یہ ایک ناقابل فراموش منظر تھا ۔ میران شاہ بنوں شاہراہ پر ہزاروں گاڑیاں آہستہ آہستہ رینگ رہی تھیں ۔ ٹرکوں ، بسوں ، ٹرالیوں ،منی بسوں ، کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار تاحد نظر لوگوں کا ایک اژدھام تھا جو اُمڈ پڑا تھا ۔ بوڑھوں ، نوجوانوں ،عورتوں اور بچوں کے چہرے بھوک و پیاس کی تکلیف سے کرب بلا کی مجسم تصویر بنے ہوئے تھے ۔ وہ مرد جن کے سروں پر مقامی وزیرستانی کالی دھاریوں والی پگڑی عزت و وقار کی علامت ہوتی تھی، اب ننگے سر ، پریشان حال ، دھول و مٹی سے اَٹے ہوئے تھے ۔ عورتیں کالی چادریں اوڑھے ہوئے نصف چہرہ چھپائے کسی پناہ، کسی سایے کی تلاش میں تھیں اور پھول سے سرخ و سفید بچے ، پچکے گال،کملائے چہروں کے ساتھ پانی کے لیے بلک رہے تھے۔۴۳ ڈگری سنٹی گریڈ کی شدیدگرمی میں ۱۸جون کا یہ دن یقینا ان لاکھوں انسانوں کے لیے قیامت کا دن تھا ۔
پاکستان کے سات قبائلی علاقوں میں سے ایک شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہو چکا ہے ۔۱۵جون کو اچانک پاک فوج کے دستوں نے زمینی کارروائی ،توپخانے سے گولہ باری اور فضائی بمباری شروع کر دی ۔ اس سے چند دن پہلے قبائلی جرگے کو بلا کر ان کو ۱۵دن کا الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ ۱۵دن کے اندر علاقے سے غیر ملکیوں اور دیگر مسلح افراد کو نکال باہر کریں وگرنہ سخت کارروائی ہو گی ۔ پھر وقت سے پہلے ہی عسکری کارروائی شروع کر دی گئی ۔ تین دن کے بعد کرفیو میں وقفہ دیا گیا اور لوگوں کو موقع دیا گیا کہ وہ محفوظ مقامات پر چلے جائیں ۔ چنانچہ لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر بے یارومددگار پیدل یا سوار انجان منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جن کو سواری میسر آئی وہ سوار ہو گئے اور جن کو نہ ملی وہ پیدل ہی چل پڑے ۔ مردوں اورعورتوں نے سروں پر سامان رکھا اور ہاتھوں میں چھوٹے بچوں کو اٹھایا ۔ بوڑھوں اور بچوں نے مال مویشی کی رسیاں ہاتھوں میں تھامیں اور اہل خانہ کے ساتھ اپنے محفوظ گھروں کوخیر باد کہتے ہوئے انجان منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔
پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ایک طویل عرصے سے مسلح گروہوں اور پاکستانی فوج کے درمیان جار ی جنگ کا شکار ہیں ۔ فاٹا میں سات قبائلی ایجنسیاں ، باجوڑ ،مُہمند ، اورکزئی ، خیبر ، کُرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں، جب کہ پاٹا میں سوات ،دیر بالا، دیر پایان ، بونیر اور شانگلہ کے اضلاع شامل ہیں جو خیبر پختونخوا کے نیم قبائلی علاقے ہیں ۔ اس کے علاوہ فرنٹیئرریجن کے نام سے بھی چھے اضلاع میں ایسے قبائلی علاقے موجود ہیں، جو ضلعی ایڈمنسٹریشن کے ماتحت ہیں، جن میں پشاور ،کوہاٹ ، لکی مروت ، بنوں ، ٹانک او رڈیر ہ اسماعیل خان شامل ہیں۔ ان علاقوں میں گذشتہ برسوں میں فوج نے پانچ بڑے اور کئی چھوٹے آپریشن کیے ہیں۔ جن تنظیموں اور مسلح گروہوں کے حامیوں کے خلاف یہ کارروائیاں کی گئی ہیں ان میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ، تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑے اور کئی مقامی مسلح مذہبی گروپ شامل ہیں ۔ ان علاقوں میں مسلح گروپوں کی موجودگی اور فعالیت کی ایک بڑی وجہ وہ کمزور قانونی او ر آئینی نظام ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے ان پر نافذ ہے ۔ اس نظام کو FCR،یعنی فرنٹیئرکرائمز ریگولیشن کہتے ہیں، جو کہ انگریزدور سے ایک کالے قانون کے طور پر چلا آرہا ہے ۔
۲۰۰۱ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے افغان سرحد پر اپنی فوجی چوکیا ں قائم کیں، تاکہ القاعدہ اور طالبان کی جو قیادت افغانستان سے پاکستان بھاگنے کی کوشش کر ے اس کو پکڑا جائے ۔ خاص طور پر تورا بورا،ا ٓپریشن کے دوران میں پاکستانی حکام نے سرحد عبور کرنے والے کئی اہم القاعدہ رہنمائوں کو پکڑا جن میں ابوزبیدہ ، رمزی وغیرہ شامل تھے ۔ البتہ اہم ترین شخصیات اسامہ بن لادن اور ان کے معاون ایمن الزواہری ان کے قابو میں نہ آئے ۔ اسی طرح حکومت نے ان غیر ملکی جنگجوئوں کو بھی نہ پکڑاجو روسی جارحیت کے خلاف جہاد کرنے افغانستان آئے تھے اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ ان میں ازبک ، چیچن اور عرب مجاہدین شامل تھے ۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی افواج نے یہ شکایت کی کہ پاکستانی علاقوں سے ان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں ، اس کا سدّ باب کیا جائے۔ اس طرح ۲۰۰۳ء میں پہلی مرتبہ پاکستان نے بڑی تعداد میں فوج( ۷۰؍۸۰ہزار )جنوبی وزیرستان روانہ کی جس کا مقصد یہ تھا کہ ان غیر ملکی جنگجوئوں کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامی محسود قبائلی عوام پر مشتمل لشکر کا بھی خاتمہ کرے جو نیک محمد وزیر کی قیادت میں ان کی پشت پناہی کر رہے تھے ۔ پشاور کے کور کمانڈر جنرل صفدر حسین کی قیادت میں اس کارروائی کو آپریشن ’کلوشہ‘ کا نام دیا گیا اور یہ ۲۶مارچ ۲۰۰۳ء کو مکمل ہوا ۔ نیک محمد کی ہلاکت کے بعد بیت اللہ محسود نے اس قبائلی لشکر کی کمان سنبھالی جس نے فروری ۲۰۰۵ء کو ’سراروغہ‘ کے مقام پر پاکستانی فوج کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد کچھ عرصے تک محسود علاقے میں نسبتاً امن رہا ۔ مارچ ۲۰۰۷ء میں بیت اللہ محسود نے کئی مسلح گروپوں کے انضمام کا اعلان کیا اور تحریک طالبان پاکستان کے نام سے نئی تنظیم بنائی ۔
جنوری ۲۰۰۸ء میں پاکستان نے جنوبی وزیرستان میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔ جس کا نام آپریشن ’زلزلہ‘ رکھا گیا ۔ اس آپریشن کے دوران میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کا انخلا ہوا تھا جن میں ۲لاکھ سے زیادہ مقامی قبائلی عوام شامل تھے ۔ اس آپریشن میں فوج کو جزوی کامیابی ملی ۔ اسی دوران تحریک طالبان کا دائرہ کار جنوبی وزیرستان سے دیگر قبائلی علاقوں میں پھیلتا چلا گیا اور خصوصاً باجوڑ ایجنسی میں فقیر محمد اور ضلع سوات میں ملا فضل اللہ اور صوفی محمد نے اپنی گرفت مضبوط کی ۔ اسی زمانے میں جہاں ایک طرف امریکا نے بغیر پائلٹ جنگی جہازوں، یعنی ڈرون حملوں کا قبائلی علاقوں میں آغاز کیا وہا ں تحریک طالبان نے بھی قبائلی علاقوں سے نکل کر ملک کے مختلف علاقوں میںمسلح کارروائیوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔
۹ستمبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی فوج نے باجوڑ میں ایک بڑی فوجی کارروائی آپریشن ’شیر دل‘ کے نام سے شروع کر دی جو قریباً ایک سال تک جاری رہی۔ بعد میں فوج نے مہمند ایجنسی کو بھی اس آپریشن میں شامل کیا ۔ اس فوجی کارروائی کے دوران بھی باجوڑ اور مہمند ایجنسی سے لاکھوں افراد بے دخل ہوئے اور انھوں نے دیر ، ملاکنڈ، پشاور اور چارسدہ میں پناہ لی ۔ رجسٹرڈ خاندانوں کی تعدادایک لاکھ ۵ہزار تھی۔
سب سے بڑا فوجی آپریشن ’راہِ حق‘ تھا جو جنوری ۲۰۰۹ئمیں سوات میں شروع کیا گیا اور بعد میں ضلع بونیر اور ضلع دیر کو بھی جزوی طور پر اس میں شامل کیا گیا ۔ اس آپریشن کی وجہ سے پاکستانی تاریخ کا سب سے بدترین انسانی انخلا وقوع پذیر ہوا جس میں ۳۰لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے اور انھوں نے خیبر پختونخوا کے قریبی اضلاع جن میں صوابی ، مردان ، چارسدہ اور پشاور وغیرہ شامل ہیں پنا ہ لی ۔ ایک خاصی تعداد ملک کے دیگر صوبوں پنجاب اور سندھ بھی منتقل ہوئی ۔ اس انسانی المیے کے دورا ن میں پاکستانی قوم نے زبردست انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کا مظاہر ہ کیا اور ان بے دخل ہونے والے پاکستانی بھائی بہنوں کی مدد کی ۔ جن اداروں نے قابل قدر سماجی خدمات سرانجام دیں ان میں الخدمت فائونڈیشن سرفہرست تھی۔
۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو پاکستان آرمی نے ایک او ر بڑی فوجی کارروائی آپریشن ’راہ نجات‘ کے نام سے ایک بار پھر جنوبی وزیرستان کو ہدف بناتے ہوئے کی۔ اس آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فضا ئیہ بھی شریک تھی ۔ اس کے علاوہ ٹینکوں کا بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوا ۔آپریشن کی کامیابی کو یقینی بناتے ہوئے بھارتی سرحد پر متعین دو انفینٹری بریگیڈ اور SSGکی بٹالین بھی استعمال کی گئیں ۔ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے ۔ سراروغہ، مکین اور لدھا کے علاقوں کو ہدف بنایا گیا ۔کل ۱۵بریگیڈ آرمی استعمال ہوئی ۔ جنوبی وزیرستان میں بڑی کامیابیوں کے دعوے کیے گئے ۔ لاکھوں افراد ایک بار پھر بے گھر ہوئے اور انھوں نے ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان ، لکی مروت ، کرک اور بنوں کے اضلاع میں پناہ لی ۔ رجسٹرڈ خاندانوں کی تعداد ۴۱ہزار۴سو۸۹تھی ۔
اس کے بعد کے سالوں میں تمام قبائلی ایجنسیوں میں فوج اور طالبان کے درمیان یہ کش مکش جا ری رہی ۔ اس دوران میں خیبر ایجنسی کی باڑہ تحصیل اور کرزئی ایجنسی، FR،کوہاٹ و دیگر مقامات پر فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ ان تمام فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہر علاقے سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں عام لوگ بے گھر ہوتے رہے ۔ معاشی تنگ دستی اور گھروں کی تباہی و بربادی نے پورے قبائلی علاقے کو ایک جہنم بنادیا۔ بچوں کی تعلیم کی بند ش اور دیگر سماجی معاشرتی برائیوں نے جنم لیا ۔ بدا منی اور قتل و غارت گری ایک معمول بن گئی ۔ بندوبستی علاقوں میں بم دھماکوں، خودکش حملوں ،پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر مسلسل حملوں نے پوری قوم کو ایک شدید عذاب اور اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ اس دوران میں قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جس میں املاک کی تباہی کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کی ہلاکت ہزاروں تک پہنچ گئی، جن میں معصوم بچے ،گھر وں میں مقیم خواتین اور امدادی کارکن بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
موجودہ آپریشن کو ’ضرب عضب‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ کافی عرصے کی تیاری اور پس و پیش کے بعد کیا جا رہا ہے ۔ کئی سالوں سے یہ امریکی مطالبہ تھا کہ شمالی وزیرستان میں بھر پور فوجی آپریشن کیا جائے ۔ ان کو تحریک طالبان کے ساتھ حقانی نیٹ ورک سے بھی شکایت تھی کہ افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف کارروائیوں میں ان کا اہم کردار ہے جس کا ہیڈ کوارٹر شمالی وزیرستان میں واقع ہے ۔ ایک طویل عرصے تک گومگو کی کیفیت رہی جس میں پاکستانی حکومت مسلسل امریکی دبائو میں رہی۔ اس دوران میں پاکستانی راے عامہ بھی فوجی آپریشن کو ناپسند یدہ قرار دیتی رہی۔ دینی و سیاسی جماعتوں کا بھی مطالبہ تھا کہ ایسا نہ کیا جائے ۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ایسے حالات و واقعات پیش آتے رہے جس سے راے عامہ بدلنا شروع ہوئی ۔ اس دوران میں طالبان سے مذاکرات کا ایک اہم فیصلہ بھی ہوا لیکن اسی دوران ہی اندازہ ہو گیا کہ فوجی قیادت مذاکرات کے حق میں نہیں۔ پھر بدامنی، دھماکوں اور حملو ں کے مسلسل ایسے خون ریز واقعات رُونما ہوئے جس نے راے عامہ کو متاثر کیا ۔ خاص طور پر کراچی ائر پورٹ پر حملے میں ازبک جنگجوئوں کو استعمال کیا گیا۔ اس نے آیندہ لائحہ عمل واضح کر دیا اور طبل جنگ بجا دیا گیا ۔ جو پارٹیاں پہلے سے آپریشن کے حق میں تھیں انھوں نے بغلیں بجائیں اور جو اس کے خلاف تھیں انھوں نے خاموشی اختیار کی اور بالآخر بھر پور فوجی آپریشن کا آغاز ہو گیا۔حسب ِتوقع امریکی حکومت نے اس آپریشن کی تائید کی اور کولیشن سپورٹ فنڈ سے اس کی مالی معاونت کا اعلان بھی کیا ۔
شمالی وزیرستان کا کُل رقبہ ۳ہزار ۷۰۷مربع کلومیٹر ہے جو بلند و بالا خشک پہاڑی سلسلوں اور دروں پر مشتمل ہے ۔ درمیان میں دریاے ٹوچی بہتا ہے ۔اس کی ۱۰تحصیلیں ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آبادی ساڑھے ۷ لاکھ ہے لیکن غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ۹سے ۱۰لاکھ کے درمیان ہے ۔ ایجنسی ہیڈ کوارٹر میران شاہ ہے جس میں ایک بڑا بازار ہے ۔ اس کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ دوسرا بڑا شہر میر علی ہے ۔ میر علی قریبی ضلع بنوں سے ۳۴کلومیٹر ،جب کہ میران شاہ ۶۱کلومیٹر پر واقع ہے ۔ شمالی وزیرستان کی آبادی اتمانزئی وزیر داوڑ قبائل پر مشتمل ہے، جب کہ چھوٹے قبیلوں میںگربز ،کارسیز ،سید گئی ،حراسین ،محسود ،بنگش وغیرہ شامل ہیں ۔ پیشہ زراعت ، ٹرانسپورٹ ، کاروبار ،مویشی پالنا اور افغانستان کے ساتھ کاروبار ہے ۔ بڑی تعداد میں لوگ بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے ہیں اور وہاں سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک خاصی آبادی متوسط درجے کی معاشی زندگی بسر کرتی ہے ۔ بالعموم یہ پُرامن علاقہ ہے اور لوگ باہمی جنگ و جدل اور اسلحے کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں ۔یہاں پر جرگہ سسٹم موجود ہے اور تمام تنازعات کے فیصلے مقامی روایات اور شریعت کے مطابق کیے جاتے ہیں ۔
۲۰۱۴ئمیں اس سے پہلے دو مرتبہ چھوٹے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہوا تھا جب فضائی بمباری کی گئی تھی اور میر علی کے بازار اور بعض دیگر علاقوں کو ہدف بنایا گیا تھا جس میں میران شاہ ، بویا اور غلام خان کے علاقے شامل ہیں ۔ اس وقت دونوں مرتبہ ۲۰،۲۵ ہزار افراد بنوں پہنچے تھے لیکن اس بار پوری کی پوری آبادی نکل پڑی ہے ۔
۱۸جولائی تک رجسٹریشن کے اعداد و شمار درج ذیل ہیں:متاثرین کی کل تعداد ۹لاکھ ۹۳ہزار ۱۶۶ہے۔ اس میں بچوں کی تعداد ۴لاکھ ۵۲ہزار ۳سو ۶۹ہے ۔ کل خاندان جو رجسٹرڈ ہوئے ہیں ان کی تعداد ۹۰ہزار ۸سو ۳۶ہے ۔ گویا سوات آپریشن کے بعد یہ دوسرا بڑا آباد ی کا انخلا ہے ۔
شمالی وزیرستان اور ضلع بنوں کے درمیان ایک نیم قبائلی علاقہ FRبنوں کہلاتا ہے ۔ اس میں فوج نے سید گئی کے مقام پر استقبالیہ کیمپ لگایا تھا جہاں افراد کی رجسٹریشن کی گئی ۔ اسی کے قریب بکاخیل میں ایک مکمل کیمپ بھی بنایا گیا جس میں کھلے میدان میں ۵۰۰کے قریب خیمے لگائے گئے ہیں۔ لیٹرین وغیرہ کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کیمپ میں بہت کم افراد نے سکونت اختیار کی ہے اور اس کی اب صرف نمایشی حیثیت ر ہ گئی ہے جس کو سرکاری زعما کے دوروں کے دوران فوٹو سیشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ بے دخل افراد کو رجسٹریشن کے وقت ۱۲ ہزارروپے نقد دیے جا رہے ہیں۔ ۲۷جون کو وزیر اعظم پاکستان کے دورے کے موقعے پر انھوں نے رمضان کے دوران فی خاندان ۴۰ہزار روپے کا اعلان کیا ۔ لیکن اس کی تقسیم کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا جا سکا ۔ اب ایک چینی موبائل کمپنی زونگ کے ذریعے اس رقم کو تقسیم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے لیکن کم ہی لوگ اس سے استفادہ کر سکے ہیں۔ حکومت پنجاب نے بھی اضافی ۷ہزار روپے کا اعلان کیا ہے جو زونگ Time Pay کے ذریعے تقسیم ہوں گے ۔ متاثرین نے شمالی وزیرستان سے نکلنے اور رجسٹریشن کے عمل سے گزرنے کے بعد اپنی مرضی سے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کا رخ کیا اور جس کو جہاں سہولت میسر آئی وہاں چلا گیا ۔ بنوں کے سرکاری اسکولوں میں چند کیمپ موجود ہیں۔ لیکن وہاں سے بھی لوگ دوسرے مقامات پر جارہے ہیں ۔
بین الاقوامی اداروں میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے خشک خوراک کے پیکٹ تقسیم کیے ہیں، جب کہ ICRC نے بھی نان فوڈ آئیٹم اور طبی شعبے میں امداد ی سرگرمیاں کی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں صوبائی محکمہ صحت نے مریضوں کو صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کا بندوبست کیا ہے ۔ ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ جہاں پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بھر پور جنگی کارروائی میں مصروف ہے وہاں امدادی سرگرمیاں بھی اسی کے زیرانتظام ہو رہی ہیں اور سویلین ادارے اس کام سے باہر نظر آتے ہیں ۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ پاکستان کے سول ادارے اور سماجی بہبود کے محکمے اگر ایسے اہم موقعے پر اپنا کردار ادا کرنے سے محروم رہیں تو پھر ان کا مقصد وجود ہی ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔
الحمد للہ ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم الخدمت فائونڈیشن نے اول روز سے متاثرین آپریشن کی امداد کا بیڑا اٹھایا اور اب تک پورے جوش و خروش سے سرگرم عمل ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق صاحب نے آپریشن شروع ہونے کے فوراً بعد المرکزاسلامی پشاور میں ایک مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ فوجی آپریشن پر تحفظات کے باوجود ہم متاثرین کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کریں گے اور جماعت کے تمام کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ فوراً بنوں پہنچ کر اپنے بھائی بہنوں کی مدد کریں ۔ چنانچہ الخدمت فائونڈیشن کے مرکزی صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن ، صوبائی صدر نورالحق اور فاٹا الخدمت کے صدر اول گل آفریدی کی قیادت میں الخدمت کے رضاکاروں اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے موقعے پر پہنچ کر کام کو سنبھالا ۔ سیدگئی کے مقام سے ان کو آگے جانے کا موقع نہیں دیا گیا لیکن اس جگہ سے بنوں شہر تک جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگائے گئے ۔ یہاں آنے والے مہمانوں کو پانی کی بوتلیں اور تیار کھانا دینا شروع کیا گیا۔ الخدمت فائونڈیشن کی ۲۵؍۳۰ ایمبولینسوں نے اس ریلیف آپریشن میں اہم کردار ادا کیا اور انھوں نے مریضوں کو اٹھانے کے ساتھ ان بوڑھوں عورتوں اور بچوں کو بھی ایمبولینس میں سوار کر کے شہر تک پہنچایا جو میلوں پیدل چل کر سید گئی تک پہنچے تھے ۔ ان کیمپوں میںان جانوروں کے لیے پانی اور چارے کا بندوبست بھی کیا گیا جو متاثرین اپنے ساتھ پیدل چلا کر لائے تھے ۔ معلوم ہوا کہ ایسے کئی جانور راستے میں بھوک و پیاس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے تھے ۔ تینمقامات پر میڈیکل کیمپوں کا بھی انتظام کیا گیا ۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسو سی ایشن (پیما) نے بھی طبی سہولتیں بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ضلع امیر مفتی صفت اللہ اور الخدمت فائونڈیشن ضلع بنوں کے پر عزم صدر عزیز الرحمن قریشی اور ان کی ٹیم نے شبانہ روز محنت کر کے ہزاروں متاثرین کی خدمت کی ۔ صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان بھی اس پورے عرصے میں کام کی نگرانی کرتے رہے ۔
بنوں کے اسکولوں میں متاثرین کو آباد کیا گیا اور وہاں ان کو تیار کھانا پہنچایا گیا۔ جن کو ٹرانسپورٹ کی ضرورت تھی فراہم کی گئی ۔ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور متاثرین کو سحر و افطار کے لیے کھانے پینے کی اشیا درکار تھیں ۔ اس لیے الخدمت فائونڈیشن نے فوری طور پر خوراک کے راشن پیک تیار کر کے تقسیم کرنے شروع کیے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ۱۰ہزار سے زائد خاندانوں کو راشن مہیا کیا جا چکا ہے ۔ الخدمت کے ساتھ جن اداروں نے اس امدادی مہم میں ساتھ دیا ان میں کراچی کی عمیر ثنا فائونڈیشن ،ترکی کی جانسو اور یارد ملی و دیگر کئی ادارے شامل ہیں۔ پاکستان کی جن دیگر تنظیموں نے قابل ذکر کام کیا ہے اس میں فلاح انسانیت بھی شامل ہے ۔
پورے پاکستان سے جماعت کی تنظیموں نے فنڈز جمع کیے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی نے بھی عطیات روانہ کیے ہیں۔ حلقہ خواتین اور الخدمت خواتین ٹرسٹ بھی سرگر م عمل ہے لیکن کام بہت بڑا ہے ۔ ایک ملین آبادی کی ضروریات پوری کرنا جو پوری طرح بے یار و مدد گار ہیں۔ اپنے گھروں ، آمدن کے ذرائع ، مال و متاع سے محرو م ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے سامان زیست فراہم کرنا کسی کے بس میں نہیں، اور معلوم نہیں کہ کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بس ایک قادر مطلق ذات ،رب کریم ،خالق کائنات کا سہار ا ہے ۔ وہی عطا کرنے والا ہے اسی پر بھروسا ہے۔
کسی علاقائی امتیاز، جغرافیائی اساس، لسانی انفرادیت یا نامعلوم تاریخی اَدوار و آثار کی نسبت سے عمل میں نہیں آیا تھا۔ پاکستان کا قیام: کلمہ طیبہ، اسلامی تہذیبی وحدت، اور اسلامی قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔لیکن تشکیل پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد دیگر مشکلات کے ساتھ مملکت خداداد کو ایک ہمہ پہلو نظریاتی حملے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ حملہ تحریکِ پاکستان کی مسلمہ نظریاتی اساس کا رُخ موڑنے، اسے علاقائی لسانی جھمیلوں میں اُلجھانے اور اس کا تعلق ماضی بعید کے نامعلوم اَدوار سے جوڑنے کے بظاہر معصومانہ کھیل سے شروع کیا گیا ہے۔ مگر اس قدیم اور افسانوی تہذیب یا ثقافت کا اسلامی تہذیب و ثقافت، اوراسلامی فکرو طرزِ زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں بنتا۔ کچھ سادہ لوح لشکری بھی اپنی زبان، قلم اور فن کے ہتھیار لے کر اس ثقافتی حملہ آور فوج کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔ ان ثقافتیوں کو ابلاغی اور سیاسی کمک تقویت پہنچارہی ہے۔ اس طرزِفکر کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا کے کھنڈرات انسانی تاریخ کے عبرت کدے ہیں، ان سے نسبت جوڑنے والے انھی ثقافتی مضمرات کے حوالے سے یہاں پانچ مختصر مضامین یک جا پیش کیے جارہے ہیں، جن سے مسئلے کی نوعیت واضح ہوگی اور پتاچلے گا کہ ثقافت سے اظہارِ محبت کا اصل مقصد کیا ہے۔(مرتب: سلیم منصورخالد)
اُردو ادب کے ایک خوب صورت افسانے کی کہانی ایک ایسے گائوں کے گرد گھومتی ہے، جس کے باسی بارش کے پانی سے اپنی محدود زمینیں آباد کرتے ہیں۔ بارشیں رُک جائیں تو قحط سالی آجاتی ہے، جمع شدہ اناج سے گزربسر کی جاتی ہے، یا پھر کچھ عرصے کے لیے شہر کی جانب ہجرت کرکے محنت مزدوری سے پیٹ پالا جاتا ہے۔ بارانی علاقے کی اس زمین پر مٹی کے بہت سے بڑے بڑے ڈھیر ہیں، جنھیں ٹبے کہا جاتا ہے۔ ان ٹبوں کے بارے میں لوگوں کا یہ گمان ہے کہ یہاں کبھی انسان رہا کرتے تھے، شہرآباد تھے، لیکن وقت نے انھیں کھنڈر کردیا۔ قحط سالی کے زمانے میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم یہاں کے ایک ٹبے کے گرد پڑائو ڈالتی ہے اور گائوں میں سے چند لوگوں کو کھدائی کے لیے مزدور رکھ لیتی ہے۔ ایک فاقہ زدہ غریب شخص بھی ان مزدوروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ دن بھر کھدائی کے بعد وہ رات کو مزدوری لے کر گھر آتا ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ اسے لگتا ہے کہ اب غربت کے دن رخصت ہوگئے ۔ بیوی اکثر اس سے سوال کرتی ہے کہ تم وہاں کھدائی کرتے ہو، آخر وہ لوگ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ پہلے پہل تو اسے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ٹوٹے برتنوں کے ٹکڑے، سکّے یا کوئی اور استعمال کی چیز مل جائے تو فوراً اسے ماہرِ آثارِ قدیمہ کے سامنے لاکر پیش کردیا جاتا۔ وہ اسے صاف کرتا، ’ڈسٹلڈ واٹر‘ سے دھوتا اور اپنے سامنے رکھی ہوئی چیزوں پر ترتیب سے رکھ دیتا۔ مزدور اپنی کھدائی میں مصروف رہتے، جب کہ وہ بڑے بڑے محدب عدسوں کے ذریعے ان ٹھیکریوں کا بغور مطالعہ کرتا رہتا۔ کھدائی کا عرصہ طویل ہوتا گیا، ان چند مزدوروں کے گھر میں خوش حالی آگئی، لیکن اس مزدور کی بیوی کے سوال ختم نہ ہوئے۔ وہ پوچھتی: یہ لوگ پاگل ہیں، آخر کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ ان ٹوٹے ہوئے برتنوں سے انھیں کیا ملے گا؟ خود اس کی سمجھ میں بھی کچھ نہ آتا تھا تو بھلا وہ بیوی کو کیا بتاتا!
آخر اسے وہاں موجود ماہرین کی باتوں سے پتا چلنے لگا کہ یہ لوگ تین چار ہزار سال پرانے اس شہر میں بسنے والے لوگوں کے زیراستعمال اشیا کی تلاش میں ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایک بہت بڑا مٹکا ہے، جس کے گیارہ ٹکڑے دریافت ہوچکے ہیں اور بارہویں کی تلاش جاری ہے، تاکہ مٹکا مکمل ہوجائے۔ تلاش طویل ہوجاتی ہے، وہ ٹکڑا نہیں ملتا، مگر مزدوروں کا رزق چلتا رہتا ہے۔ اچانک شور اُٹھتا ہے کہ وہ ٹکڑا مل گیا۔ ٹکڑا لاکر اس بڑی سی میز پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایک دم خوشی و مسرت کی کیفیت میں ماہرین رقص کرنے لگتے ہیں۔ ان سب کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ معمول کے مطابق اگلے دن صبح مزدور کام پر آتے ہیں تو ماہرین کا سامان باندھا جا رہا ہوتا ہے، گاڑیاں تیار کھڑی ہوتی ہیں، وہ ان سب مقامی مزدوروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کچی سڑک پر دھول اُڑاتے غائب ہوجاتے ہیں۔
یہ شخص مایوس گھر واپس لوٹتا ہے۔ قحط سالی اب بھی قائم ہے۔ چند دن بچی کھچی آمدن سے گھر کا گزارا چلتا ہے، پھر فاقے شروع ہوجاتے ہیں۔ پریشان حال وہ شخص گھر کے صحن میں بیٹھا سوچوں میں گم ہے، بیوی اسے مزدوری ڈھونڈنے کے لیے کہتی ہے۔ کتنے دن اس لڑائی،ناکامی اور نامرادی میں گزر جاتے ہیں۔ نہ بارش برستی ہے، نہ مزدوری ملتی ہے اور نہ فاقے ختم ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ سخت پیاس کے عالم میں گھڑونچی پر رکھے ہوئے گھڑے کے پاس پانی پینے کے لیے آتا ہے۔ پانی پی کر گھڑا اُٹھاتا ہے اور اسے گھر کے باہر زور سے پٹخ دیتا ہے۔ بیوی غصے سے پاگل ہوجاتی ہے۔ کہتی ہے: ’ایک تو گھر میں پیسے نہیں، اُوپر سے تم نے پانی بھر کے لانے والا گھڑا بھی توڑ دیا‘۔ اس مزدور کا جواب ثقافت کے ٹھیکے داروں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑہے۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے: ’آج سے تین ہزار سال بعد جب یہ گائوں ایک ٹبہ بن چکا ہوگا تو ایسے ہی ماہرین آثارِ قدیمہ آئیں گے اور مزدوروں کو اس گھڑے کے ٹکڑوں کی تلاش میں لگائیں گے۔ یوں کتنے لوگوں کو مزدوری مل جائے گی‘۔
ثقافت کے رنگا رنگ منظر کی یہ کہانی دنیا میں ہر اس حکمران نے دہرائی ہے، جسے عوام کے دُکھوں سے کوئی دل چسپی نہ ہو، لیکن وہ چند دن کے میلوں ٹھیلوں میں ان کو مصروف کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا ہو۔ میکائولی نے اپنی مشہور عالم کتاب Prince (شہزادہ) میں بادشاہوں کو جو مشورے دیے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ بار بار میلوں، ٹھیلوں اور رنگارنگ تقریبات کا انعقاد کیا جائے تاکہ اس عرصے میں لوگ اپنی غربت و افلاس کے دکھوں کو بھول جائیں۔ پورا روم جب اپنی ترقی کے عروج پر تھا تو عام آدمی کی زندگی انتہائی تلخ اور مشکل تھی، لیکن اشرافیہ کے گھر کے فواروں میں بھی خوشبودار پانی استعمال ہوتا تھا۔ ان کے ہاں تہذیب و ثقافت کے نام پر ہروقت بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام ہوتا رہتا تھا، لیکن ان غریب عوام کو چند دن تقریبات کے کھلونے سے بہلانے کے لیے رومن کھیلیں منعقد کی جاتی تھیں، جن میں بگھیوں کی دوڑ کا مقابلہ سب سے بڑا تماشا ہوتا تھا۔ اس کے لیے دریاے نیل کے ساحلوں سے باریک ریت بحری جہازوں میں منگوائی جاتی اور اس بڑے اسٹیڈیم میں بچھائی جاتی۔ صرف یہی نہیں ، ہرسال تقریباً ۱۲۰۰ مجرموں کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈالا جاتا۔ ہاتھیوں، گینڈوں، بیلوں، چیتوں اور جنگلی سوروں کی لڑائیاں ہوتیں۔ ۲۰۰خوب صورت دوشیزائوں کو پاگل نوجوانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا۔ قیدیوں کو خوراک کھلا کر پالاجاتا، ورزش کروائی جاتی۔ پھر ان کو بھوکے شیروں سے لڑنے کو کہا جاتا۔ اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد بیٹھے یہ تماشا دیکھتے۔ جب تک جشن چلتا، لوگوں کو مفت کھانا ملتا۔ یہ چند دن ایسے گزرتے جیسے پورے روم میں کوئی دُکھ نہیں، بھوک ہے نہ غربت، ننگ ہے نہ افلاس۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اس زمانے کے دانش ور، قلم کار، شاعر اور ادیب ان کھیلوں کو روم کی ثقافت کا مظہر قرار دیتے، اسے ترقی کی بنیاد اور مذہبی جکڑبندیوں سے آزادی کا زینہ تصور کرتے تھے۔
لیکن ان رنگا رنگ تقریبات کے مدح خوانوں کے درمیان ایک فلاسفر سینیکا دی ینگر بھی تھا۔ وہ ان ثقافتی بے ہودہ تقریبات کا مخالف تھا۔ اسے اپنے اردگرد بھوک، ننگ، افلاس اور غربت نظر آتی تو چیخ اُٹھتا۔ وہ سمجھتا کہ یہ سب اس بھوکی ننگی قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ وہ ان تقریبات میں شرکت نہ کرتا بلکہ اپنے گھر میں بیٹھا ان دنوں میں روتا رہتا۔ اس کے بہت سے مداح پیدا ہوگئے، یہاں تک کہ روم کے وزیراعظم کے عہدے کے برابر فرد جسے ٹرابیون کہتے تھے، وہ بھی اس کے مداحوں میں شامل ہوگیا۔ بادشاہ کو فلسفی سینیکا کی مقبولیت کا علم ہوا تو اسے دربار میں طلب کرکے اس سے پوچھا گیا کہ: ’تم ان ثقافتی تقریبات کو کیا سمجھتے ہو؟‘ اس نے کہا: ’یہ ایک مذاق ہے، جو غربت میں پسی ہوئی قوم کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘۔ بادشاہ نیرو نے حکم دیا کہ: ’تمھاری سزا یہ ہے کہ تم بھرے دربار میں اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو قتل کرو۔ دربار کے سناٹے میں وزیراعظم نے اس کی سفارش کی، لیکن ثقافت کے اس ’دشمن‘ اور روم کی ’تہذیبی روایات کے مخالف‘ کی جان کیسے بخشی جاسکتی تھی۔ اور ۶۵عیسوی میں سینیکا نے بھرے دربار میں جبری خودکشی کرلی۔ لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ رنگارنگ تقریبات روم کے بادشاہوں کو بدترین انجام سے نہ بچاسکیں۔ ان پر شمالی افریقہ کے تہذیب سے ناآشنا قبائل ایسے چڑھ دوڑے کہ بڑے بڑے ثقافتی مراکز کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور آج وہ عبرت کے نشان کے طور پر موجود ہیں۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔ کسی کو ،موئن جودڑو‘(مرجانے والوں کے ٹبے) میں میلے لگانے کا شوق ہے تو کوئی جشنِ بہاراں اور سپورٹس فیسٹیول مناتا ہے۔
انجام سے بے خبر لوگ کیا تہذیب سے ناآشنا قبائل کا انتظار کر رہے ہیں؟
پاکستان اسلام کے نام پر تخلیق ہوا تھا ، اس لیے یہاں صرف اسلام کے نام پر سیاست ہونی چاہیے تھی، لیکن یہاں فوج کے نام پر سیاست ہوئی، سیکولرزم کے نام پر سیاست ہوئی، سوشلزم کے نام پر سیاست ہوئی، صوبوں کے نام پر سیاست ہوئی، زبان کے نام پر سیاست ہوئی۔ یہاں تک کہ اس چیز کے نام پر سیاست ہوئی جسے عرفِ عام میں ’کلچر‘ کہا جاتا ہے اور جس کو سب سے زیادہ غیرسیاسی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کلچر کے نام پر سیاست کی پہلی اور سب سے بڑی مثال مشرقی پاکستان [بنگلہ دیش] ہے، جہاں بنگالی زبان کو کلچر کی سب سے بڑی علامت بناکر پیش کیا گیا۔ کہا گیا کہ بنگالیوں کو اپنی زبان سے بڑی محبت ہے، اس لیے کہ بنگالی رابندرا ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کی زبان ہے۔ اس سلسلے میں نسل پرست بنگالیوں کا تعصب اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ۱۹۴۸ء میں جب قائداعظم نے کہا کہ:’پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اُردو ہوگی‘ تو بنگالیوں کے ایک چھوٹے سے طبقے نے ہی اس کے خلاف احتجاج کیا۔
انھوں نے اس سلسلے میں اس بات تک پر غور نہ کیا کہ قائداعظم کی اپنی مادری زبان گجراتی ہے، وہ خود نہ اُردو رسم الخط میں اُردو پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی ساری تعلیم و تربیت انگریزی کی فضا میں ہوئی ہے۔ قائداعظم اس تعلیم و تربیت کے باعث انگریزی سے اتنے مانوس تھے کہ وہ اپنی اہلیہ تک سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ ان حقائق کے باوجود قائداعظم کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی۔ قائداعظم کی اُردو سے یہ محبت شخصی معاملہ نہیں تھی۔ قائداعظم کو تین حقائق کا اِدراک تھا: انھیں معلوم تھا کہ عربی اور فارسی کے بعد دین اسلام اور ادب کا سب سے بڑا سرمایہ اُردو کے پاس ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ اُردو برصغیر میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ انھیں اس امر کا پورا پورا احساس تھا کہ اُردو نے دو قومی نظریے کے بعد پاکستان کی تخلیق میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، مگربنگالیوں نے ان میں سے کسی بات کا اِدراک نہ کیا۔ وہ بنگالی بنگالی کرتے رہے اور ان کی زبان کی جائز محبت، زبان کی پوجا میں تبدیل ہوگئی۔ پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ آج بنگلہ دیش کی عملاً سرکاری زبان بنگالی نہیں انگریزی ہے اور بنگلہ دیش کے کروڑوں شہری بھارتی فلموں کے حوالے سے اُردو کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی کلچرپرستی ہے جو بانیِ ملک کی بات نہیں سنتی مگر ’مجبوری‘ اور ’فلموں‘ کی بات سنتی ہے۔
پاکستان میں کلچر کی سیاست کی ایک مثال الطاف حسین ہیں، جن کی اصل شکایت معاشی تھی، مگر ان کی مفاد پرستی کی سیاست نے معاشی شکایت کو کلچر کی سیاست میں ڈھال دیا۔ اُردو پورے برعظیم کی زبان تھی، مگر الطاف حسین اسے صرف مہاجروں کی زبان بناکر کھڑے ہوگئے۔ کلچر کی سیاست نے انھیں کُرتا پاجامہ پہناکر کھڑا کردیا، مگر الطاف حسین کی اُردو پرستی بھی جھوٹی تھی اور ان کا کُرتا پاجامہ بھی محض ایک دھوکا تھا۔ الطاف حسین کا اصل مسئلہ ان کی اپنی شخصیت تھی۔ چنانچہ ان کی سیاست سے پہلے مہاجر سمندر کی علامت تھے، لیکن الطاف حسین کی سیاست نے انھیں کنویں کی علامت بنادیا۔ اس علامت سے بوری بندلاشوں اور بھتّا خوری کا کلچر برآمد ہوا۔ اس سے ’پُرتشدد تہذیب‘ نے جنم لیا۔ اس سے الطاف حسین کی نام نہاد ’جلاوطنی کے تمدن‘ نے سراُبھارا۔ اس سے ’ٹیلی فونک خطاب‘ کی ’موسیقی‘ پیدا ہوئی۔ اس سے دوسری ثقافتوں کی نفرت کے آرٹ نے جنم لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کلچر کی سیاست اسی کا نام ہے؟
پاکستان میں کلچر کی سیاست کی تازہ ترین علامت بلاول زرداری ہیں۔ انھوں نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو Banistan [پابندیوں کا گھر] قرار دیا اور فرمایا کہ یہاں شادی کے عشائیوں سے لے کر یوٹیوب تک ہرچیز پر پابندی یا Ban لگا ہوا ہے۔ لیکن بلاول بھٹو کی تقریر کی اصل بات Banistan کا تصور نہیں، ان کی تقریر کی اصل بات کلچر کی سیاست ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ٹیلی ویژن کے ایک میزبان نے آصف علی زرداری کے لباس کے ’نمایشی پہلو‘ پر اعتراض کیا تھا تو آصف علی زرداری کی ثقافتی رگ پھڑک اُٹھی تھی اور انھوں نے صوبہ سندھ میں سندھی ٹوپی کا دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ بلاول زرداری نے ۱۵دسمبر۲۰۱۳ء کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ فروری ۲۰۱۴ء کے پہلے دو ہفتوں میں سندھ میں ’سندھ کلچرل فیسٹیول‘ منایا جائے گا۔ اس موقع پر بلاول نے سندھ کی ثقافت سے جس ’تعلق‘ کا مظاہرہ کیا، وہ ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکا ہے۔ بلاول جب سندھ کے کلچر سے وابستگی کا اعلان کررہے تھے تو پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کی شرٹ پر ’سپرمین‘ کی علامت بنی ہوئی تھی اور بلاول زرداری انگریزی میں تقریر کر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچرکی علامت شلوارقمیص، ٹوپی اور اجرک ہے یا پینٹ شرٹ؟سندھ کے ہیرو شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست ہیں یا سپرمین؟ اور سندھ کی زبان سندھی ہے یا انگریزی؟ ہمیں بلاول کے پینٹ شرٹ پہننے، سپرمین کی علامت کو سینے سے لگانے اور انگریزی بولنے پر اعتراض نہیں، لیکن سندھی کلچر، سندھی کلچرکی رٹ لگانے والے کو کم از کم سندھ کے کلچر سے اتنی وابستگی کا مظاہرہ تو کرنا ہی چاہیے تھا کہ وہ سندھی کلچر کے حوالے سے برپا ہونے والی تقریب میں اپنی زبان اور لباس سے ’سندھی‘ نظر آتے۔ لیکن بلاول زرداری کا مسئلہ سندھی کلچر تھوڑی ہے۔ ان کا مسئلہ تو سندھی کلچر کے نام پر سیاست ہے۔
اس کا ایک ثبوت تقریب میں کی گئی بلاول زرداری کی تقریر ہے۔ انھوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہماری تاریخ یونانیوں اور رومیوں کی طرح باثروت ہے۔ ہم دریاے سندھ کی قابلِ فخر تہذیب کے امین ہیں۔ ہم اپنی ثقافت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا چاہتے ہیں، تاکہ دنیا کے سامنے ہماری اصل شناخت واضح ہو، نہ کہ تاریخ کی وہ درآمد شدہ اور خیالی داستان جو ہمیں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے‘‘۔
غور کیا جائے تو بلاول زرداری نے اپنی تقریر میں سندھ کے اسلامی ثقافتی ورثے اور تحریکِ پاکستان سے متعلق اس کے کردار کی دھجیاں اُڑا کر اسے دریاے سندھ میں بہا دیا ہے۔ سندھ کی ثقافتی تاریخ کے چار حصے ہیں: سندھ موئن جودڑو کی تہذیب کا مرکز ہے۔ سندھ راجا داہر کی سرزمین رہا ہے، لیکن سندھ باب الاسلام ہے اور سندھ تحریکِ پاکستان کا ایک اہم مرکز ہے۔ اِس وقت سندھ کے اسکولوں میں باب الاسلام اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ پڑھائی جارہی ہے، تو کیا بلاول کے نزدیک یہی تاریخ درآمد شدہ Fiction یا خیالی ہے؟ اگر ایسا ہے تو بلاول کھل کر اعلان کریں کہ وہ موئن جودڑو اور راجا داہر کی تہذیب کے امین ہیں، باب الاسلام اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ کے امین نہیں ہیں۔
خالص ثقافتی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بلاول کا بیان ہولناک ہے۔ کلچر ایک کُل یا whole ہے، اور جب کوئی کسی خطے کے کلچر کو ’اپنا‘ کہتا ہے، تو وہ اس کے کُل کو اپنا کہتا ہے۔ اس اعتبار سے بلاول کو کہنا چاہیے تھا کہ ہم ایک جانب موئن جودڑو کی تہذیب کے امین ہیں اور دوسری جانب باب الاسلام کی تاریخ کے امین ہیں اور تیسری جانب ہم تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے ثقافتی تجربے کے امین ہیں۔ مگر کلچر پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں صرف موئن جودڑو یاد آیا اور وہ باب الاسلام اور قیامِ پاٍکستان کے بعد کی ثقافت کو بھول گئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہی ان کی ’ثقافتی ایمان داری‘ ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ موئن جودڑو کی جو تہذیب سندھ کا مُردہ ماضی ہے، وہ تو بلاول زرداری کا ثقافتی ورثہ ہے،اور باب الاسلام کی جو تاریخ سندھ کا زندہ حال ہے، وہ بلاول بھٹو کی تقریر میں جگہ پانے میں ناکام ہے، بلکہ وہ اسے ’خیالی تاریخ‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔ بلاول نے سندھ کلچرل میلے میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانے کا بھی اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچر میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ وہ اہلِ سندھ کو یہ بھی بتا دیتے تو اچھا ہوتا۔
سندھ میں کلچرازم کے نعرے پر بیناشاہ نے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تبصرہ کرتے ہوئے کلچر پرستوں کو بجاطور پر یاد دلا دیا ہے کہ سندھی ثقافت کی علامتیں مثلاً ٹوپی اور اجرک ترسیل کا ذریعہ ہیں، بجاے خود معنی نہیں۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ کلچر معنی سے زندہ رہتا ہے، معنی کی ترسیل کے آلے سے نہیں۔ مثال کے طور پر سندھی ٹوپی میں ماتھے کی جگہ پر موجود نشان دراصل مسجد کی محراب سے آیا ہے، اور مسجد کی محراب حرب سے ماخوذ ہے۔ یعنی سندھی ٹوپی کی محراب دراصل اسلام کے تصورِ جہاد کی علامت ہے۔ مگر یہ بات بلاول کیا بڑے بڑے سندھی قوم پرستوں کو معلوم نہیں۔ اُن کے لیے تو سندھ کی ثقافت، سیاست کا آلہ ہے اور بس۔ لیکن کلچر کی سیاست اِس وقت صرف سندھ تک محدود نہیں۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے حال ہی میں بھارتی پنجاب کا دورہ فرمایا ہے۔ اس دورے میں انھوں نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے درمیان زبان، کھانے پینے کے معاملات مشترک ہیں۔ حیرت ہے کہ میاں شہباز شریف کو دونوں ثقافتوں کی ’بنیادی چیزوں کے امتیازات‘ تو یاد نہیں، البتہ ’ثانوی چیزوں کی مماثلتیں‘ انھیں خوب نظر آرہی ہیں۔ میاں شہباز شریف اس دورے میں سکھوں کے ساتھ کتنے گھل مل گئے تھے، اس کا اندازہ اخبار میں شائع شدہ ہونے والی اس تصویر سے ہوتا ہے جس میں وہ دو سکھ بزرگوں کے درمیان موجود ہیں۔ اس تصویر کے لیے کیپشن وضع کیا جائے تو وہ اس فقرے کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا: ’اس تصویر میں شہباز شریف کون ہے؟‘
ایسی ہی ایک تصویر بلاول کے حوالے سے بھی شائع ہوئی ہے۔ اس تصویر کے لیے مناسب ترین کیپشن یہ ہے: ’اس تصویر میں سندھی کلچر کہاں ہے؟‘
’کہہ مُکرنی‘ کے معنی ہیں: ایک ہی سانس میں ایک بات کہنا اور پھر اس سے مُکر جانا۔ شاعری میں کہہ مُکرنیوں کے خالق اور خاتم امیرخسرو گزرے ہیں، لیکن سیاست میں کہہ مُکرنی ہمارے سیاست دانوں کے کردار کی شکل میں مجسم نظر آتی ہے، جس کا مظاہرہ یوں تو اہلِ وطن تشکیل پاکستان سے لے کر آج تک دیکھتے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، لیکن تازہ واردِ بساط سیاست عزیزمن بلاول زرداری نے جو مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنی جگہ فقیدالمثال ہے۔ میری مراد عزیزم کے اُس اعلان سے ہے، جو انھوں نے تحفظ ِ ثقافت سندھ مہم کی تمہیدی تشہیر کے سلسلے میں کیا تھا، جو یہ تھا کہ: حیا ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور ہم اپنے اس پروگرام میں، اپنے اس قیمتی ورثے کے تحفظ کی مہم چلائیں گے‘۔ اس قیمتی ثقافتی ورثے یعنی حیا کی پاس داری کے عزم کا اظہار بھی عزیزم نے شایانِ شان طریقے پر اس انداز سے کیا تھا کہ عزیزم، قائداعظم کے سپید سنگِ مرمر کے مقبرے کے پس منظر میں سفید براق شلوارقمیص اور اس کے کنٹراسٹ میں سیاہ واسکٹ میں ملبوس تھے۔ زبانِ حال سے مزار قائد سے فرمایش تھی کہ: ’گواہ رہنا، گواہ رہنا‘۔
بادی النظر میں عزیزم کا یہ پُرعزم اعلان خوش آیند و مسرت افزا تھا کہ وہ اس اعلیٰ اخلاقی قدر کے پالن کا اعلان کر رہے ہیں، جسے یوں تو ایک فطری داعیے کے طور پر ہرقوم اور تہذیب نے اپنایا ہے، لیکن نبی کریم صیل اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کے مطابق ایمان کا ایک شعبہ ہے جس کے بغیر کسی کلمہ گو کا ایمان ہی نامعتبر رہتا ہے۔ نیز آپؐ نے نفسِ انسانی کو رہوار کی لگام قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’جب تو حیا سے بیگانہ ہوجائے تو جو چاہے کرتا پھر‘‘… یعنی جب یہ لگام ٹوٹ جائے تو ایمان و اخلاق کی ہرقدر کو پامال کرتا ہوا گناہ و نافرمانی کے جس عمیق گڑھے میں لڑھکتا ہوا گرنا چاہے گر جا، کوئی رکاوٹ مانع نہ ہوگی۔ اس فکری پس منظر میں عزیزم کے اس اعلان اور طرزِاعلان کو دیکھ اور سن کر حیرت انگیز خوشی ہوئی، لیکن چھٹی حِس صبااکبرآبادی مرحوم کا یہ شعر گنگناتی ہوئی محسوس ہوئی ؎
آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم
چھٹی حس کی تائید حافظے نے کی کہ برخوردار کے والد مکرم جب پیپلزپارٹی کے دورِاقتدار ثانی میں کچھ دن لندن یاترا سے واپس آئے تو لوگ یہ قطعہ پڑھتے سنائی دیے تھے کہ:
رقیبوں کو یہ خوش فہمی ہوئی تھی
کہ اگلا سامنے سے ٹل گیا ہے
میں اپنی آنکھ بنوانے گیا تھا
مرے دیدے کا پانی ڈھل گیا ہے
اور پھر ایک موقع پر جب عہدشکنی کا الزام لگا تو مذکورہ مرض کی توثیق اس دنداں شکن و دنداں نما فقرے سے کی تھی: ’’معاہدہ ہی تو تھا، کوئی قرآن و حدیث تو نہیں تھا‘‘۔ حالانکہ قرآن ہی میں ہے: ’’عہدوپیماں کے ایفا کے بارے میں لازماً بازپُرس ہوگی‘‘۔ دو روز بعد صاحبزادے کے اعلانِ تحفظ حیا کی حقیقت طشت ازبام ہوگئی۔
ہوا کی لہروں کے توسط سے ٹی وی چینل کی اسکرین پر مہم کی مہورت کی جھلکیوں میں شائقین نے وہ حیاپرور نظارہ دیکھا جس کے بارے میں نمایندے کا آنکھوں دیکھا حال ان الفاظ میں گوش گزار ہوا کہ ’’پھر اسٹیج پر مغربی طرز کے رقص نے سماں باندھ دیا‘‘۔ یہ تھا سندھی ثقافت کے قیمتی ورثے حیا کا پالن۔شاعر نے کہا تھا ؎
تھی حیا مانع فقط بندِ قبا کھلنے تک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ، ایسا کھلا
جھلکیوں میں مصرع ثانی گویا متشکل ہوکر سامنے تھا۔ کہاں حیا کے قیمتی ورثے کے تحفظ کا اعلان و ادعا، اور کہاں یہ حیاسوز منظر۔ ہم اعلان و اظہار کے اس کھلے تضاد ہی کو ایک اخلاق باختہ کہہ مُکرنی کا شاہکار سمجھ رہے تھے کہ سندھ کلچرل فیسٹیول کی تقریبات کا نصف اخباری صفحے کا اشتہار نظر سے گزرا، جس کا عنوان ہے: ’’تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا‘‘۔ ۸فروری کی تقریب میں معروف فن کاروں کے نام کے ساتھ، مقبول حیا پرور گروپ ’بے غیرت بریگیڈ‘ کا نام بطور خاص شامل تھا۔ اس اشتہار میں کمی تھی تو بس موئن جودڑو سے نکلنے والے دیوداسی رقاصہ کے مجسمے کی تصویر کی، جس کو اشتہاری مونوگرام ہونا چاہیے تھا۔
موئن جودڑو کے مقام پر عظیم الشان اسٹیج اور شائقین و شائقات کی محفل جمی دیکھ کر یاد آیا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ کے ہمراہ ایک ایسی ہی عذابِ الٰہی کا نشانہ بننے والی بستی سے گزر رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا تھا: ’’ا س نزولِ عذابِ الٰہی کے مقام سے تیزی سے گزرو‘‘ (کہ تم پر بھی اس عذاب کا سایہ نہ پڑجائے)۔ عزیزم نے موئن جودڑو کے ساتھ جس موردِ عذاب بستی ہڑپہ کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا بیڑا اُٹھایا ہے، اس کے بارے میں ہمارے کرم فرما انور مسعود نے کہا ہے ؎
عبرت کی اِک چھٹانک میسر نہ ہوسکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے
اب عزیزم حیاپروری کے نام پر اس عبرت آموز کلچر کے ’احیا‘ کا الف مخفی رکھ کر اسے ’تحفظ ِحیا‘ مہم کا نام دے رہے ہیں اور ہم قوم کی نوجوان نسل تک علامہ محمد اقبال کی یہ نصیحت پہنچانا چاہتے ہیں ؎
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
[یہ تحریر اب سے ۴۷برس پہلے اپریل ۱۹۶۸ء میں ماہ نامہ چراغ راہ، کراچی میںشائع ہوئی تھی۔ جن دوبزرگوں کے حوالے مضمون میں شامل ہیں ، وہ دونوں اردو کے مشہور ادیب تھے۔ یہاں مقصد افراد کو زیر بحث لانا نہیںبلکہ زیر مطالعہ موضوع پر تبصرہ ہے۔ مرتب]
ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا کہنا یہ ہے کہـ:’ پاکستانی ثقافت کا بہت گہرا تعلق اس کی دھرتی سے ہے اور اس کا کچا مواد وہی ہے، جو آج سے تقریباً پانچ چھے ہزار برس قبل وادیِ سندھ کی تہذیب میں تھا۔‘ اُن کی نگاہ میں:’ آج کی پاکستانی تہذیب بھی وہی ہے جو ہڑپہ، موئن جو داڑو اور ٹیکسلا کی تہذیب تھی‘۔ اُن کے خیال میں :’وادیِ سندھ کی تہذیب کے مظاہر آج کی پاکستانی تہذیب میں نہ صرف یہ کہ موجود ہیں، بلکہ بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔‘ سوال یہ ہے کہ وہ مشترک مظاہر کون سے ہیں؟ ا ٓغا صاحب کا ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’…مثلاً موئن جو داڑو کی تختیوں پر جس بیل گاڑی کی تصویر کندہ ہے، وہ نہایت معمولی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر چل رہی ہے۔ پھر ان تختیوں پر جس باریش آدمی کی شبیہ نظر آتی ہے، وہ آج بھی ہمارے کھیتوں میںہل چلاتا اورالغوزہ یا بانسری بجاتا مل جاتا ہے… اس تہذیب کے شہروں میںگلیوں کا نظام بھی آج کے بیش تر پرانی وضع کے دیہات اور شہروں میں رائج ہے۔ گندم، جو وغیرہ کو اُگانے اور اُسے محفوظ کرنے کے طریقے بھی وہی ہیں۔ یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے اور اپنے ہل کو دو بیلوں کی مدد سے چلاتے تھے۔ اس ہل میںکوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ بیلوں کی تعداد میںہی کمی بیشی ہوئی ہے۔ یہی حال اس لباس کا ہے جس میں تہہ بند(تہمد)، موئن جودڑو اور ہڑپہ کے زمانے میں بھی بڑی اہمیت حاصل تھی، اور جو آج کے پاکستانی معاشرے میں بھی سب سے زیادہ مروج ہے … تہ بند ایک ٹھیرے ہوئے زرعی معاشرے کی تخلیق ہے، جہاں حرکت فطرت کہ آہستہ روی سے ہم آہنگ ہے۔ چونکہ پاکستانی کلچر مزاجاً زرعی ہے اس لیے ہمارے ہاں تہ بند ہی اصل لباس ہے اور یہی لباس موئن جودڑو اور ہڑپہ کے زمانے میں بھی رائج تھا… وادیِ سندھ کے لوگ زراعت پیشہ تھے، گندم اور کپاس اگاتے تھے، نہاتے اور الغوزے بجاتے تھے۔ ان کے بچے انھی کھلونوں سے کھیلتے تھے، جن سے ہمارے آج کے دیہاتی بچے کھیل رہے ہیں۔ ان کے ہاں مٹی کے برتن بنانے اور انھیں استعمال کرنے کا رجحان مسلط تھا، جو آج کے پاکستانی دیہات اور شہروں میں بھی موجود ہے… گایوں، بھینسوں سے ان کی وابستگی نہایت مضبوط تھی۔ یہ ان کے معاشرے میں بڑی اہمیت رکھتی تھیں… فی الحقیقت ہمارے کلچر کے اجزائے ترکیبی میں بھینس کا عنصر بڑی اہمیت رکھتا ہے، اور اس نے ہمارے عام مزاج پر اثرات مرتسم کیے ہیں۔ کسی معاشرے کے کلچر کا جائزہ لینے کے لیے یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ یہ کس جانور سے وابستہ ہے … بھینس سے وابستگی غنودگی، ٹھیرائو اور جسم کی سطح پر زندہ رہنے کے عمل کو مضبوط بناتی ہے… یہی وہ بھینس ہے جو غلیظ جوہڑ کو سامنے پاکر بڑے وقار سے اس میں داخل ہوجاتی اور غلاظت میں لت پت ہو کر گھنٹوں بیٹھی اور اونگھتی رہتی ہے۔ وادیِ سندھ کی تہذیب اسی بھینس سے وابستہ تھی اور یہی روایات آج کے معاشرے تک بڑھتی چلی آتی ہے‘‘۔[تنقید اور احتساب، ۱۹۶۷ء]
بہتر یہ ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہم اُن اشیا کی ایک فہرست مرتب کر لیں جو آغاصاحب کے نزدیک وادیِ سندھ کے قدیم معاشرے اور آج کے پاکستانی معاشرے میں مشترک ہیں۔ یہ اشیا ہیں: بیل گاڑی، باریش آدمی، گلیاں، گندم، جو، کپاس، دو بیل (احمدشاہ پطرس بخاری والے ’دوبیل‘ نہیں) تہ بند، الغوزہ، مٹی کے برتن، گائے اور پھر سب سے بڑھ کر بھینس۔
کم و بیش اس طرح کی بات احمد ندیم قاسمی صاحب نے بھی لکھی تھی۔ موئن جودڑو کے عجائب گھر میں انھیں بیل گاڑی کا نمونہ نظر آیا، اور پھر وہی بیل گاڑی پنجاب کے دیہات کی کچی پکی سڑکوں پر رینگتی نظر آئی، تو انھوں نے بھی اس سے یہی نتیجہ نکالا تھا کہ :’موئن جو دڑو کا کلچر اور ہمارا کلچر ایک ہی ہے اور ابھی تک ہمارا رشتہ موئن جودڑوسے قائم ودائم ہے۔‘ اس طرح کسی صاحب کو ٹیکسلا میوزیم میں پانی پینے کے پیالے، گھڑے اور لوٹے آج کے پاکستانی دیہات میں بھی نظر آئے تو انھوں نے ٹیکسلا کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے اپنے آپ کو منسلک کرنے کے لیے اسے کافی وجہ جواز سمجھ لیا۔
آغا صاحب نے اور پھر قاسمی صاحب نے مشترک اشیا کی جو فہرست پیش کی ہے، اُسے تو ہم قبول کرلیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیل گاڑیوں، الغوزوں، پیالوں، گھڑوں، لوٹوں اور پھر بقول آغا صاحب: دونوں تہذیبوں میں بھینس کی مرکزی اہمیت کا اشتراک کوئی معنوی اور باطنی ربط بھی رکھتا ہے یانہیں؟ ثقافتی روایات کی ترسیل لوٹوں، بیل گاڑیوں اور بھینسوں کی سطح پر نہیں، فکری اور باطنی سطح پر ہوتی ہے۔ یہی ہے وہ سوال جسے آغا صاحب بھی زیر بحث نہیں لاتے اور نہ قاسمی صاحب اس پر توجہ دیتے ہیں۔
سیدھی سادی بات یہ ہے کہ بیل گاڑی ، گھڑے، پیالے، بھینس کایہ اشتراک اس وقت تک معتبر نہیں ہوگا، جب تک کہ ان کے بنانے اور استعمال کرنے والوں اور ہمارے درمیان فکری سطح پر کوئی باطنی اور معنوی ربط قائم نہیں ہو جاتا۔ اگر یہ ربط موجود نہیں ہے تو یہ اشتراک محض ایک زرعی معاشرے کی مادی اور معاشی ضروریات کا، دوسرے زرعی معاشرے کی مادی اور معاشی ضروریات کا اشتراک ہے، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں، اور یہ اشتراک یورپ، مشرق بعید اور مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کے کسی بھی دور میں پائے جانے والے زرعی معاشرے سے بھی ہو سکتا ہے،اس باب میں وادیِ سندھ کے قید بے معنی ہے۔ کیا امر واقعہ نہیں ہے کہ یہی گائے، بیل، گھڑے اور لوٹے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ آپ کو مشینی دور سے قبل کے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک کے زرعی معاشروں میں بھی مل سکتے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ معاشی ترقی کے ایک مخصوص دور کی سطح پر انسان کی روز مرہ کی مادی ضروریات اور ان متعلقات کا اشتراک ثقافتی اور تہذیبی اتحاد کے لیے اُس وقت تک وجہ جواز نہیں بن سکتا، جب تک کہ آپ کے افکار و معتقدات میں بھی کوئی گہرا تعلق نہ پایا جائے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھ لیجیے کہ ٹیکسلا میں، جس کے پیالے، گھڑے اور لوٹے آپ کو اس قدیم تہذیب سے آپ کا رشتہ جوڑتے نظر آتے ہیں،وہیں پر ۳۰۰ برس قبل مسیح چانکیہ بھی پیدا ہوا تھا۔ جس نے سیاسیات پر ارتھ شاستر جیسی شہرۂ آفاق کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب میں اس دور کی نمایندہ سیاسی فکر کا اظہار ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ اپنے ملک پاکستان کی جغرافیائی حدود میں پیدا ہونے والے اس عظیم سیاسی مفکر کی سیاسی فکر کو اپنی قومی سیاست کا رہبر و ہادی بنانے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں؟ یا پاکستان کی موجودہ جغرافیائی حدود سے باہر پیدا ہونے والے شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء]کی سیاسی فکر ہی آپ کی توجہ اور دل چسپی کا باعث ہوگی؟
دوسرے لفظوں میں پاکستانی عوام نے ’قرار دادمقاصد‘ میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ سیاسی کلچر کی روح کو اپنایا ہے، یا چانکیہ کی ارتھ شاستر کو ؟اسی طرح آپ کہتے ہیں کہ موئن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیب مادی تہذیب تھی اور ا س میں ’دھرتی‘ کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ آپ اس تہذیب سے الغوزہ، بیل گاڑی اور بھینس برآمد کرکے، اس کا رشتہ موجودہ پاکستانی تہذیب سے ملاتے ہیں۔ تاہم، یہیں بالکل جائز سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وادیِ سندھ کے لوگوں کے افکار ومعتقدات کو آپ سامنے کیوں نہیں لاتے؟ ابھی تک ان کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے، اُس کے مطابق یہ لوگ مشرک تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے اور مرد اور عورت کے مخصوص اعضا کی پرستش کرتے تھے۔ کیا بیل گاڑیوں، اور الغوزوں اور بھینسوں کے علاوہ آپ اس سطح پر بھی ان سے اپنے آپ کو مربوط و متعلق سمجھتے ہیں؟
دیکھیے جناب! ادھورا دعویٰ نہ عدالت میں معتبر ہوتا ہے اور نہ فکر میں۔ ٹیکسلا، موئن جودڑو اور ہڑپہ سے اخذو اکتساب کا دعویٰ محض لوٹوں، بیل گاڑیوں اور بھینسوں تک محدود نہ رکھیے، بلکہ اس دعویٰ میں چانکیہ کی ارتھ شاستر ، اورمخصوص اعضاکی پرستش کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ کیا اس کے لیے آپ تیار ہیں؟
اس مسئلے پر ایک اور پہلو سے بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ آغاصاحب نے اپنے کسی مضمون میں کلچر کو ایک پیڑ سے تشبیہ دی تھی… گویا کلچر نامیاتی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، الم غلم عناصر کا مرکب نہیں ہوتا اور ایک نامیاتی اکائی کی حیثیت سے اس کی ہیئت تجزیاتی ہے، نہ کہ ترکیبی۔ جس طرح ایک پیڑ کے مختلف حصے یعنی جڑیں، تنا، شاخیں، پتے وغیرہ، وغیرہ ایک نامیاتی کُل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک حصہ بھی دوسرے حصوں سے الگ نہیںکیا جاسکتا، بالکل اسی طرح کلچر بھی ایک نامیاتی کل ہے، جس کے کسی ایک جزو کو باقی اجزا سے الگ کرکے نہ تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اسے کسی دوسرے کلچر سے ملایا جا سکتا ہے۔ تجزیاتی نفسیات کے بانی کارل یونگ [م:۱۹۶۱ء] کے ’اجتماعی لاشعور‘ میںلاکھ لچک سہی، لیکن اتنی بھی نہیں کہ آپ مادی ضروریات سے متعلق چند روزمرہ کے استعمال کی اشیا کو طوطم کی [یعنی تصورات] کی شکل دے کر انھیں چھے ہزار سال کی زندگی بخش دیں، لیکن جوں ہی قدیم تہذیب کی بنیاد اور اس کے فکری معتقدات کا ذکر آئے تو اس سے صاف پہلو بچاکر نکل جائیں۔ کلچر اگر ایک پیڑ اور نامیاتی کل ہے تو آپ کو اسے جڑوں، تنے، شاخوں اور پتوں سمیت قبول کرنا ہوگا، صرف جڑوں، یا تنے یا شاخوں یا پتوں کو نہیں!
آغاصاحب کے اقتباس کو ایک بار پھر غور سے پڑھیے۔ موصوف نے اس میں وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب اور جدید پاکستانی معاشرے میں جو مشترک اشیا گنوائی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے محض تاریخی نوادرات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ہمارے زندہ شعور کا جزو نہیں ہے۔ چونکہ ہمارے زندہ شعور کا جزو نہیں ہے، اس لیے یہ ہم سے کچھ کہتی نہیں، اس کے پاس ہمارے لیے کوئی حیات افروز پیغام نہیں ہے۔ برعکس اس کے، ترکی یا ایران کی سرزمین میں کھدائی سے برآمد ہونے والا وہ پیالہ کہ جس پر قرآن پاک کی کوئی آیت کندہ ہے، ہمارے زندہ شعور کا جزو ہے اور اس ٹکڑے پرہمارے لیے ایک پیغام بھی ہے۔ ایک ایسا پیغام جو مختلف ادوار یا مختلف جغرافیائی معاشروں کو باہم مربوط کرتا ہے۔ شمیم احمد نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ:’جو چیز مجھے خواب میں دکھائی نہیں دیتی، وہ نہ تو میرے زندہ شعور کا جزو ہے اور نہ اجتماعی لاشعور کا حصہ، کیا آغا صاحب نے کبھی وادیِ سندھ کے لوٹوں، پیالوں یا الغوزوں کو خواب میں دیکھا ہے؟
زمین سے آغا صاحب کی محبت تو میری سمجھ میں ایک اور وجہ سے بھی آتی ہے۔ موصوف زمین دار ہیں، اور زمین دار کو اپنی زمین اور زمین کی کاشت سے متعلقہ اشیا سے جس قدر محبت ہوتی ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ لیکن یہ خالص جاگیر دارانہ طرزاحساس ہے اور جاگیر دارانہ طرز احساس کے تحت، ایک مٹتے ہوئے جاگیردارانہ معاشرے کے ذوق کو نئے دور کے تقاضوں سے کارل یونگ کے ’اجتماعی لاشعور‘ اور انتھراپالوجی (علم الانسان)کے نام پر مطابقت دینے کی کوشش بہرحال قابل تعریف نہیں ہے۔پرانے دور کے جاگیرداروں میں ایک بات تو قابل تعریف ضرور تھی اور وہ یہ، کہ وہ صرف اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہ بٹیر لڑا لیا کرتے تھے۔ اس کے برعکس جدید دور کا بڑا زمین دار، زمین کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ اپنے ذاتی ذوق کو عقلی استدلال عطا کرنے کے لیے ادب اور تنقید سے بھی رشتہ رکھتا ہے۔
اردو شاعری کا مزاج آغا صاحب کے نزدیک ’مادری‘ ہے، اور اس میں یہاں کی زمین کی بوباس ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری اردو شاعری میں صرف ایک صنف ایسی ہے، جس پر سے یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں بھارت کی دھرتی کی بوباس ملتی ہے اور اس میں جو فضا پیش کی جاتی ہے وہ خالصتاً مقامی ہے۔ یہ صنف ہے گیت، یعنی یہ گیت ہی وہ واحد صنف ہے جو عربی اور ایرانی شاعری کی روایت سے الگ اور ہندی اور سنسکرت شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے اور جس میں ہندو دیومالا سے اکتساب کیا گیا ہے۔ لیکن جو بات آغا صاحب بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اردو شاعری کی معراج اس کے گیتوں میں نہیں، جو ہندو دیومالا کا اکتساب کرتے ہیں، بلکہ اس کی معراج اس کی غزلیں ہیں جو عربی اور ایرانی روایت کی آئینہ دار ہیں۔ اس سے تو آغاصاحب بھی انکار نہیںکر سکتے کہ اردو شاعری کے بلندپایہ شعرا میں میر، سودا، درد، مصحفی، جرأت، انشا، ذوق، مومن، غالب، داغ، حسرت، غزل کے شاعر ہیں، اور دکنی دور کے گیتوں سے لے کر جدید ترین دور کے گیتوں تک، کوئی شاعر محض گیتوںکے بل پر عظیم نہیں بن سکا۔ اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بڑے شاعروں نے اس صنف کو قبول کیا اور غزل کو سینے سے لگایا، جو گنگا و جمنا کے بجائے دجلہ و فرات، او ربھینس کے بجاے بلبلوں کا ذکر کرتی تھی۔ اور یہ اس لیے کہ ان کے خوابوں میں گنگا و جمنا اور بھینسیں نہیں، بلکہ دجلہ و فرات اور بلبل ہی نظر آتے تھے۔
پاکستانی تہذیب میں ’دراوڑیت‘[یعنی ۳۰۰۰سال قبل مسیح آریا لوگوں کی آمد سے بھی پہلے یہاں ہندستان میں آباد دراوڑ نسل] کا پیوند لگانے والوں کے لیے سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور اس کا جواب دیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے، کہ ہندی مسلمان [جو یقینا اِن نظریہ سازوں کے آبا و اجداد تھے]برصغیر میں اپنے آٹھ نو سو سالہ قیام کے باوجود، ذہنی طور پر عرب و عجم ہی سے تحریک کیوں حاصل کرتے رہے؟ آغا صاحب تو خیر اسلامی تہذیبی روایت کے بنیادی مظاہر کو نظرانداز کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اوراردو شاعری میں ثنویت، تثلیث، اربعیت سب کچھ انھیں نظر آتا ہے اور نہیں نظر آتی تو ایک بے چاری توحید ہی نظر نہیں آتی، لیکن ایک ذہین، بنگالی ہندو، نراد چندرو چودھری [۱۸۹۷ء-۱۹۹۹ء] نے ۱۹۶۵ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Continent of Circe میںلکھا ہے کہ: ہر دورمیں ہندی مسلمانوں کی نگاہیں اسلامی مشرق وسطیٰ پر ہی مرکوز رہیں اور انھوں نے کبھی بھی نظر بھر کر اپنی زمین کو نہ دیکھا۔ نراد نے لکھا ہے:
مجھے آج تک اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار جب میں نے اپنے ضلع (میمن سنگھ) کے ایک مسلمان سے (جو ہندو سے مسلمان ہوا تھا) پوچھا کہ تمھاری نظر میں سب سے اچھا اور پسندیدہ پھل کون سا ہے تو اُس نے بے اختیار جواب دیا: ’’عراق کی کھجوریں‘‘… یقینا میرے لیے (ہندی) آموں کی یہ سوچی سمجھی توہین ناقابلِ برداشت تھی‘‘۔
اصل چیز یہ ہے کہ برصغیر کے مقامی لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو انھوں نے اس کے ساتھ ہی اپنے مشرکانہ ماضی سے قطع تعلق کرلیا اور اپنے آپ کو اس روایت سے منسلک کر لیا جو توحید کی روایت تھی اور جس کا سرچشمہ عرب سرزمین تھی۔
دن میں ایک بار غسل اورپانچ بار وضو کرنے والی اس قوم کی تہذیب کو جسے ’طہارت نصف ایمان‘ کا درس دیا گیا ہے، ’’جوہڑ میںبڑے شوق و ذوق کے ساتھ کیچڑ میں لت پت بیٹھی رہنے والی بھینس سے‘‘ تہذیبی تعلق وابستہ کرنے والے آغا صاحب سے ایک اور سوال بھی کرنے کو جی چاہتا ہے، اور وہ یہ کہ :’کیا ادب، فن اور زندگی کے دوسرے عوامل سے قطع نظر کوئی عمل ہے؟ دھرتی کی جو بوباس آپ کو اردو شاعری کے مزاج میںرچی بسی نظر آتی ہے، وہ ہندی مسلمانوں کی سیاست، ان کی معیشت، ان کی معاشرت اور سب سے بڑھ کر ان کے مذہب میں بھی نظر آنی چاہیے۔ نہ زندگی کو ٹکڑوں اور خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں مختلف نظریات اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
ادب اور کلچر میں دھرتی کی حرمت کے قائل خواتین و حضرات کو آگے بڑھ کر یہ بھی بتانا ہوگا کہ سیاست میں اُن کا نظریہ کیا ہے؟ یہ سوال اٹھانے کا مطلب بہت صاف اور سیدھا یہ ہے کہ ادب اور ثقافت میں دھرتی کی حرمت کے قائل افراد سیاست میں قرار داد پاکستان کے نہیں، اکھنڈ بھارت ہی کے قائل ہو سکتے ہیں۔ ادب میں دھرتی پوجا اصولی طور سیاست میں بھی دھرتی پوجا ہی رہے گی، ’قرار دادِ مقاصد‘ نہیں بن جائے گی!
آپ نے دیکھا کہ زمانہ قبل تاریخ کے آثار کی محبت میں جو سفر پاکستانی تہذیب دریافت کرنے کے لیے اختیار کیا جا رہا تھا، اس کی منزل ’’اکھنڈ بھارت‘‘ نکلی۔ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ وطنی قومیت کا یہ رجحان خطر ناک ہے۔ خطرے کا ایک پہلو تو آپ نے دیکھ لیا۔ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ لوگ نکلتے تو پاکستانی کلچر کی تلاش میں ہیں، لیکن اپنی محدود فکر کی بنا پر آخر جس چیز کو پاتے ہیں، وہ صرف مغربی پاکستان یا اس سے بھی محدود تر پنجاب کا کلچر ہے۔ بات پورے ہندستان سے شروع ہوتی ہے اور ختم کہاںہوتی ہے؟ ذرا دیکھیے:’’حقیقت یہ ہے کہ ہماری زبان اور ہمارے ادب کا خمیر اسی دھرتی سے اٹھا ہے، جسے پہلے ہندستان اور اب برصغیر پاک و ہند کہتے ہیں۔ اس صداقت کا ایک نہایت واضح ثبوت یہ ہے کہ اردو زبان جتنی بھی پنجابی سے قریب ہے اور کسی سے نہیں‘‘۔
اب اس دعوے کا ثبوت بھی ملاحظہ ہو: ’’اگر کسی پنجابی کے سامنے اردو میںبات کی جائے تو وہ فوراً سمجھ لیتا ہے، چاہے بول نہ سکے، مگر کوئی عرب یا ایرانی اردو زبان جانے بغیر اردو کے کسی ایک فقرے کا مطلب بھی سمجھ نہیں سکتا۔ یہ روزہ مرہ کی ایک بدیہی حقیقت ہے، اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اردو زبان کو نہ فارسی کہا جا سکتا ہے، نہ عربی، نہ دونوں کا مرکب، بلکہ اس کا اپنا علیحدہ وجود ہے۔جو اس دھرتی کی پیداوار ہے‘‘۔
پاکستانی تہذیب کی بحث سے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے دیکھنا اورپیش کرنا ان دانش وروں کی مجبوری ہے۔ پاکستانی تہذیب کی بنیاد ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا پر ہوگی تو لازماً مشرقی پاکستان کو ایک الگ ثقافتی یونٹ قرار دینا ہوگا۔ دراصل فکر کی جس پگڈنڈی پر یہ حضرات گرامی اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں، اس کی آخری منزل یہی ہے۔ آغا صاحب اپنے رسالے ’اُردو زبان‘ کے اداریے میں رقم طراز ہیں:’’نہ صرف یہ کہ پاک وہند میںاسلام کا ورود یہاں کے باشندوںکی زندگی کو اور خاص کر اس زندگی کے ثقافتی پہلو کو کسی نئے سانچے میں نہیںڈھال سکا، بلکہ مسلمانوں او رانگریزوں کے عہد حکومت کے باوجود یہاں کے مختلف خطوں کی عوامی زندگی کے باہمی اختلافات بدستور قائم و دائم ہیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان ایک ہی ملک ہے، مگر دونوں خطوں کے باشندوں میں زبان و ادب اور کلچر کا اختلاف واضح ہے‘‘۔
اس پیراگراف کر پڑھ کر قائداعظمؒ یاد آگئے، جنھوں نے پنجاب ، سرحد، بلوچستان اور سندھ کے ساتھ ساتھ محض ثقافتی اتحاد کی بنا پر بنگال کو بھی پاکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اور یہ دعویٰ اپنی دلیل کی قوت کی بناپر ہندوئوں اور انگریزوں نے بھی تسلیم کر لیا تھا۔ اب پاکستان بننے کے بعد ایک صاحب قائداعظمؒ کے اس دعوے کو یوں غلط ٹھیرا رہے ہیں کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں تو ’’زبان اور کلچر کا اختلاف واضح ہے‘‘۔ حالانکہ کسی ملک کے مختلف خطوں کا وہی سیاسی اتحاد معتبر اور سیاسی اخلاقیات میں جائز سمجھا جاتا ہے، جو ثقافتی نوعیت کا اتحاد ہو اور محض نظامِ حکومت کا اشتراک ایک طاقت ور علاقے کا ایک چھوٹے اور کمزور علاقے پر قبضے کے مترادف ہوتا ہے۔ لیکن حُسنِ ظن کا تقاضا یہ ہے کہ میں ان سے اتنی بدگمانی نہ کروں اور یہ سب کچھ ان کی تحریر سے نکالنے کی کوشش نہ کروں، مگر جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو الگ کرنا ان کامقصد نہیں بلکہ خطر ناک دانش ورانہ مجبوری ہے۔
پاکستانی تہذیب کا رشتہ ہڑپہ، ٹیکسلا اور موئن جو داڑو سے جوڑنا، اسلام کو قومیانا اور اردو کا نام پاکستانی رکھنا، یہ سب کچھ اگر حب وطن پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہاہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ حب وطن ایک تجریدی اور پیچیدہ احساس ہے جسے نظریاتی حوالوں کے بغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستانی قومیت یا تہذیب کی ہر بحث کامنتہائے مقصود پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام افراد کے باہمی اتحاد کا حصول ہونا چاہیے، مگر آپ کہتے ہیں کہ ثقافتی اتحاد ہی اصل بنائے اتحاد ہے۔ یہیں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ثقافتی اتحاد کا ماخذ کیا ہے؟ اگر آپ یہاں اسلام کا نام لیتے ہیں تو مسئلہ حل ہو جاتاہے کیونکہ اسلام ہمارے ثقافتی اتحاد کا ماخذ بھی ہے اور سیاسی اتحاد کی بنیاد بھی۔
پاکستان کے تمام علاقوں میںخواہ وہ شمال مغربی سرحد [خیبر پختون خواہ]ہو یا پنجاب، بلوچستان ہو یا سندھ یا مشرقی پاکستان ، مشترک امور اور اقدار وہی ہیں، جو اسلام نے دی ہیں۔ لیکن اگر آپ اس سوال کے جواب میں ٹیکسلا، موئن جو داڑو اور، ہڑپہ کا نام لیں گے، تو یہ آپ کے بنیادی مقصد کی شکست ہوگی۔ ٹیکسلا، موئن داڑو ار ہڑپہ کی ثقافتی اہمیت اگر تسلیم بھی کر لی جائے، تو یہ بھی علاقائی ثقافت میں شمار ہوں گے، قومی ثقافت میںنہیں ڈھل سکیں گے اورعلاقائی ثقافتوں پر یوں زور دینے کا مطلب قومی اتحاد کو کمزور کرنا ہے۔
وطن سے محبت اور وطن کی زمین سے لگائو یقینا ایک صحت مند جذبہ ہے، لیکن ہمارے لیے اس محبت کا ماخذ پاکستان کی دھرتی نہیں پاکستان کانظریہ ہے۔ یہ مملکت اس لیے قیمتی ہے کہ یہ اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے، اس لیے نہیں کہ اس دھرتی سے وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کے حوالے سے ہمارا نسلی رشتہ اور ثقافتی ربط ہے۔ وطن کی محبت جب صحت مند حدود سے آگے بڑھتی ہے تو کیا گل کھلاتی ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے دور جدید کی قوم پرستی کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنا ہی کافی ہے ۔ خود مسلمان ممالک کے مستحکم اتحاد کی راہ میں آج جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، وہ یہی وطنیت پرستی کا رجحان ہے۔
پاکستان میں آغا صاحب نے ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا سے اپنا رابطہ جوڑ لیا، مصر کے صدر ناصر نے ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘ کا نعرہ بلندکرکے فرعونوں کے بتوں کو قومیت کی بنیاد بنا لیا، اہل شام نے بھی ایک اطلاع کے مطابق ایک زمانے میں ابوجہل اکیڈمی قائم کر دی تھی۔ ایران والے بھی شاہِ ایران رضاشاہ پہلوی کے زمانے میں قبل از اسلام کے زرتشی ماضی سے رشتہ جوڑنے لگے تھے۔ اب اتنی کسر رہ گئی ہے کہ سعودی عرب کے لوگ کھدائی کرکے لات، ہبل اور عزیٰ کے بت برآمد کریں اور انھیں خانہ کعبہ میں سجا لیں کہ صاحب ہمارا ماضی تو یہی ہے! رہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ کے وقت یہ اعلان کہ’’آج جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے ہیں‘‘،آپ حسبِ منشا اس کو کوئی بھی تعبیر کرلیں، یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ کیا اس رویے کو صحت مندانہ رویہ قرار دیاجا سکتا ہے؟
باطل پرستوں کا ایک خاص حربہ اچھے ناموں کا غلط استعمال ہے۔ بدی اپنے اصلی رُوپ اور اپنے حقیقی نام کے ساتھ سامنے آتے ہوئے ہچکچاتی اور گھبراتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ نیکی کا لبادہ اُوڑھ کر اور معصوم ناموں کا سہارا لے کر آتی ہے۔ اوّل روز سے اس کا طریقہ یہی رہا ہے اور آج بھی وہ اسی طریقے کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ جھوٹ، دھوکا اور فریب، ڈپلومیسی کا رُوپ دھار کر آتے ہیں۔ فسق و فجور اور بے حیائی نے بھی ایک نیا نام تلاش کرلیا ہے اور وہ ہے ’ثقافت‘!
انسانی تاریخ میں ’ثقافت‘ یا کلچر کی اصطلاح اتنی لچر اور پوچ معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوئی، جن معنوں میں آج اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان الفاظ کو حقیقی معنی سے علاحدہ کرکے، ناچ رنگ اور فسق و فجور کے لیے استعمال کرنا، شیطان کی انھی کوششوں میں سے ایک ہے ، جن کے سہارے وہ انسان کودھوکا دیتا رہتا ہے۔
بے کاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
یہ ’ثقافت‘ ایک ایسے انسان کو جنم دیتی ہے، جس میں نیکی اور پاک دامنی کے ساتھ شجاعت اور حق کے لیے جینے اور مرنے کا جذبہ ہو، جو اخوت و مساوات کا علَم بردار ہو اور اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہو جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادب پیدا کرتی ہے، جو ایک طرف تو جمالیاتی ذوق کی تسکین پوری کرے اور دوسری طرف انسان کو اس کے حقیقی مشن سے آگاہ کرے اور اس کے اچھے جذبات کو اُبھارے۔
یہ ’ثقافت‘ ایک ایسی معاشرت قائم کرتی ہے جس میں انسان، انسان کا خون نہ چوسے۔ جہاں رنگ اور نسل کی جھوٹی تعریفیں نہ ہوں۔ جہاں دولت و غربت کے امتیازات نہ ہوں۔ جہاں زندگی کی نعمتیں ایک محدود طبقے کا اجارہ نہ بن کر رہ جائیں۔ جہاں ترقی کے راستے سب کے لیے کھلے ہوں۔وہ جنھیں وسائل حاصل ہیں، ان کی مدد کریں جو ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، تاکہ سب شانہ بشانہ اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کریں۔
یہ ثقافت اپنی سرگرمیوں کا مرکز و محور مسجد کو بناتی ہے، جہاں دن میں پانچ مرتبہ مسلمان ملتے ہیں اور باہمی ربط استوار کرتے ہیں۔ یہ مسجد ہماری ثقافتی ترقی کا سرچشمہ رہی ہے۔ ہمارے فنِ تعمیر کی ساری ترقی اسی مرکز سے شروع ہوئی۔ آرٹ کی سرپرستی اس ثقافت نے بھی کی ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ وہ انسان کے سفلی جذبات کو بھڑکائے، بلکہ اس طرح کہ اس نے مناظر فطرت کو پیش کیا ہے، حُسنِ فطرت کو نمایاں کیا ہے۔ یہاں تک کہ الفاظ سے حُسن پیدا کیا ہے۔ خطاطی، طغرانویسی اور کوزہ گری مسلمانوں کا ہی حصہ (contribution) ہیں۔ لحن و نغمہ کا ذوق یہاں بھی پایا جاتا ہے، لیکن بازاری گانوں اور تال طبلوں کی شکل میں نہیں۔ مسلمانوں نے اس کے لیے فن قراء ت کو ترقی دی اور خداے بزرگ و برتر کے کلام کو نغمہ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کھیل اور تفریح اس ثقافت نے بھی اختیار کیے، لیکن وہ نہیں جو لہوولعب اور وقت و قوت کے ضیاع سے عبارت ہیں، بلکہ وہ جو اپنی معنوی اصلیت بھی رکھتے ہیں اور جو انسان میں بہادری، شجاعت، بلندہمتی اور عالی حوصلگی پیدا کرتے ہیں۔ نیزہ بازی، تیراندازی، شہ سواری اور کشتی اس کی چند مثالیں ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ایسی مخصوص ثقافت کو زندگی کے ہرمیدان میں ترقی دی ہے۔ فطرت کے ہرتقاضے کو انھوں نے پورا کیا ہے، لیکن اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ اس میں ایسی ترقیاں کیں جو انسان کو حیرت میں ڈالتی ہیں۔ حق کی بندگی، اس کی ہدایت کی پاس داری، اس کے سامنے جواب دہی کے احساس اور انسانیت دوستی کو پروان چڑھایا۔ جب کہ فضول اور لایعنی چیزوں سے پرہیز اور تعمیری و تخلیقی جدوجہد ہماری ثقافت کی امتیازی خصوصیت ہیں۔
اگر انسان کی صلاحیتوں کو نفس اپنی جائز اور ناجائز خواہشات کی تسکین پر لگادے،تو پھر اس سے تعمیری تخلیقات نہیں ہوتیں، بلکہ انسان کا تخلیقی ذہن اور جوہر انھی خطوط پر کام کرتا اور نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے نت نئے ذرائع سوچتا ہے۔ اسلام کا کمال یہ ہے کہ وہ نفسِ انسانی کو لگام دے کر ، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو تعمیری راستے پر ڈالتا ہے اور یہ شے، نہ صرف مسلمان قوم بلکہ پوری انسانیت کی ترقی و کمال کا باعث ہے۔
لیکن کیا یہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوجائیں گے؟ جب انگریز ہماری ثقافت کو ۲۰۰سال میں نہ تبدیل کرسکے، بلکہ ہمارے ان کرم فرمائوں جیسے چند جانشین ہی پیدا کرسکے،تو پھر آخر یہ شاگرد اپنے آقائوں سے زیادہ کیا معرکے سر کرلیں گے؟ پاکستان کے مسلمان ان کے اس چیلنج کا بھی مقابلہ کریں گے اور ان شا ء اللہ کامیابی سے کریں گے۔ آنے والا وقت ہی یہ گواہی دے گا کہ کس کا نام باقی رہا۔ بغیر جڑ کے درخت لگانے کی ناکام کوشش کے نتیجے میں درخت نہیں کھڑا کیا جاسکتا۔
ڈسکو اور راک این رول ہماری ثقافت نہیں، کیبرے ہماری ثقافت نہیں، مغرب کی نقالی ہماری ثقافت نہیں، فحش تصاویر ہماری ثقافت نہیں، برہنہ مجسّمہ سازی ہماری ثقافت نہیں۔ اسی طرح جنس زدہ ادب ہماری ثقافت نہیں۔ ہماری ثقافت اسفل جذبات کی بے محابا تسکین کا نام نہیں اور یہ ثقافت انسان کو حیوان نہیں بناتی۔ ہماری ثقافت ایک پاکیزہ، ستھری، نکھری، معتدل اور ہمارے نظریات سے ہم آہنگ ثقافت ہے، اور اسی کی ترقی میں ہماری فلاح اور کامیابی مضمرہے۔
اس مرحلے پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے اس حکم نامے کا اقتباس پیش کرنا نسلِ نو کے لیے مفید ہوگا، جس میں انھوں نے ناظم تعلیمات کے نام لکھا:
سب سے پہلے تم میری اولاد کے دلوں میں ناچ گانوں اور راگ راگینوں کی نفرت پیدا کرنا، کیونکہ ان کی ابتدا شیطان کی طرف سے ہے اور ان کی انتہا خداے رحمن کی ناراضی ہے۔ اس سے دل میں نفاق اس طرح پرورش پاتا ہے، جس طرح بارش سے گھاس اُگتی ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت ۱۳روپے، سیکڑے پر رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور- فون: 042-35434909)
مملکت ِخداداد پاکستان کا سب سے بڑا شہر ، ملک کی اقتصادی شہ رگ اور مِنی پاکستان کہلانے والا روشنیوں کا شہر آج تاریکیوں کے سایے اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھرا ہوا ہے۔ تہذیب یافتہ باسیوں کی شناخت رکھنے والا کراچی گذشتہ تین عشروں سے اپنی اصل شناخت کی تلاش میں ہے۔ اس شہر پر اپنا حق جتانے اور اس شہر کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں نے دہشت گردی، بھتہ خوری، قتل و غارت گری،ٹارگٹ کلنگ، بوری بندلاشوں اور لوٹ مار کو اس شہر کی شناخت بنا دیا ہے۔ اس شہر کے حالات عرصۂ دراز سے خراب چلے آرہے ہیں اور ملک میں برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے حالات کو بہتر بنانے اور یہاں کے باسیوں کو اس عذابِ مسلسل سے نجات دلانے کے لیے کبھی کوئی ٹھوس اقدامات اور سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔اگر حکومتی سطح پر یہاں کے حالات بہتر کرنے اور مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالنے کی کوششیں کی جاتیں تو جو حالات آج ہیں، وہ نہ ہوتے اور صورت حال یقینابہتر ہوتی۔
کراچی کے حالات بہتر کرنے کے لیے کئی مہینوں سے کراچی میں جا ری آپریشن جسے ’’ٹارگٹڈ آپریشن ،، کا نام دیا گیا ہے، کے حوالے سے کافی شور و غوغا سنائی دے رہا ہے۔ اس آپریشن کے شہر کے حالات پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ حالات میں کوئی بہتری آئی ہے ؟ اس کی اصل حقیقت سے کراچی کے عام شہری سے زیادہ کوئی اور واقف نہیں، کیونکہ کراچی کے شہری روزانہ ان حالات سے گزرتے ہیں جب وہ پے در پے ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کی خبریں سنتے ہیں۔ جب ان کو شہر کی اہم شاہراہیں اور سڑکیں بند ملتی ہیں۔ جب ان سے گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور موبائل فون چھین لیے جاتے ہیں۔ جب یہاں تاجروں اور عام دوکانداروں کو بار بار بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں، وہ یا ان کے اہل خانہ اغوا براے تاوان کی کسی واردات کا شکار ہو کر اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارتے ہیں اور ان کی کہیں سے کوئی داد رسی نہیں ہو پاتی۔ ان حالات میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے کراچی کی عوام کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور عدالت عظمیٰ نے اس حوالے سے عوامی امیدوں اور توقعات کے مطابق اپنا مثبت اور مؤثر کردار بھی ادا کیا،مگر کراچی کی انتظامی مشنری اور حکومتی اداروں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلوں اور احکامات پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد سے گریز کیا اور پہلو تہی برتی جس کی وجہ سے یہ سارے فیصلے اور احکامات اپنے وہ اثرات مرتب نہ کر سکے جو کرنا چاہییں تھے۔
عدالت عظمیٰ میں کراچی میں امن و امان کے حوالے سے مقدمات کی سماعت مسلسل کئی کئی روز تک جاری رہی۔ معزز جج صاحبان نے متعدد بار بنیادی مسائل کی جانب واضح طور پر نشان دہی بھی کی۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو ان کے فرائض منصبی کی جانب بار بار توجہ دلائی اور ایک لحاظ سے عدالت جو کام کرسکتی تھی اس نے کیا۔ ان مقدمات میں بار بار یہ بات سامنے آئی کہ کراچی میں جاری بدامنی ، دہشت گردی، قتل وغارت گری ، بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ ، لوٹ مار اور اغوا براے تاوان کی وارداتوںمیں یہاں کے حکمران اوران کے اتحادی براہ راست ملوث ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور اے این پی کا واضح طور پر نام بھی لیا اور کہا کہ یہ جماعتیں خود سے وابستہ مجرموں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور اس تحفظ کو ختم کیے بغیر حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
۱۱مئی ۲۰۱۳ء کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور مرکز میں مسلم لیگ نواز برسر اقتدار آئی ۔ مرکز میں میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد کراچی کے تاجروں اور شہریوں کو بڑی امید تھی کہ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی کے حالات ضرور بہتر ہوں گے، اور مختلف حلقوں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار سے یہ مطالبات اور اپیلیں بھی کی جانے لگیں کہ وہ کراچی میں امن و امان کی بد سے بدتر ہوتی صورت حال کا نوٹس لیں اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت اپنا کردار ادا کریں۔ حالات کے اس پس منظر میں وزیراعظم نواز شریف ، وزیرداخلہ چودھری نثار اور اپنی ٹیم کے ہمراہ کراچی تشریف لائے، یہاں قیام کیا اور مختلف اجلاسوں اور میٹنگوں میں شریک ہو کر انھوں نے حکومتی ذمہ داروں اور متعلقہ اداروں سے بریفنگ لی۔ متعدد اہم فیصلے اور اقدامات طے کیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی ’کپتانی ‘میں ایک ٹائم فریم کے مطابق کراچی میں دہشت گردوں بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز، اغوا براے تاون میں ملوث مجرموں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ایک مؤثر آپریشن کیا جائے گا۔ وہ اور ان کی حکومت اس حوالے سے سندھ حکومت کو ہر ممکن مدد اور تعاون فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس دورے میں کراچی کی مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کا بھی ایک مشترکہ اجلاس بلایا اور سب جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنے عزائم اور منصوبوں سے آگاہ کیا اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی سمیت تمام جما عتوں نے ان کوششوں کی حمایت اور تائید کی۔ حتیٰ کہ ایم کیو ایم نے تو یہاں تک کہہ دیا اور مطالبہ کیا کہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے لیکن ایم کیو ایم کے اس مطالبے کو اکثریت کی طرف سے پذیرائی نہیں مل سکی ، جب کہ بعض حلقوں نے یہ بھی کہاکہ ایم کیو ایم ایک طرف تو آپریشن کی حمایت کر رہی ہے اور دوسری طرف فوج اور عوام کو لڑانا چاہتی ہے۔
یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ مجرموں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی سے پہلے ہی اگر شور مچانا شروع کردیا جائے تو اس سے مجرموں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کو فرار ہونے اور اپنے ٹھکانوں کو بدلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہاں بھی ایسا ہی ہوا اور بڑی مچھلیوں کو پہلے سے ہی خبردار کر دیا گیا۔بہرحال جب آپریشن کا آغاز ہوا تو فوری طور پر تو ایسا محسوس ہو ا کہ حالات میں بہتری واقع ہو رہی ہے لیکن وقت گزرنے کے بعد اگر مجموعی نتائج کا احاطہ کیا جائے توصورت حال تسلی بخش محسوس نہیں ہوتی۔ شہر میں مختلف مکاتب فکرکے علماے کرام، سیاسی کارکنوں، پولیس اہل کاروں اور عام شہریوں کی ہلاکتوں ، ٹارگٹ کلنگ اور قتل وغارت گری اور بھتہ خوری سمیت دیگر وارداتوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، کیونکہ گرفتارملزمان کو سزائیں نہیں ملی ہیں اور آپریشن کرنے والے مصلحتوں کا شکار ہیں۔
ایم کیو ایم نے اب اس آپریشن کو اپنے خلاف آپریشن قرار دینا شروع کر دیا ہے اور وہ واویلا مچارہی ہے کہ آپریشن کی آڑ میں صرف ایم کیو ایم کو ہی نشانہ بنایا جا رہاہے۔ ایم کیو ایم نے اس آپریشن کے خلاف بیانات دینے اور اس کی مخالفت کرنے کا سلسلہ اس وقت شروع کیا جب نارتھ ناظم آباد میں ایک پولیس پارٹی پر حملے کے الزام میں ایم کیو ایم کے ایک سابق رکن سندھ اسمبلی کو گرفتار کیا گیا۔ اس پر ایم کیو ایم نے شدید احتجاج کیا اور شہر میں احتجاج کی کال دی ، جب کہ ایک موقع پر کراچی کے پولیس چیف شاہد حیات نے بھی ایک پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کیا کہ کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری، قتل وغارت گری اور ٹارگٹ کلنگ کی بیش تر وارداتوں میں ایم کیو ایم ملوث ہے۔ اس پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم نے پولیس چیف شاہد حیات کے خلاف بھی محاذ کھول دیا اور انھیں ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ ، جب کہ رینجرز کے ذمہ داران کی طرف سے بھی ایم کیو ایم کے خلاف بیانات سامنے آئے جن میں ان کا کہناتھا کہ ایم کیو ایم سے وابستہ افراد شہر میں جاری قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ جب دہشت گردوں، قاتلوں،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے مجرموں کے چہرے اور ان کے سرپرستوں کے نام عوام کے سامنے آنا شروع ہوئے تو ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جن مجرموں کو گرفتار کر رہے ہیں ان کی سیاسی وابستگیاں ظاہر نہ کی جائیں۔ یہ مطالبہ بھی ایم کیو ایم کی طرف سے کیا گیا اور پھر سیاسی وابستگیاں ظاہر کرنے کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کی طرف سے یہ بات بھی باربار کہی گئی ہے کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں نے عسکری ونگ بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں حکمراں جماعتیں اور ان کے اتحادی شامل ہیں۔ اس ساری صورت حال کے باوجود یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اب تک شہر میں جتنے بھی مجرم گرفتار ہوئے ہیں ان میں سب سے زیادہ تعداد ایم کیو ایم سے وابستہ افراد کی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں بھی جب ایک موقع پر سرکاری طور پر دہشت گردوں اور گرفتار مجرموں کے نام پیش کیے گئے تھے تو ان میں بھی ایم کیو ایم سے وابستہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ ایم کیو ایم مختلف ہتھکنڈوں اور بلیک میلنگ کے طریقوں سے خود اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو ختم کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے اور مستقبل قریب میں اس بات کی امید اور توقع کم ہی نظر آتی ہے کہ کراچی کے ستم رسیدہ عوام اس عذابِ مسلسل سے نجات حاصل کر پائیں گے۔
آپریشن کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار مایوس کن حد تک اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صورت حال میں بہتری کی امید کم ہی کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے اخبارات و رسائل اور نیوز چینلوں پر متعدد رپورٹس بھی پیش کی جاتی رہی ہیں۔ حکومتی عہدے داروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور آپریشن کے ذمہ داروں کے دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن یہ رپورٹیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ حالات کو بہتر بنانے ،کراچی کے عوام کو سکون اور چین دلانے، روشنیوں کے شہر کو دوبارہ روشنیوں کا شہر اور امن کا گہوارہ بنانے اور ملک کی اقتصادی شہہ رگ کو حقیقی معنوں میں ترقی و خوش حالی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ملک کے حکمرانوں اور اربابِ اختیار کو سیاسی مصلحتوں سے باہر نکلنا ہوگااور مجرموں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کرنی ہوں گی۔
کراچی کے ایک کثیرالاشاعت اخبار (روزنامہ جنگ ) کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ کراچی آپریشن کے دوران۱۰ہزار ۲۰ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ۔ رواں برس ۲ہزار۶سو۲۳؍ افراد مختلف وجوہات کی بنا پر قتل ہوئے جس میں سے ۴۸۶؍ افراد کو ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنایا گیا۔ ۱۱۷؍ افراد کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ابدی نیند سلا یا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں ۲ہزار۴سو۳ لوگ قتل کیے گئے جن میں ۵۳۰ افراد کو گھات لگا کر نشانہ بنایا گیا۔ ۲۰۱۱ء میں ۲ہزار۴۲ شہریوں کو مارا گیا جن میں ۵۰۸ لوگوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ رواںسال ستمبر سے نومبر تک ۴۴۷؍ افراد کو قتل کیا گیا ، جب کہ گذشہ سال اسی دوران ۶۶۵شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ ڈی آئی جی ساؤتھ عبدالخالق شیخ کاکہنا ہے کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ یہ آپریشن کامیاب ہو، اسی لیے کراچی میں فرقہ وارانہ قتل کیے جا رہے ہیں ، پولیس کے پاس ایسے ثبوت ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ سُنّی اور شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ایک ہی گروپ ملوث ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق آپریشن کے دوران ۵ستمبر سے ۴دسمبر تک ۱۰ہزار۲۹ ملزمان کو گرفتار کیا گیا جس میں رینجر ز کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریاں بھی ہیں۔ گرفتار افراد میں ۳ہزار۵سو۳۴ مفرور اور اشتہاری بھی شامل ہیں۔ ۶ہزار۴سو ۹۵ ملزمان دیگر جرائم میں گرفتار کیے گئے جس میں سے ۴ہزار۷سو۱۰ کے چالان جمع کرائے جا چکے ہیں لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ گرفتار کیے گئے ہزاروں ملزمان میں سے صرف ۴۳ کو ہی سزا مل سکی ہے۔
شہر میں اسٹریٹ کرائم کی صورت حال جوں کی توں ہے۔ سی پی ایل سی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس سال ستمبر سے نومبر تک ۹۷۳ گاڑیاں چھینی یا چوری کی گئیں ، جب کہ گذشتہ سال یہ تعداد ۱۰۵۹ تھی۔ اسی دوران ۵ہزار۹سو۵۷موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری ہوئیں ، جب کہ ۲۰۱۲ء میں ۵ہزار۶سو۳۳ واقعات درج ہوئے تھے۔ گذشتہ سال ۴ہزار۷سو ۹۷، جب کہ اس سال ۴ہزار۹سو۳۳ موبائل فونز چوری یا چھینے جا چکے ہیں۔ اغوا براے تاوان کی وارداتوں میں کمی تو آئی ہے لیکن اس سال۱۶۵؍ افرادکو تاوان کے لیے اغوا کیا جا چکا ہے۔ بھتہ خور شہریوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور تین ماہ کے دوران بھتے کی ۳۲۰ دھمکیاںاور پرچیاں موصول ہو چکی ہیں۔ کراچی میں جاری قانون نافذ کرنے والوں کا آپریشن کتنا کامیاب ہے، اعدا و شمار خود اس کی گواہی دے رہے ہیں۔صرف موجودہ وزیر داخلہ ہی نہیں سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک بھی بار بار کراچی آتے رہے اور مجرموں کے بہت قریب پہنچنے کا د عو یٰ کرتے رہے لیکن ہر مرتبہ مُک مکا یا سیا سی جوڑ توڑ ہو جاتا تھا۔ اگر پچھلے ثبوتوں ہی کو بروے کار لایا جا ئے اور مجرموں کو سزا دی جائے تو حا لات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ مجر موں کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہوگیا ہے۔
پاکستان کے سیکولر حلقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً یہ دعویٰ سامنے آتا رہتاہے کہ بانیِ پاکستان اتاترک سے بہت متاثر تھے اور پاکستان میں بھی سیکولرازم کا وہی تجربہ کرنا چاہتے تھے جو اتاترک نے ترکی میں کیا تھا۔نیز یہ کہ کمال پاشا نے اپنے ملک میں سیکولرازم کے نفاذ کے لیے کسی جبر سے کام نہیں لیا اور یہ حربے اس کے جانشین عصمت انونو سے لے کر طیب اردوگان سے پہلے تک کے حکمرانوں نے استعمال کرکے سیکولرازم کو بدنام کیا، جب کہ اتاترک نے سیکولرازم کا سہارا صرف اس بنا پرلیا تھا تاکہ ترکی میں مذہبی لوگوں کی پھیلائی ہوئی فرقہ وارانہ منافرت پر قابو پایا جاسکے جس کی وجہ سے اس دور کے ترکی کے حالات موجودہ پاکستان سے بھی زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ مذہبی عناصر کی اسی جنگ کے سبب تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت عثمانیہ مٹ گئی ۔ اتاترک کی جدوجہد کو ترکی ہی نہیں، برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔ اس لیے اس پر سیکولرازم کے نفاذ کے حوالے سے نکتہ چینی درست نہیں۔
سیکولر حلقوں کے یہ دعوے تاریخی حقائق سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ترکی میں آج بھی ۸ء۹۹ فی صد آبادی حنفی مسلک کے سنی مسلمانوں کی ہے اور پہلے بھی یہی صورت تھی، لہٰذا وہاں فرقہ واریت کا کوئی مسئلہ نہ مصطفی کمال پاشا کے دور میں تھا، نہ اس سے پہلے، نہ بعد۔ چنانچہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ اتاترک کے دور میں مذہبی لوگوں نے فرقہ واریت کا بازار گرم کررکھا تھا۔ کھلی حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے کمزور ہونے کا بنیادی سبب پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی طرف سے جرمنی کا ساتھ دیا جانا تھا جس میں جرمنی اور اس کے حلیفوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں جنگ کے اختتام پر ۱۹۱۸ء میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے استنبول پر قبضہ کرلیا۔کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کے تحت ترکی کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے بلاشبہہ عظیم الشان خدمات انجام دیں۔ یہی دور تھا جب وہ خلافت اسلامیہ کے محافظ کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں اور پوری مسلم دنیا خصوصاً برعظیم کے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بنے۔ یہی دور تھا جب ہندستان میں تحریک خلافت شروع ہوئی ۔ جوہر برادران [مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر] اور دوسرے مسلمان رہنماؤں نے اسے ہندستان کے چپے چپے تک پھیلا دیا اور یہ سلوگن ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا کہ ’’بولیں امّاں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔
۱۹۲۳ء میں اتاترک کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ اور پھر اسلامی تہذیب و روایات کی جگہ جبراً مغربی تہذیب کو مسلط کرنے کے اقدامات کا عمل میں آنا، مسلمانانِ ہند کے نزدیک ایک عظیم المیہ تھا۔ کمال پاشا کو وہ عظیم مسلمان غازی اور مجاہد سمجھتے تھے اور امید رکھتے تھے ان کے ذریعے خلافت اسلامیہ ازسرنو بام عروج پر پہنچے گی اور مسلم دنیا کے درمیان اتحاد ویگانگت کے رشتوںکو مضبوط کرنے کا سبب بنے گی۔ خلافت کے خاتمے اور ترکی کے محض ایک قومی ریاست بن جانے کے المیے پر، مسلمانوں کو ’’ بُتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا، نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی‘‘ کا درس دینے والے علامہ اقبال نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ؎
چاک کردی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ‘ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ اور ’’ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی، ہوس کی امیری ،ہوس کی وزیری‘‘ جیسے بلیغ کلام کے ذریعے اس نظام کی حقیقت کو بے نقاب کردینے والے حکیم الامت علامہ اقبال کو مصطفی کمال اور شاہ ایران رضا شاہ کے سیکولر اقدامات سے جو مایوسی ہوئی اس کا اظہار اُن کے اس شعر سے بھی ہوتا ہے ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نُمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کرکے ترکی کو جبراً ایک ایسی سیکولر قومی ریاست بنادیا جس میں اذان اور اللہ کا نام تک عربی ہونے کی وجہ سے ممنوع قرار پایااور اس کی جگہ ترکی کے لفظ Tanri کا استعمال لازمی قرار دیا گیا۔ عورتوں کے لیے حجاب کے قرآنی احکام پر عمل ممنوع ٹھیرا اور مردوں کے لیے مغربی لباس لازمی قرار دیا گیا تو ترکی میں بھی، محض مولویوں کی طرف سے نہیں، عام مسلمانوں کی جانب سے بھی اس اقدام کے خلاف شدید مزاحمت کی گئی جسے کمال پاشا نے نہایت سختی سے کچل دیا۔
اسلام کے بارے میں کمال پاشا کے حقیقی خیالات کیا تھے؟ ان کے ایک سوانح نگار ایچ سی آرمسٹرانگ کی کتاب گرے وولف میں دی گئی کمال پاشا کی ایک تقریر کے ان الفاظ سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
تقریباً پانچ سو سال تک ایک عرب شیخ کے یہ قوانین و نظریات اور کاہل و ناکارہ علماء کی جانب سے کی گئی اِن کی تشریحات ترکی کے شہری اور فوجداری قانون کی صورت گری کرتے رہے ہیں۔ ہمارے آئین کی نوعیت، ہر ترک باشندے کی زندگی کی تفصیلات، اس کی غذا، سونے جاگنے کے اوقات، اس کے لباس کی ہیئت ، اس دایہ کے معمولات جس کے ہاتھوں اس کے بچوں کی ولادت ہوتی ہے،وہ سب کچھ جو وہ اپنی درس گاہوں میں سیکھتا ہے،اس کے رسوم و رواج، حتیٰ کہ اس کی بالکل ذاتی عادات تک کا تعین یہی اصول و ضوابط کرتے چلے آئے ہیں۔اسلام، ایک۔۔۔۔۔[ناقابل تحریر لفظ]۔۔۔۔۔ عرب کا مذہب، ایک مردہ چیز ہے۔ممکن ہے ریگستان کے قبائل کے لیے یہ مناسب ہو ، لیکن کسی جدید ترقی پسند ریاست کے لیے یہ کسی کام کا نہیں ۔اللہ کی جانب سے وحی؟ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ یہ صرف وہ زنجیریں ہیں جن میں مذہبی رہنما اور برے حکمران لوگوں کو جکڑتے ہیں۔ جس لیڈر کو مذہب کی ضرورت ہو،وہ کمزور ہے، اور کسی کمزور کو حکومت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ (گرے وولف، ص ۱۹۹-۲۰۰)
واضح رہے کہ بعض سیکولر قلم کاروں کے بقول قائد اعظم نے بھی اس کتاب کی تعریف کی تھی اور اس بنیاد پر ان کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم اتاترک کے مداح تھے اور پاکستان میں ویسا ہی نظام لانا چاہتے تھے جیسا ترکی کا یہ لیڈر اپنے ملک میں لایا تھا۔
اب رہ گئی یہ خوش گمانی کہ کمال پاشا نے اپنے سیکولر نظریات اپنے ہم وطنوں پر مسلط کرنے کے لیے کسی جبر سے کام نہیں لیا ، یہ سب اتاترک کے بعد اور طیب اردوگان سے پہلے آنے والے حکمرانوں نے کیا ، تواسے بھی واقعاتی حقائق کی روشنی میں دیکھ لیجیے۔ ایچ سی آرمسٹرانگ کے مطابق کمال پاشا کے لیے اپنی کسی راے سے اختلاف ناقابل برداشت تھا۔ گرے وولف کا مصنف لکھتا ہے ’’وہ اپنی راے کے خلاف کسی کی بات نہیں سنتا تھا۔وہ ہر اس شخص کی توہین کرتا تھا جو اس سے اختلاف کی جرأت کرے۔ وہ تمام اقدامات کو حقیر ترین ذاتی مفاد کی کسوٹی پر پرکھتا تھا۔وہ انتہائی حاسد تھا۔اس کے نزدیک ہوشیار اور لائق لوگ ایسا خطرہ تھے جن سے نجات حاصل کرنا ضروری تھا۔ دوسروں کی صلاحیتوں پر وہ شدید نکتہ چینی کیاکرتا تھا‘‘۔(ص ۲۱۳)۔ اس مزاجی کیفیت کے ساتھ کمال پاشا نے ترکی میں کیا ’اصلاحات‘ نافذ کیں اور کس طرح کیں، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے دور جدید کے ممتاز مذہبی اسکالر ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی کتاب اسلام اور سیکولرازم میں لکھتے ہیں:’’اسلامی ممالک میں اسلام اور سیکولرازم کی واضح اور نمایاں ترین مثال ترکی کی ہے جہاں خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرکے اور خون کا دریا عبور کرکے پورے زور اور قوت کے ساتھ لادینیت کو مسلط کیا گیا۔اتاترک نے جبر اور تسلط کے ساتھ سیاست، اقتصاد، اجتماع،تعلیم اور ثقافت، غرض زندگی کے ہر پہلو میں مغربی طرز حیات جاری و ساری کردیا، اور ترک قوم سے اس کی ثقافت، اس کی اقدار اور اس کی روایات اس طرح سلب کرلیں جس طرح ذبح شدہ بکری کی کھال کھینچی جاتی ہے ‘‘۔
کمال پاشا نے ترکی میں اللہ کا نام لینے پر جس طرح پابندی عائد کی، ۹ جنوری۱۹۳۳ء کے ٹائم میگزین میں اس کی رپورٹ یوں شائع ہوئی : ’’ترکوں نے پچھلے ہفتے نیا چاند دیکھا جس کے بعد رمضان کا مہینہ شروع ہوا۔وہ مہینہ جس میں پیغمبر اسلام محمد ؐ پر قرآن نازل ہوا تھا۔اس سال نئے چاند کی پہلی جھلک کے ساتھ خوف کی بھی ایک خاص کیفیت لوگوں پر طاری تھی۔ترکوں کو ان کے سخت گیر آمر مصطفی کمال پاشا کی طرف سے، جس نے انھیں حجاب اورترکی ٹوپی چھوڑنے پر مجبور کیا (ٹائم، ۱۵ فروری ۱۹۲۶ء )،حکم دیا گیا تھا کہ اس رمضان کے آغاز کے بعد وہ کبھی خدا کو اس کے عربی نام’ اللہ ‘سے نہیں پکاریں گے ۔۔۔۔۔۔ آمر کمال کے ظالمانہ حد تک سخت فرمان کے ذریعے پچھلے ہفتے مؤذنوں کو پابند کیا گیا کہ وہ ترکی کے میناروں سے مسلمانوں کو کسی بھی صورت ’اللہ اکبر‘ کے الفاظ سے نہیں بلائیں گے، اس کے بجاے نامانوس الفاظ "Tanri Uludur"استعمال کریں گے جس کے معنی ترکی زبان میں وہی ہیں۔ جب اماموں نے دھمکی دی کہ وہ مسجدوں میں خدمات انجام دینا بند کردیں گے ۔۔۔۔۔۔ توحکومت نے اعلان کیا کہ ان کی جگہ نئے تربیت یافتہ افراد کا تقرر کردیا جائے گا جو ترکی زبان میں قرآن پڑھنا جانتے ہیں۔۔۔۔۔
رمضان کی آمد سے عین قبل محکمہ ثقافت (جس میں مذہب بھی شامل ہے) کے کچھ اہل کاروں نے ہمت جمع کی اور ترکی کے آمر کو بتایا کہ وہ ترکی کے خدا کا نام تبدیل نہیں کرسکتا، کم از کم اِس وقت۔ اسے بتایا گیا کہ متعدد مؤذنوں کے اس اصرار پر کہ وہ اللہ اکبر کہہ کر ہی اذان دیں گے، پہلے ہی جیل بھیجا جاچکا ہے۔ اس پر لوگوں کا غم وغصہ بڑھ رہا ہے ،اور صاف ظاہر ہے کہ وہ اللہ اکبر کہنے والے ان مؤذنوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آمر کمال یکایک ایک نتیجے تک پہنچے اور بولے ’’انھیں عارضی طور پر اسی طرح نماز پڑھنے دو جیسے وہ چاہتے ہیں‘‘۔ یہ سننے کے بعد چاند نکلنے سے محض چند گھنٹے پہلے ان کا وزیر خوش ہو کر یہ اعلان کرنے کے لیے دوڑا کہ ’’مؤذنوں اور اماموں کی عمومی عدم تیاری کی وجہ سے اس رمضان کے دوران نمازوں کی ادایگی اور قرآن کی تلاوت عربی زبان میں کی جاسکتی ہے لیکن خطبہ لازماً ترکی زبان میں دیا جانا چاہیے‘‘۔اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹائم کا رپورٹر کہتا ہے ’’رمضان میں تمام مسلمان خاص طور پر تند مزاج ہوتے ہیں کیونکہ دن کے اوقات میں وہ کچھ کھاتے پیتے نہیں، روزے ختم ہونے کے بعد ترک زیادہ نرم خو ہوجائیں گے،اور امید ہے کہ اپنے آمر کے حکم کے مطابق اپنے خدا کے لیے نیا نام قبول کرلیں گے‘‘۔
اتاترک کے پاکستانی وکیلوں کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے اپنے نظریات سے اختلاف کرنے والوں پر کوئی زیادتی نہیں کی، گرے وولف کا مصنف ایچ سی آرمسٹرانگ بالکل مختلف کہانی سناتا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’ خفیہ پولیس نے اپنا کام کیا۔ ٹارچر، مارپیٹ اور دوسرے طریقوں سے پولیس کو حراست میں لیے جانے والے مخالف لیڈروں کو مجرم ٹھیرانے کے لیے خاطر خواہ ثبوت مہیا کرنے تھے۔ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک ٹریبونل نامزد کیا گیا۔کسی طریق کار اور شواہد کا تکلف کیے بغیر عدالت نے انھیں پھانسی کی سزا سنادی۔سزاے موت کے وارنٹ مصطفی کمال کو دستخط کے لیے ان کی رہایش گاہ ’خان کیا‘بھیجے گئے۔ان میں سے ایک وارنٹ کمال کے جگری دوست عارف کی سزاے موت کا بھی تھا جو مصطفی کمال سے جھگڑے کے بعد اپوزیشن میں چلا گیا تھا۔ عارف اس کا ایک ایسا دوست تھا جو جنگ آزادی کے تمام کٹھن دنوں میں اس کا وفادار رہا تھا۔وہ اکیلا شخص تھاجس کے سامنے کمال نے اپنادل کھول کر رکھ دیاتھا۔۔۔۔ ایک عینی شاہد کے مطابق جب یہ وارنٹ سامنے آیا تو غازی کے چہرے پر کوئی تغیر رونما نہیں ہوا۔اس نے کوئی تبصرہ کیانہ ہچکچایا۔اس نے اپنا سگریٹ ایش ٹرے کے کنارے رکھا، اور عارف کے موت کے پروانے پر اس طرح دستخط کردیے جیسے یہ روزمرہ معمول کا کوئی عام کاغذ ہو، اور دوسرے وارنٹ پر پہنچ گیا‘‘۔ آرمسٹرانگ نے اس کے بعد ایک محفل رقص و سرود اور ناؤ و نوش کی تفصیلات بیان کی ہیں جو آمر وقت کی خواہش کے مطابق اسی رات ’خان کیا ‘میں برپا ہوئی، جب کہ عین ان ہی لمحات میں اس عشرت کدے سے چار میل دور انقرہ کے گریٹ اسکوائر پر عارف سمیت پاشا سے اختلاف راے کرنے کے جرم میں ۱۱ ترک لیڈروں کو تختۂ دار پر لٹکایا جارہا تھا۔
ان تفصیلات سے واضح ہے کہ اتاترک جنگ آزادی کے دوران بلاشبہہ ایک محبوب رہنما کی حیثیت سے اُبھرے لیکن خلافت کے خاتمے اور ترکی کو اسلامی اقدار و روایات سے دور کرنے کے اقدامات پر نہ صرف برعظیم اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی بلکہ ان اقدامات کی بھرپور مخالفت ان کے اپنے ملک میں بھی ہوئی جسے انھوں نے انتہائی بے رحمی سے کچل دیا۔ لہٰذایہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ جبر و ستم کا سلسلہ ان کے بعد کے حکمرانوں نے شروع کرکے اتاترک کے سیکولرازم کو بدنام کیا۔
یہ بات بھی تاریخی حقائق کے منافی ہے کہ کمال پاشا کے بعد اور طیب اردوگان سے پہلے تک ترکی کے تمام حکمراں جبر و تشدد سے کام لیتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتاترک کے جانشین عصمت انونو وغیرہ کے بعد ۱۹۵۱ء سے ۱۹۶۰ء تک عدنان مندریس اور جلال بایار کے دور میں اتاترک کے غلط اقدامات کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی ، عربی میں اذان اور نماز کی اجازت دی گئی اور دوسرے اقدامات کیے گئے، لیکن ترک فوج نے جو خود کو اتاترک کے اسلام مخالف سیکولر اقدامات کا محافظ سمجھتی تھی، جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور عدنان مندریس کو اتاترک کے اصولوں سے رُوگردانی کی پاداش میں پھانسی دے دی ۔ اس کے بعد سلیمان ڈیمرل اور نجم الدین اربکان وغیرہ کے ادوار حکومت میں بھی یہ کوششیں جاری رہیں لیکن فوجی مداخلت انھیں ناکام بناتی رہی۔ بالآخر نجم الدین اربکان کے ساتھی طیب اردوگان اور عبداللہ گل کی حکمت عملی کامیاب رہی، اور ترک عوام کی بھرپور حمایت حاصل کرکے انھوں نے ملک کو فوجی تسلط سے آزاد کرایا اور معاشی بحران سے نجات دلائی ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یہ لوگ ترکی کی اسلامی تحریک کا حصہ ہیں لیکن ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں جو اب تک برقرار ہیں۔
ترکی میں جس درجے اور جس قسم کا سیکولرازم نافذ کیا گیا تھا،اس کی ایک چشم کشا مثال ترکی میں مقیم ایک پاکستانی معلم اور کمال پاشا کے مداح نے اپنے ایک اخباری کالم میں پیش کی ہے۔ ان کے مطابق رمضان کے دنوں میں انقرہ یونی ورسٹی میں ان کی کلاس عین افطار کے وقت بھی جاری رہتی تھی۔ جو طلبہ و طالبات روزے سے ہوتے وہ کلاس کے دوران خاموشی سے چاکلیٹ وغیرہ سے روزہ افطار کرلیتے تھے اور نماز اور افطار کا کوئی وقفہ نہیں ہوتا تھا ۔کالم نگار کے مطابق رمضان اور روزے کا اس طرح اہتمام اصل اسلام کا حقیقی مظاہرہ ہے ۔ انھیں افسوس ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ حیرت ہے کہ سیکولر مغربی ملکوں میں کرسمس کی دس روزہ تعطیلات اور پُرجوش تقریبات ، شادیوں کا چرچ میں انعقاد، سیکولر بھارت میں ہولی دیوالی کے جشن، مغربی ملکوں میں ہفتہ وار تعطیل کے لیے عیسائیت میں مذہبی اہمیت رکھنے والے دن اتوار اور اسرائیل میں سنیچر، یعنی یومِ سبت کا انتخاب وغیرہ تو انھیں سیکولرازم سے متصادم نظر نہیں آتا، مگر تقریباً ۱۰۰ فی صد مسلمان آبادی والے ملک ترکی میں اسلام کی رو سے مقدس ترین مہینے رمضان میں افطار اور نمازِ مغرب کے لیے وقفہ نہ کرنے کو وہ سیکولرازم ہی کا نہیں اسلام کا بھی مثالی مظاہرہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مثال کمال پاشا کی جبری سیکولر بلکہ اسلام مخالف ’اصلاحات‘ کا ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔اس ترکی کو قائد اعظم کا آئیڈیل قرار دینا اور اتاترک کو ان’ اصلاحات‘ کی بنا پر بانی پاکستان کا ممدوح ٹھیرانا قطعی ناقابل فہم ہے۔
کمال پاشا اور قائد اعظم ہر لحاظ سے مختلف تھے۔ ایک خود راے آمر تھا تو دوسرا سرتاپا جمہوریت پسند۔ ایک نے اپنی قوم پر انگریزی لباس اور تہذیب بالجبر مسلط کی تو دوسرے نے سربراہ مملکت بنتے ہی شیروانی اور قراقلی ٹوپی کی ایسی پابندی اختیار کی کہ کسی سرکاری تقریب میں اس کی خلاف ورزی نہ ہوئی۔ ایک نے عربی رسم الخط ختم کرکے رومن حروف تہجی زبردستی رائج کیے تو دوسرے نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی۔ ایک کا معمول علماے اسلام کی تحقیر تھا تو دوسرے نے پہلے یوم آزادی کی تقریب پر پرچم کشائی کے لیے تحریکِ پاکستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے ممتاز عالم دین علامہ شبیر احمد عثمانی کا انتخاب کیا۔ ایک نے اپنے ہم وطنوں کو عالمی اسلامی برادری سے کاٹ پھینکنے کے اقدامات کیے تو دوسرا مسلمانانِ عالم کے اتحاد کا علَم بردار تھا۔ ایک کے نزدیک اسلام ریگستان کے قبائل کا دین اور کسی جدید ریاست میں قابل نفاذ نہیں تھا تو دوسرے نے اپنے درجنوں بیانات اور تقریروں میں واضح کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور قرآن و سنت میں اس کی مکمل صورت گری کردی گئی ہے۔ اس نے صاف طور پر کہا کہ’’ پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ اسے دور جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جانا ہے‘‘۔
قیامِ پاکستان کے بعد اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری پیغام میں آئین پاکستان کے حوالے سے دوٹوک الفاظ میںواضح کیا کہ وہ سیکولر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔ قائد اعظم کے الفاظ ہیں: ’’ مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کی یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ تیرہ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیںاور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۴۲۱)۔ ایسے شخص کو اُس جیسا قرار دینا جس نے اپنی قوم کا رشتہ اسلام سے کاٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی، بڑی نا انصافی اور حقائق کے یکسر منافی ہے۔
یہ سوچ ہماری روحانی ژولیدگی [الجھائو] کی علامت ہے، اور اس کی بڑی وجہ صدیوں سے چلے آنے والا ہمارا زوال ہے کہ کوئی سیاسی تحریک جو بیک وقت اسلامی تجدید و احیا کا بھی دعویٰ کرے، وہ اپنے اصل مقصد سے منحرف ہونے کے باعث ضرور ناکام ہوجاتی ہے اور گھٹ گھٹا کر مصر، ترکی، اور شام جیسے ملکوں کی ’قومی تحریک‘ بن جاتی ہے۔ ہمارے اکثرو بیش تر لیڈروں کا غالب رجحانِ طبع یہ ہے کہ وہ ہماری جدوجہد کے روحانی اسلامی پس منظر کو تو (غالباً دانستہ) نظراندازکردیتے ہیں، اور مسلمانوں کے مطالبۂ آزادی کے جواز میں ہندو اکثریت کے ساتھ ان کے تلخ تجربات پیش کرنے کے پہلو بہ پہلو ہندوئوں کے سماجی رسوم و روایات اور ثقافتی مظاہر سے مسلمانوں کے اختلافات بیان کر کے ایک ’جداگانہ قوم‘ ثابت کرنے پر زورِ بیان صرف کردیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جداگانہ مسلم قومیت کی حقیقت پر (اور بلاشبہہ یہ حقیقت ہی ہے) لفظ ’قومیت‘ کے مغربی مفہوم میں باتیں کرنے کا رجحان بڑھتا چلاجارہا ہے، بجاے اس کے کہ لفظ اُمت یا ملت کے اسلامی مفہوم میں ’جداگانہ مسلم قومیت‘ کے مفہوم کی تشریح کی جائے۔ ہمیں بلاخوف و خطر،ببانگ دہل، ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے کہ لفظ ’قوم‘ کے رواجی مفہوم سے ہمیں کوئی نسبت نہیں ہے۔ ہاں، ہم ایک قوم ہیں لیکن محض اس لیے نہیں کہ ہماری عادات، ہمارے رسوم و رواج، ہمارے ثقافتی مظاہر اس ملک میں بسنے والی دوسری قوموں سے مختلف ہیں، بلکہ ہم اس مفہوم میں ایک قوم ہیں کہ ہم اپنے ایک خاص نصب العین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنا چاہتے ہیں۔
اسلام سے وابستہ ہونا ہی ہمارے جداگانہ تشخص کا واحد جواز ہے۔ ہم کوئی نسلی وحدت نہیں ہیں۔ ہم لسانی وحدت بھی نہیں ہیں، حالانکہ اُردو مسلمانانِ ہند کی زبان کی حیثیت سے بڑی ترقی یافتہ زبان ہے۔ ہم انگریزوں یا عربوں یا چینیوں کی طرح ’قوم‘ نہیں ہیں، اور نہ کبھی اس مفہوم میں قوم بن سکتے ہیں اور یہی ایک حقیقت کہ ہم لفظ ’قوم‘ کے روایتی و رواجی مفہوم میں نہ تو قوم ہیں اور نہ قوم بن سکتے ہیں ، ہماری اندرونی قوت کا بہت بڑا سرچشمہ ہے۔ کیونکہ اس حقیقت کی بنیاد پر ہمیں یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ پورے کرئہ ارض پر، پوری دنیا میں، ہم، فقط ہم، بشرطیکہ ہم ایسا چاہیں، اُس شان دار منظر میں حیاتِ نو پیدا کرسکتے ہیں جو چودہ سوسال پہلے عرب کے صحرائوں سے اُٹھا تھا۔ ایسے آزاد مردوں اور عورتوں کی ایک اُمت کا شان دار منظر جو نسل، زبان اور وطن کے اتفاقی و حادثاتی بندھنوں کے باعث متحد و یک جان نہیں ہوئے تھے، بلکہ ایک مشترکہ نصب العین سے اپنی باشعور اور آزادانہ وفاشعاری کے باعث متحد و متفق ہوئے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے صفِ اوّل کے اکثر رہنما مسلمانوں کے اس گم کردہ راہ اور تشکیک پسند طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نزدیک اسلام ’ثقافتی روایت‘ کے سوا کچھ نہیں اور یوں پاکستان بھی ان کے خیال میں محض اس راہ کا ایک نشان ہے۔ پہلا قدم سہی، جس پر نام نہاد ’ترقی یافتہ‘ مسلم اقوام دیر سے چلتی آرہی ہیں، یعنی بہ تمام و کمال قومیت کی راہ۔ ہماری جدوجہد کے اسلامی پہلو پر یہ رہنما کبھی کبھار، زبانی کلامی کچھ کہہ بھی لیتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت اسلام کے مذہبی اصولوں کے مطابق مسلمانوں کی ذاتی و اجتماعی زندگی ڈھالنے کی طرف اشارے کنایے میں بھی بات نہ کرنے کو ’جدیدیت‘خیال کرتے ہیں۔ پاکستان کے مطالبے کو بھی اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے میں انھیں عار محسوس ہوتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ نیم دلانہ رویہ تحریکِ پاکستان کے بدن سے، سب سے متحرک اور فعال عنصر، یعنی روحانی عنصر کو نکال لیتا ہے۔ اور یہ چیز پاکستان کے مستقبل کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ باہر کی کوئی مخالفت اس خطرے کی پاسنگ بھی نہیں ہے۔
عظیم اقوام کے مقدر کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ان کی پڑوسی اقوام اصولاً ان کے اغراض و مقاصد سے اتفاق یا اختلاف کرتی ہیں۔ ان کے مقدر کا انحصار ان کے اغراض و مقاصد کی روحانی طاقت (یا کمزوری) پر ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے لیے ہماری آرزو نتیجہ ہے ہماری تخلیقی قوت اور ہمارے قلبی خلوص کا، اگر منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی اس کے منظر کے بارے میں ہماری بصارت واضح اور ہماری بصیرت پاکیزہ ہے، اگر مقصد کو مقصد بالذات جان کر اس سے محبت کرنے کا سلیقہ سیکھ لیں، اس عقیدے کے ساتھ کہ اپنے مطلقہ مفہوم میں یہ خیراعلیٰ ہے (یا یوں کہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں خیراعلیٰ ہے) اور محض اس لیے خیر نہیں ہے کہ بہ نظر ظاہر ہمارے لیے اور ہماری قوم کے لیے معاشی طور پر فائدہ رساں ہے۔ تب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان بنانے سے نہیں روک سکتی جو دنیا بھر میں تجدید و احیاے اسلام کا دروازہ کھول دے گا۔
اس کے برعکس اگر خوداختیاری کے لیے ہمارا مطالبہ نتیجہ ہے غیرمسلم اکثریت کے تسلط کے خوف کا، اگر ہمارے ذہن پر مستقبل کی تصویر کا محض نیگیٹو ثبت ہے، اگر یہ کسی بلندوبالا چیز کی خاطر آزاد ہونے کی آزادانہ آرزو نہیں ہے، اگر یہ صرف کسی چیز سے آزاد ہوجانے کی گداگرانہ خواہش ہے، اگر اسلام ہمارے لیے مقصود بالذات اور ایک اخلاقی داعیہ نہیں ہے، اگر اسلام ہمارے لیے محض ایک عادت ایک رسم اور ایک ثقافتی ٹھپا بن کر رہ گیا ہے، تب ایسی صورت میں یہ تو ممکن ہے کہ ہم اپنی عددی طاقت کے بل پر پاکستان کی قسم کی کوئی چیز حاصل کرلیں، لیکن ایسا پاکستان اُس پاکستان کے برابر نہ ہوگا، جسے حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے حد و شمار امکانات سے نوازا ہے۔ ایسا پاکستان بے شمار قومی ریاستوں کے منقسم ہجوم میں ایک اور ’قومی ریاست‘ سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔ بہت سی ریاستوں سے اچھا، بہت سی ریاستوں سے بُرا۔ مسلم عوام کے تحت الشعور میں بساہوا خواب، اور ان لوگوں کے شعور میں آیا ہوا خواب جنھوں نے پہلے پہل پاکستان کی باتیں اس وقت کیں، جب یہ نام بھی پردئہ شہود میں نہ آیا تھا۔ وہ خواب کیا تھا؟ ایک ایسی ہیئت حاکمہ کا قیام جس میں رسول کریمؐ کے اسوئہ حسنہ اورسنت کو ہرقدم پر، ہرپہلو سے عملی حقیقت کا جامہ پہنایا جاسکے۔
اگر ہمارے موجودہ رہنما ہمارے عوام کی دل کی دھڑکنیں سن سکیں، تو انھیں یقینا احساس ہوجائے گا کہ عام مسلمان محض ایک ایسی نئی ریاست کا خواب نہیں دیکھتا، جس میں مسلمانوں کو موجودہ معاشی مراعات سے کچھ زیادہ حاصل ہوسکیں۔ وہ تو ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھ رہا ہے جس میں احکامِ الٰہی کی فرماں روائی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ عام آدمی معاشی مراعات و سہولیات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ یقینا پروا کرتا ہے، بہت زیادہ کرتا ہے۔ معاش ہرشخص کی بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتا ہے، اور بجا طور پر محسوس کرتا ہے کہ ایک سچی اسلامی ریاست میں اسے نہ صرف معاشی انصاف اور مادی ترقی کا مساوی موقع ملے گا، جو فی الوقت اسے حاصل نہیں ہے، بلکہ اس کے انسانی وقار اوراس کے روحانی استحکام میں بھی قابلِ قدر اضافہ ہوگا۔
ہمارے عام آدمی کا یہ احساس، یہ اُمید، یہ آرزو، یہ خواب، جیساکہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں، منتشر ہے، بکھرا ہوا ہے، اُلجھا ہوا ہے۔ یہ عقلی نہیں، جبلی ہے۔ ہمارے عوام کے ذہن صاف نہیں ہیں کہ نئی اسلامی ریاست، جس کے لیے وہ جدوجہد کر رہے ہیں، اپنے قیام کے بعد کیسی اورکس شکل و صورت کی ہوگی۔ وہ پوری طرح نہیں جانتے کہ اس ریاست کے قیام کے لیے انھیں کیا ایثار کرنا ہوگا، اور کیا قیمت ادا کرنی ہوگی اور کیا قربانیاں کس کس شکل میں دینی پڑیں گی۔ وہ صاف دل اور صاف ذہن ہو بھی کیسے سکتے ہیں؟ صدیوں سے ان کا رشتہ اسلامی تعلیمات سے کٹا ہوا ہے۔ صدیوں سے وہ جہالت، ضعیف الاعتقادی اور سیاسی تذلیل کے ڈونگے کنوئیں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ وہ صرف نعروں اور زبانی کلامی وعدوں پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ وہ اپنے باطن میں چھپی ہوئی خواہشوں، اپنے دل میں پوشیدہ ارمانوں اور اپنے ذہن کے لاشعوری خوابوں کے درمیان کوئی ربط پیدا نہیں کرسکتے اور انھیں ان کے اظہار پر قدرت حاصل نہیں ہے۔ وہ محسوس تو کرتے ہیں، لیکن انھیں اپنے محسوسات کے اظہار کا سلیقہ نہیں آتا۔ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ انھیں ان کی خواہشات، محسوسات اور خواب سمیت آتش فشانی جہنم میں جلنے کو ڈال دیا گیا ہے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس جہنم سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ یہ راستہ جاننے کے لیے روحانی قیادت کی ضرورت ہے، جس کی اہمیت سیاسی قیادت سے کم نہیں۔
ہمارے رہنمائوں کے سامنے اصل کرنے کا کام کیا ہے؟ ہمارے عوام کے خوابوں اور خواہشوں کو ایک تخلیقی اور مثبت رُخ پر منظم کرنا، ان میں اسلام کی روح سمونا۔ ان کی تنظیم صرف سیاسی طور پر نہیں، بلکہ پاکستان کے عظیم تر مقصد کی خاطر روحانی اور نظریاتی طور پر بھی کی جائے۔ انھیں صرف اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کہ انھیں ایک جماعت میں منظم کردیا جائے اور ان کے سیاسی مطالبات کو زبان دے دی جائے۔ ملت ان سے کچھ اور بھی تقاضا کرتی ہے۔ بلاشبہہ تنظیم کی سخت ضرورت ہے۔ سیاسی احتجاج بھی ایک ضرورت ہے۔ لیکن یہ تمام ضرورتیں ہمارے نظریاتی مقصد کے حصول کی خاطر ہونی چاہییں، نہ کہ جیساکہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے، یہ دوسرے تیسرے درجے کی چیزیں بن کر رہ گئی ہیں۔ ایک مسلمان کے نزدیک ، جس کے لیے اسلام ہی اس کا جینا مرنا ہے، ہر سیاسی تحریک کو اپنی سندِجواز مذہب سے حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مذہب سیاست سے الگ نہیں ہوسکتا، اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، وہ یہ کہ اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا، بلکہ ہماری جسمانی، معاشرتی اور اقتصادی زندگی سے بھی پورا پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے لیے، پاکستان کی حمایت میں، پاکستان کی خاطر مسلم عوام سے مسلم رہنما جو پُرزور اپیلیں کرتے رہتے ہیں، ان کا پہلا حوالہ پاکستان میں اسلام کا دینی و مذہبی پہلو ہونا چاہیے۔ اگر اس اندرونی آواز اور مطالبے کو نظرانداز کیا گیا، تو ہماری جدوجہد اپنے تاریخی مشن کو پورا نہ کرسکے گی۔
ہمارے لیڈروں کے لیے اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر سب رہنما نہیں تو گنتی کے چند رہنما ایسے ضرور موجود ہیں جو وقت کی اس اہم ضرورت سے پوری طرح باخبر بھی ہیں اور اس ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ بھی ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند ماہ قبل مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے شان دار جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، انھوں نے بڑے زوردار طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ تحریکِ پاکستان کے محرکات کا اصل سرچشمہ قرآنِ مجید ہے، لہٰذا ہم جس اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی اندازِ فکر میں خطاب کیا ہے۔ ایسے بیانات و خطبات چونکہ مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے آتے ہیں، اس لیے مسلم لیگ کے مقاصد و اغراض کی تشریح و ترجمانی ہوجاتی ہے، لیکن محض تشریح و ترجمانی کافی نہیں۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پر عملاً اثرانداز ہونا ہے تو مسلم لیگ کی ہائی کمان کو زیادہ ٹھوس بنیاد پر وضاحت و تشریح کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کام کی خاطر اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس بنانی چاہیے جو اُن اصولوں کی مناسب وضاحت و تشریح کرنے کا فریضہ انجام دے جن پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔
چند سال پہلے تک اس کام کی ضرورت اتنی شدید نہ تھی کیونکہ اس وقت ہماری منزلِ مقصود بھی واضح نہ تھی، لیکن جیساکہ آج کل کے حالات کا تقاضا ہے، ملک میں ایسی زبردست تبدیلیاں پے بہ پے آرہی ہیں جن کے سبب مستقبل قریب میں پاکستان کا حصول و قیام ایک ممکن العمل چیز نظرآرہا ہے۔ اب یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ جون ۱۹۴۸ء سے پہلے پہلے پاکستان نام کی ایک نئی آزاد اور خودمختار ریاست کسی نہ کسی شکل میں وجود میں آجائے گی۔ یہی ہے وہ نکتہ جو میں آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ہے: ’کسی نہ کسی شکل میں‘‘ ___ اب یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے اور یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ پاکستان کی شکل کیسی ہو۔ اسی لیے مَیں کہا کرتا ہوں کہ یہ سوال کہ ’’کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟‘‘ اب محض نرے غوروفکر کے صاف ستھرے شعبے سے نکل کر فوری نوعیت کی عملی سیاست میں داخل ہوگیا ہے اور پوری شدت سے پوچھ رہا ہے: ’’کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟‘‘
یہ عین ممکن ہے کہ اس مضمون کے شائع ہونے سے پہلے ہی قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مژدہ مسلمانانِ ہند کو دے دیا ہو، اور اگر ابھی تک ایسا نہ ہوسکا تو بہت جلد اس کا اعلان منظرعام پر آجائے گا۔ لہٰذا مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیا ہوگا، کس نوعیت کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا، اور قومی مقاصد کیا ہوں گے۔ ان کے سامنے جو مسئلہ درپیش ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے: ’’کیا ہماری ریاست مذہب سے عالمی دُوری کی ایک اور علامت ہوگی، ان مسلم ریاستوں میں ایک اور مسلم ریاست کا اضافہ، جن میں اسلام کا کوئی اثر اور عمل دخل نہیں ہے، نہ سیاسی نظام کی تشکیل میں، نہ معاشرتی طرزِعمل میں۔ یا پھر یہ جدید تاریخ میں ایک نہایت پُرجوش اور انتہائی شان دار تجربہ ہوگا، اُس شاہراہ پر پہلا قدم جو انسانِ کاملؐ نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟ کیا پاکستان برعظیم ہندستان کے چند خاص علاقوں میں مسلمانوں کی قومی ترقی کا ایک ذریعہ ہوگا، یا پھر پاکستان ایک عملی سیاسی نظریے کے طور پر پوری دنیا میں اسلام کی تجدید و احیا کی علَم برداری کرے گا؟
اگر کبھی کسی قوم کے سامنے فیصلے کی گھڑی آیا کرتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں شعوری فیصلہ کرے، تو مسلمانانِ ہند کے لیے فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ اب یہ ذمہ داری ہمارے رہنمائوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ فیصلہ کریں اور صحیح فیصلہ کریں۔
اس سے پہلے کبھی مسلم رہنمائوں کو ایسا اختیار تفویض نہیں ہوا کہ وہ ملت کی تقدیر کا فیصلہ صحیح (یا غلط) سمت میں کریں۔ یہ ان کے اختیار و طاقت میں ہے کہ وہ جلد از جلد اپنا فیصلہ سنائیں کہ ہندی مسلمان صحیح معنی میں مسلمان اور حیاتِ نو پانے والے اسلام کے پشت پناہ بن جائیں گے، یا پھر نام نہاد مسلمان گروپوں اور ریاستوں کے ہجوم میں ایک اور مسلمان گروپ اور ریاست کا اضافہ ہوجائے گا، جہاں اسلام کی حیثیت ایک ثقافتی ٹھپے سے زیادہ نہیں، جہاں اسلام اور اس کے اصول و احکام اُمت المسلمین کے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی وجود کے لیے ناگزیر خیال نہیں کیے جاتے۔ مسلم لیگ کی موجودہ قیادت، مَیں پھر دہراتا ہوں، مسلم لیگ کی موجودہ قیادت کے ہاتھ میں ہے فیصلہ کرنا، صحیح فیصلہ کرنا، کیونکہ حصولِ پاکستان کے لیے جوش و خروش کی جو زبردست لہر اُٹھی ہے وہ مسلم لیگ نے اُٹھائی ہے، اور اس نے اس ملک کے تمام مسلم عوام کو اُٹھا دیا ہے، انھیں متحد کردیا ہے، اور ایسا متحد کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی ماضی کی تاریخ میں اتحاد کا ایسا شان دار مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اور جوش و خروش کی اس لاثانی لہر نے ہمارے رہنمائوں کو مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایسی باوقار طاقت تفویض کی ہے ، جو گذشتہ کئی صدیوں کے دوران میں کسی قوم نے اپنے رہنمائوں کو کبھی تفویض نہ کی تھی۔ گو، اسی بااختیار وقار و طاقت کی بنا پر ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے۔ انھیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی ذمہ داری ’سیاسی تدبر‘ سے شروع اور ’سیاسی تدبیر‘ پر ختم ہوجاتی ہے۔ سیاسی تدبیریں خواہ کتنی بھی ضروری اور ناگزیر ہوں، یہ محض ثانوی نوعیت کی ہوتی ہیں اور لیڈروں کے فرائض میں ایک عبوری اور عارضی مرحلے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیڈروں کا اصل منصب و فریضہ ’قوم سازی‘ ہے۔ چونکہ ہماری قومیت کی بنیاد اسلام ہے،اس لیے ہمارے لیڈروں کو فوراً اسلام کی اصطلاحوں میں سوچنا شروع کردینا چاہیے، کیونکہ مستقبل کے لیے افکار تازہ کی نمود کو ملتوی کیے جانا اب کسی اعتبار سے مناسب نہیں (یہ سوچنا اور کہنا اب غلط اندیشی ہے کہ ’’ایسے امور و معاملات پر اُس وقت غور کیا جائے گا جب پاکستان قائم ہوجائے گا‘‘)۔ ہمارے لیڈروں کو اسلام کے تقاضوں اور مسلم قوم کے عارضی مفادات کے درمیان خیالی خط نہیں کھینچنا چاہیے کیونکہ اسلام کے تقاضے جامع اور ہمہ گیر ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے روحانی معاملات بھی شامل ہیں اور معاشی مفادات بھی۔اسلام کے تقاضوں کے آگے مکمل ، رضاکارانہ اور باشعور دست برداری واحد حل ہے۔
مختصر یہ کہ اب یہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بار بار تلقین کریں کہ حصولِ پاکستان کا مقصد ایک سچی اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام ہے،اور یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک تحریکِ پاکستان کا ہرکارکن، وہ مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، دیانت داری سے اپنی زندگی کو ہر گھنٹے اور ہرمنٹ اسلام کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش نہ کرے گا، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔
یہ بات جہاں عامۃ المسلمین پر صادق آتی ہے، وہاں ہمارے لیڈروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ انھیں اپنے معاشرتی رویے سے یہ ظاہر و ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پوری سنجیدگی سے اسلام کو ایک سچا اصول و نظریہ قرار دیتے ہیں اور اسے محض ایک نعرہ نہیں سمجھتے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ اسلام کے عین تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا ہمارے لیڈروں میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اسلام ایک زندہ محرک ہے،اور ان کے لیے اظہار خلوص و عقیدت ہم پر واجب ہے۔ لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی صرف زبان پر اسلام کا نام آتا ہے، اور وہ بھی اس وقت جب وہ کسی عوامی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں یا کوئی اخباری بیان ان کی طرف سے جاری ہوتا ہو۔ حالانکہ ان کا شخصی و ظاہری رویہ اسلام سے اسی طرح خارج ہوتا ہے جس طرح یورپ اور امریکا کے کسی عام سیاسی لیڈر کا شخصی و ظاہری رویہ عیسائیت سے خارج ہوتا ہے۔ اگر حصولِ پاکستان کی خاطر ہماری جدوجہد کو اس مرض ’قومیت‘ کی قابلِ رحم حالت میں ضائع نہیں ہونا ہے، جس میں پوری دنیاے اسلام مبتلا ہے، تو ہمارے لیڈروں کا رویہ فوراً بدل جانا چاہیے۔ اگرچہ یہ ہمارا کام نہیں ہونا چاہیے کہ کسی شخص کے ذاتی عقائد کے نگران و منصف بن جائیں، کیونکہ یہ صرف اللہ کا کام ہے، تاہم ملت کو اپنے رہنمائوں سے یہ توقع کرنے کا حق حاصل ہے کہ ان کا طرزِ زندگی اس نظریے کے عین مطابق ہو، جس کے تحفظ کا وہ اپنی زبان سے دعویٰ کرتے ہیں۔
آخر میں ایک اور بات___ اگر ہمارے لیڈر اسلامی شعورو آگہی کی اعلیٰ ترین بلندیوں پر پہنچ جائیں، تب بھی صرف ان کی مثال ہمارے روحانی مقصد کے حصول و تحفظ کے لیے ناکافی ہوگی۔ ہماری قوم کو اخلاقی و معاشرتی زوال کے اس گڑھے سے نکل کر اُٹھنا ہوگا، جس میں وہ گری پڑی ہے۔ ہمارا موجودہ اخلاقی قدوقامت اس معیار سے بہت نیچے ہے جس کا تقاضا اسلام ہم مسلمانوں سے کرتا ہے۔ تہذیب کی روح کا ہم میں فقدان ہے۔ آرام طلبی اور تن آسانی سے ہمیں محبت ہے۔ جب ذاتی مفاد کی کوئی بات سامنے آئے تو ہمیں جھوٹ بولنے سے عار نہیں۔ ہمیں اپنے وعدے وعید توڑنے میں مزا آتاہے۔ جب بدعنوانی، خودغرضی، چال بازی، فریب کاری کے واقعات ہماری روزمرہ کی زندگی کے مشاہدے میں آتے ہیں، ہم بڑی معنویت سے مسکراتے یا بڑی ڈھٹائی سے ہنستے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے بیش تر افراد کو کسی چیز سے کوئی سچی لگن ہے، تو وہ چیز وہ ہے جسے عرفِ عام میں ’کیریئر‘کہتے ہیں۔ اپنے لیے اور اپنے رشتہ داروں کے لیے چھوٹے سے چھوٹے فائدے کے لیے وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں، جو ان سے ہوسکتا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کے پیٹھ پیچھے غیبت کرنا اور بہتان لگانا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم نے اپنے وجود کے اصل سرچشمے، یعنی اسلامی تعلیمات سے فیض یاب نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔
ایسے حالات میں ہم کیوں کر ایک سچے اسلامی ملک پاکستان کے شایانِ شان سچے شہری بن سکتے ہیں؟ ایسے حالات میں ہم کیوں کر ایسا سچا اسلامی ملک پاکستان حاصل کرسکتے ہیں، جس کے حصول کی خاطر ہم اپنی موجودہ اخلاقی پستی سے اُوپر اُٹھنے کی ذرا بھی کوشش نہ کریں؟ جب ہمارے دل میں حُب ِ الٰہی اور خوفِ خدا ہی موجود نہ ہو، تو ہم کیوں کر حکمِ الٰہی کو اپنے معاشرتی نظام کا مقتدر بنا سکتے ہیں؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان سوالوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اگر مسلمان اپنے طور طریق اور اپنے اخلاقی معیار فوری طور پر تبدیل نہیں کریں گے اور ہرقدم پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کی روش ترک نہیں کریں گے ، تو یقین جانیے کہ نظریۂ پاکستان میں سے اس کی روح غائب ہوجائے گی اور یوں پاکستان کو اسلام کی جدید تاریخ میں جو منفرد پوزیشن حاصل ہونے والی ہے،و ہ حاصل نہ ہوسکے گی۔
جیساکہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ عامۃ المسلمین جبلی طور پر پاکستان کی اسلامی روح کا احساس رکھتے ہیں، اور دل و جان سے چاہتے ہیں کہ لاالٰہ الا اللہ پاکستانی قوم کی ترقی و تعمیر کے لیے نقطۂ آغاز بن جائے، لیکن ان کے خیالات میں ابہام اور ژولیدگی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جانا کدھر کو ہے۔ انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ رہنمائی رہنما کا منصب ہے۔ سوال گھوم پھر کر پھر قیادت کے سامنے آگیا ہے۔
مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ عصرحاضر کی مسلم قیادت کا بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کی رہنمائی صرف سیاست و معیشت کے میدان میں نہ کریں، بلکہ روحانی اور اخلاقی میدان میں بھی کریں اور مسلمانوںکو باور کرائیں کہ:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد ۱۳:۱۱)، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی قوم کی سیاسی و معاشی حالت بہتر نہیں ہوسکتی جب تک اس کی مجموعی اخلاقی حالت بھی بلند نہ ہو۔
مغربی اور بھارتی کلچر کے فروغ پر کالموں کی اشاعت کے بعد، انصارعباسی کے اپنے اخبارنے، ان کی تحریر شائع نہ کی اور میڈیا کے بڑوں نے کچھ اور ہی فیصلے کیے۔ اس پر ان کا اپنا تبصرہ پڑھیے۔ ادارہ
ہمارا دین ہمیں محض اسباب پر بھروسا کرنے کے بجاے ایمان اور اصول کی بنیاد پر لڑنے اور جدوجہد کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ذاتی عناد اور دوسروں سے بلاوجہ کی دشمنی پالنا مسلمانوں کا وطیرہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کی دشمنی اور دوستی صرف اپنے اللہ کی خاطر ہونی چاہیے اور دشمنی بھی برائی سے نہ کہ برائی میں ملوث فرد سے۔ لیکن ہم انسان غلطی کرتے ہیں۔ اختلاف راے کو دشمنی میں بدل دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف فتنے میں پڑ جاتے ہیں۔ میں نے بھی نجانے ایسا کتنی بار کیا ہوگا جس پر میں اپنے اللہ سے اور اُن لوگوں سے جن کا دل دکھایا معافی کا طلب گار ہوں۔
یہاں میں واضح کردوں کہ میری کیبل آپریٹروں سے کوئی دشمنی ہے نہ ٹی وی مالکان سے کوئی عناد۔ میری جنگ تو بے حیائی اور انڈین اور مغربی کلچر کے خلاف ہے مگر کیبل آپریٹر اور میڈیا مالکان مجھے اپنا دشمن سمجھ بیٹھے۔ اپنی خفگی میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ فیصلہ کردیا کہ میں تو کیا، کسی اینکرپرسن کو اس مسئلے پر بات نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اخباری اطلاعات کے مطابق فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں فحاشی و عریانیت اور غیرقانونی انڈین چینلوں سے متعلق محترم قاضی حسین احمد اور محترم جسٹس وجیہہ الدین کی درخواستوں پر سنے جانے والے کیس کا بھی مکمل بلیک آئوٹ کیا جائے گا۔ گویا میڈیا نے خود ہی میڈیا اور آزادیِ راے پر حملہ کر دیا۔ دنیاوی اسباب، اپنی برادری کی جمعیت اور طاقت کے بل بوتے پر صحافیوں کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلانے کی ایک نئی مگر بڑی سازش ہے جس کو پیمرا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کے بس میں ہے کہ وہ میڈیا کو بلیک میل کرکے صحافیوں کو کسی ایسے ایشو پر بات کرنے سے روک سکتے ہیں جو غیرقانونی اور غیراخلاقی ہو۔ بظاہر وہ یہ بھی طاقت رکھتے ہیں کہ میرے لکھے ہوئے کو ناقابلِ اشاعت قرار دلوا دیں۔ ابھی تک وہ اس بات پر کامیاب ہوئے ہیں کہ کوئی ٹی وی چینل یا کوئی اینکرپرسن فحاشی و عریانیت اور غیرقانونی انڈین چینل کے موضوع پر بات نہ کرے۔ کئی اینکرپرسنز کو یہ بتادیا گیا ہے کہ وہ فحاشی اور غیرقانونی انڈین چینلوں کے مسئلے کو اپنے شوز کا موضوع نہ بنائیں۔
مالکان تو ڈر گئے، بلیک میل ہوگئے، ان کو اپنے اپنے کاروبار کو بچانے کی فکر پڑ گئی مگر اب اصل امتحان ہے ہم صحافیوں کا۔ اب امتحان ہے بڑے بڑے اینکرپرسنز کا، کیونکہ یہ کسی کی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ آزادی صحافت پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اب یہ امتحان ہے پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا کہ وہ کس طرح اس حملے کا جواب دیتی ہیں۔ ابھی تو ہر طرف ہُو کا عالم ہے۔ سب خاموش ہیں ماسواے سید طلعت حسین کی ویب سائٹ،سچ ٹی وی اور کراچی سے اُمت اور جسارت اخبار کے کسی نمایاں اخبار یا ٹی وی چینل نے صحافت کی آزادی پر مارے جانے والے اس شب خون پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیبل آپریٹروں اور میڈیا مالکان کے بجاے اگر یہ حملہ کسی اور جانب سے ہوتا تو پاکستان کا میڈیا، صحافی، اینکر پرسنز، انسانی حقوق کے علَم دار، سیاست دان سب نے آسمان سر پہ اُٹھا لینا تھا۔
اس وقت تک mainstream میڈیا میں اس موضوع پر موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ کیبل آپریٹروں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کسی صورت غیرقانونی انڈین چینلوں کو بند نہیں کریں گے۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن نے اپنی غلط کاریوں کو چھپانے کے لیے کیبل آپریٹروں کے سامنے سر جھکا دیا ہے۔ کون نہیں جانتاکہ میڈیا مالکان کے اہم رہنمائوں کے اپنے چینل انڈین گانوں اور فلموں سے چلتے ہیں۔ پی ایف یوجے، اے پی این ایس، سی پی این ای سب بے خبر بنے بیٹھے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود میں نااُمید نہیں۔
مجھے امید ہے کہ سب میڈیا مالکان اس ڈکیتی میں حصہ دار نہیں بن سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ صحافیوں اور اینکر پرسنز میں سے وہ باضمیر اور جرأت مند صحافی جنھوں نے ہرکڑے وقت میں اپنی آواز بلند کی، اس موضوع پر بھی اپنی آواز ضرور اُٹھائیں گے۔ اپنے ذاتی مفادات کا پہرہ دینے والے اور اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس ذات باری تعالیٰ کے غضب اور قہر سے غافل ہیں اس لیے اپنے غیرقانونی انڈین چینلوں کے علَم برداروں نے میڈیا کو خاموش کرنے کا خوب بندوبست کیا مگر اس سب کے باوجود نسبتاً چھوٹے اخباروں اور بالخصوص سوشل میڈیا نے ساری سازش عوام کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ سوشل میڈیا میں اس مسئلے پر خوب بحث ہورہی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا میں سرگرم لبرل اور سیکولر طبقہ اس بحث میں داخل ہونے سے اس لیے گریزاں ہے کیونکہ ان کے لیے فحاشی و عریانیت اور انڈین کلچر کا پاکستان میں پھیلائو کوئی مسئلہ نہیں۔
انصار عباسی دی نیوز اور روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار
علامہ محمد اسد نے قیام پاکستان سے چار ماہ قبل اپنے رسالے Arafatمیںمئی ۱۹۴۷ء میںایک فکرانگیز مقالہ لکھا تھا ۔ اس مقالے میں اس وقت قیامِ پاکستان کے لیے جو جدوجہد ہورہی تھی، اس پرکچھ اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔ آج ہمارے ملک میں قیام پاکستان پھر موضوع بحث بناہواہے، اورہرطرح کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اِس پس منظر میںاُس وقت کی اِس تحریر کا مطالعہ چشم کشا ہے۔علامہ محمد اسد ان چند نو مسلموںمیں سے ہیںجنھوںنے اسلام کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ گہرائی میں جاکر اس کا مطالعہ کیا اورپھر اس کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی ان تھک کوششیں کی۔ تحریک پاکستان میں انھوںنے دل و جان سے شرکت کی۔تحریک کی قیادت سے ان کاقریبی ذاتی تعلق تھا۔ انھوں نے پاکستان کی تحریک کواس کے صحیح پس منظر میں سمجھا اوراپنے قلم سے اس کی گراں قدر خدمت کی۔ ان کی یہ تحریر ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے کہ تحریک کے عروج کے وقت انھوں نے اس تحریک کے اصل ہدف اورملت اسلامیہ ہند کے مقصد، عزائم اوراحساسات کی بھرپورترجمانی کی ہے۔
قائد اعظم، لیاقت علی خان اورنواب ممدوٹ نے ان کو پاکستان کے اسلامی دستورکا خاکہ مرتب کرنے کا کام سونپا، جسے انھوں نے ایک گراں قدر مقالے کی شکل میں تیار کیا جو پاکستان بننے کے بعد Arafat کے پہلے اور آخری شمارے میں شائع ہوا اورآج بھی کتابی شکل میں موجود ہے۔ حکومت پاکستان نے ان کو اقوام متحدہ میںپاکستان کانمایندہ مقرر کیا لیکن پھر حالات نے ایک دوسرا رخ اختیار کرنا شروع کردیااورزمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں آگئی جو نہ شریک سفر تھے اورنہ تحریک پاکستان کے اصل پیغام کے امین۔ جہاں ان ۶۵برسوں میں پاکستان کی نظریاتی شناخت کو پراگندہ کرنے کی کوششیں زور و شور سے ہوررہی ہیں، وہیں پاکستان کی اصل اساس اس کی حفاظت اوراس کو اس کی اصل منزل کی طرف گامزن کرنے کی جدوجہد بھی روزافزوں ہے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری اور ۱۹۵۶ء کا دستور ہو یا۱۹۶۲ء یا ۱۹۷۳ء کا، پاکستان کی اسلامی شناخت ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اصل مقاصد کی بار بار یاددہانی ہو، نئی نسلوں کو اس تاریخی جدوجہد اوراس کے اصل اہداف سے روشناس کیا جائے۔ مسجداور تعلیمی اداروں سے لے کر میڈیا اورپارلیمنٹ تک سب نہ صرف اس تاریخی سفر کو پوری دیانت سے پیش کریں بلکہ اس کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی اورجہادی ریاست بنانے کے لیے سرگرم ہوں۔ ہمیں توقع ہے کہ تعلیم،تذکیر اورتبدیلی کے لیے تیاری اورجدوجہد کے اس عمل میں علامہ محمد اسد کے اس مقالے کی اشاعت ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلے گی۔ اس جذبے، خواہش اوردعاکے ساتھ ہم اس تحریر کو پرانی اورنئی دونوں نسلوں کو رمضان کے تحفے کے طور پر پیش کررہے ہیں۔٭ مدیر
تین چار ماہ پہلے کی بات ہے، میں نے عرفات کے شمارہ فروری میں ایک سوال اُٹھایا تھا: ’’کیا واقعی ہم اسلام چاہتے ہیں؟‘‘۔ یہ کوئی خطیبانہ سوال نہیں تھا کہ قارئین کی دینی اصلاح کے لیے ذہن میں آیا ہو۔ فی الحقیقت یہ ایسا سوال تھا جو ہمیں اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیے۔ یہ کہ ’’کیا واقعی ہم اسلام چاہتے ہیں؟‘‘ وقت آگیا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپنے حال اور مستقبل کے حوالے سے اس سوال کے تمام نتائج و عواقب کا پورا پورا تجزیہ کرنا ہوگا اور اپنے اندر اخلاقی جرأت پیدا کرنی ہوگی کہ اس سوال کے جواب میں ایمان داری سے ’ہاں‘ یا ایمان داری سے ’نہ‘کہہ سکیں۔ فی زمانہ، جیسے حالات ہمارے مشاہدے میں آرہے ہیں، ان کی کیفیت یہ ہے کہ بے شمار مسلمان زبان سے تو کہتے ہیں ’ہاں‘ اور عمل سے کہتے ہیں ’نہ‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں اور بلندبانگ ادعا کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام بہترین ضابطۂ حیات ہے، اسلام واحد ضابطۂ حیات ہے جو انسانیت کو تباہی کے راستے سے بچا سکتا ہے، اس لیے اسلام واحد منزلِ مقصود ہے جس کے نفاذ کے لیے کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ لوگ کہتے تو یہی ہیں، لیکن اپنے اعمال اور سماجی رویوں سے وہ اسلام سے زیادہ سے زیادہ دُور ہوتے جاتے ہیں۔ ہماری جدید تاریخ میں اسلام کے بارے میں اتنی باتیں کبھی نہیں ہوئی تھیں، جتنی آج کے ہندستان میں ہورہی ہیں۔ ہر طرف اسلام، اسلام کا غلغلہ ہے اور اس کا برعکس بھی درست ہے کہ اسلام کی سچی روح کے مطابق عملاً اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کی طرف اتنی بے توجہی کبھی نہیں برتی گئی، جتنی آج کے ہندستان میں برتی جارہی ہے۔
اس مقام پر شاید میرے اس دعوے کے خلاف آپ کے دل میں شکایت یا احتجاج پیدا ہو اور آپ اس زبردست جوش و خروش کی طرف توجہ دلائیں جو نظریۂ پاکستان نے مسلمانانِ ہند میں برپا کررکھا ہے۔ آپ کہیں گے اور ایسا کہنے میں آپ حق بجانب ہوں گے کہ مسلمانانِ ہند بالآخر اپنی طویل گراں خوبی سے بیدار ہوگئے ہیں، انھوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اتنا زبردست اتفاق و اتحاد حاصل کرلیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ یہ کہ مسلمان ہونے کی بنا پر انھوں نے اپنا جداگانہ ثقافتی تشخص قائم کرنے کا شعور حاصل کرلیا ہے۔ یہ کہ تحریکِ پاکستان کا پہلا نعرہ ہی ’لااِلٰہ الا اللہ‘ مقرر ہوا ہے۔ یہ کہ انھوں نے ایسی سیاست حاکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس میں مسلم تصورِ کائنات، مسلم اخلاقیات اور مسلم معاشرتی افکار مکمل اظہار کی راہ پاسکیں۔ اور شاید آپ کسی قدر رنجیدگی سے مجھ سے دریافت کریں گے کہ کیا میں ان سب باتوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے بے وقعت اور غیراہم خیال کرتا ہوں؟
بات یہ ہے کہ میں ہرگز ہرگز ان کو بے وقعت اور غیراہم خیال نہیں کرتا۔ میری نظر میں یہ بہت وقیع اور اہم ہیں۔ میرا عقیدہ ہے (اور گذشتہ چودہ سال سے مَیں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں، ماسوا اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے تو پورے عالمِ اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی، اسلامی ہیئت حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا۔ کیا تحریکِ پاکستان کے تمام قائدین اور اہلِ دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعوئوں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اوّلین محرک ہے؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے، یا مختلف و متفرق ہے؟
یہ سوالات معمولی نہیں ہیں۔ یہ بڑے سوال ہیں، اتنے بڑے کہ ہمارے موجودہ مصائب سے بھی بڑے ہیں، اور اُن انفرادی تکالیف سے بھی بڑھ کر ہیں جو اس ملک میں ہزاروں مسلمان مرد وزن سردست برداشت کر رہے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب ہی سے فیصلہ ہوگا اس امر کا کہ یہ تکالیف اور قربانیاں مستقبل کے ایک نئے تناظر ،یعنی اسلام کے مکمل اثبات و نفاذ کی نوید لائیں گی یا ایک قومی مسلم ریاست کی تشکیل کے ذریعے مسلمانانِ ہند کی محض اقتصادی صورت حال کی اصلاح و ترقی کی ضامن ہوں گی۔
یہاں میں جریدہ عرفات کے شمارہ فروری ۱۹۴۷ء میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون کا اقتباس پیش کرنے کی جسارت چاہتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا: ’’تحریکِ پاکستان ایک نئے اسلامی نظام کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہے، بشرطیکہ ہم مسلمان محسوس کریں اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی برابر محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کی حقیقی اور تاریخی وجۂ جواز یہ نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے مختلف لباس پہنتے، مختلف زبان بولتے یا مختلف انداز میں علیک سلیک کرتے ہیں، یا یہ کہ ہمیں دوسری قوموں سے کچھ شکایات ہیں، یا یہ کہ ہمیں زیادہ معاشی مواقع کی خواہش ہے یا یہ کہ ان لوگوں کے لیے جو خود کو محض عادت کے طور پر ’مسلمان‘ کہلواتے ہیں، زیادہ کشادہ جگہ کی طلب ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مطالبۂ پاکستان کا اگر کوئی جواز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ایک سچی اسلامی مملکت قائم کی جائے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ عملی زندگی میں اسلامی احکام و شعائر رائج کیے جائیں‘‘۔
’’پاکستان کے بارے میں میرا تصور یہی ہے ، اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کا بھی یہی تصور ہے۔ میں نے ’بہت سے‘ کہا ہے، ’سب‘ نہیں کہا، اور نہ ’بیش تر‘ کہا۔ اس احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ طبقے کا تصور پاکستان یہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا مطلب فقط یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کو ہندو غلبے سے نجات دلائی جائے اور ایک ایسی ہیئت حاکمہ قائم کی جائے جہاں مسلمانوں کو اقتصادی مفہوم میں اپنی ایک خودمختار جگہ مل جائے۔ ان کے نزدیک اسلام کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ متعلقہ لوگوں کا مذہب اتفاق سے اسلام ہے، جیسے کہ آئرلینڈ کی جدوجہد آزادی میں کیتھولکیت کو بھی اس لیے کچھ اہمیت حاصل ہوگئی تھی کہ آئرلینڈ کے بیش تر باشندوں کا یہی مذہبی تھا، اور جس طرح کہ آئرستانی قومیت کی تحریک میں کیتھولکیت کو محض ایک اضافی، جذباتی عنصر کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، اسی طرح خدشہ ہے کہ تحریکِ پاکستان میں اسلام کے نام پر نعرے بازی بھی کہیں قومی خوداختیاری کی جدوجہد میں محض ایک اضافی، جذباتی عنصر بن کر نہ رہ جائے‘‘۔
میں صاف صاف اور واشگاف لفظوں میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے بھائی اور بہنیں پاکستان کے روحانی و اسلامی مقاصد پر یقین تو کیا رکھیں گے ، وہ ان کی مطلق پروا بھی نہیں کرتے، اوروہ ایسے جذبات کے بہائو میں بہے چلے جارہے ہیں جو قوم پرستی کے جذبات سے ملتے جلتے ہیں۔ اور یہ بات خاص طور پر اُن مسلمانوں پر لاگو ہوتی ہے جنھوں نے مغربی خطوط پر تعلیم پائی ہے۔ دین اسلام سے اُن کی بے اعتنائی گذشتہ چند عشروں میں پختہ ہوئی ہے۔ شرعی احکام کی پابندی ایسے لوگوں کے لیے خاصی پریشان کن اور تکلیف دہ بن گئی ہے۔ مغربی طرزِفکر کے سوا کسی اور انداز میں سوچنے سمجھنے کی قابلیت ان میں مفقود ہوچکی ہے۔ چنانچہ ان کے قلوب میں یہ عقیدہ پیدا ہی نہیں ہوتا کہ دنیا کے معاشرتی اور سیاسی مسائل خالص مذہبی اصولوں کے تحت حل پذیر ہوسکتے ہیں۔ اسلام کا نام ان کی زبان پر آتا ہے تو محض رسماً آتا ہے، کسی اصول و نظریے کے تابع ہوکر نہیں آتا۔ انھیں اسلام سے کوئی دل چسپی ہوتی ہے، تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ اپنی قوم کی روایات میں ثقافتی اقدار کا بھرم رکھا جائے۔ اس قسم کی ذہنیت والے لوگوں کے لیے پاکستان کا مطالبہ ویسا ہی قومی مطالبہ ہے، جیسے مصر مصریوں کے لیے، چیکوسلواکیہ چیک لوگوں کے لیے، یعنی لوگوں کے ایک گروہ کی جانب سے، چند مخصوص اقتصادی مفادات اور چند مشترکہ ثقافتی خصائص (اور مسلمانانِ ہند کی صورت میں اسلام سے وابستہ ثقافتی خصائص) کی اساس پر خوداختیاری کا مطالبہ۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔
یقینا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ یہ پاکستان کا بہت کمزور تصور ہے۔ یہ تصور اس اسلامی جوش و خروش سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا، جس کا مظاہرہ ہمارے عوام کی بہت بڑی اکثریت بڑے واضح، لیکن بڑے بے ہنگم طریقے سے کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر نام نہاد اربابِ دانش اسلام سے صرف اس حد تک غرض رکھتے ہیں، جس حد تک کہ وہ ان کی سیاسی خوداختیاری کی جدوجہد کے لیے مفیدمطلب ہوسکتا ہے، جب کہ ہمارے عوام خوداختیاری کا مطالبہ صرف احیاے اسلام کی آرزو کے تحت کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کی آرزوئیں واضح نہیں ہیں اوروہ نہیں جانتے کہ انھیں حاصل کیوں کر کیا جاتا ہے، اس لیے وہ قدرتاً اہلِ قیادت پر بھروسا کرتے ہیں۔ پس قیادت کے روحانی اوصاف ہی سے بالآخر یہ طے ہوگا کہ پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد کی روحانی کیفیت کیا ہوگی، اور پاکستان اپنے قیام کے بعد کیسا رنگ روپ اختیار کرے گا؟
جہاں تک مسلمانانِ ہند کا تعلق ہے، تحریکِ پاکستان کی جڑیں ان کے اس جبلی احساس میں پیوست ہیں کہ وہ ایک ’نظریاتی قوم‘ ہیں، اور اسی لیے وہ خودمختار، جداگانہ سیاسی وجود کے حق دار ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ محسوس کرتے اور جانتے ہیں کہ ان کا جداگانہ تشخص، دوسری اقوام کی طرح، مشترکہ نسلی مشابہتوں اور قرابتوں یا مشترکہ ثقافتی اقدار و روایات کے شعور کی بنیاد پر قرار نہیں پاتا، بلکہ اسلامی نظریہ و اعتقاد سے مشترکہ وابستگی کی اساس پر قرار پاتا ہے۔ پس ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کے جواز کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں جس میں اسلامی نظریہ و اعتقاد (یعنی شریعت) ان کی قومیت کے ہرپہلو اور ہرمظہر میں سب کو دکھائی دے۔
یہ ہے تحریکِ پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین۔ یہ ہرگز ہندستان میں مسلم اقلیت کے اجتماعی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ غیرمسلم اقلیتیں رہیں گی، جس طرح کہ ہندستان میں مسلم اقلیتیں رہیں گی، اس لیے اقلیتوں کے مسئلے کے سراسر حل کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں ہوتی۔ یہی ہے وہ نکتہ جس پر ہمیں اور ہمارے نکتہ چینوں کو ذرا رُک کر غوروفکر کرلینا چاہیے۔ اقلیتوں کا مسئلہ بے شک ہرلحاظ سے ہندستان کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے، لیکن یہ مسئلہ بنیادی طور پر تحریکِ پاکستان کا ذمہ دار نہیں ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اقلیتوں کا مسئلہ تحریکِ پاکستان کے اصلی نصب العین کا ایک اتفاقی لازمہ ہے۔ تحریکِ پاکستان کا اصلی نصب العین کیا ہے؟ ایک اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام، جس میں ہمارا نظریہ حقیقت کا رنگ روپ اختیار کرسکے۔ صرف اسی نصب العین کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ممبئی یا مدراس کے مسلمان، جن کو خوب معلوم ہے کہ ان کے صوبے پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے، حصولِ پاکستان کے اتنے ہی متمنی ہیں جتنے پنجاب یا بنگال کے مسلمان۔ ممبئی اور مدراس کے مسلمان یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے صوبے جغرافیائی و علاقائی اعتبار سے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے، اگر ’مسلم اکثریت‘ کے صوبوں کے بھائیوں کی مانند پوری شدت و توانائی سے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اس دعوے کا ٹھوس ثبوت ہوگا کہ اسلام ایک عملی مذہب اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، اور یہ کہ مسلمان، محض مسلمان ہونے کی بنا پر ایک ملت ہیں، خواہ وہ جغرافیائی لحاظ سے کسی بھی علاقے میں آباد ہوں۔ اور اگر غیرمسلم ہمارے اس دعوے پر اس بنیاد پر نکتہ چینی کرتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی، حتیٰ کہ دنیاے اسلام میں بھی، کسی ملک یا علاقے میں محض مذہبی عقائد کی اساس پر جداگانہ قومیت کا مطالبہ نہیں کیاجاتا، تو ہمارا جواب یہ ہے کہ یہی تو تحریکِ پاکستان کی خاص انفرادیت ہے۔
کیا دوسروں کو یہ طے کرنے کا حق دے دیا جائے کہ ہماری قومیت کے عناصر کیا ہونے چاہییں اور کیا نہیں؟ کیا ہمیں اس حقیقت کے اعتراف میں شرمساری محسوس کرنی چاہیے کہ ہمارا سیاسی نصب العین ترکوں، مصریوں، افغانیوں، شامیوں یا ایرانیوں کے موجودہ سیاسی نصب العین سے بالکل مختلف ہے؟ کیا ہمیں یہ سوچ کر فخر نہیں کرنا چاہیے کہ تمام مسلم اقوام میں، یہ ہم اور صرف ہم مسلمانانِ ہند ہیں جو گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف لوٹاکر اُمت واحدہ کے اُس تصور کی جستجو میں نکل کھڑے ہیں جس کی ہدایت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے روشن کردی تھی۔
پس دنیاے اسلام میں جہاں کہیں بھی سیاسی عوامی تحریکیں چل رہی ہیں ، ان سب کے مقابلے میں تحریکِ پاکستان فی الحقیقت منفرد و یکتا ہے۔ اس جیسی اور کوئی تحریک نہیں۔ بلاشبہہ وسیع و عریض دنیاے اسلام میں اور بھی لوگ ہیں جو اسلام کے سچے شیدائی ہیں، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے فروغ کے لیے اور اپنی قوم کی اخلاقی سربلندی کے لیے بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن پوری دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے، سواے تحریکِ پاکستان کے، کہ پوری کی پوری مسلم قوم منزلِ اسلام کی جانب گامزن ہوگئی ہو۔ پوری دنیاے اسلام میں کوئی عوامی تحریک ایسی نہیں ہے، جس کی اساس اسلامی جذبے پر رکھی گئی ہو، سواے تحریکِ پاکستان کے۔ کسی بھی موجودہ اسلامی ملک میں ایسی تحریک نہیں چلی جس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ ہو، سواے تحریک پاکستان کے۔ بعض اسلامی ممالک، مثلاً ترکی اور ایران، اپنے سرکاری و حکومتی مقاصد میں علانیہ غیراسلامی ہیں، اور انھوں نے کھلم کھلا اعلان کررکھا ہے کہ اسلام کو سیاست اور عوام کی معاشرتی زندگی سے الگ رکھنا چاہیے۔ حتیٰ کہ اُن اسلامی ملکوں میں بھی، جہاں مذہب کی تھوڑی بہت قدر باقی ہے، اور جہاں مختلف مدارج میں اس کی روحانی میراث برقرار ہے، وہ بھی یوں سمجھیے کہ صرف ان معنوں میں ’اسلامی‘ ہیں کہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، جب کہ ان کے سیاسی مقاصد و عزائم اسلامی اصول و نظائر کے تابع نہیں ہیں، بلکہ ان کے حکمران یا مقتدر گروہ جس چیز کو ’قومی مفادات‘ کہتے ہیں، مغرب کے مفہوم ہی میں ’قومی مفادات‘ ہیں۔ اس لیے ان ملکوں کی سیاسی تنظیمات سے، خواہ وہ سعودی عرب یا افغانستان کی طرح مطلق العنان سلطنت ہوں یا شام کی طرح ری پبلک ہوں یا مصر اور عراق کی طرح آئینی بادشاہت ہوں، اسلام کی طرف جھکائو رکھنے کی توقع نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ملکوں کے عوام یا حکمران اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف تاریخی وجوہ سے ان کی حکومتوں یا سیاسی نظاموں کا اسلام سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہہ اس تحریک میں اسلام سے جذباتی وابستگی اور اسلامی سیاسی نظام میں آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس تحریک کی عملی کامیابی کا سبب ہمارے عوام کی یہ جذباتی خواہش (اگرچہ مبہم) ہے کہ ایک ایسی ریاست قائم کی جائے، جہاں حکومت کی اشکال و اغراض اسلام کے اصول و احکام کے مطابق ہوں، ایک ایسی ریاست جہاں اسلام عوام کے مذہبی و ثقافتی روایات کا محض ٹھپہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی تشکیل و تاسیس کا بنیادی مقصد ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایسی نئی اسلامی ریاست جو جدید دنیا میں پہلی ریاست ہوگی___ تمام اسلامی ملکوں کے سیای افکار میں انقلاب برپا کردے گی اور دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام میں بھی تحریک پیدا کرے گی کہ وہ ایسے ہی نصب العین کے لیے جدوجہد کریں، اور یوں یہ ریاست (پاکستان) دنیا کے اکثر حصوں میں تجدید و احیاے اسلام کی عالم گیر تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گی۔
اس لیے مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ تحریکِ پاکستان احیاے اسلام کے لیے زبردست امکان کا درجہ رکھتی ہے اور جہاں تک میری نظر جاتی ہے، تحریکِ پاکستان ایک ایسی دنیا میں تجدید و احیا کی ’واحد اُمید‘ ہے جو بڑی تیزی سے اسلامی مقاصد سے دُور ہٹتی جارہی ہے۔ لیکن یہ ’واحد اُمید‘ بھی اس اعتبار پر قائم ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام قیامِ پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور اپنی تحریک کو ان نام نہاد ’قومی‘ تحریکوں میں شامل کرنے کی ترغیب میں نہ آئیں جو آئے دن جدید دنیاے اسلام میں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور مجھے کبھی کبھی اس کے رونما ہونے کا خدشہ صاف نظر آتا ہے۔ میری مراد نسلی خطوط پر قوم پرستی سے نہیں ہے، جس کی مثالیں دوسرے ملکوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ مسلمانانِ ہند میں نسلی بنیاد پر قوم پرستی ناممکن ہے، کیونکہ یہاں مسلم قوم انتہائی متنوع نسلی عناصر سے ترکیب پائی ہے۔ لیکن تحریکِ پاکستان کے اپنے اصلی نظریاتی راستے سے منحرف ہونے کا خطرہ مجھے ایک اور سبب سے نظرآرہا ہے۔ وہ سبب یہ ہے کہ ’ثقافتی قومیت‘ پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے، یعنی مشترکہ نظریاتی اساس کے بجاے چند مخصوص ثقافتی رجحانات، سماجی عادات و رسوم کا تحفظ، اور اس گروہ کے معاشی مفادات کا تحفظ جو بربناے پیدایش ’مسلمان‘ واقع ہوئے ہیں۔ اس میں شک و شبہے کی گنجایش نہیں کہ اسلامی خطوط پر مسلمانوں کے مستقبل کی منصوبہ سازی میں ثقافتی روایات و اقدار اور فوری معاشی تقاضوں کی پاسداری انتہائی اہمیت کے حامل عوامل ہیں، لیکن جو نکتہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ ان انتہائی اہم عوامل کو ہمارے نظریاتی نصب العین سے الگ جداگانہ حیثیت نہیں دی جاسکتی۔
لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے اکثروبیش تر اربابِ دانش سے یہ غلطی سرزد ہوکر رہے گی۔ جب وہ پاکستان کی بات کرتے ہیں توو ہ اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے مسلم دنیا کے ’حقیقی‘ مفادات اسلام کے خالص نظریاتی مفادات سے جدا کوئی چیز ہوں۔ بالفاظِ دیگر اسلام کے بنیادی نظائر و شعائر سے کوئی تعلق رکھے بغیر بھی ’اچھا پاکستانی‘ بننا ممکن ہے۔
میرا خیال ہے کہ قارئین محترم میری اس راے سے اتفاق کریں گے کہ ’مسلم مفادات‘ اور ’اسلامی مفادات‘ میں تفریق کرنا بے عقلی کی بات ہے۔اسلام مسلمانوں کے وجود و تشخص کے چند عوامل و خصائص میں سے محض ایک نہیں ہے، بلکہ اسلام تو ان کے وجود کی تاریخی علت اور بنیادی جواز ہے۔ مسلم مفادات کو اسلام سے جدا کوئی چیز خیال کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ’زندہ چیز‘ کو زندہ بھی کہنا اور زندگی سے عاری بھی سمجھنا۔ ایک سوچنے سمجھنے والے آدمی کے نزدیک یہ کیسی بھی بے عقلی کی بات ہو، یہ امر بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بیش تر لوگ (اور ان میںہمارے بیش تر اربابِ دانش بھی شامل ہیں) غوروفکر نہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔
جب ہمارے قائدین اور ہمارے اربابِ دانش حصولِ پاکستان کی خاطر مسلمانوں سے اتحاد، اخوت، ایثار اور ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ’اسلامی ہیئت حاکمہ‘ کا نقشہ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے منفی پہلو سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ منفی پہلو ناممکنات سے ہے، یہ کہ غیرمسلم غلبے کے تحت مسلمانوں کا آزادانہ زندگی گزارنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے مثبت پہلو سے تعلق کم کم رکھتے ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ اسلام کی خاطر، اسلام کے مطابق اپنا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کرنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور ہمارے اکثر سیاسی لیڈروں کے نزدیک اسلام محض غیرمسلموں سے فرقہ وارانہ جدوجہد میں ایک جنگی تدبیر ہے، بجاے اس کے کہ اسلام مقصود بالذات ہوتا۔ گویا اسلام ہماری منزلِ مقصود نہیں، ایک منطقی استدلال ہے۔ ایک اُمنگ نہیں، ایک نعرہ ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے اکثر رہنما نام نہاد مسلم قوم کے لیے زیادہ سیاسی قوت اور زیادہ معاشی مراعات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، بجاے اس کے کہ وہ نام نہاد مسلم قوم کو ایک سچی اسلامی قوم بنانے کی کوشش کرتے؟
ہمارے رہنمائوں نے اب تک جو اچھے کام انجام دیے ہیں، میں انھیں کم کرکے نہیں دکھانا چاہتا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بعض اعتبار سے ان کے کارنامے بہت زیادہ ہیں اور انتہائی تعریف و توصیف کے مستحق ہیں۔ انھوں نے ایک خوابِ خرگوش میں ڈوبی ہوئی قوم کو بیدار کیا ہے، یہی کارنامہ بہت بڑا ہے۔ پھر یہ کہ انھوں نے قوم میں ایسا زبردست اتحاد پیدا کیا ہے، جو دنیاے اسلام میں اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔ ہر ذی ہوش آدمی اس کا اعتراف کرے گا اور کرنا چاہیے۔ میں جو اپنے بعض رہنمائوں پر الزام تراشی کرتا رہتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے مسلم عوام کی تقدیر بدل دینے والی اس فیصلہ کن گھڑی میں انھیں روحانی عظمت کی راہ پر گامزن کرنے کے بجاے دیدہ دانستہ اس راہ پر لگا دیا جو بنیادی طور پر ہمارے موجودہ بحران کی ذمہ دار ہے۔ اس بات کو مَیں سادہ لفظوں میں یوں کہوں گا کہ ہمارے رہنمائوں نے یہ بتانے اور دکھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ اسلام ہی ہماری موجودہ جدوجہد اور تحریک کا اصل اور بنیادی مقصد و منتہا ہے۔ اس میں شک نہیں، جب وہ اخباری بیان جاری کرتے ہیں یا عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہیں تو اسلام کا نام ضرور لیتے ہیں، لیکن لفظ اسلام کا استعمال وہ صیغہ مستقبل میں کرتے ہیں، کہ جب پاکستان وجود میں آجائے گا تو اسلام بھی آجائے گا۔ انھوں نے کبھی مسلمانوں کے موجودہ طرزِفکر اور طرزِحیات کو اسلامی اصول و احکام سے زیادہ ہم آہنگ اور مطابق کرنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ میرے خیال میں، یہ بہت بڑی فروگذاشت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مستقبل حال کا بچہ ہے، اٹل ہے، غیرمتبدل ہے۔ جیسا ہم آج سوچیں اور کریں گے، اس کااثر ہماری کل کی زندگی پر ضرور پڑے گا۔ اگر پاکستان کا مطلب فی الواقعی لا اِلٰہ الا اللہ کے کلمے میں پوشیدہ ہے، تو ہمارا عمل بھی اس کلمے کے مطلب کے قریب سے قریب تر ہونا چاہیے۔ گویا ہمیں صرف اپنے قول کا سچا مسلمان نہیں، بلکہ اپنے عمل کا بھی پکا مسلمان ہونا چاہیے۔
یہ فریضہ اور منصب ہمارے رہنمائوں کا ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو تلقین کریں کہ آج وہ پکّے مسلمان بنیں تاکہ کل سچے پاکستانی بن سکیں۔ حالانکہ وہ ہمیں صرف اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کے بنتے ہی ہم پکّے مسلمان بن جائیں گے۔
یہ آسان اور لفظی یقین دہانی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ پرلے درجے کی خود فریبی ہے۔ اگر ہم اسلامی زندگی کا بیج آج نہیں بوئیں گے ، جب کہ اسلام کے لیے ہمارا تحریکی جوش و خروش اپنے عروج پر ہے، تو کوئی بھی معقول آدمی اس یقین دہانی پر اعتبار نہیں کرے گا کہ جب تحریک ختم ہوجائے گی اور سیاسی آزادی مل جائے گی، تو ہم یکایک اور خودبخود سچے اور پکّے مسلمان بن جائیں گے۔
’’بھائی صاحب، تم قنوطی ہو، خواہ مخواہ تشویش میں مبتلا رہتے ہو۔ ہم سب سچی اسلامی زندگی کے آرزو مند ہیں لیکن ابھی، اسی وقت اس پر اصرار خلافِ مصلحت ہوگا۔ ہماری صفوں میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو سیاسی میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن غلط تربیت کے باعث مذہب کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنی تحریک کے آغاز ہی میں اپنی جدوجہد کے مذہبی پہلو پر زیادہ زور دیں گے تو ان قیمتی کارکنوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا، جس کا ہماری جدوجہد پر بہت بُرا اثر پڑے گا اور یہ سراسر نقصان کی بات ہوگی۔ ہمارے نصب العین کو ضعف پہنچے گا۔ ہم اپنے رضاکاروں کو کھونا نہیں چاہتے۔ ان کی خدمات سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ ہماری اپنی اسلامی مملکت حاصل ہونے تک ہم اپنے عوام کی مذہبی اصلاح کا کام ملتوی کرنے پر مجبور ہیں۔ فی الحال ہمیں اپنی پوری توانائیاں اس چھوٹے مقصد کے حصول کے لیے وقف کردینی چاہییں، یعنی غیرمسلم تسلط سے مسلمانوں کی آزادی اور اپنی توانائیاں خالص مذہبی معاملات پر فی الحال خرچ نہیں کرنی چاہییں۔ ایک سچی ہیئت حاکمہ کا قیام اور مسلمانوں میں سچا مذہبی شعور بہت اہم کام ہے، لیکن یہ قیامِ پاکستان کے بعد شروع ہوگا۔ فی الحال مغرب زدہ بھائیوں اور بہنوں کو اپنے نصب العین سے الگ کردینے سے نقصان ہوگا، بلکہ مذہب پر زیادہ زور دینے سے پاکستان کے علاقے میں رہنے والی غیرمسلم اقلیتوں کو بھی تشویش پیدا ہوگی‘‘۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ طرزِ استدلال بالکل غلط ہے، اور عقلی لحاظ سے بددیانتی۔ آیئے ان حضرات کی ایک ایک دلیل پر نکتہ بہ نکتہ غور کرتے ہیں۔ پہلے غیرمسلم اقلیتوں والی بات لیتے ہیں۔
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اسلامی طرزِ فکر و حیات پر زور دینے سے ہماری غیرمسلم اقلیتوں میں تشویش پیدا ہوگی، تو میں آپ سے پوچھتا ہوں: ’’وہ کیا چیز ہے جس نے غیرمسلموں کو نظریۂ پاکستان کا سخت مخالف بنا رکھا ہے؟‘‘ ظاہر ہے، فرقہ وارانہ راج کا خوف، اس بات کا خوف کہ مسلم اکثریتی علاقے بھارت ماتا سے کٹ جائیں گے۔ یہ مسئلہ غیرمسلموں کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوتا کہ مسلمان اسلامی اصول و احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ وہ اگر خائف ہیں تو اس بات سے کہ بعض علاقوں میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہوجائے گا۔ انھیں بہ نظر ظاہر اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مسلمان اپنے مذہب پر چلنے کی کتنی اُمنگ رکھتے ہیں اور اس پر چلنے کے کیسے عزائم رکھتے ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلم سیاسی اقتدار کے خلاف وہ ہرحالت میں اور ہرصورت میں مخالفت کریں گے اور اسے رکوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔
ہمارے حریفوں کے مخالفانہ رویے کے باوجود اگر انھیں یہ باور کرایا جائے کہ ہم مسلمانوں کا مقصد ’سب کے لیے عدل و انصاف‘ کا قیام ہے تو وہ کسی حد تک اس خیال سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ضرور متاثر ہوجائیں گے، صرف یہ کہا ہے کہ متاثر ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ ہم انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ ہم مسلمانوں کے مفاد کی خاطر غیرمسلموں کا استحصال نہیں کرنا چاہتے، بلکہ ہم انسانی اخلاق کے بنیادی اصولوں کی بالادستی قائم کرنے کے متمنی ہیں۔ لہٰذا یہ ہمارا فرض عین ہے کہ ہم پوری دنیا پر ثابت کردیں کہ ہم فی الواقعی قرآن مجید کے ان الفاظ کے معنی و منشا و معیار کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہمارا بہترین اُمت ہونے کا انحصار اس امر پر موقوف ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہرحالت میں انصاف کی بالادستی اور بے انصافی کے انسداد کے لیے، جدوجہد کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ غیرمسلموں کو اپنی عدل گستری کا یقین دلانے سے پہلے ہمیں ایک سچی مسلم قوم بننا پڑے گا۔ ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک غیرمسلم کو ایک ایسی ریاست میں رہتے ہوئے تشویش ضرور لاحق ہوگی، جو اس کی نظر میں معاشی حقوق و مفادات میں مسلمانوں کو غیرمسلموں پر ترجیح دے گی۔ لیکن اگر اسے یقین دلایا جائے کہ وہاں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا تو اس کی تشویش اگر دُور نہیں ہوگی، تو اس میں کمی ضرور ہوجائے گی۔ اب یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم اپنے حریفوں کو اپنی اصلی سچائیاں نہیں دکھا سکتے، جب تک ہم ان پر ثابت نہ کریں: اوّل یہ کہ اسلامی حکومت کا مطلب ہے عدل سب کے لیے۔ دوم یہ کہ ہم مسلمان واقعی اپنے دین کے احکامات پر قول و فعل میں سچے پیروکار ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں عدل سب کے لیے ہوتا ہے، تو ایسا ہی ہوگا۔ اس لیے یہ سمجھنا انتہائی غلط ہے کہ اگر ہم اپنے مذہبی مقاصد پر زور نہیں دیں گے اور حتی الوسع براہِ راست مذہبی حوالے دینے سے احتراز کریں گے، تو اس طرح غیرمسلم اقلیتوں کی تشویش دُور ہوجائے گی، بلکہ ہمارے اس رویے سے تو انھیں یہ شبہہ ہوگا کہ ہم منافقت سے کام لے رہے ہیں۔ ان کی تشویش دُور یا کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم صاف دلی سے، اور پوری تفصیلات کے ساتھ بتا دیں کہ ہمارے اخلاقی مقاصد کیا ہیں جن کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن صاف دلی سے دیے گئے بیانات سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، تاوقتیکہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں انھیں یہ مشاہدہ نہ کرادیں کہ ہمارے اخلاقی مقاصد محض نعرے نہیں ہیں، بلکہ ہمارے اخلاقی اعمال ہیں۔
عارضی قسم کے ’خلافِ مصلحت‘ یا ’سیاسی تدبر‘ کے نام پر (غلط فہمی سے) اپنے اصل مستقل اسلامی مقاصد سے گریز پائی ایک ایسی عاقبت نااندیشی ہے، جس سے غیرمسلموں پر تو بُرا اثر پڑتا ہی ہے، ہم مسلمانوں کے اخلاقی مزاج پر بھی نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے مزید دُور ہوجائیں، ہم مسلمانوں کے سامنے احیاے اسلام کا جو اصل نصب العین ہے، اس کے زیادہ سے زیادہ شعورو آگہی کے بجاے، ہم دوبارہ مصلحت اندیشی اور فوری آسایش کی اصطلاحوں میں سوچنے کے عادی ہوجائیں گے، جیساکہ ہم صدیوں سے اس کے عادی چلے آرہے ہیں، اور یوں پاکستان کا اسلامی نصب العین یقینا گھٹ کر صرف نظریہ پرستی بن کر رہ جائے گا، جیساکہ مغرب کی نام نہاد مسیحی اقوام میں مسیحیت کے سچے مقاصد گھٹ کر اپنی اصلیت کھو چکے ہیں۔ ہم ہرگز ایسا نہیں چاہتے۔
ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ اسلام کو اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں ’حقیقت‘ بنادیں۔ ہم پاکستان اس لیے بناناچاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہرایک شخص، مرد وزن، سچی اسلامی زندگی گزار سکے۔ اور کسی فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی بسر کرنا ممکن نہیں، تاوقتیکہ پورے کا پورا معاشرہ شعوری طور پر اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے اور کتاب و سنت کے احکام پر صدق دل سے عمل نہ کرے۔
لیکن اس قسم کا اصلی پاکستان کبھی حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے گا، تاوقتیکہ ہم اسلامی قانون کو اپنے ’غیر واضح اور مبہم‘ مستقبل کے لیے اصل اصول نہ بنائیں اور ابھی اسی گھڑی، اسی گھنٹے، اسی منٹ ، اسی سیکنڈ سے اسلام اور اس کے احکام کو اپنے تمام شخصی اور معاشرتی طرزِعمل کی اساس نہ بنائیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری صفوں میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو مذہب کو اس حد تک غیراہم خیال کرتے ہیں، کہ ہم جو تحریکِ پاکستان کے مذہبی رُخ پر اس قدر اصرار کررہے ہیں تو ہم سے ناراض ہوجائیں گے۔ اگرچہ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ اگر انھیں یہ احساس دلایا جائے کہ مسلم قوم بہ حیثیت مجموعی اسلام کی جانب پیش قدمی کرنے کا عزمِ صمیم کرچکی ہے تو مذہب سے بے زار یہ لوگ بہت جلد جماعت کے آگے سرتسلیم خم کردیں گے۔ بہرصورت ان کی ذاتی ترجیحات کی زیادہ پروا نہیں کرنی چاہیے اور ہمارے عزم کی راہ میں ان کی بے عزمی کو راہ نہیں ملنی چاہیے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ رسول کریمؐ کفارِ قریش کی ناراضی سے بچنے کے لیے اور اس انتظار میں کہ ایک روز وہ اسلامی ریاست کی تشکیل و تعمیر میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے، ایک دن کے لیے بھی اسلامی مقاصد کی تحصیل و تکمیل کو ملتوی کردیتے؟
آپ اس کے جواب میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’رسولؐ تو آخر رسولؐ تھے، ان کے لیے مصلحت کوشی کو نظرانداز کرنا ممکن تھا۔ ہم تو عام سے فانی بندے ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں، مَیں آپ سے پوچھوں گا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر یقین رکھتے ہیں:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب ۳۳:۲۱)، درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
کیا یہ حکمِ ربانی آپ کی سیاست اور آپ کی دعائوں، آپ کے ذاتی حالات و تفکرات اور آپ کی اجتماعی و معاشرتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا؟ (جاری)
قوموں کے عروج و زوال میں ثقافت کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ اقبال نے ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں ادا کیا تھا ؎
میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر
آج پاکستانی معاشرہ ثقافتی انتشار اور اخلاقی انحطاط کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ بگاڑ کی قوتیں جری سے جری تر ہوتی جارہی ہیں اور سرکاری اور غیرسرکاری، ملکی اور بین الاقوامی ادارے بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں قوم میڈیا، علما اور زندگی کے ہر شعبے کی قیادت کو جھنجھوڑنے اور غفلت اور لاپروائی کا رویہ ترک کر کے پوری ذمہ داری کے ساتھ معاشرتی فساد اور بگاڑ کو روکنے اور خیروصلاح اور تعلیم و تلقین کے بہترین ذرائع کو استعمال کر کے ملک و ملّت کو گرداب سے نکالنے اور حقیقی تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مشہور صحافی اور تجزیہ نگار جناب انصار عباسی نے اس سلسلے میں بڑے دردبھرے انداز میں ان حقائق پر توجہ مرکوز کی ہے جو بگاڑ کو فروغ دینے کا باعث ہیں اور اصلاحِ احوال کے لیے دکھی دل سے قوم کو بیدار کرنے کا فرض انجام دیا ہے۔ ان کے یہ مضامین روزنامہ جنگ میں شائع ہوئے ہیں جسے ہم ان کے اور جنگ کے شکریے کے ساتھ یک جا پیش کر رہے ہیں۔ (مدیر)
بلاسوچے سمجھے، میڈیا ’میراثی کلچر‘ کا اس قدر بڑا حمایتی بن گیا کہ جنوری۲۰۱۲ء میںتعلیمی اداروں میں قابلِ اعتراض کنسرٹس (گانے بجانے کے پروگرام) پر پابندی کے متعلق پنجاب اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کو اس انداز میں آڑے ہاتھوں لیا، جیسے کہ کوئی بہت بڑا ظلم ہوگیا ہو۔ قرارداد (ق) لیگ کی سیمل کامران نے پیش کی۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے بھی اس کی حمایت کی، مگر اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی ٹی وی چینلوں نے ایک شور برپا کردیا، اور ’قابلِ اعتراض کنسرٹس‘ کی پابندی کو ’غیرقانونی‘ اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے ’حقوق‘ کے خلاف گردانا۔ آناً فاناً میڈیا کی تنقید نے ایک مہم کا روپ اختیار کرلیا اور ہرسنائی جانے والی آواز پنجاب اسمبلی کے اس اقدام کو کوسنے لگی۔ نہ کسی نے قرارداد کو پڑھا نہ ’قابلِ اعتراض‘ کے الفاظ پر غور کیا، البتہ سب ایک ہی بولی بول رہے تھے: ’’یہ بڑا ظلم ہوگیا‘‘۔
گانے والے ایک ایک کر کے اپنا تجزیہ دے رہے تھے۔ میڈیا سرکس نے ایک ایسی ہیجان کی کیفیت پیدا کی کہ خود مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت پنجاب نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کردیا، جب کہ پیپلزپارٹی نے نئی قرارداد لانے کا اعلان کردیا۔ قرارداد کو پیش کرنے والی خاتون محترمہ سیمل کامران کو لینے کے دینے پڑ گئے، جب کہ کچھ علما حضرات نے میوزیکل کنسرٹس کے بارے میں ایسے بیان داغ دیے کہ ان کو سن اور پڑھ کر ہاتھ فوراً کانوں کی طرف اُٹھ گئے۔ چند گھنٹوں کی یہ جنگ ’میراثی کلچر‘ کے حامی جیت گئے۔ سچ گم ہوکر رہ گیا اور حقیقت چھپ گئی۔
جس معاشرے میں سوال اس بات پر اُٹھانا چاہیے کہ: ’موسیقی کی ایک اسلامی معاشرے میں کس حد تک اجازت ہے؟‘ وہاں اعتراض اس بات پر کردیا گیا کہ: ’قابلِ اعتراض کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد کیوں پیش کی گئی؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ِپنجاب کی طرف سے اس قرارداد سے لاتعلقی حیران کن تھی، تو عمران خان کی طرف سے اس قرارداد کے خلاف بات کرنا اُس سوچ کا مکمل تضاد ہے، جس کا انھوں نے اپنی کتاب میں پرچار کیا۔ ایک اُردو اخبار نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ’معروف عالم دین‘ سے کچھ اس طرح کا بیان منسوب کیا: ’’مفتی صاحب کا فرمانا تھا کہ پنجاب اسمبلی نے اگر مطلقاً میوزک پر پابندی لگائی ہے کہ طلبہ میوزیکل کنسرٹس نہیں دیکھ سکتے تو یہ غلط ہے۔ اسلام میں موسیقی حرام [ہونے کا حکم] واضح نہیں۔ عہد رسولؐ میں صحابہ میوزک کا اہتمام کرتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کو دکھاتے رہے۔ مسجد میں میوزک کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔
’مفتی صاحب‘ کا یہ بیان (جس طرح اخبار میں شائع ہوا) کم از کم مجھ سے ہضم نہیں ہوسکا۔ معلوم نہیں کسی عالم دین اور اسلامی اسکالر نے اس بیان پر کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا۔ یہ کن مثالوں کی بات کی جارہی ہے اور ان مثالوں کے زور پر کس قسم کے میوزیکل کنسرٹس کو ’جائز قرار‘ دینے کے فتوے دیے جارہے ہیں؟ آج کل کے گانوں اور کنسرٹس کو، تمام تر بے ہودگیوں کے ساتھ اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا حوالہ دے کر کس طرح جائز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ گانوں کے بول اور دوسرے اعتراضات اپنی جگہ، کنسرٹس میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ ناچنے کا ہمارے دین اور ثقافت سے کیا تعلق؟ خدارا، دین کو اتنا سستا مت بیچو، ٹی وی چینلوں میں آنے کے شوق میں، اللہ کی بات اور رسولؐ اللہ کی سنت کو توڑ مروڑ کر مت پیش کرو۔
ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق کئی دوسری علامات کے علاوہ جب گانے والیاں اور موسیقی کے آلات عام ہوجائیں گے تو نبیؐ کی اُمت پر عذاب نازل ہوں گے۔ ہم پر پے درپے عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ کبھی زلزلہ تو کبھی سیلاب، کبھی طوفانی بارشیں تو کبھی ڈینگی اور جعلی ادویات کے ذریعے اموات،مگر کوئی سوچنے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ غوروفکر کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہم سب کچھ میڈیا کی آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں، اسی کی سنتے ہیں، اور جو میڈیا کہتا ہے اسی کی بولی بولنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم میڈیا والے بھی پیسہ کمانے کے چکر میں سب کچھ بھول گئے۔ ہمیں کوئی احساس نہیں کہ اس میڈیا سرکس کے ذریعے عوام کو کیا دیا جا رہا ہے؟ اخلاقی اقدار کو کس تیزی سے تباہ کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے کر شیطانیت کو پھیلایا جا رہا ہے۔ کاش! ہم میڈیا والے یہ بات سمجھ سکیں کہ آج بلاسوچے سمجھے جو کھیل ہم کھیل رہے ہیں، اس کی ہم سے آخرت میں سخت بازپُرس ہوگی۔
سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ’بے ہودگی‘ اور ’قابلِ اعتراض‘ ہونے کا پیمانہ کون طے کرے گا؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو واضح رہے کہ حیا ہمارے دین کا شعار اور پہچان ہے، جب کہ بے ہودگی اور بے شرمی کے کاموں کی اسلام سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی کی حدیں بہت پہلے متعین کی جاچکیں اور ان حدوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اگر یہ حق عوامی نمایندوں اور اسمبلیوں کو حاصل نہیں ہے تو یہ حق میڈیا کو بھی حاصل نہیں۔ میڈیا بھی وہ جو انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر نیم عریاں ڈانس دکھاتا ہے، بے ہودہ گانے، قابلِ اعتراض اشتہارات اور فیشن شوز کے نام پر فحاشی و عریانی کو عام کر رہا ہے۔ ہم اپنے اور اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ قابلِ اعتراض کنسرٹس اور عام مخلوط گانے بجانے کے پروگراموں میں شرکت کریں، یا فیشن شوز کے نام پر پھیلائی جانے والی فحاشی کا حصہ بنیں، مگر دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے کاموں میں مشغول دکھا کر اسے خوب سراہتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ اُن کی بہن ، بیٹا یا بیٹی فیشن شوز کے ریمپ پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں نیم عریاں لباس زیب تن کیے کیٹ واک کریں؟ کتنے لوگ اپنی بہن اور بیٹی کو ساتھ لے جاکر مخلوط کنسرٹس سنتے ہیں؟ جو کچھ ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں کے لیے کیسے اچھا ہوسکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں کے پاس تو اب ماسواے خاندانی نظام اور بچی کھچی شرم و حیا کے علاوہ باقی کچھ بچا ہی نہیں۔ اگر یہ بھی ہم سے چھن گیا تو پھر ہم کہیںکے نہیں رہیں گے۔ مغرب سے مرعوب ایک محدود طبقہ ہمیں ہمارے اس فخر سے محروم کرنا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے میڈیا کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کو روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
’میراثی کلچر‘ اور قابلِ اعتراض کنسرٹس کے فروغ کے لیے میڈیا کے کردار اور سیاسی و حکومتی ذمہ داروں کی بے فکری و بے بسی پر لکھے گئے میرے کالم پر مجھے بے پناہ عوامی ردعمل ملا۔ ایک آدھ کے سوا تقریباً ہر شخص نے اس بات کی تائید کی کہ اسلام کے نام پر بننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو فحاشی و عریانیت کے ذریعے تیزی سے کھوکھلا کیا جارہا ہے، جس میں میڈیا کا ایک اہم کردار ہے، جب کہ تمام تر ذمہ دار محض تماش بین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے بتایا کہ کمرشل کنسرٹس کے نام پر انتہائی فحش اور بے ہودہ پروگرام پنجاب کے مختلف شہروں میں منعقد کیے جاتے ہیں، جس کی حکومت پنجاب کو مکمل اطلاع ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی، محض اس لیے کہ کہیں آرٹ اور کلچر کے نام پر ایسے حکومتی اقدام کو ہدفِ تنقید نہ بنایا جائے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ: ’’ان قابلِ اعتراض کنسرٹس میں تقریباً برہنہ (topless) خواتین ’فن کار‘ اپنے ’فن‘ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سینماگھروں میں بھی فلموں کے ساتھ ساتھ بے ہودہ ڈانس دکھائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ بلاروک ٹوک جاری ہے‘‘۔
عوامی ردعمل کے برعکس قومی وصوبائی اسمبلیاں، وفاقی و صوبائی حکومتیں، سرکاری ادارے اور مشترکہ عوامی مسائل پر سوموٹو لینے والی اعلیٰ عدلیہ بھی اس مسئلے پر خاموش ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں کیبل نیٹ ورک کے ذریعے درجنوں غیرقانونی چینل (انڈین اور دوسرے) دکھائے جارہے ہیں، جن کے ذریعے انتہائی قابلِ اعتراض فلمیں اور گانے چلائے جاتے ہیں۔ ان بے ہودہ چینلوں کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے، جب کہ ’پیمرا‘ (PEMRA) اور دوسرے متعلقہ اداروں کی طرف سے کوئی خاص تادیبی کارروائی نہیں کی جارہی۔ میڈیا کی ایک اہم شخصیت سے جب میں نے پاکستانی چینلوں میں انٹرٹینمنٹ اور گانے بجانے کے نام پر فحاشی و عریانی کے فروغ کی وجہ پوچھی، تو اُن کا کہنا تھا: ’’انڈین اور دوسرے غیرقانونی چینلوں کے ذریعے دکھائی جانے والی بے ہودگی اور گندگی نے پاکستانی چینلوں کو بھی ایک حد تک ’کھلے ڈلے پن‘ کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ غیرقانونی چینلوں کو بند کر کے ہی پاکستانی چینلوں کو راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے‘‘۔
یہ صرف حیلے بہانے ہیں، ورنہ جو غلط کام ہے وہ غلط ہی ہوتا ہے۔ غیرقانونی فحاشی کا مقابلہ قانونی چینلوں کے ذریعے دکھائی جانے والی فحاشی سے کرنے کا بھلا کیا مقصد؟ یہ بات طے ہے کہ جب تک حکومت اور متعلقہ حکومتی ادارے (’پیمرا‘ اور وزارتِ اطلاعات و نشریات) اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے اور قانون کی عمل داری کو یقینی نہیں بنائیں گے، نمایش و عریانیت کا یہ سیلاب نہیں رُک سکتا۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بچے اور نوجوان ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں، جو بحیثیت قوم ہمارے لیے مکمل تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے، مگر تمام متعلقہ ادارے، حکومتیں، اسمبلیاں، عدالتیں اور میڈیا سب سو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی نے صرف ایک قرارداد پاس کی، مگر اس پر میڈیا نے ایسا دھاوابولا جیساکہ کوئی ظلم ہوگیا۔ سب ڈر کر سہم گئے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ میڈیا سے پوچھے کہ وہ کس کلچر کی وکالت اور کیسے پاکستان کا تصور پیش کر رہا ہے؟چند روز قبل وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے میری بات ہوئی، تو میں نے اُن سے پوچھا: ’’آپ نے کبھی سوچا کہ دوسری حکومتوں سے بہتر کارکردگی کے باوجود ڈینگی اور جعلی ادویات کے عذابوں نے اُن کی حکومت کو کیوں آن پکڑا؟‘‘ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ: ’’یہ اللہ رب العزت کی آزمایش ہوسکتی ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ: ’’اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے پنجاب اسمبلی کی اُس قرارداد کا مکمل طور پر صوبے بھر میں نفاذ کیوں نہیں کرتے، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ قابلِ اعتراض کنسرٹس منعقد نہ کیے جائیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’میرے لیے دعا کی جائے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس معاملے پر غور کروں گا‘‘۔
بے ہودگی، عریانیت اور فحاشی جیسی بیماریوں کا قلع قمع کرنا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس معاملے میں کیا کرتے ہیں؟ آنے والے دن یہ بات طے کردیں گے کہ آیا وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں یا کہ میڈیا کے خوف سے اپنی اس بنیادی ذمہ داری سے پہلوتہی کریں گے، جس کو پورا کرنے کے لیے وہ دینی، قانونی اور آئینی طور پر پابند ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میاں شہباز شریف صاحب کا مثبت قدم دوسری حکومتوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن جائے۔ انتظار اس بات کا بھی ہے کہ وفاقی وزارتِ اطلاعات اور ’پیمرا‘ کب جاگیں گے تاکہ ٹیلی ویژن چینلوں کو فحاشی و عریانیت سے پاک کیا جاسکے۔ معلوم نہیں وفاقی وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کیسے اور کب، انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کے لیے چین، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک کی طرح فحش سائٹس کو بلاک کریں گے؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پندرہ سالہ بچے عبداللہ نے، لبرل فاشسٹوں اور بے حیائی کے کلچر کو فروغ دینے والوں کے تمام پروپیگنڈے کے باوجود حال ہی میں پی ٹی اے کو ساڑھے سات لاکھ فحش سائٹس کے انٹرنیٹ ایڈریس بھجوائے ہیں، تاکہ ان سب کو بلاک کیا جاسکے اور انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کو یہاں فروغ دیا جاسکے۔ عبداللہ نے ۲۰۱۱ء میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صاحب کو اس بارے میں ایک خط بھی لکھا تھا۔ محترم چیف جسٹس نے پی ٹی اے کو اس سلسلے میں ضروری ہدایات بھی دیں، مگر ابھی تک کوئی خاطرخواہ کارروائی سامنے نہیں آسکی۔ عبداللہ پوچھتا ہے کہ کیا کرپشن کے دوسرے معاملات کی طرح چیف جسٹس آف پاکستان اس اخلاقی، سماجی اور معاشرتی کرپشن کے خلاف بھی سخت ترین اقدام اُٹھائیں گے؟
حال ہی میں پی ٹی اے چیئرمین سے بھی میری بات ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ: وہ فحش انٹرنیٹ سائٹس کو بند کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ پراجیکٹ کب شروع ہوتا ہے اور کب مکمل، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر آثار ابھی تک کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ گذشتہ سال اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان صاحب نے بھی مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں فحاشی و عریانی کے خلاف نہ صرف بات کریں گے، بلکہ کچھ عملی اقدامات بھی تجویز کریں گے، تاہم ابھی تک اُن کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہ اُٹھایا جاسکا۔
حیرانی اس بات کی ہے کہ ماضی کے برعکس اسلامی جماعتوں نے ان مسائل پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ نہ کوئی احتجاج کیے جا رہے ہیں، نہ ان مسائل کو عدلیہ سمیت متعلقہ اداروں کے سامنے اُٹھایا جا رہا ہے۔اسلامی جماعتوں پر مشتمل پاکستان دفاع کونسل کی تمام تر توجہ پاکستان کی دفاعی سرحدوں اور ناٹو سپلائی لائن پر مرکوز ہے۔ مغرب اور ہندستان کی بے رحم ثقافتی یلغار کے سامنے سب نے عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟ آج کل ہر گھر میں نیوز چینل کو دیکھتے ہوئے بھی ٹی وی ریموٹ کو ہاتھ میں تھامنا پڑتا ہے، کیونکہ نجانے کس وقت انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر قابلِ اعتراض ڈانس یا کوئی دوسرا سین اسکرین پر آجائے اور وہاں موجود خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے نظریں چرانی پڑ جائیں۔
مارچ ۲۰۱۲ء کے دوران کراچی میں جئے سندھ قومی محاذ کے جلسے میں عالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی کہ سندھ اور بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کرانے میں مدد اور تعاون کریں۔ پاکستان کے خلاف اس کھلی بغاوت کی نہ صرف سندھ حکومت نے اجازت دی بلکہ مادر پدر آزاد میڈیا نے بھی پاکستان توڑنے کے اس پیغام کو پوری دنیا تک پھیلانے کا فریضہ بڑی تندہی سے ادا کیا۔ یومِ پاکستان کے روز اس سازش کا کھلے عام اظہار کیا گیا، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی انداز میں امریکی کانگریس میں بلوچستان کی آزادی کے متعلق پیش کی گئی قرارداد کے پیچھے پاکستانیوں سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہ ہوئی۔ اگر حکومت اور دوسرے ذمہ دار، پاکستان توڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تو کم از کم آزاد میڈیا کو قومی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ یہ کیسی آزادیِ صحافت ہے کہ فحاشی و عریانی کو پھیلانے کے بعد اب ملک توڑنے کی سازش کرنے والوں کی آواز کو دنیا بھر تک پھیلا دیا جائے! اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس مادر پدر آزاد میڈیا کے شر سے بچائے۔
میرا ارادہ تھا کہ میں انجمن غلامانِ امریکا کی طرف سے ناٹوسپلائی کے لیے پاس کی گئی قرارداد پر کچھ لکھتا۔ مگر دی نیوز کے سینیر رپورٹر خالدمصطفی کی فون کال نے مجھے اُس موضوع پر لکھنے پر مجبور کردیا جو عمومی طور پر ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔
قدرے غصے میں خالد نے ایک خاتون کی میزبانی میں چلنے والے ایک تفریحی شو کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کیا کہ: ’’آپ نے وہ شو دیکھا یا نہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا :’’کبھی اُس شو کو دیکھنے کا موقع ملا اور نہ کبھی خواہش پیدا ہوئی۔ خالد کا کہنا تھا کہ :’’میں اپنی فیملی کے ساتھ شو دیکھ رہا تھا کہ پروگرام میں شامل ایک مہمان نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال سے میں کسی عورت کے ساتھ نہیں سویا، جب کہ اسی پروگرام میں مدعو ایک فاحشہ نے کہا کہ میں اپنے ہندستانی مرد دوست سے بغل گیر بھی ہوتی ہوں اور اُسے ’کِس‘ بھی کرتی ہوں جس پر مجھے شرمندگی نہیں‘‘۔ اُس فاحشہ کا کہنا تھا کہ: ’’اس میں کیا برائی ہے؟ کسی دوسرے کو اس پر کیوں تکلیف ہے؟‘‘ خالدمصطفی کارونا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کے نام پر میڈیا فحاشی و عریانیت کی تمام حدوں کو پھلانگ چکا ہے، مگر ’پیمرا‘، حکومت، عدالت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں سب اپنی اپنی ذمہ داری سے عاری آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اب تو حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ گھر بیٹھ کر ہم پاکستانی چینلوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ نہیں معلوم کب کس قسم کی بے ہودگی ٹی وی اسکرین پر چل پڑے اور دیکھنے والے خاندان کے لوگ شرمندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ آنکھیں ملانے کے بجاے کترانے کی کوشش کریں‘‘۔ میرے اس صحافی دوست نے بتایا کہ: ’’امریکا سے پاکستان منتقل ہونے والی میری ہمسائی خاتون نے بھی مجھ سے کیبل کے ذریعے فحاشی و عریانی کے فروغ پر بات کی اور بتایا: ’’میں اپنے بچوں کو امریکا چھوڑ کر پاکستان اس لیے لائی تاکہ ان بچوں کو اپنی اقدار سکھائی جائیں، اور اُنھیں اُس فحش ماحول سے دُور رکھا جائے جس کا سامنا مغربی دنیا کو ہے‘‘۔ مگر اس خاتون کا گلہ یہ ہے کہ پاکستان کا ماحول تو انتہائی ابتری کا شکار ہے اور اس میں کیبل ٹی وی نیٹ ورک کا بہت اہم کردار ہے۔
بات ختم کرنے کے بعد میں نے ’پیمرا‘ میں ایک افسرسے اس موضوع پر بات کی، جس نے مجھے بتایا کہ ’پیمرا‘ نہ صرف اس تمام صورت حال سے واقف ہے، بلکہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں میں دکھائے جانے والے قابلِ اعتراض پروگرام، گانے، ڈانس وغیرہ کا اُس فحش مواد سے کوئی مقابلہ ہی نہیں جسے غیرقانونی طور پر پاکستان بھر میں کیبل آپریٹر بلاروک ٹوک دکھا کر اشتہارات کے ذریعے اربوں روپے بٹورتے ہیں۔ ’پیمرا‘ کو خوب معلوم ہے کہ درجنوں انڈین اور دوسرے غیرقانونی چینل دکھانے کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے غیرقانونی ان ہائوس سی ڈی چینلوں کی بھی بھرمار ہے، جو قابلِ اعتراض مواد دکھا کر خوب پیسہ بٹور رہے ہیں‘‘۔
مجھے بتایا گیا کہ: ’’اس حرام کاروبار سے کمائے جانے والی رقم مبینہ طور پر ’پیمرا‘ کے اعلیٰ افسروں کی جیبوں تک پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے یہ بے ہودہ کاروبار، بلاروک ٹوک جاری و ساری ہے۔ ان فحش چینلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی طور پر چلنے والے پرائیویٹ چینل بھی بے ہودگی کے سفر پر گامزن ہیں تاکہ ان کا کاروبار تباہ نہ ہو۔ معاشرے کی تباہی اور اپنی نسلوں کی اخلاقی اقدار کو تار تار کر کے پیسہ کمانے والوں کو ’پیمرا‘ اور دوسرے حکومتی اداروں نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ ہیرامنڈی کلچر کو ملک کے کونے کونے بلکہ ہرگھر میں پھیلا دیں۔ ماضی میں برائی چھپ کر کی جاتی تھی، مگر اب بُرائی کو نہ صرف کھلے عام پیش کیا جاتا ہے بلکہ آزاد میڈیا کے نام پر اُس کا پُرزور دفاع بھی کیا جاتا ہے۔
چند روز قبل ایک قاری نے مجھے لکھا کہ ہم صحافیوں کو اس بات کی نہ فکر ہے اور نہ احساس کہ ایک مخصوص طبقہ پاکستان کے ہرگھر میں ہیرامنڈی کلچر پھیلانے میں مصروف ہے۔ اس قاری نے مزید لکھا کہ ایک فاحشہ کو ’نام ور‘ کا درجہ دے کر اور طوائفوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ناچ گانے اور طوائفوں کا شوق ہمیشہ سے مخصوص علاقوں تک محدود رہا، مگر کبھی اس کو اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا۔ آج کیبل نیٹ ورک اور میڈیا کی وجہ سے اس گندے کاروبار میں شامل افراد کو نہ صرف عزت دی جا رہی ہے بلکہ اسے غیرمعمولی فروغ بھی مل رہا ہے، جس سے ہر خاندان متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت کجا یہ کہ اس گندگی سے معاشرے کو صاف کرلے، وہ بھی ہیرامنڈی کلچر کے نمایندوں کو اعلیٰ قومی ایوارڈز سے نواز رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ ایک بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اس صورت حال سے پریشان ہیں مگر کوئی کچھ کر نہیں رہا۔ چودھری نثار علی خان جیسے بااثر سیاست دان بھی اس پریشانی میں مبتلا ہیں، مگر وعدے کے باوجود ابھی تک کوئی عملی اقدام اُٹھانے سے قاصر ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پاکستان کے کچھ انتہائی محترم مفتی صاحبان سے بھی میری اس موضوع پر بات ہوئی اور میں نے ان سے درخواست کی کہ :’’اس بڑھتی ہوئی سماجی بُرائی کی روک تھام کے لیے علماے کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔ اسی سلسلے میں میری ملاقات پاکستان کے ممتاز قانون دان اکرم شیخ صاحب سے ہوئی، جو خود بھی اس مسئلے میں انتہائی مضطرب نظر آئے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی انٹرنیٹ، غیرقانونی انڈین چینلوں، اِن ہائوس سی ڈی چینلوں اور کیبل ٹی وی کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
میرے کالم ’ہیرامنڈی کلچر کا فروغ اور ہماری ذمہ داری‘پر مجھے عام قارئین کی طرف سے بہت حوصلہ افزا ردعمل ملا، جب کہ میڈیا اور کیبل نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ مجھ پر سیخ پا ہوگئے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا، جرمنی، کینیڈا، برطانیہ وغیرہ میں رہنے والے پاکستانیوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں عریانی کلچر کے فروغ پر انتہائی رنج اور غم کا اظہار کیا اور عمومی طور پر میڈیا کو فحاشی و عریانیت کے پھیلائو کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ حکومت، ’پیمرا‘، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دوسرے ریاستی ذمہ دار اس تباہی پر خاموش ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ماسواے جماعت اسلامی کے، کسی نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ سابق ایم این اے اور جماعت اسلامی خواتین کی رہنما ، سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ نے فحاشی و عریانی کے خلاف جدوجہد کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہ وہ اس سماجی و مذہبی برائی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ:’’ لاہور ہائی کورٹ میں اسی نوعیت کا ایک کیس دائر کر رکھا ہے، مگر اس کیس کو سنا ہی نہیں جا رہا‘‘۔
ملک کے اہم ترین سیاسی رہنمائوں میں صدرزرداری، [سابق] وزیراعظم گیلانی، میاں نواز شریف، عمران خان، اسفندیارولی وغیرہ سب اس معاملے میں خاموش تھے، ہیں اور شاید رہیں گے، کیونکہ میڈیا چاہے کتنا ہی بُرا کیوں نہ کرے اس کو کوئی بُرا نہیں کہنا چاہتا کیوں کہ سیاست بھی تو کرنی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب نے ۱۷؍اپریل کو بے حیائی کے فروغ کے خلاف حوصلہ افزا بیان دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بیان کو عمومی طور پر میڈیا میں جگہ نہیں ملی، مگر امیرجماعت نے درست کہا کہ: ’’پاکستان میں عورت کی ترقی اور برابری کے نام پر مغربی تہذیب مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عورت جسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے مقدس رشتوں سے احترام حاصل تھا اسے بازار کی زینت بنا کر پاکستانی معاشرے میں بے حیائی کے کلچر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا بھی ہندو تہذیب کے غلبے کے لیے عریاں اور فحش بھارتی فلموں کی نمایش کر کے دو قومی نظریے کی دھجیاں اُڑا رہا ہے۔ معمولی اشیا کی فروخت کے لیے عورت کو سائن بورڈ اور ہورڈنگز پر تشہیر کا ذریعہ بنا کر نوجوان نسل کو تباہی کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے، جس کا حکومت کوئی نوٹس نہیں لے رہی اور ’پیمرا‘ بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے‘‘۔
منور حسن صاحب نے بلاشبہہ سچ کہا کہ: ’’عریانی اور فحاشی کا سیلاب گھروں کے اندر پہنچ چکا ہے۔ ایسے اشتہارات چینلوں پر دکھائے جاتے ہیں کہ خبرنامہ بھی فیملی کے ساتھ دیکھنا محال ہوگیا ہے‘‘۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ: ’’ایسے بے ہودہ اشتہارات، فلموں اور پروگراموں کو بند کرنے کے لیے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے‘‘۔ یہاں مَیں امیرجماعت سے اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا، کیونکہ انھوں نے ایک ایسی حکومت کے سامنے اپنا یہ مطالبہ رکھا ہے، جسے لُوٹ کھسوٹ کے علاوہ کسی دوسرے کام سے کوئی سروکار نہیں۔ اس لیے مَیں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی اس گندگی سے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے دوسری دینی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ، غیرقانونی کیبل چینلوں اور پاکستانی چینلوں کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائی کے خلاف نہ صرف عوامی مہم چلائے گی، بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اس بُرائی کے خلاف آواز اُٹھائے گی۔
اب ذرا میڈیا کے اندر کی بات کرلی جائے۔ ہم میڈیا والے آزادیِ راے کی تو بہت بات کرتے ہیں مگر میں نے جب بھی کوئی ایسا کالم لکھا جو فحاشی و عریانی کے خلاف ہو، یا جس میں اسلامی سزائوں کی بات کی گئی ہو، یا کسی دوسرے موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یا میڈیا کے کردار پر اعتراض کیا گیا ہو، تو مجھے میڈیا کے اندر سے کوسا گیا۔ میرا مذاق اُڑانے کی کوشش کی گئی۔ میرے خلاف ادارے کی اعلیٰ انتظامیہ کے کان بھرے گئے اور یہ تک کہا گیا کہ میں ’جنگ گروپ‘ اور ’جیو‘ کے خلاف کام کر رہا ہوں، اور ان کا کاروبار تباہ کرنے کے در پے ہوں۔ اعتراض کرنے والوں میں کیبل آپریٹرز بھی شامل تھے۔ ادارے کی طرف سے جب اس قسم کے اعتراضات مجھے بھجوائے گئے تو میں نے یہ بات واضح کی کہ: ’’میرے لیے اللہ تعالیٰ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے سامنے کسی شے کی کوئی حیثیت نہیں۔ چاہے میرا ادارہ ہو یا میرا کوئی قریبی رشتہ دار، جو غلط کرے گا اور اسلام کی روح کے مخالف چلے گا، میں اس پر ضرور بات کروں گا، نتیجہ چاہے جو بھی ہو‘‘۔
ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ میں حکومت، اپوزیشن، عدلیہ، فوج، ایجنسیوں اور پارلیمنٹ کے متعلق اپنی راے کا کھل کر اظہار کروں، مگر میڈیا چاہے (وہ ادارہ جس سے مَیں منسلک ہوں) کچھ بھی کرلے اس پر محض اس لیے خاموش ہوجائوں کہ یہ ہماری برادری کا مسئلہ ہے، یا یہ کہ اس سے میرے ادارے کا کاروبار تباہ ہوگا ،یا یہ کہ میرا کوئی صحافی ساتھی یا میڈیا مالک ناراض ہوجائے گا۔ میں کیسے بے حیائی، بے شرمی اور عریانیت کے کلچر کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلوں، اور وہ بھی اس لیے کہ کوئی دوسرا شخص مجھ سے ناراض نہ ہوجائے یا اس لیے کہ ایسی بات کرنے سے میرا مذاق اُڑایا جائے گا، اور مجھے ’دقیانوسی‘ اور ’طالبان‘ جیسے القابات سے نوازا جائے گا۔ اپنے اللہ کے کرم سے میں ایسی باتوں سے گھبرانے والا نہیں۔ مجھے اگر خوف ہے تو اپنی آخرت کا، مجھے ڈر ہے تو اپنے اللہ کا جو رازق ہے، اور جس کے ہاتھ میں عزت، ذلت، زندگی اور موت ہے۔ میں دنیا کے منافع، دوسروں کے کاروباری فائدے اور صحافی برادری کی ’عزت‘ کے لیے سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ کی اس واضح وارننگ کو کیسے بھول جائوں:’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ (النور۲۴:۱۹)۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا‘‘۔ (النور۲۴:۲۱)
سورئہ توبہ کی آیت۲۴ کا ترجمہ بھی پڑھ لیجیے: ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو اُن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیؐ، کہہد و کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے ، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔
بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں سے اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اُمت کو سختی سے منع فرمایا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ’حیا‘ کو ایمان کا حصہ اور دین اسلام کا شعار بھی قرار دیا ہے۔ مجھے کوسنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ فحاشی و عریانی کے متعلق اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے واضح احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے خوداحتسابی کریں، تاکہ ہم دنیا و آخرت میں رسوا ہونے سے بچ جائیں۔ میڈیا والے اور کیبل آپریٹر یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ہرحال میں پورا ہوکر رہے گا، جب کہ ہماری دولت، ہماری شان، ہمارا کاروبار، ہمارے ٹی وی شوز، ہماری شہرت،سب کچھ عارضی چیزیں اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔
پاکستان کی بے شرم سیاست کی نہ ختم ہونے والی بے شرمیوں، اور جمہوریت کے نام پر عوام سے کیے جانے والے فراڈ اور دھوکوں پر لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر اس گندگی کے برعکس میں نے سوچا کہ اپنے معاشرے کی بربادی کا سبب بننے والی اس گندگی، فحاشی و عریانیت پر ہی مزید لکھا جائے۔ نجانے اس کا کیا سبب تھا، تاہم ’پیمرا‘ نے چند روز قبل اپنی کاغذی کارروائی ڈالتے ہوئے اخباری اشتہار کے ذریعے ٹی وی چینلوں اور کیبل آپریٹروں کو خبردار کیا کہ فحش اور بے ہودہ پروگرام چلانے پر سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ ’پیمرا‘ کی فائل کا پیٹ تو بھر گیا مگر زمینی حقائق ویسے کے ویسے ہی ہیں۔
یہ تو ایک معمول ہے بلکہ کارروائی ڈالنے کے لیے چند ایک کیبل آپریٹرز کے خلاف ایکشن بھی لے لیا جاتا ہے اور ٹی وی چینلوں کو بھی نوٹس جاری کیے جاتے ہیں، مگر یہ سب ڈراما اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں کیوں کہ زمینی حقائق بدل نہیں رہے۔ ماضی کی طرح ’پیمرا‘ کی اس تازہ کارروائی کے بعد بھی کیبل پر غیرقانونی انڈین اور دوسرے فحش چینل چلانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کیا متعلقہ ذمہ دار اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ کیبل آپریٹرز اپنے سی ڈی چینلوں کے ذریعے غیراخلاقی مواد عوام کو دکھا کر اپنی ہی نسلوں کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں؟
’پیمرا‘ کے اس نوٹس اور کاغذی کارروائی کے بعد کیا پاکستانی ٹی وی چینلوں میں دکھائے جانے والے غیراخلاقی ڈرامے، فحش گانے اور ڈانس، تفریح کے نام پر عریانیت اور دوسرا متنازع مواد دکھانا بند کردیا گیا ہے؟ کیا دنیا بھر میں مسلمانوں اور پاکستان کی بدنامی کا سبب بننے والی ایک ’نام ور‘ فاحشہ کو اس کی تمام تر گندگی کے ساتھ پاکستان کی ٹی وی اسکرین پر اب بھی نہیں دکھایا جا رہا؟ کیا غیرقانونی چینلوں پر غیرقانونی اشتہارات دکھا کر روز کے کروڑوں نہیں کمائے جارہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج بھی کیبل نیٹ ورک غیرقانونی اور فحش چینلوں کے ذریعے سالانہ کروڑوں اور اربوں کی اپنی حرام کمائی میں سے رشوت کے طور پر متعلقہ حکام کی بھی جیبیں بھرتے ہیں اور اسی وجہ سے کارروائی محض کاغذی ہوتی ہے؟ اپنی نسلوں کو تباہ کر کے پیسہ کمانے کے نشے میں دھت ایسے کردار کیا اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ سکیں گے؟
افسوس کہ اس معاملے پر تمام سیاسی ذمہ دار بولنے سے قاصر ہیں۔ پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم چھوڑ یں، یہاں تو اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ بلند کرنے والے عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف، میاں محمد نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ (ن) اور حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن اور اُن کی جمعیت علماے اسلام اس انتہائی اہم معاملے پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ یہ بات قابلِ ستایش ہے کہ کم از کم جماعت اسلامی نے فحاشی و عریانیت کے خلاف ایک مہم کا بھی آغاز کردیا ہے۔ توقع ہے کہ سول سوسائٹی اور کچھ وکلا حضرات میڈیا، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانیت کے خلاف اس مہم میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ چوں کہ اس سنگین معاملے کو اعلیٰ عدلیہ کے سامنے اُٹھائے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں، تو ایسے میں متعلقہ حکام کاغذی کارروائی ڈالنے میں مصروف ہیں تاکہ اگر کل کو عدالت بلائے تو وہ کہہ سکیں کہ تمام ممکنہ اقدامات اُٹھائے گئے۔ درجنوں کیبل آپریٹروں کے خلاف کارروائی کی گئی اور کتنے چینلوں کو نوٹس بھیجے گئے۔ پی ٹی اے اور وزارتِ انفارمیشن ٹکنالوجی کے پاس بھی انٹرنیٹ پر فحش سائٹس کو روکنے کی کارروائی ڈالنے کے لیے کئی کاغذی ثبوت ہوں گے، چاہے حقیقت اس کے کتنے ہی برعکس کیوں نہ ہو۔
یہ کسے معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ گذشتہ سال پی ٹی اے کو فحش سائٹس کو روکنے کا حکم دے چکی ہے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی بہتری کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ’پیمرا‘ کو بھی پابند کیا تھا کہ کیبل پر دکھائے جانے والے غیرقانونی انڈین اور دوسرے فحش چینلوں کو بند کیا جائے، مگر پاکستان بھر میں ماسواے ایک دوشہروں کے ہرقسم کی گندگی بلاروک ٹوک دکھائی جارہی ہے۔ صوبائی حکومتیں اور خصوصاً پنجاب حکومت باقی معاملوں میں دوسروں سے بہتر ہونے کے باوجود فحش اسٹیج ڈراموں اور سینماگھروں میں دکھائی جانے والی بے ہودہ فلموں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
حال ہی میں ایک خاتون ڈاکٹر (گائناکالوجسٹ) نے جو پنجاب کے ایک انتہائی پس ماندہ علاقے میں اپنا فرض ادا کر رہی ہیں، مجھے ایک ای میل بھیجی جس میں ان کا کہنا تھا کہ: وہ ایک ایسے کرب سے گزر رہی ہیں، جس کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے لکھا کہ یہ ای میل لکھتے ہوئے مَیں انتہائی افسردہ، رنجیدہ اور بے بسی کے عالم میں ہوں، کیونکہ کچھ دیر قبل ہی میرے پاس ایک غیرشادی شدہ حاملہ بچی کو لایا گیا۔ اس بچی کی ماں اُس کا حمل ضائع کرنے کی درخواست لے کر آئی، مگر میں نے ایسا نہ کیا، جس پر اس ماں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچی کو زہر دے کر موت کی نیند سلا دے گی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے لکھا ہے: کاش! آپ اس بچی کے چہرے اور آنکھوں پر نمایاں خوف اور مایوسی کو دیکھ سکتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ مَیں اس لڑکی کی مدد نہیں کرسکی، اس لیے خود مجھے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہورہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسوں کا مجھے اکثر سامنا ہوتا ہے اور آئے دن غیرشادی شدہ حاملہ لڑکیاں میرے پاس آتی ہیں۔ جس علاقے سے ان کا تعلق ہے وہ انتہائی پس ماندہ اور بجلی جیسی سہولت سے بھی محروم ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ کا گلہ یہ ہے کہ: شہروں میں فحاشی و عریانیت کے خلاف جنگ کرنے والے ان پس ماندہ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی بچیوں پر ہونے والے اس ظلم پر آواز کیوں نہیں اُٹھاتے اور اُن عوامل کو اُجاگر کیوں نہیں کرتے، جس کی وجہ سے یہ ظلم و زیادتی تیزی سے ایسے علاقوں میں پھیلتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو یہ بھی شکایت تھی کہ: حکومتیں، عدالتیں، حکام، سیاسی جماعتیں اور حتیٰ کہ میڈیا دُور افتادہ علاقوں کو کیوں بھلا بیٹھے ہیں۔ پھر مذہبی رہنما بھی ان مسائل کو نظرانداز کر رہے ہیں،کہ جیسے پاکستان کے دیہی علاقوں میں سب اچھا ہے اور وہاں اس نوعیت کے مسائل درپیش ہی نہیں۔ یہ خرابی تو شہباز شریف کے پنجاب کی ہے، جہاں فحاشی و عریانیت کا کھیل سب سے زیادہ اور بلاخوف و خطر کھیلا جا رہاہے۔
امریکا کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کے دوران اب تو ہندستان کی غلامی کے لیے پاکستان کے عوام کو تیار کیا جا رہا ہے۔ کیا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا کہ شہباز شریف صاحب جیسا محب وطن اور قابل وزیراعلیٰ پنجاب، ہندستان سے آئے ہوئے کاروباری افراد کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کردے گا؟ کیا کبھی پہلے کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ پاکستان کا کوئی اعلیٰ عہدے دار (ڈپٹی اٹارنی جنرل خورشید خان) بھارت کے دورے پر نئی دہلی میں ایک گوردوارہ کے باہر بیٹھ کر سیکڑوں سکھ یاتریوں کے جوتے صاف کرے گا، اور اس واقعے پر پاکستان میں کوئی نوٹس تک نہ لیا جائے گا؟ خورشید خان کا بھی کیا قصور، ہمیں تو بحیثیت قوم ہندستانیوں کے جوتے صاف کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں سے شکایتیں اور اُن کی نااہلی اپنی جگہ، مگر یہاں تو آرمی اور آئی ایس آئی جیسے ادارے سب سو رہے ہیں، جب کہ انڈیا ہمارے گھروں کے اندر گھس چکا ہے اور گھسا بھی ایسے کہ کوئی گولی چلی نہ توپ کا گولہ گرا، بلکہ مکمل خاموشی اور سکون کے ساتھ۔
اس خاموش یلغار نے ہمیں کس حد تک فتح کیا ہے؟ اس کا شاید کسی کو صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہر گھر کے افراد کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ بھارتی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ انڈیا اپنا بھرپور امیج پیش کرتا ہے اور پاکستان، پاکستان کی فوج یا دوسرے اداروں کے بارے میں منفی تصویر دکھاتا ہے۔ اس کا کسی کو کوئی احساس نہیں مگر ہم سب اس پروپیگنڈا وار کا شکار ہیں۔
ہمارے سیکرٹریوں، وزرا، مشیروں اور پالیسی میکروں کا بھی یہی حال ہے۔ عوام بھی انڈین پروپیگنڈے کی اس کی زد میں ہیں۔ ’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘ والا محاورہ گئے وقتوں کی بات ہوچکی، اور اب تو انڈیا کے بارے میں ہمارا وہ تصور بن رہا ہے جو خود انڈیا ہمارے ذہنوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اور گذشتہ کئی برس سے بڑی کامیابی سے یہ کام کر رہا ہے۔ ہم نے ہندستان کو یہ نظریاتی جنگ لڑنے کے لیے کھلا میدان فراہم کیا ہوا ہے۔ اس حقیقت کو جان کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ انڈین فلوں کی نمایش بھی عمومی طور پر سب سے پہلے: پی اے ایف، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ اور ڈیفنس کے سینماگھروں میں ہوتی ہے۔ پاکستان کی فوج کے گھروں میں جب انڈین پروپیگنڈے کا راج ہوگا، جب ان کو اپنے سینماگھروں میں دیکھنے کے لیے انڈین فلمیں ملیں گی تو ’رائزنگ انڈیا‘ سے اگر ضرورت پڑگئی تو، لڑنے کا جذبہ کیسے پیدا ہوگا؟ جب عوام نظریہ پاکستان کو بھلا کر انڈین کلچر کے گرویدہ ہوجائیں گے تو پھر فوج میں بھرتی ہونے کے لیے جو ان کس جذبے سے سرشار ہوکر آئیں گے۔
جب انڈیا اتنا اچھا ہے، وہ ہمارا بھائی اور دوست ہے اور جو کچھ پچھلے ۶۵سالوں میں کہا گیا وہ سب ’جھوٹ‘ اور ’لغو‘تھا، تو پھر ہمیں فوج کی بھی کیا ضرورت! بلکہ کہیں قائداعظم محمدعلی جناح نے یہ ملک بناکر غلطی تو نہیں کردی تھی! اپنی ذمہ داریوں اور پہچان سے ہم اس قدر بے نیاز ہوجائیں گے، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ بات ذہن ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی قوم کتنی مشکل اور قربانیوں سے حاصل کی گئی اپنی شناخت اتنی آسانی سے کھونے کے لیے تیار ہے۔ ہندستان کے بارے میں کچھ لوگوں کی خوش فہمیاں اپنی جگہ، مگر آج بھی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ہندستان ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے: بھئی انڈیا سے امن قائم کرو۔ کشمیر، سیاچن کے مسائل، بات چیت کے ذریعے ہی حل کرو۔ لیکن خدارا، اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے اپنے دامن کو تو کم از کم انڈین پروپیگنڈے سے بچا کر رکھو، ورنہ وہ وقت دُور نہیں جب ہماری زبان بھی اُردو سے ہندی میں اس خاموشی سے بدل جائے گی کہ ہمیں خود بھی احساس نہ ہوگا۔
کچھ روز قبل میاں نواز شریف صاحب سے بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت حیران و پریشان ہوگئے جب ان کے گھر آئی ہوئی ایک مہمان بچی نے ان سے کہا کہ ان کا گھر کتنا ’سندر‘ ہے۔ میاں صاحب کا کہنا تھا کہ: وہ بچی ’خیال‘ کے لفظ کو ’کھیال‘ بول رہی تھی۔ شکر ہے میاں صاحب حیران اور پریشان ہوئے ورنہ باجی، آپا تو پہلے ہی ’دیدی‘ بن چکیں۔ کچھ لوگوں نے تو بہنوئی کو بھی ’جیجاجی‘ کہنا شروع کر دیا ہے، جب کہ اب انتظار ہے کہ کب میاں بیوی کو یہاں بھی ’پتی، پتنی‘ کہا جانے لگے گا۔ یہاں تو شادی کے موقعوں پر سات پھیرے لگانے کے بارے میں بھی بچوں کے حوالے سے بات ہوتی ہے۔ اگر بحیثیت قوم ہم اس ثقافتی یلغار کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کرسکے، تو ہم یہ جنگ مکمل طور پر ہارجائیں گے، اور (اللہ نہ کرے)، امریکا کے ساتھ ساتھ بھارت کی غلامی بھی ہمارا مقدر ہوگی!
مضمون نگار معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ای میل:ansar.abbasi@thenews.com.pk
(کتابچہ منشورات ، منصورہ، لاہور سے دستیاب ہے۔ صفحات: ۲۴، قیمت: ۱۰ روپے، سیکڑے پر رعایت)
بے خبری میں سرزد ہونے والا غیر قانونی قدم بھی قانون کی نظر میں جرم ہی قرار پاتا ہے۔ قانون اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ: ’’ملزم بے چارے نے بے خبری میں ارتکابِ جرم کیا تھا‘‘۔
اہلِ پاکستان کے سامنے مسلسل یہ ڈراما پیش کیا جا رہا ہے کہ حکمران تاریخ کا کوئی زیادہ گہرا شعور نہیں رکھتے، اس لیے جوشِ جذبات میں اگر وہ کوئی غلط اقدام کر بیٹھیں، تو انھیں کام کے دبائو اور بے خبری کی رعایت دے کر معاف کر دیا جاتا ہے___ یہ معاملہ اور یہ ظلم، اس مظلوم اور مجبور قوم کے ساتھ مسلسل کیا جا رہا ہے۔ قوم اس لیے بھی ’مظلوم‘ اور ’مجبور‘ ہے کہ اس کے اکثر صحافی اور اینکر پرسن بے لگام ہیں، اور قوم کے معاملات میں ان کا رویہ ذاتی پسند و ناپسند کے گرد گھومتا ہے۔ اگر واقعی وہ قوم اور اہل وطن کے بہی خواہ ہوتے، تو نئی پود کے مستقبل کے اس تعلیمی قتل عام پر خاموش نہ بیٹھتے اور پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومتوں کی جانب سے انگریزی کی نام نہاد بالادستی کے ذریعے قوم کے برباد ہوتے ہوئے مستقبل کو یوں ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرتے۔ غالباً ہماری حکومتوں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگو، اور ہر سراب کی طرف لپکو، چاہے یہ بھاگ دوڑ کسی کھائی میں ہی کیوں نہ جاگرائے۔
اس طرزِ عمل کا ایک افسوس ناک نمونہ، صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں سامنے آیا ہے اور وہ معاملہ ہے پنجاب بھر میں، پرائمری سے انگریزی ذریعہ تعلیم کے نفاذ کا آمرانہ فیصلہ، جو نہایت عجلت میں بغیر سوچے سمجھے اور ماہرین تعلیم سے مشاورت کے بغیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ مذکورہ سیاسی پارٹی نے اپنے ۲۰۰۸ء کے انتخابی منشور میں ’انگریزی ذریعۂ تعلیم‘ کی شق شامل نہیں کی تھی۔ پھر اس غیرحکیمانہ فیصلے کے نفاذ کا اعلان کرنے سے متوسط طبقے کی اس قیادت نے نے صوبائی اسمبلی میں موجود سیاسی پارٹیوں سے بھی کوئی تبادلۂ خیال نہیں کیا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے سوچا، یا کسی عاقبت نااندیش نے انھیں ایسا سوچنے کی راہ سجھائی اور موصوف نے فقط چند جونیئر، ناتجربہ کار بیوروکریٹوں سے مشورہ فرما کر، شاہانہ اعلان کر دیا کہ پنجاب بھر میں آیندہ تعلیم انگریزی میں ہوا کرے گی۔ یہ نہ سوچا کہ کیوں؟ اور پھر انگریزی کس طرح تمام بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن سکے گی؟
پنجاب کی صوبائی حکومت کا یہ حکم نامہ (۶۷) ۲۸مارچ ۲۰۰۹ء کو جاری ہوا: ’’چونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے انگریزی میڈیم کے نام پر قوم کا استحصال کر رہے ہیں، اس لیے اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے نچلے درجے تک تمام اسکولوں میں انگریزی میڈیم کیا جا رہا ہے۔ یکم اپریل ۲۰۰۹ء سے منتخب اسکولوں میں انگریزی میڈیم میں تعلیم دی جائے گی۔ ‘‘
دو دن کے نوٹس پر حکمِ حاکم کی اطاعت کی معجزانہ توقع رکھنے والی حکومت نے ۱۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو اپنے اگلے حکم نامے نمبر ۱۷۶ میں نوید دی : ’’حکومت پنجاب ، ہر اسکول میں سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھائے گی۔ پہلے مرحلے میں ۵۸۸ ہائی اسکول، ۱۱۰۳ گورنمنٹ کمیونٹی ماڈل گرلز پرائمری اسکول، انگریزی میڈیم میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک یہ تعداد دوگنا کی جائے گی، اور آخر کار یکم اپریل ۲۰۱۱ء تک پنجاب کے تمام اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے مضامین انگریزی میں پڑھانے شروع کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہی حکم نامہ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے بتاتا ہے:’’ابتدائی درجے میں ۱۷۶۴ اسکولوں میں یکم اپریل ۲۰۱۰ء تک انگریزی میڈیم میں تعلیم کا آغاز کر دیا جائے گا۔جس کے تحت: نرسری، اول اور دوم کلاسوں سے ان بچوں کو معلومات عامہ، ریاضی، سائنس کی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی‘‘۔
حکم نامہ چونکہ شاہانہ ہے، اس لیے پیراگراف نمبر ۵ میں خسروانہ عنایت کرتے ہوئے ان الفاظ میں اجازت عطا کرتا ہے: ’’ یہ بات صاف لفظوں میں بیان کی جاتی ہے کہ پرائمری سے لے کرہائی اسکولوں تک کے ہیڈماسٹر صاحبان، اس امر کے لیے مکمل طور پر با اختیار ہیں۔ انگریزی میڈیم کو نافذ کرنے کے لیے انھیں کسی اتھارٹی سے اجازت لینے کے ضرورت نہیں ہے‘‘۔ (no permission is required from any authority for this purpose)
یہ اور اس قسم کے حکم نامے، اعلانات اور اخبارات کو جاری کردہ کروڑوں روپے کے اشتہارات نے پرویز الٰہی دور کی ’پڑھا لکھا پنجاب‘ مہم کی یاد تازہ کردی ہے۔ جنابِ وزیر اعلیٰ اس کارنامے کی انجام دہی کے وقت بھول گئے کہ ایسی حماقت اُن سے قبل ۱۹۹۴ء میں اقلیتی پارٹی کے پیپلز پارٹی نواز وزیر اعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹو فرما چکے تھے، اور یہ غنچے کھلنے سے قبل ہی مرجھا گئے تھے، یعنی معاملہ رفت گذشت ہوگیاتھا۔ معلوم نہیں کس دانش مند نے انھیں یہ سبق پڑھایا کہ انگریزی میڈیم کا اعلان کر دینے سے طبقاتی نظام تعلیم کے فسادِ آدمیت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ جس چیز نے پہلے ہی قومی وجود کو سرطان زدہ کر رکھا ہے، اس غیر حکیمانہ اور تعلیمی دانش سے عاری اقدام سے جسدِ اجتماعی پر فسادِ خون مکمل طور پر حاوی ہوجائے گا۔
بچے کو اگر بچپن ہی سے اپنی زبان میں سوچنے اور اپنی زبان میں بات کرنے سے روک دیں گے تو اس طرح آپ نہایت سفاکی سے، اس کے تخلیقی وجود کو قتل کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ دنیا کی کون سی قوم ایسی ہے، کہ جس نے سائنس، ٹکنالوجی، میڈیکل، عمرانیات اور ادبیات میں اپنی زبان کے علاوہ کسی بدیسی زبان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو؟ تخلیق کا جو ہر تو کھلتا ہی اُس زبان میں ہے، جو آپ کے خواب اور آپ کے ماحول اور معاشرت کی زبان ہوتی ہے، اور جس میں آپ بے تکلف تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔
پورے یقین و اعتماد کے ساتھ ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحقیق سے متعلق تمام شعبہ جات میں کام کرنے والوں میں انگریزی میڈیم کے تعلیم یافتہ طبقے کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حاکمانہ وسیلے سے انگریزی میڈیم چہروں کو اداروں کی سربراہی سونپ دی جاتی ہے، لیکن نیچے اتر کر دیکھیں تو سائنسی،زرعی، ایٹمی، اسلحہ سازی، میڈیکل، عمرانی علوم، صحافت اور اچھی تعلیم کے دیگر شعبہ جات تک میں نہایت بڑی تعداد انھی دیسی اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی ہے۔ نہ صرف یہ لوگ اس سخت ناہموار اور ناقدر شناس ماحول میں کام کر رہے ہیں، بلکہ پاکستانی قوم کو کسی نہ کسی درجے میں آزادی اور عزت کا سانس لینے کی نعمت بھی عطا کر رہے ہیں۔
وہ مسلم لیگ جس کی سربراہی قائداعظمؒ نے کی، اور جنھوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد: ’’اسلام، مسلم قومیت اور اردو زبان‘‘ پر رکھی تھی،انھی قائد محترم کی نام لیوا پارٹی، وطن عزیز میں جہالت اور بے خبری کے اندھیروں کو گہرا کرنے کے لیے انگریزی میڈیم کے نام پر تعلیمی بربادی کے غیر شریفانہ اقدام کا باعث بن رہی ہے۔ خادمِ اعلیٰ ذرا معلوم کرکے دیکھیں تو سہی کہ اُن کے اس ایک فیصلے نے کتنے لاکھ بچوں کی آنکھوں سے علم کا نور چھین لیا ہے۔ اُن کے اس ایک تجربے نے کتنی زندگیوں کو تعلیم اور تخلیق کی نعمت سے دور کر دیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ انگریزی میڈیم کے نام پرجو ڈراما ہمارے معاشرے کے اسکولوں میں اسٹیج کرکے والدین کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے، اسے کسی کمیشن کے ذریعے تحقیق و تجزیے کے تحت دستور پاکستان اور شہداے پاکستان کی امنگوں کے مطابق ڈھالا جاتا اور سرکاری اسکولوں کو یتیم خانوں کے بجاے تعلیم گاہوں میں تبدیل کیا جاتا، اُلٹا ان اداروں کو بے تعلیمی کی آماج گاہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان اداروں کو سنبھالا دینے کے بجاے پرائیویٹ شعبے کو اندھی چھوٹ دینے کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر اقدام کیے جارہے ہیں (بذاتِ خود پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے کروڑوں روپے کے وظائف اس مقصد کے لیے جھونکے جا رہے ہیں کہ سرکاری اسکول ختم ہوں اور نام نہاد انگریزی میڈیم نجی اسکول قائم ہوں بلکہ پھلیں پھولیں)۔ اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کرکے تعلیم کو بازیچۂ اطفال بنانے والوں کے پیچھے غالباً کوئی اور بھی ہے۔ اندازہ ہورہا ہے کہ سرکاری اداروں کو برباد کرنے والے، تعلیم دشمن بڑی تعداد میں ہمارے اردگرد منڈ لا رہے ہیں۔
اس سارے قضیے میں ایک اور معاملہ گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت تو جمہوریت کے نام پر قائم ہے مگر تعلیم کے معاملات میں فیصلے محض دوچار بے دماغ افراد کی آمریت کرتی ہے۔ فوجی آمریتوں پر چار حرف بھیجئے، بجا ہے، مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟ یہی کہ صوبائی اور مرکزی حکومت میں صرف دو چار افراد اپنی من مانی کرتے، حکومت چلاتے اور قوم کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ پارلیمانی نظام حکومت کی اصل خوبی یہی ہے کہ اُس میں چیزیں، کہیں زیادہ وسیع مشاورت کے ساتھ طے کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں سول پارلیمانی جمہوری حکومتوں کا مرغوب طرزِ حکمرانی بھی فوجی آمروں کا سا ہے۔ اس رویے نے جمہوری نظام کو نام نہاد جمہوری اور دراصل آمرانہ جمہوری تماشے میں بدل دیا ہے۔ضرورت یہ ہے کہ ناتجربہ کار، غلامی کے رسیا اور شہزادگی کے خوگر حکمرانوں کے بجاے جہاں دیدہ، مستقبل بین، دانش مند اور زیرک حکمران اور سول سرونٹ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جو قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوں۔ بھارت نے اب سے ۵۵ برس پیش تر زبان کے مسئلے پر اپنی قومی پالیسی مرتب کر لی، مگر ہمارے ہر دستور نے آج کے کام کو کل پر ڈال کر اپنا بوجھ اگلے لوگوں پر ڈال دیا اور آنے والے راہ فرار اختیار کر بیٹھے۔ اس مسئلے میں دیکھیے: کہ ۱۹۶۲ء کے دستور میں کہا گیا تھا: ۱۹۷۲ء تک اردو سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہو جائے گی (ظاہر ہے کہ ذریعۂ تعلیم اس کا حصہ ہونا تھا، مگرعمل نہ ہوا)۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں طے کیا کہ :۱۹۸۸ء تک اردو سرکاری زبان ہو گی، لیکن جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۲ء میں (خدا جانے کس مجبوری یا مصلحت کے تحت)نجی اور انگریزی میڈیم سرکاری اداروں کو کھلی چھوٹ دے کر اس سب کیے کراے پر پانی پھیر دیا۔ ازاں بعد آنے والے بھٹو اور شریف خاندانوں نے سکھ کا سانس لیا۔
قیام پاکستان کے بعد بظاہر گورے انگریز حاکموں سے جان چھوٹ گئی، لیکن ان کے جاتے ہی انگریزی کی حاکمیت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس حاکمیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ مقابلے کے امتحانات اور ترقی کے مواقع کو انگریزی سے اس طرح مربوط کر دیا گیا کہ ملک کالے اور کرپٹ انگریزوں کی سفاکانہ حاکمیت میں سسکنے لگا۔ آج عدالتوں ، دفتروں، افواج اور کاروبار ریاست کی زبان انگریزی ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ استعماری حاکمیت کو دوام ملے۔ اگر اردو کو اس طرح دن دیہاڑے قتل کرنے کا عمل یوں ہی جاری رہا، تو وہ ملک جو پہلے ہی ہچکولے کھا رہا ہے، انتشار اور افتراق کے گہرے عذاب سے کبھی نہ نکل سکے گا۔
افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کے جسدِ ملی کو یہ زخم کسی دشمن ملک کے جرنیل یا ان کے آلہ کار سیاست دان نہیں لگا رہے، بلکہ محب وطن مگر نادان حکمران یہ ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں، جو سنجیدگی کے ساتھ کسی مسئلے پر مشاورت کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور اپنی سوچ کی کچی پکّی لہر کو حکم نامے کی شکل دے کر نافذ کردیتے ہیں۔
ریاست کی اولین ذمہ داریوں میںسے ایک اہم ذمہ داری افراد کا تحفظ ا ور ا ن کی آزادی کو یقینی بنانا ہے، جس کے لیے افراد کے بنیادی حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ یہ قوانین معاشرے میں افرادکے اعمال کو منضبط کرتے ہیں۔
خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔اس کے کسی بھی فرد کے حقوق و فرائض میں کمی بیشی معاشرے کے توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ کسی ایک کے بے جا مضبوط ہونے سے دوسرے دو ستون کمزور ہو جاتے ہیں، یا یوں کہیں کہ کسی ایک کے حقوق کی زیادتی دوسری دو اکائیوں کے حقوق کی پامالی کی صورت میں نظر آتی ہے ۔اگر مرد کے حقوق میں بے جا اضافہ کیا جائے یا اسے بے حد مضبوط بنا دیا جائے تو وہ عورت کے حقوق اور اولاد کے حقوق کی پامالی کا موجب بنتا ہے ۔ اسی طرح اگر عورت کے حقوق میں بے جا اضافہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں پورا گھرانہ متاثر ہوتا ہے۔ جیساکہ مغرب میں اس قسم کی قانون سازی کے نتیجے میں خاندان ہی انتشار سے دوچار ہوگیا ہے، اور عائلی زندگی عذاب بن گئی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں گھر ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے ،جس میں افراد کے درمیان تعلقات کا خوش گوار ہونا معاشرے کے عمومی رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمارے دین میں گھر کے اندر اس کے انتظام و انصرام کو چلانے کے لیے حقوق و فرائض کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ نکاح کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کے اس بنیادی یونٹ کو مستحکم بنانے کے لیے ان کی ذمہ داریوں کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ طے کر دیا گیا ہے۔ اگراس میں کوئی ایک فریق اپنے دائرہ کار سے بڑھ کر دوسرے فریق کے دائرے میں مداخلت کرتا ہے یا دوسرے فریق کو فرائض کی ادایگی کے لیے جبراً دبائو ڈالتا ہے، تو اس صورت میں تشدد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ پاکستانی نمایندگان پارلیمنٹ نے اس بات کو محسوس کیا کہ وہ خواتین جو گھروں کے اندر تشددکا شکار ہیں،ان کے تحفظ کے لیے بھی قوانین مرتب کیے جائیں۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں مسلسل گھریلو تشددکے خاتمے کے لیے بل پیش کیے گئے ہیں،جن کو مارچ ۲۰۱۲میں قومی اسمبلی نے بالآخر پاس کیا ،جس کی بہت سی شقیں توجہ طلب ہیں۔
ان میں پیش آنے والے اختلافات اور زیادتیوں کو نہایت باریکی کے ساتھ قانونی گرفت میں لایا گیا ہے ۔یہ ایک طویل اور مفصل قانون ہے جس کی ابتدا ہی میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اس کو اردو اور دیگر مقامی زبانو ں میں وسیع پیمانے پر مشتہر کیا جائے گا ۔اس قانون کو جو چیز دوسرے عام قوانین سے برتر بنا رہی ہے، وہ اس کا دائرہ کار اور وسعت ہے ۔ہمارے ملک میں بنے ہوئے بہت سے اہم قوانین کو بھی یہ اہمیت نہیں دی گئی کہ انھیں عوامی سطح پر آگاہی دینے کے لائق سمجھا گیا ہو۔
اس قانون کی بہت اہم بات یہ ہے کہ اس کو National Commission On Status Of Women (NCSW) کے تحت کر دیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً قوانین پر نظرثانی، ترامیم، جائزہ اور تحقیق کرتا رہے گا ۔اس وجہ سے اس قانون میں وقتاً فوقتاً وسعت پذیری کی گنجایش ہمیشہ موجود رہے گی۔نیزNCSW تشدد کے واقعات کی شکایات وصول کر سکتا ہے اور خصوصی اختیار (suo-moto)کی بنا پر اقدام اُٹھا سکتا ہے۔ اس بل کی شق نمبر ۴ گھریلو تشدد کی وضاحت کرتی ہے۔ جس میں مجموعہ تعزیرات پاکستان ۱۸۰۷ (PPC) کی بہت سی شقوں کا اطلاق گھریلو تعلقات پر کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ بل قانون نہیں بھی بنتا، تب بھی گھر میں ہونے والے تشدد یا جرائم کو تعزیراتِ پاکستان کے زمرے میں لا کر شکایت درج کرائی جا سکتی ہے،جب کہ اس کے ذریعے گھریلو نا چاقیاں جرائم کے زمرے میں آئیں گی۔
شق ۴ میں ق k (۱) اور (۱۱) ہر اس عمل کو باعثِ تکلیف قرار دے رہا ہے جو کسی شخص کی خواہشات کے حصول میں رکاوٹ ہو ۔کوئی ایسا فرد جو اس کی نگرانی اس کی مرضی کے بغیر کر رہا ہے اس کو بھی تکلیف دہ امر کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔ اس طرح معاشرہ بالکل مغربی طرز پر استوار ہو جائے گا جہاں باپ ، بھائی ، بیٹا ،شوہر یا کوئی اور خاندان کا ذمہ دار نگرانی یا نگہبانی کے فرائض انجام دے تو اس کے اس عمل کو بے جا مداخلت اور باعثِ تکلیف امر قرار دیا جائے گا ۔ مثلاً: اگر کسی کی بہن بے راہ روی کا شکار ہے اور کسی غلط راہ پر چل رہی ہے اور گھر سے باہر کسی نا محرم سے مل رہی ہے اور باپ یا بھائی اس کو روکنا چاہ رہے ہیں، تو یہ بھی جرم بن جا ئے گا ۔
کوئی خاتون غیر اخلاقی، غیر مذہبی ،غیر شرعی فعل کی مرتکب ہو رہی ہو، یا ایسے افراد کے ساتھ میل جول یا روابط قائم کر رہی ہے جو اس کے لیے گمراہ کن ہو، ایسی صورت میں بھی گھر کے سرپرست افراد کی طرف سے کیے گئے افعال کو قانونی گرفت میں لایا جا سکے گا۔
شق ۴ مزید یہ وضاحت کرتی ہے کہ ہر وہ عمل تشدد کے زمرے میں آئے گا جو ارادی طور پر کیا جائے ۔اس میں دل چسپ پہلو یہ ہے کہ سب سے زیادہ گھریلو تشدد کا شکار وہ خواتین ہیں، جن کے گھر کے مرد یا سرپرست کسی بھی طرح کے نشے کے عادی ہیں ۔لیکن یہ بل ایسے تمام افراد کو جو نشے کا شکار ہیں اس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ اس شق کی وجہ سے گھریلو ملازمین جن میں خواتین کی اکثریت پائی جاتی ہے، یا جن کے شوہر نشے کے عادی ہیں، یا وہ ملازم جو زمین داروں، وڈیروں، جاگیر داروں کے زیر دست ہیں ان پر کیے گئے تشدد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جس سے ایک بڑا طبقہ انصاف کی فراہمی سے محروم رہ جائے گا ۔ زیادتی کا شکار فرد کہیں سے معاشی فائدہ حاصل کر سکتا ہو ، تو اس کی راہ میں رکاوٹ بننا معاشی استحصال کے زمرے میں آئے گا۔ اگر کوئی خاتون ایسی جگہ پر نوکری یا کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنا چاہ رہی ہو جو ہماری مذہبی یا معاشرتی اقدار کے منافی ہو، تو اس کے گھر کے افراد اس کو اس عمل سے روکنے کے مجاز نہیں رہیںگے کیونکہ یہ قانون ان کے آڑے آئے گا۔ تضحیک ،جسمانی تکلیف کی دھمکی کو بھی قانونی گرفت میں لایا گیا ہے ۔ اصلاح کے لیے تین اقدامات عموماً اپنائے جاتے ہیں: نصیحت ، سرزنش اور سزا ،لیکن یہاں ان تمام اقدامات کو انجام دینے سے روکا گیا ہے ۔
شق ۵ کہتی ہے کہ ’’گھریلو تشدد کی شکایات سیدھی کورٹ میں جمع کرائی جائیںگی، جو متاثرہ شخص خودیا تحریراً کسی کو یہ اختیار دے کر عدالت میں جمع کرا سکتا ہے‘‘ ۔ یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خانگی تشدد کا شکار ایک کثیر طبقہ جو کہ دیہی علاقوں میں پایا جاتا ہے اور نا خواندہ ہے، کیا وہ کسی کو تحریراً یہ اختیار دے سکتا ہے؟ خود کورٹ تک رسائی اس کے لیے ایک طویل اور وقت طلب عمل نہیں؟ اس صورت حال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سے استفادہ محض بڑے شہروں میں رہنے والی ملازمت پیشہ خواتین ہی کر سکتی ہیں ۔ ناخواندہ عورت اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ دوسرا یہ کہ گھریلو تشدد کی شکایت سیدھی کورٹ میں درج ہو تو آیا یہ عمل معاملے کو سلجھانے کا باعث بنے گا یا اس کے نتیجے میں رشتوں کا خاتمہ ہوگا؟
اس کے ذریعے سے گھریلو تنازعات کو بالکل فوجداری مقدمات کی طرز پر پولیس اور تھانے دار کو شامل کرکے نبٹایا جائے گا ۔جج اس درخواست کی تصدیق کے لیے تھانے دار کو طلب کرے گا اور تھانے دار اپنے ضابطۂ پولیس کے طریقۂ کار کے مطابق رپورٹ تیار کرے گا۔ہم سب پولیس کے طریقۂ کار سے بخوبی واقف ہیں، اور ہم اپنے معاشرتی رویوں سے بھی آگاہ ہیں کہ کسی گھر میں پولیس کا آنا کس قدر باعثِ ندامت ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ یہ تصدیق یا رپورٹ ایک چالان پیش کرنے کے ہم معنی ہے، اور چالان اکثر طے شدہ وقت میں پیش نہیں کیا جاتا، جس سے وقت کا ضیاع ہو گااور عملاً معاملہ ۳۰ دن میں نہیں نمٹایا جاسکتا ۔
اس قانون میں زیادہ تر داد رسی شوہر کی مخالفت میں بیوی کو دی جا رہی ہے، جب کہ گھریلو ملازمین کی دادرسی بہت محدود ہے ۔ سول عدالتوں کے متوازی فوجداری عدالتوں کے ذریعے گھریلو تنازعات کو طے کیا جا رہا ہے۔ سول عدالتوں میں تنازعے کو لے جانے کے بعد صلح کے امکانات رہتے ہیں، جب کہ فوجداری عدالتوں میں دشمنی اور عناد کے پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
شق ۹ میںجرم کے مداوے کے لیے اگر عدالت جرمانے کا حکم دے اور مدعی علیہ اس کو اداکرنے سے قاصر رہے تو عدالت اس کو یہ جرمانہ عدالت میں جمع کروا نے کا حکم دے سکتی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سول عدالتوں کے تحت فیملی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں جب مرد معاشی داد رسی سے فرار اختیار کرتے ہیں تو اس کے لیے ایک اور درخواست دینا پڑتی ہے۔ یہ چیز سالہاسال سے اصلاح طلب ہے۔ اس پر قانون سازی کے لیے توجہ نہیں دی جاتی لیکن اس قانون میں پہلے ہی مرحلے پر بغیر درخواست دیے مدعی کی داد رسی ہوتی نظر آرہی ہے۔
شق ۱۱ میں صرف حلف نامے کی بنیاد پر کوئی بھی شکایت کنندہ درمیانی مدت کا حکم نامہ، عدالت سے جاری کروا سکتا ہے۔
شق ۱۲ کے ضمنی جزو ’الف‘ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ شخص جب تک چاہے گا تب تک کورٹ کے آرڈر کا اطلاق رہے گا، یعنی جب تک کہ متاثرہ شخص اپنی درخواست واپس نہ لے لے یا مطمئن نہ ہوجائے کورٹ کیس کو ختم نہیںکر سکتی۔ ایسا دوسرے کسی قانون میں نہیں ہے ۔اس سے دشمنیاں تواتر سے جاری رہنے کا خدشہ ہے ۔گویا اب عدالت متاثرہ شخص کی صوابدید پر چلے گی۔
شق ۱۲ کے ضمنی جز ’۴‘ کے مطابق اس ضمن میں Res-judicata (یعنی کوئی ایسا مقدمہ جس میں فیصلہ دیا جا چکا ہو،وجہ مقدمہ میں مدعی اور مدعا علیہ ایک جیسے ہوں اور فیصلہ بھی ہو چکا ہو، اس پر دوبارہ اسی وجہ مقدمہ پر مدعی یا مدعا علیہ مقد مہ دائر نہیں کر سکتے ) کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک شکایت کے لیے بار بار عدالت میں دعو یٰ دائر کیا جا سکے گا۔
شق ۱۶ میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۱ کے تحت کمیٹی ممبران کو وسیع ترین اختیارات تفویض کیے گئے جو کسی طور خانگی زندگی میں مداخلت کے لیے مناسب نہیں ۔
اس قانون کے تحت سب سے پہلے معاشرے کی نچلی سطح پر ’خدمات بہم پہنچانے والوں‘ (service provider)بالفاظ دیگر این جی اوز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کے اوپر حفاظتی کمیٹی، اور جس سے بالا عدالتیں اپنے امور انجام دیں گی۔’خدمات بہم پہنچانے‘ والے تمام تر شکایات کو مذکورہ ’حفاظتی کمیٹیوں‘ کو رپورٹ کریں گے ، اور یہ ’حفاظتی کمیٹیاں‘ متاثرین میں جانے کا ذریعہ بنیں گی۔
شق ۲۳ میں ’خدمات بہم پہنچانے والے‘ اور ’حفاظت فراہم کرنے والے افسر‘ (Protection Officer) اور ’حفاظتی کمیٹی‘ (پروٹیکشن کمیٹی) سب کو عدالتی نظر ثانی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جس کے تحت ان کے فیصلوں کو کسی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔
۱- اس میں بیش تر مذکور جرائم جوکہ تعزیرات پاکستان میں موجود ہیں، اس بل کے ذریعے ان کا اطلاق خانگی تعلقات پر کر دیا گیا ہے ،جن میں نرمی اور خاندانی تعلقا ت کا لحاظ لازماً رکھنا چاہیے تھا۔
۲- شق ۴ میں مذکور گھریلو تشدد کا تعین کر تے ہوئے تشدد کا شکا ر خاتون کی اخلاقی صورت حال کو ضرور دیکھا جائے، اور اگر خاتون کا فعل معاشرتی ،اخلاقی اور مذہبی اقدار کے منافی ہو، تو اس میں مداخلت اور روک تھام کو تشدد کی صورت حال سے خارج کر نا چاہیے ۔
۳-گھریلو تنازعات میں پولیس کے کردار کو شامل کر نے سے چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال ہوتانظرآرہاہے ۔
۴- ہمارے معاشرے کے وہ خاندان جن کے سربراہ منشیات یا شراب نوشی کے عادی ہیں، وہ بھی اس زمرے میں شامل کیے جائیں۔ یہ حضرات چونکہ سب سے زیادہ تشدد برتتے ہیں، لہٰذا ان کو اس بل کی گرفت میں لایا جائے جو کہ نہیں کیا گیا ۔
۵- ایجنسیوں کی اصلاح اور قوانین کی عمل دار ی کو یقینی بنایا جائے۔
۶- مصالحتی کمیٹی کا کردار عدالت میں آنے کے بعد ہے۔ اس کو اگر ’حفاظتی کمیٹی‘ کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو گھریلو تنازعات عدالت میں جانے سے پہلے حل کیے جاسکیں گے۔
۷- ’حفاظتی کمیٹی‘ میں ’حفاظتی افسر‘ کی تعلیمی استعداد اور صلاحیت اس میں مذکور نہیں ہے، جب کہ اس کے اختیارات بے حد وسیع ہیں، اور اس کو سرکاری افسر کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔
۸- ’حفاظتی کمیٹی‘ بنانے سے پہلے ملکی سطح پر بے شمار ’تھانے دار خواتین‘ کی تعیناتی کرنی پڑے گی۔ ہر تحصیل میں خواتین تھانے کا قیام لازمی ہوگا ،جس سے پہلے پولیس کے نظام کی اصلاح از حد ضروری ہے ۔
۹- ’حفاظتی کمیٹی‘ میںوہ علاقہ کہ جہاں ایسا کوئی افسوس ناک وقوعہ ہو ا ہوگا، اس کے معزز افراد اور خاندان کے بزرگو ں کی شمولیت ضروری ہونی چاہیے۔
۱۰- ’حفاظت فراہم کرنے والوں‘ کے اختیارات بے حد وسیع ہیں،ان کو محدود ہونا چاہیے۔
۱۱-اس قانون کے تحت مدعی (عورت) کے کردار کو یا اس کی شکایت کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقۂ کار واضح نہیں بلکہ اس کو یکسر نظرانداز کیاگیا ہے ۔
۱۲- شق ۲۳ ’حفاظت فراہم کرنے والوں‘ اور ’حفاظتی کمیٹیوں‘ اور ’حفاظتی افسر‘ کو ان کے فیصلوں پر نظرثانی کا دیا گیا تحفظ غیر ضروری ہے۔ یہ تحفظ وزارتوں اور انتظامی اداروں کے لیے مخصوص ہے۔
۱۳- جھوٹی درخواست ثابت ہونے پر جرمانہ آدھا ہے، جب کہ اسے دوگنا ہونا چاہیے۔
یہ قانون چونکہ ہماری معاشرتی اور مذہبی روایات کو مد نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا، اس لیے یہ ہمارے جذبات کی عکاسی کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں خانگی زندگی میں انتشار، خاندانی نظام میں کمزوری اور عدم برداشت میں اضافہ ہوگا۔ اسلام نے خواتین کے تحفظ اور پُرسکون عائلی زندگی کے لیے حقوق و فرائض کا تعین کرکے متوازن طرزِ زندگی کی بنیاد فراہم کی ہے۔ یہ بل ہمارے معاشرے کو بتدریج مغربی طرز پر استوار کرنے کی کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب سے متاثر ہوکر قانون سازی گھریلو تشدد کے خاتمے کے بجاے خاندانی انتشار کا باعث ہوگی!
انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے سرچ انجن گوگل کی فحش مواد(pornography)کی سرچ کے حوالے سے پاکستان کے دنیا میں سر فہرست ہونے کے چرچے اس وقت مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا میں بھی کیے جارہے ہیں۔ یہ رپورٹ گذشتہ سال، یعنی ۲۰۱۱ء کے اعداد و شمار کی بنیا د پر ترتیب دی گئی ہے لیکن کوئی بھی شخص گوگل ٹرینڈز (Google Trends) کے ذریعے کسی بھی سال اور کسی بھی خاص علاقے کے حوالے سے کسی بھی لفظ کی سرچ کا ڈیٹا دیکھ سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس وقت میڈیا نے واویلا کیا تھا جب جولائی ۲۰۱۰ء میں متعصب مغربی خبررساں ادارے فاکس نیوز کی طرف سے گوگل کے اس ڈیٹا کی بنیاد پر پاکستان کے فحش مواد تک رسائی میں سر فہرست ہونے کی خبر سامنے آئی تھی۔ بعد ازاں گوگل کے ترجمان نے اسی ماہ یہ کہہ کر اس کی تردید بھی کردی تھی کہ اس طرح کی کوئی بھی رپورٹ اغلاط سے مبرا نہیں ہوسکتی۔ فاکس نیوز نے اس رپورٹ کی بنیاد پر اپنی خبر کی شہ سرخی میں پاکستان کو پورنستان (Pornistan) قراردیا تھالیکن گوگل کے ترجمان تھیریسے لم (Therese Lim) نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا ایک بہت محدود نمونے (sample)کو بہت بڑے پیمانے پر عموم دینے (generalize) کے مترادف ہے۔
۱-کئی فحش الفاظ ، یا ایسے الفاظ جو فحش مواد تک رسائی کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، کی سرچ (تلاش) میں اگرچہ پاکستان سرفہرست ہے، تاہم کئی اور ممالک ایسی اصطلاحات کی تلاش میں پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ ان میں ویتنام ، فلپائن ، جنوبی افریقہ ، برطانیہ ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ یہ وہی ممالک ہیں جنھوں نے انفرادیت ، شخصی آزادی ، تفریح اور لائف سٹائل کے خوب صورت عنوانوں سے یہ انسانیت سوز’ تحائف‘ دنیا کو دیے ہیں۔ یہ اعدادو شمار شہروں کے حوالے سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں جن میں دہلی ، بنگلور، چنائی ، ممبئی، سڈنی، میلبورن، ہنوئی ، لاس اینجلس اور ڈیلا س سر فہرست ہیں۔
۲- یہ تمام ڈیٹا گوگل کے ذریعے فحش مواد کی تلاش میں فی کس تلاشوں(Per person searches) پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے ایک اعتراض یہ ہے کہ اگرچہ گوگل فی الواقع اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی ایک سرچ انجن ہیں جن کے ذریعے انٹرنیٹ پر تلاش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں گوگل کے ذریعے زیادہ سرچ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں دیگر سرچ انجن زیادہ معروف نہیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ویب سائٹ کا براہِ راست نام نہ جاننے والے ہی سرچ انجنوں میں الفاظ کے ذریعے تلاش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو براہ راست ویب سائٹس کا تعارف ہو، وہ اس کا ایڈریس درج کر کے براہ راست اس تک پہنچ جاتے ہیں ۔
۳- دنیا کی چھٹی سب سے بڑی آبادی ہونے کے ناطے سبھی دائروں اور شعبوں میں پاکستان کے صارفین و استعمال کنندگان کا زیادہ ہونا ایک بدیہی امر ہے۔
۴-گوگل ہی کی رپورٹ کی مطابق بہت سے دیگرمثبت الفاظ بھی ہیں جن میں پاکستان سرفہرست یا دوسرے تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ مثلاًلفظ'Muhammad(PBUH)'، ’اسلام‘، ’اللہ‘ اور ’قرآن ‘،’ایجوکیشن ‘، ریسرچ، جابز کے الفاظ کو گوگل ٹرینڈز پر دیکھیے۔ اس بات کو مغربی میڈیا اور اس کی پیروی میں پاکستانی میڈیا دونوں گول کردیتے ہیں۔
گوگل کی رپورٹ پر اعتراضات اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں گذشتہ عشرے میں نہ صرف انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک رسائی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے بلکہ ہر قسم کے فحش مواد تک ہر عمر کے افراد کی رسائی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ۱۵سے ۲۰ملین لو گوں کی انٹر نیٹ تک رسائی ہے۔ بازاروں میں ہر طرح کی سی ڈیز، ڈی وی ڈیز بلا قید عمر فروخت کی جارہی ہیں۔ موبائل کے ذریعے نوجوان بچے اور بچیاں اس مصیبت میں دھڑادھڑ گرفتار ہورہے ہیں اور کیبل پر دکھائے جانے والے نیوز اور تفریحی چینل بلاتفریق ہر ناظر کو اشتعال انگیز مناظر دکھارہے ہیں۔ ڈراموں، فلموں یہاں تک کہ اشتہارات تک میں عریانیت اور فحاشی معمول بنتی جارہی ہے۔ مخلوط تعلیمی ادارے اور ان میں بلا روک ٹوک نوجوان طلبہ و طالبات کے مخلوط کلچرل شو جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ سڑکوں پر لگے بل بورڈز ایک خاص کلچر کی نمایندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسرسوشل میڈیا نے پوری کردی ہے جو ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ ہر اچھے موبائل پر دستیاب ہے اور جس کے ذریعے سے ہر رطب و یابس کو پلک جھپکتے شیئر کیا جاسکتا ہے۔ اس سیلاب بلا کو روکنا جن کی ذمہ داری تھی، وہ خود اس میںپھنسے ہیں۔ عوام ہیں کہ انھیں یہ احساس تک نہیں ہورہا کہ ہماری آیندہ نسلوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔
جہاں تک انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کا معاملہ ہے ،ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق Pakistan Telecommunication Authority(پی ٹی اے) نے ۱۳ہزار ایسی ویب سائٹس کو بلاک کردیا ہے ، جو بظاہر خوش آیند ہے کہ ان ذمہ داروں کو کچھ تو احساس ہوا ہے۔ لیکن جب اس کاموازنہ انٹرنیٹ پر موجود ایسی فحش ویب سائٹس سے کیا جاتا ہے جو اس وقت موجود ہیں یا روزانہ کی بنیاد پر ان میں ہزاروں کا اضافہ ہورہا ہے تو اس رکاوٹ کی وقعت بہت کم رہ جاتی ہے۔ نیزپی ٹی اے کے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری براے انفارمیشن ٹکنالوجی نواب لیاقت علی خان نے یہ بھی اعتراف کیا کہ حکومت پاکستان کے پاس ان ویب سائٹس کو روکنے کا کوئی فول پروف مکینزم موجود نہیں ہے ۔دوسری طرف یہ معاملہ انٹرنیٹ سروس دینے والی مقامی کمپنیوں (ISPs) کے کاروبار سے بھی جڑا ہے۔ ایک ایسی ہی کمپنی کے افسر نے بتایا کہ اس وقت گھروں میں لگے ان کے کنکشنوں پر ۳۰سے ۴۰ فی صد افراد فحش مواد تک رسائی چاہتے ہیں۔ اگر وہ ان ویب سائٹس کو بلاک کرتے ہیں تو ان کے کاروبار کو نقصان ہوسکتا ہے۔گویا سرمایہ داری نظام کی سوچ کے عین مطابق حکومت کا کاروبار چونکہ ISPsکے ساتھ وابستہ ہے اور ان کا کاروبار اس قسم کے مواد کی ترویج یا کم از کم اجازت کے ساتھ، لہٰذا اعلانات سے آگے بڑھ کر کوئی بھی عملی اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔
The licensee shall not broadcast , transmit, retransmit or relay the pornographic or obscene contents of any type. (پیمرا قوانین، پروگراموں کے عمومی معیار، دفعہ ۶)
اسی طرح کیبل پر نشر ہونے والے مواد کے لیے بھی قوانین موجود ہیں۔سوال محض ان پر عمل درآمد کا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسا نہیں ہورہا۔ ہمارا مذہب، ہماری ثقافت اور ہمارا کلچر کوئی بھی اس سب کی اجازت نہیں دیتا مگر اس کے باوجود ہم سب خاموش ہیں ۔ لیکن معاملہ محض مذہب کا نہیں ہے، دنیا کے ایسے ممالک جو خود کو سیکولر کہتے ہیں ، اس قسم کے مواد اور ویب سائٹ کو روکنے اور بنیادی انسانی اخلاقیات کی حفاظت کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ مغرب میں باشعور طبقات سرکاری ٹیلی وژن (جس میں عموماً کارٹون ، موویز، اشتہارات دکھائے جاتے ہیں) کو بے ہودہ ڈبّے (Idiot Box)سے موسوم کرتے ہیں جس سے بچوں کو دور رکھنے کی بات شدومد سے کی جارہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے۔ کچھ عرصہ پہلے انٹرنیٹ پر آنے والی ایک خبر کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ پی ٹی اے نے ان چینی کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے جو چین اور سعودی عرب کو پورن بلاکنگ سروسز فراہم کررہی ہیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی اے کو اس مقصد کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے گئے اور معاملہ بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں چینی نظریات کے خلاف ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ فحش ویب سائٹ کی ایک بہت بڑی تعداد کو بلاک کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سخت قوانین بھی موجود ہیں بالخصوص Child Online Protection Act (1998)جو تمام کمرشل ویب سائٹس تک سے یہ کہتا ہے کہ وہ کم عمر نوجوانوں اور بچوں سے ایسی تمام اشیا اور معلومات کو دُور رکھیں جو ان کے لیے کسی بھی لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔ ان میں فحاشی پر مبنی مواد بھی شامل ہے۔ اسی طرح فیس بک اور سوشل میڈیا پر بھی پابندی ہے۔ ملائشیا میں فحش مواد کے متعلق سخت قانون موجود ہے اور اس قسم کے مواد کو دیکھنے، رکھنے یا پیش کرنے پر چار سال تک کی قید دی جاسکتی ہے۔۲۰۰۵ء میں یہ قانون بننے کے بعد سے اب تک سیکڑوں افراد کو یہ سزائیں اور بھاری جرمانے بھگتنے بھی پڑے ہیں۔ سعودی عرب میں فحش نگاری کے خلاف انتہائی سخت قوانین موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ہمارے سیکولر ہمسایہ ملک ہندستان نے خاصے اقدامات کیے ہیں۔ واضح رہے کہ پوری دنیا میں چین اور امریکا کے بعد ہندستان انٹرنیٹ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ ابھی حال ہی میں ہندستان کے چیف جسٹس نے ملک میں تمام فحش ویب سائٹس کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ہندستانی پینل کوڈ کا سیکشن۲۹۲ ملک میں ہر قسم کی فحش کتب کی خریدو فروخت، فحش نگاری اور فحش معلومات کے تبادلے پر پابندی عائد کرتا ہے، اور ان جرائم میں ملوث ہونے والے افراد کو دو سال تک کی قید اور بھاری جرمانے کا سزاوار سمجھتا ہے۔
عریانیت یا فحش پھیلانے والی ویب سائٹس کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا بے محابا اور بے لگام استعمال بھی ہمارے ہاں ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین بخوبی جانتے ہوں گے کہ فحش مواد کو پھیلانے کے عمل میں فحش ویب سائٹس کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی بہت زیادہ دخل ہے۔ ہمارے ہاں گذشتہ سال فیس بک پر کچھ عرصے کے لیے پابندی عائد کی گئی تھی لیکن پھر اسے بحال کردیا گیا، حالانکہ اس پر اب بھی توہین رسالت اور توہین اسلام پر مشتمل مواد موجود ہے۔ تاہم، فحاشی اور عریانیت کا معاملہ بہت سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ فحش وڈیو، تصاویر، مضامین حتیٰ کہ بچوں کے لیے فحش ویڈیو گیمز کی ان ویب سائٹس پر بھرمار ہے۔ اس حوالے سے چین کی مثال ہم اوپر پیش کرچکے ہیں، اور اسی حوالے سے ہندستان میں بھی متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں۔
سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹوں پر ایک اور ا الزام یہ ہے کہ ان سے انسانوں کا حقِ تخلیہ (Right to Privacy)بری طرح متاثر ہواہے، کیونکہ ان ویب سائٹس کے ذریعے انسان کی ذاتی زندگی کی بہت سی معلومات لاکھوں لوگوں تک پہنچتی ہیں جن کی مدد سے کسی بھی انسان کو جذباتی طور پر پریشان کیا جاسکتا ہے۔ نیوز ویک کی ایک تحریر کے مطابق سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس لوگوں میں دنیا سے ایک غلط طرح کے رابطے یا رشتے کا احساس پیدا کرتی ہیں اور اس سے تنہائی پسندی کا رجحان پیدا ہورہا ہے۔ ان ویب سائٹس کے ذریعے ایک اور انتہائی فحش عمل آن لائن جنسی گفتگو ہے جس کے باعث فحاشی اور برائی کا سیلاب مزید تیزتر ہوتا جارہا ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اجنبیوں سے دوستی کیاکیا گل کھلاتی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اب ان ویب سائٹس کی وجہ سے جو آفات آرہی ہیں ان میں ایک بڑی آفت طلاق کے رجحان میں خطرناک اضافے کی صورت میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ مصر میں اسی رجحان کو بنیاد بنا کر چند علما نے ان ویب سائٹس کو حرام بھی قرار دیا ہے۔
بات محض انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد، اس تک بلاروک ٹوک رسائی اور اس میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے کردار تک محدود نہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا حد سے متجاوز استعمال اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ حد سے زیادہ وقت گزارنے کے سبب ہمارے معاشرتی رویے اور اقدار تباہ ہورہی ہیں۔ اس تباہی کی ایک قیمت ہم اداکررہے ہیں اور باقی ہماری آیندہ آنے والی نسلیں ادا کریں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال ہو یا الیکٹرانک میڈیا کا، اس حد تک رکھا جائے جہاں تک یہ مفید رہے، اور غیر مفید سرگرمیوں کو حکومت مانیٹر بھی کرے اور محدود بھی۔ لیکن دوسری طرف محض حکومت کی کوششوں سے معاملہ ختم نہیں ہوگا، اس کے لیے ان تمام لوگوں کو مل کر اپنی اقدار اورروایات کی پاس داری کافرض ادا کرنا ہوگا جو اس ملک و قوم کا درد رکھتے ہیں۔ عوامی سطح پر منظم جدوجہد اور سماجی دبائو کے تحت جہاں حکومت کو مؤثر اقدامات اُٹھانے کے لیے مجبور کیا جائے وہاں معاشرتی سطح پر عوام میں دین کا شعور بیدار کرنے، اخلاقی اقدار کے تحفظ اور فحاشی و عریانی کے خاتمے کے لیے انفرادی اور اجتماعی دائرے میں اصلاحِ معاشرہ پر مبنی منظم اجتماعی جدوجہد بھی ناگزیر ہے۔ معاشرے کی اسلام پسند اور محب ِ وطن قوتوں اور درد دل رکھنے والے عناصر کو اس کے لیے ہراوّل دستے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم اخلاقی انحطاط و زوال سے بچنا چاہتے تو اخلاقی بگاڑ کو ہرسطح پر روکنا ہوگا۔
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو مہمند ایجنسی میں پاکستانی چیک پوسٹ پر امریکی ( ناٹو ) گن شپ ہیلی کاپٹروں کا حملہ ہوا جس میں ۱۶فوجی جوان شہید اور ۱۶ زخمی ہوئے۔ یہ ایک سوچا سمجھا اور پوری تیاری کے ساتھ کیا گیا حملہ تھا۔اس سے پہلے کافی عرصے سے پاکستان امریکی پروپیگنڈے کی زد میں تھا۔ امریکی تھنک ٹینک مسلسل امریکی حکومت کو یہ پٹی پڑھا رہے تھے کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے اور اس کو اپنی اوقات یاد دلائی جائے۔ افغانستان کے میدان جنگ میں مسلسل ناکامیوں سے دوچار امریکی عسکری قیادت اس کا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتی تھی۔ امریکی قیادت میڈیا کے ذریعے اپنے عوام کو یہ باور کرا رہی تھی کہ افغان جنگ اُس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک پاکستان اصل میدان جنگ نہیں بن جاتا۔ افغانستان کی کٹھ پتلی قیادت اور امریکی دفترخارجہ بیک آواز افغان شورش پسندی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہے تھے، اور یہ مضحکہ خیز نتیجہ نکالتے ہیں کہ: ’’دراصل افغان طالبان، پاکستان کے ایما پر اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔۱؎
۲مئی ۲۰۱۱ء کو جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ایبٹ آباد کے ایک گھر پر حملہ کیا اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا اعلان کیاتو اس وقت بھی پاکستان کی فضائی حدود کی پامالی اور پاکستانی فوج کو اعتماد میں نہ لینے پر پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا تھا، اور ۴مئی کوپارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک مذمتی قرارداد منظور کی تھی۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور امریکی قیادت نے تسلسل کے ساتھ پاکستان کے عسکری اور قومی اداروں کو مطعون کرنے کا شغل جاری رکھا۔
اس سے پہلے جب۲۷جنوری ۲۰۱۱ء کو ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور کی سڑک پر دوپاکستانی نوجوانوں کو قتل کرنے پر ا س کو کوٹ لکھپت جیل میںڈالا گیا تو پوری امریکی حکومت اس پر سیخ پا تھی اور امریکی شہری کی گرفتاری پر حکومت پاکستان سے ناراض رہی تاوقتیکہ ۱۶مارچ کو دیت ادا کر کے اس کو رہا نہیں کروالیاگیا۔
اس طرح ہر موقع پر امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اپنے حلیف پاکستان کے خلاف دشنام طرازی اور الزامات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۸جولائی ۲۰۱۱ء کو کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملہ ہو، یا امریکی سفارت خانے پر حملہ، ۱۳ستمبر کو ناٹو ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہو یا ۲۰ستمبر کو جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی کا قتل، امریکی اور افغان قیادت نے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ ۲۲ستمبر ۲۰۱۱ء کو ایڈمرل مولن نے صاف بیان دیا کہ حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے پہلے امریکی جنرل پیٹریاس تمام خرابیوں کی جڑ شمالی وزیرستان کو قرار دے چکے تھے۔
اس موقع پر ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اور اہل دانش اس پوری صورت حال کا جائزہ لیں کہ کن عوامل کی بنیاد پر پاکستان اس جنگ میں شریک ہوا، اس نے اس دوران کیا پایا اور کیا کھویا؟
اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان نکات پر نظر دوڑائیں جن کی بنیاد پر ۲۰۰۱ء میں پاکستان کی عسکری قیادت نے ’دہشت گردی‘ کے خلاف اس جنگ میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا:
۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کو صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان پر امریکی حملے کے حق میں جودلائل دیے تھے ان میں پاکستان کے مفاد میںدرج ذیل پانچ نکات کا ذکر کیا گیا تھا ۔۲؎
۱-پاکستان کے حساس (ایٹمی) اثاثوں کی حفاظت
۲-کشمیر کاز کا تحفظ
۳-پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیے جانے کا ازالہ
۴-کابل میں پاکستان مخالف حکومت کے بر سر اقتدار آنے کو روکنا
۵-پاکستان کو بحیثیت ایک ذمہ دار ، باوقار ریاست قرار دینا
اس سے پہلے نائن الیون کے واقعے کے بعد ۱۴ستمبر کو امریکی سیکرٹری خارجہ کولن پاول سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ان سات نکات کو فی الفور قبول کر لیا تھا جو اس نے اس دھمکی کے ساتھ جنرل مشرف کو پیش کیے تھے کہ: ’’اگر آپ نے اس جنگ میں امریکا کا ساتھ نہ دیا تو امریکی عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے‘‘، اور یہ بھی کسی سطح پر کہاگیا تھا کہ: ’’ اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچادیں گے‘‘۔۳؎
تمام امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے کور کمانڈروں، نیشنل سیکورٹی کونسل کے ارکان اور اپنے قریبی سیاسی معتمدین کی میٹنگ بلائی اور چھے گھنٹے کے اندر اندر ان کو اپنے فیصلے پر قائل کر لیا۔
اس فیصلے کے فوراً بعد ہی پاکستان نے اچانک اپنی فضائی حدود بند کردیں اور امریکی طیاروں اور فوجیوں کو موقع دیا کہ وہ شمالی فضائی اڈوں تک پہنچ سکیں، اس طرح برادر اسلامی ملک افغانستان پر امریکی حملے کے لیے راستہ ہموار کر دیاگیا۔
اس سے پہلے پاکستان ان تین مسلم ممالک میںشامل تھا جنھوں نے ستمبر ۱۹۹۵ئمیںکابل میں طالبان حکومت کے تحت بننے والی اسلامی امارت کو تسلیم کیا تھا ۔ باقی دو ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے اور جب افغانستان پر امریکی الزامات کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تو پاکستان نے اس کی مخالفت کی تھی۔
دہشت گردی کے خلاف مبینہ امریکی جنگ میںشرکت کے بعد پاکستان نے امریکا کو ہرممکن تعاون بہم پہنچایا، جس سے افغانستان پر امریکی قبضے کی راہ ہموار ہوئی اور ایک آزاد برادر مسلم ملک غیر ملکی استعمار کے چنگل میںچلا گیا۔ اس تعاون میں شمسی ایر بیس سمیت کئی ہوائی اڈوں اور لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے امریکی افواج کو محفوظ راہ داری فراہم کی گئی۔ انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے خفیہ معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا اور پاکستان میں ان گروپوں اور جہادی تنظیموں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کیا گیا جو طالبان سے ہمدردی رکھتے تھے۔
ستمبر ۲۰۰۱ئمیں پالیسی میں تبدیلی کے پاکستان پر دُور رس اثرات مرتب ہو ئے اور اب ۲۰۱۲ء میں جب کہ ۱۰ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ہم ایک ایسا میزانیہ تیار کر سکتے ہیںجس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف کی یہ پالیسی کس حد تک کا میاب یا ناکام رہی تاکہ پاکستانی عوام کو اس کے ثمرات اور نقصانات سے آگہی ہو۔
مناسب ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریرمیں جو دلائل اس جنگ میں شرکت کے حق میں دیے تھے ان کا ایک ایک کر کے تجزیہ کیا جائے اور اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں ہم کچھ نتائج اخذ کریں۔۴؎
پاکستان نے مئی۱۹۹۸ئمیں بھارت کے ایٹمی دھماکوںکے ردعمل کے طور پر زیر زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ اس طرح دنیا میں پاکستان ساتواں ایٹمی صلاحیت کا حامل اور پہلا مسلمان ملک بن گیا تھا جونیو کلیائی حملے کر سکتا ہے۔ دھماکوںسے پہلے امریکا سمیت تمام یورپی اقوام نے بیک آواز پاکستان کو منع کیا تھا کہ وہ بھارتی اشتعال کے جواب میںدھماکے نہ کرے لیکن پاکستان نہ مانا اور دھماکے کر ڈالے ۔ اب دہشت گردوںکے خلاف امریکی اتحاد میں شمولیت کے باوجود پاکستان واحد ایٹمی صلاحیت کے حامل اسلامی ملک کے طور پر ہدف ملامت بناہوا ہے ۔ ایٹمی کلب میں پاکستان شامل نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کے ایٹم بم کے خالق محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ایک عرصے تک نظر بند رکھا گیا اوروہ اب بھی زیر عتاب ہیں، جب کہ ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر عبدالکلام کو ایٹم بم بنانے کی شاباش میں بھارتی صدر بنا دیا گیا ۔
۲۶مارچ ۲۰۰۶ ء کو امریکا نے بھارت سے سول نیوکلیر معاہد ہ کر کے گویا اس کو ایک ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کر لیا ،جب کہ پاکستان کو مسلسل دشنام طرازیوں کا سامنا ہے۔
پاکستان کی نیوکلیر طاقت کے خلاف ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا کہ یہ اسلحہ،دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے ۔ اس طرح دنیا کو اس سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن اس قسم کا کوئی پروپیگنڈا بھارتی یا اسرائیلی ایٹمی اسلحوں کے بارے میں نہیں ہوا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پر وپیگنڈے کی بنیاد پر ایک بڑی سازش کا تانا بانا بُناجا رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مفلوج کرنا ہے۔ چند ماہ پہلے ایرانی صدر احمد ی نژادکابیان آیاتھا کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے ایک بڑا منصوبہ بنا رہا ہے، جس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ کسی ایسے پروگرام پر غور کیا جا رہا ہے جو پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف پروپیگنڈے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کہ ـ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ اورنوجوانانِ کشمیر کا نعرہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ہر پاکستانی کے دل میںگھر کرچکاہے۔ بھارت کے تسلط کے باوجود کشمیر کی آزادی ایک ایسی تحریک ہے جو زندہ و تابندہ ہے اور اس وقت تک جا ری رہے گی جب تک اس کا حصول ممکن نہ ہو ۔ کشمیربھارت سے ہمارا سب سے بڑا تنازع ہے اور گذشتہ کئی جنگیںاسی مسئلے پر لڑی گئی ہیں ۔
جنرل مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں افغانستان کے بجاے کشمیر آپشن قوم کے سامنے پیش کیا۔ کشمیر ی مجاہدوں کو آزادی کی جنگ لڑنے والے ہیرو کا درجہ دیااور تحریک آزادی اور دہشت گردی میںفرق کرنے پر زور دیا لیکن آہستہ آہستہ وہ تمام اقدامات کر ڈالے جو جدوجہد کشمیر کی کمر توڑڈالنے اور کشمیر کا مسئلہ محض زبانی جمع خرچ تک محدود کرنے کا باعث بنے ۔ کارگل کا نام نہاد ہیرو، بن بلائے ہندستان جا پہنچا اور کشمیر کی تقسیم کے نت نئے فارمولے پیش کر کے پاکستان کے دیرینہ موقف کوکمزور کرتا رہا ،اور یہ تک کہہ گزرا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو داخلِ دفتر کیا جاسکتا ہے۔یہ تو غنیمت ہے کہ ہندستانی حکومت کشمیر کے مسئلے پر اپنے غلط موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہوئی، وگرنہ جنرل مشرف نے اپنی ’روشن خیالی‘ کے زعم میں کشمیر کا سودا کرنے میںکوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔خود کشمیر کی قیادت، پاکستانی حکومت کے بے سرو پا اعلانات اور قلابازیوں پر حیران و پریشان ہوتی رہی، اور پاکستانی قوم سے اپیل کرتی رہی کہ وہ حکومت کو ان اعلانات سے روکے جس سے آزادی کشمیر کے تحریک کو ناقابل بیان نقصان پہنچ رہا ہے ۔
موجودہ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کو طاق نسیاں پر رکھتے ہوئے بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن، یعنی ’سب سے پسندیدہ‘ قوم قرار دینے کا عندیہ دیاہے، حالانکہ پوری قوم اس پر سخت برہم اورجموں و کشمیر کے مسلمان سخت مشتعل ہیں۔جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے لیے یہ اعلان تحریک آزادی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔
نائن الیون کے واقعے میںکوئی پاکستانی ملوث نہیںتھا ۔اس واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے کمیشن کی ہزاروں صفحات کی رپورٹ میں کسی پاکستانی فرد یا ادارے کا نام نہیںتھا جو اس واقعے کی منصوبہ سازی، مالی تعاون یا ہائی جیکروں کے ساتھ کسی بھی حیثیت میں شامل رہے ہوں۔ امریکا نے جب افغان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو اس وقت بھی پاکستان نے سفارتی طور پر طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ یہ مطالبہ مان لے ۔اس لیے اس امر کا کوئی امکان اس وقت موجود نہیںتھا کہ پاکستان کودہشت گرد ریاست قرار دیا جائے گا۔
پاکستان ایک آزاد ،خود مختار ملک اور اقوام متحدہ کے ایک باوقار رکن کی حیثیت سے یہ حق رکھتا تھا کہ وہ اپنی ملکی حدود کے بارے میں خود فیصلہ کرے اور کسی ایسی جنگ کاحصہ نہ بنے جس سے اس کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو ۔ جنرل مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘کا نعرہ لگایا لیکن امریکی مفاد میں ایک بے مقصد جنگ میں پوری پاکستانی قوم کی قسمت کو دائو پر لگا دیا، اور ایک برادر اسلامی ملک کو امریکی تسلط میں دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی جنگ کا ایندھن بنا دیا ۔ سرکاری اعلان کے مطابق امریکا نے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر ۷۵ہزار سے زیادہ ہوائی حملے کیے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کو خود پاکستان میں فروغ حاصل ہوااور غیور افغان امریکا کے ساتھ پاکستان کے اس تعاون کو ان کے خلاف جنگ میں برابر کا شریک سمجھنے پر مجبور ہوگئے۔ اس طرح جو دوست تھے ان کو دھکے دے کر دشمنوں کی صف میں شامل کر دیا گیا، اور امریکا کا یہ منصوبہ کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی آماج گاہ بن جائے ،پورا ہوگیا۔
اب ۱۰ سال بعد کیفیت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میںاپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکی فوج سے زیادہ نقصان پاکستان کے عوام اور پاکستانی فوج کوبرداشت کرنا پڑا ہے، ا ور دہشت گرد قراردیے جانے کا خطرہ پہلے سے زیادہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ پاکستان کو اس جنگ میں شرکت کی جو مالی قیمت ادا کرنی پڑی ہے، اس کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔
کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد حامد کرزئی کی قیادت میں شمالی اتحاد کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوئی جو اب تک امریکی عسکری چھتری تلے ایک کٹھ پتلی انتظامیہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہندستان نے ہمیشہ سے کابل میں پاکستان کے مخالف عناصر کی کھل کر حمایت کی ہے ۔ جیسا کہ ماسکو نوازببرک کارمل انتظامیہ جب کابل پر حکومت کر رہی تھی تو اس وقت بھی سوشلسٹ بلاک کے ممالک کے علاوہ صرف بھارت نے ببرک کارمل کی حکومت کو تسلیم کیا تھا ۔ جب کابل میں نجیب انتظامیہ اقتدار میں تھی تو اس وقت بھی بھارت کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات تھے۔ پھر جب مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو بھارت نے رشید دوستم ملیشیا اور شمالی اتحاد کے ساتھ روابط قائم کیے اور اب تک شمالی اتحاد کے جملہ عناصر بھارت کے زیر اثر ہیں۔ کرزئی حکومت نے مسلسل پاکستان پر طالبان کی درپردہ حمایت کا الزام لگایا ہے اور اپنی تمام کمزوریوں اور ناکامیوں کاذمہ دار اس کو قرار دیا ہے ۔ دوسری طرف بھارتی اثرورسوخ پورے افغانستان میں ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ افغان فوج کو تربیت دینے سے لے کر حکومت کے ہر شعبے میں اس کے اثرات ہیں۔ بڑی تعداد میں بھارتی کمپنیاں افغانستان میں کاروبار کر رہی ہیں اور بھاری اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے بھارت ہر قسم کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ گویا موجودہ کابل حکومت پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہندستان کی مرہونِ منت ہے، جب کہ قومی ، زمینی ، جغرافیائی ، نظریاتی ، لسانی ، مذہبی ہرنقطۂ نظر سے پاکستان ، افغانستان کے قریب ہے۔ روسی جارحیت کے موقع پر ۴۰ لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی تھی۔ افغانستان کی تمام تر تجارت کا انحصا ر پاکستان پر ہے۔پاکستان اور افغانستان فطری حلیف ہیں لیکن موجودہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔
جس وقت نائن الیون کا واقعہ پیش آیا، پاکستان ایک فوجی قیادت کی گرفت میں تھا۔ جنرل پرویزمشرف بلا شرکت غیرے حکمرانی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ملک کی منتخب حکومت برطرف کی جاچکی تھی جس کی بنا پر دولت مشترکہ سے پاکستان کی رکنیت معطل کی گئی تھی اور کئی ممالک نے پاکستان کے خلاف مختلف پابندیاں عائد کی تھیں۔کسی پارلیمنٹ کا وجود نہ تھا، اس لیے جب امریکا نے جنرل مشرف سے ’اِدھر یا اُدھر‘کا مطالبہ کیا توفوراً ہی اس نے غیر مشروط طور پر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور اپنی کابینہ سے بھی مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا ۔ یہ کسی بھی ذمہ دار اور باوقار ملک کے قومی فیصلے کرنے کا طریقہ نہیں ہے ۔ جس نے پاکستان کے وقار ، سا لمیت اور خود مختاری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ جنرل مشرف کو چاہیے تھا کہ اس وقت کوئی جواب دینے سے پہلے وہ اپنی سول کابینہ اور فوجی کمانڈروں سے مشورہ کرتا ، پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں سیاسی جماعتوںکی لیڈر شپ کو بُلاکر گول میز کانفرنس کرتا اور قوم کو اعتماد میں لے کر کوئی فیصلہ کرتا ۔
دوسرا موقع پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو ملا تھا کہ وہ ۲۰۰۸ئکے انتخابات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اس پالیسی پر نظرثانی کرتی اور دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد امریکی جنگ میں شرکت کا میزانیہ تیار کرتی اور جنرل مشرف کی پالیسیوں کو دوام بخشنے کے بجاے ملک وقوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کرتی ۔ کیری لوگر بل منظور کرتے وقت پاکستانی قوم کو ایک تیسرا موقع ملا تھا کہ وہ اپنے آپ کو امریکی چنگل سے آزاد کرانے کا راستہ اختیار کرتی۔ واضح رہے کہ کیری لوگر بل کی صورت میں پاکستان کو ملنے والی معمولی امداد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے ۳ئ۷۳؍ارب ڈالر کے اقتصادی نقصان کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی نہیں ہے ۔اس موقع پر ملک کے تمام اہل دانش نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن بدقسمتی سے جمہوری قیادت نے بالغ نظری سے کام نہ لیا اور بدستور ملک وقوم کو امریکی جنگ کا ایندھن بننے دیا ۔
اسی طرح اکتوبر ۲۰۰۸ئاور مئی۲۰۱۱ء میںپارلیمنٹ سے متفقہ قرار دادوں کی منظوری اور امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی ۲۷جنوری ۲۰۱۱ء میں گرفتاری کے مواقع پر پاکستان کے لیے امریکی کیمپ سے نکلنے کے اچھے امکانات موجود تھے۔جن کو بنیاد بنا کر پاکستان امریکا سے گلو خلاصی کر سکتا تھا، لیکن عقل و دانش سے عاری حکمران ان بہترین مواقع کو بھی بروے کار لانے میں ناکام رہے۔ اب بھی ایک باوقار اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پاکستان کے مفاد میں یہی راستہ ہے کہ ۲مئی اور ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ دونوں حملوں میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے امریکی حکومت کی مرضی سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی حلیف فوج کے اعتماد کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اور تمام بین الاقوامی معاہدوں کو پامال کرتے ہوئے فوجی کارروائیاں کیں، تو اس کے بعد ہمارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم پھر بھی اس امریکی کھونٹے سے بندھے رہیں۔
امریکی اتحادی بننے کا صلہ امریکا نے اب تک پاکستان کے خلاف۲۵۰ سے زائد ڈرون حملوں کی صورت میںدیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی ہزار بے گناہ قبائلی جاں بحق ہو چکے ہیں،جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
سال ۲۰۰۶ء سے افغانستان میں جاری امریکی جنگ کے مہیب اثرات پاکستان میں واضح طور پر محسوس کیے جانے لگے ۔اب تک پاکستان کے ۳۵ہزار سے زائد شہری اور ۵ہزار سے زائد فوجی اس جنگ میں کام آچکے ہیں۔فاٹا اور شمالی علاقوں میں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے۔ملک کا اقتصادی ڈھانچا مجموعی طور پر اور جنگ زدہ علاقے خاص طور پر معاشی بدحالی سے دوچار ہیں۔اس سے پہلے کسی بھی موقع پر پاکستان اس طرح کے مالی بحران سے دوچار نہیں ہواجس کا سامنا اس کو اِس وقت کرنا پڑ رہا ہے۔۵؎
۲۰۰۸ء میں حکومت نے ایک بین الوزارتی کمیٹی اس مقصد کے لیے تشکیل دی تھی کہ وہ جائزہ لے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں پاکستان کی فعال شرکت سے ملک پر کیا اقتصادی و معاشی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس کمیٹی نے طویل غور و خوض اور جائزوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس جنگ نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کے جاری رہنے سے ملک کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو مزید نقصان پہنچتا رہے گا۔
جنگ کے آغاز ہی میں، یعنی سال ۰۲-۲۰۰۱ء میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ ۶۶۹ئ۲؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت یہ گمان تھا کہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی اور حالات دوبارہ عام ڈگر پر آجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور جنگ میں مزید شدت اور تیزی آتی رہی اور بالآخر اس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اقتصادی طور پر بھی پاکستان اس جنگ کی بھاری قیمت ادا کرتا رہا اور بالواسطہ اور براہ راست نقصانات کا تخمینہ جو ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۶۶۹ئ۲؍ ارب ڈالر تھا، ۱۰-۲۰۰۹ء میں بڑھ کر ۶ئ۱۳؍ارب ڈالرسالانہ کا حجم اختیار کر گیا۔ گذشتہ سال اس میں ۸ئ۱۷؍ارب ڈالر کا مزید اضافہ ہوگیا۔ اس طرح گذشتہ ۱۰ سال میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے صرف اقتصادی نقصان کا اندازہ ۳ئ۷۳؍ ارب ڈالر یعنی۵۰۳۷؍ ارب پاکستانی روپے ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ناقابل تلافی ہے۔اس اقتصادی نقصان سے سب سے زیادہ ملک کی نوجوان نسل متاثر ہوئی، جس سے بے روز گاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ملک کے بنیادی ڈھانچے مثلاً شاہراہوں، پُلوں ، عمارتوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور ہر قسم کی آبادیوںکو اس جنگ میں جس تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا مشاہدہ ہر پاکستانی بخوبی کرسکتا ہے۔۶؎
سلالہ چیک پوسٹ پر دانستہ امریکی حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں، عرصہ دراز سے قوم اس کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اقدامات مستقل بنیادوں پر ایک پالیسی کے تحت کیے جائیں ۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کر ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے۔قبائلی علاقے میں موجود مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ ناٹو افواج کے لیے سپلائی لائن ختم کرے، امریکی اڈوں کو ملک سے مستقل طور پر نکال دے اور امریکی جنگی مشین کے طور پر اپنے کردار کو ختم کرتے ہوئے ایک آزاد اور خودمختار مسلم ملک کی حیثیت سے دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کرے۔پاکستان کی ایک امتیازی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت ہے جسے کوئی بھی طاقت نظر انداز نہیں کر سکتی۔
وقت کا اہم ترین تقاضا وہی ہے جس کا برملا اعلان جماعت اسلامی پاکستان اور ملک کی تمام اسلامی قوتوں نے کیا ہے۔ وہ یہ کہ ملک وملّت کے عظیم تر مفاد میں ، مسلم امہ کے اتحاد ویگانگت کے لیے، قومی آزادی اور خود محتاری کی خاطر ، پاکستانی قوم کی عظمت اور افتخار کے حصول کے لیے اس عزم ویقین کا اظہار کیا جائے کہ ہم خطے میں امریکی تسلط و بالادستی اور ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں گے اورپاکستانی عوام کو امریکی چنگل سے نجات کے حصول کی ملک گیر جدوجہد کو اس مقصد کے حصول تک جاری رکھیں گے۔
NATO Attack: Why Salala? ،By Brig Asif Haroon Raja
1- http://www.thinkersforumpakistan.org / articles_detail.php?article_id=114&start=1
General Musharaf's Taliban Policy 1999-2008
2- http://www.qurtuba.edu.pk/ thedialogue /The%20Dialogue/5_2/Dialogue_April_June2010_96-124.pdf
UNITED STATES DIPLOMACY WITH PAKISTAN FOLLOWING 9/11
3- http://wws.princeton.edu/research/cases/coercivediplomacy.pdf
4- http://ipripak.org/journal/winter2004.shtml http://ipripak.org/journal/winter2004/waragainst.shtml
5- U.S. - Pakistan Relations
http://www.journalofamerica.net/html/us-pak_ties.html
Cost of War on Terror for Pakistan Economy
6- http://www.finance.gov.pk /survey/chapter_11 /Special%20 Section_1.pdf