ڈاکٹر محمد عبداللہ العربی


مغرب کے سیاسی نظریات کے مطابق مملکت کاوجود تین عناصر مثلاً علاقہ،قوم اور حکومت سے ترتیب پاتاہے۔ تینوں عناصر کا اتحاد ہی مملکت کے وجود کا ضامن ہے۔

یہ تو ہوا مغربی نظریہ___ کیا اسلام بھی ایسا ہی نظریہ رکھتا ہے___؟ کیا وہ ان کی طرح ریاست کے لیے صرف مادی وجود کو ہی کافی سمجھتا ہے___؟ اور کیا مملکت کی تنظیم اور اُس کے ڈھانچے کے لیے اسلام جو الٰہی دین ہے، کوئی مثبت نظریات پیش کرتا ہے___؟

مغربی ریاستی نظریے کی رُو سے: ’’مذہب اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس لیے مذہب کو مملکت کے اُمور میں دخل دینے کا حق نہیں، کیونکہ یہ معاملات انسانی اختیار سے باہر نہیں اور وہ حالات کے مطابق جیسا مناسب سمجھتے ہیں، ان کا انتظام کرتے ہیں: خدا کو اپنے کاموں سے غرض رکھنی چاہیے اور بادشاہ کو اپنے کام سے کام ہونا چاہیے۔ ملک بادشاہ کا ہے اور مذہب خدا کا۔ ملکی معاملات کا مختار بادشاہ ہے اور مذہبی معاملات میں خدا حاکم ہے۔ ہاں، البتہ مذہب کے چند اخلاقی قوانین عوام سے مملکت کے قوانین منوانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں‘‘۔

چونکہ اسلام اس دُنیا میں خداکا آخری مذہب ہے، اس لیے اس نے انسانیت کی نشوونما اور ترقی کے لیے چند ایسے بنیادی قوانین پیش کیے ہیں، جو زندگی کے تمام اُمورپر خواہ وہ انفرادی ہیں یا اجتماعی، صرف حاوی ہی نہیں بلکہ کارآمد بھی ہیں، مؤثر بھی ہیں، اور ابدی بھی۔ اسلام نے یہ آزادی عطا کی کہ ہروہ قوم جو اسلام کے دامن میں پناہ لیتی ہے، ان بنیادی اصولوں پر اپنی مملکت کا ڈھانچا تیار کرسکتی ہے، اور زمانے اور حالات کے مطابق اس میں ترمیم اور وسعت پیدا کرسکتی ہے۔ لیکن یہ لازمی ہے کہ اس عمل سے قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں پر ضرب نہ پڑے اور ان کی حدود کو نہ توڑا جائے۔

اسلام نے ہمیشہ حقائق کو فراخ دلی سے تسلیم کیا۔ اس لیے وہ مادی نظریۂ مملکت کے بارے میں مغربی سیاست دانوں سے اختلاف نہیں رکھتا کیونکہ مملکت کے لیے بہرحال مادی عناصر ضروری ہیں، لیکن وہ ان عناصر میں غیرمادی عنصر [مذہبی عنصر]کا بھی اضافہ کرتا ہے، اور ایسے بنیادی اصول پیش کرتا ہے جو اخلاقی، معاشی اور سیاسی میدان میں انسانیت کی اقدارکے حامل ہیں۔ دونوں نظریات میں فرق صرف اتنا ہے کہ مغربی مفکرین صرف مادی وجود کافی سمجھتے ہیں اور اسلام وسعت ِ نظر اور دُور رس نگاہ کی وجہ سے آگے بڑھ کر کئی بنیادی انسانی اقدار کو بھی شامل کر دیتا ہے۔

اب ہم اسلام کے ان بنیادی اصولوں کا جائزہ لیں گے، جو مملکت کا غیرمادی اور دینی ڈھانچا تیار کرتے اور اس کے انتظامی اُمور کی جزئیات تک کو متاثر کرتے ہیں۔ آخر میں تین مادی عناصر میں سے قومیت کے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر پیش کریں گے:

  • بنیادی نظریات کا سہ طرفہ اتحاد یا اتحادِ ثلاثہ: اسلامی نظریۂ مملکت کی بنیاد اخلاقیات، معاشیات اور سیاسیات جیسے بنیادی سماجی اصولوں کے اتحادِ ثلاثہ پر قائم ہے۔ ان اصولوں کو عملی شکل دینے کے لیے الٰہی احکام کا رُتبہ عطا کیا جاتا ہے۔ اس وقت تک اسلام کا مملکت کے بارے میں تصور کا سمجھنا بہت مشکل ہے، جب تک اتحادِ ثلاثہ کو فہم، شعور اور سمجھ کے دائرے میں نہ لایا جائے، کیونکہ یہ اصول عمل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور اتحاد میں رکاوٹیں بھی پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جب تک اخلاقیات کو نہ اپنایا جائے، معاشی اصول ناکارہ ثابت ہوں گے، کیونکہ اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ ہوگا کہ رشوت ستانی اور مفاد پرستی زوروں پر ہوگی اور حکومت کی انتظامی قوتیں اس کا شکار ہوجائیں گی۔ اوراگر اسلام کے معاشی اصولوں کو نظرانداز کردیا جائے تو سماجی ڈھانچا کمزور ہوجائے گا اور نہ تو معاشی اصول اپنا مقصد حاصل کرسکیں گے، نہ اخلاقیات کا عمل دخل معاشرے میں باقی رہ جائے گا۔ دونوں کے اتحاد کے بغیر اصل مقاصد کی تکمیل ناممکن ہوجاتی ہے۔

  • اخلاقی نظریات : اسلام کے اخلاقی نظریات کی بنیاد توحید پر ہے۔ اس کے مطابق صرف اللہ ہی پرستش کے لائق ہے۔ انسان کو بتوں کی، خواہ وہ مٹی اور پتھر کے ہوں یا انسانی شکل و صورت اور خواہشات کا رُوپ دھارے ہوئے ہوں، یا دولت، سونے اور مادی وسائل پر مشتمل ہوں، ان کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر جہاں بلند رُتبہ عطا کیا وہاں بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد کیں۔ اس لیے انسان کا انسانی اقدار اپنانا اور انھیں رائج کرنا، اس کے نائب مقرر کیے جانے کا لازمی و منطقی نتیجہ ہے۔

اسلام نے صرف انسان کی نفسیاتی اورنظریاتی رہنمائی تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے پائیدار اور مستقل بنانے اوررائج کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی ضروری قرار دیے ہیں۔ روزانہ کی عبادت یعنی نماز کو صرف اسی لیے فرض قرار دیا گیا ہے کہ انسان کو ان اخلاقی اصولوں کو اپنانے کی عملی ترغیب دی جائے اور اس کا شعور اس سے آگاہ رہے کہ کوئی اعلیٰ ہستی ہے جو اس کے ہرعمل پر ہر لحظہ نگاہ رکھتی ہے۔

  • معاشی نظریات :اسلام کے معاشی نظریات کو جب قانون کی شکل دی گئی تو اس کا نتیجہ مسلمان قوم میں امدادِ باہمی کی صورت میں رُونما ہوا۔ سرمایہ و محنت پر ان قوانین کا اطلاق اس لیے ضروری تھا کہ مادی ترقی اس کے بغیر ناممکن ہے اور مسلمان مادی ترقی کی قدروقیمت سے بھی آگاہ تھے۔ اسلام کی نظر میں صرف خدا ئے جبار و خالق ہی تمام دُنیاوی اشیا کا واحد مالک ہے۔ انسان دُنیا میں خدا کا نائب ہے۔ اس لیے اس کی املاک کا مالک نہیں بلکہ صرف امانت دار ہے۔ لہٰذا امانت داری کے فرض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے لازمی ہے کہ ان تمام اشیا کا جو اس کی تحویل میں ہیں، مناسب اور اس طرح فائدہ بخش انتظام کر ےکہ امانت داری کے اصول پر ضرب نہ لگے، یعنی ایمان داری اور دیانت داری کا خیال رکھے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اسے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان اشیا کے نفع کو اپنے کام میں لائے،اس لیے اس کا فرض ہے کہ اس پاک ذات خالق و جبار کا شکریہ اداکرے۔

امانت داری کے عقیدے کی وجہ سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ مثبت کے ساتھ ساتھ منفی پہلو بھی رکھتے ہیں، یعنی امرونہی دونوں پہلو لیے ہوئے ہیں۔ وہ احکام جن کی بجاآوری کا حکم دیا گیا ہے درج ذیل ہیں:

            ۱-         زکٰوۃ: یعنی ہر سال اپنے سرمایے کا کچھ مقررہ حصہ ضرورت مندوں کے لیے خرچ کرنا۔

            ۲-         انفاق یا خیرات: اس کا عمل زکوٰۃ سے وسیع پیمانے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ سرمایے کا وہ حصہ ہے جو خوشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے اور سماجی و قومی فلاح و بہبود پر لگایا جاتا ہے۔

            ۳-         سرمایـے کو کارآمد بنانا: یعنی قومی دولت میں اضافے کے لیے اور خود نفع حاصل کرنے کے لیے سرمایے کو کام میں لگانا۔ اسلام سرمایے کو دباکر رکھنے اور حصولِ دولت میں اس سے کام نہ لینے کے سخت خلاف ہے اور قانون کی رُو سے ایسا سرمایہ ضبط کیے جانے کے لائق ہے۔

اور وہ کام جنھیں نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے،درج ذیل ہیں:

            ۱-         اجارہ داری: اسلام اس سے بچنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس کا مطلب سرمایے کو قوم اور معاشرے کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔

            ۲-         استحصالِ زر:اسلام سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کے بھی خلاف ہے۔

            ۳-         تعیش اور کنجوسی: عیش پر حد سے زیادہ خرچ کرنا یا کنجوسی سے کام لینا اور سرمایہ جمع کرنا بھی ناجائز ہے۔ اسلام دونوں کی متوازن صورت کو پسند کرتا ہے۔

جہاں تک محنت کا سوال ہے، اسلام ایسی محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جو اپنے اور قوم کے لیے حصولِ دولت پر صرف ہوتی ہے۔وہ کاہلی اور مفت خوری کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ ہرمسلمان  کا فرض ہے کہ وہ اپنے لیے اور قوم کی خاطر کسی نہ کسی مفید کام میں مصروفِ عمل رہے۔ ایسا عمل، عبادت میں شامل ہے۔ وہ بُرائی کی طرف مائل نہیں ہوسکے گا کیونکہ وہ ہروقت عالم الغیب کی نگاہوں میں رہے گا اور اسے اس بات کا شعور ہوگا۔اسلام، انسان کے بلند رُتبہ ہونے کا قائل ہے۔ اس لیے قرآن و سنت کی رُو سے مزدور کو چند ٹکوں سے خریدا نہیں جاسکتا بلکہ برابر کا حصہ دیا جاتا ہے۔

اگر ان معاشی اصولوں کو اپنایا جائے تو ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد پڑے گی، جو موجودہ سوسائٹیوں سے درج ذیل معاملات میں مختلف ہوگی:

  • سرمایے کے حصولِ دولت کے لیے صرف کرنا اور صرف دولت کے معیار و ضرورت کو مدنظر رکھنے کا انتظام کرنا
  • دولت کی مساویانہ تقسیم
  • طبقاتی مراتب کی حدبندی ختم کرنا تاکہ ایک طبقہ اتنا نہ گر جائے کہ مشکل اور تنگ دستی میں زندگی کے دن کاٹے اور دوسرا بغیر محنت کے عیش و عشرت میں مگن رہے۔ اقلیت کی پانچوں گھی میں ہوں اور اکثریت محروم و نامراد رہے۔

یہ صاف ظاہر ہے کہ اگر ان معاشی نظریات کو قانونی شکل دے کر رائج کیا جائے، تو متضاد انسانی مفادات کے باوجود معاشی توازن پیدا کیا جاسکتا ہے اور اسلامی مملکت کے اس کے علاوہ دوسرے مقاصد بھی آسانی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، اور انسانی معاشرے کی فلاح وبہبود کے منصوبے کامیاب ہوسکتے ہیں۔

  • سیاسی نظریات :مملکت کے ڈھانچے کے لیے اسلام ایسے بنیادی اصول پیش کرتا ہے، جو زمانے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتے اور وسعت پیدا کرسکتے ہیں۔ اسلام، سیاسی تنظیم کے خلاف نہیں بلکہ ہرقوم میں ایسی تنظیم کو ضروری قرار دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے: ’’تم میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو معروف کو رائج کرے اور لوگوں کو بُرائی سے روکے‘‘۔ عربی اصطلاح ’المعروف‘ اپنے اندر وسیع معانی رکھتی ہے۔ اس میں وہ تمام اسلامی قوانین اپنی جزئیات سمیت شامل ہیں، جو سوسائٹی کی بھلائی کے لیے بنائے گئے ہیں اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ لفظ ’بُرائی‘ یا عربی اصطلاح ’المنکر‘ میں بھی وہ تمام اُمور آجاتے ہیں، جنھیں اسلام ناجائز قرار دیتا ہے اور اسے سوسائٹی کی اصلاح، بھلائی اور ترقی کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے۔

منتظمین کی جماعت کے لیے اسلام ایک عالمگیر اصول پیش کرتا ہے اور وہ ہے الشوریٰ، یعنی باہمی مشورہ۔ عوام کی رائے ہر معاملے میں لینا ضروری ہے، خواہ اس کا تعلق حاکم کے انتخاب سے ہو یا حکومت کی تنظیم و مملکت کی تعمیر سے، یا اس کے اغراض و مقاصد سے، لیکن کسی بھی صورت میں حاکم مطلق العنان نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے اس ضابطے کو اگر آج مغربی مفہوم میں سمجھا جائے تو وہ یہ ہے کہ حاکم عوام کے سیاہ و سفید کا مالک نہیں ہوسکتا، کیونکہ سب کا حقیقی حاکم صرف اللہ ہی ہے۔ قوم کا فردخواہ اس کا تعلق رعیت سے ہو یا حکومت سے، ایک جیسا رُتبہ رکھتا ہے اور دونوں پر ایک جیسی اور برابر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جو گروہ یا قوم اپنی رائے سے حکمرانوں کا انتخاب کرتی ہے، اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ حکام کے احکام کو جائز یا ناجائز قرار دیں۔ اور حکومت کے تمام محکمے جب تک انھیں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق خیال کرکے وہ صحیح قرار نہ دیں، اس وقت تک ان احکام پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ اس طرح پوری قوم کو احساس ہوجاتا ہے کہ حقیقی حاکم صرف اللہ ہی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان، حکام کا حکم نہیں مانتا بلکہ اپنی قوم کا یا دوسرے معنوں میں خدا کا حکم بجا لاتاہے۔

مجلس مشاورت، اسلام کا اہم و لازمی قانون ہے۔ اس قانون کی اہمیت و رُتبہ اس بات سے واضح ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کو جنھیں کہ وحی آتی تھی، یہ حکم دیا گیا تھا کہ صحابہ سے دُنیاوی اُمور میں مشورہ کیا کریں۔ اسلام میں حکومت کسی انسان کی، خواہ وہ خلیفہ ہو یا صدر و گورنر، تسلیم نہیں کی جاتی بلکہ اللہ ہی حاکم اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ چیز مغربی مفکرین کے اس نظریے کو جھٹلاتی ہے کہ اسلامی حکومت سخت گیر اور متعصب حکومت ہے۔

وہ جماعت جس کے ذمے المعروف کا حکم دینا اور المنکر سے روکنا ہے۔ اس کی کیسے تنظیم کی جائے ، وہ اپنے احکام کس طرح منوائیں اور اگر ایسی جماعت کو منظم کرلیا جائے اور وہ اپنے احکام بھی جاری کرنے لگے تو کیا قوم کے تین گروہ نہیں بن جائیں گے:

  • ایک تو احکام دینے والا
  • دوسرا حکم ماننے والا اور
  • تیسرا جھگڑے کی صورت میں ان احکام کو جائز یا ناجائزقرار دینے والا؟ اور پھر یہ کہ ان گروہوں کی کیسے تنظیم کی جائے اور اس کی جزئیات سے کیسے عہدہ برآ ہوا جائے؟

ایسے سوالوں کا جواب اسلام نے انسانی فہم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ زمانے اور مقام کی مناسبت سے جیسے درست سمجھے کرے، جس طرح حالات اجازت دیں اور جیسا مقامی قوم کا مزاج تقاضا کرے اسی کے مطابق ان چیزوں کی تنظیم کرے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُسے قرآن و سنت کو نہ بھولنا چاہیے۔ اس کی عقل و فہم قرآن و سنت کی روشنی میں جو مناسب اور صحیح راستہ سمجھتی ہے اس کو اختیار کرے۔

اسلام نے انسانی ذہن کی نشوونما اور ترقی کے لیے بہت کچھ کیا ہے، حتیٰ کہ عقائد تک کو اسی نظر سے پیش کیا ہے۔ اللہ کے وجود اور اُس کی وحدانیت، روزِ قیامت اور روزِ جزا، جب کہ انسان اپنے اعمال کا حساب دے گا، ان تمام کوعقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اس کا طریقۂ ترغیب عقلی دلائل ہیں۔

عقل و فہم میں وسعت و گہرائی پیدا کرنے کی خاطر اسلام علم کا حاصل کرنا (خواہ وہ کہیں سے بھی ملے) ضروری بلکہ فرض قرار دیتا ہے، تاکہ فرض کی ادائیگی سے اُسے یہ احساس ہو کہ وہ اللہ کے قریب آگیا ہے اور اس کی نظر میں عزیز ہے۔ چند کتابوں تک علم کو محدود سمجھنے کے بجائے دُنیا کی ہرشے سے علم (خواہ وہ عبرت کی صورت میں ہو) حاصل کرنا چاہیے۔ اسلام دُنیا کے بحربے کنار کی گہرائیوں سے دولت علم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے اور جب انسان دیکھتا ہے کہ اس مالک الاملاک نے دُنیا کی تمام اشیا اس کے لیے بنائی ہیں، تو اس کی اعلیٰ و برتر ہستی پر اس کا اعتقاد اور مضبوط ہوجاتا ہے۔ قرآنِ پاک اپنے ارشادات میں ہمیشہ جہالت اور جاہلیت پرلعنت بھیجتا رہا ہے اور مسلمانوں کے علم حاصل کرنے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا رہا ہے۔

  • مملکت کی تعمیر و ترقی کے لیے فقہائے اسلام کا معیارِ تنقید وضع کرنا: اسلام نے عقل و فہم سے کام لینے کی جو تلقین کی ہے ،اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ فقہا نے قرآن وسنت کی روشنی میں معیار تنقید کی ایسی کسوٹی وضع کی، جو مذہبی رسوم کے علاوہ اسلام کے مختصر لیکن بنیادی اصولوں کو ماحول کے مطابق ڈھال سکنے کے بارے میں صحیح رہنمائی کرسکتی تھی۔ اس طرح سوسائٹی کے تمام معاشی، اخلاقی اور سیاسی متعلقہ قوانین وقت و مقام کا ساتھ دینے کے قابل ہوگئے۔

اس معیار تنقید و تجزیہ نے الٰہی قوانین کو جامد بنانے کے بجائے حرکی قوت عطا کی۔ چونکہ انسان تیزی سے مادی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور دُنیا بھی ہرلحظہ متغیر ہے، اس لیے اسلام نے بھی اس دوڑاور تبدیلی کا ساتھ دینے کی خاطر اپنے قوانین کو نئے رنگ میں رنگنے کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی کہ وہ اپنے بنیادی مقاصد سے دُور نہ چلے جائیں۔

اس کسوٹی یا معیارِ تنقید کو ہم ’مطابقت‘ یا ’قیاس‘، ’استصلاح‘ یا ’کارآمد و عمدہ استعمال‘ کا نام دیتے ہیں۔ سوسائٹی کی فلاح و بہبود کے لیے اور اسے ضرر رساں عناصر سے پا ک کرنے کے لیے ہم اسی مفہوم کے دوسرے تنقیدی اصول بھی استعمال میں لائیں گے۔

لیکن بدقسمتی سے ان معیارِ تنقید کے اصولوں کو بنیادی نظریات کے لیے مسلسل استعمال نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے اسلامی نظریۂ مملکت ارتقائی منازل طے نہ کرسکا۔ نتیجہ یہ کہ مسلم مملکتیں بہت جلد زوال کا شکار ہوگئیں، اور مسلم سوسائٹی بے جان و جامد ہوکر رہ گئی اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس کا الزام، اپنے اور پرائے، غلط راہوں پر چلنے والے مسلمانوں کے بجائے اسلام کے سر تھوپ دیتے ہیں۔

  • اسلام کے بنیادی اصولوں کو عملی شکل دینے کی پہلی کوشش :بہرحال، پھر بھی اسلام کے خلفائے راشدینؓ نے مملکت کی بنیاد انھی اصولوں پر رکھی، اور ان کی پابندی بڑی احتیاط سے کی اور اخلاقیات، معاشیات و سیاسیات کو جدا جدا کام میں لانے کےبجائے ان میں کامل اتحاد قائم رکھا۔ ابتدائی سوسائٹی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ چند ترقی یافتہ عناصر کو بھی شامل کرلیا اور نئی اصلاحات عمل میں لےآئے۔

مملکت کے صدر یا خلیفہ کا انتخاب بااثر ووٹوں سے ہوتا تھا۔ اس طریقۂ انتخاب کو جدید اصطلاح میں ’الیکشن‘ کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت الیکشن کا کوئی باقاعدہ لائحہ عمل تجویز نہیں کیا گیا تھا کیونکہ کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔

خلیفہ مملکت کے انتظامی اُمور میں خودمختار نہ تھا بلکہ الشوریٰ کے ذریعے یا جدید اصطلاح میں پارلیمنٹ کے ذریعے اس کے اختیارات محدود کر دیئے گئے تھے۔ لیکن آج کل کی طرح مجلس کی پیچیدہ اور طویل کارروائی تک نوبت نہیں آتی تھی۔ الشوریٰ کی سادی و مختصر صورت اور دوسرے اصولوں کی ہیئت و عمل اس وقت کی تمام ضروریات کو پورا کر رہا تھا، اور یہ اُس زمانے میں ایک جدید ترین اور انفرادیت کا حامل نظام تھا۔ اس دور کے مسلمان،اللہ کی عبادت کے مفہو م سے پوری طرح آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ قانون کی لاٹھی سب کے لیے ایک ہی ہے، خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو ، کسی رُتبے کا ہو یا کسی رنگ کا ہو اور انصاف سب کے لیے ہے۔ آزادیٔ خیال اور آزادیٔ تقریر و تنقید ہر ایک کو مساویانہ طور پر حاصل تھی۔ چونکہ وہ اخلاقی اقدار کے پرستار تھے اور اس کے اُصولوں پر سختی سے عمل کرتے تھے، اس لیے دُنیا کی حرص و ہوس سے دامن بچائے رکھتے تھے اور رشوت ستانی جیسی اخلاقی بُرائیاں جو ہوسِ دُنیا کا نتیجہ ہوتی ہیں اور سوسائٹی کی جڑیں کھوکھلی کردیتی ہیں، ان کے نزدیک نہ پھٹکتی تھیں۔

  • اصولوں کی عمومیت کی وجہ سے متوقع خطرے سے بچاؤ  کی صورتیں: ہم نے سماجی زندگی کے متعلق اسلام کے سیاسی، معاشی و اخلاقی نظریات کی کچھ وضاحت کردی ہے۔ یہاں پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ان کی حقیقی قدروقیمت کیا ہے اور ان اصولوں پر حاوی عالم گیریت کا معیار کن کن مستقل خطرات کو جنم دیتا ہے؟

اس کی حقیقی قدروقیمت کا اندازہ اس سے ہوجائے گا کہ یہ نہ تو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کا کوئی مخصوص طریقۂ کار پیش کرتا ہے اور نہ اسے ایسا مستقل اور اٹل بنادیتا ہے کہ آنے والی نسلیں اس میں اپنے فہم و علم کے مطابق تبدیلی پیدا نہ کرسکیںاور نئے حالات و مسائل سے نپٹ سکیں۔ اس طرح عام اور بنیادی اصول پیش کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ انسان حالات کے مطابق جو طریق ہائے کار مناسب سمجھیں، اسی کے مطابق ان کو لاگو کریں۔ ان اصولوں کی یہ تبدیل ہونے والی یا حرکی خاصیت ثابت کرتی ہے کہ وہ ایسے الٰہی قوانین ہیں، جو ہر زمانے اور ہردور میں ہرجگہ قابلِ عمل ہیں۔

  • اسلامی نظریۂ مملکت کے مذہبی تقاضوں کا مختصر جائزہ :ان اصولوں کی عمومیت کو اس لیے خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کے طریق عمل کی وضاحت نہیں کی گئی۔ یہ چیز اس وقت تو قابلِ برداشت تھی، جب کہ ابھی ابتدائی خلفا کا دور تھا یا ابتدائے اسلام کا زمانہ تھا، لیکن بعد میں جب مملکت وسیع ہوئی اور کئی متضاد مفادات، مسلم معاشروں کی زندگی میں داخل ہوئے اور اس کی وضاحت کی ضرورت محسوس کی گئی کہ انھیں کس طریق سے حالات کے مطابق ڈھالا جائے؟ مختصر اصول جن کی نہ خاص حالات کے مطابق کوئی تخصیص کی گئی ہو اور نہ ان کے مقاصد کی وضاحت کی گئی ہو اور نہ نتائج بیان کیے گئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اصولوں کے بارے میں حکمران طبقے کے لیے اپنی اسلامی توضیح و تشریح پیش کرنا آسان ہوجاتا ہے اور اکثر ممالک میں اسلامی اصولوں کا ایسا ہی حشر ہوتا آیا ہے۔ دوسری جانب عوام کی اس معاملے میں کم فہمی اور عدم دلچسپی، بدنیت حاکموں کے لیے مددگار اور معاون ثابت ہوئی اور اُنھوں نے دھوکے یا غلط تاویلات اور توضیحات سے یا پھر طاقت سے جمہوری اصولوں کو مطلق العنانی و شہنشاہیت میں تبدیل کردیا۔

اخلاقی و معاشی اصولوں کا بھی یہی حشر ہوا۔ مختلف طبقوں کو مدغم کرنے یا ختم کرنے کا اصول جو بیک وقت اخلاقی و معاشی حیثیت رکھتا تھا، اس کو کبھی عملی جامہ نہ پہنایا گیا۔ عالم گیر اخوت اور حملہ آور کا مل کر مقابلہ کرنے کے اصول جو سیاسی ہونے کے علاوہ اخلاقی بھی تھے، ہمیشہ نظرانداز کیے جاتے رہے۔ نہ کوئی خاص انجمن یا مجلس ہی بنائی گئی، جو ان بنیادی اصولوں کو صحیح طور پر عمل میں لاسکے اور ان کی وضاحت کر سکے۔ اسلامی تاریخ میں اس قسم کے روح فرسا واقعات کا بیان مل جاتا ہے کہ جس وقت مسلمان عثمانی ترکوں کے تحت مشرقی یورپ کو تاراج کر رہے تھے اور وی آنا کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ بالکل اسی وقت بنواُمیہ کو اندلس میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔

اسلامی نظریہ مملکت سے متعلق چند دینی تقاضوں کا مختصر بیان: اسلامی نظریۂ مملکت صحیح معنوں میں اس وقت عمل میں آسکتا ہے، جب کہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:

  • اخلاقی، معاشی و سیاسی باہم متعلقہ اصولوں کا اتحاد قائم رہے۔
  • اور ان بنیادی و مختصر اصولوں کی وضاحت کر دی جائے کہ یہ نئے مسائل کا کس طریق سے ساتھ دے سکتے ہیں اور انھیں حالات و زمانے کے مطابق کیسے ڈھالا جانا چاہیے، اورپھر یہ کہ اس عمل میں جس طرح فقہا نے قرآن و سنت کی رہنمائی قبول کی، اسی طرح ہمیں ان کی روشنی میں کس طرح آگے بڑھنا چاہیے؟

 

  • اسلام کے دستور کے جدید اسلامی آئین پر اثرات :یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مُردہ قوم نے انگڑائی لی ہے اور مسلمان مندرجہ بالا سچائیوں کو پانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ متعدد مسلم مملکتوں کا آئین نئے آئینی رجحان کی غمازی کرتا ہے۔ ان مملکتوں کے قوانین تمام تو نہیں لیکن اکثر اسلام کے ان بنیادی اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ سیاسی، معاشی و اخلاقی قوانین کا حسین امتزاج واضح کردیتا ہے کہ اسلام کو رہنما تسلیم کیا گیا ہے۔

یہ اسلام کے وہ بنیادی و نمایاں اصول ہیں، جو ہم نے مغربی اصولوں کے مقابلے میں بیان کیے ہیں۔ یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ مغربی مفکرینِ سیاست مذہب و معاشیات کی وحدت کے بجائے ان کے الگ الگ انفرادی طریق کار کو پسند کرتے ہیں۔ اگرچہ سماجی تباہی و بربادی سے مجبور ہوکر فرانس (۱۹۴۶ء)، جرمنی (۱۹۴۷ء) اور اٹلی (۱۹۴۹ء) کے قوانین نے سماجی و معاشی اصولوں کو ملا دیا تھا، لیکن پھر بھی وہ اسلامی قوانین سے مختلف ہیں۔ اسلامی دستور میں احکام کی پابندی کا انحصار حکومت کی طاقت کے بجائے انسانی شعور و ضمیر پر ہے۔ مسلمان کا ضمیر، الٰہی قوانین کا پابند ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ گارنٹی ہے۔

  • مملکت کا مادی نظریہ :اب یہاں مملکت کی تعمیر کے لیے ان نمایاں مادی عناصر کا مختصراً تجزیہ پیش ہے، جن کا تذکرہ پہلے کیا جاچکا ہے، مثلاً علاقہ جو جغرافائی حدود رکھتا ہو۔ ایک قوم جو ان حدود میں رہتی ہو اور ایک حکومت جو اس علاقے میں صاحب ِ اختیار ہو۔

پھر یہ بات بھی بیان کی جاچکی ہے کہ اسلام ان تینوں مادی عناصر کو ان کے اتحاد ثلاثہ کی صورت ہی میں قبول کرسکتا ہے۔ چونکہ اسلام کو مملکت کے ڈھانچے پر اسلامی رنگ چڑھانا تھا، اس لیے اس نے اخلاقی، سیاسی اور معاشی اتحاد ثلاثہ پر بھی زور دیا اور قومیت کے بارے میں اس کا نظریہ دوسروں کے نظریات سے زیادہ وسیع اور ان سے زیادہ انسانی اقدار کو لیے ہوئے ہے۔

  • اسلامی نقطۂ نگاہ میں قومیت کے عناصر کی ترتیب :اسلام کے عالم گیر اخوت و مساوات کے اخلاقی اصول اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ مختلف مملکتوں کو قومیت کی بنیاد پر استوار کیا جائے اور صرف اختلافِ قومیت کی وجہ سے دوسرے ملک کو تاخت و تاراج کیا جائے، یا نسلی امتیازات کی آڑ میں دوسری نسلوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا جائے، یا ایک ملک یا قوم ذاتی مفادات کے پیش نظر دوسری قوم یا ملک کو ہڑپ کر جائے۔

ان اصولوں نے انسان پر واضح کر دیا کہ خدا نے اسے تخلیق کیا اور زمین پر اپنا نائب مقرر کیا تو اس نے کسی ایسے امتیاز کو روا نہ رکھا۔ چونکہ انسان خدا کی مخلوق ہیں، اس لیے سب ایک ہی رُتبے کے مالک ہیں۔ اس کی نگاہ میں کوئی برتر یا کمتر نہیں ہے۔

قرآن پاک میں آیا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا‘‘۔ ’انسان‘ سے یہاں مراد کوئی مخصوص علاقے کا انسان نہیں بلکہ بغیر تفریقِ قوم و علاقہ بیان کیا گیا ہے۔ اس اصول کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ تمام دُنیا کے انسان بھائی بھائی ہیں اور ان پر اس زمین میں اللہ تعالیٰ کے نائب ہونے کے فرائض اور ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔

قرآن میں اس مساوات کے متعلق کئی آیات ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے کہ ’’دوسرے انسانوں سے نرمی برتو اور رحم سے پیش آئو تاکہ اللہ کی رحمت تم پر ہو‘‘۔ اس میں تمام انسانوں سے ایسے سلوک کی ہدایت کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی تخصیص نہیں کی گئی۔ پس اسلام کا مقصد اس دُنیا میں یہی ہے کہ عالم گیر اخوت کو رائج کرے اور مختلف قوموں میں یک جہتی اور وحدت پیدا کرے۔ مسلم قومیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ محدود حدود میں گھری ہوئی ہے۔ اس میں تنگ نظری نہیں بلکہ فراخ دلی ہے۔ یہ ہرغیر ملک و قوم کے ساتھ برابر کا سلوک کرتی ہے، اور تعصب برتنے کے بجائے اللہ کی زمین کے آخری کونے میں رہنے والے انسان سے بھی محبت کرتی اور خوش آمدید کہتی ہے۔

مختصراً اسلام میں عالم گیر قومیت کا مطلب کئی قومیتوں کا اتحاد ہے۔ جزئیات مل کر ایک عالم گیر وحدت کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور اسلام کثرت میں وحدت کا جلوہ دیکھتا ہے، جب کہ مقامی قومیت اس لیے ہے تاکہ وہ آئینی حیثیت سے پابند ہوکر ایک گھر بنا کر رہیں اور اس کی مقامی و جغرافیائی ضروریات کے مطابق باہمی معاملات و مسائل کا تصفیہ کریں۔ اسلام مقامی قومیت کو صرف اسی نقطۂ نظر سے مملکت کی تعمیر میں ایک لازمی عنصر خیال کرتا ہے۔

جب ہم اسلامی نظریۂ قومیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں:

  • نتائج:غیر مسلم اقلیتوں کو مسلمان اکثریت کے ساتھ ساتھ ایک ہی ملک کا باشندہ ہونے کی حیثیت سے مقامی قومیت کے حقوق مل جاتے ہیں۔ جب تک وہ اس ملک کے آئین کو تسلیم کرتی رہتی ہیں اور ان پر عمل پیرا رہتی ہیں، انھیں برابر کے حقوق ملتے رہتے ہیں۔ ایک ہی آدم کی اولاد ایک ہی علاقے کے رہنے والے کی حیثیت سے انھیں مسلمانوں جیسے شہری حقوق دیے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اسلام خواہ کوئی کسی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو، اس کے حقوق تلف نہیں کرتا۔ اسلام تغیرات زمانہ اور اس کے ارتقا سے نہیں گھبراتا بلکہ اُسے خوش آمدید کہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ہرنئے حالات و مسائل سے ہم آہنگ و عہدہ برآ ہوسکتاہے۔ اسلام تبدیلیٔ مذہب کے لیے جبروتشدد کو ناجائز قرار دیتا ہے۔
  • اسلام روایت پرستی اور قومی تعصب کی جڑوں کو کاٹتا ہے کیونکہ یہ مختلف اقوام میں تباہ کن مقابلے کو جنم دیتے ہیں، جس سے کہ ارتقا کی رفتار سُست پڑجاتی ہے۔ یہ عمل اس زمین کی مخلوق کے لیے کسی طرح بھی سودمند نہیں ہوسکتا۔ اس چیز کے قلع قمع کے لیے اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ خدا نے جب انھیں ملک عطا کیا ہے تو شکرانے کے طور پر اس کی عبادت کریں، خیرات دیں، المعروف کو رائج کریں اور المنکر سے لوگوں کو روکیں۔ ایسے حکم کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذہبی تعصب کی بدولت جو جنگیں وجود میں آتی ہیں ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

اس کے برخلاف مغربی اقوام نے نسل و رنگ کے امتیاز کو اپنایا اور اس برتری کی آڑ میں دُنیاوی حرص و ہوس کی تسکین کی اور کئی ملکوں کو غلام بنا کر لوٹا۔ پچھلی جنگوں کی بنیاد صرف یہی دُنیاوی لالچ تھا جس نے کہ نوآبادیاتی اور شہنشاہی نظام کو جنم دیا۔ اس قسم کی قومیت کو پروفیسر آرنلڈ ٹائن بی مشہور تاریخ دان نے بہت بُرا خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم صرف اسی وقت بچ سکتے ہیں اور سلامتی کی اُمید رکھ سکتے ہیں، جب کہ دُنیا میں ایک عالم گیر قومیت کا شعور بیدار ہوجائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ تنگ نظر قومیت پرستی اس دُنیا کو تباہی و بربادی کے گہرے گڑھوں میں پھینک کر دم لے گی‘‘۔

  • چونکہ اسلام عالم گیر اخوت اور پُرامن تعلقات کا علَم بردار ہے۔ اس لیے اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ کم از کم مسلم ممالک جو ایک ہی عقیدہ اور تقریباً ایک ہی جیسا طرزِزندگی رکھتے ہیں، ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ان اصولوں کو اپنانے کا عملی ثبوت پیش کریں۔ اگر مسلم ممالک ان اصولوں کو اپنا لیں تو ان کی مصنوعی حدبندیاں ختم ہوجائیں گی اور ان کی خارجہ پالیسی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجائے گی۔ ان کا باہمی تعاون صرف کانفرنسوں اور نشست و برخاست تک محدود ہوکر نہ رہ جائے بلکہ باقاعدہ، مؤثر اور باعمل تنظیم و لائحہ عمل بنا کر اس کی سختی سے پابندی کی جائے اور اسلام اور اسلامی مملکتوں کی بنیادیں مضبوط کی جائیں۔ جب تک ایسی تنظیم نہ کرلی جائے جو ہردور اور ہر قومیت کے لیے موزوں ہو، اس وقت تک اس کو عملی صورت دینے سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔
  • حاصل کلام :یہ صرف ایک مختصر سا خاکہ ہے، جو اسلامی مملکت کے مادی و غیرمادی نظریات کو پیش کرتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کا حقیقی جائزہ صرف اسی وقت لیا جاسکتا ہے، جب کہ اس کی جزئیات کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا جائے۔ بہرحال ہمارے لیے یہ لازمی امر ہے کہ ہم اجتہاد سے وسیع پیمانے پر کام لیں اور قرآن و سنت کی کسوٹی کے تحت اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں آئین اور قوانین مرتب کریں۔