مارچ ۲۰۱۲

فہرست مضامین

کتاب نما

| مارچ ۲۰۱۲ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

قرآن میں کیا ہے؟ حصہ اوّل (سورئہ فاتحہ تا عنکبوت)، حصہ دوم (سورئہ روم تا والناس)،   ابن غوری۔ ناشر: زم زم پبلشرز، شاہ زیب سنٹر، مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات (علی الترتیب): ۶۱۳، ۴۹۶۔ قیمت (عام ایڈیشن): ۵۰۰ روپے۔ (اعلیٰ ایڈیشن): ۹۰۰ روپے۔

اس کتاب میں قرآنِ حکیم کی عام سورتوں کا تعارف بڑے ہی خوب صورت اور مؤثر انداز میں کرایا گیا ہے۔ ہر سورہ کا نچوڑ اور مضامین کے اہم گوشے قارئین کے سامنے آجاتے ہیں۔ اندازِ تحریر دل کش ہے۔چھوٹے چھوٹے اور دل نشین جملوں میں مومنین، کافروں اور منافقین کی صفات، انبیاے کرام کا تذکرہ اور گذشتہ قوموں کے ایمان افروز اور عبرت انگیز واقعات، موت اور قیامت کی منظرکشی، اہل جہنم اور اہلِ جنت کے احوال، مناجات و دعائیں، رسولوں اور خصوصاً نبی اکرمؐ کا تعارف، نہی عن المنکر اور امر بالمعروف اور قرآن کے اوامر ونواہی ___ غرض قرآنی تعلیمات کو کچھ اس طرح سے پیش کیا گیا ہے کہ قلب میں سرور وحرارت پیدا ہوتی ہے، قرآن سے قربت پیدا ہوتی ہے اور اس کے پیغام کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور قاری عمل کی طرف مائل ہوتا ہے۔

مؤلف نے تفسیر ماجدی اور معارف القرآن (مفتی محمد شفیع) سے استفادہ کرکے سورتوں کی شرح بڑے سلیقے اور ترتیب سے کی ہے۔ پورے قرآن کو ۲۴ابواب میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ ہر باب میں سوا پارہ سما جائے تاکہ رمضان المبارک کے دوران روزانہ تراویح     میں ہرچار رکعت کے بعد کے وقفے میں سنایا جاسکے۔ مؤلف نے قرآنِ مجید کے مضامین کے ۱۵موضوعات بیان کیے ہیں اور انھی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ (شہزاد الحسن چشتی)


جرح و تعدیل، تالیف: ڈاکٹر اقبال احمد۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۵۷۱۔ قیمت: درج نہیں۔

’جرح و تعدیل‘ وہ علم اور فن ہے جس میں کسی راوی (حدیث کو سن کر آگے بیان کرنے والے) کی شخصیت کے قابلِ اعتماد ہونے یا نہ ہونے، اس کے کردار کی پختگی، اس کے حافظے اور یادداشت کے معیار، دینی اعتبار سے اس کے عمومی معاملات اور رویوں کے حوالے سے اس کی  درجہ بندی کی جاتی ہے۔یوں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق، کسی فرد کے کردار اور ذاتی شخصیت کو عموماً موضوعِ بحث بنانا پسند نہیں کیا گیا، لیکن چونکہ حدیث نبویؐ کا ثبوت و عدم ثبوت ’راوی‘ کی شخصیت پر بہت حد تک منحصر ہے [جیساکہ امام ابن سیرینؒ نے فرمایا: یہ حدیثیں دین ہیں، لہٰذا یہ دیکھ لو کہ   کن سے لے رہے ہو]، چنانچہ ہر راویِ حدیث اس اعتبار سے بڑے کڑے معیار پر جانچا گیا ہے۔

’تاریخِ حدیث‘ کے ذیل میں ’جرح و تعدیل‘ نیا موضوع نہیں ہے۔ عربی زبان میں اس حوالے سے کیے گئے کام کی ایک طول طویل فہرست ہے۔لیکن اُردو میں علمِ حدیث نبویؐ کے خالص فنی مباحث کے حوالے سے تصانیف کا رجحان نیا ہے۔ کتاب چونکہ خالص فنی مباحث پر مشتمل ہے، وہ بھی علومِ حدیث کے ایک خاص شعبے، یعنی ’جرح و تعدیل‘ کے حوالے سے۔ چنانچہ اپنی خاص اصطلاحات کے کثرت سے استعمال کے باعث حقیقت میں تو یہ علومِ حدیث کے طلبہ و اساتذہ ہی کو پورا فائدہ دے گی، جیساکہ اس کے مشتملات سے بھی واضح ہے۔ مثلاً، تعارفی مقدمے کے بعد چار طویل ابواب اسناد و طبقاتِ رجال، قواعدِ جرح و تعدیل، ائمۂ جرح و تعدیل، اور کتبِ جرح و تعدیل کے عنوانات کے تحت ’قدیم و جدید مصادر و مراجع سے‘ جمع و استفادہ کرتے ہوئے مرتب کیے گئے ہیں۔ تاہم علومِ دینیہ سے دل چسپی رکھنے والے ایک عام قاری کے لیے بھی یہاں دل چسپی کا کافی ’لوازمہ‘ موجود ہے۔

 راویانِ حدیث کے تقویٰ اور شوقِ علم کا تذکرہ، ان کے طویل سفر، علمِ حدیث کے حصول اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں ان کی مشقت اور فکرمندی، حدیث نبویؐ کی حفاظت و اشاعت کے لیے علماے اُمت کے ایک بڑے طبقے کا اپنی توجہات کو صرف اسی ایک نکتے پر مرکوز کردینا___ اور سب سے بڑھ کر فرامینِ نبویؐ کی حفاظت کے لیے علوم کی کتنی ہی شاخوں کا    اس طرح مرتب کرنا کہ آج تک ہرروایت کا مقام و مرتبہ معلوم و متعین کرلینا ممکن ہے۔ ساری اُمت اس باب میں ان رجالِ عظیم کی سپاس گزار ہے۔بعض مقامات پر الفاظ نظرثانی کے مستحق ہیں اور مستشرقین پر تنقید میں استعمال کیے گئے الفاظ محلّ نظر ہیں۔ (آسیہ منصوری)


اندلس میں علمِ حدیث کا ارتقا، محمد احمد زبیری۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔  فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸۔ ۲۰۱۱ئ۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔

طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کے جنگی کارناموں کا مرکز سرزمین اندلس ایک عرصہ مسلم تہذیب کا گہوارہ بنی رہی جس کے آثار بزبانِ حال آج بھی اپنی داستان بیان کر رہے ہیں۔ اندلس کے سپوتوں میں شاطبی و قرطبی، ابن حزم و ابن رُشد، ابن عربی و ابن عبدالبر، ابن بیطار و ابن طفیل وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔ ان مایہ ناز اور نابغۂ روزگار شخصیات نے قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ و کلام، تصوف و احسان، تاریخ و سیرت، طبیعیات و کیمیا اور طب و جراحت وغیرہ کے جملہ علوم میں دنیا کی رہنمائی کی۔ یہ بہت وسیع تاریخ ہے۔ علمِ حدیث اس کا ایک گوشہ ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں اسی گوشے کے ابتدائی خدوخال کو بیان کیا گیا ہے اور فتح اندلس سے لے کر پانچویں صدی ہجری تک علمِ حدیث کے میدان میں ہونے والی کاوشوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں اندلس کی مختصر تاریخ ، جغرافیہ، معاشرتی حالات اور اقلیتوں کی صورتِ حال کا بیان ہے۔ دوسرے باب میں حدیث کی اشاعت کے پہلے مرحلے پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اولین محدثین کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تیسرا باب اشاعتِ حدیث کے دوسرے مرحلے کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ چوتھا باب پانچویں صدی ہجری کے محدثین کی تاریخ بیان کرتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق صحابہ کرامؓ کی اندلس آمد کے آثار بھی ملتے ہیں، تاہم اوّلین محدثین کے طور پر صعصعہ بن سلام سامی، معاویہ بن صالح اور غازی بن قیس کے نام سامنے آتے ہیں۔ اس ابتدائی دور میں موطا امام مالک حدیث کے طلبہ و علما کا مرکز رہی۔ حدیث کے دوسرے مرحلے میں اس ارتکاز میں کچھ وسعت پیدا ہوئی اور دیگر علماے حدیث کے اصول و آرا پر بھی توجہ ہونے لگی۔ اس مرحلے میں بقی بن مخلد اور ابن وضاح کے نام نمایاں ہیں۔ علمِ حدیث کے ارتقا کی اس تاریخ کے اختتامی عہد میں ابن عبدالبر، ابن المکویٰ، ابن الفرضی، ابوعمر والدانی، ابوالولید الباجی اور حسین بن محمد غسانی کاوشوں کا تذکرہ ہے۔ فاضل محقق نے بہت متوازن اور جامع انداز میں موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ بنیادی مصادر سے رجوع کی بنا پر یہ تحقیق اہمیت کی حامل ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


قطع حیات بہ جذبۂ رحم کی شرعی حیثیت، ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی۔ ناشر: سلیمان اکیڈمی، بہار۔ ملنے کا پتا: ایجوکیشنل بک ہائوس، شمشاد مارکیٹ، علی گڑھ، بھارت۔موبائل: ۰۹۴۱۲۶۷۳۲۲۳۔ صفحات: ۱۲۸۔قیمت: درج نہیں۔

قطع حیات بہ جذبۂ رحم یا جذبۂ رحم کے تحت قتل (euthanasia) ایک اہم موضوع ہے۔ مغرب میں تو عرصے سے اس انسان دشمن تصور پر ’جذبۂ رحم‘ کی اصطلاح کے زیرعنوان عمل کیا جا رہا ہے، کیونکہ مغربی فکر کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ فرداپنی جان، مال اور عزت کا مالک ہے۔  وہ اسے جس طرح اور جب چاہے استعمال میں لائے۔ چنانچہ ایک شخص اپنی مرضی سے جب چاہے اپنی موت کا سامان کرسکتا ہے اور زندگی میں اگر چاہے تو غیراخلاقی تعلقات بھی قائم کرسکتا ہے۔

اسلام میں فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندے کی حیثیت سے اسے اس کی جان، مال اور عزت بطور امانت کے دی گئی ہے اور اس کا فرض ہے کہ ذمہ داری کے ساتھ ان کی قدروحفاظت کرے۔ جس شریعت کا مقصد جان کا تحفظ ہو، وہ کس طرح ایک شخص کو یہ آزادی  دے سکتی ہے کہ وہ جب اور جس طرح چاہے اپنی جان کو ختم کرلے۔قرآن کریم نے صرف ایک آیت مبارکہ میں وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ ۲:۱۹۵) ’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ فرما کر ان تمام ذرائع کا سدباب کردیا ہے، جن کا تعلق انسان کی اپنی صواب دید سے ہے۔ ان ذرائع میں اپنے ہاتھوں سگریٹ پی کر، ہلکی زہرخورانی سے خود کو نقصان پہنچانا ہو، یا شراب اور دیگر منشیات کا استعمال، یا ہاتھ سے کسی آلے کے ذریعے خود کو مارنا یا اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے یہ لکھ کر دینا کہ اس فرد کو اپنے مارے جانے پر کوئی اعتراض نہیں___ یہ سب شامل ہیں۔ گویا خود کو ختم کرنے کی ہروہ شکل جو انسانی ارادہ و اختیار کے دائرے میں آتی ہو، اس آیت مبارکہ کی رُو سے حرام اور ناجائز قرار دے دی گئی۔

گذشتہ چند برسوں سے نہ صرف بیماریوں سے متاثر افراد بلکہ فاقہ کشی اور بے روزگاری کے شکار یا خاندانی جھگڑوں سے تنگ آکر بعض افراد اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے پر آمادہ ہونے لگے ہیں۔ خصوصاً نوجوانوں (لڑکوں، لڑکیوں) میں والدین، معاشرہ اور ابلاغ عامہ کی طرف سے صحیح تربیت نہ ملنے کے سبب یہ رجحان روز افزوں ہے۔

زیرتبصرہ کتاب کا موضوع عمومی خودکشی نہیں ہے بلکہ صرف جذبۂ رحم کے ذریعے ڈاکٹر  کے تعاون سے موت کا واقع ہونا ہے جسے euthanasia کہا جاتا ہے۔ مغربی علمی جرائد میں بھی یہ مسئلہ طبی اخلاقیات کے زیرعنوان زیربحث رہا ہے اور اس پر اچھا خاصا اختلافِ راے پایا جاتا ہے۔ گو، بعض امریکی ریاستوں (یا شاید بعض یورپی ممالک) میں اس کی قانونی اجازت ہے اور ایک ڈاکٹر مریض کے کہنے پر مصنوعی آلات کو منقطع کرکے، مریض کو دنیاے عدم میں پہنچا سکتا ہے۔

مصنف نے قرآن و حدیث اورفقہا کی آرا کو یک جا کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام نہ  تومریض کو، نہ اس کے لواحقین کو اور، نہ ڈاکٹر کو یہ حق دیتا ہے کہ شدید تکلیف سے بچنے کے لیے   active euthanasia کا استعمال کرے۔ اس طرح passive euthanasia بھی ناجائز ہے۔ کیونکہ جان کا تحفظ اسلام کے مقاصد میں سے ہے اور مذکورہ دوائوں سے جان جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر اور اقربا کا فرض ہے کہ وہ اپنی حد تک مریض کی دوا اور نگہداشت میں کوئی کمی نہ کریں۔ اگر کوئی وارث زیادہ اخراجات کی بنا پر یا مریض کو تکلیف کے خیال سے دوا یا علاج روک دیتا ہے تو اسلام کی نگاہ میں یہ قتل ہے اور شریعت کی نگاہ میں وہ وراثت سے محروم ہوجاتا ہے۔ غالباً وراثت سے محرومی کا حکم اس بنا پر دیا گیا تھا کہ لوگ اپنے کسی عزیز کی تکلیف کی طوالت کو بہانا بناکر اس کی میراث پر قابض ہونے کا خواب نہ دیکھیں۔

مصنف نے بہت محنت سے فقہی مواد جمع کیا ہے اور اس موضوع پر ایک علمی کام کیا ہے۔ اس کتاب کو میڈیکل کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ کے لازمی مطالعے کا حصہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو طبی اخلاقیات پر مزید کام کا موقع دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


حشراتِ قرآنی، ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی (علیگ)۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی، بھارت۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۴۰ بھارتی روپے۔

اس مختصر مگر جامع تصنیف میں مصنف نے سات اقسام کے حشرات (مچھر، مکھی، جوں، گھن، شہد کی مکھی اور چیونٹی) جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہوا ہے، بیان کیے ہیں۔ گھن کے تحت پانچ انواع بیان ہوئی ہیں۔ اس فہرست میں مکڑی بھی شامل ہے حالانکہ وہ حشرات کی سائنسی تعریف میں نہیں آتی۔ اس کو شامل کرنے کی یہ معقول وجہ بیان کی گئی ہے کہ قرآن حکیم میں اس (مکڑی) کے بیان کی  غرض و غایت وہی نظر آتی ہے جو مچھر اور مکھی کی مثالوں کی ہے۔ حرفِ آغاز میں کتاب میں دی گئی معلومات کے بارے میں وضاحت ہے کہ ’’ٹڈیوں، گھن اور جووئوں کو اللہ نے ایسی تمثیلات کے طور پر پیش کیا ہے جو منکرین پر عذابِ الٰہی بن کر ٹوٹ پڑسکتے ہیں۔ ان حشرات کے بارے میں وہی سائنسی معلومات یک جا کی گئی ہیں جو انھیں عذابی شکل دینے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں‘‘۔ اس پہلو سے مصنف کی کوشش بڑی کامیاب ہے۔

مصنف منکرین قرآن کے اس لغو اور جاہلانہ اعتراض کو کہ ’’ایسی تمثیلوں (حقیر حشرات کا بیان) سے اللہ کو کیا سروکار (البقرہ) بڑی خوب صورتی سے احمقانہ ثابت کرنے میں کامیاب ہیں۔ اب تو یہ کیفیت ہے کہ خود منکرین قرآن اس بات پر مجبور ہوئے ہیں کہ ان حقیر حشرات پر تحقیقات کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم کر رہے ہیں، اور ان پر تحقیق میں ایک دوسرے سے بازی    لے جانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لہٰذا یہ حقیر حشرات اب حقیر نہیں رہے کیونکہ ان حشرات نے انسان اور حیوان اور ان کی غذا اور صحت کو نقصان پہنچانے اور تباہ کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ قابلِ لحاظ حشرات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ مصنف نے بڑے اچھے پیرایے میں قدم قدم پر ہرحشر کی جسمانی بناوٹ، دورِ حیات اور ستم سامانیوں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی نشان دہی کی ہے۔ حشرات کے نوعی نام انگریزی میں لکھنا مناسب ہے، مثلاً مچھروں کے نام انوفلیس، کیولکس وغیرہ مگر جسم کے حصوں اور دیگر کے بیان میں انگریزی اصطلاحات کے اُردو مترادفات لکھنا زیادہ بہتر ہوتا، مثلاً انٹینا کے بجاے مماس، مینڈبل کے بجاے جبڑا وغیرہ۔ مطالعہ عام کے لیے    یہ ایک مفید اور پُراز معلومات کتاب ہے۔(ش - ح - چ)


میرا افسانہ، ملا واحدی دہلوی۔ ناشر: نشریات، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۵۸۹۴۱۹-۰۳۲۱۔ صفحات:۱۴۴۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

ہرآدمی کی زندگی بہت سے مشاہدات و تجربات اور سبق آموز واقعات پر مشتمل ہوتی ہے جن سے دوسرے لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ مُلّاواحدی دہلوی (۱۸۸۸ئ-۱۹۷۶ئ) اُردو کے معروف ادیب ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کی سرگذشت میرا افسانہ اسی غرض کے پیش نظر لکھی تھی:   اس سوانح عمری میں بعض ’قابلِ ذکر حضرات‘ کا ذکر ہے، نیز ’تجربے کی باتیں‘ بھی ہیں ’’جنھیں  اس وقت جانا جاتا ہے جب انسان کے پاس ان سے فائدہ اُٹھانے کا وقت نہیں رہتا‘‘۔(ص ۸)

مصنف کے ذاتی احوال، خانگی زندگی، دوستوں سے تعلق اور معروف شخصیات، مثلاً   خواجہ حسن نظامی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا سلیمان پھلواری، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں،    مولانا محمدعلی جوہر، اکبر الٰہ آبادی، نیاز فتح پوری کا تذکرہ، سلیس، سادہ اور دلی کی مستند زبان میں پڑھنے کو ملتا ہے۔اُس زمانے کی معاشرت، ثقافت اور طرزِ زندگی اور انسانی رویوں اور اقدار میں تبدیلی سے بھی قاری آگاہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مُلّاواحدی اپنی یہ خودنوشت بیماری کی وجہ سے مکمل نہ کرسکے،  آخر میں لکھتے ہیں کہ: میری عمربھر کی دو ہی قابلِ ذکر باتیں ہیں: اوّل: قلم کاری،     دوم: میونسپل کمیٹی کی ممبری۔ ان دونوں پر ’افسانہ حیات‘ کو نامکمل چھوڑنے کا اعلان کردینے کے باوجود لکھ دیا گیا،  لہٰذا میرا افسانہمکمل سمجھنا چاہیے۔ کچھ ملاقاتیوں کا تذکرہ رہ گیا۔ وہ میری کتابوں: ناقابلِ فراموش لوگ اور مقالات، انشایئے اور شخصیتیں میں کافی ہے۔ مُلّاواحدی اس سرگذشت کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں:’’اپنے حالات آپ لکھنے میں یہ بڑی خرابی ہے کہ طوطے کی طرح انسان کو اپنے منہ سے اپنے تئیں ’میاں مٹھو‘ کہنا پڑتا ہے۔ کچھ نہ کچھ خودنمائی ضرور کرنی پڑتی ہے‘‘(ص ۱۴۴)۔ (امجد عباسی)


تعارف کتب

  • حکمت ِ قرآن، جسٹس شہزاد وشیخ۔ ناشر: مشن انٹولائٹ انٹرنیشنل ، لاڑکانہ، پوسٹ بکس نمبر۷، لاڑکانہ۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔[ریڈیو پاکستان کے پروگرام ’روشنی‘ میں پیش کی گئی تقریروں کا مجموعہ۔ ۵۵ عنوانات کے تحت مختلف موضوعات پر کہیں مفصل اور کہیں مختصر بحث کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی آیات سے استشہاد کیا گیا ہے اور صرف ترجمے پر اکتفا کیا ہے۔ موضوعات میں ایمان و کفر، حقوق و فرائض، عبادات و معاملات، اور اخلاق و فضائل کو قدرے عصری رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔]
  • تذکرہ بزرگان روضۂ اشرفی، مرتبہ: شاہ محمد امین عطا العمری۔ ملنے کا پتا: ۳-سلیم بلاک، اتفاق ٹائون نزدپولیس چوکی، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۲۴۴۱۱۱۸-۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۳۴۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔ [برعظیم پاک و ہند میں اشاعت ِ اسلام میں صوفیاے کرام کی خدمات جلیل القدر ہیں۔ اس حوالے سے سلسلۂ چشتیہ کو باضابطہ وسیع تر خانقاہی نظام کی تشکیل کی بنا پر انفرادیت حاصل ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی برعظیم میں اس سلسلے کے بانی ہیں۔حضرت سید نظام الدین اولیاکی ہدایت پر اُن کے خلفا نے مختلف علاقوں میں روحانی تربیت کے مراکز قائم کیے۔ ان میں راے بریلی(اترپردیش) میں واقع قصبہ سلون کی خانقاۂ کریمیہ خاص طور پر معروف ہے۔زیرنظر تذکرے میں خانقاہ سلون کے اکابرین کے احوال و آثار اور تاریخ اور روحانی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔تصوف اور اس کے مختلف سلسلوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ خانقاہی نظام میں دَر آنے والی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ مؤلف خود بھی اس سلسلۂ طریقت سے وابستہ ہیں۔]
  • کشمیری خواتین کی دردناک اپیل ،ناشر:ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی پاکستان۔ منصورہ،    ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۹۵۲۰-۰۴۲۔ صفحات: ۳۶۔ قیمت: درج نہیں۔[مقبوصہ کشمیر میں نصف صدی سے زائد مدت سے جاری تحریکِ آزادیِ کشمیر میں خواتین جن مظالم، مصائب و مشکلات، معاشی اور نفسیاتی ٹارچر سے دوچار جدوجہدِ آزادی میں مردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کررہی ہیں، زیرنظر کتابچے میں اس کی  دل دہلا دینے والی تصویر پیش کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ۳۲ہزار سے زائد خواتین شہید، جب کہ ۲لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد ’بیوہ اور نیم بیوہ‘ کی کیفیت سے دوچار ہے جن کے خاوندلاپتا ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، پروفیسر الیف الدین ترابی اور میمونہ حمزہ نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کشمیر کی مظلوم خواتین، جو عزیمت کی تاریخ رقم کر رہی ہیں، کا پشتی بان بننے اور اپنا ملّی و اخلاقی فریضہ ادا کرنے کی دردمندانہ اپیل کی ہے!]
  • حکمت کے ہیرے، تالیف: محمد احمد الحجی المصری۔ ترجمہ: امیرالدین مہر۔ناشر:کتب خانہ مکی، فرسٹ فلور، پاک شاپنگ مال، میرپور خاص ، سندھ۔ فون: ۲۹۶۴۴۲۶۔ صفحات: ۸۱۔ قیمت: درج نہیں۔ [انسانی فطرت ہے کہ مثالیں، کہاوتیں اور اقوالِ زریں وغیرہ انسان کو زیادہ متاثر کرتے ہیں اور بآسانی یاد ہوجاتے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ۱۰ ؍ابواب میں ایک نکتے والی باتیں، دوسرے باب میں دو نکتوں والی باتیں اور اسی طرح دسویں باب میں ۱۰نکتوں والی باتیں دل چسپ اور اثرانگیز پیرایے میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ جہاں کتاب کی انفرادیت ہے وہاں تزکیہ و تربیت کا عمدہ سامان بھی ہے۔]