پاکستان کو آج جن اند رونی خطرات کا سامنا ہے، ان میں سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد، حکومتی اداروں کے احترام کا اُٹھ جانا، حتیٰ کہ فوج کے احترام میں نمایاں کمی کے ساتھ ساتھ جرائم، خصوصاً خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے دل خراش واقعات میں اضافہ شامل ہیں۔ یہ صورتِ حال ہر باشعور فرد کے لیے سخت تشویش کا باعث ہے۔
سیاسی جماعتوں کی باہمی الزام تراشیاں اور عدلیہ کے بعض فیصلوں کی بنا پر عدلیہ کی غیرجانب داری کا مشتبہ ہوجانا بھی قومی زندگی کا نہایت تشویش ناک پہلو ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ دستوری ادارے بھی، جن کی طرف اُمید سے دیکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ کم از کم وہاں سے انصاف کا حصول ممکن ہو سکے گا، اب کھلی عوامی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں ۔
ان حالات میں ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی اور پڑھے لکھے، ہنرمند نوجوانوں کی ملک سے باہر نقل مکانی میں اضافہ ، اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ا بلاغ عامہ چاہے وہ اخبارات ہوں، ٹی وی چینل ہو ں، یا سوشل میڈیا یا اور کوئی ذریعۂ معلومات ، ہر جگہ مایوس کن تبصروں کی بھرمار ہے ۔ نتیجتاًمعاشرہ ایک شدید تقسیم در تقسیم (polarization ) اور ذہنی و فکری ہم آہنگی سے محرومی کا شکار ہو چکا ہے۔ اور نہ صرف سیاسی گروہوں کے درمیان بلکہ گھروں کے اندر بھی ایک واضح اختلافی تقسیم نظر آرہی ہے۔اگر یہ غیرصحت مندانہ تقسیم اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ حالات کو انتہائی نقصان دہ حد تک بلکہ ٹکراؤکی طرف لے جا سکتی ہے جو ملکی یک جہتی اور اتحاد کے لیے تباہ کن ہوگا۔
مایوسی کی گھٹاؤں میں امید کی کرن کی تلاش پاکستان، خصوصاً نظریۂ پاکستان سے وفاداری کا تقاضا ہے۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر محض برطانوی سامراج سے نجات پانے والے ایک ملک کے طور پر نہیں قائم ہوا، بلکہ انسانی تاریخ میں ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ جہاں اسلام کے عالم گیر اخلاقی، سیاسی ،معاشی، معاشرتی ،عدالتی اور انتظامی اصولوں کو نافذ کرکے دنیا کے سامنے ایک متبادل نظریۂ حیات کے طور پر پیش کیے جانے کا خواب دیکھا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ عالمی کردار روزِ اوّل سے بانیان پاکستان کے سامنے واضح تھا اور قائد اعظم محمدعلی جناح ، قائدملت لیاقت علی خاں اور علّامہ اقبال کے درمیان اس امر پر مکمل اتفاق پایا جاتا تھا۔
لیکن قیام پاکستان سے ۹سال قبل علّامہ اقبال کی رحلت اور قیام پاکستان کے ایک سال بعد قائداعظم کے انتقال کے نتیجے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی، اس میں بعض اندرونی قوتوں نے اقبال، قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے متفقہ تصور کو نظر انداز کرتے ہوئے جو حکمت عملی اور طرزِ عمل اختیار کیا، وہ ملکی سالمیت اور استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔چنانچہ قیامِ پاکستان کے ۲۴برس بعد ملک کے ایک بڑے حصے کا جدا ہو جانا اسی انحرافی طرزِعمل کا فطری نتیجہ تھا۔ آج معاشرتی انتشار، سیاسی عدم استحکام ،معاشی زبوں حالی ،ثقافتی انتشار ،فکری پراگندگی، عدلیہ، فوج اور انتظامیہ کے عدم احترام کا پایا جا نا جس تشویش کن صورت حال کو پیش کر رہا ہے ، اس سنگین صورت حال کے پیدا ہونے میں تمام غیراخلاقی عناصر کا دخل ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان تمام مسائل کا سبب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک اخلاقی بحران (Ethical Crisis) ہے جس کا آغاز ۱۹۵۰ءکے عشرے میں ہو گیا تھا۔یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی اصلاح نہیں ہوتی، معاشی ،سیاسی اور دفاعی خدشات اور خطرات کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔
آج عوام الناس کے بعض طبقوں میں دین سے دُوری اور لاعلمی اور فحاشی کا رجحان، تاجرپیشہ طبقے کی مفاد پرستی، نوکرشاہی کی فرائض سے لاپروائی اور اداروں کے باہمی عدم تعاون، حتیٰ کہ ملک کی پاسبان افواج پاکستان کے وقار میں روز بہ روز کمی سمیت دیگر ہو ش ربامسائل کی کوئی ایک بنیادی وجہ تلاش کی جائے، تو وہ صرف اور صرف اسلام کے اخلاقی اصولوں سے انحراف اور دُوری ہے۔
اقوام کی ترقی محض مادی وسائل کے پیدا کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی قوت ِاخلاق ان کے عروج یا زوال کی بنیاد بنتی ہے ۔مدینہ منورہ میں اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام کسی جبر اور آمرانہ طرزِحکومت یا صنعتی انقلاب کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اس کی اخلاقی برتری ہی اس کی معاشی اور سیاسی کامیابی کی بنیاد بنی۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت ، رحمت ، رواداری، عفو ودرگزر کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغض و عناد سے بھرے دلوں کو رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ میں جس کامیابی کے ذریعے تبدیل کیا، وہ صرف اور صرف عمل صالح ، صدق ، امانت اور دیانت کی وہ چلتی پھرتی مثال تھی، جسے دیکھ کر پتھر دل افراد بھی موم کی طرح نرم ہو کر ایک نئے معاشرے اور ریاست کے معمار بن گئے ۔
پاکستان کےباشعور افراد اور خصوصاً تحریک اسلامی کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ ایسے حالات میں جب سیاسی گروہوں میں شدید دُوری پائی جاتی ہے،ملکی معیشت اور معاشرت ، عدم استحکام کا شکار ہے ، آگے بڑھ کر جہاں کہیں اسے اختیار حاصل ہے، ایسی عملی مثالیں قائم کرے جن کو دیکھ کر ایک عام فردکو اسلام کی عملیت اور معاشرتی مسائل کی اصلاح کرنے کی صلا حیت پر مکمل یقین اور اعتماد ہو جائے ، نیز اسلام کے عملی نمونے کو دیکھ کر اس کا دل سکون اور اطمینان سے بھر جائے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ مقامی سطح پر کونسلوں کے دائرۂ کار میں جو سماجی اور معاشرتی فلاح کے کام آتے ہیں، انھیں امانت اور دیانت کے ساتھ ہاتھ میں لے کر منتخب کردہ علاقوں ، شہروں اور دیہات پر توجہ مرکوز کی جائے اور ۲۵برس پہلے والی ترکی کی اصلاح پسند سیاسی حکمت عملی کے نقشے کو ملکی یا مقامی حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے رُوبہ عمل لایا جائے ۔ یہ کام جتنے خلوص و قربانی اور بے لوثی سے ہوگا، اتنا ہی اس کا نتیجہ مثبت اور کامیاب نکلے گا ۔
دوسرا بنیادی کام پاکستان کی نوجوان آبادی کو معاشرتی فلاح کے کاموں میں رضاکارانہ طور پر شامل کرکے ان کی بے پناہ قوت کا تعمیری استعمال ہے۔ہمارے نوجوانوں میں نہ صلاحیت کی کمی ہے اور نہ قیادت میں وہ کسی سے پیچھے ہیں۔ صرف انھیں صحیح سمت، مقصد حیات اور تنظیم کے ذریعے منتشر اعضا کی جگہ ایک صحت مند جسم میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک ِ اسلامی کے مختلف اداروں اور اس سے وابستہ لوگوں نے اس سلسلے میں جو روشن مثالیں پیش کی ہیں، انھیں وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری ترجیح طویل المیعاد نوجوان قیادت کی تیاری ہونی چاہیے، جو فلاحی کاموں میں شامل ہو کر عملی تربیت سے ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہ کام محض تقریری محفلوں سے نہیں ہوسکتا۔ الخدمت کے ماڈل پر بے شمار ایسے پراجیکٹ متعارف کرائے جا سکتے ہیں، جو نوجوانوں کو صحیح سمت اور تربیت فراہم کر سکیں۔ایک چھوٹی سی مثال مقامی سطح پر صحت مند ماحول پیدا کرنے کے لیے صفائی کی مہم ہے۔چاہے شہر بڑے ہوں یاچھوٹے، ہر گلی کوچہ کوڑا کرکٹ اور غلاظت اور تعفن سے بھرا پڑا ہے۔اگر نوجوان رضاکار اپنی تحریکی پہچان کے ساتھ صرف اس ایک کام کو ایک متعین مدت میں مکمل کرانے کے لیے معاشرے ہی سے مدد لے کر کام کریں، تو ہر شہری اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ کسی مالی معاونت اور کسی بڑے ادارے کو بھاری ٹھیکہ دیے بغیر کس طرح صالح نوجوان اپنی مدد آپ کے اصولوںپر عمل پیرا ہو کر گندگی اور غلاظت کو دُور کر کے ایک صاف ستھرے ماحول کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں۔ اس طرح اشیا کی آلایشوں سے صاف معاشرہ، فکری آلایشوں سے صفائی کے لیے بھی تیار ہوسکتا ہے۔ اس معاشرے کو خوب صورت گلستان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
ملکی معیشت اور سیاسی عدم استحکام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات ذہن سے نہیں اوجھل ہونی چاہیے کہ ملکی حالات میں بنیادی طور پر خاندان کا اثر سب سے گہراہوتا ہےاور آج مغرب کی اندھی پیروی سے ہمارے خاندان کو سب سے زیادہ توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب نوبت یہ آگئی ہے کہ خاندان کے بنیادی تصور کو نوجوان نسل کے سامنے صرف اور صرف حصولِ لذت کے ایک آزادانہ تصور سے تبدیل کیا جا رہا ہے کہ انسان جو اصل میں ایک اخلاقی وجود رکھتا ہے،اور اس بنا پر حیوانات سے ممتاز ہے،اس کی ایک نئی تعبیر ایسی پیش کی جا رہی ہے، جو حیوانات کی دنیا میں بھی اجنبی ہے۔
حیوانات میں بھی بعض حیوانات اپنی جنسی عادات کی بناپر مہذب معاشروں میں ایسے الفاظ سے بیان کیے جاتے ہیں جو ان کی عادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں،اور ان کے جنسی تعلق کو براہِ راست بیان کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے ۔اُردو ادب کے اندر’ جنگل والا‘ اور بازاری کتے اور کتیا جیسے الفاظ استعاراً اس جنسی بے راہ روی کو محتاط الفاظ میں بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان حیوانات کی جنسی بے راہ روی نے انھیں یہ نام دلوائے۔آج اس طرز کے جنسی تعلق کو ’انسانی حقوق‘کے نام پر ہمارا ابلاغِ عامہ ،پارلیمنٹ، حتیٰ کہ عدالتیں بھی تسلیم کر رہی ہیں، جسے حیوانات بھی ’حیوانی حقوق‘ کہتے ہوئے شرمائیں ۔
ان حالات میں ہر شہر ، بستی اور گاؤں میں خاندانی نظام کی اہمیت، نیز اس کی تعمیر، اصلاحی اور اخلاقی پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاندانی نظام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مساجد ، بازاروں ، اسکولوں اور دیگر سماجی میل جول کے فورموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔بلکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کو روکنے کے لیے محلے کی سطح پر ایسے فیملی کونسلرز کا رضاکارانہ نظام بھی وضع کیا جاسکتا ہے، جہاں اجتماعی طور پر خاندانوں میں مفاہمت اور ٹوٹتے رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کی جائے ۔
ابھی حال ہی میں ملک کی ایک یونی ورسٹی نے چار، چا رماہ کے ایک آن لائن کورس کے ذریعے، کئی سو شرکاء جن میں خواتین کی اکثریت تھی،کو تربیت دی کہ وہ کس طرح خاندان کو اکیسویں صدی میں انتشار سے نکال کر موّدت و رحمت کا مرکز بنا سکتے ہیں۔
اختلاف کرنا اور کسی معاملے میں دلائل کی بنا پر ایک رائے قائم کرنا اور اسے پیش کرنا قرآن کریم کا دیا ہوا ایک حق ہے ، اسی کا نام ’شوریٰ‘ ہے، لیکن شوریٰ اور مشاورت میں ادب اور اعتدال کا پایا جانا شرط ہے۔ یہ ملکی سیاسی معاملات ہوں یا معاشی اور دفاعی حکمت عملی، کسی بھی موقع پر دلیل کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنا ایک دستوری حق ہے ،لیکن جس کسی کو اس رائے سے اختلاف ہو، اس کا نام بگاڑنا، اس پر استہزا کرنا ،اسے تمسخر اور عوام کی نگاہ میں کمتر انسان کے طور پر پیش کرنا نہ قرآن و سنت نے مباح کیا ہے اور نہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اسے گوارا کیا جا سکتا ہے ۔لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آج ان حضرات میں سے بھی کچھ (جن کی طرف لوگ قرآن و سنت کے فہم کے حصول کی نیت سے دیکھتے ہیں) کا سیاسی لہجہ قرآن کے اصولوں کی ضد بن گیا ہے، اور قرآن نے سورۃ الحجرات میں جن آدابِ گفتگو کا درس دیا ہے،ہم ان سے بہت دُور چلے گئے ہیں۔
اسلام اصلاحِ معاشرہ کے لیے امید ،تعاون باہمی اور حق و انصاف کو بنیاد بنا تا ہے اور ہرمشرک کو ایک ممکنہ مومن کے طور پر مخاطب کرکے اسلام سے قریب لانے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن شرک کا شدید ترین رد ّ دلیل کی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن مشرکوں کے خداؤں تک کو بُرے نام سے یاد کرنے سے منع کرتا ہے۔چنانچہ کسی سیاسی حریف کو ایسے القاب سے یاد کرنا جو اسے دُور لے جانے والے ہو ں ، ایک غیراسلامی اور غیراخلاقی حرکت ہے۔
تحریک اسلامی کا فرض ہے کہ وہ ایسی مثبت، سنجیدہ اور باوقار زبان استعمال کرے جو مخالف کو بھی حق کی بنا پر اپنی رائے پر غور کرنے اور حق کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دے۔ یہ رحمۃ للعالمینؐ کی شیریں بیانی تھی جس نے کفروفسق میں ڈوبے افراد کو سہارا دے کر گمراہی سے نکال کر نور حق تک پہنچنے میں مدد فراہم کی۔ اسی اخلاق اور اسی سیرت کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے جو دلوں کو جوڑ دے اور اُمت مسلمہ کو ایک بنیانِ مرصوص میں تبدیل کر دے ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَآ اُشْـرِکُ بِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۰)
اے نبیؐ ، کہو کہ ’’میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔
یہ سورئہ جِنّ کا دوسرا رکوع ہے۔ ا س سے پہلے کے سلسلۂ کلام کو نگاہ میں رکھیے۔ یہ سورہ غالباً ۱۰نبویؐ میں نازل ہوئی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ معظمہ کی طرف واپس آتے ہوئے ایک مقام پر ٹھیرے۔ اس جگہ جِنّوں نے رسولؐ اللہ کو نماز میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور اس کے بعد واپس جاکر اپنی قوم کو یہ بات سنائی کہ ہم ایسا ایسا کلام سن کر آئے ہیں اور ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ حضوؐر نے ان جِنّوں کو دیکھا نہیں تھا۔ آپؐ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جِنّ قرآن سن رہے ہیں۔ بعدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا کہ اس طرح سے جِنّوں نے آپؐ سے قرآنِ مجید سنا ہے اور پھر جاکر اپنی قوم کو یہ کچھ کہا ہے۔
اس میں چند باتیں بڑی اہم ہیں جن کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
پہلی چیز یہ ہے کہ اس سورت سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جِنّ انسانوں سے الگ ایک خاص مخلوق ہیں، یعنی انسانوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسری جنس کی مخلوق ہے جس کا انسان سے کسی نوعیت یا جنسیت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسری چیز جو اس سورت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت انسانوں کے لیے ہے اسی طرح سے یہ جِنّوں کے لیے بھی ہے۔ یعنی جِنّوں میں سے انبیاؑ نہیں آتے ہیں بلکہ صرف انسانوں میں سے انبیاؑ آتے ہیں۔ ان کی دعوت کے مخاطب جِنّ بھی ہوتے ہیں اور جِنّوں کا کام بھی ان کی دعوت پر ایمان لانا ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جِنّوں میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی۔ جِنّوں میں کچھ ایسے ہیں جو انبیاؑ کی دعوت ماننے والے نہیں ہیں بلکہ اسی ضد پر قائم ہیں جس پر ابلیس قائم تھا کہ ہم نے انسانی خلافت کو تسلیم نہیں کرنا۔ لیکن اِن میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو نہ صرف انسانی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ انسانوں میں سے جو نبی آتے ہیں ان کی دعوت پر ایمان بھی لاتے ہیں۔
اس کے ساتھ جو چوتھی بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جِنّوں کے متعلق انسانوں کے ذہن میں جو تخیل تھا کہ یہ کوئی بڑی زبردست اور طاقت ور مخلوق ہے، خدائی مخلوق ہے بلکہ بعض مشرکین انھیں اللہ تعالیٰ کی اولاد بھی قرار دیتے تھے اور ان کا نسب اللہ تعالیٰ سے ملاتے تھے، اور ان کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اس وجہ سے بھی جِنّ اور زیادہ گمراہ ہوگئے۔ ایک تو وہ گمراہی تھی جو ابلیس کے وقت شروع ہوئی تھی، اور دوسری یہ گمراہی تھی جو بعد میں انسانوں کے اپنے فعل کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوئی۔ انسانوں نے انھیں خدائی میں شریک قرار دیا اور بڑی زبردست اور طاقت ور مخلوق سمجھ کر ان کی پرستش کی، اور ان سے پناہ مانگنی شروع کی۔ جس نے انھیں مزید گمراہی میں ڈال دیا اور وہ خود اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھنے لگے۔
اس کے ساتھ کفار ِ عرب کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ جِنّ غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کی خبریں دینے والے ہیں۔ کاہنوں کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ جِنّوں سے ان کا تعلق ہے اور ان کے ذریعے وہ غیب کی خبریں حاصل کرتے ہیں۔
یہ چند چیزیں ہیں جو اس سورت کو پڑھتے ہوئے خود بخود آدمی کے سامنے آتی ہیں۔
اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جِنّوں میں جس وجہ سے کھلبلی مچی اور ان کو یہ تلاش ہوئی کہ زمین پر کیا واقعہ ایسا پیش آیا ہے جس کی وجہ سے آسمان پر کڑے حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس لیے کہ پہلے جب وہ آسمان کی طرف جاتے تھے اور کچھ جگہوں پر چھپ کر غیب کی خبریں معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن اب یہ ہے کہ ان میں سے جب کوئی جاتا ہے تو اس پر شہابوں کی بارش ہوتی ہے اور اس کو دُور سے بھگا دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ زمین پر کوئی خاص واقعہ پیش آنے والا ہے یا آچکا ہے جس کی وجہ سے یہ زبردست پہرے کا انتظام ہے۔ ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیا زمین کی مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کسی بڑے عذاب کی تیاری کر رہا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بڑی رحمت آنے والی ہے جس کی وجہ سے یہ انتظام ہے۔ اس وجہ سے وہ تلاش کرنے کے لیے نکلے کہ وہ سبب معلوم کریں اور ان میں سے ایک گروہ کو گزرتے ہوئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پڑھنے کی آواز کان میں پڑی تب وہ آئے اور انھوں نے کان لگا کر سنا کہ وہ کیا کلام ہے۔
اس کے بعد جب انھوں نے حضوؐر سے یہ کلامِ پاک سنا تو پھر وہ واپس اپنی قوم میںگئے اور انھوں نے جِنّوں کے سامنے بیان کیا کہ ہم ایسا اور ایسا کلام سن کر آئے ہیں ، اور ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی بیان کیا کہ اللہ کا بندہ جب یہ قرآن سنانے کے لیے کھڑا ہوا تو انسان اس کے دشمن ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنے کے پیچھے پڑگئے۔ یہ ساری رپورٹ انھوں نے اپنی قوم کو جاکر سنائی۔
اس قصے کے درمیان میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِکُ بِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۰) اے نبیؐ ، لوگوں سے کہو، کہ ’’میں تو صرف رب کو پکارتا ہوں اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔
یہاں پکارنے سے مراد اپنے رب سے دعا مانگتا ہوں، اب رب ہی کو بحیثیت معبود کے پکارتا ہوں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کرتا۔
قُلْ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۱) اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میں تمھیں نہ نقصان پہنچا سکتا ہوں اور نہ راہِ راست دکھا سکتا ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ نہ میرے اختیار میں یہ ہے کہ کسی کو راہِ راست دکھا دوں اور کوئی گمراہ رہنا چاہے اور میں اس کو راہِ راست پر لے آئوں، اور نہ میرے اختیار میں یہ ہے کہ اگر کوئی میری دعوت کو نہیں مانتا تو میں اسے خود اپنے اختیار سے سزا دے سکوں۔ میرے یہ اختیارات نہیں ہیں۔
قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ ۰ۥۙ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا o اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِسٰلـٰتِہٖ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۲-۲۳) کہو، ’’مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچاسکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پاسکتا ہوں۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں۔ اب جو بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے پھر یہ بات ذہن میں لے آیئے کہ اہلِ عرب جِنّوں سے متعلق یہ تصور رکھتے تھے کہ یہ کوئی بڑی زبردست طاقت ور مخلوق ہے۔ یہ بڑے اختیارات رکھنے والی مخلوق ہے۔ اس کے پاس غیب کا علم ہے۔ یہاں تک کہ یہ ان سے پناہ بھی مانگتے تھے۔ سفر کرتے ہوئے جب کسی وادی میں وہ ٹھیرتے تھے تو کہتے تھے: اعوذ بربک ھذا الوادی، یعنی اس وادی کے مالک جِنّ کی میں پناہ مانگتا ہوں، اور پھر وہاں رات کو گزارتے تھے۔
اس طرح کی مخلوق کے متعلق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے کفّار کو یہ بتایا گیا کہ جِنّ آئے اور انھوں نے آکر یہ کلام سنا اور پھر اس کے اُوپر ایمان لے آئے تو ان کے ہاں جِنّوں کے بارے میں پائے جانے والے تصورات کی بناپر ایک آدمی کے ذہن میں یہ خیال آسکتا تھا کہ ہمارے ہاں کے عاملین اور کاہن کسی ایک جِنّ کو قابو میں لاکر یہ کہتے ہیں کہ اگر مجھ سے کسی نے بات کی تو میں اس کا تخت اُلٹ دوں گا، اور میرے یہ اختیارات ہیں اور وہ غیب کی خبریں دینے لگتا ہے۔ یہ باتیں وہ صرف ایک جِنّ کو قابو کرنے کے بعد کرتا ہے اور یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ قابو میں کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ ان کے عاملین جو باتیں کہا کرتے تھے اور جو آج کل کے عاملین باتیں کہا کرتے ہیں، وہ یہی ہیں کہ اگر صرف ایک جِنّ قابو میں آگیا ہے تو اس کو بڑی زبردست طاقتیں حاصل ہوگئی ہیں۔
اب کجا کہ ایک جِنّ کے بجاے جِنّوں کا ایک گروہ ایمان لے آتا ہے اور جب لوگ یہ سنیں گے کہ جِنّوں کا ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہے تو ان کےدلوں میں یہ خیال آئے گاکہ جِنّوں کا پورے کا پورا ایک گروہ ان کے قابو میں آگیا ہے۔ لہٰذا اب یہ دعوے کریں گے کہ میں جس کا چاہوں گا تختہ اُلٹ دوں گا، جس کو چاہوں گا اُلٹا لٹکا دوں گا، جس کو چاہوں گا جِنّوں سے مروا دوں گا۔
اس تناظر میں یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ میں اپنے رب کے سوا کسی کو نہیں پکارتا۔ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ نہ میں تمھیں نقصان پہنچا سکتا ہوں اور نہ تمھیں سیدھے راستے پر لاسکتا ہوں۔ یعنی جِنّوں کے قابو میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس طرح کے اختیارات کا کوئی دعویٰ رکھتا ہوں یا کسی کو کوئی نقصان پہنچائوں گا بلکہ میں خود بھی خدا کے مقابلے میں کوئی پناہ گاہ نہیں پاتا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑے تو میں کہیں بچ کر نہیں جاسکتا۔ میرا بھی ملجا و ماویٰ اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِسٰلـٰتِہٖ،کہ میرا اس کے سوا کوئی کام نہیں ہے کہ اللہ کی طرف سے میرے پاس جو پیغامات آتے ہیں وہ تمھیں پہنچا دوں۔ اس قسم کے اختیارات کا میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ جس کو چاہوں مار ڈالوں گا، جس کے گھر پر چاہوں گا پتھر برسوا دوں گا، اور جس کا چاہوں گا گھر جلوا دوں گا۔ اس طرح کے اختیارات کا میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ میں تو صرف پیغام پہنچانے میں کوتاہی کروں تو اللہ کی پکڑ سے مجھے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔
وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۳) اب جو بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
گویا اب جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے، یہ نہیں کہ جو محمدؐ بن عبداللہ کی نافرمانی کرے، یعنی اگر کوئی میری ذاتی حیثیت سے نافرمانی کرے تو میں اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ لیکن جو کوئی اللہ کی اور اس کی طرف سے پیغام لانے والے کی نافرمانی کرے گا اور اس بات کو نہ مانے جو وہ پیش کر رہا ہے تو اس کے لیے نارِ جہنم ہے جس کے اندر وہ ہمیشہ رہے گا۔
حَتّٰیٓ اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّاَقَلُّ عَدَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۴) (یہ لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو مٹھی بھر لوگ تھے، کوئی طاقت ان کے پاس نہ تھی، کوئی ذرائع نہ تھے، کوئی بڑا جتھا نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ کمزور انسان ہیں، ان کے پاس کمزور آدمی ہیں، ایک چھوٹا سا قلیل سا جتھا ہے۔ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب وہ چیز دیکھ لو گے جس کی تمھیں خبر دی جارہی ہے، یعنی نارِجہنم، اس وقت ان کو پتا چل جائے گا کہ حقیقت میں کمزور کون ہے؟ کس کا جتھا تعداد میں کم ہے اور کمزور ہے؟ اس وقت انھیں خود معلوم ہوجائے گا۔
قُلْ اِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَہٗ رَبِّیْٓ اَمَدًا o (الجِنّ۷۲ :۲۵) اے نبیؐ ! ان سے کہو ’’میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے‘‘۔
یعنی اُوپر جو بیان کیا گیا کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کریں گے ان کے لیے نارِ جہنم ہے، تو لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی شامت کب آئے گی جو ماننے سے انکار کررہے ہیں؟ قرآنِ مجید میں یہ بار بار آتا ہے کہ کفارِ مکہ پوچھتے تھے کہ جناب آپ جو خبر ہمیں سنا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب دے گا تو وہ کب آئے گا؟ اور وہ کون سا وقت ہے جو آنے والا ہے؟ اس پر فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو بتا دو کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ وقت کب آنے والا ہے؟ وہ کوئی لمبی مدت ہے یا قریب آلگا ہے، مجھے اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ بالکل اللہ کے اختیار میں ہے کہ کب وہ وقت لے آئے گا۔
عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًاo (الجِنّ۷۲ :۲۶) وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔
کسی کے پاس کوئی ذریعۂ علم نہیں ہے کہ اللہ نے جس بات کو چھپا کر رکھا ہو، اسے کوئی دوسرا جان سکے۔ یہاں پھر دیکھیے کہ کفّارِ مکہ کا جِنّوں کے متعلق جو تخیل تھا کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں اور جس کا اُن سے رابطہ قائم ہوجاتا ہے اور ان کو بھی ان کے ذریعے غیب کا علم حاصل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں عاملین اور کاہنین غیب دانی کے دعوے کرتے تھے اور لوگ ان کے پاس جاجا کر پوچھتے تھے کہ ہماری فلاں چیز جو کھو گئی ہے وہ کہاں ہے؟ اور ہمارا جو مسافر گیا ہوا ہے وہ کب آئے گا؟ جو بیمار ہے وہ اچھا ہوگا یا نہیں ہوگا اور کب اچھا ہوگا؟ اس طرح کی معلومات ان سے حاصل کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس غیب کا علم ہے اور وہ جِنّوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
یہاں ایک طرف یہ بتایا جارہا ہے کہ جِنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور دوسری طرف یہ بتایا جارہا ہے کہ غیب کا علم رسولؐ کو حاصل نہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہ جس کو جتنا چاہتا ہے دیتاہے لیکن جس چیز کو وہ چھپا کررکھے دنیا میں کسی کے پاس کوئی ذریعۂ معلومات نہیں ہے کہ وہ اسے جان سکے۔
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۲۷ۙ لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا۲۸ۧ
(الجِنّ۷۲ :۲۷-۲۸) سوائے اُس رسولؐ کے جسے اُس نے (غیب کا کوئی علم دینے کے لیے) پسند کرلیا ہو، تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔
یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے غیب کا مالک ہے اور وہ کسی کو اپنے غیب پر مطلع نہیں کرتا مگر اس رسول کو جسے وہ چُن لیتا ہے۔ وہ جس کو منتخب کرلیتا ہے اسے وہ غیب کا علم دیتا ہے ۔ اس غرض کے لیے کہ وہ پیغامات جو اللہ تعالیٰ اسے دے رہا ہے وہ ان کو پہنچا سکے۔ بالفاظِ دیگر رسول کو غیب کا وہ علم دیا جاتا ہے جو رسالت کے لیے درکار ہے۔ خدائی کے لیے جو غیب کا علم درکار ہے وہ رسول کی طرف منتقل نہیں کیا جاتا۔ رسول کا کام یہ نہیں ہے کہ سمندر میں کتنی مچھلیاں ہیں اور کہاں کہاں ہیں؟ اور کس کس کا رزق کس طرح پہنچانا ہے؟ رسول ان کا رازق نہیں ہے، رسول ان کا ربّ نہیں ہے۔ اسے یہ جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ سمندر میں کتنی مچھلیاں ہیں، یا ہوا میں کتنے پرندے ہیں اور کون کون کس کس مقام پر ہے اور کس کو کتنے رزق کی ضرورت ہے اور کس کو کتنا پہنچ رہا ہے اور کس کو نہیں پہنچ رہا؟ اس کا کام خدائی کرنا نہیں ہے۔ یہ علم خدائی کرنے کے لیے درکار ہے۔ اسے جو علمِ غیب دیا جاتا ہے وہ رسالت سے متعلق ہوتا ہے۔
رسالت کی حقیقتیں جو عام انسانوں سے پوشیدہ ہیں، وہ اس رسول کو بتائی جاتی ہیں۔ جب رسول کویہ علم دیا جاتا ہے اور رسالت پر مامور کیا جاتا ہے تو اس کو پوری طرح سے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ اسے وہ علم دے کر آزاد نہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پوری طرح سے اس کی سخت نگہبانی اور نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے چاروں طرف پہرے لگا دیے جاتے ہیںتاکہ اس بات کی پوری طرح ضمانت حاصل رہے کہ رسول کو جو علم دیا گیا ہے اور رسول کی طرف جو پیغامات بھیجے گئے ہیں ان کے اندر کوئی ادنیٰ رد و بدل نہ ہونے پائے۔ رسول اس میں سے کسی چیز کو چھپا کر نہ رکھے، کسی چیز کو روک کر نہ رکھے۔ اس کے اندر کوئی تغیر و تبدل نہ کرے۔ جیسا پیغام اس کو پہنچایا گیا ٹھیک اسے ویسے ہی پہنچائے۔ اس بات کی ضمانت کے لیے اس کے چاروں طرف سخت پہرہ لگایا جاتا ہے۔ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ ،’’اور اللہ تعالیٰ خود اس کے اُوپر محیط رہتاہے‘‘۔ ایک طرف فرشتے اس کی نگرانی کے لیے لگا دیے جاتے ہیں اور دوسری طرف خود اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا رہتا ہے کہ وہ کیا کام کررہا ہے؟ اتنی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا،ایک ایک چیز کو اللہ تعالیٰ گنتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو قرآنِ مجید بھیجا گیا ہے اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ گنا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا رہتا ہے کہ اس کی گنتی کے مطابق اس نے اسے پہنچایا ہے یا نہیں۔
دوسرے الفاظ میں غیب کا علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ انسانوں کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی ذریعہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو وہ اپنے رسولوں کو دیتا ہے۔ رسولوں کو بھی رسالت کے فرائض انجام دینے کے لیے دیتا ہے اور اس کی بھی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو یہ علم دے کر چھوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد برابر یہ دیکھا جاتا رہتا ہے کہ وہ اس پیغام کو ٹھیک ٹھیک پہنچا دے۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہوگئی کہ رسولوں کے ماسوا دوسرے لوگوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہمارے پاس غیب کا فلاں فلاں علم ہے، یا دوسرے انسانوں کے متعلق لوگوں کا یہ تصور کہ ان کے پاس غیب کا فلاں فلاں علم ہے، بالکل غلط ہے۔ قرآن و حدیث واضح طور پر اس بات کو بتاتے ہیں کہ وہ حقائق جو انسان کی معلومات سے مخفی ہیں، اس کے حواس سے مخفی ہیں جن کو آدمی نہ دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے۔ وہ حقائق سوائے اللہ تعالیٰ کے رسولوں ؑ کے اور کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ کوئی شخص اگر یہ کہے کہ ہمیں کشف کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد مُردے پر کیا گزرتی ہے؟ بالکل غلط کہتا ہے۔ یہ علم اگر حاصل ہوسکتا ہے تو صرف اللہ کے رسولؐ کے ذریعے سے ہوسکتا ہے۔یہ علم رسولوں کو رسالت کے فرائض ادا کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ تماشے دکھانے یا کرامتیں دکھانے کے لیے نہیں دیا جاتا۔ یہ اس لیے نہیں دیاجاتاکہ اس کے ذریعے پیری کی دکان چلائی جائے۔ یہ محض رسالت کے فرائض اداکرنے کے لیے دیا جاتا ہے، اور جسے دیا جاتا ہے، اس کی سخت نگہبانی اور نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری طرح سے اس بات کا انتظام کرتا ہے کہ یہ علم محفوظ رہے اور صحیح طریقے سے اسے پہنچایا جائے۔اور کون سا انسان ایسا ہے جس کے پاس غیب کا علم ہو اور اس کی حفاظت کے لیے اس طرح سے فرشتے لگائے جائیں۔
جیساکہ قرآن مجید بیان کرتا ہے اور اسی سورہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو رسول مامور کرتا ہے اور اس کی طرف وحی آنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو عالمِ بالا میں اس کے لیے حفاظت کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ علم جو وہاں سے بھیجا جارہا ہے اس کے اندر کوئی خلل اندازی نہ ہونے پائے۔ وہاں سے جب یہ علم رسول کی طرف منتقل ہوتا ہے اور اس کے بعد رسول کے گرد بھی چوکی پہرہ لگا دیا جاتا ہے کہ اس کے اندر ذرہ برابر بھی خلل اندازی نہ ہو۔ رسول بہرحال انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر خواہشات ہوتی ہیں۔ اس کے اندر جذبات ہوتے ہیں۔ اسے کسی سے محبت ہوتی ہے اور کسی پر اسے غصہ آتا ہے۔ مختلف صورتیں ہوتی ہیں جو بہرحال انسان کے ساتھ پیش آسکتی ہیں۔ لیکن جب رسول کو رسالت پر مامور کیا جاتا ہے اور وحی اس کی طرف بھیجی جاتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اگر رسول کو کسی پر غصہ آیا ہوا ہے اور اس پر وحی نازل ہوئی ہے تو اپنے غصے کے ساتھ وہ اس کے اندر ایک کلمہ بڑھا دے، یا اس میں اطاعت یا ناراضگی کا کوئی پہلو بڑھا دے۔
مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ حضرت عائشہؓ جو رسولؐ اللہ کی محبوب بیوی تھیں۔ ان پر جب تہمت لگائی گئی تو جس قدر شدید غصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فطری طور پر آنا چاہیے تھا وہ انھیں آیا۔ اس کے بعد سورئہ نور کو دیکھیے جس میں تہمت کے اس واقعے پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو آپ پڑھیں تو آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ اس میں کہیں بھی اس غصے کے آثار نہیں ہیں جو ایک شوہر کے ہونے چاہییں۔
یہ کیا چیز ہے سخت نگرانی؟ وحی جب نازل ہوگئی اور وحی کے الفاظ آگئے تو اب رسولؐ کے اختیار میں نہیں ہے کہ اپنی محبت یا اپنے غصے یا کسی خواہش کی بناپر کسی لفظ میں رد و بدل کر دے۔ یہ اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہاں تو لفظ لفظ گنا ہوا ہے۔ اَحْصٰی کُلَّ شَیْ ئٍ یوں ہی نہیں فرمایا گیا کہ ایک ایک لفظ گنا ہوا ہے اور اس کی نگرانی کی جارہی ہے کہ جو کچھ تمھیں پہنچایا گیا ہے کہیں اس میں کوئی رد و بدل تو نہیں کر رہے۔ اب خدا کے رسولؐ کے بعد اور کون سی ایسی ہستی ہے کہ جس کے اُوپر اگر الہامات نازل ہوں، جسے کشف ہوا ہو کہ اس کی اتنی نگرانی کی جائے کہ جب عالمِ بالا سے پیغا م دیا جا رہا ہو تو پوری حفاظت کے ساتھ پہرے لگا کر اسے پہنچایا جا رہا ہے اور پھر پہنچانے کے بعد اس کی سخت نگرانی کی جارہی ہے کہ جو علم دیا گیا آیا وہ جوں کا توں پہنچا دیا گیا ہے یا نہیں، اور لفظ لفظ گنا ہوا ہو اور جس طرح سے دیا گیا ہو اسی طرح سے اسے پہنچایا گیا ہو۔ لہٰذا علمِ غیب کے جتنے بھی دعوے ہیں سب فضول اور لغو ہیں۔ انبیا علیہم السلام کے سوا یہ علم نہ تو کسی کو حاصل ہوسکتا ہے اور نہ دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے:
فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا o اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (الجِنّ۷۲ : ۲۶-۲۷) وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے وہ علم دیتا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ سارے کے سارے دعوے غلط ہیں۔ صرف رسول کو اس کام کے لیے چُنا جاتا ہے، کسی اور کو اس کام کے لیے چُنا نہیں جاتا کہ وہ حقائق جو اللہ تعالیٰ نے مخفی رکھے ہیں ان کے متعلق انھیں علم ہو۔
یہ وہ چیز ہے جو انسانوں کے علم سے مخفی رکھی گئی ہے۔ اس چیز کا علم صرف اللہ کے رسول کو دیا جاتا ہے۔ اس غرض کے لیے کہ انسانوں کو آخرت پر ایمان لانے کے لیے دعوت دی جاسکے۔ آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے کے لیے جب رسول کو یہ علم دیا جاتا ہے تو رسول کو آنکھوں سے وہ جنّت بھی دکھا دی جاتی ہے جہاں انسانوں کو ایمان لانے اور عملِ صالح کرنے کے نتیجے میں داخل کیا جائے گا، اور اسی طرح وہ دوزخ بھی دکھا دی جاتی ہے جہاں ان کو جانا ہوگا اگر وہ انکار کریں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں۔ ان کو یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ جو لوگ عذابِ قبر کا انکار کرتے ہیں انھیں عذاب قبر ہو رہا ہے۔ ان کو یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو مومن صالح ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کس آرام اور عیش میں رکھتا ہے۔ یہ سب علم انھیں دیا جاتا ہے اور یہ سارے مشاہدے انھیں کروائے جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے آخرت کے عقیدے کو محض اس طرح پیش نہ کریں کہ یہ ان کا فلسفہ ہے یا ان کا قیاس ہے کہ ایسا ہونا ہے بلکہ وہ اسے اپنی آنکھوں دیکھی حقیقت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔
اس لیے کہ اگر سارے انسان آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مرنے کے بعد یہ ہوتا ہے تو پھر کون کافر رہ جائے گا۔ پھر تو آزمایش کا قصہ ختم ہوجائے گا۔ پھر تو امتحان کا سوال باقی نہیں رہتا۔ اگر ہرشخص اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لے کہ مرنے کے بعد یہ ہوتا ہے، یوں فرشتے آتے ہیں، اس طرح سے روح قبض کرکے لے گئے۔ قبر میں یوں گزر رہی ہے اور عالمِ آخرت میں یہ کچھ پیش آنا ہے۔ اگر یہ سب کچھ نبیؐ کے ماسوا بھی دوسرے انسانوں کو دکھا دیا جائے تواس کے معنی یہ ہیں کہ امتحان ان کا ختم ہوگیا۔ اس کے بعد پھر کسی امتحان کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ جس کا امتحان لیا جارہا ہو، اگر اس کے سامنے وہ سوالات ہی آجائیں، وہ پرچہ ہی آجائے اور اسے وہ حل کرکے ہی دے دیا جائے تو پھر اس امتحان کا کیا فائدہ؟پھر یہ علم کچھ انسانوں کو دے دینا اور کچھ کو نہ دینا، یہ تو بالکل ایسا ہے کہ کچھ آدمیوں کو پرچہ دکھا دیا جائے اور کچھ سے پرچہ چھپا کر ان کا امتحان لیا جائے۔ اس بے انصافی کی اللہ تعالیٰ سے کسی کو توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ رسول کو یہ علم اس لیے دیتا ہے کہ رسول کا کام شہادت دینا ہے۔ رسول کا کام آنکھوں دیکھی بات کو بیان کرنا ہے۔ اسے فلسفے کی حیثیت سے پیش نہیں کرنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس رسول کو منتخب کرتے ہیں۔ اسے یہ علم براہِ راست دیتے ہیں اور پھر خود اس کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو غیبی حقائق عام انسانوں کے حواس سے مخفی رکھے ہیں، وہ رسول کے علاوہ عام انسانوں کو معلوم ہوسکیں۔ (ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: ارشاد الرحمٰن ، امجد عباسی)
حضرت جریر بن عبداللہ بَجلیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اُن لوگوں پر رحم نہیں کرے گا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ کی انسانوں پر رحمت کی کیا شان ہے ! جو انسان، اللہ کی رحمت سمیٹنا چاہتا ہے، وہ انسانوں پر رحم کرے۔ اگر لوگوں پر رحم نہیں کرے گا تو اللہ بھی اس پر رحم نہیں فرمائے گا۔
ایک موقعے پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کی بیٹی نے بلایا کہ ’’تشریف لائیں، میرا بیٹا جان کنی کے عالم میں ہے‘‘۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا: بیٹی، اِنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلَہُ مَا أَعْــطٰی وَکُلُّ شَیْیءٍ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْسِبْ،’’اللہ ہی کی مِلک میں تھا، وہ جو اس نے دیا تھا، اور جو اس نے لے لیا وہ بھی اسی کی مِلک میں ہے۔ مالک جو چاہے کرے اورہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ صبر کر اور ثواب حاصل کر۔
بیٹی کو جب یہ پیغام ملا تو انھوں نے آپؐ کو پھر بلایا کہ ’’ آپؐ ضرور آئیں‘‘۔ اس پر آپؐ اُٹھ کھڑے ہوئے۔اس وقت کچھ صحابہ کرامؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ جن میں حضرت سعد بن عبادہؓ، حضرت زیدبن ثابتؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ شامل تھے۔ آپؐ نے نئی چادر منگوائی، اُوڑھی اورچل پڑے۔
آپؐ بیٹی کے گھر پہنچے۔ نواسے کو گود میں لیا وہ آخری سانس لے رہا تھا۔ اس کا سینہ اس طرح کھڑکھڑ کر رہا تھاجس طرح خشک مشک کے اندر تھوڑا سا پانی ہواور اسے ہلایا جائے تو کھڑکھڑ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ ’’یارسولؐ اللہ! آپؐ بھی رورہے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: فَاِنَّمَا یَرْحَـمُ اللہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحْـمَاءَ،اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں پر رحم کرتے ہیں جو اس کے بندوں پر رحم کرنے والے ہوں۔ یہ بھی بخاری شریف کی روایت ہے۔
یعنی یہ تو رحمت ہے جو اللہ نے مومن کے دل میں رکھی ہے۔ یہ کوئی نوحہ تو نہیں ہے، نوحہ منع ہے۔ اگرقدرتی طور پر، غیراختیاری طور پر آنکھوں سے آنسو نکل آئیں، تو یہ ایک فطری چیز ہے اور جس کی ممانعت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آدمی کا دل سخت نہیں ہے بلکہ نرم ہے اور نرم دلی، اللہ کو پسند ہے۔ قساوت ِ قلب اور سنگ دلی اللہ کو پسند نہیں ہے۔
ہمارادین تو ہے ہی دین رحمت۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے اورمحمد مصطفےٰ، احمد مجتبیٰ، سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔ ہرنبی ؑ اپنے زمانے میں رحمت لے کر آتا ہے۔ اللہ کا دین رحمت ہے۔ ہردور میں جو نبی آیا وہ رحمت لے کر آیا۔ وہ اپنے زمانے کے لیے رحمت تھا اور احمد مجتبیٰ، سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں۔ آپؐ کا وجود سراپا رحمت ہے، انسانوں کے لیے، جنوں کے لیے اور فرشتوں کے لیے۔ پوری کائنات کے لیے آپؐ رحمت ہیں۔
ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور دین رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں تک پہنچنا ہے اور گھرگھر اس رحمت کو جو اللہ نے ہمار ے حوالے کی ہے، یعنی قرآن وسنت کی دعوت کو پھیلانا اور پہنچانا ہے۔ گھرگھر، بستی بستی اور شہرشہر اس دعوت کو لے کر پہنچنا ہے اور اس راہ میں آنے والی تکالیف اُٹھانی ہیں۔ اُس زمانے میں تو بہت زیادہ تکالیف اور اذیتیں دی جاتی تھیں۔ مبلّغین اور دین کے داعیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ آج تو اللہ کا فضل ہے اور ہمیں آسانیاں میسر ہیں۔ لہٰذا، ان آسانیوں سے فائدہ اُٹھا کر پہلے مرحلے پر پورے پاکستان کو اوردوسرے مرحلے پر پوری دُنیا کو دین کے لیے کھڑاکرنا ہے۔ تمام مسلم ممالک میں جب اسلامی نظام قائم ہوجائے گا تو پھر اسلام اور کفر کا آخری معرکہ برپا ہوگا اور کفر شکست سے دوچار ہوگا۔ جب اللہ کے بندے اللہ کے دین کو لے کر اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ہرطرف سے دین کا جھنڈا سربلند ہوگا، تو کفر سرنگوں ہوجائے گا۔ ہم آخری مرحلے کی تمہید ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس تمہید کا حق ادا کریں۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پڑھتے ہوئے سنا کہ آپؐ یہ دُعا کر رہے ہیں:
اَللّٰهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَّـسِيرًا، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لے‘‘۔
جب آپؐ نے سلام پھیرا تو میں نے عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ! حسابِ یسیر کیا ہے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: حسابِ یسیر یہ ہے کہ انسان کا اعمال نامہ دیکھا جائے اور پھر اس سے درگزر کیا جائے۔ اس سے پوچھ گچھ نہ کی جائے اور کہا جائے کہ تمھارا اعمال نامہ دیکھ لیا ہے، تمھاری پیشی ہوگئی ہے، تم جنّت میں چلے جائو۔ اس دن جس آدمی سے پوچھ گچھ کی گئی تو اے عائشہؓ! وہ تو مارا گیا۔ پھر اس کی خیر نہیں ہے۔ (مسند احمد)
بخاری شریف میں ہے کہ جس کا حساب لیا جائے گا تو اسے عذاب دیا جائے گا۔
حضرت عائشہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ، کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا: فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا، ’’یعنی حساب یسیر لیا جائے گا؟‘‘ جس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تواس کا حساب آسان ہوگا۔
آپؐ نے فرمایا: جس کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا تو، اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ اِنَّمَا ذٰلِکَ عَرْضٌ ، یہ تو صرف پیشی ہے۔ وَمَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ،یعنی جس سے مناقشہ کیا گیا، پوچھ گچھ کی گئی تو پھر اس کی خیر نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سے آسان حساب لے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرائض ادا کریں اور منکرات سے بچیں۔ اپنی اولاد کوبھی نماز کی پابندی اور باقاعدگی سے نصیحت کریں اور مساجد میں ساتھ لائیں۔
خلیفۂ راشد حضرت علیؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے قرآن کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:
قرآن کریم اللہ کا کلام ہے، جس میں تمھارے عہد سے پہلے کی بھی خبریں ہیں اور بعد کی بھی، اور تمھارے معاملات کا حل بھی اس میں موجود ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو زبردست اورزور آور سمجھتے ہوئے اس سے پہلو بچائے تواللہ تعالیٰ اُسے بُرے انجام سے دوچار کرے گا، اورجو شخص اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت کا متلاشی ہوگا، اُسے اللہ گمراہ کردے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسّی ہے،اس کا روشن نُور ہے۔ حکمت سے بھرپور ذکر ہے اور سیدھا راستہ ہے۔ ا س کو اختیار کرنے کی صورت میں انسان نفسانی خواہشوں کا غلام نہیں رہ سکتا۔ اس کی موجودگی میں نہ زبانوں میں التباس رہتاہے، نہ آراء میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس کو اہلِ علم جتنا بھی پڑھیں، کبھی پیاس بجھا نہ سکیں گے اور اہلِ تقویٰ کبھی اُکتاہٹ نہیں محسوس کریں گے۔ ذکر و تلاوت کی کثرت سے وہ پرانا نہیں ہوتا اور اس کے عجائب فنا نہیں ہوتے۔ جنوں نے جب اُس کو سنا تو پکار اُٹھے: اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَـجَــبًا۱ۙ (الجن۷۲:۱) [ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے]۔ جس نے اس کا علم حاصل کیا وہ آگے بڑھ گیا۔ جس نے اس کی روشنی میں کوئی بات کہی اس نے سچ کہا۔ جس نے اس سے فیصلہ کیا اُس نے انصاف کیا۔جس نے اس پر عمل کیا وہ اجر کا مستحق ہوا، اور جس نے اس کی طرف دعوت دی، اُس نے درحقیقت سیدھے راستے کی طرف دعو ت دی۔(ترمذی، ج۲،ص ۱۴۹)
یہ قرآنِ کریم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے، تاکہ اہلِ ایمان اس کی تلاوت کریں، اس کے ذریعے اپنے سینوں کو کشادہ کریں، اپنے دلوں کو اس کے نُور سے منور کریں اور اس کے ذریعے قیامت کے دن انعاماتِ الٰہی کے مستحق ہوں، اور اس کی روشنی میں اپنا دستورِ زندگی بناکرمعاشرے میں ایک صالح نظام قائم کریں، تاکہ دُنیا میں خوش حالی اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہوں:
مَنْ عَمِلَ صَالـِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۹۷ (النحل ۱۶:۹۷) جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو، اسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۱۲۴ (طٰـہٰ ۲۰:۱۲۴) اور جو شخص میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اُٹھائیں گے۔
قرآن کریم سے مقصود محض اس کی تلاوت اور برکت کا حصول نہیں ہے۔ اگرچہ قرآن کی تلاوت بھی باعث ِ برکت ہے بلکہ اس کی حقیقی برکت تو اس میں تدبر و تفکر اور اس کے معانی و مقاصد کے فہم، پھر دینی و دُنیوی اُمور میں اس پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جو شخص ایسا نہیں کرسکے گا یا بے سمجھے محض تلاوت پر اکتفا کرے گا، اس کے بارے میں اس وعید کے صادق آجانے کا اندیشہ ہے، جسے امام بخاریؒ نے حضرت حذیفہؓ سے روایت کی ہے: ’’اے قرآن پڑھنے والو! سیدھے رہو تو بہت آگے نکل جائو گے، لیکن اگر تم نے دائیں بائیں ہونے کی کوشش کی تو بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہوجائو گے‘‘۔
اسی لیے قرآن کی ایک ایسی عام فہم تفسیر کی ضرورت ہوئی جس سے اس کے معانی و مقاصد انسانی صلاحیتوں اورعقل کے بقدر سمجھ میں آجائیں۔قرآن کو اگرچہ اللہ تعالیٰ نے بہت ہی آسان بنایا ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۱۷ (القمر۵۴:۱۷) ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنادیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّـرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم ۱۹:۹۷) اس کلام کو ہم نے آسان کرکے تمھاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۵۸ (الدخان ۴۴:۵۸) اے نبیؐ، ہم نے اس کتاب کو تمھاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
لیکن زبانوں میں فساد پیدا ہوجانے، لہجے بگڑ جانے، عامی زبان کے رواج پانے اور فصیح زبان سے دُور ہوجانے کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ان الفاظ اور ترکیبوں کی تشریح کی جائے، جن کے معانی بسااوقات ان کے ذہنوں سے مخفی رہ جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ قرآن کریم دین اور دُنیا دونوں کا دستور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمام علوم و معارف کو جمع کردیا ہے، جن کے ادراک میں لوگوں کی عقلیں یکساں نہیں ہیں اور جن کے جواہرپارے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ آشکارا ہوتے رہیں گے:
سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۰ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۵۳ (حٰم السجدہ ۴۱:۵۳) عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ اُن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہرچیز کا شاہد ہے؟
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے کسی نے دریافت کیا : ’’کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ بیت کو مخصوص طور پر کچھ چیزیں بتائی ہیں، جوکسی اور کو نہ بتائی ہوں؟‘‘
فرمایا: ’’نہیں، سوائے کتاب اللہ کے فہم اور اس صحیفہ کے‘‘۔ یہ کہہ کر اس کے سامنے وہ صحیفہ پیش کر دیا جس میں کچھ احکام درج تھے۔
اس طرح بہت ہی ابتدائی شکل میں علم تفسیر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد لوگ برابر اس میں اضافہ کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم تک اس تفسیر کا ایک بڑا ذخیرہ پہنچا ہے۔ ان میں سے کچھ نُوروہدایت کا مخزن ہیں اور کچھ صرف علمی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں، جن میں ہرموضوع پر بحث ملتی ہے، سوائے تفسیر کے۔
سلف تعلیماتِ قرآن سے واقفیت حاصل کرنے کا اہتمام کرتے تھے اور جس شخص کو بھی قرآن کے کسی حصے کی تفسیر معلوم ہوتی تھی، وہ اس کی فضیلت کااعتراف کرتا تھا۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے حضرت جابرؓ بن عبداللہ کا ذکر کیا تو ان کے علم و فضل کی تحسین کی۔ ایک شخص نے عرض کیا: ’’میں آپؓ پر فداہوں۔ آپؓ جابرؓ کے علم کی تحسین فرماتے ہیں، حالانکہ آپؓ کا مقام ان سے کہیں بڑھ کرہے‘‘۔
حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’انھیں آیت: اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۰ۭ (القصص ۲۸:۸۵) کی تفسیر معلوم تھی‘‘۔
حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے محبوب وہ شخص ہے، جو قرآن کا زیادہ علم رکھتا ہو‘‘۔حضرت حسنؒ فرماتے ہیں: ’’خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ جو آیت بھی نازل کرتا ہے، اس کے بارے میں چاہتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ کب نازل ہوئی؟ اور اس سے کیا مراد ہے؟‘‘
حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں: ’’ایک آیت کی تفسیر معلوم کرنے کے لیے حضرت مسروقؒ نے بصرہ کا سفر کیا، تو وہاں انھیں پتا چلا کہ جو شخص اس آیت کی تفسیر جانتا ہےوہ شام چلا گیا ہے۔ انھوں نے رخت ِ سفر باندھا اور شام روانہ ہوئے، اور وہاں پہنچ کر اس شخص سے اس آیت کی تفسیر معلوم کی‘‘۔
حضرت عکرمہؒ فرماتے ہیں: ’’ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ (النساء۴:۱۰۰)کس شخص کے بارے میں نازل ہوا تھا؟ اس کی مَیں چودہ برس تک تحقیق کرتا رہا۔ یہاں تک کہ معلوم کرلیا‘‘۔ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں:’’اس سے مراد حضرت ضمرہ بن حبیبؓ ہیں‘‘۔
ایاس ؒ بن معاویہ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں، لیکن اس کی تفسیر سے واقف نہیں ہوتے، ان کی مثال ان لوگوں جیسی ہے، جن کے پاس رات میں ان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط آئے اور اس وقت ان کے پاس چراغ نہ ہو کہ وہ خط پڑھ سکیں۔ چنانچہ وہ دہشت زدہ ہوجائیں کہ معلوم نہیں کہ خط میں کیا لکھا ہو اور جو لوگ تفسیر جانتے ہیں، ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہے، جن کے پاس بادشاہ کا خط رات میں آئے اور اُن کےپاس چراغ ہو، جس کی روشنی میں وہ خط کا مضمون پڑھ لیں‘‘(مقدمہ تفسیرالقرطبی )۔
ایک طرف سلف کے نزدیک تفسیر کی اتنی اہمیت اور اسبابِ نزول اور تفسیر سے واقفیت رکھنے والوں کی اتنی عظمت تھی، تو دوسری طرف وہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ آیات کا جو مفہوم وہ سمجھتے ہیں، وہ خاص اغراض یا ذاتی خواہشوں یا ہنگامی حالات سے متاثر نہ ہو۔ ان کے تمام اعمال و تصرفات پر قرآن کی حکمرانی ہوتی تھی۔ ان کی خواہشیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے تابع تھیں (اوریہی ایمان کا تقاضا ہے)۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ تفسیر بیان کرنے میں احتیاط سے کام لیتے تھے اور اس میں اپنی رائے سے کچھ کہنے سے بہت ڈرتے تھے۔
ابن عطیہؒ فرماتے ہیں:’’سلف صالح کی اکثریت مثلاً سعید بن المسیّب، عامر شعبی اور دوسرے لوگ تفسیر قرآن کو بہت عظیم سمجھتے تھے، اور باوجود اپنی عالی مقامی اور بالغ نظری کے احتیاط کی بناپر تفسیر نہیں بیان کرتے تھے‘‘۔ ابوبکر الانباری فرماتے ہیں: ’’ائمہ سلف قرآن کی مشکلات کی تفسیر کرنے میں احتیاط سے کام لیتے تھے۔ بعض حضرات یہ سوچتے تھے کہ جو تفسیر وہ بیان کریں گے، ممکن ہے وہ اللہ کی مرضی کے مطابق نہ ہو، اور بعض لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں وہ تفسیر میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس پر کسی مسلک کی بنیاد قائم ہوجائے اور اس کی پیروی کی جانے لگے۔ پھر بعد میں آنے والا کوئی شخص اپنی رائے سے کوئی غلط تفسیر بیان کرے اور کہے کہ قرآن کی تفسیر بالرائے میں سلف میں سے فلاں شخص میرا امام ہے‘‘۔
ابن ملیکہؒ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوبکر صدیقؓ سے قرآن کے ایک حرف کی تفسیر پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا: ’’اگر میں قرآن کے کسی حرف کی تفسیر ایسی کردوں، جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے برخلاف ہو، تو کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا؟ کون سی زمین مجھے پناہ دے گی؟ میں کہاں جائوں گا اور کیا کروں گا؟‘‘
ترمذی اور ابوداؤد نے حضرت جندبؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی اور وہ صحیح ہو تب بھی اس نے غلطی کی‘‘(مقدمہ تفسیرالقرطبی (الجامع للاحکام القرآن) سنن الترمذی، ۲/۱۵۷)۔
تفسیر بالرائے سے مراد یہاں یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن کی تفسیر میں کوئی بات بغیر علم کے محض ناواقفیت میں یا غلطی میں پھنس کر، یا اپنے آپ کو جاہل کہلانے سے بچنے کے لیے کہے، یا مخصوص اغراض کے تحت راہِ صواب اور راہِ حق سے منحرف ہوجائے۔ اس نیت کے ساتھ کوئی قرآن کی تفسیر کرے، تو اگر وہ صحیح بات بھی کہے تو بھی غلطی پر ہے اور وہ گنہگار ہوگا۔ البتہ جو لوگ اپنی خواہشوں سے بالاتر رہ کر راہِ حق معلو م کرنے کے لیے غوروفکر کرتے ہیں، وہ اگر غلطی کریں تب بھی اجر کے مستحق ہوں گے اور اگرصحیح بات کہیں تو ان کے لیے دو اجر ہیں۔ اس طرح سلف کے تفسیر کی طرف راغب ہونے اور مفسرین کی قدرومنزلت کرنے اور تفسیر بالرائے سے ڈرنے اور دوسروں کو منع کرنے کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے۔
تفسیر کا اسلوب مختلف زمانوں میں معاشرتی ، تہذیبی اور ثقافتی ارتقا سے متاثر رہا ہے۔ ابتدا میں اس کا طریقہ بہت آسان اور سادہ تھا۔ صرف چند آیات اور الفاظ اور کچھ واقعات کی تفسیر کی جاتی تھی۔ اس لیے کہ لوگ اپنے عربی ذوق اور لغوی سلیقہ کی وجہ سے تفسیر سے بے نیاز تھے اور عملی سنت پر (جس کا انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ وتابعینؒ کے ساتھ رہ کر مشاہدہ کیا تھا) اکتفا کرتے تھے۔
پھر تفسیر اور قصص کا زمانہ آیا، تو اس میں تفسیر کے نام پر منقول روایات اور قصے لکھے گئے۔ ان میں کچھ تو صحیح اور اسبابِ نزو ل اور احکام کے واقعات پر مبنی ہوتے تھے اور کچھ اہلِ کتاب سے منقول قصے ہوتے تھے، جن میں رطب و یابس ، جو کچھ مفسرین کے علم میں آتا تھا، سب جمع کر دیتے تھے۔ ان میں سب سے اہم اور مفید تفسیر امام محمد بن جریر طبری (م: ۳۱۰ھ) کی تفسیر جامع البیان فی تفسیرالقرآن ہے۔
پھر ترجمہ اور فلسفہ کا دور آیا۔ ایران اور یونان کے علوم سے روابط قائم ہوئے۔ مسلم فلاسفہ اور علما کے درمیان عقیدے کے بہت سے مباحث اور فقہی معاملات میں اختلاف ہوا۔ چنانچہ تفسیر کی کتابوں میں بھی یہ اسلوب اپنایا گیا۔ ان میں بہت سے فلسفیانہ نظریات بیان کیے گئے۔ آیات کے ذریعے مختلف عقائدی آراء اور مسالک پر استدلال کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے مفسرین آیت سے ایسی باتوں کا استنباط کرنے کی کوشش کرنے لگے، جن سے فروع میں ان کے مسلک کی تائید ہوتی ہو۔ یہ محض پہلے کی کتابوں کا جواب فراہم کرنا تھا۔ یہ چیز فخرالدین الرازی کی تفسیر مفاتیح الغیب اور زمخشری کی تفسیر الکشاف اور اس مرتبے کی دوسری کتب ِ تفسیر میں بہت واضح طور سے دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض محققین اس اسلوب پر تفسیر بالمعقول کا اطلاق کرتے تھے۔
بعض ماہرین لغت نے بھی قرآن کریم کی بہت سی آیات کی تفسیریں کی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی توجہ بلاغت کے نکتوں، لغوی توجیہات اور نحوی استعمالات پر مرکوز رکھی ہے۔ اس کی مثال میں زجاج، واحدی اور ابوحیان اندلسی کی تفسیریں پیش کی جاسکتی ہیں۔ راغب اصفہانی (جو چھٹی صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں) کی کتاب المفردات آج تک متداول ہے۔
عصرحاضر کے بہت سے مفسرین کا رجحان سائنسی ترقی کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے اور قرآن نے علومِ کائنات کے جن اصول و قوانین اور مظاہر کی طرف اشارہ کیا ہے، انھیں بیان کرنے کی طرف ہے۔ جیساکہ شیخ طنطاوی جوہری نے اپنی تفسیر الجواھر میں کیا ہے۔ اسی طرح کچھ دوسرے مفسرین کی توجہ معاشرتی قوانین، ہدایت کےنفسیاتی اسالیب اور تاریخی تبدیلیوں کے اسباب بیان کرنے اور ان کا قرآن کریم کے ذریعے استنباط کرنے کی طرف رہی ہے، تاکہ مسلمانوں کو قرآن کے ذریعے اپنی عظمت ورفعت کو واپس لانے کی تحریک مل سکے، اور ان کی معاشرتی زندگی قرآن کی تعلیمات اور قوانین سے مربوط ہوسکے، جیساکہ استاد امام شیخ محمد عبدہٗ اور ان کے وارث اور شاگرد سیّد محمدرشیدرضا، اللہ دونوں پر رحم کرے ، نے اپنی تفسیر المنار میں بیان کیا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تفسیر کا اسلوب ہر مفسر اور ہر زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اور ایساہونا قدرتی امر تھا۔ مفسرین تفسیر کے ذریعے وہ چیزیں بیان کرتے ہیں، جو وہ کتابِ الٰہی سے سمجھتے ہیں۔ ان کا آلۂ فہم ان کی عقلیں ہیں اور مادۂ علم ان کا ماحول اور ان کے زمانے کےعلوم ہوتے ہیں، اس لیے لازمی بات ہے کہ اس کا اظہار نمایاں طور پر ان کے رشحاتِ قلم اور آراء میں ہو۔
مختلف ثقافتوں اور اَدوار سے متاثر ہونے کے نتیجے میں قرآن کے موضوعات پر لکھتے وقت بعض لوگوں سے لغزشیں سرزد ہوجایا کرتی ہیں اور وہ فہم اور تعبیر میں راہِ صواب سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب شرعی ، لغوی، دینی اورادبی مطالعات میں (جو کہ صحت ِ فہم، ادراکِ مقصد اور وضوحِ عبارت میں معاون ہوتی ہیں) انھیں مہارت حاصل نہ ہو۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مستشرقین جب بھی قرآن کے کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو لغت میں کمزوری اور صحیح اسلامی مطالعات پر عدم قدرت کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں فاش غلطیاں کرتے ہیں۔ یہ تو ان لوگوں کا حال ہے، جو ان میں سے آزاد بحث و تحقیق میں مخلص ہوتے ہیں۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ مخصوص اغراض کے تحت تحقیق کرتے ہیں اور جنھیں ان مطالعات پر بخوبی عبور حاصل نہیں ہوتا، ان کا کیا حال ہوگا؟
بیش تر اوقات ایسے لوگوں سے یہ فاش غلطیاں عبارت آرائی اور اس کے معانی، مطلوب سے عدم مطابقت کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اس طرح کہ اگر اس معنی کو مزید محکم عبارت میں بیان کیا جاتا تو اس سے خالق قرآن کی غرض و غایت زیادہ واضح ہوتی۔ مقصد کی تکمیل زیاد ہ بہتر طریقے پر ہوتی اور اس قسم کی تحقیقات کے بیان کرنے میں جو ادب ملحوظ رہنا چاہیے، اس کی رعایت رہتی۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے موضوعات پر لکھنے والوں سے سرزد ہونے والی بعض لغزشوں کا___ جو قرآن کے مقاصد سے پھیرنے والی ہیں مختصراً بیان کر دیا جائے، تاکہ ان سے ہوشیار رہا جائے۔
قرآن کریم انبیاءؑ کے قصے اور ان کے بعض معجزات بیان کرتا ہے تو اس کا مقصد محض واقعات کا دُہرانا، زمانے کی تعیین ، حالات اور ماحول کا بیان، حادثات اور اشخاص کا تذکرہ اور اصطلاحی و فنی معنی میں تاریخی تحقیق و تفتیش مقصود نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت اس کا مقصد اور ان کے ذریعے سامعین و قارئین کے اندر عبرت، نصیحت اور ہدایت کی بنیادوں کو راسخ کرنا ہوتا ہے۔ قرآن کریم بہت صراحت سے اپنے اس مقصد کو واضح کرتا ہے:
لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۰ۭ مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۱۱۱ۧ (یوسف ۱۲:۱۱۱) اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انھی کی تصدیق ہے اور ہرچیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ہرمسلمان کے نزدیک یہ بات بالکل قطعی ہے کہ قرآن کریم میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ برحق ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجایش نہیں ۔ علم تاریخ سے کوئی ایسی حقیقت سامنے نہیں آسکتی، جو ان قرآنی قصوں میں سے کسی قصّے کی تفصیلات سے مختلف ہو۔ ہاں، یہ تو ممکن ہے کہ قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیا ہے، ان میں سے کچھ چیزوں تک علم تاریخ اپنے مجرد فنی وسائل کے ذریعے رسائی حاصل نہ کرسکے۔ اس صورت میں قرآن کریم کا بیان مجرد علم تاریخ کے بیان سے زائد ہوگا اور علم تاریخ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات پر اپنے خاص اسلوب میں کوئی دلیل نہ پائے گا۔ لیکن یہاں اس چیز کو ملحوظ رکھناضروری ہے کہ اگر علمِ تاریخ کسی چیز کے بارے میں واقفیت رکھنے یااستدلال کرنے سے عاجز ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کا بیان غلط ہے۔ اس لیے کہ کسی چیز کاعدم علم اس کے عدم وجود پر دلالت نہیں کرتا۔
اس مقام پر بعض لوگوں سے چوک ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ مؤرخین کی دو قسمیں ہیں:
ایک قسم اُن لوگوں کی ہے، جو قرآن کریم پر ایمان نہیں رکھتے اور وحی الٰہی کو دین نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک قرآن کریم کی حیثیت تاریخی کتاب کی نہیں ہے کہ مجرد فنی تحقیقات میں اس پر اعتماد کیا جائے۔ ان لوگوں سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی اُمید بھی نہیں کی جاسکتی۔
مؤرخین کی دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے، جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کے پاس اس کے برحق ہونے کی بھی دلیل ہے۔ اس صورت میں ان لوگوں پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں: ایک تو یہ کہ ان کے نزدیک تاریخی دلائل میں سب سے زیادہ صحیح اور محقق اسے ہونا چاہیے، جواس قرآن میں گذشتہ قوموں اور زمانوں کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ دوسری یہ کہ پہلی قسم کے مؤرخین جب قرآن کے بیان کردہ کسی واقعے کو جھٹلانے کی کوشش کریں، تو یہ لوگ ان کا جواب دیں اور تاریخی اور فنی اسلوب میں ان کی غلطی پر دلیل قائم کریں۔ اگر وہ ایسا کریں، تو اس میں انھیں ضرور کامیابی ملے گی۔
لیکن اس قسم کے بعض محققین خود کو پہلی قسم کے مؤرخین کی صورت میں پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی ایمانی شخصیت کا لبادہ اُتار کے دوسری شخصیت کا رُوپ دھار لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ’وہ صرف اور صرف مؤرخ ہیں اور ان کے نزدیک سوائے تاریخ کے دوسری کسی چیز کا اعتبار نہیں‘۔ اس طرح وہ اپنی پہلی شخصیت کو یکسر فراموش کرکے اور دوسری نئی شخصیت کا لبادہ چڑھا کر بحث و تمحیص کرتے ہیں اور قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ اگر بحث و تحقیق کے دوران وہ مجرد تحقیق کے بعد قرآن کی تاریخی صداقت پر ایمان کا اظہار کرتے اور پھر علمی اسلوب میں اس کا بہ دلائل اثبات کرتے، تو واقعی ان کی بات میں وزن ہوتا اوروہ تحسین و سپاس کے مستحق ہوتے۔
اس قسم کی لغزش ڈاکٹر طٰہٰ حسین سے بھی سرزد ہوئی ہے، جب انھوں نے ایک مستشرق کے خیالات کو قبول کرتے ہوئے یوں قیاس آرائی کی:
تورات اور انجیل، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑکے بارے میں جو چاہے بیان کرتا رہے، لیکن یہ بات ان کے تاریخی وجود کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
یہ سن کر لوگ مشتعل ہوگئے اورانھیں ہونا بھی چاہیے تھا۔ اگر ڈاکٹر موصوف اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ:
لیکن میں قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے کی حیثیت سے ان دونوں کا تاریخی وجود ثابت کرتا ہوں۔ اگر مجرد تاریخی تحقیق اپنے خاص فنی دلائل کے ساتھ اس مقام تک نہیں پہنچی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑکے بارے میں کچھ بھی ثابت کرسکے تو یہ خود اس کی کوتاہی ہے۔ مستقبل میں تاریخی طور پر ان کے حالات منظرعام پر آجائیں گے اور ہمیں وہ کچھ معلوم ہوجائے گا جس سے ہم آج ناواقف ہیں۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ گذشتہ کل کے خیالات آج کے حقائق ہیں اور آج کے خیالات کل کے حقائق ہوں گے۔ کتب ِ سماوی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہمارے ہاتھوں کو رسّی کے ایک سرے پر رکھ دیں۔ آگے تحقیق کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہمارا کام ہے۔ مستشرقین میں سے جو بھی اس کا انکار کرتا ہے وہ علم پر زیادتی کرتا ہے۔ عقل کا کسی مسئلہ پر حکم نہ لگا سکنا اس چیز کے محال ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
اگر وہ ایسا کہتے تو ان کی بات پایۂ تحقیق کو پہنچتی۔ اس صورت میں ان کی تحقیق میں عصرِجدید کے دانش ور کے تجزیے کے ساتھ قوی مومن کا اعتقاد بھی شامل ہوتا تو ان کی باتوں کو لے کر لوگ ان کے خلاف محاذ آرائی نہ کرتے۔
اسی طرح ایک دوسرے مؤلف محمداحمد خلف اللہ جنھوں نے الفن القصص فی القرآن تصنیف کی ہے، انھوں نے بھی یہی طریقہ اپنایا۔ انھوں نے تاریخ سے مربوط ادبی میدان میں موشگافیاں کرتے ہوئے فرمایا:’’خالص ادیب کے نزدیک فنی پہلو کی رعایت، قصے کی سچائی اور واقعے کی صحت کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہے‘‘۔ یہاں تک تو ان کی یہ بات صحیح تھی۔ یہی نہیں بلکہ ادیب کا فن بیش تر اوقات سچے اور حقیقی واقعات کو بیان کرنے سے زیادہ ذہن کے اختراع کردہ واقعات اور خیالی قصوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو دوسرے تمام اعتبارات سے الگ کرکے خالصاً ادیب کی حیثیت سے پیش کیا اور قرآن کو دوسرےتمام اعتبارات سے منزہ کرکے ادب کی کتاب قراردیتے ہوئے فرمایا: ’’اس میں بیان کردہ قصوں کی سچائی اور ان کے حقائق اور تاریخ سے مطابق یا مخالف ہونے سے صَرفِ نظر کرکے صرف اس کے اسلوب میں غور کرنا چاہیے‘‘۔ اگر وہ کہتے کہ: اس طرزِتحقیق کے ذریعے وہ کتاب اللہ کے فنی پہلو کی بلندی اور گہرائی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں ، ورنہ قرآن کریم پر ایمان لانے والے کی حیثیت سے اُنھیں یقین ہے کہ قرآن میں بیان ہونے والے تمام واقعات حتمی طور پر تاریخی حقائق ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
صُنْعَ اللہِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ (النمل ۲۷:۸۸) یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے جس نے ہرچیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔
اگروہ ایسا کہتے تو خود بھی آرام میں رہتے اور دوسروں کو بھی پریشان نہ کرتے او راپنے آپ سے اور اپنے قارئین کی جانب سے ان تمام پہلوئوں میں ضلالت و گمراہی کے الزام کو دفع کر دیتے۔
یہ تو قرآن کے قصوں اور اس میں بیان شدہ تاریخی واقعات کے سلسلے میں تاریخ اور ادب کے پہلو سے ہے۔ رہے معجزات اور وہ واقعات جو معروف اورعام طریقے پر اور فطری قوانین کے مطابق مذکور نہیں ہوئے ہیں، مثلاً اصحابِ کہف کا قصہ یا اس شخص کا قصہ جو ایک دفعہ ایسی بستی سے گزر رہا تھا جو تباہ و برباد تھی تو یہ ایک مستقل بحث ہے جس پر کبھی آیندہ بحث کی جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کا نزول ہیئت، طب، فلکیات، زراعت یا صنعت کی کسی کتاب کی حیثیت سے نہیں ہوا ہے بلکہ وہ کتابِ ہدایت ہے جو بنیادی معاشرتی طریقوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اگر لوگ ان پر عمل کریں تو دُنیا میں بھی کامیاب رہیں گے اور آخرت میں بھی فلاح سے ہمکنار ہوں گے۔
قرآن کریم کائناتی علوم اور وجود کے مادی اور طبیعیاتی مظاہر کو صرف اسی قدر پیش کرتا ہے، جو خالق کی عظمت پرایمان میں مددگار ہو اور اس کی عجیب و غریب تخلیق اور کاریگری اور کائنات میں نوعِ انسانی کے لیے پوشیدہ منافع اور فوائد کو آشکارا کرے، تاکہ ان کے ذریعے وہ لوگ زمین، آسمان اور ان کے درمیان کی چیزوں سے استفادہ کرنے کے طریقے جان سکیں ۔ اس کے بعد عقلِ انسانی کو آزاد چھوڑ دیا کہ وہ اس وجود کے قوانین کو آشکاراکر نے اور اس میں پوشیدہ طاقتوں اور منافع سے استفادہ کرنے کی کوشش اور محنت کرے۔ قرآن نے اس پر اُبھارنے کے ساتھ ساتھ اسے سب سے افضل عبادت اور اعلیٰ قسم کا ذکر قراردیا ہے:
قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ (یونس ۱۰:۱۰۱) ان سے کہو ’’زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو‘‘۔
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے، ہرحال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اُٹھتے ہیں) ’’پروردگار! یہ سب کچھ تُو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایاہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے، پس اے ربّ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔(اٰ ل عمرٰن ۳:۱۹۰-۱۹۱)
قدیم اور موجودہ دور کے بہت سے مؤلفین اور مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن میں علومِ کائنات کے تمام اصول ومبادی بیان کر دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے کوشش کی ہے کہ ان علوم کی جتنی معلومات لوگوں کو حاصل ہیں ان کے مطابق خلق و تکوین کی آیات کی تطبیق کے ذریعے قرآن سے وہ اصول مستنبط کریں۔ اس قسم کے لوگوں میں سے زمانۂ قدیم میں امام غزالیؒ ہیں، جنھوں نے جواھرالقرآن تصنیف کی ہے اورعصرحاضر میں شیخ طنطاوی جوہری مؤلف الجواھر فی تفسیر القرآن اور ڈاکٹرعبدالعزیز اسماعیل مؤلف القرآن والطب وغیرہ ہیں۔ یقینا یہ ایک قابلِ ستائش کوشش ہے، لیکن اپنے آپ کو ایسی چیز کا مکلف کرنا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے مکلف نہیں بنایا ہے۔ اس طرح بیشتر اوقات تکلف سے کام لینا پڑتا ہے اور کتاب اللہ کے معانی میں اختلاف ِ آراء،علمی اور سائنسی اصولوں میں تضاد اور علما کے اقوال میں تعارض رُونما ہوتا ہے۔اسی لیے بعض علما نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ مثال کے طور پر علّامہ شاطبی نے اپنی کتاب الموافقات (جلد دوم) میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
قرآن میں ان علوم میں سے کسی کو بھی بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ اگرچہ اس میں ایسے علوم ہیں جو علومِ عرب کی جنس سے ہیں اورایسی معلومات پر مبنی علوم بھی ہیں جن پر اہلِ عقل تعجب کرتے ہیں___صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن نے بہت سے کائناتی مظاہر کو بیان کیاہے۔ چنانچہ اس نے انسان کی پیدائش ، زمین وآسمان کی تخلیق ، سورج اور چاند کی گردش، ستاروں اورافلاک کی تسخیر، بادلوں کا تہہ در تہہ ہونا اور بارش، بجلی کی کڑک اور چمک، نباتات کا نمو اور ان کی مختلف قسمیں، سمندروں کے عجائب ، راستوں کے نشانات، زمین میں جمےہوئے پہاڑ، مائوں کے پیٹوں میں تخلیق جنین کے مراحل اور دیگر اُن مظاہر کا تذکرہ کیا ہے، جنھیں علمائے کائنات نے بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے، اپنی توجہات مرکوز کی ہیں اور تجربات کیے ہیں۔
اکثر اس قسم کی آیات کے اختتام پر قرآن عقل سے کام لینے، غوروفکر کرنے اور تدبر و تفکر کرنے پر اُبھارتا ہے۔ اس سے اس بات کا اشارہ ملتاہے کہ قرآن کریم ان مظاہر کو پیش کر کے محض ان علوم کے اصول و مبادی تعین کرنا یا ان کے فروع بیان کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا مقصود ہدایت اور خالق کی عظمت اور مخلوق کے فائدے پر دلالت کرنے والی چیزوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنا ہے۔
لیکن جو چیز محلِّ نزاع نہیں ہوسکتی، وہ یہ کہ قرآن جب ان کائناتی نوامیس اور مادّی مظاہر کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اس کا بیان دقیق تعبیر اور سچی تصویر کشی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس طور پر کہ ممکن نہیں کہ اس کے ٹکرائو مختلف مراحل میں عقلِ انسانی کی انکشاف کردہ چیزوں یعنی ان علوم کے حقائق اور طے شدہ چیزوں سے ہو۔ خاص طور پر جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان سائنسی نظریات کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جس پر بیّن دلائل اور بکثرت حجتیں ہیں یہاں تک کہ وہ قریب قریب بدیہات میں سے ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جو ابھی علمی و سائنسی بحث و تحقیق کے مرحلے میں ہیں۔ علومِ کائنات سےدلچسپی رکھنے والے سائنس دانوں کے پیش نظر جو کچھ ہے وہ محض مفروضات ہیں جن کی تائید بعض ایسےقرائن سے ہوتی ہے، جوابھی قطعی دلائل اور اطمینان بخش اور ثابت شدہ حجتوں کے درجے تک نہیں پہنچی ہیں۔
جہاں تک ان میں سے پہلی قسم کا تعلق ہےوہ قرآنی بیان کے مکمل موافق اور عین مطابق ہیں۔ ایسی چیزوں کے بارے میں یقینا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس کتابِ الٰہی کا اعجاز ہے جو ایک ایسے اُمّی پر نازل ہوئی جس نے نہ تو کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی، نہ کسی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس قسم کی مثالوں میں سے جنین کےمراحل، ہوائوں کے بادلوں کو لے جانے، بادلوں کے بننے اور ہوائوں سے اس کے تعلق وغیرہ کے سلسلے میں قرآن کے اشارات ہیں۔
جہاں تک دوسری قسم کا تعلق ہے تو یہ زیادتی اورانکار حقیقت کےمترادف ہوگا کہ اس کے اور قرآن کریم کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا چاہیے یہاں تک کہ علمِ کائنات کو کسی بات پر استقرار حاصل ہوجائے اور عقلِ انسانی کسی نتیجۂ بحث پر ایمان لے آئے۔ اس وقت ہم ایمان کی روشنی میںقرآنی نص کو دیکھیں گے اور اس وقت یہ پائیں گے کہ دونوں حقیقت کے اصولوں کو ثابت کرنے میں باہم معاون ہوں گے:
عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ اُن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہرچیز کا شاہد ہے؟(حٰم السجدہ ۴۱:۵۳)
اس قبیل سے انسانی نشوونما، حقیقت ِ زندگی، ابتدائے آفرینش ، زمین کا آسمان سے تعلق وغیرہ ہیں۔
اس کے باوجود قرآن اس قسم کےمقامات پر عبارت کی لچک اوردِّقت و باریکی کے ساتھ معجزانہ طریقے پر ایسی تعبیر استعمال کرتا ہے کہ ہرزمان ومکان میں انسانی عقل کے ارتقا کا ساتھ دیتا ہے۔ چنانچہ ان موضوعات پر لکھنے اور غور کرنے والے بہت سے لوگ ان موضوعات پر لکھتے اور غور کرتے وقت ان علمی اور سائنسی مفروضات کی صحت پر ایمانِ محکم لے آتے ہیں اور لغزش کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ ان کو بدیہی اور طے شدہ حقائق سمجھ لیتے ہیں۔اس غلطی کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ وہ قرآن کے نصوص، اس کی عبارتوں کی لطیف ترکیبوں اور الفاظ کی وضع کے اسرار میں غوروفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس لیے وہ کبھی حیرت میں پڑجاتے ہیں اور کبھی تکذیب کر بیٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے نزدیک چونکہ ’ڈارون‘ نے یہ کہہ دیا تھا کہ انسان یقینی طور پر دوسرے حیوان سے بنا ہے۔ اس لیے قرآن کا یہ بیان صحیح نہیں کہ وہ ’مٹی‘ یا ’کھنکتی ہوئی مٹی جیسے گارے‘ سے بنا ہے۔ یہاں وہ کھینچ تان کر کوششیں کرتے ہیں کہ اس کا بیان سائنسی انکشافات و تحقیقات سے نہ ٹکرائے۔ اس وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں نہ ڈارون کے نظریے کا علم ہے اور نہ ڈارون کے نظریے کا ابطال اور تردید کرنے والوں کی تحریریں ان کی نظر سے گزری ہیں۔ اسی طرح وہ قرآن کی درج ذیل تصریحات کو بھی فراموش کردیتے ہیں:
الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ۷ۚ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِيْنٍ۸ۚ ثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَۃَ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۹ (السجدہ ۳۲:۷-۹) جو چیز بھی اُس نے بنائی خوب ہی بنائی۔اُس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارےسے کی، پھر اس کی نسل ایک ایسے سَت سےچلائی جو حقیرپانی کی طرح کا ہے، پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، اور تم کو کان دیئے، آنکھیں دیں اور دل دیئے۔ تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔
مَا لَكُمْ لَا تَـرْجُوْنَ لِلہِ وَقَارًا۱۳ۚ وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا۱۴ (نوح ۷۱:۱۳-۱۴) تمھیں کیا ہوگیا ہےکہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایاہے۔
حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ وہ ان آیاتِ کریمہ کے مکمل و برحق ہونے کو تسلیم کرلیں۔ پھر اس وقت کا انتظار کریں جب لوگوں کا علم قرآنی بیان کی تردید کرے گا۔ اس وقت وہ پائیں گے: ’’انسان کو علم کی انتہائی قلیل مقدار ہی عطا کی گئی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۵) ’’اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہی غالب رہتا ہے‘‘۔ (یوسف۱۲: ۲۲)
اسی سے ملتے جلتے قرآنِ مجید کے وہ بیانات بھی ہیں، جنھیں اصطلاح میں ’سمعیات‘ (سماعی چیزیں) کہا جاتا ہے، مثلاً جِنّ، ملائکہ، حالاتِ موت وقبر، بعث بعد الموت، جنّت و جہنم اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات وغیرہ۔ قرآن کریم نےان موضوعات پر بہت تفصیل اوروضاحت سے بحث کی ہے، جیسے جِنّ کا تذکرہ اس نے متعدد مقامات پر کیا ہے۔ انھیں فقہ، فہم اورایمان سے متصف کیا ہے اور بتلایا ہے کہ وہ اتنی قوت و طاقت کے مالک ہوتے ہیں، جتنی انسانوں کو حاصل نہیں ہوتی۔ اس نے ملائکہ کا تذکرہ کیا ہے اور بہت سی آیات میں ان کے متعدد اوصاف بیان کیے ہیں۔ اس طرح موت اوراس کے احوال اور اس کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے، میدانِ حشر میں جمع ہونے، حساب و کتاب ہونے اور سزا و جزا ملنے کا تذکرہ ہے، مثلاً فرمایا:
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۷ۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَـرًّا يَّرَہٗ۸ۧ (الزلزال ۹۹:۷-۸) پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
اسی طرح اس نے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی ہیں اور اسے تمام کمالات سے متصف اور نقص کے تمام اوصاف سے منزہ کیا ہے اور مخلوقات سے اس کی مشابہت و مماثلت کی نفی کی ہے۔
کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔ وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ (الشوریٰ ۴۸:۱۱)
اس کا کوئی ہمسر نہیں۔(الاخلاص ۱۱۲:۴)
اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر متمکن ہونے، اور اس کا ہاتھ، چہرہ، آنکھ اور دوسرے حواس ہونے کا بیان ہے۔
یقینا قرآن نے اس غیرمادّی دُنیا کے جو احوال اور ذاتِ باری کی جو صفات بیان کی ہیں وہ تمام کی تمام مادّہ کے حدود اور مادّی دُنیا کے قواعد میں داخل نہیں ہیں۔ انسانی عقل خود مادے کے اطراف میں پوشیدہ تمام قوتوں اور اسرار کے ادراک سے آج تک عاجز ہے تو اس سے ماورا حقیقتوں کا ادراک کیونکر کرسکتی ہے؟
عام طور پر یہاں پر بھی لغزش ہوتی ہے۔ قرآن کریم کے ان معانی میں غوروفکر کرنے والے بہت سے لوگوں پرشاق گزرتا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کوتسلیم کرلیں، جس کی حقیقت تک ان کی عقل کی رسائی نہ ہوسکی ہو۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں: یہ جِنّ کون ہیں؟ جن کی حقیقت ہم سے پوشیدہ ہے؟ یہ ملائکہ کون ہیں جن کی کنہ تک ہم نہیں پہنچ سکتے؟ مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جب کہ ہمارے مادّی عناصر کھل کر اپنے اوّلین عناصرمیں تبدیل ہوجاتے ہیں؟ یہ روحیں کیا ہوتی ہیں؟ جن کے ہمارے جسموں میں موجود ہونے کادعویٰ کیا جاتا ہے، جب کہ ہمیں اپنے جسموں میں صرف مادّی عوامل کے تصرفات کا احساس ہوتا ہے؟ ٹھنڈک سے ہمیں اذیت پہنچتی ہے۔ گرمی سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ زہر ہمیں ہلاک کردیتا ہے۔ کھانا کھانے سے ہمیں تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ہوا سے ہمیں نشاط و سُرور ملتا ہے اور یہ تمام چیزیں مادی دُنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس تنگ نقطۂ نظر کے سامنے وہ ٹھوکریں کھاجاتے ہیں۔
چنانچہ ان میں سے بعض ان تمام عناصرکا انکار کردیتے ہیں۔ بعض تکلف کے ساتھ دُور دراز تاویل کرلیتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے لوگ راہِ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں اور گمراہ ہیں۔ اگر یہ لوگ انصاف سے کام لیتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ عالمِ انسانی کے خصائص میں سے یہ ہے کہ جس حقیقت تک اس کا علم نہ پہنچا ہو، اس کے سلسلے میں اپنی عاجزی اور کوتاہی کا اعتراف کرلے۔ عقلِ انسانی نے آج تک اس کائنات کے اسرار میں سے جتنی چیزیں دریافت کی ہیں، وہ اُن چیزوں کی بہ نسبت جن کا انکشاف ابھی نہیں ہوسکا ہے، انتہائی معمولی اور حقیر ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی حیثیت اتھاہ سمندر میں چھوٹے سے جزیرے کی بھی نہیں ہے۔ علومِ کائنات کے ماہرین نے اس کا بلکہ اس سے بھی زیادہ اعتراف کیا ہے۔ اس قسم کے بہت سے اعترافات عنقریب ہماری نگاہوں سے گزریں گے، مثلاً ان میں سے بعض کہتے ہیں:
عہد ِ حاضر کے سائنس دان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ متواضع اور جری ہو۔ متواضع اس لیے کہ وہ اس کائنات کے اسرار میں سے اب تک کسی قابلِ ذکر چیز کا انکشاف نہیں کرسکا ہے اور جری اس لیے کہ اس کے سامنے پردئہ اَخفا میں جو بے شمار چیزیں ہیں، ان میں سے بعض کا انکشاف کرنے کے لیے جرأت کی ضرورت ہے۔
اس لیے اس قسم کی چیزوں کی تکذیب محض اس بنا پر کہ وہ دائرۂ امکان میں ہونے کے باوجود انسانی حواس سے ماورا ہیں ، ظلم عظیم اور کھلی گمراہی ہے اور ان کی بے جا تاویل صریح تکلف ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ حقیقت کی تصویر کشی میں تکلّف کے بغیر ان اُمور پر ایمان لانا ہی صراطِ مستقیم ہے۔ البتہ ان کے سلسلے میں بعض کتابوں یا ذہنوں میں جو خرافاتی تصویریں، خیالی قصے یا افسانوی اوصاف بیان کیے گئے ہیں، جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں، نہ صحیح سند سے ثابت ہیں، ان کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ ہرمومن پر لازم ہے کہ وہ اس قسم کی چیزوں کو کچھ اہمیت نہ دے اور ان کی طرف بالکل توجہ نہ کرے۔
بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان معانی کو دوسرے ایسے متشکک ذہنوں میں پہنچا دیں جن کے دل نُورِ ایمان سے خالی ہیں۔ چنانچہ وہ الفاظ میں تصرف اور غلط تصویرکشی سے کام لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ اگر ایسا کریں تو ان متشکک افراد کے سامنے صراحت کے ساتھ وہ چیزیں بھی بیان کردیں، جس سے اس کائنات کے بارے میں قرآن کریم کے بیان کی مکمل تصدیق کا اظہار ہو، اور اعتدال کے راستے میں پیچھے رہ جانے یا چھوڑ دینے کے بجائے وہ افہام وتفہیم کی جانب پہلا قدم اُٹھائیں۔
اسلامی تحقیقات میں یہ تصویر کوئی نئی نہیں ہے بلکہ جب سے فلسفہ کو اسلامی علوم میں شامل کیا گیا، اس وقت سے آج تک اس کی بارہا تکرار ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی توفیق سے جس کے سینے کو ایمان کے لیے کھول دے وہی اپنے ربّ کے نُور میں رہتا ہے۔
ایک بھائی نے ایک مرتبہ مجھ سے سوال کیا: ’’قرآن کریم کی سب سے افضل تفسیر اور اس کو سمجھنے کا سب سے بہتر طریقہ کیا ہے؟‘‘ میرا جواب تھا: ’’تمھارا دل‘‘۔ یقینا مومن کا دل کتاب اللہ کی سب سے افضل تفسیر ہے۔ قرآن کو سمجھنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ قاری تدبر اور خشوع کے ساتھ اس کی تلاوت کے وقت منتشر افکار کو جمع رکھے۔ ساتھ ہی سیرتِ نبویؐ سے بھی واقف ہو یعنی اسبابِ نزول اور سیرتِ نبویؐ کے مختلف مقامات سے اس کے ربط سے آگاہ ہو۔ اس سے اسے قرآن کے صحیح فہم میں بڑی مدد ملے گی۔ اس کے بعد جب وہ تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کرے تو اس کا مقصد صرف کسی مشکل لفظ کا معنی یا کسی مخفی ترکیب سے واقفیت حاصل کرنا یا اپنی معلومات میں اضافہ کرنا ہو، جس سے وہ کتاب اللہ کا صحیح فہم حاصل کرسکے۔ یہ چیزیں محض فہم قرآن میں معاون ہوتی ہیں۔ فہم تو حقیقت میں نُور ہے جو دل کی گہرائی میں روشن ہوتا ہے۔
استاذ امام شیخ محمد عبدہٗ نے اپنے بعض شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرو، اس کے اوامر و نواہی کو سمجھو اور اس کے مواعظ اورعبرتوں سے سبق حاصل کرو۔جس طرح کہ نزولِ وحی کے زمانے میں اہلِ ایمان اس کے ساتھ برتائو کرتے تھے۔ مختلف تفاسیر کا اگر مطالعہ کرو، تو صرف کسی ایسے لفظ کو سمجھنے کے لیے.... پھر قرآن جو راہ تمھیں دکھانا چاہتا ہے اس پر چل پڑو اور جو چیزیں تمھارے اُوپر عائد کرتا ہے انھیں اپنے اُوپر عائد کرلو۔
بے شک جو شخص اس طریقے پر عمل کرے گا، وہ کچھ ہی عرصے کے بعد اس کا اثر اپنے اندرون محسوس کرے گا اور اس میں ایسا ملکہ پیدا ہوجائے گا کہ فہم قرآن اس کی فطرتِ ثانیہ بن جائے گا اور اس کے لیے ایسا نُور ہوگا، جس سے وہ دُنیا اور آخرت دونوں میں روشنی حاصل کرے گا ، ان شاء اللہ!
یہ بات تو سبھی لوگ جانتے ہوں گے کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریک کا آغاز دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے کیا تھا، اور اس بات سے بھی لوگ بالعموم واقف ہی ہوں گے کہ مولانا حیدرآباد [دکن] سے دارالاسلام ، ڈاکٹر اقبالؒ کے مشورے اور چودھری نیاز علی خاں کی دعوت پر آئے تھے۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا [مودودی] اپنی تحریک کی عملی بنیاد ڈالتے ہی، چند [ماہ] کے اندر اندر دارالاسلام کو چھوڑ کر لاہور کیوں منتقل ہوگئے تھے؟ [اس مناسبت سے] کچھ لوگوں کے ایسے مضامین دیکھنے میں آئے، جن میں اس انتقالِ مکان کی عجیب اور بے سروپا قسم کی وجہیں بتائی گئی ہیں، اور ان میں سے ایک بزرگ نے تو اس سلسلے میں ’قیاس زور‘ سے بھی کام لینے میں قباحت محسوس نہیں کی ہے۔
چوں کہ اس وقت کم از کم میں تنہا وہ شخص ہوں، جو اس معاملے سے براہِ راست متعلق رہا ہے، اس لیے یہ میری ذمے داری قرار پاتی ہے کہ اس حقیقت ِواقعی کو روشنی میں لادوں، جو اس نقلِ مکانی کی پہلی اور آخری وجہ تھی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اس بارے میں مذکورہ بالا غلط بیانیوں کی تصحیح ہوجائے گی، اور لوگ اصل صورتِ واقعہ سے واقف ہوجائیں گے، بلکہ ساتھ ہی مولانائے مرحوم و مغفور کی سیرت کا ایک خاص اور اہم پہلو بھی سامنے آجائے گا۔
پہلے اس واقعے کا پس منظر جان لیجیے:
مولانا ۱۴ مارچ ۱۹۳۸ء کو حیدرآباد [دکن] سے دارالاسلام، جمال پور (نزد پٹھان کوٹ) منتقل ہوئے تھے۔ یہ منتقلی ڈاکٹر اقبال مرحوم کے مشورے اور چودھری نیاز علی صاحب مرحوم، ساکن جمال پور، نزد پٹھان کوٹ کی دعوت پر ہوئی تھی، اور اس لیے ہوئی تھی کہ یہاں مرکز بناکر احیائے اسلام کی دعوت کا کام منظم طور سے شروع کیا جائے۔
یہاں آکر مولانا نے ان فکر انگیز مضامین کا سلسلہ پایۂ تکمیل کو پہنچایا، جو ان کی مشہور تصنیف مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش میں موجود ہیں۔ اس سلسلۂ مضامین میں مولانا نے اس دعوت و تحریک کا ایک عملی خاکہ بھی پیش کیا، جس کے مطابق اُن کے نزدیک برصغیر میں احیائے اسلام کا کام منظم طور پر کیا جانا چاہیے تھا۔
اسے پڑھ کر ملک کے بہت سے اصحاب نے مولانا [مودودی]کو تائیدی خطوط لکھے اور تجویز پیش کی کہ اللہ کا نام لے کر ان خطوط پر کام شروع کردیا جانا چاہیے۔ اس تجویز یا اس مطالبے کے بعد مولانا نے ۱۹۳۸ء کے اواخر میں ایک دستور کا خاکہ مرتب کیا، جس میں پیشِ نظر تحریک کے مقصد، طریق کار اور اصول وضوابط کی تفصیل درج تھی۔ اس مسودۂ دستور کی انھوں نے اس طرح کتابت کرائی کہ ایک طرف کے صفحات سادے رکھے گئے تھے اور مقابل کے صفحات پر مسودے کی عبارت درج تھی۔ طباعت کے بعد انھوں نے اس مسودئہ دستور کی کاپیاں اُن تمام حضرات کو بھجوادیں، جو اس کام سے دل چسپی ظاہر کرچکے تھے، اور ان کے علاوہ بھی بہت سے اربابِ علم وفکر کے پاس روانہ کرائیں، اور ان سب لوگوں سے گزارش کی کہ ’’اس مسودۂ دستور کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اس کے اندر جہاں جہاں بھی وہ کوئی حذف یا اضافہ یا ترمیم تجویز کریں اس کو خالی صفحات پر درج کرتے جائیں، تاکہ جب اس مسودے کو آخری شکل دینے کے لیے مشاورتی اجتماع ہو، تو یہ ترمیمات اور حذف و اضافے بھی غوروبحث کے وقت سامنے رہیں‘‘۔
پھر ایک مناسب مدت کے بعد موصوف نے ان تمام حضرات کو دارالاسلام میں ایک متعینہ تاریخ پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی۔ کچھ لوگوں کا تو کوئی جواب موصول نہ ہوسکا، کچھ لوگوں نے کسی بنا پر شریکِ اجتماع ہونے سے معذوری ظاہر کی، اور لکھا کہ ہم اپنی ترمیمات اور مشورے مسودۂ دستور میں درج کرکے بھجوا رہے ہیں۔ باقی لوگ تشریف لائے۔
۱۹۳۹ء کے اوائل میں یہ مجوزہ اجتماع دارالاسلام میں مولانا کی رہایش گاہ پر منعقد ہوا۔ حاضرین میں اکثریت مغربی ہند کے لوگوں کی تھی۔ یوپی سے شریک ہونے والوں میں مولانا منظور نعمانی صاحب بھی شامل تھے۔ باہمی غوروبحث کے بعد دستور اپنی آخری شکل میں منظور ہوگیا اور اسی وقت سے چودھری نیاز علی صاحب کا اختلاف بھی شروع ہوگیا۔ اس اختلاف کا منبع منظور شدہ دستور کی وہ خاص دفعہ تھی، جس میں تحریک کا نصب العین اسلامی حکومت کا قیام بتایا گیا تھا۔
بہرحال، اجتماع ختم ہوگیا تو اسی دن یا اگلے دن بعد نمازِ عصر [عبدالعزیز] شرقی صاحب کی رہایش گاہ کی بیٹھک میں وہ لوگ اکٹھے ہوئے، جنھوں نے اس دستور کے مطابق تحریک کے قیام اور اس میں شریک ہونے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی، یہ کُل پانچ آدمی تھے۔ سب سے پہلے مولانا نے تجدیدِ شہادت کی، اس کے بعد باقی چار آدمیوں نے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تحریک کی باقاعدہ بنیاد ڈالی، جس کے بعد چودھری صاحب کے اختلاف نے اپنا عملی اثر دکھانا شروع کردیا۔
وہ [چودھری نیاز علی خاں صاحب] اپنے مزاج کے مطابق نہایت نرم اور شائستہ انداز میں، مگر اصرار کے ساتھ مولانا سے کہتے رہے کہ ’’دستور میں ’اسلامی حکومت‘ کا لفظ نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’الفاظ اور اصطلاحات میں کیا رکھا ہے، اصل چیز تو کام ہے۔ آپ اپنا کام کرتے رہیں، مگر دستور میں اسلامی حکومت کی اصطلاح کے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ چودھری صاحب کی اس رائے یا خواہش کے پیچھے کیا مصلحت کام کررہی تھی؟ میں اس کرید میں پڑنا نہیں چاہتا، خصوصاً اس لیے کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔
مولانا [مودودی]نے ان کے جواب میں نہایت صفائی اور پوری سنجیدگی سے فرمایا کہ ’’اگر ہمیں اپنے طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا، تو ہم اب کہیں اور جاکر یہ کام کریں گے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے لاہور منتقل ہوجانے کا فیصلہ کرلیا۔ مولانا کے اس فیصلے سے چودھری [نیازعلی خاں] صاحب سخت پریشان ہوگئے۔ انھوں نے مولانا کو منانے کی بڑی کوشش کی۔
جب اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب نہ ہوسکے تو قصبہ دینانگر کے شیخ محمدنصیب صاحب کو بلایا، جو دارالاسلام ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں میں سے تھے۔ شیخ صاحب تشریف لائے اور انھوں نے بھی اپنی سی پوری کوشش کی کہ مولانا دارالاسلام سے نہ جائیں، مگر بات جہاں تھی وہیں رہی۔ مولانا اپنے فیصلے پر اٹل رہے، اور شیخ صاحب مایوس اور دل گرفتہ واپس چلے گئے۔ انھی دنوں مولانا کا فرمایا ہوا یہ جملہ مجھے اب تک یاد ہے کہ ’’عجیب مشکل ہے، جن لوگوں کے پاس روپیہ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ عقل بھی انھی کے پاس ہے‘‘۔ غرض منتقلی کا فیصلہ برقرار رہا۔
کتابیں رات گئے تک پیک کی گئیں۔ صبح کو ٹرک پر سامان لادا گیا، اور ہم لوگ اس حال میں لاہور روانہ ہوگئے۔ یہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ اب پاؤں ٹکانے کی جگہ کب اور کہاں ملے گی؟ مزید لطف کی بات یہ کہ ادارے کے مالی حالات بھی مسلسل صبرآزما چل رہے تھے۔ سہ پہر کے وقت لاہور پہنچ کر ترجمان القرآن کے مینیجر سید محمد شاہ صاحب کے ذاتی مکان (واقع محلہ مصری شاہ) میں سامان اتار کر رکھ دیا گیا، اور شام کو قیام گاہ اور دفتر کے لیے مکان کی تلاش شروع ہوئی، جو کئی دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد کامیاب ہوسکی۔
یہ تھی دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے لاہور منتقل ہوجانے کی اصل وجہ، اور یہ تھا اس نقل مکانی کا اصل واقعہ۔
اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب ڈھائی تین سال بعد مولانا [مودودی] پھر دارالاسلام لوٹے تھے تو کس شرط پر لوٹے ہوں گے؟ میں اُن دنوں لاہور میں موجود نہیں تھا، اس لیے براہِ راست علم کی بنا پر کوئی روایت نہیں کرسکتا۔ مگر دارالاسلام لوٹنے سے چند ماہ قبل مولانا نے مجھے اس بارے میں جو اطلاع دی تھی، اس سے حقیقت ِ واقعہ پوری طرح سمجھ لی جاسکتی ہے۔
یکم فروری۱۹۴۱ء کے اپنے ایک گرامی نامے میں موصوف نے تحریر فرمایا تھا کہ:
کچھ مدت سے چودھری نیاز علی خاں صاحب اور شیخ محمد نصیب صاحب نے پھر اصرار شروع کیا ہے کہ تم پھر پٹھان کوٹ والی جگہ کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ اس سلسلے میں بہت کچھ خط کتابت ہوئی اور بات چیت کی نوبت بھی آئی۔ آخر میں اب یہ تصفیہ ہوا ہے کہ وہ عمارات مع چار چھ ایکڑ زمین کے ۹۰ سال کے پٹے پر میں اُن سے لے لوں گا، اور شرح کرایہ سو روپیہ سالانہ یا اس کے قریب قریب ہوگی۔ اس صورت میں ہمارے ادارے کا اُن کے ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہ رہے گا اور نہ کسی قسم کی مداخلت کا ان کو حق ہوگا۔ ہم محض ایک کرایہ دار کی حیثیت سے وہاں رہیں گے، جس طرح یہاں لاہور میں کرایہ دے کر رہتے ہیں۔
ارشادِ ربَّانی ہے: اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۱ۙ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۲ۭ ( التکاثر۱۰۲:۱-۲) ’’تمھیں مال و اسباب کی طلب میں مقابلہ آرائی نے [ اللہ کی یاد سے] غافل کردیا یہاں تک کہ تم لوگ قبروں تک پہنچ گئے‘‘۔
آیت میں ’تکاثر ‘( مال و دولت میں زیادتی کی خواہش اور اس کے لیے مقابلہ آرائی) کی سب سے بڑی خرابی واضح کرتے ہوئے اس سے متنبہ کیا گیا ہے کہ انجام کے اعتبار سے یہ موجبِ تباہی ہے۔ ’تکاثر ‘ کے لفظی معنی مختلف طور پر بیان کیے گئے ہیں: زیادتی کی خواہش یا طلب رکھنا ، طلبِ مال میں مسابقت، مال و اولاد یا دوسری چیزوں پر آپس میں فخر جتانا یا شیخی بگھارنا، زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر مال یا کوئی دُنیوی سامان حاصل کرنے کی دُھن میں لگا رہنا۔ ان تشریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کے مفہوم میں چار باتیں لازمی طور پر شامل ہوتی ہیں: کسی چیز کی محبت، اس کی حرص اور اس کے حصول میں دوسرے سے مقابلہ آرائی اور حاصل ہوجانے پر فخر جتانا (تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۴۲)۔
اس میں شبہہ نہیں کہ دنیا میں ز یب و زینت اور من پسند کی بہت سی چیزیں ہیں جن کی چاہت و طلب میں ضرورت سے زیادہ یا حد درجہ مصروف ہوکر انسا ن روز مرہ زندگی میں، اللہ ربّ العزت کی یاد اور اس کی ہدایات سے غافل ہوجا تا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی محبوب چیزوں (یا د نیوی لذّات) میں ذکرِ الٰہی،عبادتِ الٰہی اور اتباعِ حکمِ الٰہی سے سب سے زیادہ غافل کرنے والی چیز مال کی محبت اور اس کے جمع کرنے( یا سمیٹنے ) اور اس میں اضافے کی حرص ہے ۔ حرص وطمع اور دوسروں سے مقابلہ آرائی میں زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی چاہت مختلف چیزوں (مال و دولت، زمین و جائیداد ، سماجی و سیاسی اثر و رسوخ یا اقتدار اور عہدہ و منصب،دنیوی لذّات وغیرہ) میں ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ یہ طلب یا چاہت سب سے زیادہ مال و دولت کے ضمن میں نظر آتی ہے۔ مال کی لالچ اور ہوس رکھنے والے کو چین نہیں نصیب ہوتا، اس لیے کہ اس کے نفس میں ھل من مزید کی باز گشت آتی رہتی ہے ۔
اس آیت کی تشریح میں صاحب ِ تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں: ’’ در اصل دنیا کی امتحان گاہ میں یہ (مال و اولاد) تمھارے لیے سامانِ آزمایش ہیں۔جسے تم بیٹا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پرچہ ہے ۔اور جسے تم جائیداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی در حقیقت ایک دوسرا پرچۂ امتحان ہے۔یہ چیزیں تمھارے حوالے اسی لیے کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعے سے تمھیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق ا و ر حدود کا لحاظ کر تے ہو،کہاں تک ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوئے جذبات کی کشش کے باوجود راہِ ر است پر چلتے ہو، اور کہاں تک اپنے نفس کو،جو ان دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے،اس طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندۂ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرتِ حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے‘‘ ( تفہیم القرآن، ج۶، ص ۱۴۰،حاشیہ نمبر۲۳)۔
اسی ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی ملاحظہ فرمائیں : اِنَّ لِکُلِّ اُمَۃٍ فِتْنَۃٌ وَ فِتْنَۃُ اُمَّتِی اَلْمَالُ ( جا مع ترمذی، ابواب الزہد،باب ما جاء اِنَّ فتنۃ ھٰذہ الامّۃ فی المال ) ’’ہرامت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز وجہِ آزمایش ہوتی ہے، میری امت کے لیے آزمایش مال ہے‘‘۔
مال سب سے بڑی آزمایش اس وجہ سے ہے کہ اس کی محبت انسان کی سرشت میں داخل ہے ۔ارشادِربانی ہے: وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ۸ۭ ( العٰدیٰت۱۰۰:۸)[ اور وہ بے شک مال کی محبت میں بہت سخت ہے]۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان مال سے صرف محبت نہیں،بلکہ شدید محبت رکھتا ہے۔ اور یہ فطری بات ہے کہ جو چیز انسان کو محبوب ہوتی ہے اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے خوب دوڑ بھاگ کرتا ہے اور اسے کثیر مقدار میں اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔ ایک اور آیت (اٰل عمرٰن۳:۱۴) میں واضح طور پر انسان کو خبر دار کردیا گیا کہ مال کے علاوہ اور کون سی پسندیدہ چیزیں ہیں جن کی محبت ان کے دلوں میں بطور آزمایش رچا بسا دی گئی ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِمِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۱۴ (اٰل عمرٰن ۳:۱۴) لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس___عورتیں،اولاد، سونے چاندی کے کھنکھناتے ڈھیر،عمدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں [اور ان کی پیداوار] بڑی خوش نما بنا دی گئی ہیں،مگر یہ سب دنیا کے چند روزہ سامان ہیں، اور[سچ یہ ہے کہ] بہترین ٹھکانا اللہ کے یہاں ہے۔
لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ أُعْطِيَ وَادِيًا مَلأً مِنْ ذَهَبٍ أَحَبَّ اِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ أُعْطِيَ ثَانِيًا أَحَبَّ اِلَيْهِ ثَالِثًا ، وَلاَ يَسُدُّ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ وَيَتُوبُ اللهُ عَلٰى مَنْ تَابَ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب ما یتّقٰی من فتنۃ المال وقول اللہ تعالٰی اِنَّـمَا امْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُم فِتْنَۃٌ ) اگر کسی شخص کو ایک وادی بھر سونا دے دیا جائے تو وہ دوسری وادی بھر سونا کی خواہش کرے گا۔اگر اسے سونا بھری دوسری وادی مل جائے تو تیسری کی آرزو میں گرفتار ہوجائے گا۔(حقیقت یہ کہ) انسان کے پیٹ کو (قبر کی) مٹّی کے سوا اور کوئی چیز بند(بھر) نہیں کر سکتی، اور اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو (گناہ کے ارتکاب کے بعد) اس سے توبہ کر لیتا ہے۔
بلاشبہہ دل میں مال کی محبت بیٹھ جانا ، بہت زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کا حریص ہونا، رات دن اسی میں سرگرداں رہنا اور پھر اپنے ذخیرۂ مال پر فخر وناز کرنا ناپسندیدہ روش ہے، جو دُنیوی و اُخروی دونوں زندگی میں تباہی کا موجب بنتی ہے۔ یہ نکتہ ان آیات پر غور و فکر سے بہت واضح طور پر سامنے آ تا ہے جن میں مال و اولاد کو فتنہ (یعنی آزمایش کا سامان ) کہا گیا ہے اور اس کے فوراً بعد اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی ہے(الانفال۸:۲۹؛ التغابن ۶۴:۱۶)، یعنی اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ مال و دولت حاصل کرنے ، اسے خرچ کرنے اور آل واولاد کی پرورش و پرداخت کرتے ہوئے اللہ کے رُوبرو حاضری اور جواب دہی سے ڈرتے رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان ان کاموں کو کرتے ہوئے شریعت کے احکام کو توڑ کر ربَّ کریم کی ناراضی مول لے لو۔رہا یہ مسئلہ کہ مال و اوالاد سے متعلق معاملات میں ضرورت سے زیادہ یا خلاف ِ شریعت مصروفیات میں دین کے اعتبار سے سب سے بڑا نقصان کیا ہے؟، قرآن کی مختلف آیات کی روشنی میں اسے اس طور پر بیان کیا جا سکتا ہے : اللہ کی یاد سے غافل ہوجا نا،فرائض کی ادائیگی میں لاپرواہی برتنا اور اللہ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتا ہی کرنا، عاقبت کو خراب کردینا۔ ارشادِربّانی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۹ ( المنٰفقون ۶۳:۹) ، اے ایمان والو! تمھارے مال و تمھاری اولاد تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو کوئی ایسا کریں گے وہ[یقیناً بڑے]گھاٹے میں ہوں گے۔
یعنی اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو ، مال کی طلب میں اس درجہ منہمک نہ ہو جائو کہ اللہ کو یاد کرنا بھول جائو، اور اپنی اولاد کی محبت میں ایسا کام نہ کر ڈالو کہ اللہ ناراض ہوجائے ۔ یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ اللہ کی یاد سے غافل ہوجانے کا مطلب محض زبان سے ذکر ،تسبیح واوراد کے کلمات کی ادائی بھول جا نا نہیں ہے،بلکہ اس میں اس کے احکام کو بھول جانا یا ان کی خلاف ورزی کرنا سب کچھ شامل ہے ۔
مال ا ور دنیوی ساز وسامان کی حرص، دینی اُمور کے لیے کس قدر خطرناک ہے اسے ایک حدیث میں بڑے مؤثر انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ حضرت کعب ابن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے [وہ بکریوںکو] اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے د ین کو پہنچاتی ہے ( جامع ترمذی)
واقعہ یہ ہے کہ تکاثر (ضرورت سے زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کا حریص ہونا اور مقابلہ آرائی کرنا اور اس پر فخر و غرور کا مظاہرہ کرنا) بجائے خود ایک کھلی بر ا ئی ہے اور بہت سی دیگر برائیوں کو جنم دینے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ ان میں خاص طور سے بخل و ذخیرہ اندوزی، حسد و جلن، بددیانتی و دھوکادہی ، ریا ونمود اور فخر وناز کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک صحابی بحرین سے جزیہ کی صورت میں کچھ مال لے کر مدینہ واپس ہوئے اور دوسرے صحابہ کو بھی اس کی خبر ہوگئی۔ نمازِفجر کے بعد آپؐ نے تبسم فرماتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمھیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ بحرین سے مال آیا ہے؟انھوں نے جواب میں کہا:ہاں، اے اللہ کے رسولؐ۔ آپؐ نے فرمایا: واقعی مال آیا ہے،خوش ہوجائو اور ہمیشہ مسرت بخش چیزوں کی اُمید رکھو [لیکن یہ بھی سن لو] قسم اللہ کی کہ مجھے تمھارے بارے میں فقر سے اندیشہ نہیں [کہ وہ تم میں فساد پیدا کرے گا]، بلکہ یہ اندیشہ [ضرور] ہے کہ تمھارے لیے دنیا[کے مال و دولت]کی فراخی کر دی جائے گی،جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی تھی،پھر تم اس میں اسی طرح رغبت و مقابلہ آرائی کروگے جیسے تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا۔ [ آخر کار ] یہ روش تمھارے لیے تباہ کن ثابت ہوگی جس طرح اس نے انھیں ہلاک کردیا تھا (صحیح بخاری،کتاب الجزیہ والموادعۃ ،باب الجزیہ والموادعۃ مع اہل الذمۃ و الحرب)۔
اس روایت کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں لکھتے ہیں: ’’ یعنی فقر و افلاس کی وجہ سے آدمی فتنہ و آزمایش میں پڑ سکتا ہے،لیکن اس سے بڑھ کر اس کے بارے میں اندیشہ اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ اس کے لیے مال و متاع کی راہیں کھل جائیں اور وہ دولت کی چاہت میں اپنی اصل ذمہ داریوں کو فراموش کر بیٹھے۔ اسے اگر دُ ھن ہو تو صرف اس بات کی کہ کتنی جلد وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ سمیٹ لے۔وہ حرص کا ایسا بندہ بن کر رہ جائے کہ نہ اسے فقراء و مساکین پر رحم آئے اور نہ اپنی دولت کو راہِ خدا میں صرف کرسکے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ضروریات سے بڑھ کر کسی شخص کے پاس دولت جمع ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا قوی اندیشہ ہو جاتا ہے کہ کہیں وہ دنیا میں اس طرح نہ منہمک ہوجائے کہ نہ اسے خدا یاد آئے اور نہ اسے آخرت کی کوئی فکر دامن گیر ہو‘‘ (کلامِ نبوت، نئی دہلی، ۲۰۱۲ء،ج۲،ص ۴۵۵-۴۵۶)۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کا میسر آنا یا کثیر مقدار میں اس کا حصول اسلام میں ممنوع یا ناپسندیدہ نہیں ہے، بلکہ اس کے حصول کے بعد جائز و ناجائز بھول کر زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی شدید خواہش کا پیدا ہوجانا معیوب اور نقصان دہ ہے۔ اس حدیث کے آخری حصہ فتنافسوہا کما تنافسوہا سے اسی نکتہ کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ لفظ’ تنافس ‘ کا ترجمہ بالعموم رغبت و شدید خواہش کیا جاتا ہے۔
اگر اہلِ کتاب کے اطوار و احوال کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی خرابیوں یا برائیوں میں یہ مذموم حرکت بھی شامل تھی،جیسا کہ بعض آیات (المائدۃ۵:۶۲) سے صاف واضح ہوتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں ان کی بھاگ دوڑ کا اصل میدان یہی تھا۔مال و دولت کی محبت و حرص نہ صرف یہ کہ ان کے دل ودماغ میں رچی بسی تھی اور اپنے خزانے میں اضافے کی خاطر جائز وناجائز کا لحاظ کیے بغیر مختلف ذر ائع اختیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ چھوڑتے تھے اور دوسروں سے بازی مار لے جانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔
یہ آیت ایک بندئہ مومن کے اسی وصف ِ خاص کی ترجما ن ہے: وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ (البقرۃ۲:۱۷۷) [اور وہ مال کی محبت کے باوجود اسے اہلِ قرابت، یتیموں اورغریبوں پر خرچ کرتا ہے] ۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ملتی ہے جس میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ اجر کے اعتبار سے وہ صدقہ سب سے بڑا ہے کہ جسے کوئی اس حال میں کسی کو دے کہ وہ صحیح و تندرست ہو اور صدقہ میںدینے والے مال کی حرص میں ڈوبا ہوا ہو اور بخل میں بھی اس بُری طرح مبتلا ہو کہ فقر کے ڈر سے مال نہ خرچ کرتا ہو اور زیادہ مال کا امیدوار یا خواہش مند ہو۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک صحابیؓ کے اس سوال پر کہ اَ یُّ الصَّدَقَۃِ اَعْظمَ اَجْرًا ؟ [کون سا صدقہ اجر کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہے؟] کے جواب میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَنْ تَصَدَّقَ وَاَنْتَ صحیحٌ شَحِیح ،تَخْشٰی الْفَقْرَ وَتَأ مَلُ الْغِنٰی (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ،باب بیان افضل الصدقۃِ صدقۃُ الصحیحِ الشحیحِ) [ تم صدقہ کرو اس حال میںکہ تم صحت مند ہو،(مال کے) حریص ہو،فقر سے خوف کھاتے ہو اور مال داری کے اُمیدوار یا خواہش مند ہو]۔
حقیقت یہ کہ حرص ایسی بُر ی بلا ہے کہ وہ چین نہیں لینے دیتی۔ کچھ مال جمع ہوجانے اور اس کی لذت ملنے پر مزید کی طلب بھڑکتی رہتی ہے،پھر کچھ اور پونجی ہاتھ آگئی تو بھی اسے سکون نہیں ملتا اور نفس کی خواہشات کا تابع ہو کر وہ مزید کی طلب کا غلام بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و اسباب کی حرص اور انھیں بڑھانے کی شدید خواہش میں گرفتار شخص سوچتا رہتا ہے کہ فلاں کے پاس مال و دولت کا اتنا ڈھیر ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں تو ہم کیوں نہ بھاگ دوڑ کریں؟ جناب حفیظ میرٹھی کا یہ شعر اسی صورتِ حال کی بہترین ترجمانی کررہا ہے:
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تری دیوار سے اُونچی مری دیوار بنے
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَ۱۲۸ۙ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ۱۲۹ۚ (الشعراء ۲۶:۱۲۸-۱۲۹) کیا تم لوگ ہر اونچے مقام پر ایک لا حاصل یا بلا ضرورت عمارت [اپنی]نشانی کے طور پر بنا تے ہو اور[اسی طرح بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو گویا تمھیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے]۔
یعنی محض اپنی شان و شوکت کے مظاہرے یا دوسروں کی دیکھا دیکھی اور ان سے مقابلہ آرائی میں بلا ضرورت اونچی اونچی اور مضبوط عمارتیں تعمیر کرتے ہو۔ تمھارے اس طرزِ عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمھیں موت نہیں آنی ہے اور ہمیشہ ہمیش اِسی دنیا میں رہنا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ تحریر فرماتے ہیں:’’ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اورتعمیرات کرنا شرعاً بُرا ہے۔ امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے کہ النَّفَقَۃُ کُلُّہَا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ اِلَّا الْبِنَاءَ فَلَا خَیْرَ فِیْہِ ،یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری و بھلائی نہیں۔ اس معنی کی تصدیق حضرت انسؓ کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے: اَمَا اِنَّ کُلُّ بِنَائٍ وَبَالٌ عَلٰی صَاحِــبِہٖ اِلَّا مَا لَا اِلَّا مَا لَا یَعْنِیْ مَا لَا بُدِّ مِنْہُ (ابو داؤد) ، یعنی ہرتعمیر صاحبِ تعمیر کے لیے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے (معارف القرآن، ج۶،ص ۵۳۷-۵۳۸)۔
واقعہ یہ ہے کہ مال و جائیداد کے حریص اور تکاثر کی راہ اختیار کرنے والوں کی پوری عمر ان چیزوں کو بڑھاتے رہنے کی بھاگ دوڑ میں گزر جاتی ہے ،یہاں تک کہ قبر میں ان کے جانے کا وقت آجاتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں بڑے مؤثر انداز میں ا سی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے کہ ایک شخص کو اگر ایک وادی بھر سونا ہاتھ آجاتا ہے، تو وہ سونے بھری دوسری وادی کی طلب میں سر گرداں رہتا ہے،پھر تیسری و چوتھی کی فکر اسے دامن گیر ہوجاتی ہے، یعنی وہ مال و دولت کی محبت و لالچ کے اسی ختم نہ ہونے والے چکّر میں پڑ ا رہتا ہے ،یہاں تک زیرخاک ہوکر مٹّی میں مل جاتا ہے۔
اس صورت حال کے پس منظر میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان بڑی معنویت ر کھتا ہے: لَا تَتَّخِذُوا الضیعۃَ فترغَبُوْا فِیْ الْدُّنْیَا (جامع ترمذی، ابواب الزہد، باب لَا تَـتَّخذوا الضیعۃَ فترغَبُوْا فِیْ الدُّنْیَا) [زیادہ ] زمین و جائیداد نہ بنا ئو ورنہ دنیا یا دنیا کے مال ومتاع کی لالچ تمھیں اپنے گھیرے میں لے لے گی [جس سے پھر تم نکل نہیں پائو گے] ۔ اس حدیث کی تشریح میں ہے: ’’الضیعۃ سے مراد زمین،صنعت وزراعت اور کاروبار ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان میں اتنا زیادہ انہماک اور دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کہ انسان کا مقصدِزندگی رضائے الٰہی کے بجائے یہی چیزیں بن جائیں اور اس کے شب وروز اسی تگ و دو میں صرف ہوں،ورنہ حسبِ ضرورت و کفایت تو زمین، کاروبار اور جائیداد وغیرہ بنانا اور رکھنا سب جائز ہے، ممنوع نہیں۔
اس مقصد سے قرآن کریم میں غور وفکر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ا نسان کی ذہنی و فکری اصلاح یا ا س کی اندرونی حالت سدھار نے کی زیادہ اہمیت ہے ۔ قرآن کریم دنیا کے تعلق سے اس پہلو سے انسان کی ذہن سازی کرتا ہے کہ اس عارضی جائے قیام کا مال و متاع فانی ہے، کتنا بھی مال و اسباب جمع ہوجائے وہ کم ہوکے یا ختم ہو کے رہتا ہے۔ یہاں سے رخصتی کے وقت یہ سب چیزیں انسان کا ساتھ چھوڑ دینے والی ہیں، تو پھر ایسی چیزوں سے لو لگانے، دن رات ان کی خاطر دوڑ بھاگ کرنے، مال و دولت کا خزانہ جمع کرنے اور اس میں اضافے کی خاطر ساری توانائیاں صرف کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر دُنیوی مال ومتاع کے لیے حرص و ہوس کی عکاسی بڑے مؤثر اسلوب میں کی گئی ہے: وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۰ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۶۴ (العنکبوت ۲۹:۶۴)’’یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے، مگر ایک کھیل اوردل کا بہلاوا،اصل زندگی تو دارِ آخرت ہے، کاش لوگ (اس حقیقت کو) جان لیتے‘‘۔
ایک دوسری آیت میں دنیا کی زیب و زینت کو مزید واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے:
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل و دل لگی اور ظاہری ٹیپ و ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے،جیسے بارش ہوگئی تواس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے،پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی،پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔اس کے برخلاف آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہےاور اللہ کی مغفرت اور خوش نودی ہے۔[ یہ یقین کر لو] دنیا کی زندگی ایک دھوکا کی ٹٹّی کے سوا کچھ نہیں ہے۔(الحدید ۵۷ :۲۰ )
یہ آیت بہت ہی واضح انداز میں انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ دُنیوی زندگی اور اس کا ساز وسامان محض زیب و زینت ہے۔ مال واولاد کی کثرت پر انسان چاہے کتنا مگن ہوجائے ، جس قدر چاہے فخر جتا ئے، اسے بقا وپائے داری نہیں،بس ایک فریب ہے جو کچھ ہی دنوں بعد ہوا ہوجا ئے گا۔
اس آیت کی تشریح میں سیّد قطب شہید رقم طراز ہیں:’’مطلب یہ کہ اس کھیتی کا ایک وقت مقرر ہے جو بہت جلد پورا ہوجاتا ہے،اس کے بعدیہ کھیتی اپنی آخری عمر کو پہنچ جاتی ہے۔ اس متحرک تصویر کے ساتھ جو انسانوں کے روز مرہ مشاہدات سے ماخوذ ہے پوری زندگی کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور حیاتِ دنیا کا یہ اختتام کھیتی کے چورا چورا ہونے کے منظر سے صاف دکھائی دیتا ہے۔رہی آخرت تو اس کی حیثیت اس سے بالکل مختلف ہے اور اس کی حیثیت اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ دی جائے ،اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اس کے لیے تیاری کی جائے۔ یہ ( آخرت) دنیا کی طرح پلک جھپکتے گزر جانے والی نہیں ہے اور نہ اس کا انجام اس کھیتی کے چورا جیسا ہے جس کی عمر پوری ہوچکی ہو،یہاںتو اعمال کا حساب و کتاب ہونا ہے اور اس پر جزا و سزا ملنی ہے اور آخرت کی دائمی زندگی ہے،اس لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس(دنیا کی) متاع کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس کا وجود تو بس ایک فریب اور دھوکے سے عبارت ہے، یہ غفلت و خود فراموشی میں مبتلا کرتی ہے جس کا نتیجہ دھوکا اور فریب کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوتا‘‘ ( سید قطب شہید، ترجمہ: سیدحامدعلی،تفسیر فی ظلال القرآن ،ج ۱۶،ص ۵۵-۵۶)
اسی طرح سورۂ یونس کی آیت۲۴ میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو سر سبز و شاداب اور پیداوار سے بھرے کھیت کو دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں،اسے محض اپنی محنت یا دوڑ دھوپ کا ثمرہ اور اپنی اہلیت و صلاحیت کی کارستانی سمجھتے ہیں اور منعمِ حقیقی کو بھول جاتے ہیں، اس کا شکر بھی نہیں ادا کرتے:
دنیا کی یہ زندگی،اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے انسان و جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوگئی،پھر عین اس وقت، جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک اس گمان میں تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کوہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کرکے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (یونس۱۰:۲۴)
سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۲۱ (الحدید۵۷:۲۱) اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت آسمان اور زمین کے مثل ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوںؑ پر ایمان لائے۔یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
واضح رہے کہ قرآن کریم دنیوی زندگی میں نہ تگ و دو اور جدّ وجہد کا مخالف ہے اور نہ دوسروں سے مقابلہ آرائی کو ناپسند کر تا ہے، بلکہ یہ کتابِ ہدایت مقابلہ کے رخ کو صحیح کرنے اور اسے ایک عظیم مقصد ( حقیقی کامیابی کے حصول ) سے مربوط کر نے کی دعوت دیتی ہے ، جیسا کہ سورۃ الحدید کی آیت۲۱ سے صاف طور پر واوضح ہوتا ہے :سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ ’’اپنے رب سے مغفرت طلبی اور جنت کے حصول کے لیے ایک د وسرے سے آگے بڑھو‘‘،یعنی مغفرت و رضائے الٰہی کی طلب ہی در اصل مومن کے لیے مسابقت کا اصل میدان ہے۔
قرآن کی یہ دعوت دوسرے مقامات پر بھی ملتی ہے: وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۱۳۳ ( اٰل عمرٰن ۳: ۳۳ا) ’’ اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے لیے آگے بڑھو جس کی وسعت آسمانوں و زمین کی طرح ہے۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔پھر ایک اور مقام پر بہت ہی واضح انداز میں مومنین کو خیر کی طلب میں مسابقت یا آگے بڑھنے کی دعوت دی گئی ہے: وَلِكُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَمُوَلِّيْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۰ۭ۬ (البقرۃ۲:۱۴۸)’’ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے۔ وہ اسی کی طرف رخ کرنے والا ہے، تو تم نیکیوں کی راہ میں سبقت کرو‘‘(نیز دیکھئے: المائدۃ: ۵؍ ۴۸ ؛ المومنون:۲۳؍۶۸)۔
ظاہر ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ باقی رہنے والا ہے اس سے مراد کسی کارِ خیر یا محتاج بندوں کی ضروریات کی تکمیل میں صرف کیے گئے مال کا اجر و ثواب ہے، جو اللہ کے پاس محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتابِ ہدایت میں اصحاب ِ مال کوبار بار یہ تاکید کی ہے کہ وہ (اپنی جائز ضروریات کی تکمیل کے بعد) کارِخیر میں اپنا مال خرچ کرتے رہیں، اس سے پہلے پہلے کہ ان کی موت کا وقت آجائے اور خاص طور سے سورۃ المنافقون کی آخری آیات بہت ہی واضح انداز میں یہ پیغام دے رہی ہیں۔ اسی ضمن میں عبد اللہ ابن شِخِّیر سے مروی ایک حدیث نبویؐ کا حوالہ بھی بر محل معلوم ہوتا ہے :
قَالَ اَتَیْتُ النَبِیَّ وَھُوَ یَقْرَ ئُ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ فَقَالَ یَقُوْلُ اِبْنُ آدَمَ مَالِیْ، مَالِیْ قَالَ وَھَلْ لَکَ یَا اِبْنَ آدَمَ مِنْ مَالِکَ اِلَّا مَااَکَلْتَ فَاَفْنَیْتَ اَوْ لَبِسْتَ فَابْلَیْتَ اَوْ تَصدَّقْتَ فَاَمْضَیْت ( صحیح مسلم، کتاب الزہد،باب الدنیا سجن للمؤمن وجنّـۃ للکافر) حضرت عبد اللہ ابن شخّیر سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ تلاوت فرمارہے تھے ، پھر آپؐ نے فرمایا: انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالاں کہ انسان کا مال بس وہ ہے جو اس نے کھاکر ختم کردیا،پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے آگے ( آخرت کے لیے) بڑھادیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ مال جو مال صدقہ یا کسی کارِ خیر میں خرچ کرے یا کرتا ہے، وہی اس کے لیے ذخیرۂ آخرت بننے والا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ’تکاثر‘ کی راہ پر چلنے والے مال و دولت کے نہ صرف حریص ہوتے ہیں، بلکہ اسے بڑھانے کی فکر میں دن رات دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب، وہ مال خرچ کرنے سے کتراتے ہیں، اس لیے کہ وہ یہ گمان ر کھتے ہیں کہ اس سے مال کم ہوجائے گا۔اس طرح متضاد برائیاں ( حرص و بخل) ان کو اپنے گھیرے میں لیے رہتی ہیں۔
قرآن اس پہلو سے بھی اصحابِ مال کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کو بھی کم وبیش جو کچھ مال ملتا ہے وہ اللہ کی نوازش ہوتی ہے۔ سارے خزانوں کا مالک وہی ہے،وہ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق کسی کو کم اور کسی کو زیادہ عطا فرماتا ہے (اٰل عمرٰن۳:۷۳-۷۴؛ العنکبوت ۲۹:۶۲)۔ اس میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں ،تو پھر کسی کے پاس زیادہ مال و دولت دیکھ کر اس سے حسد کے کیا معنی؟ مال و دولت کی ہوس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ کسی کے مال ودولت پر لالچ کی نظر ڈالنے کے بجائے جو کچھ ملا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکر اداکیا جائے اور قناعت کی راہ اختیار کی جا ئے، بلا شبہہ قناعت خود بہت بڑی دولت ہے۔ مال یا زیادہ مال کی طلب میں کوئی حرج نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اس کے لیے جائز ذرائع اختیا ر کیے جا ئیں اور اللہ کا فضل و کرم طلب کر نے کے لیے اس سے خوب دعائیں مانگی جائیں (النساء۴:۳۲)۔
اسی طرح یہ بھی ذہن میں رہے کہ کم یا زیادہ مال نصیب ہونے یا اس سے بالکل محروم رہنے وا لوں ،سب کو مالک الملک آزما تا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ دونوں صورتوں میں انسان کا کیا رویہ ہوتا ہے؟ کیا مال نصیب ہونے پر صاحبِ مال منعمِ حقیقی کو یاد کرتا ہے،اس کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کی عطا کردہ نعمت میں محتاجوں و غریبوں کو شریک کرتا ہے یا اسے بھول جاتا ہے، اس کی ہدایات سے غافل ہوجاتا ہے ، مال نصیب ہونے کے بعد وہ دوسروں پر ٖفخر جتاتا ہے اور تکبر کا رویہ اپناتا ہے؟ اسی طرح صاحبِ مال کو اس طور بھی آزمایا جاتا ہے کہ اسے جو کچھ مال و اسباب ملا ہوا ہے اس سے اپنی ضروریات کی تکمیل یا کسی نیک کام میں خرچ کر تا رہتا ہے یا دن رات اسے اور بڑھانے کے چکّر میں پڑا رہتا ہے: یہ آیت اسی حقیقت کی یاددہانی کرارہی ہے:
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۷ وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْہَا صَعِيْدًا جُرُزًا۸ۭ (الکہف۱۸: ۷-۸) ہم نے جو کچھ [ساز وسامان] زمین پر ہے اسے اس کے لیے زینت بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے ،آخر کار ان سب کو [ ختم کرکے ایک دن] چٹیل میدان بنادینے والے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں صاحبِ تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں: ’’ حقیقت یہ ہے کہ یہ سامانِ عیش نہیں،بلکہ وسائلِ امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کرکے دنیا کی ان دل فریبیوں میں گم ہوجا تا ہے اور کون ا پنے اصل مقام (بندگی ٔرب) کو یاد رکھ کر صحیح رویہ پر قائم رہتا ہے۔جس روز یہ امتحان ختم ہوجائے گا اسی روز یہ بساطِ عیش اُلٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی‘‘ ( تفہیم القرآن، ج۳،ص۱۰-۱۱)۔
دنیا کی چیزوں کی حقیقت سے متعلق قرآن کی اس وضاحت کے علاوہ بعض مقام پر خاص طور سے مال و دولت اور اولاد کی نسبت سے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کی حیثیت محض چند روزہ زیب وزینت کی ہے اور یہ سامانِ آزمایش ہیں، اصل میں نیکیاں ہی باقی رہنے والی اور موجبِ خیر بننے والی ہیں۔ ( الکہف ۱۸: ۴۶ ؛ اٰٰل عمرٰن۳:۱۸۶؛الانعام۶ :۱۶۵)۔
ایک حدیث میں مال و دولت یا دُنیوی اسباب کی نسبت سے ان لوگوں پر نظر ڈالنے کی ہدایت دی گئی ہے جنھیں ا ن سے کم میسر ہے، اور انھیں دیکھنے سے منع کیا گیا ہے جو ان سے زیادہ مال و دولت والے ہیں، تاکہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کو حقیر نہ سمجھا جائے یا اس کی ناقدری کا جذبہ نہ پیدا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادِ گرامی ملاحظہ ہو:
اُنْظُرُوا اِلٰی مَنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَا تَنْظُرُوْااِلٰی مَنْ ھُوَ فَوْقَکُمْ فَھُوَ اَجْدَرُ اَنْ لَّا تَزْدَرُوْا نِعْمَۃاللہ ِ عَلَیْکُمْ (صحیح مسلم،کتاب الزہد، حدیث:۵۳۷۶)
اس ضمن میں اہم بات یہ کہ اگر کسی سے مذکورہ بالا ہدایت کی خلاف ورزی ہوجائے تو ایک دوسری حدیث میںاس کی تلافی کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے اوروہ یہ ہے:
قَالَ رَسُوْل اللہ اذ ا نَــظَرَ اَحَدُکُمْ اِلٰی مَنْ فُضِّلَ عَلَیہِ مِنَ الْمَالِ والْخَلْقِ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی مَنْ ھُوَ اَسْفَلَ مِنْہُ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب لِینظُرَ الی من ھو اسفلَ منہ ولا ینظرْ الٰی من ھو فوقہٗ ) جب تم سے کوئی مال اور اولاد کے باب میں اپنے سے افضل کسی شخص کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ ان چیزوں کی نسبت سے اپنے سے کم تر پرنظر ڈال لے۔
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہ اور ضروری ہو گیا ہے کہ دنیا اور اس کے مال ومتاع سے متعلق قرآن کے بیان کردہ حقائق ہمیشہ ذہن میں تازہ ر کھے جائیں۔
واقعہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی پر ایمان اور اس میں پیش آنے والے احوال کو ذہن میں تازہ رکھنا ایک جانب نیک اعمال کے لیے زبردست محرک بنتا ہے تو دوسری جانب بُرائیوں ا ور گناہ کی باتوں و کاموں سے باز رکھنے کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔اللہ کرے ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے اور روز مرہ زندگی میں ان سے کام لینے کی توفیق نصیب ہو، آمین!
ہندستان کے مسلمان جس دور سے گزر رہے ہیں اور جن چیلنجوں کا انھیں سامنا ہے، اس پس منظر میں تحریک اسلامی کے لیے یہ بڑا اہم اور فیصلہ کُن دور ہے، یہ مواقع اور امکانات کا دور ہے۔ امرواقعہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اسلام اتنے بڑے پیمانے پر موضوعِ بحث بنا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دُنیا تو ایک طرف خود ہمارے ملک میں بھی اسلام کی ایک ایک بات، اس کا ایک ایک حکم، اس کی ایک ایک تعلیم بڑے پیمانے پر پبلک سکروٹنی اور عوامی تحقیق، تجزیے اور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اسی بناپر یہ تحریک اسلامی کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ ہم صدیوں تک بھی کوشش کرتے رہتے تو اس بڑے پیمانے پر عام عوام کے اندر اسلام کے حوالے سے دلچسپی پیدا نہیں کرپاتے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے موجودہ زمانے میں پیدا فرمادی ہے۔
اپنی تمام تر حشر سامانیوں، نفرتوں اور سازشوں کے باوجود ہندستان میں ’ہندوتوا‘ کی موجودہ لہر، ایک عارضی لہر ہے۔ اس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ فتنہ و فساد، خون خرابا، شرانگیزی کی عمر کبھی طویل نہیں ہوتی۔ ایسے ظلم کا طویل ہونا اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ پوری انسانی تاریخ کی شہادت کے خلاف ہے کہ ایسی چیزوں میں کوئی دوام یا permanency پائی جائے۔ یہ بہرحال ایک عارضی چیز ہے۔ یہ سب اُس آندھی کی مانند ہے، جو تیزی سے چلتی ہے اور بڑی تباہی بھی لاتی ہے، لیکن اس کی عمر بہرحال بہت مختصر ہوتی ہے۔ آندھی چھٹتی ہے، غبار بیٹھتا ہے تو پھر منظر صاف ہوجاتا ہے۔ ’ہندوتوا‘ لہر بھی ایک آندھی کی مانند ہے اور یہ آندھی ان شاء اللہ ضرور چھٹے گی، اس کا زور کم ہوگا اور اس کے بعد ہند میں بڑی اصلاحات کی راہ ہموار ہوگی۔
گویا کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے اور نوشتۂ دیوار ہے کہ دُنیا میں جب بھی اس طرح کی انسانیت سوز صورتِ حال پیدا ہوئی،تو اس نے ہمیشہ بڑی اصلاحات کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم اور دوسری جنگ ِ عظیم میں پوری دُنیا میں تباہی مچی، لیکن اس کے بعد دُنیا میں پہلی بار بین الاقوامی افہام و تفہیم کا دورشروع ہوا۔ عالمی ادارے بنے، انٹرنیشنل قوانین بنے، دُنیا میں امن و امان کے لیے ادارے تشکیل پائے اور فنانشنل ریگولیشن کے لیے ادارے بنے۔
چند عشرے قبل، مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک میں ظلم و ستم کی انتہا کی گئی، اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں پر انتہائی بہیمانہ مظالم توڑے گئے۔ لیکن جب ۹۰ کے عشرے کا آغاز ہوا تو اس پورے خطے میں بڑی غیرمعمولی تبدیلیاں آئیں۔ آج کثیرثقافتی سیاسیات اور ملٹی کلچرل ازم کا معتدل نمونہ مشرقی یورپی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فتنہ و فساد سے سبق سیکھا، اپنے ریاستی دساتیر بدلے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور اصلاحات سامنے آئیں۔اسی طرح ’ہندوتوا‘ کی یہ آندھی جب تھمے گی تو یہاں کا اجتماعی ضمیر بڑی اصلاحات کا مطالبہ کرے گا اور اس جانب متوجہ ہوگا۔ یہ بھی تحریک ِ اسلامی کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہوگا۔
دوسری طرف خود اُمت مسلمہ کے اندر نئی توانائیاں بیدار ہورہی ہیں، روایتی طور طریقے بدل رہے ہیں، پرانے بت زمین بوس ہورہے ہیں، نئی راہوں کی تلاش کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔ تحریک ِ اسلامی کی سوچ اور فکر کو وسیع سطح پر قبولِ عام حاصل ہو رہاہے۔ روایتی دینی مدارس کے اساتذہ اور نوجوانوں کا اسلامی تحریک کی طرف رجوع بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس کا اس سے پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ سب ہمارے لیے غیرمعمولی مواقع ہیں۔ عام طور پر صرف مشکلات اور چیلنجوں کا ہی تذکرہ کیا جاتاہے، لیکن ان چیلنجوں کی تہہ میں جو مواقع اور امکانات پوشیدہ ہیں انھیں بھی دیکھنا چاہیے۔ تحریک ِ اسلامی سے وابستہ ہونے کے ناتے ہمارا اصل مطمح نظر وہ مواقع ہونے چاہییں، جو اللہ تبارک و تعالیٰ مسلسل پیدا کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ مشکلات اور چیلنجوں ہی کے دوران نئے راستے پیدا کرتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس اُمت نے ہمیشہ مشکلات سے زندگی حاصل کی ہے۔ چیلنجوں ہی سے اس کو توانائی، تابندگی اور حرارت ملی ہے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُمت کے بڑے احیاء کا سامان پیدا فرما رہا ہے۔ اب یہ تحریک کے ایک ایک کارکن کی ذمہ داری ہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ یہ بہت قیمتی لمحات ہیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ایک ایک لمحے کو ہم پکڑ لیں، اس کو مفید بنائیں اور اس کا بھرپور استعمال کریں۔ یہ ہماری کوشش اور جستجو ہونی چاہیے۔ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس ضمن میں چند گزارشات پیش ہیں:
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ہمیں اُمت کے اندر ہمت، حوصلہ اور جرأت پیدا کرنا ہے۔ حالات کو دیکھنے کا مثبت زاویہ پیدا کرنا ہے۔ ہم خود بھی مواقع دیکھیں اوراُمت کو بھی ان مواقع سے روشناس کرائیں۔ ہم خود بھی یاد رکھیں اور اُمت کو بھی یاد دلائیں کہ قرآنِ مجید نے ہمارے اندر یہ یقین پیدا کیا ہے کہ اُمت مسلمہ کا طاقت ور سے طاقت ور دشمن بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وٹس ایپ پر پیغامات آتے ہیں، اخبارات میں مضامین لکھے جارہے ہیں کہ نسل کشی (Genoside) ہونے والی ہے، اس کے آٹھ مراحل طے ہوچکے ہیں، ہمارے بچّے اور ہمارا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ باتیں ہمارے ایمان کے خلاف ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں صاف صاف یہ بات فرمائی ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور دشمن بھی اہلِ ایمان کا کچھ نہیںبگاڑ سکتا۔ اہلِ ایمان پر اگر مشکلات یا مصیبتیں آتی ہیں، تو یہ صرف اور صرف ان کی اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی، بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
بے شک اس وقت اسلام دشمن طاقتوں کی سازشیں ہم کو بظاہر کامیاب نظر آتی ہیں لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ یہ وقتی اور عارضی مرحلہ ہے۔ وہ اپنی چال چلتے ہیں اور اللہ اپنی چال چلتا ہے:
وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ۳۰(الانفال ۸:۳۰) وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
جس طرح لَا الٰہ کے ساتھ اِلَّا اللہ کہنا ضروری ہے۔ اگر صرف لَا الٰہ کہا جائے گا تو یہ کلمۂ کفر ہوگا، یعنی یہ کہنا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ مسلمانوں کا کلمہ مکمل ہوتا ہے اِلَّا اللہ کے ساتھ۔ لَاالٰہ کے ساتھ جب ہم اِلَّا اللہ کہیں گے تو تب ہی ہماری بات مکمل ہوگی۔ اسی طرح يَمْكُـرُوْنَ کے ساتھ يَمْكُرُ اللہُ ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمارا مکمل کلمہ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ ہے کہ وہ اپنی سازشیں کررہے ہیں اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے۔
ہمارے اخبارات، صحافتی کالم، تقریریں اورخطبات اور گفتگوئیں، اُمت میں یہ کہہ کہہ کر مایوسی پھیلا رہے ہیں کہ وَيَمْكُـرُوْنَ ، یعنی وہ سازشیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک اَدھوری بات ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو مکمل طور پر لوگوں کے سامنے پیش کریں کہ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ ’’یعنی وہ اپنی سازشیں کررہے ہیں اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے‘‘۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اُمت کے اندر ایک متبادل طرزِفکر اور طرزِبیان اور Narrative لے کر آئیں۔ ایک ایسا طرزِ بیان جو حوصلہ، ہمت اور عمل پر مبنی ہو۔
قرآنِ مجید جب نازل ہورہا تھا تو وہ ایک ایسے دور میں نازل ہورہا تھا، جب اللہ کے رسولؐ اور اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت آزمایشوں سے گزر رہے تھے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مکی زندگی آزمایشوں کی زندگی تھی اور مدنی زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست قائم کرلی تھی، اس لیے وہاں اتنی سخت آزمایشیں نہیں تھیں۔ تاہم، جن لوگوں کی سیرتِ رسولؐ پر نظر ہے، وہ جانتے ہیں کہ مدنی زندگی بھی کچھ کم آزمایشی زندگی نہیں تھی۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاروں طرف سے دشمنوں کی یلغار کے درمیان تھے۔ اُس وقت کی عالمی طاقتیں آپؐ کی دشمن تھیں۔ مدینہ کی چھوٹی سی اسلامی ریاست کو کرئہ ارض سے ختم کرنے کے لیے ایک طرف قریش تھے تو دوسری طرف مدینہ میں یہودی تھے، آس پاس کے مشرکین تھے اور روم اور فارس کی طاقتیں تھیں۔ لہٰذا مکّی زندگی ہو یا مدنی زندگی، نبی اکرمؐ کی پوری ۲۳سالہ زندگی شدید مشکلات اور شدید آزمایشوں اور چیلنجوں سے بھری زندگی تھی، اور اسی دوران قرآنِ مجید نازل ہورہا تھا۔ چنانچہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے طرزِفکر، طرزِ بیان اور طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس کے لیے قرآنِ مجید سے بہتر رہنمائی اور کہاں سے مل سکتی ہے؟
قرآنِ مجید کو پڑھا جائے تو اس میں دو خصوصیات نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں:
پہلی بات قرآنِ مجید یہ کہتا ہے کہ ’اسلام‘ کے جو دشمن ہیں، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ قرآن نے سب سے پہلے اُن کا رعب اور بھرم توڑا کہ ان کے اندر کوئی طاقت ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ قریش جو مکہ کا سب سے طاقت ور قبیلہ ہے، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ یہودی جن کی مکاریاں ، چال بازیاں اور سازشیں مشہور ہیں، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ روم اور فارس کی عالمی طاقتیں بھی انتہائی کمزور لوگوں پر مشتمل ہیں:
فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ۰ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا۷۶ۧ (النساء۴:۷۶) پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ ۰۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۷۵ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۷۵) اب تمھیں معلوم ہوگیا ہے کہ وہ دراصل شیطان تھا، جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا، لہٰذا آیندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ِ ایمان ہو۔
قرآنِ مجید نے اسلام دشمن قوتوں کے بارے میں فرمایا ہے : ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی متحد نہیں ہوسکتے اور اُن کے مقابلے میں جو کچھ مشکلات ہیں وہ ہماری اپنی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔اس کا ذمہ دار کوئی بیرونی عنصر نہیں ہے، کسی بیرونی طاقت کی سازش ہمیں نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ہماری اپنی کمزوریاں ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں۔ اگر ہم اپنی کمزوریاں دُور کرلیں، اپنے آپ کو سدھار لیں تو ہم بڑی سے بڑی طاقت پر غالب آسکتے ہیں۔ یہ قرآنِ مجید کے طرزِ بیان کی پہلی خصوصیت ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے کبھی مظالم، مشکلات اور مصیبتوں کا ذکر نہیں کیا۔ آپ پورا قرآن پڑھ ڈالیں، آپ کو کہیں نہیں ملے گا کہ حضرت بلال حبشیؓ پر آگ کی سلیں ٹھنڈی کی گئیں۔ حضرت خباب بن ارتؓ کے جسم کی چربی سے آگ بجھائی گئی۔ حضرت سمیہؓ کو برچھی مار کر سرِبازار شہید کیا گیا۔ یہ سب ظلم وستم سیرت کی کتابوں اور احادیث سے ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید نے کبھی حالات کی خرابی کا ماتم نہیں کرایا، کبھی باریکی سے تفصیلات بیان نہیں کی ہیں کہ ایسا ظلم ہورہا ہے، ایسی مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں، اور آنےوالے زمانے میں یہ ہوسکتا ہے۔ یہ سب آپ کو قرآنِ مجید میں نہیں ملے گا۔ قرآنِ مجید کی زبان پوری طرح سے عملی زبان ہے۔ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ ایسے حالات میں کرنا کیا ہے؟ ہم حالات کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں؟ یہ ماتم کناں ہونے کی نہیں معرکہ زن ہونے کی زبان ہے۔ قرآن کی زبان یہ ہے کہ آپ کیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے لیے آپ کو کیا راستہ اور کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی؟
اُمت مسلمہ کو اگر ہم ان حالات میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور حالات کے پیدا کردہ مواقع کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے ایک بڑی تبدیلی درکار ہے۔ اس کے لیے اُمت کے اندر ایک نفسیاتی تبدیلی لانی ہوگی اور طرزِبیان کو بدلنا ضروری ہے۔ تحریک اسلامی کو اس حوالے سے قیادت کرنی چاہیے۔ آج اخبارات اور مضامین میں صرف حالات کا رونا رویا اور حالات کا ماتم کیا جاتا ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر یہ بتانا چاہیے کہ نصرتِ الٰہی سے ہم ان حالات کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ حالات کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ اور یہ اعتماد بھی پیدا کرنا ہے کہ حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور اس کا راستہ بھی دکھاناہے۔
حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟ اس پر اُمت کو قائل کرنا ہے کہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے صرف فوری اور محض وقتی تدابیر کافی نہیں ہیں۔ وقتی تدابیر کی مثال تو ایسے ہے کہ اگر بارش میں ہمارے گھر کی چھت ٹپکنے لگے تو فوری طور پر ہم پولی تھین لاکر اسے ڈھانپ دیتے ہیں تاکہ برساتی پانی کے فوری ٹپکے سے بچ جائیں اور رات سکون سے گزر جائے۔ اگر اسی برساتی کو ہم مسئلے کا حل سمجھ لیں، اپنا ذہنی ارتکاز اسی پر رکھیں، تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص دُنیا کا احمق ترین آدمی شمار ہوگا۔
موجودہ حالات میں مزاحمت، احتجاج، جلوس، دھرنے اور قانونی کارروائیاں وغیرہ یہ سب وقتی تدابیر ہیں۔ یہ بھی ضروری ہیں اور ان کی افادیت اپنی جگہ ہے، لیکن ان سے مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوسکتا۔ اگر اسی پر ہمارا ارتکاز رہے، اسی کے بارے میں ہم سوچتے رہیں اور اسے اپنے حواس پر طاری کرلیں، تو قیامت تک ہم ان حالات سے باہر نہیں آسکتے۔ ان حالات سے باہر آنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی اور سنجیدگی اور صبرواستقامت کے ساتھ جدوجہد کرنی ہوگی۔ تحریک ِ اسلامی انھی کاموں کی طرف متوجہ کررہی ہے۔ ان اُمور پر ہمیں ارتکاز کرنا ہوگا:
سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اس ملک کی سوچ بدلے، اس ملک کی اکثریت کا ذہن بدلے اور یہ مہم بڑے پیمانے پر ہم کو چلانی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ صرف جماعت اسلامی ہند ہی نہیں بلکہ پورے ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان اس مہم سے جڑجائیں۔ اس کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر تحریک چلانی ہے۔
لوگ سوال اُٹھاتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہند نے ۷۵برسوں میں کیا کیا ہے؟ ہمارا جواب ہے کہ ان برسوں میں جماعت اسلامی نے مسلمانوں کی سوچ میں ٹھوس تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس جدوجہد میں صرف جماعت اسلامی ہی شامل نہیں ہے بلکہ دیگر دینی جماعتوں نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان پہلے سے زیادہ اسلام سے وابستہ ہیں اور دین سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں بدعات اور رواجی خرافات پہلے سے کم ہوگئی ہیں۔ دین کا شعور عام ہورہا ہے۔ آج پڑھے لکھے لوگ بھی دین کی بات کررہے ہیں اور ان کی سوچ بدلی ہے اور ان کی فکر میں تبدیلی آئی ہے۔
دوسری طرف غیرمسلموں کی طرف دیکھیں تو منفی تبدیلی آئی ہے۔ آج پہلے سے زیادہ ان کے ذہن مسموم ہیں۔ ان میں پہلے سے زیادہ اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں اور نفرت پائی جاتی ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ گذشتہ برسوں میں جو کام ہمارے بزرگوں نے کیا ہے، آیندہ ۱۰،۲۰برسوں میں وہی کام بڑے پیمانے پر ہمیں برادرانِ وطن میں کرنا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کی سوچ بدلنے کے لیے جماعت اسلامی ہند کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں، علمائے کرام اور چھوٹے بڑے گروپوں نے مل کرکام کیا۔ اب آیندہ ۱۰، ۲۰ برسوں میں اسی طرح برادرانِ وطن کی سوچ اور فکر بدلنے کے لیے کوشش کرنا ہے۔ اسی کے نتیجے میں ان شاء اللہ ضرور تبدیلی آئے گی اور اس کے علاوہ تبدیلی کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ فرقہ پرست اور نسل پرست فسطائی قوتوں نے ذہن سازی کرکے طاقت حاصل کی ہے۔ اگر ان کو سیاسی میدان میں شکست بھی دے دی جائے، ۲۰۲۴ء میں حکومت بدل بھی جائے، تو یقین مانیے کہ اس سے حالات میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی، کیونکہ مسئلہ سیاسی جوڑ توڑ کا نہیں، معاملہ ذہنی و فکری تبدیلی کا ہے۔اس لیے کہ اگر لوگوں کی سوچ بدل چکی ہے تو آیندہ جو حکومت بھی آئے گی، وہ عوام کی سوچ کے مطابق چلنے پر مجبور ہوگی۔ عدلیہ، بیوروکریسی اور حکومت سب اس پر مجبور ہوں گے۔ لہٰذا مسئلے کا حل صرف سیاسی نہیں ہے، نہ سماجی ہے اور نہ صرف قانونی ہی ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف سوچ میں تبدیلی اور رائے عامہ کی تشکیل میں ہے۔ بڑے پیمانے پر پوری اُمت کے دعوت کے کام میں لگنے ہی سے یہ ہدف حاصل ہوسکے گا۔ یہ ہیں وہ ناگزیر اقدامات جن کے نتیجے میں ملک کے حالات سدھر سکیں گے۔
درحقیقت، مسلمان دوسری قوموں کی طرح ایک قوم نہیں ہیں، بلکہ وہ اعلیٰ نصب العین کی حامل ایک اُمت ہیں۔ اس حیثیت سے مسلمانوں کے مقام و مرتبے سے یہ کم تر بات ہے کہ ان کی سوچ محض اپنے مسائل و مفادات تک محدود رہے۔ جب استحصال پسند طبقے اور تخریب کار قوتیں اپنے مفادات کی خاطر، ملک اور معاشرے میں ناانصافی، عدمِ مساوات اور نابرابری کو فروغ دے رہی ہوں، تو اس فساد بھرے ماحول میں مسلمانوں کو ایسا سیاسی پروگرام اور سماجی لائحہ عمل اور انسانیت نواز نظریہ لے کر آگے بڑھنا چاہیے، جو ملک کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا سامان رکھتا ہو۔ جس میں سب کے لیے عدل کی ضمانت ہو اور ہر ایک کے حقوق کی حفاظت ممکن ہو۔مسلمان، اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سارے انسانوں کے مفادات کے علَم بردار بن کر اُبھریں کہ جس میں تمام منفی پروگراموں اور منصوبوں کے برعکس بجا طور پر ایک بہترین پیغام پیش کیا جائے۔
دوسرا ضروری کام اُمت مسلمہ کی بہتری اور تعمیر کے لیے جدوجہد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُمت کی دینی حالت بہترہو، وہ دین پر عمل کا نمونہ بنے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ وہ تعلیم میں آگے بڑھے، معیشت اور تجارت میں ترقی کرے، ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرے۔ معیشت، تعلیم غرض ہرمحاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی بھی بڑے پیمانے پر لانے کی کوشش کرنا ہوگی۔
یہ دونوں کام ہمیں صبراور حکمت کے ساتھ کرنے ہوں گے۔ تحریک اسلامی کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِن دونوں اُمور کے لیے اُمت میں بیداری لائیں اور پوری اُمت کو ان کاموں کے لیے کھڑا کریں۔ ہمیں ملک کے کچھ شہروں کو ماڈل بناکر اس کام کو کرنا چاہیے۔ کوشش کیجیے کہ سارے مسلمان، علمائے کرام ، دانش ور، ڈاکٹر، وکلا، اساتذہ کرام، صحافی، نوجوان، طلبہ، خواتین اور ملّی جماعتیں اور ملّی ادارے، سب اس کام کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس کے لیے طریقے ڈھونڈیئے۔ منصوبے اور آئیڈیئے سوچیے اور کوشش کیجیے کہ یہ دونوں اہداف حاصل ہوسکیں۔ اگر یہ ایک ملک گیر تحریک بن جائے، تو اسی کے نتیجے میں ان شاء اللہ حالات نے جو مواقع اور امکانات پیدا کیے ہیں، وہ بھرپور طریقے سے استعمال ہوسکیں گے۔
اگر ہم ان دو محاذوں پر ثابت قدم رہے، اُمت کی نفسیات اور جذبات کو صحیح رُخ دیا اور اُمت کو صحیح رُخ پر متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئے، تو پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ حالات جو بظاہر مشکل حالات محسوس ہوتے ہیں، ان شاء اللہ بڑی مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ انھی مشکل حالات سے تابناک اور روشن مستقبل کی راہیں ہموار کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بہتر اور مؤثر ترین راستوں کی طرف رہنمائی فرمائے۔ ان راستوں پر آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، صلاحیت اور مواقع عطا فرمائے، رکاوٹوں اور مشکلات کو دُور فرمائے اورہرقدم پر اپنی مدد اور نصرت ہمارے شاملِ حال فرمائے، آمین!
مغرب کے سیاسی نظریات کے مطابق مملکت کاوجود تین عناصر مثلاً علاقہ،قوم اور حکومت سے ترتیب پاتاہے۔ تینوں عناصر کا اتحاد ہی مملکت کے وجود کا ضامن ہے۔
یہ تو ہوا مغربی نظریہ___ کیا اسلام بھی ایسا ہی نظریہ رکھتا ہے___؟ کیا وہ ان کی طرح ریاست کے لیے صرف مادی وجود کو ہی کافی سمجھتا ہے___؟ اور کیا مملکت کی تنظیم اور اُس کے ڈھانچے کے لیے اسلام جو الٰہی دین ہے، کوئی مثبت نظریات پیش کرتا ہے___؟
مغربی ریاستی نظریے کی رُو سے: ’’مذہب اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس لیے مذہب کو مملکت کے اُمور میں دخل دینے کا حق نہیں، کیونکہ یہ معاملات انسانی اختیار سے باہر نہیں اور وہ حالات کے مطابق جیسا مناسب سمجھتے ہیں، ان کا انتظام کرتے ہیں: خدا کو اپنے کاموں سے غرض رکھنی چاہیے اور بادشاہ کو اپنے کام سے کام ہونا چاہیے۔ ملک بادشاہ کا ہے اور مذہب خدا کا۔ ملکی معاملات کا مختار بادشاہ ہے اور مذہبی معاملات میں خدا حاکم ہے۔ ہاں، البتہ مذہب کے چند اخلاقی قوانین عوام سے مملکت کے قوانین منوانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں‘‘۔
چونکہ اسلام اس دُنیا میں خداکا آخری مذہب ہے، اس لیے اس نے انسانیت کی نشوونما اور ترقی کے لیے چند ایسے بنیادی قوانین پیش کیے ہیں، جو زندگی کے تمام اُمورپر خواہ وہ انفرادی ہیں یا اجتماعی، صرف حاوی ہی نہیں بلکہ کارآمد بھی ہیں، مؤثر بھی ہیں، اور ابدی بھی۔ اسلام نے یہ آزادی عطا کی کہ ہروہ قوم جو اسلام کے دامن میں پناہ لیتی ہے، ان بنیادی اصولوں پر اپنی مملکت کا ڈھانچا تیار کرسکتی ہے، اور زمانے اور حالات کے مطابق اس میں ترمیم اور وسعت پیدا کرسکتی ہے۔ لیکن یہ لازمی ہے کہ اس عمل سے قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں پر ضرب نہ پڑے اور ان کی حدود کو نہ توڑا جائے۔
اسلام نے ہمیشہ حقائق کو فراخ دلی سے تسلیم کیا۔ اس لیے وہ مادی نظریۂ مملکت کے بارے میں مغربی سیاست دانوں سے اختلاف نہیں رکھتا کیونکہ مملکت کے لیے بہرحال مادی عناصر ضروری ہیں، لیکن وہ ان عناصر میں غیرمادی عنصر [مذہبی عنصر]کا بھی اضافہ کرتا ہے، اور ایسے بنیادی اصول پیش کرتا ہے جو اخلاقی، معاشی اور سیاسی میدان میں انسانیت کی اقدارکے حامل ہیں۔ دونوں نظریات میں فرق صرف اتنا ہے کہ مغربی مفکرین صرف مادی وجود کافی سمجھتے ہیں اور اسلام وسعت ِ نظر اور دُور رس نگاہ کی وجہ سے آگے بڑھ کر کئی بنیادی انسانی اقدار کو بھی شامل کر دیتا ہے۔
اب ہم اسلام کے ان بنیادی اصولوں کا جائزہ لیں گے، جو مملکت کا غیرمادی اور دینی ڈھانچا تیار کرتے اور اس کے انتظامی اُمور کی جزئیات تک کو متاثر کرتے ہیں۔ آخر میں تین مادی عناصر میں سے قومیت کے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر پیش کریں گے:
جب تک اخلاقیات کو نہ اپنایا جائے، معاشی اصول ناکارہ ثابت ہوں گے، کیونکہ اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ ہوگا کہ رشوت ستانی اور مفاد پرستی زوروں پر ہوگی اور حکومت کی انتظامی قوتیں اس کا شکار ہوجائیں گی۔ اوراگر اسلام کے معاشی اصولوں کو نظرانداز کردیا جائے تو سماجی ڈھانچا کمزور ہوجائے گا اور نہ تو معاشی اصول اپنا مقصد حاصل کرسکیں گے، نہ اخلاقیات کا عمل دخل معاشرے میں باقی رہ جائے گا۔ دونوں کے اتحاد کے بغیر اصل مقاصد کی تکمیل ناممکن ہوجاتی ہے۔
اسلام نے صرف انسان کی نفسیاتی اورنظریاتی رہنمائی تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے پائیدار اور مستقل بنانے اوررائج کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی ضروری قرار دیے ہیں۔ روزانہ کی عبادت یعنی نماز کو صرف اسی لیے فرض قرار دیا گیا ہے کہ انسان کو ان اخلاقی اصولوں کو اپنانے کی عملی ترغیب دی جائے اور اس کا شعور اس سے آگاہ رہے کہ کوئی اعلیٰ ہستی ہے جو اس کے ہرعمل پر ہر لحظہ نگاہ رکھتی ہے۔
امانت داری کے عقیدے کی وجہ سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ مثبت کے ساتھ ساتھ منفی پہلو بھی رکھتے ہیں، یعنی امرونہی دونوں پہلو لیے ہوئے ہیں۔ وہ احکام جن کی بجاآوری کا حکم دیا گیا ہے درج ذیل ہیں:
۱- زکٰوۃ: یعنی ہر سال اپنے سرمایے کا کچھ مقررہ حصہ ضرورت مندوں کے لیے خرچ کرنا۔
۲- انفاق یا خیرات: اس کا عمل زکوٰۃ سے وسیع پیمانے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ سرمایے کا وہ حصہ ہے جو خوشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے اور سماجی و قومی فلاح و بہبود پر لگایا جاتا ہے۔
۳- سرمایـے کو کارآمد بنانا: یعنی قومی دولت میں اضافے کے لیے اور خود نفع حاصل کرنے کے لیے سرمایے کو کام میں لگانا۔ اسلام سرمایے کو دباکر رکھنے اور حصولِ دولت میں اس سے کام نہ لینے کے سخت خلاف ہے اور قانون کی رُو سے ایسا سرمایہ ضبط کیے جانے کے لائق ہے۔
اور وہ کام جنھیں نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے،درج ذیل ہیں:
۱- اجارہ داری: اسلام اس سے بچنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس کا مطلب سرمایے کو قوم اور معاشرے کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔
۲- استحصالِ زر:اسلام سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کے بھی خلاف ہے۔
۳- تعیش اور کنجوسی: عیش پر حد سے زیادہ خرچ کرنا یا کنجوسی سے کام لینا اور سرمایہ جمع کرنا بھی ناجائز ہے۔ اسلام دونوں کی متوازن صورت کو پسند کرتا ہے۔
جہاں تک محنت کا سوال ہے، اسلام ایسی محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جو اپنے اور قوم کے لیے حصولِ دولت پر صرف ہوتی ہے۔وہ کاہلی اور مفت خوری کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ ہرمسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے لیے اور قوم کی خاطر کسی نہ کسی مفید کام میں مصروفِ عمل رہے۔ ایسا عمل، عبادت میں شامل ہے۔ وہ بُرائی کی طرف مائل نہیں ہوسکے گا کیونکہ وہ ہروقت عالم الغیب کی نگاہوں میں رہے گا اور اسے اس بات کا شعور ہوگا۔اسلام، انسان کے بلند رُتبہ ہونے کا قائل ہے۔ اس لیے قرآن و سنت کی رُو سے مزدور کو چند ٹکوں سے خریدا نہیں جاسکتا بلکہ برابر کا حصہ دیا جاتا ہے۔
اگر ان معاشی اصولوں کو اپنایا جائے تو ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد پڑے گی، جو موجودہ سوسائٹیوں سے درج ذیل معاملات میں مختلف ہوگی:
یہ صاف ظاہر ہے کہ اگر ان معاشی نظریات کو قانونی شکل دے کر رائج کیا جائے، تو متضاد انسانی مفادات کے باوجود معاشی توازن پیدا کیا جاسکتا ہے اور اسلامی مملکت کے اس کے علاوہ دوسرے مقاصد بھی آسانی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، اور انسانی معاشرے کی فلاح وبہبود کے منصوبے کامیاب ہوسکتے ہیں۔
منتظمین کی جماعت کے لیے اسلام ایک عالمگیر اصول پیش کرتا ہے اور وہ ہے الشوریٰ، یعنی باہمی مشورہ۔ عوام کی رائے ہر معاملے میں لینا ضروری ہے، خواہ اس کا تعلق حاکم کے انتخاب سے ہو یا حکومت کی تنظیم و مملکت کی تعمیر سے، یا اس کے اغراض و مقاصد سے، لیکن کسی بھی صورت میں حاکم مطلق العنان نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے اس ضابطے کو اگر آج مغربی مفہوم میں سمجھا جائے تو وہ یہ ہے کہ حاکم عوام کے سیاہ و سفید کا مالک نہیں ہوسکتا، کیونکہ سب کا حقیقی حاکم صرف اللہ ہی ہے۔ قوم کا فردخواہ اس کا تعلق رعیت سے ہو یا حکومت سے، ایک جیسا رُتبہ رکھتا ہے اور دونوں پر ایک جیسی اور برابر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جو گروہ یا قوم اپنی رائے سے حکمرانوں کا انتخاب کرتی ہے، اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ حکام کے احکام کو جائز یا ناجائز قرار دیں۔ اور حکومت کے تمام محکمے جب تک انھیں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق خیال کرکے وہ صحیح قرار نہ دیں، اس وقت تک ان احکام پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ اس طرح پوری قوم کو احساس ہوجاتا ہے کہ حقیقی حاکم صرف اللہ ہی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان، حکام کا حکم نہیں مانتا بلکہ اپنی قوم کا یا دوسرے معنوں میں خدا کا حکم بجا لاتاہے۔
مجلس مشاورت، اسلام کا اہم و لازمی قانون ہے۔ اس قانون کی اہمیت و رُتبہ اس بات سے واضح ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کو جنھیں کہ وحی آتی تھی، یہ حکم دیا گیا تھا کہ صحابہ سے دُنیاوی اُمور میں مشورہ کیا کریں۔ اسلام میں حکومت کسی انسان کی، خواہ وہ خلیفہ ہو یا صدر و گورنر، تسلیم نہیں کی جاتی بلکہ اللہ ہی حاکم اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ چیز مغربی مفکرین کے اس نظریے کو جھٹلاتی ہے کہ اسلامی حکومت سخت گیر اور متعصب حکومت ہے۔
وہ جماعت جس کے ذمے المعروف کا حکم دینا اور المنکر سے روکنا ہے۔ اس کی کیسے تنظیم کی جائے ، وہ اپنے احکام کس طرح منوائیں اور اگر ایسی جماعت کو منظم کرلیا جائے اور وہ اپنے احکام بھی جاری کرنے لگے تو کیا قوم کے تین گروہ نہیں بن جائیں گے:
ایسے سوالوں کا جواب اسلام نے انسانی فہم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ زمانے اور مقام کی مناسبت سے جیسے درست سمجھے کرے، جس طرح حالات اجازت دیں اور جیسا مقامی قوم کا مزاج تقاضا کرے اسی کے مطابق ان چیزوں کی تنظیم کرے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُسے قرآن و سنت کو نہ بھولنا چاہیے۔ اس کی عقل و فہم قرآن و سنت کی روشنی میں جو مناسب اور صحیح راستہ سمجھتی ہے اس کو اختیار کرے۔
اسلام نے انسانی ذہن کی نشوونما اور ترقی کے لیے بہت کچھ کیا ہے، حتیٰ کہ عقائد تک کو اسی نظر سے پیش کیا ہے۔ اللہ کے وجود اور اُس کی وحدانیت، روزِ قیامت اور روزِ جزا، جب کہ انسان اپنے اعمال کا حساب دے گا، ان تمام کوعقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اس کا طریقۂ ترغیب عقلی دلائل ہیں۔
عقل و فہم میں وسعت و گہرائی پیدا کرنے کی خاطر اسلام علم کا حاصل کرنا (خواہ وہ کہیں سے بھی ملے) ضروری بلکہ فرض قرار دیتا ہے، تاکہ فرض کی ادائیگی سے اُسے یہ احساس ہو کہ وہ اللہ کے قریب آگیا ہے اور اس کی نظر میں عزیز ہے۔ چند کتابوں تک علم کو محدود سمجھنے کے بجائے دُنیا کی ہرشے سے علم (خواہ وہ عبرت کی صورت میں ہو) حاصل کرنا چاہیے۔ اسلام دُنیا کے بحربے کنار کی گہرائیوں سے دولت علم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے اور جب انسان دیکھتا ہے کہ اس مالک الاملاک نے دُنیا کی تمام اشیا اس کے لیے بنائی ہیں، تو اس کی اعلیٰ و برتر ہستی پر اس کا اعتقاد اور مضبوط ہوجاتا ہے۔ قرآنِ پاک اپنے ارشادات میں ہمیشہ جہالت اور جاہلیت پرلعنت بھیجتا رہا ہے اور مسلمانوں کے علم حاصل کرنے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا رہا ہے۔
اس معیار تنقید و تجزیہ نے الٰہی قوانین کو جامد بنانے کے بجائے حرکی قوت عطا کی۔ چونکہ انسان تیزی سے مادی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور دُنیا بھی ہرلحظہ متغیر ہے، اس لیے اسلام نے بھی اس دوڑاور تبدیلی کا ساتھ دینے کی خاطر اپنے قوانین کو نئے رنگ میں رنگنے کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی کہ وہ اپنے بنیادی مقاصد سے دُور نہ چلے جائیں۔
اس کسوٹی یا معیارِ تنقید کو ہم ’مطابقت‘ یا ’قیاس‘، ’استصلاح‘ یا ’کارآمد و عمدہ استعمال‘ کا نام دیتے ہیں۔ سوسائٹی کی فلاح و بہبود کے لیے اور اسے ضرر رساں عناصر سے پا ک کرنے کے لیے ہم اسی مفہوم کے دوسرے تنقیدی اصول بھی استعمال میں لائیں گے۔
لیکن بدقسمتی سے ان معیارِ تنقید کے اصولوں کو بنیادی نظریات کے لیے مسلسل استعمال نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے اسلامی نظریۂ مملکت ارتقائی منازل طے نہ کرسکا۔ نتیجہ یہ کہ مسلم مملکتیں بہت جلد زوال کا شکار ہوگئیں، اور مسلم سوسائٹی بے جان و جامد ہوکر رہ گئی اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس کا الزام، اپنے اور پرائے، غلط راہوں پر چلنے والے مسلمانوں کے بجائے اسلام کے سر تھوپ دیتے ہیں۔
مملکت کے صدر یا خلیفہ کا انتخاب بااثر ووٹوں سے ہوتا تھا۔ اس طریقۂ انتخاب کو جدید اصطلاح میں ’الیکشن‘ کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت الیکشن کا کوئی باقاعدہ لائحہ عمل تجویز نہیں کیا گیا تھا کیونکہ کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔
خلیفہ مملکت کے انتظامی اُمور میں خودمختار نہ تھا بلکہ الشوریٰ کے ذریعے یا جدید اصطلاح میں پارلیمنٹ کے ذریعے اس کے اختیارات محدود کر دیئے گئے تھے۔ لیکن آج کل کی طرح مجلس کی پیچیدہ اور طویل کارروائی تک نوبت نہیں آتی تھی۔ الشوریٰ کی سادی و مختصر صورت اور دوسرے اصولوں کی ہیئت و عمل اس وقت کی تمام ضروریات کو پورا کر رہا تھا، اور یہ اُس زمانے میں ایک جدید ترین اور انفرادیت کا حامل نظام تھا۔ اس دور کے مسلمان،اللہ کی عبادت کے مفہو م سے پوری طرح آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ قانون کی لاٹھی سب کے لیے ایک ہی ہے، خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو ، کسی رُتبے کا ہو یا کسی رنگ کا ہو اور انصاف سب کے لیے ہے۔ آزادیٔ خیال اور آزادیٔ تقریر و تنقید ہر ایک کو مساویانہ طور پر حاصل تھی۔ چونکہ وہ اخلاقی اقدار کے پرستار تھے اور اس کے اُصولوں پر سختی سے عمل کرتے تھے، اس لیے دُنیا کی حرص و ہوس سے دامن بچائے رکھتے تھے اور رشوت ستانی جیسی اخلاقی بُرائیاں جو ہوسِ دُنیا کا نتیجہ ہوتی ہیں اور سوسائٹی کی جڑیں کھوکھلی کردیتی ہیں، ان کے نزدیک نہ پھٹکتی تھیں۔
اس کی حقیقی قدروقیمت کا اندازہ اس سے ہوجائے گا کہ یہ نہ تو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کا کوئی مخصوص طریقۂ کار پیش کرتا ہے اور نہ اسے ایسا مستقل اور اٹل بنادیتا ہے کہ آنے والی نسلیں اس میں اپنے فہم و علم کے مطابق تبدیلی پیدا نہ کرسکیںاور نئے حالات و مسائل سے نپٹ سکیں۔ اس طرح عام اور بنیادی اصول پیش کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ انسان حالات کے مطابق جو طریق ہائے کار مناسب سمجھیں، اسی کے مطابق ان کو لاگو کریں۔ ان اصولوں کی یہ تبدیل ہونے والی یا حرکی خاصیت ثابت کرتی ہے کہ وہ ایسے الٰہی قوانین ہیں، جو ہر زمانے اور ہردور میں ہرجگہ قابلِ عمل ہیں۔
اخلاقی و معاشی اصولوں کا بھی یہی حشر ہوا۔ مختلف طبقوں کو مدغم کرنے یا ختم کرنے کا اصول جو بیک وقت اخلاقی و معاشی حیثیت رکھتا تھا، اس کو کبھی عملی جامہ نہ پہنایا گیا۔ عالم گیر اخوت اور حملہ آور کا مل کر مقابلہ کرنے کے اصول جو سیاسی ہونے کے علاوہ اخلاقی بھی تھے، ہمیشہ نظرانداز کیے جاتے رہے۔ نہ کوئی خاص انجمن یا مجلس ہی بنائی گئی، جو ان بنیادی اصولوں کو صحیح طور پر عمل میں لاسکے اور ان کی وضاحت کر سکے۔ اسلامی تاریخ میں اس قسم کے روح فرسا واقعات کا بیان مل جاتا ہے کہ جس وقت مسلمان عثمانی ترکوں کے تحت مشرقی یورپ کو تاراج کر رہے تھے اور وی آنا کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ بالکل اسی وقت بنواُمیہ کو اندلس میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
اسلامی نظریہ مملکت سے متعلق چند دینی تقاضوں کا مختصر بیان: اسلامی نظریۂ مملکت صحیح معنوں میں اس وقت عمل میں آسکتا ہے، جب کہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:
یہ اسلام کے وہ بنیادی و نمایاں اصول ہیں، جو ہم نے مغربی اصولوں کے مقابلے میں بیان کیے ہیں۔ یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ مغربی مفکرینِ سیاست مذہب و معاشیات کی وحدت کے بجائے ان کے الگ الگ انفرادی طریق کار کو پسند کرتے ہیں۔ اگرچہ سماجی تباہی و بربادی سے مجبور ہوکر فرانس (۱۹۴۶ء)، جرمنی (۱۹۴۷ء) اور اٹلی (۱۹۴۹ء) کے قوانین نے سماجی و معاشی اصولوں کو ملا دیا تھا، لیکن پھر بھی وہ اسلامی قوانین سے مختلف ہیں۔ اسلامی دستور میں احکام کی پابندی کا انحصار حکومت کی طاقت کے بجائے انسانی شعور و ضمیر پر ہے۔ مسلمان کا ضمیر، الٰہی قوانین کا پابند ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ گارنٹی ہے۔
پھر یہ بات بھی بیان کی جاچکی ہے کہ اسلام ان تینوں مادی عناصر کو ان کے اتحاد ثلاثہ کی صورت ہی میں قبول کرسکتا ہے۔ چونکہ اسلام کو مملکت کے ڈھانچے پر اسلامی رنگ چڑھانا تھا، اس لیے اس نے اخلاقی، سیاسی اور معاشی اتحاد ثلاثہ پر بھی زور دیا اور قومیت کے بارے میں اس کا نظریہ دوسروں کے نظریات سے زیادہ وسیع اور ان سے زیادہ انسانی اقدار کو لیے ہوئے ہے۔
ان اصولوں نے انسان پر واضح کر دیا کہ خدا نے اسے تخلیق کیا اور زمین پر اپنا نائب مقرر کیا تو اس نے کسی ایسے امتیاز کو روا نہ رکھا۔ چونکہ انسان خدا کی مخلوق ہیں، اس لیے سب ایک ہی رُتبے کے مالک ہیں۔ اس کی نگاہ میں کوئی برتر یا کمتر نہیں ہے۔
قرآن پاک میں آیا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا‘‘۔ ’انسان‘ سے یہاں مراد کوئی مخصوص علاقے کا انسان نہیں بلکہ بغیر تفریقِ قوم و علاقہ بیان کیا گیا ہے۔ اس اصول کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ تمام دُنیا کے انسان بھائی بھائی ہیں اور ان پر اس زمین میں اللہ تعالیٰ کے نائب ہونے کے فرائض اور ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔
قرآن میں اس مساوات کے متعلق کئی آیات ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے کہ ’’دوسرے انسانوں سے نرمی برتو اور رحم سے پیش آئو تاکہ اللہ کی رحمت تم پر ہو‘‘۔ اس میں تمام انسانوں سے ایسے سلوک کی ہدایت کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی تخصیص نہیں کی گئی۔ پس اسلام کا مقصد اس دُنیا میں یہی ہے کہ عالم گیر اخوت کو رائج کرے اور مختلف قوموں میں یک جہتی اور وحدت پیدا کرے۔ مسلم قومیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ محدود حدود میں گھری ہوئی ہے۔ اس میں تنگ نظری نہیں بلکہ فراخ دلی ہے۔ یہ ہرغیر ملک و قوم کے ساتھ برابر کا سلوک کرتی ہے، اور تعصب برتنے کے بجائے اللہ کی زمین کے آخری کونے میں رہنے والے انسان سے بھی محبت کرتی اور خوش آمدید کہتی ہے۔
مختصراً اسلام میں عالم گیر قومیت کا مطلب کئی قومیتوں کا اتحاد ہے۔ جزئیات مل کر ایک عالم گیر وحدت کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور اسلام کثرت میں وحدت کا جلوہ دیکھتا ہے، جب کہ مقامی قومیت اس لیے ہے تاکہ وہ آئینی حیثیت سے پابند ہوکر ایک گھر بنا کر رہیں اور اس کی مقامی و جغرافیائی ضروریات کے مطابق باہمی معاملات و مسائل کا تصفیہ کریں۔ اسلام مقامی قومیت کو صرف اسی نقطۂ نظر سے مملکت کی تعمیر میں ایک لازمی عنصر خیال کرتا ہے۔
جب ہم اسلامی نظریۂ قومیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں:
اس کے برخلاف مغربی اقوام نے نسل و رنگ کے امتیاز کو اپنایا اور اس برتری کی آڑ میں دُنیاوی حرص و ہوس کی تسکین کی اور کئی ملکوں کو غلام بنا کر لوٹا۔ پچھلی جنگوں کی بنیاد صرف یہی دُنیاوی لالچ تھا جس نے کہ نوآبادیاتی اور شہنشاہی نظام کو جنم دیا۔ اس قسم کی قومیت کو پروفیسر آرنلڈ ٹائن بی مشہور تاریخ دان نے بہت بُرا خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم صرف اسی وقت بچ سکتے ہیں اور سلامتی کی اُمید رکھ سکتے ہیں، جب کہ دُنیا میں ایک عالم گیر قومیت کا شعور بیدار ہوجائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ تنگ نظر قومیت پرستی اس دُنیا کو تباہی و بربادی کے گہرے گڑھوں میں پھینک کر دم لے گی‘‘۔
نومبر ۱۸۹۳ء میں ہندستان پر قابض بر طانوی استعمار کے نمایندے وزیر امور خارجہ مارٹیمر ڈیورنڈ اور امیر افغانستان عبدا لرحمٰن خان کے درمیان تین ماہ سے جاری خفیہ مذاکرات کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان ایک مستقل معاہدہ ہوا۔ جس میں ہندستان اور افغانستان کے مابین شمال مغربی سرحد کا تعین ہوا۔۲ہزار ۶سو۴۰کلومیٹر طویل اس سرحد کو خط ڈیورنڈ (Durand Line) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق: واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا۔ افغانستان: استانیہ ،چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل، کرم، باجوڑ، سوات، دیر، چلاس اور چترال پر اپنے دعوے سے معاہدے کے مطابق دستبردار ہوگیا۔
۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ءکو جب پاکستان بر طانیہ سے آزاد ہوا تو دیگر تمام معاہدوں کے ساتھ یہ معاہدہ بھی بر قرار رہا، لیکن بعد میں افغان حاکم ظاہر شاہ کے دور میں کابل کی حکومت نے خط ڈیورنڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور دعویٰ کیا کہ دریائے اٹک تک کا علاقہ، افغانستان کا حصہ ہے۔
اسی بنیاد پرحکومت افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی اور بعد میں ان علاقوں کو پختون آبادی کی بنیاد پر ’پختونستان‘ قرار دے کر اس کی آزادی کا مطالبہ کرتے رہے اور پاکستان میں مقیم قوم پرست حلقے بھی ان کے ہمنوا رہے۔ اس کے بعد کمیونسٹ حکمرانوں اور دیگر اَدوار میں بھی یہ معاہدہ برقرار رہا، لیکن افغانستان کی جانب سے حل طلب ہے، جب کہ پاکستان اور تمام بین الاقوامی اداروں نے اس کو پاک افغان سرحد کے طور پر قبول کیا ہے۔
یہ پس منظر بیان کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی پاک افغان سرحد پر تناؤ کی کیفیت پیدا ہو تی ہے، تو افغانوں کے اس ذہنی پس منظر کو مدنظر رکھنا ہو گا۔جب ۲۰۲۱ء میں امارت اسلامی افغانستان بحال ہو ئی، تو بجا طور پر پاکستانی عوام نے ان سے کئی توقعات وابستہ کیں۔ اس سے پہلے کے دور حکومت میں (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) طالبان اور پاکستان کے مابین نسبتاً خوش گوار تعلقات کار تھے۔ پاکستان نے ان کی حکومت کو رسمی طور پر تسلیم بھی کیا تھا،لیکن سرحد کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی تھی۔آج، اس وقت بھی افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہے،لیکن اس کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس لیے ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے طور پر اس متنازعہ فیہ مسئلے کو حل کریں گے، ممکن نہیں ۔ابھی باڑ (Fence) لگانے کے مسئلے پر چمن بارڈر پر جو افسوس ناک واقعات پیش آئے ہیں، وہ اسی مسئلے کا شاخسانہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو تاریخی گزرگاہیں ہیں ان پر شہریوں کی آمدورفت کے حوالے سے کئی مسائل ہیں، جس کی بارہا نشاندہی کی جاچکی ہے، لیکن پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔ بین الاقوامی سرحد پر آمد ورفت کے لیے جو معیاری سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، وہ بھی پو ری نہیں کی ہیں۔ رشوت دے کر پار کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے عملے کے درمیان تلخی بھی تنازعات کا باعث بنتی ہے۔
لیکن پاکستان کے عوام کے لیے زیادہ اہم اور سنگین مسئلہ ملک میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ (TTP) کی روز افزوں دہشت گردی ہے،ان کا خاص ہدف پولیس کے اہل کار ہیں، ان کی چیک پوسٹوں پر متعین سپاہیوں کو نشانہ بنا یا جارہا ہے، جب کہ پاکستان کی مسلح افواج کی گاڑیوں کو بھی ریموٹ کنٹرول بموں سے اڑایا گیا ہے۔ صرف ۲۰۲۲ء میں تخریب کاری کے ۳۲۶ واقعات ہوچکے ہیں، جن میں ۳۵۲ ؍افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں ۶۴ پولیس اہلکار، ۵۰فوج کے جوان اور ۲۲۴عام شہری شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی نے ۲۰۲۰ء میں جس سیز فائر کا اعلان کیا تھا، اس کو ختم کر نے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے اور مذاکرات کا عمل بھی ختم ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے ان تخریبی سرگرمیوں کا مرکز صوبہ خیر پختونخوا بن چکا ہے۔ خاص طور پر قبائلی اور جنوبی اضلاع میں کارروائیاں عروج پر ہیں۔گذشتہ ہفتے لکی مروت اور بنوں میں بڑے واقعات ہو چکے ہیں، جن میں پولیس اور ’ان کا ؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ‘ (CTD) کی چوکیوں اور مراکز کو نشانہ بنا یا اور بنوں میں مرکز تفتیش میں بڑی تعداد میں عسکری و دیگر اداروں کے اہلکاروں کو یرغمال بنا یا گیا۔ لیکن کمانڈو ایکشن کے ذریعے یہ کوشش ناکام بنا دی گئی۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کا فی الحال کو ئی امکان نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف مذاکرات کا کوئی سرا بھی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔افغان طالبان کی ایما پر حکومت پاکستان اور طالبان تحریک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔یہ مذاکرات دراصل پاکستانی فوج اورٹی ٹی پی کے مابین ہو رہے تھے، جن میں قبائلی عمائدین اور بعض علمائے کرام کو واسطہ بنایا گیا تھا۔ لیکن پاکستانی طالبان کے مطالبوں کو تسلیم کرنا ریاست پاکستان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ملکی سیاست میں جو دنگل اس وقت چل رہا ہے، اس میں سیاسی قیادت اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ افغان اُمور پر سنجیدگی سے غور وفکر کر کے اہم فیصلے کر سکے۔
اس دوران افغانستان میں امارت اسلامی نے ایک چونکا دینے والا فیصلہ کر کے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو سفارتی طور پر تسلیم نہ کرنے کے غیرمنصفانہ رویے پر افغان قیادت کا رد عمل ایک عجیب و غریب اقدام کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ امارت اسلامی کی وزارت اعلیٰ تعلیم کے عبوری وزیر مُلّا ندا احمد ندیم نے امیر مُلّا ہیبت اللہ کی ہدایت پر افغانستان میں بچیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کا حکم نامہ جاری کردیا۔ اس سے پہلے ساتویں درجے سے لے کر ۱۲ویں کلا س تک پابندی عائد کی گئی تھی، جس پر اکثر ولایتوں میں عمل درآمد جاری تھا۔ اب تمام سرکاری اور نجی یونی ورسٹیوں اور پیشہ ورانہ کالجوں کی گریجویٹ کلاسوں کی طالبات پر بھی تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں ۔اس اقدام کی مذمت میں یورپی اور مغربی ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی حکومتوں نے بیا نات جاری کیے ہیں۔ ہم نے ترجمان (ستمبر ۲۰۲۲ء) میں اس موضوع پر اسی خدشے کا اظہار کیا تھا اور بعض مغربی ممالک کے سفارت کاروں سے ملاقاتوں میں ،ان پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان کو تنہا کرنے کی کوشش ترک کرکے ان کو بین الاقوامی برادری کا حصہ بنا ئیں، تاکہ وہاں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر آئیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان سمیت مسلم اور پڑوسی ممالک افغانستان کو تسلیم کر کے افغان عوام کو ریلیف پہنچائیں اور غیرصحت مند اقدامات کو مکالمے کے ذریعے درست سمت دے سکیں۔
آپ نے آج تک گھروں، دکانوں یا بنکوں میں ڈاکا پڑنے کا حال تو سنا ہوگا، مگر پورے کا پورا ملک ڈاکے میں اڑا لے جانے کی مثال اس سے پہلے کم ہی دیکھی سنی گئی ہوگی۔ لیکن بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد نے ۱۷کروڑ آبادی پر مشتمل پورا ملک لوٹ کر انفرادیت قائم کی ہے۔ پھر یہ کام صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ دو، دو بار کیا: پہلے ۲۰۱۴ء اور پھر ۲۰۱۸ء میں۔
۱۰ دسمبر ۲۰۲۲ کو بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) نے ڈھاکہ میں لاکھوں لوگوں کے جلسے کے دوران اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے۔ اس نئی تحریک کا ایک نکاتی ایجنڈا ’فاشسٹ حسینہ واجد کی ظالمانہ حکومت کا خاتمہ‘ ہے، جو ۲۰۰۸ء سے شروع ہونے والے اپنے ۱۵سالہ دورِ ظلم میں ملک کی معیشت، سیاست، تعلیم، عدلیہ، فوج اور پولیس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے۔
ملک کے سول اور عسکری اداروں کو حسینہ واجد کی پالیسیوں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ قومی اداروں کی کچھ ایسی درگت بنا دی ہے کہ یہ اب صرف اس کے ظالمانہ اور بدعنوان احکامات کی پیروی میں چلنے والے روبوٹ ہیں۔ اخباروں میں شائع ہورہا ہے کہ ملکی خزانے سے ۷ ارب ڈالر غائب ہو چکے ہیں۔ سرکاری و نجی بنکوں سے اربوں ٹکے [روپے] لوٹے جا چکے ہیں۔ ساڑھے سات ہزار کروڑ ٹکہ تو صرف ملک کے سب سے بڑے بنک ’اسلامی بنک بنگلہ دیش لمیٹڈ‘ (IBBL) سے لوٹ لیا گیا ہے۔ یہ سب کارستانی حسینہ واجد کے قریبی ساتھیوں نے جعلی کاغذات، جعلی کمپنیوں اور جعلی پتوں کے ساتھ انجام دی ہے۔ تاحال سرکار کی طرف سے ان الزامات پر نہ کسی تحقیق کی خبر ہے اور نہ کسی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
حسینہ واجد حکومت کے منصوبے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لوگوں کے ووٹ پر ڈاکازنی کے لیے سب سے پہلے اس نے اپنی ماتحت عدلیہ کے ہاتھوں، انتخابی عمل مکمل کرانے کے لیے نگران حکومتوں کا نظام ختم کردیا۔ یاد رہے، جنرل حسین محمد ارشاد کے آمرانہ دور کے اختتام پر ۱۹۹۱ء میں تمام جماعتوں نے باہمی اتفاق سے پروفیسر غلام اعظم کے پیش کردہ تصور کے مطابق انتخاب کرانے کے لیے نگران حکومتوں کا نظام لاگو کیا تھا۔ اُس وقت حسینہ واجد کی جماعت بنگلہ دیش عوامی لیگ بھی اس اتفاق رائے میں شامل تھی، لیکن بعد میں عوامی لیگ نے انتخابات پر شب خون مارنے کے لیے اس معاہدے سے رُوگردانی کا رویہ اختیار کر لیا۔
حزبِ اختلاف کے حلقوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا تھا کہ جب تک یہ ٹولہ اقتدار کی کرسی پر موجود ہے، ریاستی ادارے اس کے اقتدار کو طول دینے کے لیے انتخابات میں دخل اندازی کرتے رہیں گے۔ اسی لیے حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے حسینہ واجد کے کروائے گئے ۲۰۱۴ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور انتخاب کے دن یہ ثابت بھی ہو گیا کہ ان کے خدشات مبنی بر حقیقت تھے۔ آدھے سے زیادہ انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی جگہ ہی مقرر نہیں کی گئی تھی، چنانچہ تمام نشستوں پر شیخ حسینہ اور اس کے ساتھیوں کو شان دار ’کامیابی‘ حاصل ہوئی۔ انتخابات تو عوام کو با اختیار بنانے کے لیے منعقد ہوتے ہیں، لیکن بنگلہ دیش میں یہ سارا عمل اقتدار پر قابض ٹولے کی چوری چھپانے کے لیے دُہرایا گیا ہے۔
یہ بات سخت مایوس کن رہی کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ۲۰۱۴ میں شیخ حسینہ کی انتخابی دھونس و دھاندلی کو برداشت کر لیا۔ جب ملک پر سماج دشمن قوتوں کا قبضہ ہو تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا جرم ہے۔ ۲۰۱۴ میں اس کامیاب ڈاکازنی کےبعد حسینہ حکومت مزید بے باک ہو گئی اور اسے عوام کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھنے کے لیے پارلیمنٹ پر کنٹرول حاصل ہوگیا۔ چنانچہ اس نے غیر عدالتی قتل، جبری گمشدگیوں،حزب اختلاف کے رہنماؤں کی پھانسیوں اور اسلام دوست قوتوں کی نسل کشی کا منصوبہ پوری قوت سے جاری رکھا۔ سیکڑوں علما ہنوز جیلوں میں بند اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ چار سال تک ایک غیر قانونی پارلیمان کا حصہ رہنے کے بعد حال ہی میں بی این پی کے سات ارکان نے اپنی رکنیت سے استعفا دے دیا ہے۔ ان استعفوں کا اعلان ۱۰ دسمبر ۲۰۲۲ کو کیا گیا ہے۔ ان اراکین کو اگر جمہوری اقدار سے محبت یا عوامی ووٹوں کی چوری سے نفرت ہوتی تو یہ اس چوری شدہ الیکشن سے اگلے ہی دن مستعفی ہو جاتے۔ لیکن بی این پی اور دیگر جماعتیں اس سیاسی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہیں۔
یہ ایک مایوس کن حقیقت ہے کہ بی این پی کو شیخ حسینہ کے خلاف یک نکاتی مہم کا فیصلہ کرنے میں ۱۵ سال لگ گئے۔ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایک گھنٹے کے لیے بھی کسی بدعنوان حاکم کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ لیکن بنگلہ دیش میں حالات اس کےبرعکس ہیں اور یہ بنگالی عوام اور ریاست کے لیے انتہائی شرمندگی کا مقام ہے۔
اگر بی این پی کے رہنماؤں کو لگتا ہے کہ وہ اکیلے حسینہ واجد سے نپٹ سکتے ہیں تو شاید انھیں ملک میں کارفرما تمام تر غیر جمہوری قوتوں اور ان کی صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ شیطانی قوتیں ملک کی جڑوں تک اپنا رسوخ رکھتی ہیں اور متحد ہو کر کام کرتی ہیں۔ چنانچہ یہ فرض کرلینا غلط ہو گا کہ یہ حواری اتنی آسانی سے قابض حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ یہ لوگ سیاست، پولیس، فوج، عدلیہ اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر مکمل رسوخ رکھتے ہیں۔ بی این پی اتنے بڑے اتحاد کے خلاف تن تنہا کیونکر کامیاب ہو سکتی ہے؟
بی این پی کے رہنما جانتے ہیں کہ شیخ حسینہ کو ہٹائے جانے کا سب سے زیادہ فائدہ انھیں ہوگا۔ اس لیے انھیں اس تحریک کے دوران صف اول میں رہنا ہو گا اور قربانیاں بھی دینا ہوں گی۔ بی این پی کو اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا ہو گا کہ شیخ حسینہ ،سابق صدر جنرل ارشاد جیسی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اپنے آخری دنوں میں جنرل ارشاد اپنی سب سے بڑی طاقت یعنی فوج کی حمایت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے برعکس حسینہ کو ہنوز فوج کی حمایت حاصل ہے، جس کے پیچھے ایک مخصوص وجہ یہ ہے کہ عوامی خزانے کی لوٹ مار میں سب سے بڑا حصہ فوج کو ملتا ہے۔ بنگلہ دیشی فوجی قیادت کو یہ سہولت توجنرل ارشاد کے زمانے میں بھی حاصل نہیں تھی۔ مزیدبرآں جنرل ارشاد کو بھارت کی اس درجے میں پشت پناہی بھی حاصل نہیں تھی۔ ہندستان کی ’ہندوتوا پرچارک‘ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ بنگلہ دیش میں ان کے مہرے کو شکست ہو۔ اس کے علاوہ عوامی لیگ کی نئی دہلی حکومت سے نظریاتی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔ عوامی لیگ کے فسطائی رہنما ’ہندوتوا‘ کے فسطائی رہنماؤں کی جانب نظریاتی جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اسی لیے یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ عوامی لیگ کے فسطائیوں نے بابری مسجد کی شہادت یا ہندستان میں مسلمانوں کے قتل عام کی کبھی مذمت نہیں کی۔
بنگلہ دیش کی دینی قوتوں کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ چونکہ حسینہ واجد نے خود کو ’ہندوتوا‘ کا دوست ثابت کیا ہے، اس لیے اُمت مسلمہ سے بے وفائی کرکے مشرک قوتوں کی ہم نوائی کرنے والی مقتدر انتظامیہ کےخلاف سیاسی میدان میں تحریر، تقریر، اجتماع اور سوشل میڈیا پر کی جانے والی جدوجہد عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے ان میں سے اگر کوئی انتخابی عمل میں حصہ لیتا ہے یا حصہ نہیں لیتا، مگر اسے کم از کم عوامی جدوجہد میں اپنا مؤثر کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔
دسمبر ۲۰۱۸ء میں یہی دن تھے جب خرطوم کی سڑکوں پر عوامی احتجاج کاشعلہ بھڑکا۔ وہ احتجاج روٹی کی قیمت تین گنا ہونے پرشروع ہوا تھا اور پھر مظاہروں کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل نکلا۔ مسلح افواج کے ہیڈکوارٹر کے سامنے دھرنا دیا گیا اور تین عشروں سے جما ہوا عمرحسن البشیر کے مقتدر نظام کا دھڑن تختہ ہوگیا۔
عبوری حکومتی نظام، فوجی قیادت اور فوج کے مقرر کردہ سول نمایندوں پر مشتمل تھا، جس میں زیادہ تر کمیونسٹ اور نیشنلسٹ خیالات کے حامی شامل تھے۔ یہ عبوری حکومت ’عدل و انصاف کے قیام، حُریت و آزادی اور عام آدمی کی خوش حالی‘ کے نعروں کے ساتھ برسرِاقتدار آئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ تین برس گزرنے کے بعد یہ سارے مقاصد، اہداف اور نعرے حاصل ہوسکے؟ اس جائزے سے پہلے ضروری ہے کہ صدر عمرحسن البشیر کے۳۰سالہ دورِاقتدار کا مختصر طور پر جائزہ لیا جائے۔
یہ ۱۹۸۹ء تھا جب عمرالبشیر فوجی انقلاب لے کر آئے۔ اس وقت سوڈان کی کمزور ترین حکومت کی باگ ڈور وزیراعظم صادق المہدی کے پاس تھی اورجنوب میں ’پیپلز موومنٹ‘ متعصب علیحدگی پسند عیسائی رہنما جون قرنق کی زیرقیادت دردِ سربنی ہوئی تھی۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ سوڈان کا سارا جنوب جون قرنق کےقبضے میں چلا جائے گا۔ ان حالات میں کچھ فوجی افسروں نے جنرل عمر حسن البشیر کی زیرقیادت المہدی حکومت کا تختہ پلٹا اور ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
اقتدار کے ابتدائی کچھ برسوں میں انقلاب کی نظریاتی جہت کا تعین ڈاکٹر حسن الترابی [یکم فروری ۱۹۳۲ء- ۵مارچ ۲۰۱۶ء] اور ان کے رفقا پس منظر میں رہتے ہوئے کررہے تھے، جب کہ حکومتی اسٹیج پر نمایاں فوجی چہرے نمایشی حیثیت رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ بیرونی طاقتوں کی مدد و اعانت کی حامل اپوزیشن کی طرف سے فوجی حکومت کی مخالفت میں شدت آتی گئی، اور اپوزیشن کے کچھ گروہوں نے مسلح مزاحمت شروع کی، نیز ملک کے فیصلہ ساز مراکز میں دوئی کی بناپر فیصلہ سازی میں تضادات نمایاں ہونے لگے، تو مناسب یہی سمجھاگیا کہ ڈاکٹر حسن الترابی اورحکومت کے اعلیٰ عہدے داران ’حزب الموتمر الوطنی‘ کے پلیٹ فارم سے سامنے آکر اپنی سرکاری حیثیت میں شرکت اقتدار اور فیصلہ سازی کےعمل میں باقاعدہ شامل ہوجائیں۔تاہم، اسپیکر اسمبلی ہوتے ہوئے واضح ہوا کہ حسن الترابی وقت کی رفتار اور اپنی تبدیل شدہ حیثیت کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پائے اور اپنی نئی حیثیت کو چیلنج کرنے والے عہدے داران سے اُلجھتے رہے۔
اس دورکے مقتدر نظامِ حکومت میں چونکہ حسن الترابی اور ان کے رفقائے کار فیصلہ کُن اثرورسوخ کے حامل تھے، لہٰذا حکومتی اقدامات خواہ قانون سازی کے ہوں یا انتظام و انصرام کے، ان میں اسلامی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نمایاں اسلامی رنگ کی ایک وجہ جنوب کی طرف سے بڑھتا ہوا دبائو بھی تھا۔ فیصلہ سازوں کے خیال میں متعصب علیحدگی پسند عیسائی رہنما جون قرنق، جو سیکولر اپوزیشن گروپوں کے اتحادی بھی تھے، ان کا مقابلہ جوابی اسلامی احیائی لہر اور اسلامی شعور اور اسلامی جوش و جذبے کی بیداری ہی سے ممکن تھا۔ یہی وہ عرصہ تھا، جس میں سوڈانی مقتدرہ نے جہاد کی دعوت کو نوجوانوں میں عام ہونے دیا اور اس طرح بہت سے ایسے مسلح گروہ سامنے آئے جو جنوب کے عیسائیوں کے ساتھ معرکہ آرائی میں اپنی افواج کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔
اسی عرصۂ اقتدار میں سوڈانی قوانین اور معاشرے کی اسلامائزیشن کا عمل شروع کیا گیا۔ اس سلسلے میں جو نمایاں کارنامہ سرانجام پایا وہ سوڈان کے دستور کی اسلامی تدوین تھی۔ دستور کا یہ اسلامی رنگ ۱۹۹۸ء کے دستور میں نمایاں نظر آتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’شریعت اسلامیہ، اجماع اُمت ’دستورا اور عرفا‘ قانون سازی کا مصدر و منبع ہوں گے اور ان سے ہٹ کر ہرگز کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی‘‘۔ اسلامائزیشن کا یہ عمل تقریباً انھی خطوط پر تھا، جو صدرجنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمارے ہاں انجام پاچکا تھا۔
تاہم، اسلامائزیشن کے اس عمل کی وجہ سے یہ عشرہ، پڑوسی ملکوں اور علاقائی و بین الاقوامی طاقتوں کی طرف سے سوڈان کے محاصرے پر منتج ہوا۔ ان سب ملکوں کی طرف سے دشمنی پر مبنی اس رویے کا مقصود دراصل اسلامائزیشن کے عمل کو روکنا تھا۔ یہ عشرہ ۱۹۹۳ء میں سوڈانیوں کے لیے امریکا کی طرف سے ابتلا اور آزمایش کا یہ پیغام بھی لے کرآیا کہ سوڈان کا نام دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔ اب اگلے تین عشرے، سوڈانی عوام کو اس اعلان کی المناکیوں کو بھگتنا تھا۔ ملک کی درآمدات اور برآمدات تباہ ہوکر رہ گئیں۔ دُنیا کے بنکاری نظام سے سوڈان کا ناتا توڑ دیا گیا، جس کے سوڈان کی معیشت پر انتہائی خوفناک اثرات مرتب ہوئے۔ دوسری طرف خطے کی سیاسی صورتِ حال اس وقت یہ تھی کہ سوڈان کے پڑوسی ممالک ایتھوپیا، اری ٹیریا اور یوگنڈا کی مدد سے اپوزیشن اتحاد مسلح مداخلت پر تلا بیٹھا تھا۔ دوسری طرف مصر جسے سوڈان ہمیشہ اپنے مضبوط دفاعی حلیف اور پشتی بان کے طور پردیکھتا رہا، اس نے مکمل لاتعلقی کا رویہ اپنا لیا۔
عمر حسن البشیر کی حکومت نے گمبھیر ہوتی ہوئی اس صورتِ حال کا تدارک یہ نکالا کہ اقتدار کے دوسرے عشرے میں علانیہ اسلامائزیشن کا عمل تقریباً روک دیا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اور ان کے رفقا کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ ۱۹۹۸ء کے دستور میں ۲۰۰۵ء کے اندر ترمیم کردی گئی۔ اگرچہ دستور میں حسب سابق یہ الفاظ تو برقرار رکھے گئے تھے کہ شریعت اسلامیہ قانون سازی کا منبع و مصدر ہوگی، تاہم بہت ساری دفعات میں شریعت کے احکامات کو پہلے کی طرح برقرار نہیں رکھا گیا۔
مغرب کو خوش کرنے کے لیے کی جانے والی اس ساری کاوش کا حاصل تو کچھ نہیں نکلا بلکہ ’ڈومور‘ کے تقاضے کے ساتھ ان طاقتوں نے سوڈانی مقتدرہ کو مزید اَدھ موا کرنے اور اس کی قوت کو مضمحل اور شل کرنے کے لیے دارفور کے صوبہ میں علیحدگی پسند قوتوں کی نہ صرف سرپرستی اور مدد کی، بلکہ نسل کشی کے الزام میں صدر عمر حسن البشیرکے لیے انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری کروا دیئے۔ عالمی طاقتوں سے موافقت اور ان کی ڈکٹیشن قبول کرنے کا یہ عشرہ آخرکار جنوبی سوڈان سے مکمل دست برداری اور بالفعل ایک عیسائی مملکت کے قیام پر منتج ہوا۔
یوں عمرالبشیر حکومت نہ تو ملکی سالمیت برقرار رکھ سکی، اور نہ مقتدر حلقوں کی روزافزوں بدعنوانی کو روک سکی۔ سوڈانی مقتدرہ چند گنے چنے افراد کے گرد گھوم رہی تھی اور ملک فساد اور رشوت ستانی کا گڑھ بنتا جارہا تھا۔ اس پر طرفہ یہ کہ مقتدرہ کی ساری کارستانیاں، اسلامائزیشن کے علَم بردار اسلام پسندوں کے کھاتے میں درج ہوتی جارہی تھیں۔ سسٹم میں فیصلہ کن اختیار رکھنے والے بیرونی طاقتوں سے مفاہمت اور ان سے طاقت کے حصول کی اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے۔
بیرونی طاقتوں کی تائید و حمایت سے اقتدار اور سسٹم کو بچانے کے لیے ہی صدر عمر حسن البشیر نے دمشق کا دورہ کیااور شام کے خونی ڈکٹیٹر بشارالاسد سے راہ و رسم بڑھائی۔اسی طرح اقتدار کے اس آخری عرصے میں سوڈانی انٹیلی جنس سربراہ صلاح قوش کی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ سے ملاقاتیں بھی دراصل اسی پالیسی کا شاخسانہ تھیں۔ اب مقتدرہ کی کوشش تھی کہ اپنے آپ کو مغرب کا قابلِ اعتماد حلیف بتائے اور اسلامائزیشن کی کوششوں کے ناقد اور گریزپا کے رُوپ میں پیش کرسکے۔ تاہم، اب ہاتھ پائوں مارنے کا حاصل کچھ نہیں تھا۔ لہٰذا، چند ماہ کے عوامی احتجاج کے بعد بالآخر ۱۱؍اپریل ۲۰۱۹ء کو فوجی جنتا نے اپنے سابقہ سربراہ عمرحسن البشیر کی معزولی اور ایک فوجی مجلس سیادت کے قیام کا اعلان کردیا۔
چند ماہ بعد اگست ۲۰۱۹ء کو شرکت اقتدار کا فارمولا وضع کیا گیا جس کی رُو سے مجلس سیادت کے پانچ فوجی ممبران اور پانچ سویلین ممبران متعین کیے گئے۔ اس مجلس نے تین برس کے عرصے میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کرکے نومبر ۲۰۲۲ء کو اقتدار کی باگ ڈور منتخب جمہوری حکومت کو سونپ دینی تھی۔ سوڈان میں مسلسل چہ مگوئیاں ہوتی رہی ہیں کہ مجلس سیادت کے سویلین ممبران کا چنائو فوج نے خود کیا تھا، یا یہ نام مغربی طاقتوں کے فراہم کردہ تھے؟
اس مجلس سیادت کی قائم کردہ سول حکومت ملک کو کس ڈگر پر لے کر چل رہی تھی، اس کا اندازہ اس قانون سازی سے بخوبی ہو جاتا ہے، جو گذشتہ دو سالہ اقتدار کے دوران کی گئی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ اس کا ایجنڈا عالمی طاقتوں کی رضاجوئی ہے۔
علاوہ اَزیں مشرقی سوڈان کےعلیحدگی پسندوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے جس میں یہ اعلان بھی شامل ہے کہ سوڈان کا مجوزہ دستور سیکولر بنیادوں پر استوار کیا جائے گا۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ گذشتہ برسوں میں اس عبوری حکومت نے جو کچھ کیا ہے، اس کے نتائج کیا ہیں؟ اور کیا سوڈان کے مسلمان ان نتائج سے مطمئن ہیں؟ اکثر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ عام سوڈانی فرد اس حکومت کی کارکردگی سے مایوس بھی ہے اور ناراض بھی۔ اس وقت سوڈان کو تین بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے: آئی ایم ایف کی پالیسیاں معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان خلیج کو وسعت دے رہی ہیں۔ غربت اور بے روزگاری کے ساتھ مہنگائی زوروں پر ہے۔
سوڈان کی سالمیت اور وحدت کو درپیش خطرات ٹلے نہیں ہیں۔ جنوبی سوڈان کے بعد دارفور اور مشرقی سوڈان کی علیحدگی کی تحریکیں سرگرمِ عمل ہیں۔ان چیلنجوں سے نمٹنے کا واحدطریقہ اسلام پسندوں کا اتحاد اور سوڈان کی اسلامی شناخت کی طرف مخلصانہ واپسی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتخابات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔
۱۷دسمبر ۲۰۲۲ء کو تیونس کے عام انتخابات میں صرف ۸فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ سواکروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک تیونس، بحرِ روم کے کنارے شمالی افریقا میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو ’مغرب العربی‘ کہا کرتے تھے، جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد ہیں اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام ’بربری ساحل‘ بھی ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ علمی سطح پر مسجد و جامعہ الزيتونہ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں قائم ہونے والا تعلیمی ادارہ، دُنیا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے اور یہ بھی تیونس میں ہے۔
۲۴ دسمبر ۲۰۱۰ءکوبےر وزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بو عزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے بطور احتجاج خود کو نذر آتش کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہاں کے صدر زین العابدین بن علی (م:۲۰۱۹ء)نے پہلے تو طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور پھر معافی تلافی کی کوشش کی۔ لیکن طلبہ کے پر امن مظاہروں سے مجبور ہوکر۲۳ سال تک مطلق العنانیت سے منسوب خودساختہ مردِ آہن اپنے اہل خانہ کے ساتھ ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ءکو سعودی عرب فرار پر مجبور ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں، مگر ان کے مغر بی سرپرستوں نے اپنے پٹے ہوئے مہرے سے آنکھیں پھیر لیں۔
فوج نے اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ’حرکۃ النہضۃ‘ (تاسیس:۱۹۸۱ء) کے سربراہ راشد الغنوشی (پ:۲۲جون ۱۹۴۱ء)کو قومی حکومت بنانے کی دعوت دی، جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا۔ جناب غنوشی کا کہنا تھا:’’تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے، جو عوامی اُمنگوں کا ترجمان ہو‘‘۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔
اُسی سال ۲۳؍اکتوبر کومتناسب نمایندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں جوش و خروش دیدنی اور ووٹ ڈالنے کا تناسب ۹۰ فی صد رہا۔ النہضہ نے ۴۱ فی صد ووٹ لے کر ۲۱۷ کے ایوان میں ۹۰ نشستیں حاصل کیں، جب کہ اس کی مخالف سیکولر جماعت پی ڈی پی کو صرف ۱۷ نشستیں مل سکیں۔ کانگریس فار ری پبلک المعروف موتمر ۳۰ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔
النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اس کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے، ’’یہ دستور نہیں بلکہ انسانی اقدار کا منشور ہے، جس میں قیدیوں کے حقوق تک کی بھی ضمانت دی گئی اور تفتیش کے لیے تشدد کی ہر شکل کو قابل دست اندازیِ پولیس قراردیا گیا۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جس کے سربراہ حاضر سروس جج تھے ۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم قرار پایا۔آزادیٔ اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد کردیا گیا‘‘۔
آئین منظور ہوتے ہی جنوری ۲۰۱۳ء میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی، جس کی نگرانی میں ۲۶؍اکتوبر کو ایوان نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ لیکن ان انتخابات میں النہضہ کو شکست ہوگئی۔ فوج کی حامی ’ندائے تیونس‘ ۸۶ نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی اور ۶۹ سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔ پانچ سال بعد ۲۰۱۹ء میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے، جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت نہ حاصل کرسکی، لیکن ۵۲ نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔
کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ ۵۰ووٹ نہ مل سکے، چنانچہ ووٹوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر آنے والے قیس سعید اور ان کے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعیدکی حمایت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمینٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی ’انقلابِ یاسمین‘ کی کامیابی کے بعد تیونس میں تین پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوئے اور انتقالِ اقتدار سمیت کسی بھی مرحلے پر کوئی بدمزگی دیکھنے میں نہ آئی۔نظریاتی اختلافات کے باوجود وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزب اختلاف کے تعلقات انتہائی شان دار رہے۔
عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ’ربیع العربی‘(Arab Spring) کے آغاز پرعرب حکمراں، اسرائیل اور ان کے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھے۔ تب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ شیوخ و امرا نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے، وہیں اس کی بنیادیں اکھیڑنے کے لیے ان کے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا۔جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہے۔
’ربیع العربی‘ صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی ۔ مصر میں مغرب و اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی اُمنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی، جب کہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے جہاں فرقہ وارانہ محاذآرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمینٹ کو منتقل کیے، لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردیئے گئے۔ تیونس کی اس کامیابی کو عالمی و علاقائی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا او ر اس کے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔
مارچ ۲۰۲۰ء میں وارد ہونے والے کورونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔اب جمہوریت دشمنوں کی جانب سے حکومت کے خلاف الزام تراشی اور انگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوا،اور تیونسی سیاست دانوں کی برداشت اور مل کر کام کرنے کی ۱۰سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا۔صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کے لیے پارلیمان ان کے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگارہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ’’پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی، تاہم فوری اقدامات کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈی ننس پر وہ اعتراض نہیں کریں گے‘‘۔
فوج کی ایماپر حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی اس کا رُخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔ پارلیمان کا گھیراؤ کرکے حکومت سے استعفا کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پرحملے کئے اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی اور مارشل لا کے فلک شگاف نعرےبلند ہوئے۔ صدر قیس نے ۲۵ جولائی ۲۰۲۱ءکو پارلیمان معطل کرکے وزیراعظم ہشام المشیشی کو کابینہ سمیت گھر بھیج دیا۔قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے حکومت پر سنگین الزام لگائے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گئے کہ ’’اگر کسی نے صدارتی حکم کی خلاف ورزی کی، تو مسلح افواج روایتی تنبیہہ کے بغیر گولی چلائے گی‘‘۔
ابتدا میں جناب راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیش کش کردی۔معزول وزیراعظم نے بھی صدر کافیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طور پراقتدار منتقل کردیں گے۔ لیکن اس پیش کش کے جواب میں فوج نے پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ ساتھ ہی صدر قیس نے منتخب قانون ساز اسمبلی سے منظور کیا جانے والا دستور بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا، اور نئے آئین کی تدوین کے لیے 'قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ دوسری طرف معیشت کی تعمیر نو کے لیے ایک عظیم الشان منصوبے کا اعلان ہوا جس کے مطابق: ’’حکومت کے زیرانتظام تمام اداروں کوفروخت کردیا جائے گا اور انھیں فروخت کے لیے پُرکشش بنانے کی غرض سے ان میں بڑے پیمانے پر چھانٹی ہوگی‘‘۔
نئے دستور کا مسودہ سامنے آتے ہی تیونسی مزدوروں کی وفاقی انجمن ’الاتحاد العام التونسي للشغل‘(UGTT) نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’بڑی طاقتوں کے ایما پر تحریر کی جانے والی یہ دستاویزِ غلامی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی ۔ عوام کی منتخب پارلیمان نے ۲۰۱۱ء میں جو آئین بنایا وہ تیونسیوں کی اُمنگوں کا ترجمان ہے اور اس کی منسوخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ اس کے باوجود حکومت نے ۲۶ جولائی کو ریفرنڈم کے ذریعے نیا دستور منظور کرلیا۔ طلبہ و مزدور یونینوں اور سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ریفرنڈم میں ووٹ ٖڈالنے کا تناسب صرف ۳۰فی صد رہا ۔
نئے دستور کی بنیاد پر اس ہفتے عام انتخا بات اس طرح ہوئے کہ سیاسی جماعتوں کو براہِ راست حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ جماعتی کارکنوں کے امیدوار بننے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت کا نام، پرچم یا نشان کے استعمال پر پابندی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ۲۵ فی صد نشستوں پر صرف ایک امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس فاروق بوسکار نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’۹۰ لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ۸ لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا‘‘۔ ’النہضہ‘ سمیت پانچ جماعتی ’محاذِ نجات‘ (Salvation Front)نے انتخابی ڈرامے کا بائیکاٹ کرکے صدر قیس سعید، نئے دستور اور پارلیمان کی تحلیل پر عوام نے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا ہے۔محاذ کے سربراہ احمد نجیب الشابی نے کہا کہ تیونسی صدر کے پاس اب استعفا اور دستور و پارلیمان کی بحالی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ تاہم، الغنوشی صاحب نے جمہوریت کے آبگینے کو حفاظت سے بحال کرنے کے لیے صدرقیس کو پیش کش کی ہے کہ اگر وہ عوامی اُمنگوں کا احترام کریں تو انھیں صدر برقراررکھا جاسکتا ہے۔
یاد رہے ، صدر قیس کی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔ صدر قیس نے عبوری وزیراعظم کے لیے جس خاتون کا انتخاب کیا وہ بھی معاملہ فہم شخصیت ہیں۔ المدرسہ الوطنیہ للمھندسين تیونس (National School of Engineers) میں ارضیات کی پروفیسر نجلہ ابومحی الدین رمضان، درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ النہضہ نے اپنے دورِحکومت میں انھیں ’تعلیمی کمیشن‘ کی سربراہ بنایا تھا۔
’النہضہ‘ کی جانب سے بڑھائے جانے والے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس طرح رعونت سے جھٹک رہے ہیں، اس کے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر تو کھل کر قیس کے پشت پناہ ہیں، جب کہ مغرب کچھ کھلے میں، اور کچھ چھپے میں ان کا پشتی بان ہے۔
آئین پر ریفرنڈم اور اس کے بعد عام انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے جناب قیس سعیداپنا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں اور معاشرے کو انتشار کا شکار کرکے طالع آزماؤں کے لیے نرم چارہ بنا رہے ہیں۔الجزائر، مصر اور فلسطین کے بعد تیونس میں عوامی اُمنگوں پر شب خون سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی کہ مغرب کے لیے وہی جمہوریت قابل قبول ہے جس کا قبلہ واشنگٹن یا بریسلز ہو۔
سوال : جب کوئی شخص غلط کام کرتا ہے تو مجھےخواہ مخواہ غصہ آجاتا ہے، حالانکہ میرا اس کام سے کوئی خاص واسطہ بھی نہیں ہوتا، مگر یہ سخت ذہنی اذیت کا سبب بنتا ہے۔ مثلاً کوئی نماز نہ پڑھے تو مجھے سخت ذہنی کوفت ہوتی ہے، اس کا کوئی علاج بتائیں؟
جواب : یہ کوئی بیماری نہیں ہے، جس کا علاج کیا جائے،یہ تو تندرستی کی علامت ہے۔ اگر کسی شخص کے نماز نہ پڑھنے پر آپ کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے تو خطرہ یہ ہے کہ ایک روز آپ خود بھی نماز چھوڑ بیٹھیں گے۔ اس کی تکلیف تو کم از کم آپ کو محسوس ہونی ہی چاہیے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آپ کو اسے تلقین کرنی چاہیے اور اسے اس کا فرض یاد دلانا چاہیے۔ البتہ، غصے اور کوفت کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ اگر غصے اور کوفت کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ اس کو صبر سے سمجھائیں اور تلقین کریں تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر غصے اور کوفت کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ آگے بڑھ کر اس سے اُلجھ پڑیں، تو یہ ایک غیرحکیمانہ فعل اور غلط قسم کا غصّہ ہوگا۔ تاہم، یہ بات واضح رہے کہ میں ہرغصے کو حلال بھی نہیں کہہ رہا ہوں۔ البتہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کا غصہ آپ کو نہ آئے تو یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔(مولانا مودودی، ۳۰؍اپریل ۱۹۷۵ء)
سوال : ہماری بستی کی مسجد میں ایک معروف واعظ صاحب نے اپنے وعظ کے دوران فرمایا: معراج کی رات حضوؐر کو خدائے قدوس کی طرف سے تین علم عطا ہوئے: (۱)علمِ شریعت (۲) علمِ طریقت (۳) علمِ حقیقت۔ حضوؐر کو ربّ کی طرف سے ہدایت ملی کہ علمِ شریعت امت کے ہر خاص و عام تک پہنچایا جائے۔ (۲) علمِ طریقت صرف چند خواص کو پہنچایا جائے۔ (۳) علمِ حقیقت صرف اپنے لیے مخصوص رکھا جائے۔ استدعا ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلے کا جواب عطا فرمائیں ؟
جواب : آدمی کو جب یہ پرواہ نہ رہے کہ اسے اپنے قول و فعل کا کہیں حساب بھی دینا ہے، تو پھر جو اس کے منہ میں آئے کہے اور جو دل میں آئے کرے، کون اس کی زبان پکڑ سکتا ہے؟ غیر ذمہ دار اور اللہ سے نہ ڈرنے والے واعظوں کے منہ میں لگام دینے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ جو باتیں وہ اللہ اور رسولؐ اور دین سے منسوب کرکے ارشاد فرمائیں، ان سے ان کا حوالہ دریافت کیا جائے، حوالہ نہ دے سکیں تو سامعین ان سے صاف کہہ دیں کہ ہم اپنے دین و مذہب کے متعلق کوئی ایسی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کے لیے قرآن یا حدیث یا معتبر اور معروف علما و ائمہ کی سند موجود نہ ہو۔
معراج کی تفصیلات احادیث میں درج ہیں، اور حضورؐ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں میں انھیں نقل کیا گیا ہے۔ ان میں کہیں درج نہیں کہ شب ِ معراج میں آپؐ کو تین طرح کے علوم عطا ہوئے ہوں، اور پھر وہ ہدایات بھی اللہ کی طرف سے دی گئی ہوں جن کا ذکر واعظ صاحب نے کیا ہے۔
ویسے یہ تو معلوم ہی ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہر فرد بشر سے زیادہ تھا۔ بہتیرے ایسے حقائق و معارف ہوں گے جو حضوؐر تک ہی محدود رہے اور ان کے انکشاف و اظہار کی ضرورت انھوں نے نہیں سمجھی۔ لیکن یہ ایسے ہی معارف ہو سکتے ہیں جن کا چھپانا کھولنے سے بہتر ہو، اور جن کا تعلق دینی تعلیمات سے نہ ہو۔ ایسی کوئی چیز حضورؐ نے امت سے چھپا کر نہیں رکھی جو ان کی روحانی ترقی کے لیے مفید اور تکمیلِ ایمان کے لیے مؤثر ہو۔
بعض خوش فہم کہتے ہیں کہ ’’آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت علیؓ کو بعض ایسے معارف و اَسرار سے آگاہ کیا تھا جنھیں کسی اور پر منکشف نہیں فرمایا‘‘۔ یہ بھی محض ایک بے بنیاد دعویٰ ہے، اور خود حضرت علیؓ کی زبانی اس کی تردید ملتی ہے۔ ان واعظ صاحب سے ضرور پوچھیے کہ شبِ معراج کی جو تفصیل آپ پیش فرما رہے ہیں وہ آپ کو کہاں سے معلوم ہوئی؟ (مولانا عامر عثمانی، مئی ۱۹۷۰ء)
بدیع الزماں سعید نورسی کے رسائل اور ان کی جماعت جو آن کی آن میں قوت پکڑگئی اور مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ مصطفےٰ کمال کے لیے ایک لادینی معاشرہ وجود میں لانے کے راستے میں پہلا روڑا ثابت ہوئی۔ چنانچہ مصطفےٰ کمال نے بدیع الزماں کو اسپارٹا کے ایک دُورافتادہ علاقہ ’بارلا‘ میں جلاوطن کردینے کے احکام صادر کر دیئے۔ وہاں موصوف کو شدید پہروں کے ساتھ یکہ و تنہا رکھا گیا۔ مگر بدیع الزماں کی پُرکشش شخصیت نے خود پہرہ داروں کے دلوں میں اُترنا شروع کردیا اور تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ پہرے داروں کا ایک گروہ آپ کی دعوت کا حامی اور آپ کے اسلامی نظریات کا علَم بردار ہوگیا۔ اس موقعے سے موصوف نے فائدہ اُٹھایا اور اپنے اُن رسائل کی تصحیح میں وقت گزارنے لگے، جو تلامذہ کی طرف سے اُن کے پاس پہنچتے رہتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے الحاد و لادینیت کے خلاف بھی بھرپور تنقیدیں تیار کیں۔
بدیع الزماں نے ’بارلا‘ کے قیدخانے میں آٹھ سال گزارے۔ جیل میں موصوف اپنا کھانا خود ہی تیار کرتے تھے، خود ہی اپنے کپڑے دھوتے تھے اور دوسرے تمام اُمورخود ہی سرانجام دیتے رہے۔ مصطفےٰ کمال نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا۔ چونکہ بدیع الزماں کے قلب ِ حق پرست سے اُٹھنے والی دینی شعاعیں برابر لوگوں کے اندر بکھر رہی تھیں اور ان کے رسائل کی اشاعت روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ اس لیے مصطفےٰ کمال نے بذریعۂ حکم بدیع الزماں کو اور ان کے ۱۲۰ طلبہ کو سخت پہروں کے ساتھ ’اسکی شہر‘ کی جیل میں منتقل کروا دیا۔ طویل تحقیقات کے بعد حکومت کو کوئی ایسا ثبوت نہ ملا جو موصوف پر عائد شدہ الزامات کو درست قرار دے سکے۔ اس کے باوجود عدالت نے موصوف کو گیارہ ماہ قید کی سزا دی۔ (’ترکی کے مردِ مجاہد بدیع الزماں کی شخصیت و دعوت، ترجمہ: مولانا خلیل احمد حامدی، ترجمان القرآن، ج۵۹، عدد۴،جنوری ۱۹۶۳ء،ص ۳۹-۴۰)