مارچ ۲۰۱۲

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مارچ ۲۰۱۲ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

جادو کا اثر اور علاج

سوال: آج کے دور میں جادو ٹونے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے۔ لوگ جادوگروں کے پاس بہت جانے لگے ہیں۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ جس پر جادو کیا گیا ہو، اس کے علاج کا طریقہ بھی بتلایئے۔

جواب:  جادو کرنا گناہِ کبیرہ ہے، بلکہ جادو کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔    اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ (البقرہ ۲:۱۰۲) ’’اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین، سلیمان ؑ کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان ؑ نے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے‘‘۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ شیطان ہی لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور یہ کفریہ عمل ہے۔ جو فرشتے آسمان سے اُتارے گئے تھے انھوں نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ جادو کرنا یا سیکھنا کفریہ عمل ہے۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جادو سیکھنے والے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ان کے لیے نقصان دہ ہے، فائدہ مند نہیں، اور ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں اجروثواب کا کوئی حصہ نہیں۔ نیز فرمایا: جادوگر میاں بیوی میں جدائی ڈالتے ہیں، مگر وہ اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ جادو کفر، گمراہی اور دین اسلام سے رُوگردانی کے مترادف ہے، اگر ایسا کرنے والا اسلام کا دعوے دار ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات مہلک ترین گناہوں سے بچو جن میں سے پہلا شرک اور دوسرا جادو۔ شرک کی طرح جادو بھی مہلک ہے، اس لیے کہ جادوگر، شیطان کی پوجا کے ذریعے ہی کامیاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ شیطان سے استعانت اور مدد طلب کرتے ہیں۔ شیطان کے نام پر نذر و نیاز اور جانور ذبح کرتے ہیں۔   حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے دھاگوں سے گرہیں لگائیں اور ان میں پھونکیں ماریں، تو گویا اس نے جادو کیا اور جادو شرک کے مترادف ہے، اور جس نے گردن میں تعویذ وغیرہ لٹکائے وہ ان کے حوالے کر دیا جائے گا (یعنی پھر اللہ کی حفاظت اس سے اُٹھ جائے گی)۔ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ (الفلق ۱۱۳:۴) سے مفسرین نے جادوگرنیاں مراد لی ہے جو شرکیہ الفاظ  پڑھ کر پھونک مارتی ہیں اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے شیطانوں سے مدد مانگتی ہیں۔

شریعت کی رُو سے اسلامی مملکت میں جادوگر کو سزاے موت دی جاتی ہے، اس لیے کہ اس کا وجود اسلامی معاشرے کے لیے سخت مضر ہے۔ حضرت عمرؓ سے ایسا ہی منقول ہے۔ لہٰذا نجومیوں اور کاہنوں کی طرح جادوگروں کے پاس بھی جانا، ان سے قسمت کا حال پوچھنا اور ان کی بات پر یقین کرنا جائز نہیں۔

جہاں تک جادو کے علاج کا تعلق ہے تو وہ شرعی طور پر ثابت شدہ دُعائوں اور دوائوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔ جس پر جادو ہوا ہو، اس پر سورئہ فاتحہ، آیت الکرسی، نیز سورۂ اعراف، سورئہ یونس اور سورئہ طٰہٰ کی جادو والی آیات، اور سورئہ کافرون، سورئہ اخلاص، سورئہ علق اور سورئہ ناس پڑھ کر   دم کرنا چاہیے۔ یہ آخری تین سورتیں تین تین مرتبہ پڑھنی چاہییں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دودُعائیں بھی تین تین مرتبہ پڑھ کر دم کرنا چاہیے: اَللّٰھُمَّ رَبَّ النَّاسِ اَذْھِبِ الْبَأسَ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لَاشِفَائَ اِلاَّ شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا یُغْادِرُ سَقَمًا۔اور وہ دُعا اور جھاڑ پھونک جو حضرت جبریل ؑ نے آں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کی تھی: بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئِ یُوْذِیْکَ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، اللّٰہ یَشْفِیْکَ، بِسْمِ اللّٰہَ اَرْقِیْکَ۔ اس علاج سے ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔ علاج میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ دھاگے اور تعویذ گنڈے وغیرہ تلف کردیے جائیں جن کے بارے میں یہ گمان ہو کہ ان سے جادو کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ جس پر جادو کیا گیا ہو، اسے شرعی طور پر ثابت شدہ جھاڑ پھونک کرنے اور اوراد و وظائف پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر فجر اور مغرب کی نماز کے بعد تین تین مرتبہ آخری تین سورتیں اور یہ دُعا اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ پڑھنی چاہیے۔نیز ہرنماز کے بعد اور سوتے وقت آیۃ الکرسی ضرور پڑھنی چاہیے۔ صبح شام تین تین بار بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعْ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ پڑھنے کو معمول بنالینا چاہیے۔پھر اللہ کے ساتھ حُسنِ ظن رکھنا چاہیے اور یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ اسباب پیدا کرنے والی اسی کی ذات ہے اور وہ جب چاہے گا بیمار کو شفا بخش دے گا۔     یہ دُعائیں اور تعوذات تو اسباب ہیں شافی اللہ کی ذات ہے۔ وہ چاہے تو ان اسباب میں فوری تاثیر فرما دے۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ کسی نیک آدمی سے جو قرآن و سنت کے مسنون دم کرتا ہو، اس سے دم کرانا بھی جائز ہے۔ بعض اوقات آدمی بیمار ہوتا ہے، اسے کوئی اندرونی ذہنی بیماری لاحق ہوتی ہے لیکن لوگ وہم سے اسے جادو کا اثر یا جنات کا اثر سمجھ لیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسی قسم کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر عبدالحئی ابڑو)


قبولیت ِدُعا میں تاخیر کی حکمت

س: بعض لوگ دُعا مانگتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتی، پھر وہ لمبی دُعائیں مانگنا شروع کردیتے ہیں مگر بظاہر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اس طرح شیطان کو وسوسہ اندازی اور  اپنے مالک سے بدگمان کرنے کا موقع مل جاتا ہے؟ ایسے میں دُعا کی قبولیت میں تاخیر کی کیا حکمت ہوتی ہے؟

ج:  اگر کسی کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو، تو اسے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ قبولیت دُعا میں تاخیر کے پیچھے بڑی حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ مالک الملک ہیں،    اس کے فضل کو ٹالنے والا اور اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا کوئی نہیں، اس کے دینے یا      نہ دینے پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ اگر وہ دے تو یہ اس کا فضل ہے، نہ دے تو یہ اس کا عدل ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں، ہمارے بارے میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَیَخْتَارُ ط مَا کَانَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ ط(القصص ۲۸:۶۸) ’’تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کرلیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے‘‘۔

یہ عجیب بات ہے کہ:  ۱-غلام اپنے آقا کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے اور پھر   اپنا حق پورا ادا کرنے کا تقاضا کرے۔

۲-اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ حکمت کے تحت دیتا ہے اور حکمت کے تحت روکتا ہے۔ اپنی سطحی نظر میں انسان کسی چیز کو بہتر سمجھتا ہے مگر وہ اس کی حکمت کا تقاضا نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر ایسی چیزیں کرتا ہے جو بظاہر ضرررساں لگتی ہیں مگر وہی مصلحت کا تقاضا ہوتی ہیں۔

۳- انسان کو کسی کام کے انجام کا پتا نہیں، وہ ایسی چیز مانگ سکتا ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے اس میں اس کا نقصان ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ج  وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنo (البقرہ۲:۲۱۶) ،’’ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں ناگوار ہو اور وہی تمھارے لیے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند ہو اور وہی تمھارے لیے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ یہ آیت یہ راز بتاتی ہے کہ بندے کو اپنے مالک کو تجاویز نہیں دینی چاہییں، اور ایسی چیزیں نہیں مانگنی چاہییں جن کی حقیقت کے متعلق اُسے علم نہ ہو، بلکہ اسے یہ سوال کرنا چاہیے کہ مولا! جس چیز کا آپ میرے لیے انتخاب کریں اس کا انجام بخیر فرمائیں۔ اس سے زیادہ نفع بخش کوئی سوال نہیں۔

۴- دُعا کی قبولیت میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بندہ اپنا جائزہ لے، اپنے نفس کا محاسبہ کرے، کیونکہ بعض اوقات تاخیر مانگنے والے کے اندر پائے جانے والے کسی نقص کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ شاید اس کا کھانا پینا حرام کا ہو، شاید دُعا کرتے وقت اس کا دل غفلت کا شکار ہو، یا وہ گناہوں کا مرتکب ہو جن کی سزا دُعا قبول نہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہو۔ اس طرح قبولیت میں تاخیر کے ذریعے اسے اپنا محاسبہ کرنے اور توبہ کرنے کا موقع دیا جارہا ہو۔ اگر دُعا   فوراً قبول کرلی جاتی تو وہ اپنے نفس سے غفلت کا شکار ہوجاتا اور یہ سمجھ لیتا کہ وہ ٹھیک راستے پر ہے۔ اس طرح غرور اور غفلت اس کے لیے ہلاکت کا سبب بن جاتے۔

۵- بعض اوقات قبولیت دُعا میں تاخیر اس لیے ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کے لیے آخرت میں اجر بڑھا چڑھا کر دینا چاہتا ہے، یا اس دُعا کے حساب سے اس سے کوئی متوقع شر اور مصیبت دُور رکھنا چاہتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آخرت میں بندہ دُعا کا اجروثواب دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش! دنیا میں میری ایک دُعا بھی قبول نہ ہوئی ہوتی۔ بہرحال دُعا کا نتیجہ یقینی ہے، اگرچہ بندے کو اپنی آنکھوں سے قبولیت نظر نہ آئے تو اسے اپنے رب کے بارے میں خوش گمانی رکھنی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ مالک نے میری دُعا اس انداز سے قبول کی ہے جسے میں نہیں جانتا۔ اسے کبھی بھی دُعا ترک نہیں کرنی چاہیے۔ دُعا کا نتیجہ ہمیشہ بھلائی اور خیروبرکت کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔(ع - ا )

نجات کی بنیاد اسلام ؟

س: ایک موقع پر ایک صاحب نے دورانِ گفتگوایک حدیث بیان کی۔ روزِ قیامت رب العالمین انسان کے بارے فیصلہ کچھ اس طرح کریں گے کہ ایک انسان کی نماز آئے گی، اور اس کی نجات کے لیے سفارش کرے گی۔ اسی طرح روزہ، قرآن اور دوسرے اعمالِ صالحہ اس کی نجات کے لیے سفارش کریں گے لیکن رب العالمین ان تمام اعمال کو ایک طرف کھڑا ہونے کا حکم دے کر فرمائیں گے کہ آج میں نے فیصلہ نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ پر نہیں بلکہ اس انسان کے ’اسلام‘ پر کرنا ہے۔ پھر اسلام کو بلاکر اس کے نتیجے کو دیکھ کر نجات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ یہاں ’اسلام‘ سے کیا مراد ہے؟ پھر نماز اور دوسرے اعمال کی تاکید کا کیا مقصد ہوا؟

ج:  یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے مضمون پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ حدیث میں اسلام کی بنیاد پر فیصلے کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جائے گاکہ ایک انسان پورے دین کو مانتا ہے یا نہیں، اس کے ہرحکم کے سامنے سرخم تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً،پورے اسلام میں داخل ہواجائو پر عمل کیا ہے یا نہیں؟ یا صرف اسلام کے چند احکام کو جو اس کو پسند آئے انھیں قبول کیا اور ان پر عمل کیا، باقی کو نظرانداز کردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo (البقرہ ۲:۸۵)’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور  کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف  پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو‘‘۔قرآن پاک کی اس  آیت کریمہ میں یہودیوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے کچھ احکام کو مانتے تھے اور کچھ کا انکار کرتے تھے۔

یہی طرزِعمل اب مسلمانوں نے بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ کچھ لوگ چند عبادات کو دین   سمجھ کرکے ان پر عمل کرتے ہیں لیکن اسلام کے باقی حصے کو دین ہی نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے وہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں، نمازیں بھی ادا کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور حج کے لیے بھی جاتے ہیں لیکن باقی دین کو ترک کر دینے میں کوئی گناہ نہیں سمجھتے۔ حدیث میں انھی لوگوں کی مذمت کی گئی ہے کہ اس قسم کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے۔ نماز، روزے اور دیگر اعمال کے فضائل اور جو تاکید کی گئی ہے اس کا فائدہ بھی انھی لوگوں کو ملے گا جو پورے دین کو مانتے اور اپناتے ہیں اور اسلامی نظام کو ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرے تمام نظاموں کو مٹاکر اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کا اس حدیث پر اشکال درست نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)