مارچ ۲۰۱۲

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| مارچ ۲۰۱۲ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

عبدالرشید عراقی ، سوہدرہ

’بنگلہ دیش کی جیل سے پیغام‘ (فروری ۲۰۱۲ئ) میں پروفیسر غلام اعظم صاحب نے اپنے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ حکومت نے ان کے خلاف جو اقدام کیا ہے وہ ظلم و زیادتی کی انتہا ہے۔ ایسے شخص کو جس کی عمر ۸۹برس ہے’ جیل کی کوٹھری میں بند کردیا گیا ہے۔ جو حکومت ظلم و ستم کی انتہا کردے   اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسی حکومت دیرپا نہیں رہتی، اسے اپنے ظلم کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ ان شاء اللہ پروفیسر غلام اعظم صاحب جیل سے سرخ رو ہوکر باہر آئیں گے اور اُن کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔


دانش یار ، لاہور

’بارش اور پانی، اللہ کی نشانی‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) پڑھ کر پانی جیسی نعمت کی قدروقیمت کا صحیح معنوں میں احساس ہوا۔ قرآن پاک میں اللہ کی آیات (نشانیوں) پر غوروفکر اور تدبر کے لیے جس طرح زور دیا گیا ہے، اس مضمون کے مطالعے سے اس کی اہمیت بھی اُجاگر ہوتی ہے اور غوروفکر کے لیے تحریک ملتی ہے۔ پانی جہاں اللہ کی نعمت ہے وہاں اس کی قدر کرتے ہوئے اس کے ضیاع سے بھی بچنا چاہیے۔ یہ بھی اظہارِ تشکر ہے۔


عبدالرشید صدیقی ،برطانیہ

’بارش اور پانی، اللہ کی نشانی‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) کو مفید پایا، البتہ ص ۳۱ پر ’’انسانی جسم کا درجۂ حرارت بالعموم ۲۵ تا ۴۰ درجہ سینٹی گریڈ کے درمیان‘‘ بتایا ہے جو صحیح نہیں۔ انسانی جسم کا عمومی درجۂ حرارت ۲ئ۳۳ سے ۲ئ۳۸ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے، جو فارن ہایٹ میں ۹۲-۱۰۱ بنتا ہے۔ مرض کی حالت میں اس میں ضرورتفاوت ہوتا ہے۔


اظفر بخاری ،(ای میل)

’فقہی رخصتوں پر عمل‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) اہم موضوع پر عمدہ تحریر ہے اور ترجمان کے ذریعے ایک وسیع حلقے تک اس کی رسائی ممکن ہوئی ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی مفید رہے گا۔ اس موقع پر میں ایک توجہ بھی دلانا چاہتا ہوں کہ اُردو دُنیا کی تیسری بڑی زبان ہے اور ترجمان  کے ذریعے ہمیں اہم مسائل پر بہترین رہنمائی میسر آتی ہے، تاہم اس کی زبان قدرے مشکل ہے۔ ایک عام قاری کے لیے اسے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اگر مشکل تراکیب کے عام فہم معنی بھی دے دیے جائیں تو زیادہ مؤثر ابلاغ ہوسکے گا۔


قاری فدا محمد ،چترال

’فقہی رخصتوں پر عمل‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) خاصے کی چیز ہے، تاہم اعتدال اور توازن کی کمی محسوس ہوئی۔ اس مضمون میں رخصتوں پر عمل کی (اجازت کے اعلان کے باوجود) سخت حوصلہ شکنی کی گئی ہے، جب کہ   شارع علیہ السلام نے ضرورت کے وقت رخصتوں پر نہ صرف خود عمل فرمایا ہے بلکہ اُمت کو بھی ان سے فائدہ اُٹھانے کی تلقین فرمائی ہے۔ مضمون اپنے مرکزی نکتے اختلافی مسائل میں فقہاے اسلام کے مختلف اقوال تک محدود ہوتا اور اس میں موجودہ دور کے متجددین کے افکار اور تلفیق پسندی کی مثالوں سے وضاحت کے ساتھ ان پر نکیر ہوتی تو کیا بات تھی۔یہ عبارت کہ ’’ایسے حضرات کی کمی نہیں ہے جو عصری تغیرات کا حوالہ دے کر اسلامی فقہ کی ازسرنو تدوین کا دم بھرتے نہیں تھکتے‘‘ (ص ۷۵) قابلِ غور ہے۔ فقہ اسلامی کی تدوینِ جدید کے نظریے میں آخر کیا برائی ہے جس کی اس شدومد سے مذمت کی جارہی ہے؟ اس مضمون کے بعض جملے اور عبارتیں غیرواضح ہیں۔

’رسائل و مسائل‘ (جنوری ۲۰۱۲ئ) کے تحت مولانا عبدالمالک صاحب کی طرف سے بلاسود      بیمہ پالیسی سے متعلق سوال کے جواب میں یہ فرمایا جانا کہ ’’مولانا تقی عثمانی صاحب نے اگر کسی بنک کی پالیسی کو غیرسودی قرار دیا ہے تو وہ درست ہے‘‘ فقیہانہ انداز سے قطعاً میل نہیں کھاتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس مسئلے سے متعلق ان کی بعض آرا سے دیگر علما کے ساتھ ساتھ خود انھی کے ہم مشرب علما میں بھی سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔


عمران ظہور غازی ، لاہور

 موضوعات کے تنوع میں اضافہ ہونا چاہیے ۔ عرب دنیا انقلابات سے گزر رہی ہے۔ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ تو چھپتا رہا لیکن جامع تجزیہ سامنے نہ آسکا۔ معاشرے میں نئے نئے رجحانات اور مسائل رہنمائی کے متقاضی ہیں۔


منیم اقبال کیانی ، راولاکوٹ

’عورتوں کی نماز‘(فروری ۲۰۱۲ئ) جیسے اختلافی مضامین ترجمان کی زینت ہی نہ بنیں تو اچھا ہے ، وگرنہ جواب الجواب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔


عنایت علی خان ، حیدر آباد

پروفیسر خورشیداحمدصاحب نے ’حکومت، ریاست کے لیے خطرہ!‘ (اشارات، اکتوبر ۲۰۱۱ئ) میں میری نظم کا جو بندشامل کیا تھا، ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کے بعد اس میں ایک مصرعے کا اضافہ ہوا تھا، جو یہ ہے:

تو خون بہا دینا، ہم خون بہا دیں گے

یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے

احمد اقبال قاسمی ،حیدرآباد

گذشتہ دنوں مصر جانے کا اتفاق ہوا۔ جامعہ ازہر کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ یہ مصر ہی نہیں اُمت کا علمی و فکری مرکز ہے۔ مجھے اخوان المسلمون کے مرکز جانے کا بھی موقع ملا۔ شان دار عمارت جدید سہولیات سے آراستہ تھی۔ امین عام محمودحسن صاحب کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ مجھے اخوان کی کامیابیوں کو دیکھ کر امام البنا شہید، سید قطب شہید اور عبدالقادر عودہ شہید کی قربانیاں یاد آگئیں اور مجھ پر رقت طاری ہوگئی۔ میں نے امین عام سے عرض کیا کہ پاکستان کی طرح دیگر قوتوں کو ساتھ ملا کر قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی دستور کی تشکیل کے لیے مل جل کر کوشش کیجیے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اسی نہج پر کام کر رہے ہیں اور حزب الحریۃ والعدالۃ (حریت و عدالت پارٹی)کا قیام اسی غرض کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ جان کر اطمینان ہوا، تاہم تحریکِ اسلامی پاکستان کو بھی اخوان کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کرنے اور بھرپور کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔

مصر کا عالمی عجائب گھر بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت موسٰی ؑکے عہد کے فراعنہ خاندان کی ممی کی ہوئی لاشیں، ان کے بال، اور دانت عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔ سننے میں آیا کہ حضرت موسٰی ؑکے عہد کے    فرعون رعمیس کی ممی کی ہوئی لاش بیت المقدس کے عجائب گھر میں ہے۔ اہرامِ مصر کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح ایسی عظیم الشان عمارت کی تعمیر کرین کی ایجاد سے پہلے ممکن ہوئی۔ قاہرہ کے وسط میں دریاے نیل اور اس کی دو شاخیں بہتی ہیں۔ ان کے اطراف میں فلک بوس عمارتیں قاہرہ کے مالی ثروت کی مظہر ہیں،    جب کہ قدیم آبادیاں قدیم مصری تہذیب کا منظر پیش کرتی ہیں۔