مارچ ۲۰۱۲

فہرست مضامین

خطبات ___ایک مطالعہ

خرم مراد | مارچ ۲۰۱۲ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی مقبولِ عام اور مشہور کتاب خطبات کا انگریزی ترجمہ جب اسلامک فائونڈیشن لسٹر ، برطانیہ سے Let us be Muslims کے نام سے شائع کیا گیا تو محترم خرم مراد نے ترجمہ کرنے کے ساتھ ایک طویل مقدمہ بھی لکھا، جس میں اس کتاب کی خصوصیات مؤثرانداز سے  پیش کی گئیں۔ اس مقدمے کا ترجمہ تذکرۂ سید مودودی میں شائع کیا گیا۔ اس ترجمے پر   محترم مقدمہ نگار نے خود نظرثانی بھی کی تھی۔ اس کا ایک حصہ ہم پیش کر رہے ہیں۔ مکمل مطالعے کے لیے تذکرۂ سید مودودی-۲ ملاحظہ کیجیے۔ (ادارہ)

اسلام ایک روایتی مذہب نہیں، بلکہ دُنیا میں خداخوفی، عبادت گزاری اور آخرت میں رضاے الٰہی کے تابع ابدی کامرانی کا پیغام ہے۔ یہ پیغام محض انفرادی وعظ و تلقین کا آوازہ نہیں، بلکہ عمل اور اجتماعی جدوجہد کی پکار بھی ہے۔ اس سرمدی پیغام کو انبیا ؑو رُسل ؑنے پھیلایا، عام کیا،   اس راستے میں اپنی زندگیوں کو نثار کیا، اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکمل کیا۔ بعدازاں یہ ذمہ داری پوری اُمت اسلامیہ پر عائد ہوگئی کہ وہ ہدایت ِ ربانی کو عام کریں۔ یہ شمعِ ہدایت  ظلمت اور تاریکی، جبر اور صُلح، محکومی اور حاکمیت ،گویا کہ ہررنگ میں روشن اور منور رہی۔ بلاشبہہ کبھی اس لَو کا ہالہ وسیع رہا، اور کبھی مایوسی کی اتھاہ یوں سامنے آئی کہ دل بیٹھنے لگے، اور یہ ان سعید رُوحوں کا کمال اور ربِ کریم کی برکت و عنایت ہے کہ دیپ سے دیپ روشن ہوتے رہے۔

ان باکمال شخصیات میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) کا اسمِ گرامی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوچکا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں جگہ پانا بھی شاید کوئی بڑے کمال کی بات نہیں ہے۔ لیکن مولانا کی عظمت و بزرگی کا اصل راز وہ حکمت اور تدبر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے پر چلنے اور لوگوں کو چلانے کے لیے انھیں عطا فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کا راہوارِقلم، مولانا کا طرزِ استدلال، مولانا کے طرزِ بیان اور مولانا کی بصیرت افروز رہنمائی وہ انعام ہے جس نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے، بھٹکے ذہنوں کو صراطِ مستقیم پر چلانے اور جمودزدہ زندگیوں کو جہادِعظیم میں کھپا دینے کا کارنامہ انجام دیا....

مولانا مودودی کی کتاب خطبات کوئی معمولی کاوش نہیں ہے۔اگرچہ یہ کتاب عام اور معروف موضوعات اور سیدھی سادی سچی باتوں پر مشتمل ہے، جن کو عام اور کم پڑھے لکھے یا اَن پڑھ لوگوں کے سامنے سادہ الفاظ اور انھی کی روزمرہ کی زبان میں پیش کیا گیا تھا، مگر خدا کے فضل و کرم سے اس کتاب نے مولانا کی کسی بھی اس سے زیادہ علمی کتاب کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگوں کے دلوں میں ہل چل پیدا کی ہے، اور کہیں زیادہ زندگیوں کو اپنا رُخ بدل کر اپنے خالقِ حقیقی کے ساتھ وابستہ ہوکر زندگی گزارنے کی راہ پر گامزن کردیا ہے....

سید مودودی کی تمام تحریروں میں خطبات کے الفاظ اگرچہ وہ ایک دُور دراز مقام پر ایک چھوٹی سی مسجد کی چار دیواری میں بولے گئے، اپنے زمان و مکاں کی حدود کو عبور کر کے اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان الفاظ نے اپنے قاریوں کے دل و دماغ میں جو تاثر پیدا کیا ہے وہ ٹھیک ٹھیک ان کے مقصد اور پیغام کی اس گہرائی اور اخلاص کے تناسب سے ہے جو ان الفاظ میں کارفرما ہے۔ انھوں نے بے شمار لوگوں کو ان کی کمزوریوں کا شعور دیا ہے، اور ان کے ایمان میں اخلاص پیدا کیا ہے....

اس کتاب میں مولانا مودودی کی گفتگو کے موضوعات وہ ہیں جو اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، یعنی، ایمان اور اسلام، علم و عملِ صالح، تقویٰ، دُنیا و آخرت، عبادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد۔ یہ تمام بالکل وہی موضوعات ہیں جن پر تمام مذہبی اہلِ قلم اور واعظین کلام کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مولانا کے خطاب میں کیا منفرد خصوصیت ہے؟ یہ سوال بالکل بجا ہے۔ آیئے اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

اگرچہ اس میں شک نہیں کہ مولانا کا بیان بھی ان موضوعات کی حقیقت کے بارے میں بڑا واضح اور منفرد و غیرمعمولی نوعیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ   ان تمام معمولی اور روزمرہ کے موضوعات کے ابتدائی، اصلی اور حقیقی معانی کا احیا کرکے، اور ہماری آج کی زندگی کے ساتھ جوڑ کے، ان کو ایک بالکل مختلف انقلابی مقام دے دیتے ہیں۔

وہ یہ کارنامہ کس طرح انجام دیتے ہیں؟

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ ہرموضوع کا ٹھیک وہی مقام بحال کردیتے ہیں جو اسے اسلام میں حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے اور یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ وہ ان سب کی ان باہم کڑیوں کو آپس میں پھر سے جوڑ دیتے ہیں جو عرصے سے ہماری زندگی میں فکروعمل کے دائرے میں ٹوٹ چکی ہیں اور جن کو ہم بالکل فراموش کربیٹھے ہیں۔ ایمان، اسلام، دنیا و آخرت، نماز، روزہ، یہ سب موجود ہیں، لیکن یہ سب اپنے دائرے اور حلقے  تک محدود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان سب کو ایک علیحدہ اکائی تصور کیے بیٹھے ہیں، اور ایک علیحدہ اکائی کے طور پر ہی ان سب سے معاملہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس لیے اگرچہ ہر جُز اپنے مقام پر موجود ہو اور مسخ بھی نہ ہوا ہو، اور اس میں کوئی غیرمتعلق حصہ شامل بھی نہ کیا گیا ہو، پھر بھی مولانا کی تمثیل کے مطابق، یہ سب پُرزوں کی حیثیت میں رہتے ہیں اور ایک مجسم گھڑیال کی صورت اختیار نہیں کرتے، کیونکہ وہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مولانا ان سب پُرزوں کو جمع کرلیتے ہیں اور ہمیں ان کو جوڑنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اچانک جو چیز غیراہم اور غیرمتعلق تھی، ایک مرکزی حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور ہماری زندگی کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس طرح باوجود اس کے کہ ان کے موضوعات معروف اور عام ہیں، اور باوجود اس کے کہ وہ طویل، بلند آہنگ اور شان دار خطابت کے لبادے میں ملبوس نہیں کیے گئے، اپنے گہرے نقوش دلوں پر مرتسم کرتے چلے جاتے ہیں۔

مولانا کے موضوعات کی گراں قدری، قوت اور وسعت یقینی طور پر بہت وقیع اور عمیق ہے۔ لیکن ہم بآسانی ایسی سات کڑیوں کا تذکرہ کرسکتے ہیں، جن کے درمیان انھوں نے دوبارہ ربط قائم کیا ہے:

  • پہلی کڑی یہ ہے کہ وہ پوری کی پوری زندگی کا رشتہ ایمان کے ساتھ قائم کرتے ہیں۔ ایمان زندگی کا ایسا مرکز بن جاتا ہے ، جو خدا کی مکمل فرماں برداری سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اس قسم کے ایمان کو ہم نے ایک عرصے سے واقعی زندگی سے غیرمتعلق بنا رکھا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ مولانا ہمارے ایمان اور عمل کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں اور اس طرح عمل کا ربط بھی زندگی سے قائم کر کے اس کا ایک اہم جُز بنا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک بغیر    اعمالِ صالح کے حقیقی ایمان ممکن ہی نہیں۔
  • تیسرے یہ کہ وہ مراسم، یعنی ارکانِ خمسہ کا رشتہ بھی ایمان سے اس طرح قائم کرتے ہیں کہ جیسے ایمان بیج ہے، اور یہ پانچ ارکان لازماً اسی میں سے تنے کی صورت میں پھوٹ کر نکلتے ہیں۔ اعمالِ صالحہ ایمان کے اسی بیج کی وہ شاخیں (شعب) ہیں جو عبادات کے تنے سے پھوٹ کر نکلتی ہیں اور زندگی کو حیاتِ طیبہ بنا دیتی ہیں۔
  • چوتھے یہ کہ وہ ظاہر اور باطن کو جوڑ کر ایک کُل کی حیثیت دے دیتے ہیں، گویا جسم اور روح میں اتصال پیدا کر دیتے ہیں۔ اگر اعمال کی شکلوں سے صحیح نتائج پیدا نہیں ہورہے تو ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روح سے عاری ہیں۔ ظاہری دین داری کا لبادہ جو رُوح سے خالی دلوں کو اوڑھا دیا گیا ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں رکھتا۔
  • پانچویں یہ کہ وہ جہاد کو حیاتِ صالحہ کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، اور اس کا زندگی میں صحیح مقام اُجاگر کرتے ہیں۔ خدا کو جو اعمالِ صالحہ ہم سے مطلوب ہیں، ان میں جہاد اس کا پسندیدہ عمل اور سارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ جہاد ، زندگی میں بلند ترین نیکی کا درجہ حاصل کرتے ہی ایمان کا تقاضا بن جاتا ہے۔ گویا صحیح مسلمان بننے کے لیے ہمیں مجاہد بننا ہوگا۔

۶- چھٹے یہ کہ وہ تاریخ کو بھی ایمان کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ ایمان محض ایک مابعد الطبیعی یا روحانی قوت نہیں، وہ تاریخ اور تقدیر ساز ہے۔ اس طرح تاریخ، زندگی اور ایمان، دونوں کے لیے نہایت اہم ہوجاتی ہے۔ ہم خاموشی سے معطل ہوکر نہیں بیٹھ سکتے، بلکہ ہمیں آگے بڑھ کر تاریخ کا رُخ موڑنے کی عملی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سعی و عمل کا نام جہاد ہے۔

  • ساتویں یہ کہ مولانا اس دنیا کو آخرت سے ہم رشتہ کرتے ہیں، اور اس طرح دونوں میں تسلسل قائم کرتے ہیں۔ اس دُنیا میں خدا کی رضا کی کوشش کے بغیر ہم آخرت میں کوئی فصل نہیں کاٹ سکتے۔

آیئے! اب ہم جو کچھ انھوں نے کہا ہے اس کے چند اہم پہلو دیکھیں:

  • ایمان: ایمان کا سوال مولانا کی پوری تحریر میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا پوری کتاب کا موضوع ایمان ہی ہے، اسی پر ہر چیز مرکوز ہے۔ دراصل اس کتاب کے تمام مندرجات اس قرآنی آیت کی تفسیر ہیں:’’یعنی اے ایمان والو! (صحیح طور پر) ایمان لائو‘‘۔(النساء ۴:۱۳۶)

ایمان کا مفہوم تو سب جانتے ہیں، مگر پھر بھی خرابی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ صاحب ِ ایمان لوگوں کی عملی زندگی سے ایمان غیرمتعلق ہوکر رہ گیا ہے، یا اس کا مقام اب زندگی کے کناروں پر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً: یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ایمان پر ایک پیدایشی ورثے کے   طور پر حق قائم رہتا ہے، خواہ عمل کچھ بھی ہو۔ یا، صرف کلمے کے الفاظ زبان سے ادا کردینے ہی کو ایمان کے مساوی بنا لیا گیا ہے۔ یا، ایمان کا مقام زندگی کے دُور دراز گوشوں اور کونوں تک محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ یا، ایمان کو ایک بے ضرر شے بنا دیا گیا ہے۔

مولانا مودودی اس تمام خام خیالی کی پُرزور تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ کوئی نسلی چیز نہیں ہے کہ ماں باپ سے وراثت میں یہ خود بخود آپ کو حاصل ہوجائے اور خود بخود تمام عمر آپ کے ساتھ لگی رہے، خواہ آپ اس کی پروا کریں یا نہ کریں۔ بلکہ ایسی نعمت ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے خود آپ کی کوشش شرط ہے‘‘۔ (خطبات، ص ۳۱)

’’ہرشخص جو مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہے، جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے، اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً،ص ۳۲)

اس لیے کہ: ’’ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے، اس لیے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان۔ اسی طرح ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق لباس کا بھی نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲)

اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’بس یہی حال کلمۂ طیبہ کا ہے۔ فقط چھے سات لفظ بول دینے سے اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ آدمی کافر سے مسلمان ہوجائے، ناپاک سے پاک ہوجائے، مردُود سے محبوب بن جائے، دوزخی سے جنتی بن جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۵)

اسلام میں کلمۂ طیبہ پڑھنے کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا جاسکتا، مگر ہاں! ایک دفعہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجانے کے بعد زندگی کے ظاہری اور باطنی پہلوئوں میں کلمے کے تقاضوں کی پابندی لازم اور فرض ہے۔ مولانا اس پہلو کو یوں واضح کرتے ہیں:

’’اس بات کا اقرار کرنے کے بعد تمھیں یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ یہ جان میری ہے، جسم میرا ہے، مال میرا ہے، اور فلاں چیز میری ہے۔ دوسرے کو مالک کہنا اور پھر اس کی چیز کو اپنی قرار دینا، بالکل ایک لغو بات ہے۔ اگر درحقیقت یہ بات سچے دل سے مانتے ہو کہ ان سب چیزوں کا مالک خدا ہی ہے… تو جس طرح مالک کہتا ہے اسی طرح تمھیں ان چیزوں سے کام لینا چاہیے۔ ان کی مرضی کے خلاف ان سے کام لیتے ہو تو دھوکا بازی کرتے ہو‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹)

اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’اب آپ کو یہ کہنے کا حق ہی نہ رہا کہ میری راے یہ ہے، یا دُنیا کا دستور یہ ہے، یا خاندان کا رواج یہ ہے، یا فلاں حضرت یا فلاں بزرگ یہ فرماتے ہیں۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں اب ان میں سے کوئی چیز بھی آپ نہیں کرسکتے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)

سید مودودیؒ ایک بہت بڑے بت شکن واقع ہوئے ہیں، کیونکہ ایمان کے ساتھ بت پرستی نہیں چل سکتی۔ لیکن ان کی فکروتشویش کا موضوع پتھر کے بت نہیں ہیں، اور نہ مظاہر فطرت۔ بلکہ دلوں کے اندر بیٹھے بت ہیں، یعنی اپنی ذات، اپنا معاشرہ، اپنی تہذیب، بلکہ خود اپنے جیسے انسان، جو کہ اکثر انسانی زندگی میں خدا کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔

اکثر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ مولانا مودودی اس نکتے کو نہایت سادگی اور بڑی وسعت کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:’’خدا کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار ہو جانا ’اسلام‘ ہے۔ خدا کی پادشاہی و فرماں روائی کے آگے سرِتسلیم خم کر دینا اسلام ہے....  خدا کے حوالے کرنے یا خدا کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے، اس کو قبول کیا جائے۔ اس میں چون و چرا نہ کی جائے اور زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اس میں صرف قرآن اور سنت ِ رسولؐ کی پیروی کی جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۰)

لیکن پھر بھی لوگ اپنی ذاتی خواہشات کے بندے اور غلام ہوتے ہیں اور انھی کی تکمیل کو مقصدِحیات قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے محض یہ امر قابلِ اطمینان ہوتا ہے کہ معاشرے کا چلن کیا ہے؟ ___ وہ ہرگز یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کیا کہتا ہے، سنت میں ان کے لیے کیا اسوئہ حسنہ ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’اگر اسے معلوم ہوجائے کہ قرآن و سنت کی ہدایت یہ ہے اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ میری عقل اسے قبول نہیں کرتی۔ اس لیے مَیں اس بات کو نہیں مانتا یا باپ دادا سے تو اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے، لہٰذا میں اس کی پیروی نہ کروں گا، یا دنیا کا طریقہ اس کے خلاف ہے، لہٰذا میں اسی پر چلوں گا، تو ایسا شخص ہرگز مسلمان نہیں ہے۔ [یہاں پہنچ کر مولانا مودودی دوٹوک انداز سے کہتے ہیں] وہ جھوٹ کہتا ہے: اگر اپنے کو مسلمان کہتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)

خدا کو چھوڑ کر جس کے ساتھ اطاعت و وفاداری کا رشتہ قائم کیا جائے، وہ ایک خدا ہے۔  یہ اپنا نفس ہو، اپنا معاشرہ، خاندان اور قوم ہو، اپنے جیسے انسان ہوں، جیسے حکمران، دولت مند، اور   گم کردہ راہ دانش ور___ ان کی گمراہ کن اطاعت گزاری کے بتوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے، مولانا فرماتے ہیں: ’’بھائیو! آج مَیں نے آپ کے سامنے جن تین بتوں کا ذکر کیا ہے، ان کی بندگی اصل شرک ہے۔ آپ نے پتھر کے بت توڑ دیے، اینٹ اور چونے سے بنے ہوئے بت خانے ڈھا دیے، مگر سینوں میں جو بت خانے بنے ہوئے ہیں، ان کی طرف کم توجہ کی۔ سب سے زیادہ ضروری، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اوّلین شرط ان بتوں کو توڑنا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۰)

کیونکہ یہ امر بدیہی طور پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ:’’جس نے یہ تینوں بت اپنے دل میں بٹھا رکھے ہوں، اس کا بندۂ خدا ہونا مشکل ہے۔ وہ دن میں پانچ وقت کی نمازیں پڑھ کر اور دکھاوے کے روزے رکھ کر اور مسلمانوں کی سی شکل بنا کر انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے، خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ مَیں پکا مسلمان ہوں، مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۰)

ایمان و بت پرستی کی حقیقت، اور ہماری زندگیوں میں ایمان کے مقتضیات پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے وہ یوں وضاحت کرتے ہیں: ’’اور اگر وہ [مسلمان] بعض معاملات میں تو خدا کی ہدایت کو مانتا، اور بعض میں اپنے نفس کی خواہشات کو یا رسم و رواج کو، یا انسانوں کے قانون کو، خدا کے قانون پر ترجیح دیتا ہو، تو جس قدر بھی وہ خدا کے قانون کی بغاوت کرتا ہے، اسی قدر کفر میں مبتلا ہے۔ کوئی آدھا کافر ہے، کوئی چوتھائی کافر ہے، کسی میں دسواں حصہ کفر کا ہے اور کسی میں بیسواں حصہ، غرض جتنی خدا کے قانون سے بغاوت ہے، اتنا ہی کفر۔ (ایضاً، ص ۹۰)

ایک فرد کی جانب سے بظاہر دعویٰ ٔایمان اور اس کے برعکس دل کی دُنیا کو، اس کے کسی چھوٹے سے گوشے کو بھی خدا، اطاعت ِخدا اور خوفِ خداسے خالی رکھنے کے رویے کو مولانا مودودی خالص منافقانہ روش قرار دیتے ہیں۔ کیا مولانا مودودی مسلمانوں کی تکفیر کا کام کر رہے ہیں؟ نہیں! اپنے خطبات کے مندرجہ بالا بیانات سے پیدا ہونے والی ممکنہ غلط فہمی کی وہ ساتھ ہی ساتھ فوراً  تردید کردیتے ہیں۔ اپنے لہجے کی شدت کے بارے میں جو دل گرفتگی، حسرت اور کرب کا نتیجہ ہے، فرماتے ہیں: ’’میرے عزیز بھائیو! کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ مَیں مسلمانوں کو کافر بنانے چلا ہوں، نہیں میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۱-۴۲)

اس لہجے سے ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ عمومی سوچ اور روایتی عمل میں ایک زلزلہ برپا کرکے، قاری کو رُکنے، ٹھٹھکنے اور نئے سرے سے اپنے اندازِ فکر اور طرزِعمل پر نظرثانی کرنے، احتساب کرنے اور جائزہ لینے پر آمادہ کیا جائے۔ پہاڑوں کی تنگنائوں کی شوریدہ سرموجیں اب کھلے میدانی اور پُرسکون دریا کی مانند سرگرم سفر نظر آتی ہیں۔ اب وہ بڑے نرم لہجے میں سمجھا رہے ہیں: ’’یہ کسوٹی اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ اس پر آپ دوسروں کو پرکھیں اور ان کے مومن یا منافق اور مُسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں بلکہ یہ کسوٹی اس غرض کے لیے ہے کہ اس پر خود اپنے آپ کو پرکھیں، اور آخرت کی عدالت میں جانے سے پہلے اپنا کھوٹ معلوم کرکے یہیں اُسے دُور کرنے کی فکر کریں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۰)

مولانا مودودی نے ایمان کے دو درجات بیان کیے ہیں۔ انھوں نے ان دونوں کا بڑا اہم اور نمایاں فرق بھی بیان کیا ہے۔ پہلا درجہ ایمان کے زبانی اقرار کا درجہ ہے۔ اسے وہ ’قانونی ایمان‘ کہتے ہیں۔ دوسرا درجہ وفاو عمل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے قلبی ایمان کا ہے۔ اسے وہ حقیقی ایمان کہتے ہیں۔ یہی خدا کا پسندیدہ ایمان ہے اور یہی آخرت میں ہمارے لیے خدا کی رضا اور جزاے خیر کا ضامن ہے، نیز اس دنیا میں بھی خدا کے انعام و اکرام کا مستحق قرار دیتا ہے۔ خطبات میں اُنھوں نے بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا موضوع اس تحریر میں حقیقی ایمان ہے۔ اس لیے کہ یہی اللہ کو مطلوب ہے اور یہی ہماری دنیاوی زندگی میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔

لیکن اسی کے ساتھ وہ حکیمانہ طریقے سے ’قانونی ایمان‘ کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، کیونکہ یہی ایمان مُسلم اُمت میں رُکنیت کا سبب بنتا ہے۔ دین اور شریعت کے درمیان اہم فرق و امتیاز واضح کرکے فرقہ پرستی کی بنیادوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں، جو آپس میں تفرقہ و تکفیر کا اصل سبب ہے۔ صحیح اسلام کو اپنے بلیغ انداز میں بیان کرنے کے باوجود اور اپنی تمام ایسی شعلہ نوائی کے باوجود کہ فرقہ پرستوں کو اس طرح مخاطب کرنا’’ تم لوگ مسلمان نہیں ہو‘‘، ’’یہ قطعی منافقت ہے‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ مولانا نے کبھی اپنی زندگی میں کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا بلکہ وہ ہمارے سامنے اس معاملے میں تحمل و بُردباری کی ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جو کہ آج کل بڑی کمیاب ہیں۔

’’نوکر…جس طرح آقا کے حکم کے ماننے پر مجبور ہے، اسی طرح میری سمجھ کو بھی ماننے پر مجبور ہے۔ اگر تو میری سمجھ کو نہ مانے گا، تو مَیں اپنے اختیار سے تجھ کو آقا کی نوکری سے خارج کرادوں گا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص  کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا، اس کا قول خود اسی پر پلٹ جائے گا‘‘۔ کیونکہ مسلمان کو تو خدا نے اپنے حکم کا غلام بنایا ہے، مگر یہ شخص کہتا ہے کہ ’’نہیں، تم میری سمجھ اور میری راے کی بھی غلامی کرو‘‘۔ یعنی صرف خدا ہی تمھارا خدا نہیں ہے، بلکہ مَیں بھی چھوٹا خدا ہوں‘‘۔(ایضاً، ص ۱۲۵)

  • اعمال: حقیقی ایمان انسان کی زندگی کا مرکز بن جائے، قلب و ذہن میں جاگزیں ہوجائے، تو اس سے نیکیوں کا شجر سایہ دار لازماً سایہ فگن ہوگا۔ بدقسمتی سے اکثر اوقات ایمان اور عمل کے باہمی تعلق کا مسئلہ، اُس تعلق کا مسئلہ جو اسلام کی حقیقی قدر وقوت کا سرچشمہ ہے، خواہ مخواہ فلسفیوں یا قانون دانوں اور فقیہوں کی بحثوں کا محور بنا دیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کو اس بات کا حق ہے نہ اختیار، اور نہ ضرورت، کہ وہ خدائی اختیار اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے یہ فتویٰ دے کہ کسی فرد کا مقام آخرت میں کیا ہوگا۔ وہ جنت میں جائے گا یا دوزخ میں۔ نہ اسے تکفیر کا مشغلہ اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن اسے کسی طرح بھی وہ ایمان نہ کھو دینا چاہیے جس کی قوت کا راز ہی عمل میں پوشیدہ ہے۔ مولانا مودودی کا مقصد تو ایمان کو حقیقی بنانا ہے۔ یہ کام وہ زبردست قوت اور وضاحت کے ساتھ کرتے ہیں: ’’کلمۂ طیبہ کو ماننے کے معنی زبان سے کلمہ پڑھنے کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی دل سے ماننے کے ہیں، اور اس طرح ماننے کے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی عقیدہ آپ کے دل میں نہ رہے اور  اس کے خلاف کوئی کام آپ سے نہ ہوسکے‘‘۔ (ایضاً، ص ۶۸)
  • عبادات: نیکیوں میں سب سے پہلا مقام نماز، زکوٰۃ اور دیگر فرض مراسم عبادات کو حاصل ہے۔ ایمان کا بیج دل میں ہو تو ان فرائض سے غفلت ممکن نہیں۔ یہ قرآن و سنت کی آواز ہے جو مولانا مودودی کے ان الفاظ میں سنی جاسکتی ہے: ’’اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ان دو ارکانِ اسلام سے جو لوگ رُوگردانی کریں، ان کا دعویٰ ٔایمان ہی جھوٹا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۲۰۷)

دوسری طرف اگر عبادات صحیح طریقے سے انجام دی جائیں تو وہ پوری زندگی کو ایمان کے دائرۂ کار میں لاسکتی ہیں، یا دوسرے الفاظ میں خدا اور خدائی احکام کے تحت۔ ہم اگر ان کے خطاب ’’عبادت کے صحیح معنی‘‘ کو پڑھیں تو ہم یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ کس قدر زوردار طریقے سے مولانا مودودی نے اس اہم نکتے پر اپنے دلائل دیے ہیں۔

  • ظاھر و باطن:اگر مراسمِ عبادت کی ادایگی کے نتیجے میں پوری زندگی عبادت نہیں بنتی، تو اس کی وجہ مولانا کے نزدیک اس کے علاوہ کچھ نہیںکہ وہ اپنے معنی و مقصد اور اصل رُوح سے خالی ہوچکے ہیں۔ کھوکھلی عبادت کے بے ثمر ہونے کو مولانا کس انداز سے واضح کرتے ہیں: ’’جب روح ہی موجود نہیں، تو تیرا بے جان جسم کیا کرامت دکھائے گا؟‘‘ (ایضاً، ص ۱۰۱)

مولانا مودودی کہتے ہیں کہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہر اس چیز سے اپنے ہاتھ روک لیں،  ہراس رویّے سے اپنا پہلو بچا لیں، جو خدا کو ناپسند ہے: ’’لیکن اگر کوئی ایسا ہے کہ اتنی زبردست اصلاح کرنے والی چیز [نماز]  سے بھی اس کی اصلاح نہیں ہوتی تو [پھر جان لینا چاہیے کہ] یہ  اس کی طینت کی خرابی ہے، نماز کی خرابی نہیں۔ پانی اور صابن کا قصور نہیں، اس کی وجہ کوئلے کی اپنی سیاہی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۵۸)

مولانا مودودی نے ایسی بے روح مذہبیت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جو خالی دلوں اور  تقسیم شدہ اطاعتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ ایسے ملازم کو کیا کہیں گے جو اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجاے، محض اپنے آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے، اور اس کے نام کی مالا جپتا رہے۔ آقا اسے حکم دے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو،مگر ملازم اس پر عمل کرنے کے بجاے وہیں کھڑا رہے، اور خوش الحانی سے بار بار کہتا رہے کہ ’’چور کا ہاتھ کاٹ دو، چور کا ہاتھ کاٹ دو‘‘،  مگر اس نظام کو قائم کرنے کے لیے انگلی بھی نہ ہلائے، جہاں چور کا ہاتھ کاٹا جاسکے۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان جب یہ کرے کہ قرآن کے احکام پر عمل کرنے کے بجاے اسے بس جوابی طور پر   خوش الحانی سے ان احکام کو زبان سے دہراتا ہی رہے تو کیا اسے عبادت کہا جائے گا؟

’’مگر کیسی حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ رات دن، خدا کے قانون کو توڑتے ہیں، کفار و مشرکین کے احکام پر عمل کرتے ہیں، اور اپنی زندگی کے معاملات میں خدا کے احکام کی کوئی پروا نہیں کرتے، ان کی نماز اور روزے اور تسبیح اور تلاوتِ قرآن اور حج و زکوٰۃ کو آپ خدا کی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ عبادت کے اصل مطلب سے ناواقف ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۳۵)

  • جھاد:قرآن میں جہاد کا ایمان سے چولی دامن کا ساتھ ہے، اور اس لیے اس کا ایک مسلمان کی ایمان بھری زندگی سے گہرا ربط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جہاد ہی وہ مقصد ہے جو اُمت ِ مسلمہ کو وجود بخشتا ہے۔ اسی میں مسلمانوں کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ لیکن یہ کھلا المیہ ہے کہ مسلمانوں نے اس کلیدی فریضے کی ادایگی سے خودساختہ رُخصت اختیار کر رکھی ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کو اس فریضے کی ادایگی کے لیے کسی حرکت کی چنداں ضرورت نہیں، کہ اس کی ادایگی سے  ان کا ایمان بالکل متاثر نہیں ہوتا۔ مولانا مودودی ایمان و جہاد کے درمیان اس خلیج کو بڑے      مدّلل و جذبات انگیز طریقے سے واشگاف الفاظ میں پاٹ دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں جہاد سے دل چسپی نہ ہونا ہی باقی مراسمِ عبادت کو ان کی اصل روح سے خالی کردیتا ہے:

’’مگر اب مَیں تمھیں بتاتا ہوں کہ جس دل میں جہاد کی نیت نہ ہو، اور جس کے پیشِ نظر جہاد کا مقصد نہ ہو ، اس کی ساری عبادتیں بے معنی ہیں۔ ان بے معنی عبادت گزاریوں سے اگر تم گمان رکھتے ہو، کہ خدا کا تقرب نصیب ہوتا ہے تو خدا کے ہاں جاکر تم دیکھ لو گے کہ اُنھوں نے تم کو اس سے کتنا قریب کیا‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۱۸)

’’لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین (اسلام) کو حق سمجھتے ہیں ، تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں، اور یا تو اسے قائم کر چھوڑیں، یا اسی کوشش میں جان دے دیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲۶)

مگر کیوں؟___ مولانا کا دانش آفرین استدلال بڑا واضح اور معقول ہے۔ سب سے پہلے وہ بتاتے ہیں کہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان لانے اور قرآن کریم کو کتابِ ہدایت تسلیم کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری پوری کی پوری زندگی تابع امرِرب ہوجائے، اسی لیے:

’’[مسلمان سے] اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اس کا قانون جاری کرنے کے لیے اُٹھیں، اس کی رعیّت میں سے جو لوگ باغی ہوگئے ہیں اور خود مالک المُلک بن بیٹھے ہیں، ان کا زور توڑیں اور اللہ کی رعیّت کو دوسروں کی رعیّت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا___ نہیں! اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں بھی تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اُٹھو، حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شُتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے۔ (ایضاً، ص ۳۱۴)

اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ دو دینوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ مولانا مودودی اس دوعملی پر ضرب لگاتے ہیں جس میں عموماً مسلمان اس طرح دو دینوں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ ایک دین ہمارے دماغ میں ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ذاتی و خانگی زندگی میں، اور دوسرا دین اجتماعی زندگی میں:’’حکومت کے بغیر دین بالکل ایسا ہے، جیسے ایک عمارت کا نقشہ آپ کے دماغ میں ہو، مگر عمارت زمین پر موجود نہ ہو۔ ایسے دماغی نقشے ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ جب کہ آپ رہیں گے اس عمارت میں جو فی الواقع موجود ہوگی؟‘‘(ایضاً، ص ۳۲۲)

مولانا مودودی، انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہوئے واضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ کسی انسان کے لیے بیک وقت دو دینوں اور دو مذہبوں پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے: ’’حقیقت میں تو آپ اسی کے دین پر ہیں جس کی اطاعت واقعی آپ کر رہے ہیں۔ پھر یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے کہ جس کی اطاعت آپ نہیں کر رہے، اس کو اپنا حاکم اور اس کے دین کو اپنا دین کہیں؟ اور اگر زبان سے آپ کہتے بھی ہیں، یا دل میں ایسا سمجھتے بھی ہیں، تو اس کا فائدہ اور اثر کیا ہے؟ آپ کا یہ کہنا کہ ہم اس کی شریعت پر ایمان لاتے ہیں، بالکل ہی بے معنی ہے، جب کہ آپ کی زندگی کے معاملات اس کی شریعت کے دائرے سے نکل گئے ہوں، اور کسی دوسری شریعت پر چل رہے ہوں‘‘۔ (ایضاً، ص۳۲۰)

تیسرے، ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال ایک صاحب ِ ایمان کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتی: ’’کسی دوسرے دین کے ساتھ یہ دین [اسلام] شرکت کہاں قبول کرسکتا ہے؟ اور کون سا دین ہے جو دوسرے دین کی شرکت قبول کرتا ہو؟ ہردین کی طرح یہ دین بھی یہی کہتا ہے کہ اقتدار خالصاً و مخلصاً میرا ہونا چاہیے، اور ہر دوسرا دین میرے مقابلے میں مغلوب ہوجانا چاہیے، ورنہ میری پیروی نہیں ہوسکتی‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲۴)

چوتھی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان پر انسان کی خدائی، حکومت اور اقتدار ہی زمین پر فتنہ و فساد کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے: ’’جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو، اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو، تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اُٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے، غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۱۱)

  • تاریخ: اگر تاریخ کو نری مادی قوتوں کا کھیل سمجھ لیا جائے تو پھر ایمان آہستہ آہستہ زندگی سے خارج ہوتا جاتا ہے۔ مولانا مودودی ایمان کو اسی طرح انسانی تاریخ کا مرکز و محور بنادیتے ہیں جس طرح وہ اسے انسانی قلب و زندگی کا مرکزو محور بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایمان ہی ہے جو میزانِ تقدیر میں مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ چنانچہ آج مسلمانوں کی خوار و زبوں حالت دیکھ کر وہ تحیرآمیز لہجے میں یہ سوال اُٹھاتے ہیں: ’’کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اور اس پر خدا کا   غضب نازل ہو! مسلمان اور ذلیل! مسلمان اور غلام! یہ تو ایسی ناممکن بات ہے، جیسے کوئی چیز سفید بھی ہو اور سیاہ بھی‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۰)

اس سوال کی گرفت کو اور مضبوط بناتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ قطعی ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے کلام کی حامل ہو اور پھر دنیا میں ذلیل و خوارہو، دوسروں کی محکوم ہو، پائوں میں روندی اور جوتیوں سے ٹھکرائی جائے۔ اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہو، اور غیروں کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہوں، اور وہ اس کو اس طرح ہانکیں جیسے جانور ہانکتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۸)

یہ سب کچھ کیوں کر وقوع پذیر ہوگیا ہے؟ مولانا مودودی یقین بھری آواز میں پکارتے ہیں: ’اگر تمھارا ایمان ہے کہ خدا ظالم نہیں ہے، اور اگر تم یقین رکھتے ہو کہ خدا کی فرماں برداری کا بدلہ ذلت سے نہیں مل سکتا، تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو، اسی میں کوئی غلطی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۰)

یہی وہ صورتِ حال ہے جس میں موجودہ مسلمانوں کے قرآن سے تعلق اور ایمان شکن رویّے کی یوں وضاحت کرتے ہیں:’’پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتابِ الٰہی پر ظلم کر رہی ہے۔ اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اُس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۹)

اگرچہ ہمیں کتاب میں سے کثرت سے اقتباسات دینے پڑے ہیں، لیکن مولانا مودودی کی اس کتاب کے مختلف موضوعات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ مندرجہ بالا گزارشات یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مولانا کی یہ کتاب کس قدر منفرد اور بے مثال ہے۔

دراصل یہی موضوعات ہیں جن میں مولانا نے مسلمانوں کو صحیح اسلام کی طرف پلٹ آنے کی جو دعوت دی ہے، اس کی اہمیت اور نزاکت میں اصل رنگ انھی موضوعات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر چیز جو اپنے ابتدائی معنی و مفہوم کو کھو دیتی ہے یا جو صحیح رُوح سے خالی ہوچکی ہے، اس کتاب میں اس کا احیا کردیا گیا ہے___ مگر سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ان سب مطالب کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی تاثیر دوسرے واعظوں اور خطیبوں کے مقابلے میں بے پناہ ہوگئی ہے ، اگرچہ وہ لوگ یہی باتیں بیان کرتے ہیں جو مولانا مرحوم نے کی ہیں۔ اس لیے کہ یہ ایمان اس طرح زندگی، عمل، عبادت، جہاد اور تاریخ کے ساتھ جڑ کر ہی اپنی   وہ اصل قوت حاصل کرلیتا ہے جو انسان اور اس کی دُنیا میں انقلاب لاسکتی ہے۔