں ہدایت سے معروف ہے: وہ شخص تباہ ہوگیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے رہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو فرماتے: ’’یااللہ! میرے لیے خیر کر اور اسے میرے لیے پسند کر‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ’’ بے شک وہ مسافر جسے کامیابی کی امید اور ناکامی کا خطرہ ہے، اسے چاہیے کہ اپنے سفر کے لیے اچھا سامان تیار کرے‘‘۔ انھی کے چند اقوال یہ ہیں: ’’جوشخص کوئی کام کر نے سے پہلے انجامِ کا ر سوچ لیتاہے ،اس کو اس کام کے تمام پہلو اور نشیب و فراز معلوم ہوجاتےہیں‘‘۔’’جوشخص انجامِ کار کا سوچتاہے وہ آفتوں اورمصائب سے بچارہتاہے اور جو شخص تجربہ کاری میں مضبوط ہوتاہے وہ ہلاکتوں سے نجات پالیتاہے‘‘۔’’عقل مند وہ ہے، جو اپناایک سانس بھی ، غیر مفید کام میں ضائع نہ کرے اور نہ ایسی چیز جمع کرے جو ساتھ نہ دے‘‘۔ ’’صبح سویرے کام کوجاؤ، کیونکہ سویرے جانے میں برکت ہے، اور اپنے کاروبار میں دوستوں سے مشورہ کیاکرو کہ اس طرح مقاصد میں کامیابی حاصل ہوتی ہے‘‘۔ ’’چراغ کو بر وقت جلانا اور بجھانا کامیابی کی علامت ہے‘‘۔ ’’کوچ کرنے کی تیاری کرو کیونکہ تمھارے کوچ کا وقت آپہنچا ۔ اور موت کےلیے تیار ہوجائو کیونکہ وہ تمھارے سر پر آگئی ہے‘‘۔

آج کا دن ___ کرنے کے کاموں کی فہرست

٭     یومیہ پیش نظر کاموں کی فہرست کو ’کرنے کے کام‘ کہتے ہیں۔ اس فہرست کے ذریعے آپ اپنے روزانہ کے کاموں کو ایک جگہ تحریر کرتے ہیں اور پھر ترجیحات متعین کرتے ہوئے  کرنے کی کوشش کرتےہیں۔یہ ایک جگہ: کاغذ، ڈائری، کارڈ، نوٹ بک، سمارٹ فون ، ڈیوائس یا کوئی سافٹ ویئر یا اپلی کیشن ہوسکتی ہے۔

٭     اپنے نصب العین کے تحت مقاصد کو پیش نظر رکھیے،اور اس ہفتے کے کرنے کے کاموں کی فہرست نکال لیں۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے، یومیہ فہرست بنا لی جائے۔

٭     منصوبہ بندی کے لیے ایک ہی طریقۂ کار، کارڈ یا ایپ استعمال کریں۔ ایک ہی فہرست بنائی جائے ، بہت سے فہرستیں نہ بنائی جائیں کہ اس سے آپ الجھ جائیں گے۔فہرست تیار کرنے کا دن اور وقت مقرر ہو اور اس میں باقاعدگی اور پابندی کریں۔کوشش کریں کہ یہ فہرست جمعہ یا اتوار کی شام (یعنی ہفتہ شروع ہونے سے ایک دن پہلے)تیار ہوجائے ۔ اس انداز سے کہ فہرست کے ساتھ دنوں کے کالم ہوں، جس پر ٹک مارک لگا کر دن مختص کیا جا سکے کہ یہ کام اس دن کرنے کا منصوبہ ہے۔

٭     یومیہ منصوبہ بندی بہتر ہے شام کے وقت کرلی جائے، تاکہ رات کو ذہن اس پر سوچ بچار کا کام کرے۔اس فہرست میں وہی کام ہوں، جو آپ اگلے دن کرنا چاہتے ہیں۔وہ کام جو کہ بہت اہم ہیں انھی پر توجہ مرکوز کریں۔بہتر کارکردگی کے لیے ہمیشہ اپنے نصب العین کو پیش نظر رکھیے۔ نصب العین کے حصول کے لیےمقاصد کو بھی سامنے رکھیے۔ احساس ذمہ داری، کردار، رویہ، عادات، صلاحیتیں، مہارتیں اور ٹکنالوجی ٹولز کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

٭     آپ کے ہر کام کا مقصد واضح ہونا چاہیے۔ کا م سے پہلے اپنے آپ سے منطق کے یہ چھ کاف والے سوالات پوچھیں: کیا، کیوں، کیسے، کب، کون اور کہاں؟ہر کام کے لیے ڈیڈ لائن متعین ہونی چاہیے، ورنہ آپ کے دن ویسے ہی گزرتے جائیں گے۔

٭     باقاعدگی سے جائزہ کی عادت ڈالیں۔ روزانہ رات سونے سے پہلے احتساب کی عادت ڈالیے۔ ہرکام کی ابتد ا اچھی کیجیے اور انجام پیش نظر رکھیے۔اپنے بہتر انجام کے لیے دعا کیجیے۔اللہ کے نام سے کام شروع کیا جائے کیونکہ ہر وہ کام جو اللہ کے نام سے شروع نہیں کیا جاتا ناقص رہتا ہے۔ ہمیشہ اپنے اعلیٰ مقصد کو مد نظر رکھنا چاہیے اور اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ضائع  نہ کرے۔اپنے دن کی ابتدا میں یہ دعا پڑھا کریں: اے اللہ ہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی، درمیانے حصے کو بہبودی اور آخری حصے کو کامرانی بنادے۔

آج کے دن کی فہرست کیسے بنائیں؟

٭     کرنے کے کاموں اور اپائنٹمنٹس کے لیے ایک ہی ڈائری یا نوٹ بک یا سافٹ وئر استعمال کیجیے اور اس کا ریکارڈ اپنے پاس ہمیشہ رکھیے۔

٭     اس بات پر بھی غور کیجیے کہ میرے وہ کو ن سے کام ہیں، جو اگر آج کرلیےجائیں تو بقیہ زندگی میں آسانی ہوگی۔جو بھی کام کرنے ہوں ان کےاہم نکات لکھیے کہ کیا کام کرنا ہے؟ زندگی کے مقاصد پورا کرنے والے کاموں پر سب سے پہلے توجہ دی جائے۔اہم کاموں کے لیے دن کا بہترین حصہ استعمال کیجیے۔فہرست کی تیاری کے دوران آپ کے ذہن میں مختلف خیالات بھی آتے رہیں گے، جن کو نوٹ کرنے کے لیے جگہ ہونی چاہیے۔اسے’پارکنگ پلیس‘ کہتے ہیں۔

٭     اہم ترین کاموں کو سر فہرست رکھیں، یعنی ترجیحات مقرر کرنے کی عادت ڈالیں:’’میرے پانچ اہم ترین کام جو کہ آج ہی کرنے ہیں‘‘۔ روزانہ اس قسم کا ٹارگٹ ضرور بنائیں۔ تمام کاموں کے لیے ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کام کرنے والے کو معلوم ہو جائے گا کہ کس کام کے لیے کتنی محنت کرنی ہے اور کتنا وقت دینا ہے؟کاموں کے درجات یوں متعین کیجیے: الف، ب، ج ___   l الف :وہ کام جو آپ کی کامیابی کے لیے لازم ہیں اور انھیں آپ کو ہر صورت میں کرنا ہے۔lب: وہ کام جو فوری نوعیت کے ہیں اور کوشش کرکےکرلینےچاہییں۔lج: وہ کام ہیں جو اگر ہوجائیں تو بہتر ہے۔

٭     ترتیب میں افراط سے کام نہ لیا جائے۔ غیر ضروری کاموں کو فہرست سے نکال دیں۔ملتی جلتی سرگرمیوں کو ایک ساتھ جمع کیا جائے۔ جو کام دوسروں کے حوالے کیے جا سکتے ہوں ان کو دوسروں کے حوالے کردیں۔ اس طرح آپ کو زیادہ اہم کاموں کی انجام دہی میں مدد ملے گی، سوچنے کے لیے وقت زیادہ ملے گا،عمومی نوعیت کے کاموں سے چھٹکارا ملے گا اور دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا: ’’اپنے ملازموں کو کام بانٹ کربتلادیاکرو۔اس طرح اپنے مفوضہ کام میں کوئی شخص سستی نہ کرےگا‘‘۔

٭     اپنے ممنوعات کی بھی فہرست بنالیں، یعنی وہ کام جو آپ دن میں نہیں کریں گے، جیسے سوشل میڈیا کے کام اور رابطے۔ یہ کام آپ دفتری اوقات میں نہیں کریں گے بلکہ ان کا بھی ایک وقت معین ہوگا، جس میں آپ یہ کام کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ نقصان دہ چیزیں ہیں، جن  میں آپ ڈوب جاتے ہیں اور آسانی کے ساتھ نکل نہیں سکتے۔کاموں کی انجام دہی کے لیے بہترین طریقہ اپنا نے کی کوشش کریں۔ہر کام کے لیے صحیح اورمناسب طریقۂ کار اختیار کرکے وقت بچایا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ہر کام کے لیے وقت متعین کیا جائے، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وقت کے ساتھ غیر مربوط کام کبھی پورے نہیں ہوتے۔ جب اس فہرست کو استعمال کریں تو یہ فہرست سارا دن آپ کی نظروں کے سامنے رہنی چاہیے۔ جو کام ہوجائیں وہ چیک کرتے رہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک کام ختم ہونے کے بعدوقفہ لیںتاکہ میدان کی گرد صاف ہو۔ لیکن اگر جاری کام ہی کے دوران وقفے لینے شروع کردیے تو آپ کے کام ادھورے رہ جائیں گے۔جو کام ادھورا رہ جائے، اسے اگلے دن پر ڈال دیں۔

چند مزید اہم باتیں

٭     کام کا آغاز صبح سویرے کیا جائے۔ہمیشہ دفتر وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں۔مؤثر اور مستعد ہوکر کام کیجیے۔کام کو اسمارٹ طریقے سے کرنے کی کوشش کریں، آپ مناسب اور مطلوبہ محنت کریں۔باتوں اور چیزوں کو نوٹ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اپنی پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیے۔اپنی صحت ، توانائی اور قوت کار کا خاص خیال رکھیں۔اپنے معاونین کی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہیں۔وہ کام جنھیں کرنا اور نہ کرنا ایک جیسا ہو، ان کاموں کو نہ کریں۔وہ تمام کام جو کہ تقاضے کے زمرے میں نہیں آتے ان کاموں کو چھوڑ دیں۔ چند ہفتے اپنے اوقات کا استعمال ضرور تحریر کریں اورپھر جائزہ لیں کہ کتنا وقت ضائع ہوتا ہے۔

٭     ہر کام اس کے کاریگروں سے لیا کریں۔وہ آپ سے کچھ رقم لے کر آپ کے کام کو احسن طریقے سے کردیں گے، اور دنیا میں آپ ان کے رزق کا ذریعہ بھی بنیں گے۔

٭     انجام کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کام بغیر معاوضہ طے کیے دوسرے سے نہیں کرواتے تھے۔اگر ہم بھی ایسا کریں تو بہت سارے اختلافات اور رنجشوں سے بچ جائیں گے۔ ایسے کام سے بچیں، جس سے عذر پیش کرنا پڑے ، یا شرمندگی ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس زندہ رکھیں۔اپنے غصے اور رد عمل کو کنٹرو ل میں رکھیں۔ آپ اختلاف کرسکتے ہیں مگرجھگڑنے سے بچیں۔

٭     اپنی ٹیم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں اوران کے کام کی حوصلہ افزائی کریں۔ای میل، سوشل میڈیا، واٹس ایپ اور اس قسم کی دیگر چیزوں پر کسی حد تک پابندی لگائیں۔ان کے قیدی مت بنیں۔ غیر ضروری پروگراموں میں شرکت سے گریز کریں۔اپنے آپ سے سوال کریں کہ ’’کیا میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کررہا ہوں اور زندگی کے نصب العین، مقاصد اور اقدارسے وابستہ اور قریب ہورہا ہوں؟‘‘

٭     سُستی ، کاہلی اور اکملیت پسندی سے اپنے آپ کو بچائیں۔ٹیلی ویژن اور وڈیوز سے دوستی  کم کرلیں۔جو کام دوسروں کے ذریعے ہوسکتے ہیں، انھیں معاملات طے کرکےکردیں۔ اپنی توجہ ہٹانے والے معاملات کا پیشگی اندازہ کرکے ان کا بندوبست کرلیں۔

با قاعدگی سے تجدید عہد کا طریقہ

ہمیں اس بات کا موقع ملتا ہے کہ ہم روزانہ، ورنہ ہفتے میں ایک بار یہ جائزہ لیں کہ:

٭     کیا ہم زندگی کے طے شدہ نصب العین کے مطابق عمل کر رہے ہیں یا فرار کی راہ اختیا ر کیے ہوئے ہیں؟

٭     جو مقاصد مقر ر کیے ہیں، کیا ہم ان مقاصد کے لیے آگے بڑ ھ رہے ہیں یا ہم محض انھیں ڈائری میں نوٹ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں؟

٭     میر ی ذمہ داریاں کیا ہیں؟میرے لیے کون سے کام بہت اہم ہیں؟میرے فوری کرنے کے کام کون سے ہیں؟کیا میں جو کچھ کررہا ہوں ،وہ صحیح کررہا ہوں؟

٭     کیا میری زندگی میں اعتدال اور توازن ہے؟کیا میرے کام اور گھر کے معاملات میں توازن ہے؟ کیا میں اپنے گھر والوں کے حقوق ادا کررہا ہوں ؟ میرے نزدیک کامیابی کا کیا تصور ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں دنیا کے حصول کے لیے آخرت کو تباہ کررہا ہوں؟

٭     یہ جائزہ ہمیشہ لیتے رہیں کہ ہم نے جو عہد اپنی ذات سے، اپنے گھر والوں سے، اپنے ادارے سے، اپنی قوم سے اور اپنے رب سے کیا ہے اس عہد کو پور ا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی زندگی کے عہد کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہیں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہم میں ہمیشہ توانائی برقرار رہے اور ہم اپنے نصب العین کے حصول کے لیے کوشش کرتے رہیں اور اسی نصب العین سے وابستہ مقاصد کے حصول کی بھی کوشش کرتے رہیں۔

٭     کیا ہم اس دنیا میں رہتے ہوے اصل منزل، یعنی آخرت کی تیاری کررہے ہیں؟ کیا اولاد کی تربیت کر رہے ہیں کہ وہ آیندہ اس کارخیر کو سنبھال سکیں؟ اپنی علمی، سماجی اور مالی دولت اگلی نسل تک منتقل کرنے کی تیاری کرلی ہے؟ کیا ہم نے اس سلسلے میں تربیت کی ہوئی ہے،کیونکہ ہمیں اپنی کمائی اور ترکہ کا حساب دینا ہے؟ معاشرے میں صدقۂ جاریہ کے کام کی تیاری کی ہے؟

٭     کیا اپنے اثاثہ جات اور واجبات کا اصل ریکاردڈ موجود ہے؟تاکہ بصورت موت خاندان اور وابستہ افراد کی رہنمائی ہو؟ کیا کاروبار کی ملکیت تحریری صورت میں ہے تاکہ بھائیوں ، شرکا اور اولاد کے درمیان جھگڑے نہ ہوں۔

دعائیں

٭    اے اللہ ! میں تجھ سے طلب کرتا ہوں آج کے دن کی خیر (و خوبی)، اور جو آج کے دن میں (پیش آنے والا) ہے اس کی خیر (وخوبی)، اور جو آج کے بعد (پیش آنے والا) ہے اس کی خیر (وخوبی)۔ اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں آج کے دن کے شر سے اور جو آج کے دن میں (پیش آنے والا) ہے، اس کے شر سے اور جو آج کے بعد (پیش آنے والا) ہے اس کے شر سے۔

٭     اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ مجھ سے سرزد ہونے والی میری تمام حرکات و سکنات (چلنا پھرنا، اُٹھنا بیٹھنا، آنا جانا) آج کے دن میں میرے حق میں بہتر ہیں، تو ان کو میرے لیے مقدر کردے اور ان کو میرے لیے آسان کردے، اور تو جانتا ہے کہ اگر وہ میرے حق میں شر اور ضرر رساں ہیں تو ان کو مجھ سے دُور رکھ اور مجھے ان سے دُور رکھ۔

٭     اے اللہ! جو کچھ ہم نے مانگا ہے تو اسے قبول فرما، جو کچھ مانگنا چاہتے ہیں اور زبان پر نہیں آرہا تو وہ بھی عطا فرما۔ اے اللہ ہماری وہ حاجتیں پوری فرما جن کو ہم دعاؤں میں بیان نہیں کرسکتے۔جو مانگنا چاہیے اور نہیں مانگ رہے تو وہ بھی عطا فرما، اور جو تو عطا کرنا چاہتا ہے اور ہم نہیں مانگ رہے تو ہمیں وہ بھی عطا فرما۔

٭     اے اللہ تو ہمیں جو کچھ عطا کر وہ اپنی شان کے مطابق عطا کر۔اے اللہ تجھ سے ہر اس خیر کے طلب گار ہیں جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے طلب فرمایا اور تیری پناہ میں آتے ہیں ہر اس شر سے جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری پناہ چاہی۔

٭     اے اللہ! تو جو بھی خیر ہمیں عطا کرے ہم اس کے محتاج اور فقیر ہیں، آمین!