تبدیلی قدرت کا قانون ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ترقی اور تشکیلِ نو کا عمل اُمید اور تبدیلی کی جدوجہد ہی سے عبارت ہے، لیکن تبدیلی براے تبدیلی سے زیادہ مہمل کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی خیر اور صلاح کا باعث صرف اس وقت ہوتی ہے جب اس کی سمت اور منزل کا صحیح صحیح تعین کیا جائے اور بروقت ساری توجہ اصل مقصد کے حصول پر مرکوز کی جائے۔ اگر یہ نہ ہو تو صرف چہرے بدلنے سے حالات میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ تبدیلی کا عمل ترقی کے بجاے تنزل اور مزید بگاڑ پر منتج ہوتا ہے۔ اس کا تجربہ پچھلے چندبرسوں میں پاکستان اور امریکا دونوں میں ہوا ہے۔ قوم مشرف کے آمرانہ اور نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے تباہ کن دَور سے نجات چاہتی تھی، اور فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں اس نے مشرف اور اس کے ساتھیوں کو اُٹھا پھینکا اور تبدیلی کی اُمید دلانے والوں کو منصب اقتدار اسے نوازا لیکن ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے پرویز مشرف ہی کی پالیسیوں کو مزید بگاڑ کے ساتھ جاری رکھا۔ امریکا کی غلامی کی زنجیروں کو اور بھی مضبوط کردیا۔ معیشت کی چولیں ہلا دیں اور اپنے چارسالہ دورِحکمرانی میں پاکستان کو بیک وقت تین تباہ کن بحرانوں کی دلدل میں دھکیل دیا: ۱-خراب حکمرانی ۲-نااہلیت ۳- بدعنوانی (کرپشن)۔
قوم آج پھر تبدیلی کی بات کر رہی ہے اور سیاسی فضا میں ہرسمت سے اس کا شور بلند ہورہا ہے لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں ٹھیر کر اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ تبدیلی، ایک اور دھوکا اور سراب نہ بن جائے، اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ٹھیک ٹھیک اس امر کا تعین کرلیا جائے کہ کون سی تبدیلی مطلوب ہے۔ اس کی سمت ،منزلِ مقصود اور نقشۂ کار طے کرنا اولین ضرورت ہے۔
دوسری تازہ مثال خود امریکا کی ہے۔ اوباما صاحب تبدیلی کے نعرے پر برسرِاقتدار آئے تھے اور امریکا کے تمام ہی راے عامہ کے جائزے یہ خبردے رہے تھے کہ امریکی عوام بش کے دور کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور سیاسی زندگی میں ایک نیا ورق پلٹنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن پہلے ہی سال میں ان کے سارے بلندبانگ دعووں کے باوجود، یہ بات واضح ہوگئی کہ اوباما صاحب بھی اسی طرح امریکی مقتدرہ (establishment) اور مقتدر اداروں اور مخصوص مقاصد پیش نظر رکھنے والے گروہوں کے اسیر ہیں جس طرح بش تھا۔ چنانچہ اس کے اقتدار کے تین سال، کسی تبدیلی کے نہیں بلکہ تسلسل اور بگاڑ میں اضافے اور ملکی اور بین الاقوامی دونوں محاذوں پر امریکا کی ناکامی کے سال ثابت ہوئے ہیں۔
ان دونوں مثالوں کی روشنی میں اس امر کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کے عوام ۲۰۱۲ء میں اپنے مستقبل کے لیے جس تبدیلی کے لیے سرگرمِ عمل ہیں، اس کے خدوخال اس جدوجہد کے آغاز ہی میں بالکل واضح ہونے چاہییں، اور قوم سیاسی قیادت کو اس کسوٹی پر پرکھے جس سے معلوم ہوسکے کہ مطلوبہ تبدیلی کے لیے کس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور وہ کون سے کھوٹے سکّے ہیں جن سے نجات مطلوب و مقصود ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان نے اس سلسلے میں اپنا نہایت واضح اور مفصل منشور سال کے آغاز ہی میں قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے اور اس میں تبدیلی کے لیے جس نمونے کا تعین کیا ہے وہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کی صورت گری خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوئی اور جس نے تاریخِ انسانی کے رُخ کو موڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہرزمانے کے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی دلی خواہش ہے کہ ان کا اجتماعی نظام خلافت ِ راشدہ کے نمونے پر قائم ہو۔ وہ خلفاے اربعہ کے دور کو تاریخِ انسانی کا مثالی دور سمجھتے ہیں اور ماضی میں بھی برابر اس بات کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس نمونے کو رنگ و بو کی دنیا میں دوبارہ زندہ و قائم کریں۔ اُمت مسلمہ کے قلب و نظر کو کبھی کسی ایسی تحریک نے اپیل نہیں کیا، جو خلافت ِ راشدہ کے مقابلے میں کوئی دوسرا معیار اور نمونہ پیش کرے۔ دوست اور دشمن سب اس بات کے معترف ہیں کہ اسلام کا وہ مثالی دور ہی ہمیشہ مسلمانوں کی توجہ کا مرکز اور ان کا حقیقی مطلوب و مقصود رہا ہے اور اس کے احیا کے لیے مسلمان ہرزمانے اور ہرملک میں جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ان کی پکار ہمیشہ یہی رہی ہے کہ ع
یہ اعلان مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کا پیامبر ہے اور ان کے حقیقی جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہے۔ مسلمان دل سے چاہتے ہیں کہ خلافت ِ راشدہ کے دور کا احیا ہو اور ان کی یہ خواہش اس لیے ہے کہ وہ دور انسانی تاریخ کا بہترین دور تھا۔ نیز خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کو آنے والوں کے لیے معیاری دور قرار دیا ہے اور اس کے اتباع کی دعوت دی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’پس تمھارا فرض ہے کہ میری سنت کو اختیار کرو اور اس پر مضبوطی سے جمے رہو اور اس کو دانتوں سے پکڑ لو… خبردار! ان باتوں کے قریب نہ پھٹکنا جو میرے طریقے اور خلفاے راشدین کے طریقے سے ہٹ کر نئی ایجاد کرلی جائیں‘‘۔
حضوؐر کا یہی ارشاد ہے جس کی تعمیل میں مسلمان ہمیشہ احیاے خلافت راشدہ کی جدوجہد کرتے رہے ہیں اور آج بھی ملت ِ اسلامیہ کے سامنے یہی نصب العین ہے لیکن خلافت ِ راشدہ کے احیا کے معنی کسی خاص دورِ تاریخ کو، اپنے تمام جزوی مظاہر اور تکنیک کے ساتھ دوبارہ زندہ کرنا نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے جو اصول، اقدار اور ضابطے اس زمانے میں اختیار کیے گئے، انھی کو ازسرِنو قائم کیا جائے۔ اس لیے کہ وہ اصول ابدی صداقت رکھتے ہیں اور ہر دور اور ہر زمانے میں معاشرے کی قلب ماہیت اسی طریقے پر کرسکتے ہیں جس پر اس سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے اربعہ کے زمانے میں کرچکے ہیں۔ خلافت راشدہ کے قیام کے معنی انھی اصولوں کا قیام ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ اصول کون سے ہیں؟ خلافت ِ راشدہ کے قیام کی بنیادیں کیا ہیں؟ اور اس دورِ تاریخ کی خصوصیات کیا کیا ہیں؟ اس لیے کہ اگر ہم خلافت ِ راشدہ کا احیا چاہتے ہیں تو ہمیں انھی اصولوں، انھی بنیادوں اور انھی اجتماعی خصوصیات کا احیا کرنا ہوگا۔
خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ اس کا نظامِ حکومت شخصی نہیں، دستوری تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا کے تمام معلوم سیاسی نظام بادشاہی کی بنیاد پر قائم تھے یا شخصی آمریت کی۔ آپؐ نے جو نظامِ حکومت قائم کیا وہ شخصی بنیاد کے بجاے قانون کی بالادستی اور ایک معین دستور کی حکومت کی اساس پر تھا۔ اس میں نہ شہنشاہیت کی گنجایش تھی اور نہ آمریت کی، نہ خاندان پرستی تھی اور نہ شخصیت پرستی کی۔ حاکمیت کے اصل اختیارات اللہ تعالیٰ کو حاصل تھے اور اس کا عطا کردہ، قانون مملکت کا قانون تھا۔ امیر اور غریب اور اپنے اور پرائے سب اس قانون کے تابع تھے اور کوئی اس سے سرمو انحراف نہ کرسکتا تھا۔ یہی چیز ہے جس کا اظہار حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا ہے:’’لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں فلاح و بہبود کے کام کروں تو میری امداد کرنا ورنہ اصلاح کردینا۔ میں خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا لیکن خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے‘‘۔
پھر حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو روانہ کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا: ’’میرا مقام صرف متبع کا ہے، میں بہرحال کو ئی نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ پس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر استوار ہوں تو میری پیروی کرنا اور اگر اس راہ سے ہٹ جائوں تو مجھے راہِ راست پر لے آنا‘‘۔
یہاں دستوری حکومت کا نقشہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امیر جو کچھ چاہے وہ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے۔ وہ خود ایک قانون کا پابند ہے اور اس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اس قانون کو نافذ کرے۔ یہی قانون خود اس کے اُوپر بھی قائم ہوتا ہے اور یہی تمام مسلمانوں پر بھی۔ وہ لوگوں پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق دار نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیا ہے:’’ایک حاکم کو سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ لوگوں کے اندر جو چیز دیکھنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق و فرائض ان پر عائد ہوتے ہیں ان کو وہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمارا فرض صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو جس اطاعت کا حکم دیا ہے اس کا حکم دیں، اور جس نافرمانی سے روکا ہے اس سے روکیں‘‘۔
امیر اپنی ذات میں مطاع نہیں ہوتا۔ اس کی اطاعت صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ شریعت کو قائم کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست کا بنیادی اصول ہے کہ اطاعت صرف معروف میں ہے منکر میں نہیں، اور یہ اصول شخصی حکومت کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۱)معاونت کرو نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اور تعاون نہ کرو گناہ اور برائی کے کاموں میں۔
اسلامی حکومت کے اصحاب امر کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ وہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ اور جب خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے۔
پھر امیر اس قانون کو صرف اوروں ہی پر نافذ نہیں کرتا بلکہ خود اپنے اوپر بھی نافذ کرتا ہے اور خود بھی اس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جس طرح کہ دوسروں سے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’میں ایک عام مسلمان اور ایک کمزور بندہ ہوں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد کا مجھے بھروسا ہے۔ میں جس منصب پر مقرر کیا گیا ہوں ان شاء اللہ وہ میری طبیعت میں ذرّہ برابر بھی تغیر پیدا نہیں کرسکے گا۔ بزرگی اور بڑائی جتنی بھی ہے سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ بندوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں۔ تم میں سے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ عمرخلیفہ بن کر کچھ سے کچھ ہوگیا۔ میں اپنی ذات سے بھی حق وصول کرلوں گا اور جس معاملے میں ضرورت ہوگی خود بڑھ کر صفائی پیش کروں گا۔ میں تمھارے اندر کا ایک آدمی ہوں، تمھاری بہبود مجھے عزیز ہے، تمھاری خفگی مجھ پر گراں ہے اور جو امانت میرے سپرد کی گئی ہے مجھے اس کی جواب دہی کرنی ہے‘‘۔
خلافت ِ راشدہ کی یہی دستوری نوعیت ہے جس کی وجہ سے امیر کو بیت المال پر بے قید تصرف کا اختیار نہیں۔ وہ اس کو استعمال کرنے کا تو مجاز ہے مگر اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ شریعت کے احکام کے مطابق۔ خلافت ِ راشدہ میں نہ امیرخود اپنے اُوپر بیت المال کی رقم کو بے محابا خرچ کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کے اُوپر۔ اس اصول کو حضرت عمرؓ نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں نے اپنے لیے اللہ کے اس مال کو یتیم کے مال کے درجے پر رکھا ہے۔ اگر میں اس سے مستغنی ہوں گا تو اس کے لینے سے احتراز کروں گا اور اگر حاجت مند ہوں گا تو دستور کے مطابق اس سے اپنی ضرورتیں پوری کروں گا‘‘۔
یہی حال حضرت علیؓ کا تھا جو بیت المال سے بے جا طور پر نہ خود ایک پیسہ لیتے تھے اور نہ کسی دوست اور رشتہ دار کو دیتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے یہ گوارا کرلیا کہ بہت سے لوگ خواہ ان سے کٹ کر دمشق کے اصحابِ اقتدار سے جاملیں لیکن یہ گوارا نہ کیا کہ کسی کو ایک پائی بھی بغیر حق دے دیں۔
خلافت ِ راشدہ کے دور میں اگر کوئی شخص بیت المال کی کوئی رقم غلط خرچ کرتا تھا تو اس پر سخت کارروائی کی جاتی تھی اور حضرت عمرؓ نے تو حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے جرنیل تک کو ۱۰ہزار درہم غلط طور پر استعمال کرنے کے جرم میں معزول کردیا تھا۔
یہ ساری بحث ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی پہلی بنیاد یہ تھی کہ حکومت شخصی نہیں دستوری ہے، اور دستورعمل کی حیثیت خدا کی نازل کردہ شریعت کو حاصل ہے جس کی اطاعت امیرومامور سب کو کرنی ہے اور جس کی اطاعت سے انحراف کے بعد کوئی طاقت باقی نہیں رہتی ہے۔ اس اصول نے آمریت کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، اور قانون کی حکمرانی کے اس دور کا آغا ز کیا جس کا اصول یہ تھا کہ ’’خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدؐبھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ قلم کردیا جائے گا‘‘۔
شورائی اور جمھوری نظام
خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد یہ تھی کہ اس کا پورا نظام شورائی اور جمہوری تھا۔ اسلام میں شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نبی اکرمؐ سے فرماتا ہے:
وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ (اٰل عمران ۳:۱۵۹) اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرو۔
اور ملّت کے نظامِ اجتماعی کے متعلق قرآن کی واضح ہدایت یہ ہے کہ: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ(الشورٰی ۴۲:۳۸) ان کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں۔
ا- خلیفہ کا انتخاب باہم مشورے سے ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کو ثقیفہ بنوساعدہ میں باہم مشاورت کے بعد منتخب کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کی تجویز پر تمام مسلمانوں نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو برضا و رغبت اپنا خلیفہ چُنا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عمرؓ کو نامزد کرنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے تمام صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ نے بیعت ِ عام کے بعد اپنے منصب کو سنبھالا۔ حضرت عثمانؓ کے انتخاب میں بھی مدینہ کے ایک ایک فرد سے مشورہ کیا گیا اور مسلمانوں کی راے سے آپ خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے کی تجویز دی گئی تو حضرت علیؓ نے صاف کہا: میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہوسکتی ہے۔ آپؓ نے اسی موقع پر اسلام کے نظامِ انتخاب کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’تمھیں ایسا کرنے کا (یعنی کسی کو خلیفہ بنانے) کا اختیار نہیں ہے۔یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے جس کو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر خلیفہ بنانا چاہیں گے، وہی خلیفہ ہوگا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے‘‘۔
اس طرح خلافت ِ راشدہ کے دور کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خلافت ایک انتخابی منصب تھا اور مسلمان اپنی آزاد مرضی سے اپنے میں سے بہترین شخص کو اس کام کے لیے منتخب کرتے تھے۔ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہ تھا کہ وہ اُوپر سے اُمت پر مسلط ہوجائے۔ جب مسلمانوں میں قیصروکسریٰ کے اس مکروہ طریقے کا آغاز ہوگیا تو خلافت راشدہ ختم ہوگئی اور ملوکیت کا دور شروع ہوگیا!
ب- خلافت ِ راشدہ میں عمال اور گورنر بھی متعلقہ صوبوں کے لوگوں کے مشوروں سے مقرر کیے جاتے تھے اور اگر کسی مقام کے لوگ کسی شخص کو ناپسند کرتے تھے تو اسے تبدیل کردیا جاتا تھا۔
ج- حکومت کے سارے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے تھے۔ امیر تمام اہم معاملات میں پالیسی بنانے سے پہلے ارباب حل و عقد سے مشورہ کرتا تھا اور ان کے مشورے سے جو پالیسی طے ہوتی تھی اسے نافذ کرتا تھا۔ اس مقصد کے لیے دو ادارے تھے۔ ایک مجلس شوریٰ اور دوسرا مسلمانوں کا اجتماعِ عام۔ بالعموم معاملات مجلس شوریٰ ہی میں طے ہوتے تھے لیکن اگر کسی مسئلے پر بڑی مشاورت کی ضرورت محسوس ہوتی تو عام منادی کر دی جاتی اور مسجد میں جمع ہوکر بحث و تمحیص کے بعد اس مسئلے کو جمعیت مسلمین طے کرلیتی۔
یہ بحث و مشورہ پوری طرح آزادانہ فضا میں ہوتا اور ہرشخص اپنی حقیقی راے کا بے لاگ اظہار کرتا۔ ایک مجلس مشاورت کی افتتاحی تقریر میں حضرت عمرؓ نے صحیح اسلامی پالیسی کو اس طرح بیان فرمایا: ’’میں نے آپ لوگوں کو جس غرض کے لیے تکلیف دی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مجھ پر آپ کے معاملات کی امانت کا جو بار ڈالا گیا ہے اسے اُٹھانے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں۔ میں آپ ہی کے افراد میں سے ایک فرد ہوں اور آج آپ لوگ وہ ہیںجو حق کا اقرار کرتے ہیں۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے میرے ساتھ اتفاق کرے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں‘‘۔
مولانا شبلی نعمانی نے الفاروق میں اس نظامِ مشاورت کی پوری تفصیل دی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ کا نظام، شوریٰ کی بنیاد پر قائم تھا۔
د- قانون سازی کا اختیار امیر کو حاصل نہیں تھا۔ اصل قانون قرآن اور سنت ہے لیکن جن چیزوں میں قرآن و سنت خاموش ہیں، امیر کا اجتہاد بھی ایک اجتہاد ہے۔ قانون کا درجہ اسے صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس پر اُمت کے ارباب حل و عقد کا اجماع ہوجائے۔ قانون ساز ادارے (Legislative Organ)کی حیثیت اجماع کو حاصل ہے، امیر کی راے کو نہیں۔ اپنے زمانے میں یہ ایک ایسا انقلابی اقدام تھا کہ ایک عرصے تک تاریخ اس کی اصل اہمیت کو محسوس بھی نہ کرسکی۔ آج جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل وظائف حکومت کی مختلف اداروں میں تقسیم تھی اور اس کے ذریعے نظامِ حکومت میں محاسبہ و توازن کا ایک نظام قائم کیا گیا تھا۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خلافت ِ راشدہ کی دوسری بنیاد شوریٰ تھی یہی اسلام کی اصل روح ہے۔ اگر یہ باقی نہ رہے تو پھر خلافت کا نظام بے معنی ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے خلفاے اربعہ کے زمانے میں مناسب ادارے بھی بنائے گئے تھے تاکہ شوریٰ کا اصول عملی طور پر بروے کار آسکے۔ جب خلافت آمریت اور ملوکیت میں بدل گئی تو شوریٰ کا یہ نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ اسلام کے اس شورائی نظام کو اسلامی جمہوریت کہا جاسکتا ہے جس میں جمہور کی راے اور کردار ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طے کردہ حدود کے اندر واقع ہوتا ہے اور ان حدود سے باہر جانے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں۔
خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیاد ریاست کا فلاحی تصور تھا۔ ریاست محض ایک منفی ادارہ نہیں ہے جو محض اندرونی خلفشار اور بیرونی حملہ سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے وجود میں لایاگیاہو، بلکہ معاشری تنظیم کی وہ صورت ہے جس کے ذریعے مثبت طور پر ایک خاص طرزِ زندگی کو ترویج دینے کی منظم سعی و جہد کی جائے۔ اس ادارے کا اصل مقصد نیکی کا فروغ، بدی کا استیصال اور ایک فلاحی معاشرے کا قیام ہے جو انسانوں کی حقیقی ضرورتوں کا اہتمام کرے، اور ان کو مادی اور اخلاقی اعتبار سے اس لائق بنا دے کہ وہ زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار مؤثرانداز میں ادا کرسکیں۔
۱- پہلا اقدام کتاب و سنت کی تعلیم، اور ان کا فروغ اور قیام تھا۔ حضور اکرمؐ نے جب عمرو بن حزمؓ کو یمن کا گورنر بنایا تو ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ حق پر قائم رہیں، جیساکہ اللہ نے حکم دیا ہے، اور لوگوں کو بھلائی کی خوشخبری اور نیکی کا حکم دیں اور لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور ان میں اس کی سمجھ پیدا کریں اور لوگوں کی دل داری کریں یہاں تک کہ لوگ دین کا فہم پیدا کرنے کی طرف مائل ہوجائیں۔
اسی پالیسی پر خلافت ِ راشدہ کے پورے دور میں عمل کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! میں اپنے تمام علاقوں کے عہدے داروں پر تجھ کو گواہ ٹھیراتا ہوں کہ میں نے ان کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ وہ لوگوں کو اِن کے دین اور ان کے نبیؐ کی سنت کی تعلیم دیں‘‘۔
ایک دوسرے خطبے میں آپؓ نے فرمایا: ’’میں نے اِن کو اس لیے مقرر کیا ہے کہ تم کو تمھارے پروردگار کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کی تعلیم دیں۔
خلفاے اربعہ قیامِ فلاح کے لیے سب سے ضروری اس امر کو سمجھتے تھے کہ لوگوں کو فلاح کا صحیح اور اس کا اصل راستہ بتا دیں اور یہ علم قرآن اور سنت نبویؐ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ ان کا مقصد دنیاوی اور اُخروی فلاح تھا اور اس کے حصول کے لیے سب سے پہلی ضرورت قرآن اور سنت کی تعلیم اور تنفیذ تھی۔
۲- دوسری بنیادی چیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یعنی ریاست تمام اچھی چیزوں کی ترویج کرے، نیکیوں کو پھیلائے، صدقات کو عام کرے اور خیر کی روایت قائم کرے، نیز ان تمام چیزوں کی حوصلہ افزائی کرے جو کسی طرح بھی حسنات کو فروغ دینے والی ہوں۔ اسی طرح ریاست ان تمام چیزوں کو ختم کرے جو بُرائی اور منکر کو پھیلانے والی ہوں اور معاشرے میں کسی قسم کی بھی گندگیوں کو نہ پنپنے دے تاکہ فرد اور ملت دونوں کو صحیح خطوط پر ترقی کرنے کا پورا پورا موقع ملے۔ حکومت کی اس پالیسی کی اساس قرآن کا یہ حکم ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ(اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے ہو، پس نیکیوں کا حکم کرو، برائیوں کو روکو، اور تم مومن ہو‘‘۔
۳- اس سلسلے کی تیسری چیز یہ ہے کہ حکومت عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے، ان پر ظلم و جبر نہ کرے، ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالے جس کے وہ متحمل نہ ہوسکتے ہوں۔ نیز حسنات زندگی کو فروغ دے ، اور اس بات کی کوشش کرے کہ اس کے دائرۂ اثر میں کوئی متنفس بلالحاظ مذہب و ملّت ایسا نہ رہے جو اپنی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کر رہا ہو۔
حضرت عمرؓ اس بات کا اہتمام کرتے تھے کہ مجاہدین زیادہ عرصے تک اپنے اہل و عیال سے جدا نہ رہیں، اور کہا کرتے تھے کہ ’’اور تمھارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمھیں تباہی میں نہ ڈالوں اور تم کو سرحدوں میں روکے نہ رکھوں‘‘۔
اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو ایک خط میں حضرت عمرؓ نے لکھا کہ ’’سب سے زیادہ خوش نصیب حاکم اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا خوش حال ہو، اور سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب سے اس کی رعایا بدحال ہو۔ تم خود بھی اپنے آپ کو کج روی سے بچانا تاکہ تمھارے ماتحت کج روی اختیار نہ کریں‘‘۔
اس حقیقت کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا تھا کہ: ’’ اے اللہ! جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا جائے اور وہ اِن کو مشقت میں ڈالے تو، تو بھی اِس کو مشقت میں ڈال۔ اور جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا تو، تو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر‘‘۔
خلافت ِ راشدہ کی تمام پالیسیوں میں لوگوں تک حسنات زندگی پہنچانے اور ضرورت مندوں کی کفالت کرنے کا جذبہ کارفرما تھا، بلکہ حضرت عمرؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو صفاء کے پہاڑوں میں جو چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا ہوگا، اس کو بھی اس مال سے اس کا حصہ پہنچے گا اور اس کے لیے اس کو کوئی زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی‘‘۔ اور یہ کہ: ’’خدا کی قسم! اگر میں اہلِ عراق کی بیوائوں کی خدمت کے لیے زندہ رہ گیا تو ان کو اس حال میں چھوڑ جائوں گا کہ میرے بعد ان کو کسی اور امیر کی مدد کی احتیاج باقی نہ رہے گی‘‘۔
خلافت ِ راشدہ ایک صحیح اور معیاری خادم خلق ریاست تھی اور عوام کی حقیقی فلاح و بہبود اور ان کے لیے آسانیوں کی فراہمی اس کا اصل مقصد تھا اور حکومت کا یہی فلاحی تصور خلافت ِ راشدہ کی تیسری بنیادی خصوصیت تھا۔
خلافت ِ راشدہ کی چوتھی بنیاد تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی شخصی اور سیاسی آزادی کی ضمانت تھی۔ حضرت عمرؓ نے حقوق کی ضمانت ان الفاظ میں دی تھی کہ: ’’میں کسی شخص کو اس بات کا موقع نہیں دوں گا کہ وہ کسی کی حق تلفی یا کسی پر زیادتی کرسکے۔ جو شخص ایسا کرے گا میں اس کا ایک گال زمین پر رکھوں گا اور اس کے دوسرے گال پر اپنا پائوں رکھوں گا یہاں تک کہ وہ حق کے آگے جھک جائے‘‘۔
حضرت ابوبکرؓ نے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کا اعلان اس بلیغ انداز میں فرمایاتھا کہ: ’’تمھارے اندر جو بے اثر ہے، وہ میرے نزدیک بااثر ہے یہاں تک کہ میں اس سے چھینا ہوا حق اس کو واپس دلا دوں۔ اور تمھارے اندر جو بااثر ہے وہ میرے نزدیک بے اثر ہے یہاں تک کہ میں اس سے اس حق کو وصول کرلوں جو اس نے غصب کر رکھا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ خلفاے اربعہ نے یہ کام کرکے دکھا دیا۔ جب بھی کسی عامل نے کوئی زیادتی کی، انھوں نے فوراً اس پر مواخذہ کیا اور اس کا تدارک کیا۔
حضرت عمرؓ کا ارشاد تھا کہ: ’’میں اپنے عاملوں کو تمھارے پاس اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ تمھیں ماریں پیٹیں یا تمھارے مالوں کو ناجائز طریقے پر لیں، بلکہ اس لیے بھیجتا ہوں کہ تم کو تمھارا دین سکھائیں اور تمھارے نبی کا طریقہ سکھائیں۔ اگر کسی کے ساتھ اس قسم کی کوئی زیادتی کی گئی ہو تو وہ میرے علم میں لائے۔ اس ذات کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے، میں اس کو زیادتی کرنے والے سے اس کا قصاص ضرور دلائوں گا‘‘۔
اس نظام میں لوگوں کی آزادیوں کا جو لحاظ رکھا جاتا تھا وہ حضرت عمر ؓ کے ان تاریخی الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے جو آپ نے والیِ مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا، حالانکہ ان کی مائوں نے ان کو آزاد جنا تھا‘‘۔
آپ نے اس بات کی بھی ضمانت دی کہ کسی کو عدل اور قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا:
وَاللّٰہِ لاَ یُوْسَرُ رَجُلٌ فِی الْاِسْلَامِ بِغَیْرِ عَدْلٍ،خدا کی قسم! اسلام میں کوئی شخص بغیر عدل کے قید نہیں کیا جاسکتا۔
حد یہ ہے کہ اس نظام میں اس شخص تک کو آزادی حاصل ہوتی تھی اور اس پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی تھی جو خواہ نظری طور پر حکومت کا باغی ہی کیوں نہ ہو مگر عملاً بغاوت نہ کر رہا ہو۔ حضرت علیؓ نے خوارج کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ: ’’تم کو آزادی حاصل ہے کہ جہاں چاہو رہو، البتہ ہمارے اور تمھارے درمیان یہ قرار داد ہے کہ ناجائز طور پر کسی کا خون نہیں بہائو گے، بدامنی نہیں پھیلائو گے اور کسی پر ظلم نہیں ڈھائو گے۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی بات تم سے سرزد ہوئی تو پھر میں تمھارے خلاف جنگ کا حکم دے دوں گا‘‘۔
اس سے وسیع تر آزادی کا کون سا تصور ہے جو انسان کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کی بڑ ی اہم خصوصیت اس کا وہ نظام تھا جس میں آزادی اور حقوقِ انسانی کی کُلّی ضمانت تھی… اور یہ محض ضمانت نہ تھی بلکہ اس ضمانت کے ایک ایک حرف پر پوری راست بازی کے ساتھ عمل ہو رہا تھا۔
خلافت راشدہ کی پانچویں بنیاد اس کا نظامِ تنقید و محاسبہ تھا۔ دنیا کے دوسرے نظام ہاے سیاست میں تنقید کو ایک حق مانا گیا ہے اور سیاسیات کے طالب علم اس امر سے اس طرح واقف ہیں کہ کتنی جدوجہد، کتنی قربانیوں اور کتنی کش مکش کے بعد عوام کا یہ حق دنیاے تہذیب میں تسلیم کیا گیا ہے، لیکن خلافت ِ راشدہ کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں پہلے دن سے تنقید و محاسبے کی فضا قائم تھی۔ ہرشخص نظامِ حکومت پر نگاہ رکھتا تھا، اور جہاں کہیں بھی جو بُرائی دیکھتا تھا، اس کو دُرست کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتا تھا، بلکہ گہری نگاہ سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خلافت ِ راشدہ اور خود آج کے جمہوری نظام میں تنقید و محاسبے کے مقام کے سلسلے میں ایک بڑا باریک لیکن بڑا اہم فرق تھا۔ دوسرے نظاموں میں تنقید زیادہ سے زیادہ عوام کا ایک حق رہی ہے لیکن خلافت ِ راشدہ میں یہ صرف حق ہی نہیں بلکہ ایک فریضہ بھی تھی۔ یہ بات لوگوں کی مرضی پر چھوڑ نہیں دی گئی تھی کہ چاہے محاسبہ کریں اور چاہے نہ کریں، بلکہ ان کو یہ تربیت دی گئی تھی کہ دین کی خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلمان صحیح طریقے پر تنقید و محاسبہ کرتا رہے اور اگر کوئی شخص اپنے اس فریضے کو ادا نہیں کرتا تو وہ اس کوتاہی پر اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔
الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ،دین نام ہے خیرخواہی کا، خیرخواہی اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسولؐ کی، مسلمانوں کے قائدین کی اور سب مسلمانوں کی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمھیں لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو، اور بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف موڑ دو‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ’’اگر برائی کو دیکھو تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دو، اگر اس کی استطاعت نہ رکھتے ہو تو زبان سے اس کے خلاف آواز بلند کرو، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو کم از کم دل میں اس کو بُرا جانو، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ان میں یہ عیب نہ پیدا ہوجائے کہ اپنے سامنے بُرے اعمال ہوتے دیکھیں اور انھیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر اللہ عام اور خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘۔
خلافت ِ راشدہ کے نظام کی بنیاد زبانِ رسالت مآبؐ سے نکلی ہوئی انھی ہدایات پر تھی۔ اس نظام میں معاشرے کا ضمیر بیدار تھا اور فضا صحت مند تنقید اور مخلصانہ محاسبے سے معمور تھی اور یہ مقدس ذمہ داری ایک طرف کسی مداہنت کے بغیر انجام دی جاتی تھی تو دوسری طرف اس کو ان حدود میں رکھا جاتا تھا جو بدنظمی، انتشار، افتراق اور انارکی کے فساد سے معاشرے اور ریاست کو محفوظ رکھیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد جو تاریخی خطبہ دیا اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے: ’’اے لوگو! میں اس جگہ اس لیے مقرر نہیں کیا گیا ہوں کہ تم سے برتر بن کے رہوں۔ میری خواہش تو یہ تھی کہ کوئی اور اس جگہ کو سنبھالتا، میں تمھارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ جب تم دیکھو کہ میں سیدھے راستے پر چل رہا ہوں تو میری پیروی کرو۔ اور اگر دیکھو کہ میں راستی سے ہٹ گیا ہوں تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔
حضرت عمرؓ نے خلافت کا بار اُٹھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’اے لوگو! تم نفس کے مقابلے میں میری مدد اس طرح کرسکتے ہو کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو۔ نیز خدا نے تمھاری جو ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے اس کے بارے میں میری خیرخواہی اور مجھے نصیحت کرتے رہو‘‘۔
دورِ خلافت راشدہ میں امیرالمومنین ہر جمعہ کو پبلک سے خطاب کرتا تھا۔ جمعہ کے خطبے میں اپنی پالیسی بیان کرتا تھا ۔ اپنے کو خود پبلک کے سامنے پیش کرتا تھا اور پبلک کو پورا پورا موقع دیتا تھا کہ وہ اس پر تنقید کرے، اس سے اختلاف کرے، اس کے سامنے شکایت پیش کرے۔ مختصراً یہ کہ وہ اپنی پالیسی پر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت ِ راشدہ میں خطبۂ جمعہ دینی عبادت کے ساتھ ایک سیاسی ادارہ تھا اور اس کی حیثیت بحث و مباحثے اور افہام و تفہیم کے ایک پلیٹ فارم کی بھی تھی۔
حضرت عمرؓ کے مزاج کی سختی کے متعلق تو ہرشخص بہت کچھ جانتا ہے لیکن دورِ خلافت راشدہ کے طالب علم کی نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں کہ سب کو آپ تنقید و محاسبے کی دعوت دیتے اور اسے صبروسکون سے برداشت کرتے بلکہ اس تنقید سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے میں بھی ان سے بڑھ کر کوئی نہ تھا۔ انھوں نے کبھی بھی لوگوں کو اس حق سے کسی درجے میں بھی محروم کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جو پوزیشن انھوں نے اختیار کی وہ ایک ایسی اعلیٰ مثال ہے جو انسانوں کے لیے ہمیشہ روشنی کا مینار رہے گی۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ مسجد سے نکلے، چند قدم چلے ہوں گے کہ ایک خاتون (خولہ بنت حکیم) دوسری طرف سے آئیں۔ آپ نے ان کو سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور فوراً برس پڑیں: ’’عمر ؓ! تمھارے حال پر افسوس ہے، میں نے تمھارا وہ زمانہ دیکھا ہے کہ تم عمیرعمیر کہلاتے تھے اور لٹھیا لیے دن بھر عکاظ میں بکریاں چراتے تھے۔ اس کے بعد میں نے تمھارا وہ زمانہ بھی دیکھا جب تم عمر کہلانے لگے اور اب یہ زمانہ ہے کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ امیرالمومنین بنے پھررہے ہو۔ رعایا کے معاملے میں خدا سے ڈرو اور اس بات کو یاد رکھو کہ جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ آخرت کے عالم کو بالکل اپنے آپ سے قریب پائے گا اور جس کو موت کا ڈر ہوگا وہ ہمیشہ اس فکر میں رہے گا کہ خدا کی دی ہوئی فرصت رائیگاں نہ ہونے پائے‘‘۔حضرت عمرؓ نے ان کی تقریر کو بڑے غور سے سنا اور جن صحابہ نے ان کی سختی کی شکایت کی ، ان کو خاموش کردیا۔
اسی طرح ایک اور شخص نے حضرت عمرؓ کو سختی سے ٹوکا اور آپ سے کہا: ’’اے عمر! اللہ سے ڈر! اللہ سے ڈر! (اور اس جملہ کو تین بار کہا)، ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اب بس بھی کرو، بہت ہوچکا تو حضرت عمرؓنے یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے: ’’ان کو کہنے دو، اگر یہ ہم کو یہ باتیں نہ کہیں تو ان میں کوئی خوبی نہیں، اور اگر ہم ان کی ان نصیحتوں کو قبول نہ کریں تو ہم میں کوئی خوبی نہیں‘‘۔
خدا کی قسم! یہ الفاظ انسانی آزادی اور حق تنقید و محاسبے کا سب سے بڑا چارٹر ہیں، اور خلافت ِ راشدہ کا نظام اس تنقید و محاسبے کی بنیاد پر قائم تھا۔ اسی کی وجہ سے حکومت راہِ حق پر قائم رہتی تھی اور ہرکجی سے محفوظ رہتی تھی۔ استحکام اور ترقی کے لیے اس سے بڑی ضمانت اور کون سی ہوسکتی ہے؟
خلافت ِ راشدہ کی ایک اور بنیادی خصوصیت پارٹی پرستی سے کامل احتراز تھا۔ سیاسیات کا یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ معاملات کی انجام دہی میں نمایندگی (representation) کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں بلاواسطہ رابطہ قائم کرنا ممکن نہ ہو۔ یونان کی شہری حکومت میں کسی نمایندہ اسمبلی کا وجود نہ تھا۔ اس لیے کہ وہاں پوری شہری آبادی ایک اسمبلی کی حیثیت رکھتی تھی اور جب بھی حکومت کو مشورے کی ضرورت پیش آتی تمام لوگوں کو جمع کیا جاتا اور اسی اجتماع میں فیصلہ کرلیا جاتا۔ جب ہیئت ِ اجتماعی وسیع ہوا تو بلاواسطہ جمہوریت کے مقابلے میں نمایندہ جمہوریت کا ظہور ہوا۔ اور اس نمایندگی کے نظام میں نمایندوں کو شہریوں کی راے اور ان کی مرضیات کا حقیقی نمایندہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کا نظام وضع کیا گیا۔ اس لیے کہ اگر عوام کے نمایندوں کو ان کے نظریات کا نمایندہ ہونا چاہیے تو ضروری ہے کہ پروگرام اور پارٹی کی ذمہ داری کا نظام موجود ہو۔
اس پارٹی کے نظام نے جہاں بہت سی حقیقی ضرورتوں کو پورا کیا، نیز جہاں وسیع و عریض ممالک اور لاکھوں اور کروڑوں کی آبادی میں اس کا قیام ناگزیر ہوگیا ،وہیں اس میں ایک بڑی خرابی بھی رونما ہوئی اور وہ پارٹی پرستی، یعنی پارٹی کو حق و باطل کا معیار جان لینا، اصول اور اقدار کی بالادستی سے صرفِ نظر اور اپنے ضمیر کی آواز کے مقابلے میں محض پارٹی کی موافقت کے جذبات سے کام کرنا۔
دورِ خلافت ِ راشدہ میں ہمیں یہ اہم چیز نظر آتی ہے کہ اس میں اپنے دور کے قبائل، برادریوں اور مشترک اجتماعی وجود رکھنے والے گروہوں کو ختم نہیں کیا گیا لیکن پارٹی بازی اور خاندانی، قبائلی یا گروہی مفادات کو حق و باطل کا معیار ماننے کا اصول بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکا گیا۔ گروہ اور احزاب اس لیے تھیں کہ لوگ ایک دوسرے کو جانیں، اجتماعی نظام زیادہ آسانی سے کام کرسکے۔ ہرشخص کی راے معلوم کرنے کے بجاے ایک گروہ اور پارٹی کے قائدین کی راے معلوم کرلی جائے اور اس طرح اس پورے گروہ کے نقطۂ نظر سے آگاہی حاصل کرلی جائے لیکن تربیت اور تعلیم کے ذریعے سے لوگوں میں پارٹی کی عصبیت کو، پارٹی بازی اور پارٹی پرستی کو ختم کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ خلافت ِ راشدہ نے کسی جبروتشدد کے بغیر، غلط احساسات کو زیادہ سے زیادہ دبا دیا، اور پارٹی پرستی کے فتنے کو اخلاقی سنوار کے ذریعے ختم کر دیا۔
دورِ خلافت راشدہ میں سب سے پہلے تو مہاجرین اور انصار کے دو گروہ تھے اور ان کے سربراہ اپنی پارٹی کے نمایندوں کی حیثیت سے امورِ سلطنت میں تعاون کرتے تھے۔ پھر خود انصار کے دو اہم قبیلے اوس اور خزرج کی شکل رکھتے تھے اور جس شخص نے بھی ثقیفہ بنوساعدہ کی بحثوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ان کے سیاسی وجود اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح محسوس کرسکتا ہے۔ اسی طرح مہاجرین میں کم از کم تین نمایاں پارٹیاں نظر آتی ہیں۔ بنواُمیہ، بنوزہرہ اور بنوہاشم۔۱؎
حضرت ابوبکرؓ نے ثقیفہ بنوساعدہ میں اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ امیرمہاجرین میں سے ہوگا اور انصار ان کے وزیر ہوں گے۔ خلفاے اربعہ نے مناصب کی تقسیم کے سلسلے میں اس بات کا پورا لحاظ رکھا کہ مختلف گروہوں میں سے اہل لوگوں کو مناصب دیے جائیں اور اس طرح ہرپارٹی کو نمایندگی ملتی رہے اور شکررنجی نہ پیدا ہو۔
حضرت عمر ؓ نے پارٹیوں کو ختم نہیں کیا، صرف پارٹی پرستی سے لوگوں کو منع کیا۔ ان کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کی شریعت کو قائم نہیں کرسکتا وہ شخص جو حق کے معاملے میں اپنی پارٹی کی ناانصافیوں کو گوارا کرنے والا ہو۔ ولا یکظم فی الحق علٰی حِزْبِہٖ، یہاں ضرب حزب کے وجود پر نہیں پارٹی کی ایسی پرستش پر ہے کہ حق و ناحق کا اختیار ہی ختم ہوجائے۲؎، اور غالباً یہی خود قرآن پاک کے اس ارشاد کا بھی منشا ہے کہ
ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات ۴۹:۱۳) ، لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ
۱- مولانا امین احسن اصلاحی اپنی کتاب اسلامی ریاست، شہریت کے حقوق و فرائض (۴) میں تحریر فرماتے ہیں: انصار اور مہاجرین کی ان دو پارٹیوں کے علاوہ خود مہاجرین کے اندر تین نمایاں پارٹیاں موجود تھیں۔ lبنواُمیہ کی پارٹی عثمان غنیؓ کی قیادت میں، lبنوزہرہ کی پارٹی سعد اور عبدالرحمن بن عوفؓ کی سرکردگی میں، lبنوہاشم کی پارٹی حضرت علیؓ اور عباسؓ ابن عبدالمطلب کی رہنمائی میں۔ اور ان میں سے بعض کا اختلاف حکومت کے ساتھ کھلا ہوا تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی حکومت نے انتہائی رواداری کے ساتھ اس اختلاف کو انگیز کیا۔ یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر کئی مہینے تک بیعت نہیں کی۔ (ص ۳۲)
۲- خود خوارج کے سلسلے میں جو پالیسی حضرت علیؓ نے اختیار فرمائی وہ بھی اسی مسلک پر روشنی ڈالتی ہے۔ خوارج کی حیثیت ایک متشدد حزب اختلاف کی تھی مگر آپؓ نے ان کو تحریر فرمایا کہ جب تک تم بدامنی نہیں پھیلاتے اور کشت و خون نہیں کرتے ہم تم سے تعرض نہیں کریں گے اور تمھیں اجازت ہوگی کہ جہاں چاہے رہو۔
ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ نیکوکار اور پرہیزگار ہے۔
یہاں نہ صرف یہ کہ ’شعوب‘ اور ’قبائل‘کے وجود کو ختم کرنے کی طرف کوئی اشارہ نہیں بلکہ اس کی ایک اہم ضرورت اور افادیت بیان کی گئی ہے۔ یعنی لتعارفوا،تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، امتیازات کو محسوس کرسکو، لیکن ساتھ ہی قبائل پرستی، گروہ پرستی اور قوم پرستی کی جڑ یہ کہہ کر کاٹ ڈالی گئی ہے کہ لتعارفوا کی حد سے آگے نہ بڑھنا کیوں کہ اسلام کی نگاہ میں حق اور شرف کا معیار قوم، قبیلہ اور گروہ نہیں ہیں بلکہ تقویٰ ہے۔
یہی اصول پارٹیوں کے سلسلے میں خلافت ِ راشدہ نے اختیار کیا، یعنی پارٹیوں کے وجود کو ختم نہیں کیا گیا صرف پارٹی پرستی کو ختم کیاگیا ۔ حق کا معیار سب کے لیے قرآن اور سنت نبویؐ قرار پایا اور ہر ایک نے اسی سے استدلال کیا۔ باقی نقطۂ نظر اور دوسرے اختلافات کی پہچان کے لیے پارٹیاں موجود رہیں اور نظامِ خلافت کو صحت مند بنیادوں پر ترقی دینے میں ممدومعاون ثابت ہوتی رہیں۔
خلافت ِ راشدہ کی آخری خصوصیت امیر کا ایک خاص کردار ہے جسے اچھی طرح سمجھے بغیر اس دور کی تصویر مکمل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کا امیر ان کا بہترین شخص ہوتا تھا۔ فہم و تدبیر ، اور تقویٰ اور صلاحیت کار میں سب پر فوقیت رکھتا تھا اور اس کے ہر کام کا محرک خدا کا خوف اور اُمت کی فلاح تھا۔
حضرت ابوبکرؓ کا کیا عالم تھا۔ اس کا ذکر حضرت علیؓ کی زبان سے سنیے: یہ تقریر حضرت علیؓ ابن ابی طالب نے آپ کی وفات کے وقت کی تھی: اے ابوبکر! اللہ تم پر رحم کرے، واللہ! تم پہلے آدمی تھے جس نے رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا، ایمان و اخلاص میں تمھارا ہم پلّہ کوئی نہ تھا۔خلوص و محبت میں تم سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ اخلاق و قربانی، ایثار و بزرگی میں تمھارا کوئی ثانی نہ تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کی جو خدمت تم نے کی اور رسولؐ اللہ کی رفاقت میں جس طرح ثابت قدم رہے اس کا بدلہ اللہ ہی تمھیں دے…واللہ تم اسلام کے حصن حصین تھے۔ کافروں کے لیے تمھارا وجود انتہائی اذیت بخش تھا۔ تمھاری کوئی دلیل وزن سے خالی نہ ہوتی تھی اور تمھاری بصیرت فہم و کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ تمھاری سرشت میں کمزوری کا ذرا سا بھی دخل نہ تھا۔ تم ایک پہاڑ کی مانند تھے جسے تند و تیز آندھیاں بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتیں۔ اگرچہ تم جسمانی لحاظ سے کمزور تھے لیکن دینی لحاظ سے جو قوت تم کو حاصل تھی اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تم دنیا والوں کی نظر وں میں واقعی ایک جلیل القدر انسان تھے اور مومنوں کی نگاہوں میں انتہائی رفیع الشان شخصیت کے مالک، لالچ اور نفسانی خواہشات تمھارے پاس نہ پھٹکتی تھی۔ ہر کمزور انسان تمھارے نزدیک اس وقت تک قوی تھا اور ہر قوی انسان اس وقت تک کمزور تھا جب تک تم قوی سے کمزور کا حق لے کر نہ دلوا دیتے تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمھارے اجر سے محروم نہ رکھے اور ہمیں تمھارے بعد بے یارومددگار نہ چھوڑدے بلکہ ہمارے سہارے کے لیے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کردے‘‘۔
حضرت ابوبکرؓ میں ذمہ داری کا احساس اتنا تھا کہ گھنٹوں رویا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کاش! میں پتھر ہوتا مگر امارت کے اس بار سے آزاد ہوتا۔ شخصی سیرت کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی پر زیادتی نہ کی، کبھی کسی کو دُکھ نہ پہنچایا اور حق کی راہ میں کبھی کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ خدمت خلق کا یہ عالم تھا کہ خلافت سے پہلے محلے کی جن بیوائوں کا سودا لا کر دیتے تھے اور جن کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے خلافت کے بعد بھی اس کام کو اسی طرح جاری رکھا۔ دن کو امورِ خلافت کی دیکھ بھال اور رات کو عبادت کا اہتمام ان کا روزمرہ کا شعار تھا۔ ہمہ وقتی خدمت کے باوجود کوئی معاوضہ لینے پر تیار نہ ہوتے تھے اور بہ مشکل تیار ہوئے تو بھی وفات کے وقت ساری رقم اپنا مکان بیچ کر ادا کردی۔
یہ تھی خلیفۂ اوّل کی سیرت! اسی لیے آپؓ کی وفات پر حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ: ’’اے خلیفۂ رسولؐ اللہ! تمھاری وفات نے قوم کو سخت مصیبت اور مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے، ہم تو تمھاری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے، تمھارے مرتبے کو کس طرح پاسکتے ہیں؟
حضرت عمرؓ جب خلیفہ ہوئے تو حضرت علیؓ نے ان کو یہ نصیحت کی تھی کہ ’’اگر آپ اپنے پیش رو کی جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو قمیص میں پیوند لگا لیجیے، تہمد اُونچی کیجیے، جوتے اپنے ہاتھ سے گانٹھ لیجیے، جرابوں میں پیوند لگا لیجیے، ارمان کم کیجیے اور بھوک سے کم کھایئے‘‘۔
حضرت عمرؓ اس معیار پر سختی سے قائم رہے کہ اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ حضرت عمرؓ کسی کرّوفر کے قائل نہ تھے۔ زمین پر سوتے، پیدل پھرتے، اپنے اُونٹ کی نکیل تھام کر خود چلتے اور اپنے غلام کو آرام کرنے کے لیے اُونٹ پر بٹھا دیتے۔ اپنے کپڑے خود دھوتے اور کپڑے اتنے کم تھے کہ ایک مرتبہ مسجد وقت پر اس لیے نہیں آسکے کہ کوئی دوسرا جوڑا نہ تھا اور آپ اپنی قمیص دھو کر سُکھا رہے تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ سفرشام کے دوران میں ایک جگہ راستے میں پانی عبور کرنا پڑا تو بے تکلف اُونٹ سے اُترے، چرمی موزے ہاتھ میں لیے اور اُونٹ کی نکیل تھام کر پانی میں گھس گئے۔ فوج کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ ساتھ تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ آپ کی اس بات کو دیکھ کر بڑا تعجب کریں گے، تو آپؓ نے فرمایا: ا ے ابوعبیدہؓ! کاش یہ بات تمھارے سوا کوئی اور کہتا۔ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ہم سب سے زیادہ ذلیل تھے، ہم سب سے زیادہ حقیر تھے اور ہم سے زیادہ کم تعداد کوئی اور قوم دنیا میں نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام کے ذریعے عزت دی۔ یاد رکھو! اگر تم اسلام کی بخشی ہوئی عزت کے سوا کوئی اور صورت عزت کی حاصل کرنا چاہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ذلیل کردے گا‘‘۔
تقویٰ کا یہ حال تھا کہ دن بھر عوام کی خدمت میں اور اُمورِ سلطنت کی انجام دہی میں سرگرداں رہتے اور رات بھر عبادت کرتے اور کہتے کہ اگر میں دن کو غافل ہوجائوں تو اُمت تباہ ہوجائے اور اگر رات کو غافل ہوجائوں تو میں تباہ ہوجائوں۔ بیت المال سے بقدر کفالت لیتے اور اگر اپنے بچوں کے پاس بھی کوئی غیرمعمولی چیز دیکھ لیتے تو اس کو فوراً بیت المال میں داخل کرادیتے۔ قحط کے زمانے میں خود گوشت اور گیہوں کھانا ترک کردیا اور فرمایا کہ جب تک میں خود وہی تکلیف نہ اُٹھائوں جو عوام اُٹھا رہے ہیں، مجھے اِن کی مصیبت کا صحیح اندازہ کیسے ہوسکتا ہے۔ بیت المال کی چیزوں کی ایسی نگرانی کرتے تھے کہ ایک ہبّہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جاسکتا تھا۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کوئی رعایت نہ کرتے تھے اور ایک مرتبہ جب ان کی بیٹی نے اہل و عیال کو آرام پہنچانے کے لیے کہا تو فرمایا کہ اے بیٹی! تو نے اپنی قوم کے ساتھ تو خیرخواہی کی لیکن اپنے باپ کے ساتھ بدخواہی کی ہے۔ میرے اہل و عیال کا حق میری جان اور میرے مال میں ہے لیکن میرے دین اور میری امانت کے اندر انھیں دخل انداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ایک مرتبہ بیت المال کا ایک اُونٹ کھو گیا تو آپ دھوپ میں مارے مارے پھرے تاکہ اس کو ڈھونڈھ لائیں۔ حضرت علیؓ نے یہ حال دیکھا تو بے ساختہ کہا: قَدْ أَتْعَبْتَ الْخُلَفَائَ بَعْدَکَ، ’’آپ نے اپنے بعد آنے والوں کو تھکا دیا‘‘۔
حضرت عمرؓ گلیوں میں پھرتے تھے کہ کوئی مستحق حکومت کی مدد سے محروم نہ رہ جائے اور اگر کسی کی مصیبت کا کوئی واقعہ سامنے آتا تو کانپ اُٹھتے۔ خود سامان اُٹھا کر لاتے، کھانا پکا کر کھلاتے اور کیا کیا کچھ نہ کرتے!
اور اس سب کے بعد بھی آخیر عمر میں کہا کرتے تھے کہ اگر برابر سرابر چھوٹ جائوں، نہ انعام ہی پائوں اور نہ ہی سزا کا مستحق ٹھیرایا جائوں تو بڑی بات ہے۔
حضرت عثمانؓ کا حال بھی یہ تھا کہ اپنا مال اور اپنی دولت دین اور اہلِ دین کی ضرورتوں کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اُمت کی بہبود کی خاطر اپنا آرام تج دیا تھا، حتیٰ کہ قوم کو فتنے سے بچانے کے لیے اپنی جان تک قربان کردی۔
یہی عالم حضرت علیؓ کا تھا کہ ان کی زندگی میں کوئی کھوٹ نظر نہیں آتا اور وہ اپنی ہرصلاحیت اور اپنی طاقت کی ہر رمق اُمت کی بہبود کے لیے وقف کردیتے ہیں اور اپنی ذات کے لیے معمولی سے معمولی چیز بھی نہیں لیتے۔
خلفاے راشدینؓ نے اپنی ذاتی سیرت اور خدمت دین و مسلمین کے ذریعے اُمت کا اعتماد حاصل کیا اور اس دور کی جو بھی خوبیاں نظر آتی ہیں ان کے فروغ میں انسانیت کے انھی بہترین نمونوں کا بڑا دخل ہے۔ خلافت ِ راشدہ کا مزاج اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دین کے بے لوث خادم اس نظام کو چلائیں جبھی وہ کامیاب ہوسکتے ہیں، اور جب یہ نظام قائم ہوجاتاہے تو زمین اپنے خزانے اُگل دیتی ہے اور آسمان اپنی نعمتیں برسانے لگتا ہے ، اور دنیا خیروصلاح سے بھر جاتی ہے۔
اُمت مسلمہ نہ انگلستان کا نظام چاہتی ہے نہ روس کا، نہ امریکا کے طریقوں سے اسے دل چسپی ہے نہ فرانس کے۔بلاشبہہ اپنے زمانے اور اپنی ضرورتوں کے مطابق ان کو اختیار ہے کہ سیاسی اور اداراتی دروبست کا اہتمام کریں، لیکن اصولِ اقدار اور معیار کے باب میں وہ تو خلافت راشدہ کے اصولوں کا احیا چاہتی ہے اور ہراس پیکر کو پسند کرے گی جو ان اصولوں کو ٹھیک ٹھیک قائم کرسکے ؎
اقبال لکھنؤ سے نہ دلّی سے ہے غرض
ہم تو اسیر ہیں خم زلفِ کمال کے