مارچ ۲۰۱۲

فہرست مضامین

’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ اور پاکستان کا کردار

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | مارچ ۲۰۱۲ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو مہمند ایجنسی میں پاکستانی چیک پوسٹ پر امریکی ( ناٹو ) گن شپ ہیلی کاپٹروں کا حملہ ہوا جس میں ۱۶فوجی جوان شہید اور ۱۶ زخمی ہوئے۔ یہ ایک سوچا سمجھا اور پوری تیاری کے ساتھ کیا گیا حملہ تھا۔اس سے پہلے کافی عرصے سے پاکستان امریکی پروپیگنڈے کی زد میں تھا۔ امریکی تھنک ٹینک مسلسل امریکی حکومت کو یہ پٹی پڑھا رہے تھے کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے اور اس کو اپنی اوقات یاد دلائی جائے۔ افغانستان کے میدان جنگ میں مسلسل ناکامیوں سے دوچار امریکی عسکری قیادت اس کا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتی تھی۔ امریکی قیادت میڈیا کے ذریعے اپنے عوام کو یہ باور کرا رہی تھی کہ افغان جنگ اُس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک پاکستان اصل میدان جنگ نہیں بن جاتا۔ افغانستان کی کٹھ پتلی قیادت اور امریکی دفترخارجہ بیک آواز افغان شورش پسندی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہے تھے، اور یہ مضحکہ خیز نتیجہ نکالتے ہیں کہ: ’’دراصل افغان طالبان، پاکستان کے ایما پر اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔۱؎

۲مئی ۲۰۱۱ء کو جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ایبٹ آباد کے ایک گھر پر حملہ کیا اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا اعلان کیاتو اس وقت بھی پاکستان کی فضائی حدود کی پامالی اور پاکستانی فوج کو اعتماد میں نہ لینے پر پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا تھا، اور ۴مئی کوپارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک مذمتی قرارداد منظور کی تھی۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور امریکی قیادت نے تسلسل کے ساتھ پاکستان کے عسکری اور قومی اداروں کو مطعون کرنے کا شغل جاری رکھا۔

اس سے پہلے جب۲۷جنوری ۲۰۱۱ء کو ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور کی سڑک پر دوپاکستانی نوجوانوں کو قتل کرنے پر ا س کو کوٹ لکھپت جیل میںڈالا گیا تو پوری امریکی حکومت اس پر سیخ پا تھی اور امریکی شہری کی گرفتاری پر حکومت پاکستان سے ناراض رہی تاوقتیکہ ۱۶مارچ کو دیت ادا کر کے اس کو رہا نہیں کروالیاگیا۔

اس طرح ہر موقع پر امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اپنے حلیف پاکستان کے خلاف دشنام طرازی اور الزامات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۸جولائی ۲۰۱۱ء کو کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملہ ہو، یا امریکی سفارت خانے پر حملہ، ۱۳ستمبر کو ناٹو ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہو یا ۲۰ستمبر کو جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی کا قتل، امریکی اور افغان قیادت نے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ ۲۲ستمبر ۲۰۱۱ء کو ایڈمرل مولن نے صاف بیان دیا کہ حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے پہلے امریکی جنرل پیٹریاس تمام خرابیوں کی جڑ شمالی وزیرستان کو قرار دے چکے تھے۔

اس موقع پر ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اور اہل دانش اس پوری صورت حال کا جائزہ لیں کہ کن عوامل کی بنیاد پر پاکستان اس جنگ میں شریک ہوا، اس نے اس دوران کیا پایا اور کیا کھویا؟

’دھشت گردی‘ کی جنگ میں شرکت کا فیصلہ

 اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان نکات پر نظر دوڑائیں جن کی بنیاد پر ۲۰۰۱ء میں پاکستان کی عسکری قیادت نے ’دہشت گردی‘ کے خلاف اس جنگ میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا:

۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کو صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان پر امریکی حملے کے حق میں جودلائل دیے تھے ان میں پاکستان کے مفاد میںدرج ذیل پانچ نکات کا ذکر کیا گیا تھا ۔۲؎ 

۱-پاکستان کے حساس (ایٹمی) اثاثوں کی حفاظت

۲-کشمیر کاز کا تحفظ

۳-پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیے جانے کا ازالہ

۴-کابل میں پاکستان مخالف حکومت کے بر سر اقتدار آنے کو روکنا

۵-پاکستان کو بحیثیت ایک ذمہ دار ، باوقار ریاست قرار دینا

اس سے پہلے نائن الیون کے واقعے کے بعد ۱۴ستمبر کو امریکی سیکرٹری خارجہ کولن پاول سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ان سات نکات کو فی الفور قبول کر لیا تھا جو اس نے اس دھمکی کے ساتھ جنرل مشرف کو پیش کیے تھے کہ: ’’اگر آپ نے اس جنگ میں امریکا کا ساتھ نہ دیا تو امریکی عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے‘‘، اور یہ بھی کسی سطح پر کہاگیا تھا کہ: ’’ اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچادیں گے‘‘۔۳؎

تمام امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے کور کمانڈروں، نیشنل سیکورٹی کونسل کے ارکان اور اپنے قریبی سیاسی معتمدین کی میٹنگ بلائی اور چھے گھنٹے کے اندر اندر ان کو اپنے فیصلے پر قائل کر لیا۔

اس فیصلے کے فوراً بعد ہی پاکستان نے اچانک اپنی فضائی حدود بند کردیں اور امریکی طیاروں اور فوجیوں کو موقع دیا کہ وہ شمالی فضائی اڈوں تک پہنچ سکیں، اس طرح برادر اسلامی ملک افغانستان پر امریکی حملے کے لیے راستہ ہموار کر دیاگیا۔

اس سے پہلے پاکستان ان تین مسلم ممالک میںشامل تھا جنھوں نے ستمبر ۱۹۹۵ئمیںکابل میں طالبان حکومت کے تحت بننے والی اسلامی امارت کو تسلیم کیا تھا ۔ باقی دو ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے اور جب افغانستان پر امریکی الزامات کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تو پاکستان نے اس کی مخالفت کی تھی۔

دہشت گردی کے خلاف مبینہ امریکی جنگ میںشرکت کے بعد پاکستان نے امریکا کو ہرممکن تعاون بہم پہنچایا، جس سے افغانستان پر امریکی قبضے کی راہ ہموار ہوئی اور ایک آزاد برادر مسلم ملک غیر ملکی استعمار کے چنگل میںچلا گیا۔ اس تعاون میں شمسی ایر بیس سمیت کئی ہوائی اڈوں اور  لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے امریکی افواج کو محفوظ راہ داری فراہم کی گئی۔ انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے خفیہ معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا اور پاکستان میں ان گروپوں اور جہادی تنظیموں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کیا گیا جو طالبان سے ہمدردی رکھتے تھے۔

ستمبر ۲۰۰۱ئمیں پالیسی میں تبدیلی کے پاکستان پر دُور رس اثرات مرتب ہو ئے اور   اب ۲۰۱۲ء میں جب کہ ۱۰ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ہم ایک ایسا میزانیہ تیار کر سکتے ہیںجس سے   یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف کی یہ پالیسی کس حد تک کا میاب یا ناکام رہی تاکہ  پاکستانی عوام کو اس کے ثمرات اور نقصانات سے آگہی ہو۔

حکومتی موقف کا جائزہ

مناسب ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریرمیں جو دلائل اس جنگ میں شرکت  کے حق میں دیے تھے ان کا ایک ایک کر کے تجزیہ کیا جائے اور اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں  ہم کچھ نتائج اخذ کریں۔۴؎

ایٹمی اثاثوں کی حفاظت

پاکستان نے مئی۱۹۹۸ئمیں بھارت کے ایٹمی دھماکوںکے ردعمل کے طور پر زیر زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ اس طرح دنیا میں پاکستان ساتواں ایٹمی صلاحیت کا حامل اور پہلا مسلمان ملک بن گیا تھا جونیو کلیائی حملے کر سکتا ہے۔ دھماکوںسے پہلے امریکا سمیت تمام یورپی اقوام نے بیک آواز پاکستان کو منع کیا تھا کہ وہ بھارتی اشتعال کے جواب میںدھماکے نہ کرے لیکن پاکستان نہ مانا اور دھماکے کر ڈالے ۔ اب دہشت گردوںکے خلاف امریکی اتحاد میں شمولیت کے باوجود پاکستان واحد ایٹمی صلاحیت کے حامل اسلامی ملک کے طور پر ہدف ملامت بناہوا ہے ۔ ایٹمی کلب میں پاکستان شامل نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کے ایٹم بم کے خالق محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ایک عرصے تک نظر بند رکھا گیا اوروہ اب بھی زیر عتاب ہیں، جب کہ ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر عبدالکلام کو ایٹم بم بنانے کی شاباش میں بھارتی صدر بنا دیا گیا ۔

۲۶مارچ ۲۰۰۶ ء کو امریکا نے بھارت سے سول نیوکلیر معاہد ہ کر کے گویا اس کو ایک ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کر لیا ،جب کہ پاکستان کو مسلسل دشنام طرازیوں کا سامنا ہے۔

پاکستان کی نیوکلیر طاقت کے خلاف ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا کہ یہ اسلحہ،دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے ۔ اس طرح دنیا کو اس سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن اس قسم کا کوئی پروپیگنڈا بھارتی یا اسرائیلی ایٹمی اسلحوں کے بارے میں نہیں ہوا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پر وپیگنڈے کی بنیاد پر ایک بڑی سازش کا تانا بانا بُناجا رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مفلوج کرنا ہے۔ چند ماہ پہلے ایرانی صدر احمد ی نژادکابیان آیاتھا کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے ایک بڑا منصوبہ بنا رہا ہے، جس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ کسی ایسے پروگرام پر غور کیا جا رہا ہے جو پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف پروپیگنڈے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

مسئلہ کشمیر کے تحفظ کی حقیقت

قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کہ ـ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ اورنوجوانانِ کشمیر کا نعرہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ہر پاکستانی کے دل میںگھر کرچکاہے۔ بھارت کے تسلط کے باوجود کشمیر کی آزادی ایک ایسی تحریک ہے جو زندہ و تابندہ ہے اور اس وقت تک جا ری رہے گی جب تک اس کا حصول ممکن نہ ہو ۔ کشمیربھارت سے ہمارا سب سے بڑا تنازع ہے اور گذشتہ کئی جنگیںاسی مسئلے پر لڑی گئی ہیں ۔

جنرل مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں افغانستان کے بجاے کشمیر آپشن قوم کے سامنے پیش کیا۔ کشمیر ی مجاہدوں کو آزادی کی جنگ لڑنے والے ہیرو کا درجہ دیااور تحریک آزادی اور  دہشت گردی میںفرق کرنے پر زور دیا لیکن آہستہ آہستہ وہ تمام اقدامات کر ڈالے جو جدوجہد کشمیر کی کمر توڑڈالنے اور کشمیر کا مسئلہ محض زبانی جمع خرچ تک محدود کرنے کا باعث بنے ۔ کارگل کا نام نہاد ہیرو، بن بلائے ہندستان جا پہنچا اور کشمیر کی تقسیم کے نت نئے فارمولے پیش کر کے پاکستان کے دیرینہ موقف کوکمزور کرتا رہا ،اور یہ تک کہہ گزرا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو داخلِ دفتر کیا جاسکتا ہے۔یہ تو غنیمت ہے کہ ہندستانی حکومت کشمیر کے مسئلے پر اپنے غلط موقف سے ایک انچ بھی   پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہوئی، وگرنہ جنرل مشرف نے اپنی ’روشن خیالی‘ کے زعم میں کشمیر کا سودا کرنے میںکوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔خود کشمیر کی قیادت، پاکستانی حکومت کے بے سرو پا اعلانات اور قلابازیوں پر حیران و پریشان ہوتی رہی، اور پاکستانی قوم سے اپیل کرتی رہی کہ وہ حکومت کو ان اعلانات سے روکے جس سے آزادی کشمیر کے تحریک کو ناقابل بیان نقصان پہنچ رہا ہے ۔

موجودہ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کو طاق نسیاں پر رکھتے ہوئے بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن، یعنی ’سب سے پسندیدہ‘ قوم قرار دینے کا عندیہ دیاہے، حالانکہ پوری قوم  اس پر سخت برہم اورجموں و کشمیر کے مسلمان سخت مشتعل ہیں۔جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے لیے     یہ اعلان تحریک آزادی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔

پاکستان کو دھشت گرد ریاست قرار دینے کا خدشہ

نائن الیون کے واقعے میںکوئی پاکستانی ملوث نہیںتھا ۔اس واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے کمیشن کی ہزاروں صفحات کی رپورٹ میں کسی پاکستانی فرد یا ادارے کا نام نہیںتھا جو اس واقعے کی منصوبہ سازی، مالی تعاون یا ہائی جیکروں کے ساتھ کسی بھی حیثیت میں شامل رہے ہوں۔ امریکا نے جب افغان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو اس وقت بھی پاکستان نے سفارتی طور پر طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ یہ مطالبہ مان لے ۔اس لیے اس امر کا کوئی امکان اس وقت موجود نہیںتھا کہ پاکستان کودہشت گرد ریاست قرار دیا جائے گا۔

پاکستان ایک آزاد ،خود مختار ملک اور اقوام متحدہ کے ایک باوقار رکن کی حیثیت سے یہ حق رکھتا تھا کہ وہ اپنی ملکی حدود کے بارے میں خود فیصلہ کرے اور کسی ایسی جنگ کاحصہ نہ بنے جس سے اس کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو ۔ جنرل مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘کا نعرہ لگایا لیکن امریکی مفاد میں ایک بے مقصد جنگ میں پوری پاکستانی قوم کی قسمت کو دائو پر لگا دیا، اور ایک برادر اسلامی ملک کو امریکی تسلط میں دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی جنگ کا ایندھن بنا دیا ۔ سرکاری اعلان کے مطابق امریکا نے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر ۷۵ہزار سے زیادہ ہوائی حملے کیے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کو خود پاکستان میں فروغ حاصل ہوااور غیور افغان امریکا کے ساتھ پاکستان کے اس تعاون کو ان کے خلاف جنگ میں برابر کا شریک سمجھنے پر مجبور ہوگئے۔ اس طرح جو دوست تھے ان کو دھکے دے کر دشمنوں کی صف میں شامل کر دیا گیا، اور امریکا کا یہ منصوبہ کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی آماج گاہ بن جائے ،پورا ہوگیا۔

اب ۱۰ سال بعد کیفیت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میںاپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکی فوج سے زیادہ نقصان پاکستان کے عوام اور پاکستانی فوج کوبرداشت کرنا پڑا ہے، ا ور دہشت گرد قراردیے جانے کا خطرہ پہلے سے زیادہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ پاکستان کو اس جنگ میں شرکت کی جو مالی قیمت ادا کرنی پڑی ہے، اس کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔

 کابل میں پاکستان مخالف حکومت کو روکنا

کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد حامد کرزئی کی قیادت میں شمالی اتحاد کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوئی جو اب تک امریکی عسکری چھتری تلے ایک کٹھ پتلی انتظامیہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہندستان نے ہمیشہ سے کابل میں پاکستان کے مخالف عناصر کی کھل کر حمایت کی ہے ۔ جیسا کہ ماسکو نوازببرک کارمل انتظامیہ جب کابل پر حکومت کر رہی تھی تو اس وقت بھی سوشلسٹ بلاک کے ممالک کے علاوہ صرف بھارت نے ببرک کارمل کی حکومت کو تسلیم کیا تھا ۔ جب کابل میں نجیب انتظامیہ اقتدار میں تھی تو اس وقت بھی بھارت کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات تھے۔ پھر جب مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو بھارت نے رشید دوستم ملیشیا اور شمالی اتحاد کے ساتھ روابط قائم کیے اور اب تک شمالی اتحاد کے جملہ عناصر بھارت کے زیر اثر ہیں۔ کرزئی حکومت نے مسلسل پاکستان پر طالبان کی درپردہ حمایت کا الزام لگایا ہے اور اپنی تمام کمزوریوں اور ناکامیوں کاذمہ دار اس کو قرار دیا ہے ۔ دوسری طرف بھارتی اثرورسوخ پورے افغانستان میں ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔  افغان فوج کو تربیت دینے سے لے کر حکومت کے ہر شعبے میں اس کے اثرات ہیں۔ بڑی تعداد میں بھارتی کمپنیاں افغانستان میں کاروبار کر رہی ہیں اور بھاری اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے بھارت ہر قسم کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ گویا موجودہ کابل حکومت پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہندستان کی مرہونِ منت ہے، جب کہ قومی ، زمینی ، جغرافیائی ، نظریاتی ، لسانی ، مذہبی ہرنقطۂ نظر سے پاکستان ، افغانستان کے قریب ہے۔ روسی جارحیت کے موقع پر ۴۰ لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی تھی۔ افغانستان کی تمام تر تجارت کا انحصا ر پاکستان پر ہے۔پاکستان اور افغانستان فطری حلیف ہیں لیکن موجودہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔

پاکستان کو ایک ذمہ دار، باوقار ریاست قرار دینا

جس وقت نائن الیون کا واقعہ پیش آیا، پاکستان ایک فوجی قیادت کی گرفت میں تھا۔ جنرل پرویزمشرف بلا شرکت غیرے حکمرانی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ملک کی منتخب حکومت برطرف کی جاچکی تھی جس کی بنا پر دولت مشترکہ سے پاکستان کی رکنیت معطل کی گئی تھی اور کئی ممالک نے پاکستان کے خلاف مختلف پابندیاں عائد کی تھیں۔کسی پارلیمنٹ کا وجود نہ تھا، اس لیے جب امریکا نے جنرل مشرف سے ’اِدھر یا اُدھر‘کا مطالبہ کیا توفوراً ہی اس نے غیر مشروط طور پر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور اپنی کابینہ سے بھی مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا ۔ یہ کسی بھی ذمہ دار اور باوقار ملک کے قومی فیصلے کرنے کا طریقہ نہیں ہے ۔ جس نے پاکستان کے وقار ، سا لمیت اور خود مختاری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ جنرل مشرف کو چاہیے تھا کہ اس وقت کوئی جواب دینے سے پہلے وہ اپنی سول کابینہ اور فوجی کمانڈروں سے مشورہ کرتا ، پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں سیاسی جماعتوںکی لیڈر شپ کو بُلاکر گول میز کانفرنس کرتا اور قوم کو اعتماد میں لے کر کوئی فیصلہ کرتا ۔

دوسرا موقع پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو ملا تھا کہ وہ ۲۰۰۸ئکے انتخابات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اس پالیسی پر نظرثانی کرتی اور دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد امریکی جنگ میں شرکت کا میزانیہ تیار کرتی اور جنرل مشرف کی پالیسیوں کو دوام بخشنے کے بجاے ملک وقوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کرتی ۔ کیری لوگر بل منظور کرتے وقت پاکستانی قوم کو ایک تیسرا موقع ملا تھا کہ وہ اپنے آپ کو امریکی چنگل سے آزاد کرانے کا راستہ اختیار کرتی۔ واضح رہے کہ کیری لوگر بل کی صورت میں پاکستان کو ملنے والی معمولی امداد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے ۳ئ۷۳؍ارب ڈالر کے اقتصادی نقصان کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی نہیں ہے ۔اس موقع پر ملک کے تمام اہل دانش نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن بدقسمتی سے جمہوری قیادت نے بالغ نظری سے کام نہ لیا اور بدستور ملک وقوم کو امریکی جنگ کا ایندھن بننے دیا ۔

اسی طرح اکتوبر ۲۰۰۸ئاور مئی۲۰۱۱ء میںپارلیمنٹ سے متفقہ قرار دادوں کی منظوری اور امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی ۲۷جنوری ۲۰۱۱ء میں گرفتاری کے مواقع پر پاکستان کے لیے امریکی کیمپ سے نکلنے کے اچھے امکانات موجود تھے۔جن کو بنیاد بنا کر پاکستان امریکا سے گلو خلاصی کر سکتا تھا، لیکن عقل و دانش سے عاری حکمران ان بہترین مواقع کو بھی بروے کار لانے میں ناکام رہے۔ اب بھی ایک باوقار اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پاکستان کے مفاد میں یہی راستہ ہے کہ ۲مئی اور ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ دونوں حملوں میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے امریکی حکومت کی مرضی سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی حلیف فوج کے اعتماد کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اور تمام بین الاقوامی معاہدوں کو پامال کرتے ہوئے فوجی کارروائیاں کیں، تو اس کے بعد ہمارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم پھر بھی اس امریکی کھونٹے سے بندھے رہیں۔

امریکی اتحادی بننے کا صلہ امریکا نے اب تک پاکستان کے خلاف۲۵۰ سے زائد ڈرون حملوں کی صورت میںدیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی ہزار بے گناہ قبائلی جاں بحق ہو چکے ہیں،جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔

’دھشت گردی‘ کی جنگ کے اقتصادی اثرات

سال ۲۰۰۶ء سے افغانستان میں جاری امریکی جنگ کے مہیب اثرات پاکستان میں واضح طور پر محسوس کیے جانے لگے ۔اب تک پاکستان کے ۳۵ہزار سے زائد شہری اور ۵ہزار سے زائد فوجی اس جنگ میں کام آچکے ہیں۔فاٹا اور شمالی علاقوں میں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے۔ملک کا اقتصادی ڈھانچا مجموعی طور پر اور جنگ زدہ علاقے خاص طور پر معاشی بدحالی سے دوچار ہیں۔اس سے پہلے کسی بھی موقع پر پاکستان اس طرح کے مالی بحران سے دوچار نہیں ہواجس کا سامنا اس کو اِس وقت کرنا پڑ رہا ہے۔۵؎

۲۰۰۸ء میں حکومت نے ایک بین الوزارتی کمیٹی اس مقصد کے لیے تشکیل دی تھی کہ وہ جائزہ لے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں پاکستان کی فعال شرکت سے ملک پر  کیا اقتصادی و معاشی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس کمیٹی نے طویل غور و خوض اور جائزوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس جنگ نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کے جاری رہنے سے ملک کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو مزید نقصان پہنچتا رہے گا۔

جنگ کے آغاز ہی میں، یعنی سال ۰۲-۲۰۰۱ء میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ ۶۶۹ئ۲؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت یہ گمان تھا کہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی اور حالات دوبارہ عام ڈگر پر آجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور جنگ میں مزید شدت اور تیزی آتی رہی اور بالآخر اس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اقتصادی طور پر بھی پاکستان اس جنگ کی بھاری قیمت ادا کرتا رہا اور بالواسطہ اور براہ راست نقصانات کا تخمینہ جو ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۶۶۹ئ۲؍ ارب ڈالر تھا،  ۱۰-۲۰۰۹ء میں بڑھ کر ۶ئ۱۳؍ارب ڈالرسالانہ کا حجم اختیار کر گیا۔ گذشتہ سال اس میں ۸ئ۱۷؍ارب ڈالر کا مزید اضافہ ہوگیا۔ اس طرح گذشتہ ۱۰ سال میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے صرف اقتصادی نقصان کا اندازہ ۳ئ۷۳؍ ارب ڈالر یعنی۵۰۳۷؍ ارب پاکستانی روپے ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ناقابل تلافی ہے۔اس اقتصادی نقصان سے سب سے زیادہ ملک کی نوجوان نسل متاثر ہوئی، جس سے بے روز گاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ملک کے بنیادی ڈھانچے مثلاً شاہراہوں، پُلوں ، عمارتوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور ہر قسم کی آبادیوںکو اس جنگ میں جس تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا مشاہدہ ہر پاکستانی بخوبی کرسکتا ہے۔۶؎

وقت کا تقاضا

 سلالہ چیک پوسٹ پر دانستہ امریکی حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں، عرصہ دراز سے قوم اس کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اقدامات مستقل بنیادوں پر ایک پالیسی کے تحت کیے جائیں ۔

ہماری تجویز یہ ہے کہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کر ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے۔قبائلی علاقے میں موجود مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ ناٹو افواج کے لیے  سپلائی لائن ختم کرے، امریکی اڈوں کو ملک سے مستقل طور پر نکال دے اور امریکی جنگی مشین کے طور پر اپنے کردار کو ختم کرتے ہوئے ایک آزاد اور خودمختار مسلم ملک کی حیثیت سے دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کرے۔پاکستان کی ایک امتیازی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت ہے جسے کوئی بھی طاقت نظر انداز نہیں کر سکتی۔

وقت کا اہم ترین تقاضا وہی ہے جس کا برملا اعلان جماعت اسلامی پاکستان اور ملک کی تمام اسلامی قوتوں نے کیا ہے۔ وہ یہ کہ ملک وملّت کے عظیم تر مفاد میں ، مسلم امہ کے اتحاد ویگانگت کے لیے، قومی آزادی اور خود محتاری کی خاطر ، پاکستانی قوم کی عظمت اور افتخار کے حصول کے لیے اس عزم ویقین کا اظہار کیا جائے کہ ہم خطے میں امریکی تسلط و بالادستی اور ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں گے اورپاکستانی عوام کو امریکی چنگل سے نجات کے حصول کی ملک گیر جدوجہد کو    اس مقصد کے حصول تک جاری رکھیں گے۔

حواشی

NATO Attack: Why Salala? ،By Brig Asif Haroon Raja

1-            http://www.thinkersforumpakistan.org / articles_detail.php?article_id=114&start=1

                General Musharaf's Taliban Policy 1999-2008

2-            http://www.qurtuba.edu.pk/ thedialogue /The%20Dialogue/5_2/Dialogue_April_June2010_96-124.pdf

                UNITED STATES DIPLOMACY WITH PAKISTAN FOLLOWING 9/11

3-            http://wws.princeton.edu/research/cases/coercivediplomacy.pdf

4-            http://ipripak.org/journal/winter2004.shtml       http://ipripak.org/journal/winter2004/waragainst.shtml

5-            U.S. - Pakistan Relations

                http://www.journalofamerica.net/html/us-pak_ties.html

                Cost of War on Terror for Pakistan Economy       

6-            http://www.finance.gov.pk /survey/chapter_11 /Special%20 Section_1.pdf